ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے۔ اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔
جب سے لالہ ڈنگا مل نے نئی شادی کی ہے ان کی جوانی از سر نو عود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقید حیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے۔ صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے تھے۔ پھر کھانا کھا کرد کان چلے جاتے۔ وہاں سے ایک بجے رات کو لوٹتے اور تھکے ماندے سو جاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آ جایا کرو تو بگڑ جاتے۔ ’’تمہارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روز گار چھوڑ دوں۔ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے۔ آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے تب بھی ان کا منھ سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘ لیلا بے چاری خاموش ہو جاتی۔
ابھی چھ مہینے کی بات ہے۔ لیلا کو زور کا بخار تھا لالہ جی دکان پر چلنے لگے تو لیلا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’دیکھو میری طبیعت اچھی نہیں ہے ذرا سویرے آ جانا۔‘‘
لالہ جی نے پگڑی اتار کر کھونٹی پر لٹکا دی اور بولے۔ ’’اگر میرے بیٹھے رہنے سے تمہارا جی اچھا ہو جائے تو میں دکان نہ جاؤں گا۔‘‘
لیلا رنجیدہ ہو کر بولی۔ ’’میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم دکان نہ جاؤ۔ میں تو ذرا سویرے آ جانے کو کہتی ہوں۔‘‘
’’تو کیا میں دکان پر بیٹھا موج کرتا ہوں؟‘‘
لیلا کچھ نہ بولی۔ شوہر کی یہ بے اعتنائی اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ادھر کئی دن سے اس کا دل دوز تجربہ ہو رہا تھا کہ اس گھر میں اس کی قدر نہیں ہے۔ اگر اس کی جوانی ڈھل چکی تھی۔ تو اس کا کیا قصور تھا کس کی جوانی ہمیشہ رہتی ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ پچپن سال کی رفاقت اب ایک گہرے روحانی تعلق میں تبدیل ہو جاتی جو ظاہر سے بے نیاز رہتی ہے۔ جو عیب کو بھی حسن دیکھنے لگتی ہے، جو پکے پھل کی طرح زیادہ شیریں زیادہ خوشنما ہو جاتی ہے۔ لیکن لالہ جی کا تاجر دل ہر ایک چیز کو تجارت کے ترازو پر تولتا تھا۔ بوڑھی گائے جب نہ دودھ دے سکتی ہو نہ بچے تو اس کے لیے گؤ شالہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ان کے خیال میں لیلا کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر کی مالکن بنی رہے۔ آرام سے کھائے پہنے پڑی رہے۔ اسے اختیار ہے چاہے جتنے زیور بنوائے چاہے جتنی خیرات اور پوجا کرے روزے رکھے۔ صرف ان سے دور رہے۔ فطرت انسانی کی نیرنگیوں کا ایک کرشمہ یہ تھا کہ لالہ جی جس دلجوئی اور حظ سے لیلا کو محروم رکھنا چاہتے تھے۔ خود اسی کے لیے والہانہ سرگرمی سے متلاشی رہتے تھے۔ لیلا چالیس کی ہو کر بوڑھی سمجھ لی گئی تھی مگر وہ پینتالیس سال کے ہو کر ابھی جوان تھے۔ جوانی کے ولولوں اور مسرتوں سے بے قرار لیلا سے اب انہیں ایک طرح کی کراہیت ہوتی تھی اور وہ غریب جب اپنی خامیوں کے حسرتناک احساس کی وجہ سے فطری بے رحمیوں کے ازالے کے لیے رنگ و روغن کی آڑ لیتی تو وہ اس کی بوالہوسی سے اور بھی متنفر ہو جاتے۔ ’’چہ خوش۔ سات لڑکوں کی تو ماں ہو گئیں، بال کھچڑی ہو گئے چہرہ دھلے ہوئے فلالین کی طرح پر شکن ہو گیا۔ مگر آپ کو ابھی مہاور اور سیندور مہندی اور ابٹن کی ہوس باقی ہے۔ عورتوں کی بھی کیا فطرت ہے۔ نہ جانے کیوں آرائش پر اس قدر جان دیتی ہیں۔ پوچھو اب تمہیں اور کیا چاہیے؟ کیوں نہیں دل کو سمجھا لیتیں کہ جوانی رخصت ہو گئی اور ان تدبیروں سے اسے واپس نہیں بلایا جا سکتا۔‘‘ لیکن وہ خود جوانی کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ طبیعت جوانی سے سیر نہ ہوتی۔ جاڑوں میں کشتوں اور معجونوں کا استعمال کرتے رہتے تھے۔ ہفتہ میں دو بار خضاب لگاتے اور کسی ڈاکٹر سے بندر کے غدودوں کے استعمال سے متعلق خط و کتابت کر رہے تھے۔
لیلا نے انہیں شش و پنج کی حالت میں کھڑا دیکھ کر مایوسانہ انداز سے کہا ’’کچھ بتلا سکتے ہو کے بجے آؤ گے؟‘‘
لالہ جی نے ملائم لہجے میں کہا۔ ’’تمہاری طبیعت آج کیسی ہے؟‘‘
لیلا کیا جواب دے؟ اگر کہتی ہے بہت خراب ہے تو شاید یہ حضرت یہیں بیٹھ جائیں اور اسے جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بخار نکالیں۔ اگر کہتی ہے اچھی ہوں تو بے فکر ہو کر دو بجے رات کی خبر لائیں۔ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ’’اب تک تو اچھی تھی لیکن اب کچھ بھاری ہو رہی ہے۔ لیکن تم جاؤ دکان پر لوگ تمہارے منتظر ہوں گے۔ مگر ایشور کے لیے ایک دو نہ بجا دینا، لڑکے سو جاتے ہیں، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا، طبیعت گھبراتی ہے۔‘‘
سیٹھ جی نے لہجے میں محبت کی چاشنی دے کر کہا۔ ’’بارہ بجے تک آ جاؤں گا، ضرور۔‘‘
لیلا کا چہرہ اتر گیا۔ ’’دس بجے تک نہیں آ سکتے؟‘‘
’’ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے کسی طرح نہیں۔‘‘
’’ساڑھے دس بھی نہیں۔‘‘
’’اچھا گیارہ بجے۔‘‘
گیارہ پر مصالحت ہو گئی۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی۔ اب بچارے اس دعوت کوکیسے رد کرتے جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلاتا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس کی دعوت نا منظور کر دیں۔ وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں۔ آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں۔ محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہے آپ پر اس کی دعوت قبول کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ گھر کے جنجال سے کسے فرصت ہے ایک نہ ایک کام تو روز لگا ہی رہتا ہے۔ کبھی کوئی بیمار ہے، کبھی مہمان آئے ہیں، کبھی پوجا ہے، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ اگر آدمی یہ سوچے کہ گھر سے بے فکر ہو کر جائیں گے تو اسے سارے دوستانہ مراسم منقطع کر لینے پڑیں گے۔ اسے شاید ہی گھر سے کبھی فراغت نصیب ہو۔ لالہ جی مجرا سننے چلے گئے تو دو بجے لوٹے۔ آتے ہی اپنے کمرے کی گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دیں۔ لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ کی گنجائش کسی طرح نہ نکال سکے دو کو ایک تو کہہ سکتے ہیں گھڑی کی تیزی کے سر الزام رکھا جا سکتا ہے لیکن دو کو بارہ نہیں کہہ سکتے۔ چپکے سے آ کر نوکر کو جگایا کھانا کھا کر آئے تھے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ رہے۔ لیلا ان کی راہ دیکھتی، ہر لمحہ درد اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت کا احساس کرتی نہ جانے کب سو گئی تھی۔ اس کو جگانا سوئے فتنہ کو جگانا تھا۔
غریب لیلا اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی۔ لالہ جی کو اس کی وفات کا بے حد روحانی صدمہ ہوا۔ دوستوں نے تعزیت کے تار بھیجے کئی دن تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ایک روزانہ اخبار نے مرنے والی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اس کی دماغی اور اخلاقی خوبیوں کی مبالغہ آمیز تصویر کھینچی۔ لالہ جی نے ان سب ہمدردوں کا دلی شکریہ ادا کیا اور ان کے خلوص و وفاداری کا اظہار جنت نصیب لیلا کے نام سے لڑکیوں کے لیے پانچ وظیفے قائم کرنے کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ نہیں مریں صاحب میں مر گیا۔ زندگی کی شمع ہدایت گل ہو گئی۔ اب تو جینا اور رونا ہے میں تو ایک حقیر انسان تھا۔ نہ جانے کس کار خیر کے صلے میں مجھے یہ نعمت بارگاہ ایزدی سے عطا ہوئی تھی۔ میں تو اس کی پرستش کرنے کے قابل بھی نہ تھا۔۔۔ وغیرہ۔
چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنگا مل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کر لی۔ آخر غریب کیا کرتے۔ زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو جب ہی ہوتی ہے جب پاؤں میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔
جب سے نئی بیوی آئی ہے۔ لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے۔ دکان سے اب انہیں اس قدر انہماک نہیں ہے۔ متواتر ہفتوں نہ جانے سے بھی ان کے کاروبار میں کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا۔ زند گی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جو ان میں روز بروز مضمحل ہوتی جاتی تھی۔ اب یہ ترشح پا کر پھر سر سبز ہو گئی ہے۔ اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ موٹر نیا آ گیا ہے کمرے نئے فرنیچر سے آراستہ کر دیے گئے ہیں نوکروں کی تعداد میں معقول اضافہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ لالہ جی کی بوڑھی جوانی جوانوں سے بھی زیادہ پر جوش اور ولولہ انگیز ہو رہی ہے۔ اسی طرح جیسے بجلی کی روشنی چاند کی روشنی سے زیادہ شفاف اور نظر فریب ہوتی ہے۔ لالہ جی کو ان کے احباب ان کی اس جوان طبعی پر مبارک باد دیتے ہیں تو وہ تفاخر کے انداز سے کہتے ہیں۔ ’’بھئی ہم تو ہمیشہ جوان رہے اور ہمیشہ جوان رہیں گے۔ بڑھاپا میرے پاس آئے تو اس کے منھ پر سیاہی لگا کر گدھے پر الٹا سوار کر کے شہر بدر کر دوں۔ جوانی اور بڑھاپے کو لوگ نہ جانے عمر سے کیوں منسوب کرتے ہیں۔ جوانی کا عمر سے اتنا ہی تعلق ہے۔ جتنا مذہب کا اخلاق سے۔ روپے کا ایمانداری سے۔ حسن کا آرائش سے۔ آج کل کے جوانوں کو آپ جوان کہتے ہیں۔ ارے صاحب میں ان کی ایک ہزار جوانیوں کو اپنی جوانی کے ایک گھنٹہ سے نہ تبدیل کروں۔ معلوم ہوتا ہے زندگی میں کوئی دلچسپی ہی نہیں کوئی شوق ہی نہیں۔ زندگی کیا ہے گلے میں پڑا ہوا ڈھول ہے۔‘‘ یہی الفاظ وہ کچھ ضروری ترمیم کے بعد آشا دیوی کے لوح دل پر نقش کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ سنیما، تھیٹر، سیر دریا کے لیے اصرار کرتے ہیں لیکن آشا نہ جانے کیوں ان دلچسپیوں سے ذرا بھی متاثر نہیں، وہ جاتی تو ہے مگر بہت اصرار کے بعد۔
ایک دن لالہ جی نے آ کر کہا۔ ’’چلو آج برںے پر دریا کے سیر کر آئیں۔‘‘
بارش کے دن تھے، دریا چڑھا ہوا تھا۔ ابر کی قطاریں بین الاقوامی فوجوں کی سی رنگ برنگ وردیاں پہنے آسمان پر قواعد کر رہی تھیں۔ سڑک پر لوگ ملار اور بارہ ماسے گاتے چلے جا رہے تھے۔ باغوں میں جھولے پڑ گئے تھے۔
آشا نے بے دلی سے کہا۔ ’’میرا تو جی نہیں چاہتا۔‘‘
لالہ جی نے تادیب آمیز اصرار سے کہا۔ ’’تمہاری کیسی طبیعت ہے جو سیرو تفریح کی جانب مائل نہیں ہوتی۔‘‘
’’آپ جائیں، مجھے اور کئی کام کرنے ہیں۔‘‘
’’کام کرنے کو ایشور نے آدمی دے دیے ہیں۔ تمہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’مہراج اچھا سالن نہیں پکاتا۔ آپ کھانے بیٹھیں گے تو یوں ہی اٹھ جائیں گے۔‘‘
آشا اپنی فرصت کا بیشتر حصہ لالہ جی کے لیے انواع اقسام کے کھانے پکانے میں صرف کرتی تھی۔ کسی سے سن رکھا تھا کہ ایک خاص عمر کے بعد مردوں کی زندگی کی خاص دلچسپی لذت زبان رہ جاتی ہے۔ لالہ جی کے دل کی کلی کھل گئی۔ آشا کو ان سے کس قدر محبت ہے کہ وہ سیر کو ان کی خدمت پر قربان کر رہی ہے۔ ایک لیلا تھی کہ کہیں جاؤں پیچھے چلنے کو تیار، پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔ بہانے کرنے پڑتے تھے، خواہ مخواہ سر پر سوار ہو جاتی تھی اور سارا مزہ کر کرا کر دیتی تھی۔ بولے، ’’تمہاری بھی عجیب طبیعت ہے اگر ایک دن سالن بے مزہ ہی رہا تو ایسا کیا طوفان آ جائے گا۔ تم اس طرح میرے رئیسا نہ چونچلوں کا لحاظ کرتی رہو گی تو مجھے بالکل آرام طلب بنا دو گی۔ اگر تم نہ چلو گی تو میں بھی نہ جاؤں گا۔‘‘
آشا نے جیسے گلے سے پھندا چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بھی تو مجھے ادھر ادھر گھما کر میرا مزاج بگاڑے دیتے ہیں۔ یہ عادت پڑ جائے گی تو گھر کے دھندے کون کرے گا؟‘‘
