مسٹر مہتہ ان بد نصیبوں میں سے تھے جو اپنے آقا کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ وہ دل سے اپنا کام کرتے تھے بڑی یکسوئی اور ذمہ داری کے ساتھ اور یہ بھول جاتے تھے کہ وہ کام کے تو نوکر ہیں ہی اپنے آقا کے نوکر بھی ہیں۔ جب ان کے دوسرے بھائی دربار میں بیٹھے خوش گپیاں کرتے وہ دفتر میں بیٹھے کاغذوں سے سر مارتے اور اس کا نتیجہ تھا کہ جو آقا پرور تھے ان کی ترقیاں ہوتی تھیں۔ انعام و اکرام پاتے تھے اور یہ حضرت جو فرض پرور تھے راندہ درگاہ سمجھے جاتے تھے اور کسی نہ کسی الزام میں نکال لیے جاتے تھے زندگی میں تلخ تجربے انھیں کئی بار ہوئے تھے۔ اس لیے جب اب کی راجہ صاحب ستیا نے اپنے ہاں ایک معزز عہدہ دے دیا تو انھوں نے عہد کر لیا تھا کہ اب میں بھی آقا کا رخ دیکھ کر کام کروں گا اور ان کی مزاج داری کو اپنا شعار بناؤں گا۔ لگن کے ساتھ کام کرنے کا پھل پا چکا۔ اب ایسی غلطی نہ کروں گا۔ دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ راجہ صاحب نے انھیں اپنا دیوان بنا لیا۔ ایک مختار ریاست کی دیوانی کا کیا کہنا۔ تنخواہ تو بہت کم تھی مگر اختیارات غیر محدود۔ راجہ صاحب اپنے سیر و شکار اور عیش و نشاط میں مصروف رہتے تھے ساری ذمہ داری مسٹر مہتہ پر تھی۔ ریاست کے حکام ان کے سامنے سر نیاز خم کرتے۔ رؤسا نذرانے دیتے۔ تجار سجدے بجا لاتے۔ یہاں تک کہ رانیاں بھی ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ راجہ صاحب بھی بد مزاج آدمی تھے اور بد زبان بھی۔ کبھی کبھی سخت سست کہہ بیٹھتے۔ مگر مہتہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا تھا۔ کہ صفائی یا عذر میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالتے۔ سب کچھ سر جھکا کر سن لیتے۔ راجہ صاحب کا غصّہ فرد ہو جاتا۔
گرمیوں کے دن تھے پولیٹکل ایجنٹ کا دورہ تھا ریاست میں ان کے خیر مقدم کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ راجہ صاحب نے مسٹر مہتہ کو بلا کر کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ صاحب بہادر یہاں سے میرا کلمہ پڑھتے ہوئے جائیں۔‘‘
’’مہتہ نے سر اٹھا کر کہا ’’کوشش تو ایسی ہی کر رہا ہوں ان داتا۔‘‘
’’میں کوشش نہیں چاہتا۔ جس میں ناکامی کا پہلو بھی شامل ہے۔ قطعی وعدہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’ایسا ہی ہو گا۔‘‘
’’روپیہ کی پرواہ مت کیجئے۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
کسی کی فریاد یا شکایت پر کان نہ دیجئے۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
’’ریاست میں جو چیز ہے وہ ریاست کی ہے آپ اس کا بے دریغ استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
ادھر تو پولیٹکل ایجنٹ کی آمد تھی ادھر مسٹر مہتہ کا لڑکا جے کرشن گرمیوں کی تعطیل میں گھر آیا۔ الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ایک بار 1932ء میں کوئی تقریر کرنے کے جرم میں چھ مہینے جیل ہو آیا تھا۔ اور تب سے کسی قدر خود سر ہو گیا تھا۔ مسٹر مہتہ کے تقرر کے بعد جب ریاست میں وہ پہلی بار آیا تھا تو راجہ صاحب نے بڑی بے تکلفی سے باتیں کی تھیں۔ اسے اپنے ساتھ شکار کھیلنے کے لیے لے گئے تھے۔ اور روزانہ اس کے ساتھ کھیلتے تھے جے کرشن راجہ صاحب کے قوم پرورانہ خیالات سے متاثر ہوا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ راجہ صاحب سچّے محبِ وطن ہی نہیں انقلاب کے حامیوں میں سے ہیں۔ روس اور فرانس کے انقلاب پر دونوں میں خوب مباحثے ہوئے لیکن اب کی یہاں اس نے کچھ اور ہی رنگ دیکھا علاقہ کے ہر ایک کاشتکار اور زمیندار سے اس تقریب کے لیے جبراً چندہ وصول کیا جا رہا ہے۔ رقم کا تعین دیوان صاحب کرتے۔ وصول کرنا پولیس کا کام تھا۔ فریاد اور احتجاج کی مطلق سنوائی نہ ہوتی تھی۔ ہزاروں مزدور سرکاری عمارتوں کی صفائی سجاوٹ اور سڑکوں کی مرمت میں بے گار پھر رہے تھے۔ بنیوں سے رسد جمع کی جا رہی تھی۔ ساری ریاست میں واویلا مچا ہوا تھا۔ جے کرشن کو حیرت ہو رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ راجہ صاحب کے مزاج میں اتنا تغیر کیسے ہو گیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ راجہ صاحب کو ان زبردستیوں کی خبر نہ ہو۔ اور انھوں نے جن تیاریوں کا حکم دیا ہو اس کی تعمیل میں کار پردازوں کی جانب سے اس سرگرمی کا اظہار کیا جا رہا ہو۔ رات بھرتو اس نے ضبط کیا اور دوسرے دن صبح ہی اس نے دیوان صاحب سے پوچھا۔ آپ نے راجہ صاحب کو ان زیادتیوں کی اطلاع نہیں دی۔؟
مسٹر مہتہ رعایا پرور آدمی تھے۔ انھیں خود ان بے عنوانیوں سے کوفت ہو رہی تھی۔ مگر حالات سے مجبور تھے بکسانہ انداز سے بولے۔ ’’راجہ صاحب کا یہی حکم ہے تو کیا کیا جائے۔؟‘‘
