جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کر دی گئی تو لوگ دروازہ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔
چاروں طرف خیانت، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر لوگ صیغہ نمک کی برقندازی کرتے تھے۔ اور اس محکمہ کا داروغہ تو وکیلوں کے لیے بھی رشک کا باعث تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزی تعلیم اور عیسائیت مترادف الفاظ تھے۔ فارسی کی تعلیم سند افتخار تھی لوگ حسن اور عشق کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر اعلیٰ ترین مدارج زندگی کے قابل ہو جاتے تھے۔ منشی بنسی دھرنے بھی زلیخا کی داستان ختم کی اور مجنوں اور فرہاد کے قصہ غم کو دریافت امریکہ یا جنگ نیل سے عظیم تر واقعہ خیال کرتے ہوئے روز گار کی تلاش میں نکلے۔ ان کے باپ ایک جہاندیدہ بزرگ تھے سمجھانے لگے۔ ’’بیٹا! گھر کی حالت ذرا دیکھ رہے ہو۔ قرضے سے گردنیں دبی ہوئی ہیں۔ لڑکیاں ہیں وہ گنگا جمنا کی طرح بڑھتی چلی آ رہی ہیں۔ میں کگارے کا درخت ہوں نہ معلوم کب گر پڑوں تم ہی گھر کے مالک و مختار ہو۔ مشاہرے اور عہدے کا مطلق خیال نہ کرنا یہ تو پیر کا مزار ہے۔ نگاہ چڑھاوے اور چادر پر رکھنی چاہیے۔ ایسا کام ڈھونڈو جہاں کچھ بالائی رقم کی آمد ہو۔ ماہوار مشاہرہ پورنماشی کا چاند ہے۔ جو ایک دن دکھائی دیتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے غائب ہو جاتا ہے۔ بالائی رقم پانی کا بہتا ہوا سوتا ہے جس سے پیاس ہمیشہ بجھتی رہتی ہے۔ مشاہرہ انسان دیتا ہے اسی لیے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ بالائی رقم غیب سے ملتی ہے اسی لیے اس میں برکت ہوتی ہے۔ اور تم خود عالم و فاضل ہو تمھیں کیا سمجھاؤں یہ معاملہ بہت کچھ ضمیر اور قیافے کی پہچان پر منحصر ہے۔ انسان کو دیکھو، موقع دیکھو اور خوب غور سے کام لو۔ غرض مند کے ساتھ ہمیشہ بے رحمی اور بے رخی کر سکتے ہو لیکن بے غرض سے معاملہ کرنا مشکل کام ہے۔ ان باتوں کو گرہ باندھ لو، یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہیں۔‘‘
بزرگانہ نصیحتوں کے بعد کچھ دعائیہ کلمات کی باری آئی۔ بنسی دھرنے سعادت مند لڑکے کی طرح یہ باتیں بہت توجہ سے سنیں اور تب گھر سے چل کھڑے ہوئے۔ اس وسیع دنیا میں جہاں اپنا استقلال، اپنا رفیق، اپنی ہمت، اپنا مددگار اور اپنی کوشش اپنا مربی ہے لیکن اچھے شگون سے چلے تھے خوبی قسمت ساتھ تھی صیغۂ نمک کے داروغہ مقرر ہو گئے۔ مشاہرہ معقول بالائی رقم کا کچھ ٹھکانہ نہ تھا۔ بوڑھے منشی جی نے خط پایا تو باغ باغ ہو گئے۔ کلوار کی تسکین و تشفی کی سند لی۔ پڑوسیوں کو حسد ہوا اور مہاجنوں کی سخت گیریاں مائل بہ نرمی ہو گئیں۔
