صبح کا وقت تھا۔ ٹھاکر درشن سنگھ کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ آج رات کو چندر گرہن ہونے والا تھا۔ ٹھاکر صاحب اپنی بوڑھی ٹھکرائن کے ساتھ گنگا جی جاتے تھے۔ اس لیے سارا گھر ان کی پر شور تیاری میں مصروف تھا۔ ایک بہو ان کا پھٹا ہوا کرتا ٹانک رہی تھی۔ دوسری بہو ان کی پگڑی لیے سوچتی تھی کہ کیوں کر اس کی مرمت کروں۔ دونوں لڑکیاں ناشتہ تیار کرنے میں محو تھیں۔ جو زیادہ دلچسپ کام تھا۔ اور بچوں نے اپنی عادت کے موافق ایک کہرام مچ رکھا تھا۔ کیوں کہ ہر ایک آنے جانے کے موقع پر ان کا جوش گریۂ امنگ پر ہوتا تھا جانے کے وقت ساتھ جانے کے لیے روتے۔ آنے کے وقت اس لیے روتے کہ شیرینی کی تقسیم خاطر خواہ نہیں ہوئی۔ بوڑھی ٹھکرائن بچوں کو پھسلاتی تھیں۔ اور بیچ بیچ میں اپنی بہوؤں کو سمجھاتی تھیں، دیکھو خبردار جب تک آگرہ نہ ہو جائے گھر سے باہر نہ نکلنا۔ ہنسیا، چھری، کلہاڑی ہاتھ سے مت چھونا سمجھائے دیتی ہوں۔ ماننا چاہے نہ ماننا۔ تمھیں میری بات کی کون پرواہ ہے۔ منہ میں پانی کی بوند نہ پڑے۔ نارائن کے گھر بپت پڑی ہے جو سادھو بھکاری دروازہ پر آ جائے۔ اسے پھیرنا مت۔ بہوؤں نے سنا۔ اور نہیں سنا۔ وہ منا رہی تھیں کہ کسی طرح یہاں سے ٹلیں۔ پھاگن کا مہینہ ہے۔ گانے کو ترس گئے آج خوب گانا بجانا ہو گا۔
ٹھاکر صاحب تھے تو بوڑھے۔ لیکن ضعف کا اثر دل تک نہیں پہنچا تھا۔ انھیں اس بات کا گھمنڈ تھا کہ کوئی گہن بغیر گنگا اشنان کے نہیں چھوٹا۔ ان کی علمی قابلیت حیرت انگیز تھی۔ صرف پتروں کو دیکھ کر مہینوں پہلے سورج گرہن اور دوسری تقریبوں کے دن بتا دیتے تھے۔ اس لیے گاؤں والوں کی نگاہ میں ان کی عزت اگر پنڈتوں سے زیادہ نہ تھی تو کم بھی نہ تھی۔ جوانی میں کچھ دنوں فوجی ملازمت بھی کی تھی۔ اس کی گرمی اب تک باقی تھی۔ مجال نہ تھی کہ کوئی ان کی طرف تیکھی آنکھ سے دیکھ سکے۔ ایک مذکورہ چپراسی کو ایسی علمی تنبیہ کی تھی جس کی نظیر قرب و جوار کے دس پانچ گاؤں میں بھی نہیں مل سکتی۔ ہمت اور حوصلہ کے کاموں میں اب بھی پیش قدمی کر جاتے تھے کسی کام کو مشکل بنا دینا۔ ان کی ہمت کو تحریک دیتا تھا۔ جہاں سب کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں وہ شیروں کی طرح گرجتے تھے۔ جب کھبی گاؤں میں داروغہ جی تشریف لاتے تو ٹھاکر صاحب ہی کا دل گردہ تھا کہ ان سے آنکھیں ملا کر دوبدو بات کر سکیں۔ عالمانہ مباحثہ کے میدان میں بھی ان کے کارنامے کچھ کم نہ تھے۔ جھگڑالو پنڈت ہمیشہ ان سے منہ چھپایا کرتے تھے۔ غرض ٹھاکر صاحب کی جبلی رعونت اور اعتماد و نفس انھیں ہر بات میں دولہا بننے پر مجبور کر دیتی تھی۔ ہاں کمزوری اتنی تھی کہ اپنی آلہا بھی آپ ہی گا لیتے۔ اور مزے لے لے کر۔ کیوں کہ تصنیف کو مصنف ہی خوب بیان کرتا ہے۔