’’اب تو آپ کو ایسی حالت میں کنارہ کش ہو جانا چاہیے تھا۔ آپ جانتے ہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد ہو رہی ہے۔ رعایا آپ ہی کو مجرم سمجھتی ہے۔‘‘
’’میں مجبور ہوں میں نے اہلکاروں سے بار بار کنایتہً کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سختی نہ کی جائے۔ لیکن ہر ایک موقعہ پر میں موجود تو نہیں رہ سکتا۔ اگر زیادہ مداخلت کروں تو شاید اہلکار میری شکایت راجہ صاحب سے کر دیں۔ اہلکار ایسے ہی موقعوں کے منتظر رہتے ہیں۔ انھیں تو عوام کے لوٹنے کا کوئی بہانہ چاہیے۔ جتنا سرکاری خزانہ میں داخل کرتے ہیں اس سے زیادہ اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
جے کرشن کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ’’تو آپ استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے۔‘‘
مسٹر مہتہ ہمدردانہ لہجہ میں بولے۔ ’’بے شک میرے لیے مناسب تو یہی تھا لیکن زندگی میں اتنے دھکے کھا چکا ہوں کہ اب برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ میں نے طے کر لیا ہے کہ ملازمت میں ضمیر کو بے داغ نہیں رکھ سکتا۔ نیک وبد، فرض اور ایمانداری کے جھمیلوں میں پڑ کر میں نے بہت سے تلخ تجربات حاصل کیے۔ میں نے دیکھا کہ دنیا، دنیا داروں کے لیے ہے جو موقعہ و محل دیکھ کر کام کرتے ہیں۔ اصول پرستوں کے لیے دینا مناسب جگہ نہیں ہے۔‘‘
’’جے کرشن نے پوچھا۔ ’’میں راجہ صاحب کے پاس جاؤں۔؟‘‘
مہتہ نے اس سوال کا جواب نہ دے کر پوچھا۔ ’’کیا تمھارا خیال ہے راجہ صاحب کو ان واقعات کا علم نہیں؟‘‘
’’کم سے کم ان پر حقیقت تو روشن ہو جائے گی۔‘‘
’’مجھے خوف ہے تمھارے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکل جائے جو مہاراج کی ناراضگی کا باعث ہو۔‘‘
جے کرشن نے انھیں یقین دلایا کہ اس کی جانب سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو گی مگر اسے کیا خبر تھی کہ آج کے مہاراج صاحب وہ نہیں ہیں جو آج سے ایک سال قبل تھے۔ ممکن ہے پولیٹکل ایجنٹ کے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جائیں۔ ان کے لیے آزادی اور انقلاب کی گفتگو بھی اسی طرح تفریح کا باعث تھی جیسے قتل اور ڈاکہ کی وارداتیں یا بازار حسن کی دل آویز خبریں۔ اس لیے جب اس نے مہاراج کی خدمت میں اطلاع کرائی تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت اس وقت ناساز ہے لیکن وہ لوٹ ہی رہا تھا کہ مہاراج کو خیال آیا شاید اس سے فلمی دنیا کی تازہ خبریں معلوم ہو جائیں۔ اسے بلا لیا اور مسکرا کر بولے۔ ’’تم خوب آئے بھئی کہو تم نے ایم۔ سی۔ سی کا میچ دیکھا یا نہیں۔ میں تو ان پریشانیوں میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ ہل نہ سکا۔ اب تو یہی دعا کر رہا ہوں کہ کسی طرح ایجنٹ صاحب خوش خوش رخصت ہو جائیں۔ میں نے جو تقریر تیار کروائی ہے وہ ذرا تم بھی دیکھ لو۔ میں نے ان قومی تحریکوں کی خوب خبر لی ہے اور ہریجن تحریک کے بھی چھینٹے اڑا دیے ہیں۔‘‘
جے کرشن نے اعتراض کیا ’’لیکن ہریجن تحریک سے سرکار کو بھی اتفاق ہے اسی لیے اس نے مہاتما جی کو رہا کر دیا۔ اور جیل میں بھی انھیں اس تحریک کے متعلق لکھنے پڑھنے کی کامل آزادی دے رکھی تھی۔‘‘
راجہ صاحب نے عازماً تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’تم ان رموز سے واقف نہیں ہو۔ یہ بھی سرکار کی ایک مصلحت ہے۔ دل میں گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ بالآخر یہ تحریک بھی قوم میں ہیجان پیدا کرے گی اور ایسی تحریکوں سے فطرتاً کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ سرکار اس کیفیت کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ لائلٹی میں جتنی سر گرمی کا اظہار کرو، چاہے وہ حماقت کے درجہ تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے سرکار کبھی برا نہ مانے گی اسی طرح جیسے شعرا کی مبالغہ آمیز مدح سرائیاں ہماری خوشی کا باعث ہوتی ہیں۔ چاہے ان میں تضحیک کا پہلو کیوں نہ ہو، ہم ایسے شاعر کو خوشامدی سھیں، احمق بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ان سے ناراض نہیں ہو سکتے۔ وہ جتنا بھی مبالغہ کرے اتنا ہی ہمارے قریب آ جاتا ہے۔‘‘
راجہ صاحب نے اپنے خطبہ کی ایک خوبصورت کاپی میز کی دراز سے نکال کر جے کرشن کے ہاتھ میں رکھ دی۔ مگر جے کرشن کے لیے اب اس تقریر میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اگر وہ موقع شناس ہوتا تو ظاہر داری کے لیے ہی اس تقریر کو بڑے غور سے دیکھتا۔ اس کی عبارت آرائیوں کی داد دیتا اس کا موازنہ مہا راجہ صاحب بیکانیر یا پٹیالہ کی تقریروں سے کرتا مگر ابھی وہ ان کو چوں سے نا آشنا تھا جس چیز کو برا سمجھتا تھا اسے برا کہتا تھا، جس چیز کو اچھا، اسے اچھا۔ برے کو اچھا اور اچھے کو برا کہنا ابھی اسے نہ آیا تھا۔ اس نے تقریر پر سرسری نگاہ ڈالی۔ اور میز پر رکھ دیا۔ اور اپنی آزادی کا بگل بجاتے ہوئے بولا۔