جاڑے کے دن تھے رات کا وقت نمک کے برقنداز چوکیدار شراب خانے کے دربان بنے ہوئے تھے۔ بنشی دھر کو ابھی یہاں آئے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے لیکن اس عرصے میں ان کی فرض شناسی اور دیانت نے افسروں کا اعتبار اور پبلک کی بے اعتباری حاصل کر لی تھی۔
نمک کے دفتر سے ایک میل پورب کی جانب جمنا ندی بہتی تھی اور اس پر کشتیوں کی ایک گذر گاہ بنی ہوئی تھی۔ داروغہ صاحب کمرہ بند کیے ہوئے میٹھی نیند سوتے تھے۔ یکایک آنکھ کھلی تو ندی کے میٹھے سہانے راگ کے بجائے گاڑیوں کا شور و غل اور ملاحوں کی بلند آوازیں کان میں آئیں۔ اٹھ بیٹھے، اتنی رات گئے کیوں گاڑیاں دریا کے پار جاتی ہیں اگر کچھ دغا نہیں ہے تو اس پردۂ تاریک کی ضرورت کیوں؟ شبہ کو استدلال نے ترقی دی۔ وردی پہنی، طمنچہ جیب میں رکھا اور آن کی آن میں گھوڑا بڑھائے ہوئے دریا کے کنارے آ پہنچے۔ دیکھا تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار زلف محبوب سے بھی زیادہ طولانی پل سے اتر رہی ہے۔ حاکمانہ انداز سے بولے۔
’’کس کی گاڑیاں ہیں؟‘‘
تھوڑی دیر تک سناٹا رہا آدمیوں میں کچھ سرگوشیاں ہوئیں۔ تب اگلے گاڑی بان نے جواب دیا۔ ’’پنڈت الوپی دین کی۔‘‘
’’کون پنڈت الوپی دین؟‘‘
’’داتا گنج کے۔‘‘
منشی بنسی دھر چونکے۔ الوپی دین اس علاقے کا سب سے بڑا اور ممتاز زمیندار تھا لاکھوں کی ہنڈیاں چلتی تھیں، غلے کا کاروبار الگ۔ بڑا اثر، بڑا حکام رس، بڑے بڑے انگریز افسر اس کے علاقے میں شکار کھیلنے آتے اور اس کے مہمان ہوتے۔ بارہ مہینے سدا برت چلتا تھا۔ پوچھا کہاں جائیں گی۔ جواب ملا کہ کان پور لیکن اس سوال پر کہ ان میں ہے کیا؟ ایک خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور داروغہ صاحب کا شبہ یقین کے درجہ تک پہنچ گیا۔ جواب کے ناکام انتظار کے بعد ذرا زور سے بولے۔ ’’کیا تم سب گونگے ہو گئے۔ ہم پوچھتے ہیں ان میں کیا لدا ہے؟‘‘
جب اب کے بھی کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے گھوڑے کو ایک گاڑی سے ملا دیا اور ایک بورے کو ٹٹولا۔ شبہ یقین سے ہم آغوش تھا، یہ نمک کے ڈھیلے تھے۔
پنڈت الوپی دین اپنے سجیلے رتھ پر سوار کچھ سوتے کچھ جاگتے چلے آتے تھے۔ کہ کئی گھبرائے ہوئے گاڑی بانوں نے آ کر جگایا اور بولے۔ ’’مہاراج دروگا نے گاڑیاں روک دیں اور گھاٹ پر کھڑے آپ کو بلاتے ہیں۔‘‘
پنڈت الوپی دین کو مبلغ علیہ السلام کی طاقت کا پورا پورا اور عملی تجربہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کا ذکر ہی کیا۔ دولت کا سکہ بہشت میں بھی رائج ہے اور ان کا یہ قول بہت صحیح تھا۔ قانون اور حق و انصاف یہ سب دولت کے کھلونے ہیں جن سے وہ حسب ضرورت اپنا جی بلا یا کرتی ہے۔ لیٹے لیٹے امیرانہ بے پروائی سے بولے۔ اچھا چلو ہم آتے ہیں یہ کہہ کر پنڈت جی نے بہت اطمینان سے پان کے بیڑے لگائے اور تب لحاف اوڑھے ہوئے داروغہ جی کے پاس آ کر بے انداز سے بولے۔ ’’بابوجی اشیرباد۔ ہم سے کیا ایسی خطا ہوئی کہ گاڑیاں روک دی گئیں۔ ہم برہمنوں پر تو آپ کی نظر عنایت ہی رہنی چاہیے۔‘‘