لالہ جی نے فیاضانہ لہجے میں کہا۔ ’’مجھے گھر کے دھندوں کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے، بال کی نوک برابر بھی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارا مزاج بگڑے اور تم اس گھرکی چکی سے دور ہو اور مجھے بار بار 'آپ' کیوں کہتی ہو؟ میں چاہتا ہوں تم مجھے 'تم' کہو۔ محبت کی گالیاں دو، غصے کی صلواتیں سناؤ۔ لیکن تم مجھے آپ کہہ کر جیسے دیوتا کے سنگھاسن پر بٹھا دیتی ہو۔ میں اپنے گھر میں دیوتا نہیں شریر چھو کرا بن کر رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
آشا نے مسکرانے کی کوشش کر کے کہا۔ ’’اے نوج، بھلا میں آپ کو ’تم‘ کہوں گی۔ تم برابر والوں کو کہا جاتا ہے یا بڑوں کو؟‘‘
منیم جی نے ایک لاکھ کے گھاٹے کی پر ملال خبر سنائی ہوتی تب بھی لالہ جی کو شاید اتنا صد مہ نہ ہوتا جتنا کہ آشا کے ان بھولے بھولے الفاظ سے ہوا۔ ان کا سارا جوش سارا ولولہ ٹھنڈا پڑ گیا جیسے برف کی طرح منجمد ہو گیا۔ سر پر باقی رکھی ہوئی رنگین پھول دار ٹوپی گلے میں پڑی ہوئی جو گیے رنگ کی ریشمی چادر، وہ تن زیب کا بیل دار کرتا جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ یہ سارا ٹھاٹ جیسے مضحکہ خیز معلوم ہونے لگا۔ جیسے سارا نشہ کسی منتر سے اتر گیا ہو۔
دل شکستہ ہو کر بولے۔ ’’تو تمہیں چلنا ہے یا نہیں؟‘‘
’’میرا جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’تو میں بھی نہ جاؤں؟‘‘
’’میں آپ کو کب منع کرتی ہوں۔‘‘
’’پھر آپ، کہا۔‘‘
آشا نے جیسے اندر سے زور لگا کر کہا۔ ’تم‘ اور اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔
’’ہاں اسی طرح تم کہا کرو۔ تو تم نہیں چل رہی ہو؟ اگر میں کہوں کہ تمہیں چلنا پڑے گا۔ تب؟‘‘
’’تب چلوں گی آپ کے حکم کی پابندی میرا فرض ہے۔‘‘
لالہ جی حکم نہ دے سکے فرض اور حکم جیسے لفظ سے ان کے کانوں میں خراش سی ہونے لگی کھسیانے ہو کر باہر چلے۔ اس وقت آشا کو ان پر رحم آ گیا۔ بولی، ’’ تو کب تک لوٹو گے؟‘‘
’’میں نہیں جا رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا تو میں بھی چلتی ہوں۔‘‘
جس طرح کوئی ضدی لڑکا رونے کے بعد اپنی مطلوبہ چیز پا کر اسے پیروں سے ٹھکرا دیتا ہے اسی طرح لالہ جی نے رونا منھ بنا کر کہا۔ ’’تمہارا جی نہیں چاہتا تو نہ چلو۔ میں مجبور نہیں کرتا۔‘‘
’’آپ۔۔۔ نہیں، تم برا مان جاؤ گے۔‘‘
آشا سیر کرنے گئی لیکن امنگ سے نہیں جو معمولی ساری پہنے ہوئے تھی، وہی پہنے چل کھڑی ہوئی۔ نہ کوئی نفیس ساڑی نہ کوئی مرصع زیور، نہ کوئی سنگار جیسے بیوہ ہو۔
ایسی ہی باتوں سے لالہ جی دل میں جھنجھلا اٹھتے تھے۔ شادی کی تھی زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے، جھلملاتے ہوئے چراغ میں تیل ڈال کر اسے روشن کرنے لیے، اگر چراغ کی روشنی تیز نہ ہوئی تو تیل ڈالنے سے کیا فائدہ؟ نہ جانے اس کی طبیعت کیوں اس قدر خشک اور افسردہ ہے، جیسے کوئی اوسر کا درخت ہو کہ کتنا ہی پانی ڈالو اس میں ہری پتیوں کے درشن ہی نہیں ہوتے۔ جڑاؤ زیوروں کے بھرے ہوئے صندوق رکھے ہیں، کہاں کہاں سے منگوائے، دہلی سے، کلکتے سے، فرانس سے، کیسی کیسی بیش قیمت ساڑیاں رکھی ہوئی ہیں ایک نہیں سینکڑوں مگر صندوق میں کیڑوں کی خوراک بننے کے لیے، غریب خاندان کی لڑکیوں میں یہی عیب ہوتا ہے ان کی نگاہ ہمیشہ تنگ رہتی ہے، نہ کھا سکیں نہ پہن سکیں، نہ دے سکیں، انہیں تو خزانہ بھی مل جائے تو یہی سوچتی رہیں گی کہ بھلا اسے خرچ کیسے کریں۔