جب دوپہر ہوتے ہوتے ٹھاکر اور ٹھکرائن گاؤں سے چلے تو سینکڑوں آدمی ان کے ساتھ تھے۔ اور پختہ سڑک پر پہنچے۔ تو جاتریوں کا ایسا تانتا لگا ہوا تھا گویا کوئی بازار ہے۔ ایسے ایسے بوڑھے لاٹھیاں ٹیکتے یا ڈولیوں پر سوار چلے جاتے تھے۔ جنھیں تکلیف دینے کی ملک الموت نے بھی کوئی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اندھے دوسروں کی لکڑی کے سہارے قدم بڑھائے آتے تھے۔ بعض آدمیوں نے اپنی بوڑھی ماتاؤں کو پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ کسی کے سر پر کپڑوں کا بقچہ، کسی کے کندھے پر لوٹا، ڈور کسی کے کندھے پر، اور کتنے ہی آدمیوں نے پیروں پر چیتھڑے لپیٹ لیے تھے۔ جوتے کہاں سے لائیں۔ مگر مذہبی جوش کی یہ برکت تھی کہ من کسی کا میلا نہ تھا۔ سب کے چہرے شگفتہ۔ ہنستے باتیں کرتے سرگرم رفتار سے کچھ عورتیں گا رہی تھیں۔
چاند سورج دونوں کے مالک
ایک دنا انھوں پر بنتی
ہم جانی ہم ہی پر بنتی
ایسا معلوم ہوتا تھا یہ آدمیوں کی ایک ندی تھی جو سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نالوں اور دھاروں کو لیتی ہوئی سمندر سے ملنے کے لیے جا رہی تھی۔
جب یہ لوگ گنگا کے کنارے پر پہنچے تو سہ پہر کا وقت تھا۔ لیکن میلوں تک کہیں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ اس شاندار نظارہ سے دلوں پر عقیدت اور احترام کا ایسا رعب ہوتا تھا کہ بے اختیار ’’گنگا ماتا جی کی جے‘‘ کی صدائیں بلند ہو جاتی تھیں۔ لوگوں کے اعتقاد اس ندی کی طرح امڈے ہوئے تھے۔ اور وہ ندی، وہ لہراتا ہوا نیل زار، وہ تشنہ کاموں کی پیاس بجھانے والی، وہ نامرادوں کی آس، وہ برکتوں کی دیوی، وہ پاکیزگی کا سر چشمہ، وہ مشت خاک کو پناہ دینے والی گنگا ہنستی تھی۔ مسکراتی تھی۔ اور اچھلتی تھی۔ کیا اس لیے کہ آج وہ اپنی عام عزت پر پھولی نہ سماتی تھی۔ یا اس لیے کہ وہ اچھل اچھل کر اپنے پریمیوں سے گلے ملنا چاہتی تھی۔ جواس کے درشنوں کے لیے منزلیں طے کر کے آئے تھے۔ اور اس کے لباس کی تعریف کس زبان سے ہو جس پر آفتاب نے درخشاں تارے ٹانکے تھے۔ اور جس کے کناروں کو اس کی کرنوں نے رنگ برنگ خوشنما اور متحرک پھولوں سے سجایا تھا۔
ابھی گہن لگنے میں گھنٹوں کی دیر تھی۔ لوگ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے کہیں مداریوں کے شعبدے تھے۔ کہیں چورن والوں کی شیوہ بیانیوں کے معجزے، کچھ لوگ مینڈھوں کی کشتی دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ ٹھاکر صاحب بھی اپنے چند معتقدوں کے ساتھ سیر کو نکلے۔ ان کی علو ہمتی نے گوارہ نہ کیا کہ ان عالمانہ دلچسپیوں میں شریک ہوں۔ یکایک انھیں ایک وسیع شامیانہ تنا ہوا نظر آیا۔ جہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ آدمیوں کا مجمع تھا۔ ٹھاکر صاحب نے اپنے ساتھیوں کو ایک کنارے کھڑا کر دیا۔ اور خود ایک معزورانہ انداز سے تاکتے ہوئے فرش پر جا بیٹھے۔ کیونکہ انھیں یقین تھا یہاں ان پر دہقانیوں کی نگاہ رشک پڑے گی۔ اور ممکن ہے ایسے نکتے بھی معلوم ہو جائیں جو معتقدین کو ہمہ دانی کا یقین دلانے میں کام دے سکیں۔
