بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن پر گوشت تو نہ تھا مگر شاید دودھ بہت دیتی تھی۔ کیونکہ ہر وقت ایک نہ ایک آدمی ہانڈی لئے اس کے سر پر سوار رہتا تھا۔ بینی مادھو سنگھ نے نصف سے زائد جائیداد وکیلوں کی نذر کی اور اب ان کی سالانہ آمدنی ایک ہزار سے زائد نہ تھی۔ ٹھاکر صاحب کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام شری کنٹھ سنگھ تھا۔ اس نے ایک مدت دراز کی جانکاہی کے بعد بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور اب ایک دفتر میں نوکر تھا۔ چھوٹا لڑکا لال بہاری سنگھ دوہرے بدن کا سجیلا جوان تھا۔ بھرا ہوا چہرہ چوڑا سینہ بھینس کا دوسیر تازہ دودھ کا ناشتہ کر جاتا تھا۔ شری کنٹھ اس سے بالکل متضاد تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کو انھوں نے دو انگریزی حروف بی۔ اے پر قربان کر دیا تھا۔ انھیں دو حرفوں نے ان کے سینے کی کشادگی، قد کی بلندی، چہرے کی چمک، سب ہضم کر لی تھی۔ یہ حضرت اب اپنا وقت فرصت طب کے مطالعہ میں صرف کرتے تھے۔ آیورویدک دواؤں پر زیادہ عقیدہ تھا۔ شام سویرے ان کے کمرے سے اکثر کھرل کی خوشگوار پیہم صدائیں سنائی دیا کرتی تھیں۔ لاہور اور کلکتہ کے ویدوں سے بہت خط و کتابت رہتی تھی۔
سری کنٹھ اس انگریزی ڈگری کے باوجود انگریزی معاشرت کے بہت مداح نہ تھے۔ بلکہ اس کے بر عکس وہ اکثر بڑی شد و مد سے اس کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے گاؤں میں ان کی بڑی عزت تھی۔ دسہرے کے دنوں میں وہ بڑے جوش سے رام لیلا میں شریک ہوتے اور خود ہر روز کوئی نہ کوئی روپ بھرتے۔ انہیں کی ذات سے گوری پور میں رام لیلا کا وجود ہوا۔ پرانے رسم و رواج کا ان سے زیادہ پر جوش وکیل مشکل سے ہو گا۔ خصوصاً مشترکہ خاندان کے وہ زبردست حامی تھے۔ آجکل بہوؤں کو اپنے کنبے کے ساتھ مل جل کر رہنے میں جو وحشت ہوتی ہے اسے وہ ملک اور قوم کے لئے فال بد خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گاؤں کی بہوئیں انہیں مقبولیت کی نگاہ سے نہ دیکھتی تھیں، بعض بعض شریف زادیاں تو انہیں اپنا دشمن سمجھتیں۔ خود ان ہی کی بیوی ان سے اس مسئلہ پر اکثر زور شور سے بحث کرتی تھیں۔ مگر اس وجہ سے نہیں کہ اسے اپنے ساس سسرے دیور جیٹھ سے نفرت تھی۔ بلکہ اس کا خیال تھا کہ اگر غم کھانے اور طرح دینے پر بھی کنبے کے ساتھ نباہ نہ ہو سکے تو آئے دن کی تکرار سے زندگی تلخ کرنے کے بجائے یہی بہتر ہے کہ اپنی کھچڑی الگ پکائی جائے۔
آنندی ایک بڑے اونچے خاندان کی لڑکی تھی۔ اس کے باپ ایک چھوٹی سی ریاست کے تعلقہ دار تھے۔ عالیشان محل، ایک ہاتھی، تین گھوڑے۔ پانچ وردی پوش سپاہی۔ فٹن، بہلیاں، شکاری کتے، باز، بحری، شکرے، جرے، فرش فروش شیشہ آلات، آنریری مجسٹریٹی اور قرض جو ایک معزز تعلقہ دار کے لوازم ہیں۔ وہ ان سے بہرہ ور تھے۔ بھوپ سنگھ نام تھا۔ فراخدل، حوصلہ مند آدمی تھے، مگر قسمت کی خوبی لڑکا ایک بھی نہ تھا۔ سات لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوئیں اور ساتوں زندہ رہیں۔ اپنے برابر یا زیادہ اونچے خاندان میں ان کی شادی کرنا اپنی ریاست کو مٹی میں ملانا تھا۔ پہلے جوش میں تو انھوں نے تین شادیاں دل کھول کر کیں۔ مگر جب پندرہ بیس ہزار کے مقروض ہو گئے تو آنکھیں کھلیں۔ ہاتھ پیر پیٹ لئے۔ آنندی چوتھی لڑکی تھی۔ مگر اپنی سب بہنوں سے زیادہ حسین اور نیک اسی وجہ سے ٹھاکر بھوپ سنگھ اسے بہت پیار کرتے تھے۔ حسین بچے کو شاید اس کے ماں باپ بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب بڑے پس و پیش میں تھے کہ اس کی شادی کہاں کریں۔ نہ تو یہی چاہتے تھے کہ قرض کا بوجھ بڑھے اور نہ یہی منظور تھا کہ اسے اپنے آپ کو بد قسمت سمجھنے کا موقع ملے۔ ایک روز سری کنٹھ ان کے پاس کسی چندے کے لئے روپیہ مانگنے آئے۔ شاید ناگری پرچار کا چندہ تھا۔ بھوپ سنگھ ان کے طور و طریق پر ریجھ گئے کھینچ تان کر زائچے ملائے گئے۔ اور شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔
آنندی دیوی اپنے نئے گھر میں آئیں تو یہاں کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی دیکھا۔ جن دلچسپیوں اور تفریحوں کی وہ بچپن سے عادی تھی ان کا یہاں وجود بھی نہ تھا۔ ہاتھی گھوڑوں کا تو ذکر کیا کوئی سجی ہوئی خوبصورت بہلی بھی نہ تھی۔ ریشمی سلیپر ساتھ لائی تھی مگر یہاں باغ کہاں مکان میں کھڑکیاں تک نہ تھیں۔ نہ زمین پر فرش نہ دیواروں پر تصویریں یہ ایک سیدھا سادا دہقانی مکان تھا۔ مگر آنندی نے تھوڑے ہی دنوں میں ان تبدیلیوں سے اپنے تئیں اس قدر مانوس بنا لیا۔ گویا اس نے تکلفات کبھی دیکھے ہی نہیں۔
ایک روز دوپہر کے وقت لال بہاری سنگھ دو مرغابیاں لئے ہوئے آئے۔ اور بھاوج سے کہا۔ جلدی سے گوشت پکا دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ آنندی کھانا پکا کر ان کی منتظر بیٹھی تھی۔ گوشت پکانے بیٹھی مگر ہانڈی میں دیکھا تو گھی پاؤ بھرسے زیادہ نہ تھا۔ بڑے گھر کی بیٹی۔ کفایت شعاری کا سبق ابھی اچھی طرح نہ پڑھی تھی۔ اس نے سب گھی گوشت میں ڈال دیا۔ لال بہاری سنگھ کھانے بیٹھے تو دال میں گھی نہ تھا۔ ’’دال میں گھی کیوں نہیں چھوڑا؟‘‘
آنندی نے کہا، ’’گھی سب گوشت میں پڑ گیا۔‘‘
لال بہاری، ’’ابھی پرسوں گھی آیا ہے۔ اس قدر جلد اٹھ گیا۔‘‘
آنندی، ’’آج تو کل پاؤ بھر تھا۔ وہ میں نے گوشت میں ڈال دیا۔‘‘
جس طرح سوکھی لکڑی جلدی سے جل اٹھتی ہے۔ اسی طرح بھوک سے باؤلا انسان ذرا ذرا بات پر تنک جاتا ہے۔ لال بہاری سنگھ کو بھاوج کی یہ زباں درازی بہت بری معلوم ہوئی۔ تیکھا ہو کر بولا، ’’میکے میں تو چاہے گھی کی ندی بہتی ہو۔‘‘
عورت گالیاں سہتی ہے۔ مار سہتی ہے مگر میکے کی نندا اس سے سے نہیں سہی جاتی۔ آنندی منہ پھیر کر بولی، ’’ہاتھی مرا بھی تو نو لاکھ کا۔ وہاں اتنا گھی روز نائی کہار کھا جاتے ہیں۔‘‘
لال بہاری جل گیا۔ تھالی اٹھا کر پٹک دی اور بولا، ’’جی چاہتا ہے کہ تالو سے زبان کھینچ لے۔‘‘