دریا کی سیر تو ہوئی مگر کچھ لطف نہ آیا۔
کئی ماہ تک آشا کی طبیعت کو ابھارنے کی ناکام کوشش کر کے لالہ جی نے سمجھ لیا کہ یہ محرم کی پیدائش ہے۔ لیکن پھر بھی برابر مشق جاری رکھی۔ اس بیوپار میں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے بعد وہ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھانے کے تاجرانہ تقاضے کو کیسے نظر انداز کرتے۔ دلچسپی کی نئی نئی صورتیں پیدا کی جاتیں گراموفون اگر بگڑ گیا ہے، گاتا نہیں یا آواز صاف نہیں نکلتا تو اس کی مرمت کرانی پڑے گی۔ اسے اٹھا کر رکھ دینا تو حماقت ہے۔
ادھر بوڑھا مہراج بیمار ہو کر چلا گیا تھا اور اس کی جگہ اس کا سولہ سترہ سال کا لڑکا آ گیا تھا۔ کچھ عجیب مسخرا سا، بالکل اجڈ اور دہقانی۔ کوئی بات ہی نہ سمجھتا اس کے پھلکے اقلیدس کی شکلوں سے بھی زیادہ مختلف الاشکال ہو جاتے۔ بیچ میں موٹے، کنارے پتلے، دال کبھی تو اتنی پتلی جیسے چائے اور کبھی اتنی گاڑھی جیسے دہی۔ کبھی نمک اتنا کم کہ بالکل پھیکا کبھی تو اتنا تیز کہ نیبو کا نمکین اچار۔ آشا سویرے ہی سے رسوئی میں پہنچ جاتی اور اس بد سلیقے مہراج کو کھانا پکانا سکھاتی۔ ’’تم کتنے نالائق آدمی ہو جگل؟ اتنی عمر تک تم کیا گھاس کھودتے رہے یا بھاڑ جھونکتے رہے کہ پھلکے تک نہیں بنا سکتے۔‘‘
جگل آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے۔ ’’بہو جی ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ سترہواں ہی سال توہے۔‘‘
آشا ہنس پڑی۔ ’’تو روٹیاں پکانا کیا دس بیس سال میں آتا ہے؟‘‘
’’آپ ایک مہینہ سکھا دیں بہو جی۔ پھر دیکھنا میں آپ کو کیسے پھلکے کھلاتا ہوں کہ جی خوش ہو جائے۔ جس دن مجھے پھلکے بنانے آ جائیں گے میں آپ سے کوئی انعام لوں گا۔ سالن تو اب کچھ پکانے لگا ہوں نا؟‘‘
آشا حوصلہ افزا تبسم سے بولی۔ ’’سالن نہیں دوا پکانا آتا ہے ابھی کل ہی نمک اتنا تیز تھا کہ کھایا نہ گیا۔‘‘
’’میں جب سالن بنا رہا تھا تو آپ یہاں کب تھیں؟‘‘
’’اچھا تو جب میں یہاں بیٹھی رہوں۔ تب تمہارا سالن لذیذ پکے گا؟‘‘
’’آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے۔‘‘
’’اور میں نہیں رہتی تب؟‘‘
’’تب تو آپ کے کمرے کے دروازے پر جا بیٹھتی ہے۔‘‘
’’تمہارے دادا آ جائیں گے تو تم چلے جاؤ گے؟‘‘
’’نہیں بہو جی کسی اور کام میں لگا دیجیے گا۔ مجھے موٹر چلوانا سکھوا دیجیے گا۔ نہیں نہیں آپ ہٹ جائیے میں پتلیا اتار لوں گا۔ ایسی اچھی ساڑی آپ کی کہیں داغ لگ جائے تو کیا ہو؟‘‘
’’دور ہو، پھوہڑ تو تم ہی ہو۔ کہیں پتیلی پیر پر گر پڑے تو مہینوں جھیلو گے۔‘‘
جگل افسردہ ہو گیا۔ نحیف چہرہ اور بھی خشک ہو گیا۔