’’میں ان عقدوں کو کیا سمجھوں گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکام پکے نبض شناس ہوتے ہیں۔ اور تصنع سے مطلق متاثر نہیں ہوتے۔ بلکہ اس سے انسان ان کی نظروں میں اور بھی گر جاتا ہے۔ اگر پولیٹکل ایجنٹ کو معلوم ہو جائے کہ اس کے خیر مقدم کے لیے رعایا پر کتنے ظلم کیے جا رہے ہیں تو شاید یہاں سے خوش ہو کر نہ جائے گا۔ پھر ایجنٹ کی خوشنودی آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ رعایا کو اس سے نقصان ہی ہو گا۔‘‘
راجہ صاحب دیگر فرمانرواؤں کی طرح اپنے سے زیادہ طاقتوروں کے سامنے تو انکسار کے پتلے تھے لیکن کمزوروں کی جانب سے نکتہ چینی انھیں مطلق برداشت نہ تھی۔ ان کے غصے کی ابتدائی صورت جرح ہوتی تھی۔ پھر استدلال کا درجہ آتا تھا جو فوراً تردید کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ اس کے بعد وہ زلزلہ کی حرکتوں میں نمودار ہوتا۔ سرخ ترچھی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
کیا نقصان ہو گا؟ ذرا سنوں۔‘‘
جے کرشن سمجھ گیا کہ غصّہ کی مشین گن گردش میں آ گئی سنبھل کر بولا۔
’’اسے آپ مجھ سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں میں اتنا زود فہم نہیں ہوں۔‘‘
’’آپ بر امان جائیں گے۔‘‘
کیا تم سمجھتے ہو کہ میں بارود کا ڈھیر ہوں۔‘‘
’’بہتر ہو اگر آپ مجھ سے یہ سوال نہ کریں۔‘‘
’’تمھیں بتلانا پڑے گا اور اضطرابی طور پر ان کی مٹھیاں بندھ گئیں، فوراً اسی وقت۔‘‘
جے کرشن پر رعب کیوں طاری ہونے لگا۔ بولا۔ ’’آپ ابھی پولیٹکل ایجنٹ سے ڈرتے ہیں۔ جب وہ آپ کا ممنون ہو جائے گا۔ تب آپ مطلق العنان ہو جائیں گے اور رعایا کی فریاد سننے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘
راجہ صاحب شعلہ بار آنکھوں سے تاکتے ہوئے بولے۔ ’’میں ایجنٹ کا غلام نہیں ہوں کہ اس سے ڈروں۔ بالکل کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں ایجنٹ کی محض اس لیے خاطر کرتا ہوں کہ وہ شہنشاہ کا قائم مقام ہے۔ میرے اور شہنشاہ کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ محض آئین سلطنت کی پابندی کر رہا ہوں۔ میں ولایت جاؤں تو اسی طرح ہز میجسٹی بھی میری تواضع و تکریم کریں گے۔ میں ڈروں کیوں، میں اپنی ریاست کا خود مختار راجہ ہوں۔ جسے چاہوں پھانسی دے سکتا ہوں۔ میں کسی سے کیوں ڈرنے لگا۔ ڈرنا بزدلوں کا کام ہے میں خدا سے بھی نہیں ڈرتا۔ ڈر کیا چیز ہے۔ یہ میں آج تک نہ جان سکا۔ میں تمھاری طرح کالج کا غیر ذمّہ دار طالب علم نہیں ہوں کہ انقلاب اور آزادی کی صدا لگاتا پھروں۔ حالانکہ تم نے ان چیزوں کا محض ابھی نام سنا ہے۔ اس کے خونی مناظر آنکھوں سے نہیں دیکھے۔ تم خوش ہو گے اگر میں ایجنٹ سے پنجہ آزمائی کروں۔ میں اتنا احمق نہیں ہوں۔ اندھا نہیں ہوں۔ رعایا کی حالت کا مجھے تم سے کہیں زیادہ علم ہے۔ میں شادی و غم میں ان کا شریک اور ہمدرد رہا ہوں۔ ان سے جو محبّت مجھے ہو سکتی ہے وہ تمھیں کبھی نہیں ہو سکتی۔ تم میری رعایا کو انقلاب کے خواب دکھا کر گمراہ نہیں کر سکتے۔ تم میری ریاست میں فساد اور شورش کے بیچ نہیں بو سکتے۔ تمھیں اپنی زبان پر خاموشی کی مہر لگانی ہو گی۔‘‘
آفتاب مغرب میں ڈوب رہا تھا اور اس کی کرنیں محراب کے رنگین شیشوں سے گزر کر راجہ کے چہرہ کو اور غضبناک بنا رہی تھیں۔ ان کے بال نیلے ہو گئے تھے آنکھیں زرد تھیں۔ چہرہ سرخ اور جسم سبز ہو گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ دوسری دنیا کی ہیبت ناک مخلوق ہے۔ جے کرشن کی ساری انقلاب پسندی غائب ہو گئی۔ راجہ صاحب کو اتنے طیش میں اس نے کبھی نہ دیکھا تھا لیکن اس کے ساتھ اس کا مردانہ وقار اس للکار کا جواب دینے کے لیے بیتاب ہو رہا تھا۔ جیسے حلم کا جواب حلم ہے۔ ویسے ہی غصّہ کا جواب غصہ ہے۔ جب وہ رعب، خوف، لحاظ اور ادب کی بندشوں کو توڑ کر بدمست ہو کر باہر نکلتا ہے پھر چاہے وہ اس بد مستی میں سرنگوں ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس نے بھی راجہ صاحب کو مجروح نظروں سے دیکھ کر کہا۔
’’میں اپنی آنکھوں سے یہ ظلم و ستم دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔‘‘
راجہ صاحب نے دانت پیس کر کہا۔ تمھیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
’’ہر ذی ہوش انسان کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے آپ مجھے اس سے محروم نہیں کر سکتے۔‘‘
میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ میں تمھیں ابھی جیل میں بند کر سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ کو اس کا خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔ میں آپ کی رعایا نہیں ہوں۔‘‘