آنندی کو بھی غصہ آ گیا۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ بولی، ’’وہ ہوتے تو آج اس کا مزہ چکھا دیتے۔‘‘
اب نوجوان اجڈ ٹھاکر سے ضبط نہ ہو سکا۔ اس کی بیوی ایک معمولی زمیندار کی بیٹی تھی۔ جب جی چاہتا تھا اس پر ہاتھ صاف کر لیا کرتا تھا۔ کھڑاؤں اٹھا کر آنندی کی طرف زور سے پھینکی اور بولا، ’’جس کے گمان پر بولی ہو۔ اسے بھی دیکھوں گا اور تمھیں بھی۔‘‘
آنندی نے ہاتھ سے کھڑاؤں روکی، سر بچ گیا۔ مگر انگلی میں سخت چوٹ آئی۔ غصے کے مارے ہوا کے ہلتے ہوئے پتے کی طرح کانپتی ہوئی اپنے کمرے میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ عورت کا زور اور حوصلہ۔ غرور و عزت شوہر کی ذات سے ہے اسے شوہر ہی کی طاقت اور ہمت کا گھمنڈ ہوتا ہے۔ آنندی خون کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔
سری کنٹھ سنگھ ہر شنبہ کو اپنے مکان پر آیا کرتے تھے۔ جمعرات کا یہ واقعہ تھا۔ دو دن تک آنندی نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ان کی راہ دیکھتی رہی۔ آخر شنبہ کو حسب معمول شام کے وقت وہ آئے اور باہر بیٹھ کر کچھ ملکی و مالی خبریں، کچھ نئے مقدمات کی تجویزیں اور فیصلے بیان کرنے لگے۔ اور سلسلۂ تقریر دس بجے رات تک جاری رہا۔ دو تین گھنٹے آنندی نے بے انتہا اضطراب کے عالم میں کاٹے۔ بارے کھانے کا وقت آیا۔ پنچایت اٹھی۔ جب تخلیہ ہوا تو لال بہاری نے کہا، ’’بھیا آپ ذرا گھر میں سمجھا دیجئے گا کہ زبان سنبھال کر بات چیت کیا کریں۔ ورنہ ناحق ایک دن خون ہو جائے گا۔‘‘
بینی مادھو سنگھ نے شہادت دی۔ ’’بہو بیٹیوں کی یہ عادت اچھی نہیں کہ مردوں کے منہ لگیں۔‘‘
لال بہاری۔ ’’وہ بڑے گھر کی بیٹی ہیں تو ہم لوگ بھی کوئی کرمی کہار نہیں ہیں۔‘‘
سری کنٹھ۔، ’’آخر بات کیا ہوئی؟‘‘
لال بہاری، ’’کچھ بھی نہیں۔ یوں ہی آپ ہی آپ الجھ پڑیں، میکے کے سامنے ہم لوگوں کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔‘‘
سری کنٹھ کھا پی کر آنندی کے پاس گئے۔ وہ بھی بھری بیٹھی تھی۔ اور یہ حضرت بھی کچھ تیکھے تھے۔
آنندی نے پوچھا، ’’مزاج تو اچھا ہے؟‘‘
سر کنٹھ بولے، ’’بہت اچھا ہے۔ یہ آج کل تم نے گھر میں کیا طوفان مچا رکھا ہے؟‘‘
آنندی کے تیوروں پر بل پڑ گئے اور جھنجھلاہٹ کے مارے بدن میں پسینہ آ گیا۔ بولی، ’’جس نے تم سے یہ آگ لگائی ہے اسے پاؤں تو منہ جھلس دوں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اس قدر تیز کیوں ہوتی ہو، کچھ بات تو کہو۔‘‘
آنندی، ’’کیا کہوں۔ قسمت کی خوبی ہے۔ ورنہ ایک گنوار لونڈا جسے چپراسی گری کرنے کی بھی تمیز نہیں مجھے کھڑاؤں سے مار کر یوں نہ اکڑتا پھرتا۔ بوٹیاں نچوا لیتی۔ اس پر تم پوچھتے ہو کہ گھر میں طوفان کیوں مچا رکھا ہے۔‘‘
سری کنٹھ، ’’آخر کچھ کیفیت تو بیان کرو۔ مجھے تو کچھ معلوم ہی نہیں۔‘‘