آشا نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کیوں منھ کیوں لٹک گیا سرکار کا؟‘‘
’’آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ سیٹھ جی کتنا ہی گھڑکیں دیں مجھے ذرا بھی صد مہ نہیں ہوتا۔ آپ کی نظر کڑی دیکھ کر جیسے میرا خون سرد ہو جاتا ہے۔‘‘
آشا نے تشفی دی۔ ’’میں نے تمہیں ڈانٹا نہیں۔ صرف اتنا ہی کہا کہ کہیں پتیلی تمہارے پاؤں پر گر پڑے تو کیا ہو گا؟‘‘
’’ہاتھ تو آپ کا بھی ہے کہیں آپ کے ہاتھ سے ہی چھوٹ پڑے تب؟‘‘
سیٹھ جی نے رسوئی کے دروازے پر آ کر کہا۔ ’’آشا ذرا یہاں آنا! دیکھو تمہارے لیے کتنے خوش نما گملے لایا ہوں۔ تمہارے کمرے کے سامنے رکھے جائیں گے۔ تم وہاں دھوئیں دھکڑ میں کیا پریشان ہو رہی ہو۔ لونڈے کو کہہ دو کہ مہراج کو بلائے ورنہ میں کوئی دوسرا انتظام کر لوں گا۔ مہراج کی کمی نہیں ہے۔ آخر کب تک کوئی رعایت کرے اس گدھے کو ذرا بھی تو تمیز نہ آئی۔ سنتا ہے جگل! آج لکھ دے اپنے باپ کو۔‘‘ چولھے پر توا رکھا ہوا تھا۔ آشا روٹیاں بیل رہی تھی۔ جگل توے کو لیے روٹیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ ایسی حالت میں بھلا وہ کیسے گملے دیکھنے جاتی؟ کہنے لگی ’’ابھی آتی ہوں ذرا روٹی بیل رہی ہوں چھوڑ دوں گی تو جگل ٹیڑھی میڑھی بیلے گا۔‘‘
لالہ جی نے کچھ چڑھ کر کہا۔ ’’اگر روٹیاں ٹیڑھی میڑھی بیلے گا تو نکال دیا جائے گا۔‘‘
آشا ان سنی کر کے بولی۔ ’’دس پانچ دن میں سیکھ جائے گا۔ نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’تم چل کر بتا دو گملے کہاں رکھے جائیں گے؟‘‘
’’کہتی ہوں روٹیاں بیل کر آئی جاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں میں کہتا ہوں تم روٹیاں مت بیلو۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ ضد کرتے ہو۔‘‘
لالہ جی سناٹے میں آ گئے۔ آشا نے کبھی اتنی بے التفاتی سے انہیں جواب نہ دیا تھا۔ اور یہ محض بے التفاتی نہ تھی اس میں ترشی بھی تھی خفیف ہو کر چلے گئے۔ انہیں غصہ ایسا آ رہا تھا کہ ان گملوں کو توڑ کر پھینک دیں اور سارے پودوں کو چولہے میں ڈال دیں۔
جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’آپ چلی جاتیں بہو جی سرکار ناراض ہوں گے۔‘‘
’’بکو مت جلدی روٹیاں سینکو۔ نہیں تو نکال دیے جاؤ گے۔ اور آج مجھ سے روپے لے کر اپنے لیے کپڑے بنوا لو بھک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں۔ تمہیں نائی بھی نہیں جڑتا؟‘‘
’’کپڑے بنوا لوں تو دادا کو کیا حساب دوں گا؟‘‘
’’ارے بے وقوف! میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی۔ مجھ سے لے جانا۔‘‘
’’آپ بنوائیں گی تو اچھے کپڑے لوں گا۔ میں کھدر کا کرتا کھدر کی دھوتی ریشمی چادر اور اچھا سا چپل۔‘‘
آشا نے مٹھاس بھرے تبسم سے کہا۔ ’’اور اگر اپنے دام سے بنوانا پڑے تو؟‘‘
’’تب کپڑے بنواؤں گا ہی نہیں‘‘
’’بڑے چالاک ہو تم۔‘‘
’’آدمی اپنے گھر پر روکھی روٹی کھا کر سو رہتا ہے لیکن دعوت میں اچھے اچھے پکوان ہی کھاتا ہے۔‘‘