اسی وقت مسٹر مہتہ نے ایک وحشت کے عالم میں کمرے میں قدم رکھا اور جے کرشن کی طرف قہر کی آنکھوں سے دیکھ کر بولے ’’کرشنا نکل جا یہاں سے، نا خلف تجھے خبر ہے تو کس سے زبان درازی کر رہا ہے۔ ابھی میری نظروں سے دور ہو جا۔ احسان فراموش کہیں کے جس تھال میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے۔ دیوانہ! اگر اب زبان کھولی تو میں تیرا خون پی جاؤں گا۔‘‘
جے کرشن ایک لمحہ تک مہتہ کے غضبناک چہرے کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا رہا اور تب فاتحانہ غرور سے اکڑتا ہوا دیوان خانہ سے نکل گیا۔
راجہ صاحب نے کوچ پر لیٹ کر کہا۔ ’’چغد آدمی ہے۔ انتہا درجہ کا چغد۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسا خطرناک آدمی میری ریاست میں ایک لمحہ بھی رہے۔ تم اس سے جا کر کہہ دو کہ اسی وقت یہاں سے نکل جائے۔ ورنہ اس کے حق میں اچھا نہ ہو گا میں خود سر کی گوشمالی کرنا جانتا ہوں۔ میں محض آپ کی مروّت سے اتنا تحمل کر گیا۔ ورنہ اسی وقت اس کی فتنہ انگیزیوں کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ آپ کو اسی وقت فیصلہ کرنا ہو گا۔ یہاں رہنا ہے کہ نہیں، اگر رہنا منظور ہے تو طلوع سحر سے قبل اسے میرے قلم رو سے باہر نکل جانا چاہیے۔ ورنہ آپ حراست میں ہوں گے اور آپ کا مال و اسباب ضبط کر لیا جائے گا۔‘‘
مسٹر مہتہ نے خطا وارانہ انداز سے کہا۔ ’’آج ہی ارشاد کی تعمیل کروں گا۔‘‘
راجہ صاحب نے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’’آج نہیں اسی وقت۔‘‘
مہتہ نے ذلّت کو نگل کر جواب دیا۔ ’’اسی وقت نکال دوں گا۔‘‘
راجہ صاحب بولے۔ ’’اچھی بات ہے تشریف لے جائیے اور آدھ گھنٹہ کے اندر مجھے اطلاع دیجئے۔ ’’مسٹر مہتہ گھر چلے تو انھیں جے کرشن پر بے انتہا طیش آ رہا تھا۔ احمق چلا ہے آزادی کا راگ الاپنے۔ اب بچہ کو معلوم ہو گا یہ راجے کس آب و گل کے بنے ہوتے ہیں۔ میں اس کے پیچھے دنیا میں رسوا و ذلیل نہیں ہو سکتا۔ وہ خود اپنے فعل کا خمیازہ اٹھائے۔ یہ بے عنوانیاں مجھے بری لگتی ہیں۔ جب کسی بات کا علاج میرے امکان میں نہیں تو اسی ایک معاملہ کے پیچھے کیوں اپنی زندگی خراب کر دوں۔
گھر میں قدم رکھتے ہی انھوں نے کرخت لہجہ میں پکارا۔ ’’جے کرشن۔‘‘
جے کرشن ابھی تک گھر نہ آیا تھا۔ سجاتا نے کہا۔ ’’وہ تو تم سے پہلے ہی راجہ صاحب سے ملنے گیا تھا۔ تب سے کب آیا۔ بیٹھا گپ شپ کر رہا ہو گا۔‘‘
اسی وقت ایک سپاہی نے ایک رقعہ لا کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ مہتہ نے پڑھا۔
’’اس ذلّت کے بعد میں اس ریاست میں ایک لمحہ بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ میں جانتا ہوں آپ کو اپنا عہدہ اور اعزاز اپنے ضمیر سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ شوق سے رہیں۔ میں پھر اس ریاست میں قدم نہ رکھوں گا۔ اماں جی سے میرا پر نام کہئے گا۔‘‘
مسٹر مہتہ نے پرزہ بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور مایوسانہ انداز سے بولے۔ اس لونڈے کو نہ جانے کب عقل آئے گی۔ جا کر مہاراجہ صاحب سے الجھ پڑا۔ وہ تو یہ کہو میں پہنچ گیا۔ ورنہ راجہ اسی وقت اسے حراست میں لے لیتے۔ یہ خود مختار راجے ہیں۔ انھیں کسی کا خوف نہیں۔ انگریزی سرکار بھی تو انھیں کی سنتی ہے۔ مگر بہت اچھا ہوا بچہ کو سبق مل گیا۔ اب معلوم ہو گیا ہو گا کہ دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ میں یہ تماشہ بہت دیکھ چکا اور ان خرافات کے پیچھے اپنی زندگی نہیں برباد کرنا چاہتا۔‘‘
اسی وقت وہ راجہ صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع دینے چلے۔
ایک لمحہ میں ساری ریاست میں یہ خبر مشہور ہو گئی۔ جے کرشن اپنی غریب دوستی کے باعث عوام میں بہت مقبول تھا۔ لوگ بازاروں میں اور چورستوں پر کھڑے ہو کر اس واقعہ پر رائے زنی کرنے لگے۔ اجی وہ آدمی نہیں تھا۔ بھائی میرے کسی دیوتا کا اوتار سمجھو اسے۔ مہاراجہ صاحب سے جا کر بولا ابھی بیگار بند کیجئے۔ ورنہ شہر میں آفت آ جائے گی۔ راجہ صاحب کی تو اس کے سامنے زبان بند ہو گئی۔ صاحب بغلیں جھانکنے لگے۔ شیر ہے شیر۔ اور وہ بیگار بند کرا کے رہتا۔ راجہ صاحب کو بھاگنے کی راہ نہ ملی۔ سنا ہے گھگھیانے لگے تھے۔ مگر اسی بیچ میں دیوان صاحب نے جا کر اس کے دیس نکالے کا حکم دے دیا۔ یہ سن کر آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن باپ کی بے عزّتی کیسے کرتا۔‘‘
’’ایسے باپ کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ یہ باپ ہے یا دشمن۔‘‘
’’وہ کچھ بھی ہے، ہے تو باپ ہی۔‘‘