بنسی دھر نے الوپی دین کو پہچانا۔ بے اعتنائی سے بولے۔ ’’سرکاری حکم۔‘‘ الوپی دین نے ہنس کر کہا۔ ’’ہم سرکاری حکم کو نہیں جانتے اور نہ سرکار کو۔ ہمارے سرکار تو آپ ہی ہیں ہمارا اور آپ کا تو گھر کا معاملہ ہے کبھی آپ سے باہر ہو سکتے ہیں۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ادھر سے جائیں اور اس گھاٹ کے دیوتا کو بھینٹ نہ چڑھائیں۔ میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔‘‘
بنسی دھر پر دولت کی ان شیریں زبانیوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ دیانت داری کا تازہ جوش تھا۔ کڑک کر بولے۔ ’’ہم ان نمک حراموں میں نہیں ہیں جو کوڑیوں پر اپنا ایمان بیچتے پھرتے ہیں۔ آپ اس وقت حراست میں ہیں صبح کو آپ کا باقاعدہ چالان ہو گا۔ بس مجھے زیادہ باتوں کی فرصت نہیں ہے۔ جمعدار بدلو سنگھ۔ تم انہیں حراست میں لے لو۔ میں حکم دیتا ہوں۔‘‘
پنڈت الوپی دین اور اس کے ہوا خواہوں اور گاڑی بانوں میں ایک ہلچل مچ گئی یہ شاید زندگی میں پہلا موقع تھا کہ پنڈت جی کو ایسی ناگوار باتوں کے سننے کا اتفاق ہوا۔ بدلو سنگھ آگے بڑھا لیکن فرط رعب سے ہمت نہ پڑی کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکے۔ الوپی دین نے بھی فرض کو دولت سے ایسا بے نیاز اور ایسا بے غرض کبھی نہ پایا تھا۔ سکتے میں آ گئے۔ خیال کیا کہ یہ ابھی طفل مکتب ہے دولت کے ناز و انداز سے مانوس نہیں ہوا۔ الھڑ ہے جھجکتا ہے۔ زیادہ ناز برداری کی ضرورت ہے۔ بہت مسکرانہ انداز سے بولے۔ ’’بابو صاحب ایسا ظلم نہ کیجیے ہم مٹ جائیں گے۔ عزت خاک میں مل جائے گی۔ آخر آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ بہت ہوا تھوڑا سا انعام و اکرام مل جائے گا ہم کسی طرح آپ سے باہر تھوڑا ہی ہیں۔‘‘
بنسی دھر نے سخت لہجہ میں کہا۔ ’’ہم ایسی باتیں سننا نہیں چاہتے۔‘‘
الوپی دین نے جس سہارے کو چٹان سمجھ رکھا تھا وہ پاؤں کے نیچے سے کھسکتا ہوا معلوم ہوا۔ اعتماد نفس اور غرور دولت کو صدمہ پہنچا، لیکن ابھی تک دولت کی تعدادی قوت کا پورا بھروسہ تھا۔ اپنے مختار سے بولے۔ ’’لالہ جی ایک ہزار کا نوٹ بابو صاحب کی نظر کرو۔ آپ اس وقت بھوکے شیر ہو رہے ہیں۔‘‘
بنسی دھر نے گرم ہو کر کہا۔ ’’ ہزار نہیں مجھے ایک لاکھ بھی فرض کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘
دولت فرض کی اس خام کارانہ جسارت اور اس زاہدانہ نفس کشی پر جھنجھلائی اور اب ان دونوں طاقتوں کے درمیان بڑے معرکہ کی کش مکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کھا کر مایوسانہ جوش کے ساتھ کئی حملے کیے۔ ایک سے پانچ ہزار تک، پانچ سے دس ہزار تک دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس ہزار تک نوبت پہنچی لیکن فرض مردانہ ہمت کے ساتھ اس سپاہ عظیم کے مقابلے میں یکہ و تنہا پہاڑ کی طرح اٹل کھڑا تھا۔