آنندی، ’’پرسوں تمہارے لاڈلے بھائی نے مجھے گوشت پکانے کو کہا۔ گھی پاؤ بھر سے کچھ زیادہ تھا۔ میں نے سب گوشت میں ڈال دیا۔ جب کھانے بیٹھا تو کہنے لگا دال میں گھی کیوں نہیں۔ بس اسی پر میرے میکے کو برا بھلا کہنے لگا۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا بولی کہ وہاں اتنا گھی نائی کہار کھا جاتے ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ بس اتنی سی بات پر اس ظالم نے مجھے کھڑاؤں پھینک ماری۔ اگر ہاتھ سے نہ روکتی تو سر پھٹ جاتا۔ اس سے پوچھو کہ میں نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے یا جھوٹ؟‘‘
سری کنٹھ کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ بولے، ’’یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ لونڈا تو بڑا شریر نکلا۔‘‘
آنندی رونے لگی۔ جیسے عورتوں کا قاعدہ ہے۔ کیونکہ آنسو ان کی پلکوں پر رہتا ہے۔ عورت کے آنسو مرد کے غصے پر روغن کا کام کرتے ہیں۔ سری کنٹھ کے مزاج میں تحمل بہت تھا۔ انہیں شاید کبھی غصہ آیا ہی نہ تھا۔ مگر آنندی کے آنسوؤں نے آج زہریلی شراب کا کام کیا۔ رات بھر کروٹیں بدلتے رہے۔ سویرا ہوتے ہی اپنے باپ کے پاس جا کر بولے، ’’دادا اب میرا نباہ اس گھر میں نہ ہو گا۔‘‘
یہ اور اسی معنی کے دوسرے جملے زبان سے نکالنے کے لئے سری کنٹھ سنگھ نے اپنے کئی ہمجولیوں کو بارہا آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ جب ان کا کوئی دوست ان سے ایسی باتیں کہتا تو وہ مضحکہ اڑاتے اور کہتے، تم بیویوں کے غلام ہو۔ انھیں قابو میں رکھنے کے بجائے خود ان کے قابو میں ہو جاتے ہو۔ مگر ہندو مشترکہ خاندان کا یہ پر جوش وکیل آج اپنے باپ سے کہہ رہا تھا، ’’دادا! اب میرا نباہ اس گھر میں نہ ہو گا۔‘‘ ناصح کی زبان اسی وقت تک چلتی ہے۔ جب تک وہ عشق کے کرشموں سے بے خبر رہتا ہے۔ آزمائش کے بیچ میں آ کر ضبط اور علم رخصت ہو جاتے ہیں۔
بینی مادھو سنگھ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور بولے، ’’کیوں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اس لئے کہ مجھے بھی اپنی عزت کا کچھ تھوڑا بہت خیال ہے۔ آپ کے گھر میں اب ہٹ دھرمی کا برتاؤ ہوتا ہے۔ جن کو بڑوں کا ادب ہونا چاہئے وہ ان کے سر چڑھتے ہیں۔ میں تو دوسرے کا غلام ٹھہرا گھر پر رہتا نہیں اور یہاں میرے پیچھے عورتوں پر کھڑاؤں اور جوتوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ کڑی بات تک مضائقہ نہیں کوئی ایک کی دو کہہ لے۔ یہاں تک میں ضبط کر سکتا ہوں۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میرے اوپر لات اور گھونسے پڑیں اور میں دم نہ ماروں۔‘‘
بینی مادھو سنگھ کچھ جواب نہ دے سکے۔ سری کنٹھ ہمیشہ ان کا ادب کرتے تھے۔ ان کے ایسے تیور دیکھ کر بوڑھا ٹھاکر لاجواب ہو گیا۔ صرف اتنا بولا، ’’بیٹا تم عقلمند ہو کر ایسی باتیں کرتے ہو۔ عورتیں اسی طرح گھر تباہ کر دیتی ہیں۔ ان کا مزاج بڑھانا اچھی بات نہیں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اتنا میں جانتا ہوں۔ آپ کی دعا سے ایسا احمق نہیں ہوں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ اس گاؤں کے کئی خاندانوں کو میں نے علیٰحدگی کی آفتوں سے بچا دیا ہے۔ مگر جس عورت کی عزت و آبرو کا میں ایشور کے دربار میں ذمہ دار ہوں اس عورت کے ساتھ ایسا ظالمانہ برتاؤ میں نہیں سہہ سکتا۔ آپ یقین مانئے میں اپنے اوپر بہت جبر کر رہا ہوں کہ لال بہاری کی گوشمالی نہیں کرتا۔‘‘