جے کرشن کی ماں کا نام سجاتا تھا۔ بیٹے کی جلا وطنی اس کے جگر میں برچھیاں چبھونے لگی۔ ابھی تو جی کھول کر اس سے باتیں بھی نہ کرنے پائی تھی سوچا تھا اس سال بیاہ رچائیں گے۔ چنی منی بہو گھر میں آئے گی۔ ادھر یہ بجلی پڑی۔ نہ جانے بے چارہ کہاں رہے گا۔ رات کو کہاں سوئے گا۔ اس کے پاس روپے بھی تو نہیں ہیں۔ غریب پاؤں پاؤں بھاگتا چلا جاتا ہو گا۔ دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ گھر اور شہر چھوڑ چھاڑ کر ریاست سے نکل جائے۔ انھیں اپنا عہدہ پیارا ہے لے کر رکھیں۔ وہ اپنے لختِ جگر کے ساتھ فاقے کرے گی۔ اسے آنکھوں سے دیکھتی رہے گی۔ لیکن وہ جا کر فریاد کرے گی۔ انھیں بھی ایشور نے بچے دیے ہیں۔ ماں کا درد بھی ماں ہی سمجھ سکتی ہے اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مہارانی کے قدم بوس ہو چکی تھی۔ فوراً سواری منگوائی اور مہارانی کے پاس جا پہنچی۔
مہارانی کے تیور آج بدلے ہوئے تھے منہ لٹکا ہوا تھا۔ راجہ صاحب کے اقلیم دل پر طوفان کا راج نہ تھا۔ مگر وہ ولی عہد کی ماں تھیں۔ اور یہ غرور انھیں مہاراجہ سے بے نیاز رکھنے کے لیے کافی تھا۔ بولیں ’’بہن! تمھارا لڑکا بڑا بد زبان ہے۔ ذرا بھی ادب نہیں۔ کس سے کس طرح بات کرنی چاہیے۔ اس کا اسے ذرا سلیقہ بھی نہیں۔ مہاراج نے پہلی بار ذرا اسے منہ لگایا تو اب کی سر چڑھ گیا۔ کہنے لگا۔ بیگار بند کر دیجئے۔ اور ایجنٹ صاحب کے استقبال اور مہمانداری کی کوئی تیاری نہ کیجئے۔ اتنی سمجھ اسے نہیں ہے کہ اس طرح ہیکڑی جتا کر ہم کے گھنٹے گدّی پر رہ سکتے ہیں۔ پھر یہ خیال بھی تو ہونا چاہیے کہ ایجنٹ کا رتبہ کیا ہے۔ ایجنٹ بادشاہ سلامت کا قائم مقام ہے۔ اس کی خاطر تواضع کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ بیگار آخر کس دن کام آئیں گے۔ اسی موقعہ کے لیے ریاست سے ان کو جاگیریں مقرر ہیں۔ رعایا میں ایسی بغاوت پھیلانا کوئی بھلے آدمی کا کام ہے۔ جس تھال میں کھاؤ اسی میں سوراخ کرو۔ مہاراجہ صاحب نے دیوان صاحب کا لحاظ کیا۔ ورنہ اسی وقت اسے حراست میں ڈال دیتے۔ وہ اب کوئی بچہ نہیں ہے۔ خاصا جوان ہے۔ سب کچھ دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ سوچو! حاکموں سے بیر کریں تو کتنے دن نباہ ہو گا۔ اس کو کیا بگڑتا ہے سو پچاس کی نوکری پا ہی جائے گا۔ یہاں تو ریاست تباہ ہو جائے گی۔‘‘
سجاتا نے آنچل پھیلا کر کہا۔
’’مہارانی بجا فرماتی ہیں مگر اب تو اس کی خطا معاف کیجئے۔ بے چارہ شرم اور خوف سے گھر نہیں گیا۔ نہ جانے کدھر نکل گیا۔ ہماری زندگی کا یہی ایک سہارا ہے۔ مہارانی ہم دونوں رو رو کر مر جائیں گے۔ آنچل پھیلا کر آپ سے بھیک مانگتی ہوں۔ اس کی خطا معاف کیجئے ماں کے درد کو آپ سے زیادہ کون سمجھے گا۔ آپ ہی میرے رنج کا اندازہ کر سکتی ہیں۔ آپ مہاراج سے سفارش کر دیں تو۔۔۔‘‘
مہارانی نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’کیا کہتی ہو سجاتا دیوی۔ مہاراج سے اس کی سفارش کروں۔ آستین میں سانپ پالوں، تم کس منہ سے ایسی درخواست کرتی ہو اور مہاراج مجھے کیا کہیں گے۔ میں تو ایسے لڑکے کا منہ نہ دیکھتی اور تم ایسے کپوت بیٹے کی سفارش کے لے کر آئی ہو۔‘‘
’’ایک بد نصیب ماں کیا مہارانی کے دربار سے مایوس ہو کر جائے گی؟‘‘
یہ کہتے کہتے سجاتا کی آنکھیں آب گوں ہو گئیں۔ مہارانی کا غصّہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ مگر وہ مہاراجہ کے مزاج سے واقف تھیں۔ اس وقت وہ کوئی سفارش نہ سنیں گے۔ اس لیے مہارانی کوئی وعدہ کر کے شرمندگی کی ذلت نہ اٹھانا چاہتی تھیں۔
’’میں کچھ نہیں کر سکتی سجاتا دیوی۔‘‘
’’سفارش کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکال سکتیں۔‘‘
’’میں مجبور ہوں۔‘‘
سجاتا آنکھوں میں غصّہ کے آنسو لا کر بولی۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں مظلوموں کے لیے فریاد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
مہارانی کو رحم دیر میں آتا تھا۔ غصّہ ناک پر رہتا تھا گرم ہو کر بولیں۔ ’’اگر تم نے سوچا تھا کہ میں تمھارے آنسو پوچھوں گی تو تم نے غلطی کی تھی۔ جو قاتل ہماری جان لینے پر آمادہ ہو۔ اس کی سفارش لے کے آنا اس کے علاوہ اور کیا کہنا ہے کہ تم اس جرم کو خفیف سمجھتی ہو۔ اگر تم نے اس کی ہمت کا اندازہ کیا ہوتا تو ہر گز میرے پاس نہ آتیں۔ جس نے ریاست کا نمک کھایا ہے وہ ریاست کے ایک بد خواہ سے ہمدردی کرے۔ یہ خود بہت بڑا جرم ہے۔‘‘
سجاتا بھی گرم ہوئی۔ جذبہ مادری مصلحت پر غالب آ گئی۔ بولی، ’’راجہ کا کام محض اپنے حکام کو خوش کرنا نہیں ہے۔ رعایا پروری کی ذمہ داری بھی اس کے سر ہے اور یہ اس کا مقدم فرض ہے۔‘‘
اسی وقت مہاراج نے کمرے میں قدم رکھا۔ رانی نے اٹھ کر ان کی تعظیم کی۔ سجاتا گھونگھٹ نکال کر سر جھکائے دم بخود کھڑی رہ گئی۔ کہیں مہاراجہ صاحب نے تو اس کی بات نہیں سن لی۔
راجہ نے کہا۔ ’’یہ کون عورت تمھیں راجوں کے فرائض کی تعلیم دے رہی تھی؟‘‘
رانی نے کہا۔ ’’یہ دیوان صاحب کی بیوی ہیں۔‘‘