الوپی دین مایوسانہ انداز سے بولے۔ ’’اس سے زیادہ میری ہمت نہیں۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ بنسی دھر نے اپنے جمعدار کو للکارا۔ بدلو سنگھ دل میں داروغہ جی کو گالیاں دیتا ہوا الوپی دین کی طرف بڑھا، پنڈت جی گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہو گئے اور نہایت منت آمیز بے کسی کے ساتھ بولے۔ ’’بابو صاحب ایشور کے لیے مجھ پر رحم کیجیے میں پچیس ہزار پر معاملہ کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
’’غیر ممکن۔‘‘
’’تیس ہزار۔‘‘
’’غیر ممکن۔‘‘
’’کیا چالیس ہزار بھی ممکن نہیں؟‘‘
’’چالیس ہزار نہیں چالیس لاکھ بھی غیر ممکن۔ بدلو سنگھ اس شخص کو فوراً حراست میں لے لو میں اب ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔‘‘
فرض نے دولت کو پاؤں تلے کچل ڈالا۔ الوپی دین نے ایک قوی ہیکل جوان کو ہتھکڑیاں لیے ہوئے دیکھا۔ چاروں طرف مایوسانہ نگاہیں ڈالیں اور تب غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔
دنیا سوتی تھی مگر دنیا کی زبان جاگتی تھی۔ صبح ہوئی تو یہ واقعہ بچے بچے کی زبان پر تھا اور ہر گلی کوچے سے ملامت اور تحقیر کی صدائیں آتی تھیں۔ گویا دنیا میں اب گناہ کا وجود نہیں رہا۔ پانی کو دودھ کے نام سے بیچنے والے حکام سرکار، ٹکٹ کے بغیر ریل پر سفر کرنے والے بابو صاحبان اور جعلی دستاویزیں بنانے والے سیٹھ اور ساہوکار یہ سب پارساؤوں کی طرح گردنیں ہلاتے تھے اور جب دوسرے دن پنڈت الوپی دین کا مواخذہ ہوا اور وہ کانسٹبلوں کے ساتھ شرم سے گردن جھکائے ہوئے عدالت کی طرف چلے۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، دل میں غصہ و غم تو سارے شہر میں ہلچل سی مچ گئی۔ ملویں میں بھی شاید شوق نظارہ ایسی امنگ پر نہ آتا ہو، کثرت ہجوم سے سقف و دیوار میں تمیز کرنا مشکل تھا۔
مگر عدالت میں پہنچنے کی دیر تھی۔ پنڈت الوپی دین اس قلزم نا پید کنارے کے نہنگ تھے۔ حکام ان کی قدرشناس، عملے ان کے نیاز مند، وکیل اور مختار ان کے ناز بردار۔ اور اردلی، چپراسی اور چوکیدار تو ان کے درم خریدہ غلام تھے۔ انہیں دیکھتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑے۔ ہر شخص حیرت سے انگشت بدنداں تھا اس لیے نہیں کہ الوپی دین نے کیوں ایسا فعل کیا، بلکہ وہ کیوں قانون کے پنجے میں آئے، ایسا شخص جس کے پاس محال کو ممکن کرنے والی دولت اور دیوتاؤں پر جادو ڈالنے والی چرب زبانی ہو۔ کیوں قانون کا شکار بنے حیرت کے بعد ہمدردی کے اظہار ہونے لگے۔