اب بینی مادھو بھی گرمائے۔ یہ کفر زیادہ نہ سن سکے بولے، ’’لال بہاری تمہارا بھائی ہے۔ اس سے جب کبھی بھول چوک ہو۔ تم اس کے کان پکڑو۔ مگر۔۔۔‘‘
سری کنٹھ، ’’لال بہاری کو میں اب اپنا بھائی نہیں سمجھتا۔‘‘
بینی مادھو، ’’عورت کے پیچھے۔‘‘
سری کنٹھ، ’’جی نہیں! اس کی گستاخی اور بے رحمی کے باعث۔‘‘
دونوں آدمی کچھ دیر تک خاموش رہے۔ ٹھاکر صاحب لڑکے کا غصہ دھیما کرنا چاہتے تھے۔ مگر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ لال بہاری سے کوئی گستاخی یا بے رحمی وقوع میں آئی۔ اسی اثنا میں کئی اور آدمی حقہ تمباکو اڑانے کے لئے آ بیٹھے۔ کئی عورتوں نے جب سنا کہ سری کنٹھ بیوی کے پیچھے باپ سے آمادۂ جنگ ہیں تو ان کا دل بہت خوش ہوا اور طرفین کی شکوہ آمیز باتیں سننے کے لئے ان کی روحیں تڑپنے لگیں۔ کچھ ایسے حاسد بھی گاؤں میں تھے جو اس خاندان کی سلامت روی پر دل ہی دل میں جلتے تھے۔ سری کنٹھ باپ سے دبتا ہے۔ اس لئے وہ خطا وار ہے۔ اس نے اتنا علم حاصل کیا۔ یہ بھی اس کی خطا ہے۔ بینی مادھو سنگھ بڑے بیٹے کو بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ وہ بلا اس کی صلاح کے کوئی کام نہیں کرتے۔ یہ ان کی حماقت ہے۔ ان خیالات کے آدمیوں کی آج امیدیں بر آئیں۔ کوئی حقہ پینے کے بہانے سے، کوئی لگان کی رسید دکھانے کے حیلے سے آ آ کر بیٹھ گئے۔ بینی مادھو سنگھ پرانا آدمی تھا۔ سمجھ گیا۔ کہ آج یہ حضرات پھولے نہیں سماتے۔ اس کے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں خوش نہ ہونے دوں گا۔ خواہ اپنے اوپر کتنا ہی جبر ہو۔ یکا یک لہجۂ تقریر نرم کر کے بولے، ’’بیٹا! میں تم سے باہر نہیں ہوں۔ تمہارا جو جی چاہے کرو۔ اب تو لڑکے سے خطا ہو گئی۔‘‘
الہٰ آباد کا نوجوان، جھلایا ہوا گریجویٹ اس گھات کو نہ سمجھا۔ اپنے ڈیبیٹنگ کلب میں اس نے اپنی بات پر اڑنے کی عادت سکھی تھی۔ مگر عملی مباحثوں کے داؤ پیچ سے واقف نہ تھا۔ اس میدان میں وہ بالکل اناڑی نکلا۔ باپ نے جس مطلب سے پہلو بدلا تھا وہاں تک اس کی نگاہ نہ پہنچی۔ بولا، ’’میں لال بہاری سنگھ کے ساتھ اب اس گھر میں نہیں رہ سکتا۔‘‘
باپ، ’’بیٹا! تم عقلمند ہو۔ اور عقلمند آدمی گنواروں کی بات پر دھیان نہیں دیتا۔ وہ بے سمجھ لڑکا ہے اس سے جو کچھ خطا ہوئی ہے اسے تم بڑے ہو کر معاف کر دو۔‘‘
بیٹا، ’’اس کی یہ حرکت میں ہر گز معاف نہیں کر سکتا۔ یا تو وہی گھر میں رہے گا یا میں ہی رہوں گا۔ آپ کو اگر اس سے زیادہ محبت ہے تو مجھے رخصت کیجئے۔ میں اپنا بوجھ آپ اٹھا لوں گا۔ اگر مجھے رکھنا چاہتے ہو تو اس سے کہئیے جہاں چاہے چلا جائے۔ بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔‘‘