یہ اخلاقی جلسہ تھا دو ڈھائی ہزار آدمی بیٹھے ہوئے ایک شیریں بیاں مقرر کی تقریر سن رہے تھے۔ فیشنیبل لوگ زیادہ تر اگلی صفوں میں جلوہ افروز تھے۔ جنھیں سرگوشیوں کا اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا۔ کتنے ہی خوش پوش حضرات اس لیے مکدر نظر آتے تھے کہ ان کی بغل میں کمتر درجہ کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تقریر بظاہر دلچسپ تھی۔ وزن زیادہ تھا۔ اور چٹخارے کم۔ اس لیے تالیاں نہیں بجتی تھیں۔
حضرت نے واعظ نے دوران تقریر میں فرمایا۔
میرے پیارے دوستو! یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے اس سے زیادہ اہم ’’زیادہ نتیجہ خیز اور قوم کے لیے زیادہ مبارک کوئی فرض نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ان کے عادات و اخلاق کی حالت نہایت افسوس ناک ہے۔ مگر یقین مانیے یہ سب ہماری کرنی ہے۔ ان کی اس شرمناک تمدنی حالت کا ذمہ دار ہمارے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ اب اس کے سوا اس کا اور کوئی علاج نہیں ہے کہ ہم ان نفرت اور حقارت کو جو ان کی طرف سے ہمارے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ دھوئیں اور خوب مل کر دھوئیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ جو سیاہی کئی ہزار برسوں سے جمی ہوئی ہے۔ وہ آسانی سے نہیں مٹ سکتی جن لوگوں کے سائے سے ہم پرہیز کرتے آئے ہیں۔ جنھیں ہم نے حیوانوں سے بھی ذلیل سمجھ رکھا ہے۔ ان سے گلے ملنے میں ہم کو ایثار، ہمّت اور بے نفسی سے کام لینا پڑے گا۔ اس ایثار سے جو کرشن میں تھا۔ اس ہمت سے جو رام میں تھی۔ اس بے نفسی سے جو چیتن اور گووند میں تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آج ہی ان سے شادی کے رشتے جوڑیں یا ان کے نوالہ و پیالہ شریک ہوں مگر کیا یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ آپ ان کے ساتھ عام ہمدردی، عام انسانیت، عام اخلاق سے پیش آئیں۔؟ کیا یہ واقعی غیر ممکن امر ہے۔ آپ نے کبھی عیسائی مشنریوں کو دیکھا ہے؟ آہ! جب میں ایک اعلیٰ درجہ کی حسین، نازک اندام سیم تن لیڈی کو اپنی گود میں ایک سیاہ فام بچہ لیے ہوئے دیکھتا ہوں جس کے بدن پر پھوڑے ہیں۔ خون ہے اور غلاظت ہے۔ وہ نازنین اس بچے کو چومتی ہے پیار کرتی ہے۔ چھاتی سے لگاتی ہے تو میرا جی چاہتا ہے کہ اس دیوی کے قدموں پر سر رکھ دوں۔ اپنا نیچا پن اپنی فرومائیگی۔ اپنی جھوٹی بڑائی اپنی تنگ ظرفی مجھے کھبی اتنی صفائی سے نظر نہیں آتی۔ ان دیویوں کے لیے زندگی میں کیا کیا نعمتیں نہیں تھیں۔ خوشیاں آغوش کھولے ہوئے ان کی منتظر کھڑی تھیں۔ ان کے لیے دولت کی تن آسانیاں تھیں۔ محبت کی پر لطف دل آویز یاں تھیں۔ اپنے یگانوں اور عزیزوں کی ہمدردیاں تھیں اور اپنے پیارے وطن کی کشش تھی۔ لیکن ان دیویوں نے ان تمام نعمتوں ان تمام دنیوی برکتوں کو سچّی بے غرض خدمت پر قربان کر دیا ہے۔ وہ ایسی ملکوتی قربانیاں کر سکتی ہیں۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے اچھوت بھائیوں سے ہمدردی کا سلوک کر سکیں؟ کیا ہم واقعی ایسے پست ہمّت، ایسے بودے، ایسے بے رحم ہیں؟ اسے خوب سمجھ لیجئے کہ آپ ان کے ساتھ کوئی رعایت کوئی مہربانی نہیں کر رہے ہیں یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ یہ آپ ہی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس لیے میرے بھائیو اور دوستو! آئیے اس موقع پر شام کے وقت پوتر گنگا ندی کے کنارے، کاشی کے پوتر استھان میں ہم مضبوط دل سے عہد کریں کہ آج سے ہم اچھوتوں کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں گے ان کی تقریبوں میں شریک ہوں گے اور اپنی تقریبوں میں انھیں بلائیں گے۔ ان کے گلے ملیں گے اور انھیں اپنے گلے لگائیں گے ان کی خوشیوں میں خوش اور ان کے دردوں میں دردمند ہوں گے۔ اور چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چاہے طعنہ و تضحیک اور تحقیر کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے ہم اس عہد پر قائم رہیں گے آپ میں صد ہا پر جوش نوجوان ہیں جو بات کے دھنی اور ارادے کے مضبوط ہیں۔ کون یہ عہد کرتا ہے کون اپنی اخلاقی دلیری کا ثبوت دیتا ہے؟ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو جائے اور للکار کر کہے کہ ’’میں یہ پرتگیا کرتا ہوں اور مرتے دم تک اس پر قائم اور ثابت قدم رہوں گا۔‘‘
آفتاب گنگا کی گود میں جا بیٹھا تھا۔ اور ماں محبت اور غرور سے متوالی جوش سے امڈی ہوئی رنگ میں کیسر کو شرماتی اور چمک میں سونے کو لجاتی تھی۔ چاروں طرف ایک رعب افزا خاموشی چھائی تھی۔ اس سنّاٹے میں سنیاسی کی گرمی اور حرارت سے بھری باتیں گنگا کی لہروں اور آسمان سے سر ٹکرانے والے مندروں میں سماگئیں۔ گنگا ایک متین اور مادرانہ مایوسی کے ساتھ ہنسی اور دیوتاؤں نے افسوس سے سر جھکا لیا۔ مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔
سنیاسی کی صدائے بلند فضا میں جا کر غائب ہو گئی۔ مگر مجمع میں کسی شخص کے دل تک نہ پہنچی۔ وہاں قومی فدائیوں کی کمی نہ تھی اسٹیجوں تماشے کھیلے والے کالجوں کے ہونہار نوجوان قوم کے نام پر مٹنے والے اخبار نویس، قومی جماعتوں کے ممبر، سکریٹری اور پریسیڈنٹ، رام اور کرشن کے سامنے سر جھکانے والے سیٹھ اور ساہوکار، قومی کا لجوں کے عالی حوصلہ پروفیسر اور اخباروں میں قومی ترقیوں کی خبریں پڑھ کر خوش ہونے والے دفتروں کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ آنکھوں پر سنہری عینکیں لگائے فربہ اندام اور خوش وضع وکیلوں کی ایک فوج آراستہ تھی۔ مگر سنیاسی کی اس آتشیں تقریر پر ایک دل بھی نہ پگھلا۔ کیوں کہ وہ پتھر کے دل تھے جن میں درد و گداز نہ تھا جن میں خواہش تھی مگر عمل نہ تھا جن میں بچوں کی سی خواہش تھی مگر مردوں کا ارادہ نہ تھا۔