فوراً اس حملے کو روکنے کے لیے وکیلوں کا ایک دستہ تیار کیا گیا۔ اور انصاف کے میدان میں فرض اور دولت کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ بنسی دھر کھڑے تھے۔ یکہ و تنہا سچائی کے سوا کچھ پاس نہیں۔ صاف بیانی کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں۔ استغاثہ کی شہادتیں ضرور تھیں لیکن ترغیبات سے ڈانوا ڈول۔ حتی کہ انصاف بھی کچھ ان کی طرف کھچا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ضرور سچ ہے کہ انصاف سیم و زر سے بے نیاز ہے لیکن پردے میں وہ اشتیاق ہے جو ظہور میں ممکن نہیں۔ دعوت اور تحفے کے پردے میں بیٹھ کر دولت زاہد فریب بن جاتی ہے۔ وہ عدالت کا دربار تھا لیکن اس کے ارکان پر دولت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ مقدمہ بہت جلد فیصل ہو گیا۔ ڈپٹی مجسٹریٹ نے تجویز لکھی۔ پنڈت الوپی دین کے خلاف شہادت نہایت کمزور اور مہمل ہے۔ وہ ایک صاحب ثروت رئیس تھے یہ غیر ممکن ہے کہ وہ محض چند ہزار کے فائدے کے لیے ایسی کمینہ حرکت کے مرتکب ہو سکتے۔ داروغہ صاحب نمک منشی بنسی دھر پر اگر زیادہ نہیں تو ایک افسوس ناک غلطی اور خام کارانہ سر گرمی کا الزام ضرور عائد ہوتا ہے۔
ہم خوش ہیں کہ وہ ایک فرض شناس نوجوان ہیں لیکن صیغۂ نمک کی اعتدال سے بڑھی ہوئی نمک حلالی نے اس کے امتیاز ادراک کو مغلوب کر دیا ہے۔ اسے آئندہ ہوشیار رہنا چاہیے۔
وکیلوں نے یہ تجویز سنی اور اچھل پڑے۔ پنڈت الوپی دین مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ حوالیوں نے روپے برسائے، سخاوت اور فراخ حوصلگی کا سیلاب آ گیا اور اس کی لہروں نے عدالت کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ جب بنسی دھر عدالت سے باہر نکلے نگاہیں غرور سے لبریز، تو طعن اور تمسخر کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگیں۔ چپراسیوں اور برقندازوں نے جھک کر سلام کیے لیکن اشارہ اس وقت اس نشۂ غرور پر ہوائے سرد کا کام کر رہا تھا۔ شاید مقدمے میں کامیاب ہو کر وہ شخص اس طرح اکڑتا ہوا نہ چلتا۔ دنیا نے اسے پہلا سبق دے دیا تھا۔ انصاف علم اور پنچ حرفی خطابات اور لمبی داڑھیاں اور ڈھیلے ڈھالے چغے ایک بھی حقیقی عزت کے مستحق نہیں۔
لیکن بنسی دھر نے ثروت اور رسوخ سے بیر مول لیا تھا۔ اس کی قیمت دینی واجبی تھی۔ مشکل سے ایک ہفتہ گذرا ہو گا کہ معطلی کا پروانہ آ پہنچا۔ فرض شناسی کی سزا ملی۔ بیچارے دل شکستہ اور پریشان حال اپنے وطن کو روانہ ہوئے۔ بوڑھے منشی جی پہلے ہی سے بد ظن ہو رہے تھے کہ چلتے چلتے سمجھایا تھا مگر اس لڑکے نے ایک نہ سنی۔ ہم تو کلوار اور بو چڑ کے تقاضے سہیں، بڑھاپے میں بھگت بن کر بیٹھیں اور وہاں بس وہی سوکھی تنخواہ۔ آخر ہم نے بھی نوکری کی ہے اور کوئی عہدہ دار نہیں تھے لیکن جو کام کیا دل کھول کر کیا اور آپ دیانتدار بننے چلے ہیں۔ گھر میں چاہے اندھیرا رہے مسجد میں ضرور چراغ جلائیں گے۔ تف ایسی سمجھ پر، پڑھانا لکھانا سب اکارت گیا۔ اسی اثنا بنسی دھر خستہ حال مکان پر پہنچے اور بوڑھے منشی جی نے روداد سنی تو سر پیٹ لیا اور بولے۔ ’’جی چاہتا ہے اپنا اور تمہارا سر پھوڑ لوں۔‘‘ بہت دیر تک پچھتاتے اور کف افسوس ملتے رہے۔ غصے میں کچھ سخت وسست بھی کہا اور بنسی دھر وہاں سے ٹل نہ جاتے تو عجب نہ تھا کہ یہ غصہ عملی صورت اختیار کر لیتا۔ بوڑھی اماں کو بھی صدمہ ہوا، جگن ناتھ اور رامیشور کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور بیوی نے کئی دن تک سیدھے منہ بات نہیں کی۔
اس طرح اپنے بیگانوں کی ترش روئی اور بیگانوں کی دل دوز ہمدردیاں سہتے سہتے ایک ہفتہ گزر گیا۔ شام کا وقت تھا بوڑھے منشی رام نام کی مالا پھیر رہے تھے کہ ان کے دروازے پر ایک سجا ہوا رتھ آ کر رکا۔ سبز اور گلابی رنگ کے پردے، پچھائیں نسل کے بیل ان کی گردنوں میں نیلے دھاگے سینگ پیتل سے منڈے ہوئے۔ منشی جی پیشوائی کو دوڑے۔ دیکھا تو پنڈت الوپی دین ہیں۔ جھک کر سلام کیا اور مدبرانہ درافشانیاں شروع کیں۔ آپ کو کون سا منہ دکھائیں۔ منہ میں کالک لگی ہوئی ہے مگر کیا کریں لڑکا نالائق ہے نا خلف ہے ورنہ آپ سے کیوں منہ چھپاتے، ایشور بے چراغ رکھے مگر ایسی اولاد نہ دے۔ بنسی دھر نے الوپی دین کو دیکھا مصافحہ کیا۔ لیکن شان خود داری لیے ہوئے۔ فوراً گمان ہوا یہ حضرت مجھے جلانے آئے ہیں۔ زبان شرمندۂ معذرت نہیں ہوئی۔ اپنے والد بزرگوار کا خلوص رواں سخت ناگوار گزرا۔ یکایک پنڈت جی نے قطع کلام کیا۔ ’’نہیں بھائی صاحب ایسا نہ فرمائیے۔‘‘
بوڑھے منشی جی کی قیافہ شناسی نے فوراً جواب دے دیا۔ انداز حیرت سے بولے۔ ’’ایسی اولاد کو اور کیا کہوں۔‘‘
الوپی دین نے کسی قدر جوش سے کہا۔ ’’فخر خاندان اور بزرگوں کا نام روشن کرنے والا ایسا سپوت لڑکا پا کر پرماتما کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایسے کتنے انسان ہیں جو دیانت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تیار ہوں۔ داروغہ جی! اسے زمانہ سازی نہ سمجھیے۔ زمانہ سازی کے لیے مجھے یہاں تک تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس رات کو آپ نے مجھے حکومت کے زور سے حراست میں لیا تھا آج میں خود بخود آپ کی حراست میں آیا ہوں۔ میں نے ہزاروں رئیس اور امیر دیکھے، ہزاروں عالی مرتبہ حکام سے سابقہ پڑا۔ لیکن مجھے زیر کیا تو آپ نے، میں نے سب کو اپنا اور قیمتی دولت کا غلام بنا کر چھوڑ دیا۔ مجھے اجازت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کروں؟‘‘
بنسی دھر کو ان باتوں سے کچھ خلوص کی بو آئی۔ پنڈت جی کے چہرے کی طرف اڑتی ہوئی مگر تلاش کی نگاہ سے دیکھا۔ صداقت کی گاڑھی گاڑھی جھلک نظر آئی۔ غرور نے ندامت کو راہ دی۔ شرماتے ہوئے بولے۔ ’’یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے، فرض نے مجھے آپ کی بے ادبی کرنے پر مجبور کیا ورنہ میں تو آپ کی خاک پا ہوں جو آپ کا ارشاد ہو گا بحد امکان اس کی تعمیل میں عذر نہ کروں گا۔‘‘