لال بہاری سنگھ دروازے کی چوکھٹ پر چپ چاپ کھڑا بڑے بھائی کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کا بہت ادب کرتا تھا۔ اسے کبھی اتنی جرأت نہ ہوئی تھی کہ سری کنٹھ کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جائے یا حقہ پی لے یا پان کھا لے۔ اپنے باپ کا بھی اتنا پاس و لحاظ نہ کرتا تھا۔ سری کنٹھ کو بھی اس سے دلی محبت تھی۔ اپنے ہوش میں انھوں نے کبھی اسے گھڑکا تک نہ تھا۔ جب الہٰ آباد سے آتے تو ضرور اس کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے۔ مگدر کی جوڑی انھوں نے ہی بنوا کر دی تھی۔ پچھلے سال جب اس نے اپنے سے ڈیوڑھے جوان کو ناگ پنچمی کے دنگل میں پچھاڑ دیا تو انھوں نے خوش ہو کر اکھاڑے ہی میں جا کر اسے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور پانچ روپے کے پیسے لٹائے تھے۔ ایسے بھائی کے منہ سے آج ایسی جگر دوز باتیں سن کر لال بہاری سنگھ کو بڑا ملال ہوا۔ اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ وہ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے فعل پر آپ نادم تھا۔ بھائی کے آنے سے ایک دن پہلے ہی سے اس کا دل ہر دم دھڑکتا تھا، کہ دیکھوں بھیا کیا کہتے ہیں۔ میں ان کے سامنے کیسے جاؤں گا۔ میں ان سے کیسے بولوں گا۔ میری آنکھیں ان کے سامنے کیسے اٹھیں گی۔ اس نے سمجھا تھا کہ بھیا مجھے بلا کر سمجھا دیں گے۔ اس امید کے خلاف آج وہ انھیں اپنی صورت سے بیزار پاتا تھا۔ وہ جاہل تھا مگر اس کا دل کہتا تھا کہ بھیا میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اگر سری کنٹھ اسے اکیلا بلا کر دو چار منٹ سخت باتیں کہتے بلکہ دو چار طمانچے بھی لگا دیتے تو شاید اسے اتنا ملال نہ ہوتا۔ مگر بھائی کا یہ کہنا کہ اب میں اس کی صورت سے نفرت رکھتا ہوں۔ لال بہاری سے نہ سہا گیا۔ وہ روتا ہوا گھر میں آیا اور کوٹھری میں جا کر کپڑے پہنے۔ پھر آنکھیں پونچھیں جس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ روتا تھا۔ تب آنندی دیوی کے دروازے پر آ کر بولا، ’’بھابی! بھیا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ اس گھر میں نہ رہیں گے۔ وہ اب میرا منہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس لئے اب میں جاتا ہوں۔ انہیں پھر منہ نہ دکھاؤں گا۔ مجھ سے جو خطا ہوئی ہے اسے معاف کرنا۔‘‘
یہ کہتے کہتے لال بہاری کی آواز بھاری ہو گئی۔
جس وقت لال بہاری سنگھ سر جھکائے آنندی کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اسی وقت سری کنٹھ بھی آنکھیں لال کئے باہر سے آئے۔ بھائی کو کھڑا دیکھا تو نفرت سے آنکھیں پھیر لیں اور کترا کر نکل گئے۔ گویا اس کے سائے سے بھی پرہیز ہے۔