راجہ نے مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جب ماں ایسی زبان دراز ہے تو لڑکا کیوں نہ گستاخ اور باغی ہو۔ دیوی جی میں تم سے یہ تعلیم نہیں لینا چاہتا بہتر ہو کہ تم کسی سے یہ تعلیم حاصل کر لو کہ آقا کی جانب اس کے نمک خواروں کے کیا فرائض ہیں۔ اور جو نمک حرام ہے ان کے سامنے اسے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
راجہ صاحب طیش کے عالم میں باہر چلے گئے مسٹر مہتہ جا ہی رہے تھے کہ راجہ صاحب نے تند لہجہ میں پکارا ’’سنئے مسٹر مہتہ! آپ کے صاحبزادے تو رخصت ہو گئے لیکن مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ غدّاری کے میدان میں آپ کی دیوی جی ان سے بھی دو قدم آگے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ وہ محض ریکارڈ ہے جس میں دیوی جی کی آواز بول رہی ہے میں نہیں چاہتا کہ جو شخص ریاست کی ذمہ داریوں کا مرکز ہے اس کے سایہ میں ریاست کے ایسے بد خواہوں کو پناہ ملے۔ آپ خود اس ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے۔ یہ ہر گز میری بے انصافی نہ ہو گی اگر میں یہ خیال کر لوں کہ آپ کی چشم پوشی نے ہی یہ حالات پیدا کیے ہیں۔ میں یہ خیال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے صریحاً نہیں تو کنایتاً ضرور ان خیالات کی تحریک کی ہے۔‘‘
مسٹر مہتہ اپنی ذمہ داری اور آقا پروری پر یہ حملہ برداشت نہ کر سکے۔ فوراً مردانہ تردید کی‘‘ میں کس زبان سے کہوں کہ اس معاملہ میں حضور بے انصافی کر رہے ہیں لیکن میں بے قصور ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر ملال ہوتا ہے کہ میری وفا داری پر یوں شبہہ کیا جائے۔‘‘
مہاراج نے تحکمانہ لہجہ میں کہا ’’اس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے دیوان صاحب۔‘‘
’’کیا ابھی ثبوت کی ضرورت ہے؟ میرا خیال ہے میں ثبوت دے چکا۔‘‘
’’نہیں نئے انکشافات کے لیے نئے ثبوت کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی دیوی جی کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے رخصت کر دیں۔ میں اس میں کسی طرح کا عذر نہیں سننا چاہتا۔‘‘
’’لیکن مہاراج۔‘‘
’’میں ایک حرف نہیں سننا چاہتا۔‘‘
’’میں کچھ عرض نہیں کر سکتا؟‘‘
’’ایک لفظ بھی نہیں۔‘‘
مسٹر مہتہ یہاں سے چلے تو انھیں سجاتا پر بے حد غصّہ آ رہا تھا۔ ان سب کے دماغ میں نہ جانے کیوں یہ خبط سما گیا ہے۔ جے کرشن تو خیر لڑکا ہے نا آزمودہ کار، اس بڑھیا کو کیا حماقت سوجھی۔ نہ جانے رانی سے کیا کیا کہہ آئی۔ میرے ہی گھر میں کسی کو مجھ سے ہمدردی نہیں۔ سب اپنی اپنی دھن میں مست ہیں۔ کس مصیبت سے میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہا ہوں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا۔ کتنی پریشانیوں اور ناکامیوں کے بعد ذرا اطمینان سے سانس لینے پایا تھا کہ ان سب نے یہ نئی مصیبت کھڑی کر دی۔ حق اور انصاف کا ٹھیکہ کیا ہمیں نے لے لیا ہے۔ یہاں بھی وہی ہو رہا ہے جو ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ غریب اور کمزور ہونا جرم ہے۔ اس کی سزا سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ باز کبوتر پر کبھی رحم نہیں کرتا۔ حق اور انصاف کی حمایت انسان کی شرافت کا جزو ہے۔ بے شک اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جس طرح اور سب لوگ صرف زبان سے اس کی حمایت کرتے ہیں کیا اسی طرح ہم بھی نہیں کر سکتے۔ اور جن لوگوں کی حمایت کی جائے ان کی نگاہ میں کچھ اس حمایت کی قدر بھی تو ہو۔ آج راجہ انھیں مظلوم مزدوروں سے ذرا ہنس کر باتیں کر لیں تو یہ لوگ ساری شکایتیں بھول جائیں۔ اور ہماری ہی گردن کشی پر آمادہ ہو جائیں گے۔ سجاتا کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں۔ ضرور اس نے مہارانی صاحبہ سے بدزبانی کی ہو گی۔ خوب اپنے دل کا غبار نکالا ہو گا۔ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا میں کس طرح عزّت اور آبرو کے ساتھ بیٹھا جائے۔ اس کے سوا اور ہمیں کیا چاہیے۔ اگر تقدیر میں نیک نامی لکھی ہوتی تو اس طرح دوسروں کی غلامی کیوں کرتا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو بھیجوں کہاں؟ میکے میں کوئی نہیں ہے میرے گھر میں کوئی نہیں۔ اونہہ! اب میں اس کی کہاں تک فکر کروں۔ جہاں جی چاہے جائے۔
وہ اس غم و غصّہ کی حالت میں گھر میں داخل ہوئے۔ سجاتا ابھی ابھی آئی تھی کہ مہتہ نے پہنچ کر دل شکن انداز سے کہا ’’آخر تمھیں بھی وہی حماقت سوجھی جو اس لونڈے کو سوجھی تھی۔ میں کہتا ہوں آخر تم لوگوں کو عقل کبھی آئے گی یا نہیں۔ ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا ہم ہی نے اٹھایا ہے؟ کون راجہ ہے جو اپنی رعایا پر ظلم نہ کرتا ہو؟ ان کے حقوق نہ پامال کرتا ہو۔ راجہ ہی کیوں؟ ہم تم دوسروں کے حقوق پر دست اندازی کر رہے ہیں۔ تمھیں کیا حق ہے کہ تم درجنوں خدمت گار رکھو اور انھیں ذرا ذرا سے قصور پر سزائیں دو۔ حق اور انصاف مہمل لفظ ہیں جن کا مصرف اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ چند عقل مندوں کو شہادت کا درجہ ملے۔ اور بہت سے احمقوں کو ذلّت اور سوائی کا۔ تم مجھے اپنے ساتھ دبائے دیتی ہو۔ حالانکہ میں تم سے بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں مہاراجہ سے پرخاش نہ کروں گا۔ حق کی حمایت کر کے دیکھ لیا۔ پشیمانی اور بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ میں صاف کہتا ہوں کہ میں تمھاری حماقتوں کا خمیازہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘
سجاتا نے خود داری کی شان سے کہا۔ ’’میں یہاں سے چلی جاؤں یہی تو تمھارا منشا ہے۔ میں بڑی خوشی سے جانے کے لیے تیار ہوں۔ میں ایسے ظالم کی عملداری میں پانی پینا بھی گناہ سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اس کے سوا مجھے اور کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ میں پوشیدہ طور پر تمھارے اخراجات کے لیے روپیہ بھیجتا رہوں گا۔‘‘
’’نہیں مجھے تمھارے روپوں کی ضرورت نہیں ہے تم اپنے روپے جمع کرنا اور بینک کا اکاؤنٹ دیکھ دیکھ کر خوش ہونا۔ کون جانے کہیں راز فاش ہو جائے تو آقائے نامدار کا قہر تمھارے اوپر نازل ہو جائے۔ میرا لڑکا اور کچھ نہ کر سکے گا تو شام تک نمک روٹی لے ہی آئے گا۔ میں اسی میں خوش ہوں گی۔ میں بھی دیکھوں گی کہ تمھاری آقا پروری کب تک نبھتی ہے اور تم کہاں تک اپنے ضمیر کا خون کرتے ہو۔‘‘
مہتہ نے ہاتھ مل کر کہا۔
’’تم کیا چاہتی ہو کہ پھر اسی طرح چاروں طرف ٹھوکریں کھاتا پھروں؟‘‘
سجاتا نے طنز کے ساتھ کہا۔ ’’ہر گز نہیں اب تک میرا خیال تھا کہ عہدے اور روپے سے عزیز تر بھی تمھارے پاس کوئی چیز ہے۔ جس کے لیے تم ٹھوکریں کھانا اچھا سمجھتے ہو۔ ا ب معلوم ہوا تمھیں عہدہ اور مرّوت اپنے ضمیر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پھر کیوں ٹھوکریں کھاؤ۔ کبھی کبھی اپنی خیریت کا خط بھیجتے رہنا یا اس کے لیے بھی راجہ صاحب کی اجازت لینی پڑے گی۔‘‘
مہتہ نے آقا پروری کے جوش میں کہا۔ ’’راجہ صاحب اتنے ظالم نہیں ہیں کہ میرے جائز حق میں دست اندازی کریں۔‘‘
’’اچھا راجہ صاحب میں اتنی انسانیت ہے مجھے تو اعتبار نہیں آتا۔‘‘
’’تم نے کہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘
’’جہنم میں۔‘‘
جس وقت سجاتا گھر سے رخصت ہونے لگی تو میاں بیوی دونوں خوب روئے اور ایک طرح سے سجاتا نے اپنی غلطی تسلیم کر لی کہ واقعی اس بیکاری کے زمانہ میں مہتہ کا یہی طرز عمل مناسب تھا۔ سچ مچ بے چارے کہاں کہاں مارے مارے پھریں۔
اس طرح شوہر سے علیحدہ ہونے سے اسے روحانی صدمہ ہو رہا تھا۔ اور اگر راجہ صاحب پل پل بھر بعد دریافت کر رہے تھے کہ دیو جی گئیں یا نہیں؟ اور اب قدم پیچھے ہٹانے کے لیے کوئی بہانہ نہ تھا۔
پولیٹکل ایجنٹ صاحب تشریف لائے خوب دعوتیں کھائیں۔ خوب شکار کھیلے اور خوب سیریں کیں۔ مہاراجہ صاحب نے ان کی تعریف کی۔ انھوں نے مہاراجہ صاحب کی تعریف کی اور ان کے انصاف اور رعایا پروری اور تنظیم کی خوب دل کھول کر داد دی۔ مسٹر مہتہ کی کارگزاری نے بھی تحسین کا خراج وصول کیا۔ ایسا وفا شعار اور کارگزار افسر اس ریاست میں کبھی نہیں آیا تھا۔ ایجنٹ صاحب نے ایک گھڑی انھیں انعام میں دی۔
اب راجہ صاحب کو کم از کم تین سال کے لیے فراغت تھی۔ ایجنٹ ان سے خوش تھا۔ اب کس بات کا غم اور کس کا خوف۔ عیاشی کا دور دورہ انہماک کے ساتھ شروع ہوا۔ نت نئے حسینوں کی بہم رسانی کے لیے خفیہ خبر رسانی کا ایک محکمہ قائم کیا گیا اور اسے زنانہ تعلیم کا نام دیا گیا۔ نئی نئی چڑیاں آنے لگیں۔ کہیں تخویف کام کرتی تھی، کہیں تحریص اور کہیں تالیف۔ لیکن ایسا موقعہ بھی آیا جب اس تثلیث کی ساری انفرادی اور اجتماعی کوششیں ناکام ہوئیں۔ اور خفیہ محکمہ نے فیصلہ کیا کہ اس نازنین کو اس کے گھر سے بہ جبر اٹھا لایا جائے اور اس خدمت کے لیے مہتہ صاحب کا انتخاب ہوا جس سے زیادہ جاں نثار خادم ریاست میں دوسرا نہ تھا۔ ان کی جانب سے مہاراجہ صاحب کو کامل اطمینان تھا۔ کم تر درجہ کے اہلکار ممکن ہے رشوت لے کر شکار چھوڑ دیں یا افشاء راز کر بیٹھیں۔ یا امانت میں خیانت۔ مسٹر مہتہ کی جانب سے کسی قسم کی بے عنوانی کا اندیشہ نہ تھا۔ رات کو نو بجے چوبدار نے ان کو اطلاع دی۔
’’ان داتا نے یاد کیا ہے۔‘‘
مہتہ صاحب جب ڈیوڑھی پر پہنچے تو راجہ صاحب باغیچے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ مہتہ کو دیکھتے ہی بولے۔
’’آئیے مسٹر مہتہ آپ سے اہم معاملہ میں مشورہ لینا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کا مجسمہ اس باغ کے وسط میں نصب کیا جائے جس سے آپ کی یادگار ہمیشہ قائم رہے۔ آپ کو غالباً اس میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔‘‘