ساری مجلس پر سکوت کا عالم طاری تھا۔ ہر شخص سر جھکائے فکر میں ڈوبا ہوا نظر آتا تھا۔ ندامت کسی کو سر اٹھا نے نہ دیتی تھی۔ اور آنکھیں خفت سے زمین میں گڑی ہوئی تھیں۔ یہ و ہی سر ہیں جو قومی چرچوں پر اچھل پڑتے تھے۔ یہ وہی آنکھیں ہیں جو کسی وقت قومی غرور کی سرخی سے لبریز ہو جاتی تھیں۔ مگر قول اور فعل میں آغاز اور انجام کا فرق ہے۔ ایک فرد کو بھی کھڑے ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ مقراض کی طرح چلنے والی زبانیں بھی ایسی عظیم الشان ذمہ داری کے خوف سے بند ہو گئیں۔
ٹھاکر درشن سنگھ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اس نظارہ کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے مذہبی عقائد میں چاہے راسخ ہوں یا نہ ہوں لیکن تمدنی معاملات میں وہ کبھی پیش قدمی کے خطاوار نہیں ہوئے تھے۔ اس پیچیدہ اور وحشت ناک راستے میں انھیں اپنی عقل و تمیز اور ادراک پر بھی بھروسہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں منطق اور استدلال کو بھی ان سے ہار ماننی پڑتی تھی۔ اس میدان میں وہ اپنے گھر کی مستورات کے حکم کی تعمیل کرنا ہی اپنا فرض سمجھتے تھے اور چاہے انھیں بذاتہ کسی معاملہ میں کوئی اعتراض بھی ہو۔ لیکن یہ نسوانی معاملہ تھا۔ اور اس میں وہ مداخلت نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ اس سے خاندانی نظام میں شورش اور تلاطم پیدا ہو جانے کا زبردست احتمال رہتا تھا۔ اگر اس وقت ان کے بعض سر گرم نوجوان دوست اس کمزوری پر انھیں آڑے ہاتھوں لیتے تو وہ بہت دانشمندی سے کہا کرتے تھے۔ بھئی یہ عورتوں کے معاملے ہیں۔ ان کا جیسا دل چاہتا ہے کرتی ہیں۔ میں بولنے والا کون ہوں۔ غرض یہاں ان کی فوجی گرم مزاجی ان کا ساتھ چھوڑ دیتی تھی۔ یہ ان کے لیے وادئ طلسم تھی جہاں ہوش وحواس مسخ ہو جاتے تھے اور کورانہ تقلید کا پیر تسمہ پا گردن پر سوار ہو جاتا تھا۔
لیکن یہ للکار سن کر وہ اپنے تئیں قابو میں نہ رکھ سکے۔ یہی وہ موقع تھا جب ان کی ہمتیں آسمان پر جا پہنچتی تھیں۔ جس بیڑے کو کوئی نہ اٹھائے اسے اٹھانا ان کا کام تھا۔ امتناع سے انھیں روحانی مناسبت تھی۔ ایسے موقعہ پر وہ نتیجہ اور مصلحت سے بغاوت کر جاتے تھے۔ اور ان کے اس حوصلہ میں حرص شہرت کو اتنا دخل نہیں تھا جتنا اپنی فطری میلان کو، ورنہ یہ غیر ممکن تھا کہ ایسے جلسے میں جہاں علم و تہذیب کی نمود تھی۔ اور جہاں طلائی عینکوں سے روشنی اور گوناگوں لباسوں سے فکر تاباں کی شعاعیں نکل رہی تھیں جہاں وضع کی نفاست سے رعب اور فربہی و دبازت سے وقار کی جھلک آتی تھی۔ وہاں ایک دہقانی کسان کو زبان کھولنے کا حوصلہ ہوتا۔ ٹھاکر نے اس نظارے کو غور اور دلچسپی سے دیکھا اس کے پہلو میں گدگدی سی ہوئی زندہ دلی کا جوش رگوں میں دوڑا، وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مردانہ لہجہ میں للکار کر بولا۔ ’’میں یہ پرتگیا کرتا ہوں اور مرتے دم تک اس پر قائم رہوں گا۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ دو ہزار آنکھیں اندازِ تحیّر سے اس کی طرف تاکنے لگیں سبحان اللہ کیا وضع تھی۔ گاڑھے کی ڈھیلی مرزائی۔ گھنٹوں تک چڑھی ہوئی دھوتی، سر پر ایک گرانبار الجھا ہوا صافہ، کندھے پر چنوٹی اور تمباکو کا وزنی بٹوا۔ مگر بشرے سے متانت اور استقلال نمایاں تھا۔ غرور آنکھوں کے تنگ ظرف سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ اس کے دل میں اب اس شاندار مجمع کی عزت باقی نہ رہی تھی۔ وہ اپنے پرانے وقتوں کا آدمی تھا۔ جو اگر پتھر کو پوجتا تھا تو اسی پتھر سے ڈرتا بھی تھا۔ جس کے لیے اکا و شی برت محض حفظ صحت کی ایک تدبیر اور گنگا محض صحت بخش پانی کا ذخیرہ نہ تھی۔ اس کے عقیدے میں بیدار مغزی نہ ہو لیکن شکوک نہیں تھے۔ غرض اس کا اخلاق پابند عمل تھا۔ اور اس کی بنیاد کچھ تقلید اور معاوضے پر تھی۔ مگر زیادہ تر خوف پر جو نور عرفاں کے بعد تہذیبِ نفس کی سب سے بڑی طاقت ہے، گیروے بانے کی عزت و احترام کرنا اس کے مذہب اور ایمان کا ایک جزو تھا۔ سنیاس میں اس کی روح کو اپنا فرمان گذار بنانے کی ایک زندہ طاقت چھپی ہوئی تھی۔ اور اس طاقت نے اپنا اثر دکھایا۔ لیکن مجمع کی اس حیرت نے بہت جلد تمسخر کی صورت اختیار کی۔ پر معنی نگاہیں آپس میں کہنے لگیں آخر گنوا رہی تو ٹھہرا۔ دہقانی ہے کبھی ایسی تقریریں کا ہے کوسنی ہوں گی۔ بس ابل پڑا اور اتھلے گڈھے میں اتنا پانی بھی نہ سما سکا۔ کون نہیں جانتا کہ ایسی تقریروں کا منشاء تفریح ہوتا ہے۔ دس آدمی آئے، اکٹھے بیٹھے کچھ سنا، کچھ گپ شپ ماری اور اپنے اپنے گھر لوٹے نہ یہ کہ قول و قرار کرنے بیٹھیں۔ عمل کرنے کے لیے قسمیں کھاتیں۔
مگر مایوس اور دل گرفتہ سنیاسی سوچ رہا تھا، افسوس! جس ملک کی روشنی میں اتنا اندھیرا ہے وہاں کبھی روشنی کا ظہور ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اس روشنی پر، اس اندھیری، مردہ اور بے جان روشنی پر میں جہالت کو ترجیح دیتا ہوں۔ جہالت میں صفائی ہے ہمّت ہے اس کے دل اور زبان میں پر دہ نہیں ہوتا۔ نہ قول اور فعل میں اختلاف، کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ علم جہالت کے سامنے سر جھکائے اس سارے مجمع میں صرف ایک شخص ہے جس کے پہلو میں مردوں کا دل ہے اور گوا سے بیدار مغزی کا دعویٰ نہیں۔ لیکن میں اس کی جہالت پر ایسی ہزاروں بیدار مغز یوں کو قربان کر سکتا ہوں تب وہ پلیٹ فارم سے نیچے اترے اور درشن سنگھ کو گلے سے لگا کر کہا۔ ’’ایشور تمھیں پرتگیا پر قائم رکھے۔‘‘
٭٭٭