آنندی نے لال بہاری سنگھ کی شکایت تو شوہر سے کی۔ مگر اب دل میں پچھتا رہی تھی۔ وہ طبعاً نیک عورت تھی اور اس کے خیال میں بھی نہ تھا کہ یہ معاملہ اس قدر طول کھینچے گا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کے اوپر جھنجھلا رہی تھی کہ اس قدر گرم کیوں ہو رہے ہیں۔ یہ خوف کہ کہیں مجھے الہٰ آباد چلنے کو نہ کہنے لگیں تو پھر میں کیا کروں گی، اس کے چہرے کو زرد کئے ہوئے تھا۔ اسی حالت میں جب اس نے لال بہاری کو دروازے پر کھڑے یہ کہتے سنا کہ اب میں جاتا ہوں۔ مجھ سے جو کچھ خطا ہوئی ہے معاف کرنا۔ تو اس کا رہا سہا غصہ بھی پانی ہو گیا۔ وہ رونے لگی۔ دلوں کا میل دھونے کے لئے آنسو سے زیادہ کار گر کوئی چیز نہیں ہے۔
سری کنٹھ کو دیکھ کر آنندی نے کہا، ’’لالہ باہر کھڑے ہیں۔ بہت رو رہے ہیں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’تو میں کیا کروں؟‘‘
آنندی، ’’اندر بلا لو۔ میری زبان کو آگ لگے۔ میں نے کہاں سے وہ جھگڑا اٹھایا۔‘‘
سری کنٹھ، ’’میں نہیں بلانے کا۔‘‘
آنندی، ’’پچھتاؤ گے۔ انہیں بہت گلان آ گئی ہے۔ ایسا نہ ہو۔ کہیں چل دیں۔‘‘
سری کنٹھ نہ اٹھے۔ اتنے میں لال بہاری نے پھر کہا، ’’بھابی! بھیا سے میرا سلام کہہ دو۔ وہ میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لئے میں بھی اپنا منہ انھیں نہ دکھاؤں گا۔‘‘
لال بہاری سنگھ اتنا کہہ کر لوٹ پڑا۔ اور تیزی سے باہر کے دروازے کی طرف جانے لگا۔ یکا یک آنندی اپنے کمرے سے نکلی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ لال بہاری نے پیچھے کی طرف تاکا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا، ’’مجھ کو جانے دو۔‘‘
آنندی، ’’کہاں جاتے ہو؟‘‘
لال بہاری، ’’جہاں کوئی میرا منہ نہ دیکھے۔‘‘
آنندی، ’’میں نہ جانے دوں گی۔‘‘
لال بہاری، ’’میں لوگوں کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
آنندی۔ ’’تمہیں میری قسم اب ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا۔‘‘
لال بہاری، ’’جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے گا کہ بھیا کے دل میں میری طرف سے کوئی تکلیف نہیں تب تک میں اس گھر میں ہر گز نہ رہوں گا۔‘‘
آنندی، ’’میں ایشور کی سوگندھ کھا کر کہتی ہوں کہ تمہاری طرف سے میرے دل میں ذرا بھی میل نہیں ہے۔‘‘
اب سری کنٹھ کا دل پگھلا۔ انہوں نے باہر آ کر لال کو گلے لگا لیا۔ اور دونوں بھائی خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ لال بہاری نے سسکتے ہوئے کہا، ’’بھیا! اب کبھی نہ کہنا کہ تمہارا منہ نہ دیکھوں گا۔ اس کے سوا جو سزا آپ دیں گے وہ میں خوشی سے قبول کروں گا۔‘‘
سری کنٹھ نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا، ’’للو ان باتوں کو بالکل بھول جاؤ۔ ایشور چاہے گا تو اب ایسی باتوں کا موقع نہ آئے گا۔‘‘
بینی مادھو سنگھ باہر سے آ رہے تھے۔ دونوں بھائیوں کو گلے ملتے دیکھ کر خوش ہو گئے اور بول اٹھے، ’’بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ بگڑتا ہوا کام بنا لیتی ہیں۔‘‘
گاؤں میں جس نے یہ واقعہ سنا۔ ان الفاظ میں آنندی کی فیاضی کی داد دی۔ ’’بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
٭٭٭