مہتہ نے بڑے انکسار کے ساتھ کہا۔ ’’یہ ان داتا کی غلام نوازی ہے میں تو ایک ذرّہ نا چیز ہوں۔‘‘
’’میں نے لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ اس کے لیے فنڈ جمع کریں۔ ایجنٹ صاحب نے اب کی جو خط لکھا ہے اس میں آپ کو خاص طور سے لکھا ہے۔‘‘
’’یہ ان کی غریب پروری ہے۔ میں تو ادنیٰ خادم ہوں۔‘‘
راجہ صاحب ایک لمحہ تک سگار پیتے رہے تب اس انداز سے بولے گویا کوئی بھولی بات یاد آ گئی۔
’’تحصیل خاص میں ایک موضع جگن پور ہے آپ وہاں کبھی گئے ہیں؟‘‘
مہتہ نے مستعدی سے جواب دیا۔ ’’ہاں ان داتا ایک بار گیا ہوں وہاں ایک متمول ساہوکار ہے اسی کے دیوان خانہ میں ٹھہراتا تھا۔ معقول آدمی ہے۔‘‘
’’ہاں ظاہر میں تو بہت اچھا آدمی ہے مگر دل کا نہایت خبیث۔ آپ کو معلوم ہے مہارانی صاحبہ کی صحت بہت خراب ہوتی جاتی ہے اور اب میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں دوسری شادی کر لوں۔ راجاؤں کا یہ عام وطیرہ ہے کہ کسی نہ کسی حیلہ سے روز نئی نئی شادیاں کرتے رہتے ہیں۔ میں نے اس حوس پروری سے ہمیشہ اعتراض کیا ہے اور اب تک بڑی تندہی سے رانی صاحبہ کا علاج کراتا رہا۔ لیکن ان کی حالت روز بروز گرتی جاتی ہے اور اب میں مجبور ہو گیا ہوں۔ ایک لڑکی بھی تجویز کی ہے جو ہر اعتبار سے رانی صاحبہ بننے کے قابل ہے۔ وہ اسی ساہوکار کی لڑکی ہے میں ایک بار ادھر سے گزر رہا تھا تو میں نے اسے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھا تھا مجھے معاً خیال آیا کہ اگر یہ حسینہ رنواس میں آ جائے تو میری عمر دراز ہو جائے۔ میں نے خاندان کے آدمیوں سے اس بارے میں صلاح کی۔ اور اس ساہوکار کے پاس پیغام بھیج دیا۔ مگر اسے مفسدوں نے کچھ ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ وہ کسی طرح راضی نہیں ہوتا۔ کہتا ہے کہ لڑکی کی شادی ہو چکی ہے مجھے یہاں تک معلوم ہوا ہے یہ اس کی بہانہ سازی ہے لیکن بالفرض اس کی شادی بھی ہو چکی ہو تو راجہ ہونے کی حیثیت سے میرا حق فائق ہے۔ اور پھر میں ہر قسم کا تاوان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن وہ مفسد برابر انکار کیے جاتا ہے۔ مجھے اس لڑکی کا ہر وقت خیال رہتا ہے مجھے ایسا اندیشہ ہو رہا ہے کہ اگر ناکام رہا تو شاید جاں بر نہ ہو سکوں۔ اندیشہ ہی نہیں یہ اس قسم کا یقینی امر ہے آپ کو بھی شاید اس قسم کا کبھی تجربہ ہوا ہو۔ بس یہ سمجھئے کی خواب حرام ہے۔ ہمیشہ اسی کی یاد میں محو رہتا ہوں اور ایسی حالت میں مجھے آپ کے سوا کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آیا جو اس مسئلہ کو حل کر سکے۔ آپ جانتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ میں چاہتا ہوں آپ تھوڑے سے معتبر آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور اس حسینہ کو راضی کر کے لائیں۔ خوشی سے آئے خوشی سے، جبر سے آئے جبر سے۔ اس کی پرواہ نہیں ریاست کا مالک ہوں۔ اس میں جس چیز پر میری نظر ہو اس پر کسی دوسرے شخص کا قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہو سکتا۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کی خوش تدبیری سے میری زندگی بچ گئی تو آپ ہمیشہ ریاست کے محسنوں میں شمار کیے جائیں گے اور۔۔۔‘‘
مسٹر مہتہ کے مدت سے منجمد خون میں یکایک ابال آیا بولے۔ ’’آپ کا منشاء ہے میں اسے کڈنیپ کر لاؤں؟‘‘
راجہ صاحب نے ان کے تیور دیکھ کر تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’ہر گز نہیں میں تو آپ کو اپنا معتمد سفیر بنا کر بھیجتا ہوں۔ حصول مقصد کے لیے آپ کو ہر ممکن تدبیر سے کام لینے کا اختیار ہے۔‘‘
مسٹر مہتہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ’’مجھ سے یہ کمینہ فعل نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’کسی حسینہ سے شادی کی درخواست کمینہ فعل ہے۔‘‘
’’جبری اغوا بے شک کمینہ فعل ہے۔‘‘
’’آپ اپنے ہوش میں ہیں؟‘‘
’’خوب اچھی طرح۔‘‘
’’میں آپ کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔‘‘
’’اگر آپ مجھے خاک میں ملا سکتے ہیں تو میں بھی آپ کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔‘‘
’’میری نیکیوں کا یہی صلہ ہے نمک حرام۔۔۔‘‘
’’آپ اب احترام کی حد سے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ راجہ صاحب! میں نے اب تک ضمیر کا خون کیا ہے اور آپ کے ہر ایک جا اور بے جا حکم کی تعمیل کی ہے لیکن ضمیر فروشی کی بھی حد ہوتی ہے جس کے آگے کوئی بھی ذی ہوش آدمی نہیں جا سکتا۔ آپ کا فعل ایک راجہ کے شایان شان نہیں ہے اور اس میں جو شخص اعانت کرے وہ قابل گردن زنی ہے اور میں ایسے فعل پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر آئے۔ اور راتوں رات سامان سفر درست کر کے ریاست سے نکل گئے۔ مگر اس سے قبل اس معاملہ کا کچا چٹھا ایجنٹ کے نام بھیج دیا۔
٭٭٭