الوپی دین کی التجا آمیز نگاہوں نے اسے دیکھ کر کہا۔ ’’دریا کے کنارے آپ نے میرا سوال رد کر دیا تھا لیکن یہ سوال پورا کرنا پڑے گا۔‘‘
بنسی دھر نے جواب دیا۔ ’’میں کس قابل ہوں لیکن مجھ سے جو کچھ ناچیز خدمت ہو سکے گی اس میں دریغ نہ ہو گا۔‘‘
الوپی دین نے ایک قانونی تحریر نکالی اور اسے بنسی دھر کے سامنے رکھ کر بولے۔ ’’اس مختار نامے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس پر دستخط کیجیے۔ میں برہمن ہوں جب تک یہ سوال پورا نہ کیجیے گا دروازے سے نہ ٹلوں گا۔‘‘
منشی بنسی دھر نے مختار نامے کو پڑھا تو شکریہ کے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔ پنڈت الوپی دین نے انہیں اپنی ساری ملکیت کا مختار عام قرار دے دیا تھا۔ چھ ہزار سالانہ تنخواہ، جیب خرچ کے لیے۔ روزانہ خرچ الگ، سواری کے لیے گھوڑے، اختیارات غیر محدود، کانپتی ہوئی آواز سے بولے۔ ’’پنڈت جی میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ مجھے آپ نے بیکراں عنایات کے قابل سمجھا لیکن میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ میں اتنے اعلیٰ رتبے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
الوپی دین بولے۔ ’’اپنے منہ سے اپنی تعریف نہ کیجیے۔‘‘
بنسی دھر نے متین آواز سے کہا۔ ’’یوں میں آپ کا غلام ہوں آپ جیسے نورانی اوصاف بزرگ کی خدمت کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے لیکن مجھ میں نہ علم ہے نہ فراست نہ تجربہ ہے جوان خامیوں پر پردہ ڈال سکے۔ ایسی معزز خدمات کے لیے ایک بڑے معاملہ فہم اور کار کردہ منشی کی ضرورت ہے۔‘‘
الوپی دین نے قلمدان سے قلم نکالا اور بنسی دھر کے ہاتھ میں دے کر بولے۔ ’’مجھے نہ علم کی ضرورت ہے نہ فراست کی نہ کار کردگی کی اور نہ معاملہ فہمی کی۔ ان سنگ ریزوں کے جوہر میں بار بار پرکھ چکا ہوں اب حسن تقدیر اور حسن اتفاق نے مجھے وہ بے بہا موتی دے دیا ہے جس کی آپ کے سامنے علم اور فراست کی چمک کوئی چیز نہیں۔ یہ قلم حاضر ہے زیادہ تامل نہ کیجیے، اس پر آہستہ سے دستخط کیجیے۔ میری پرماتما سے یہی التجا ہے کہ آپ کو سدا وہی ندی کے کنارے والا بے مروت، سخت زبان تند مزاج لیکن فرض شناس داروغہ بنائے رکھے۔‘‘
بنسی دھر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ دل کی تنگ ظروف میں اتنا احساس نہ سما سکا۔ پنڈت الوپی دین کی طرف ایک بار پھر عقیدت اور پرستش کی نگاہ سے دیکھا اور مختار نامے پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔ الوپی دین فرط مسرت سے اچھل پڑے اور انہیں گلے لگا لیا۔
٭٭٭