’’یہ سب میں نہیں جانتی ایک گاڑھے کا کرتہ بنوا لو اور ایک ٹوپی حجامت کے لیے دو آنے پیسے لے لو۔‘‘
’’رہنے دیجیے، میں نہیں لیتا۔ اچھے کپڑے پہن کر نکلوں گا تو آپ کی یاد آئے گی۔ سڑیل کپڑے ہوئے تو جی جلے گا۔‘‘
’’تم بڑے خود غرض ہو۔ مفت کے کپڑے لو گے اور اعلیٰ درجے کے۔‘‘
’’جب یہاں سے جانے لگوں گا تو آپ مجھے اپنی تصویر دے دیجیے گا۔‘‘
’’میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟‘‘
’’اپنی کوٹھری میں لگا دوں گا اور دیکھا کروں گا بس وہی ساڑی پہن کر کھنچوانا جو کل پہنی تھی اور وہی موتیوں والی مالا بھی ہو۔ مجھے ننگی ننگی صورت اچھی نہیں لگتی آپ کے پاس تو بہت گہنے ہوں گے آپ پہنتی کیوں نہیں؟‘‘
’’تو تمہیں گہنے اچھے لگتے ہیں؟‘‘
’’بہت۔‘‘
لالہ جی نے خفت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’ابھی تک تمہاری روٹیاں نہیں پکیں۔ جگل اگر کل سے تم نے اپنے آپ اچھی روٹیاں نہ بنائیں، تو میں تمہیں نکال دوں گا؟‘‘
آشا نے فوراً ہاتھ دھوئے اور بڑی مسرت آمیز تیزی سے لالہ جی کے ساتھ جا کر گملوں کو دیکھنے لگی۔ آج اس کے چہرے پر غیر معمولی شگفتگی نظر آ رہی تھی اس کے انداز گفتگو میں بھی دل آویز شیرینی تھی۔ لالہ جی کی ساری خفت غائب ہو گئی۔ آج اس کی باتیں زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ بولی، ’’میں ان میں سے کوئی گملا نہ جانے دوں گی۔ سب میرے کمرے کے سامنے رکھوانا سب کتنے سندر پودے ہیں۔ واہ ان کے ہندی نام بھی بتا دینا۔‘‘
لالہ جی نے چھیڑا، ’’سب لے کر کیا کرو گی؟ د س پانچ پسند کر لو باقی باہر باغیچے میں رکھوا دوں گا۔‘‘
’’جی نہیں میں ایک بھی نہیں چھوڑوں گی سب یہیں رکھے جائیں گے۔‘‘
’’بڑی حریص ہو تم۔‘‘
’’حریص سہی، میں آپ کو ایک بھی نہ دوں گی۔‘‘
’’دس پانچ تو دے دو اتنی محنت سے لایا ہوں۔‘‘
’’جی نہیں ان میں سے ایک بھی نہ ملے گا۔‘‘
دوسرے دن آشا نے اپنے کو زیوروں سے خوب آراستہ کیا اور فیروزی ساڑی پہن کر نکلی تو لالہ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ اب ان کی عاشقانہ دلجوئیوں کا کچھ اثر ہو رہا ہے ضرور۔ ورنہ ان کے بار بار تقاضا کرنے پر منت کرنے پر بھی اس نے کوئی زیور نہ پہنا تھا۔ کبھی کبھی موتیوں کا ہار گلے میں ڈال لیتی تھی وہ بیچ بے دلی سے۔ آج ان زیوروں سے مرصع ہو کر وہ پھولی نہیں سماتی۔ اتراتی جاتی ہے۔ گویا کہتی ہے دیکھو میں کتنی حسین ہوں پہلے جو کلی تھی وہ آج کھل گئی ہے۔
لالہ صاحب پر گھڑوں کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں ان کے احباب و اعزہ آ کر اس سونے کی رانی کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کریں، دیکھیں کہ ان کی زندگی کتنی پر لطف ہے۔ جو انواع و اقسام کے شکوک دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اعتماد، رواداری اور فراست نے کتنا خلوص پیدا کر دیا ہے۔
انہوں نے تجویز کی۔ ’’چلو کہیں سیر کر آئیں۔ بڑی مزیدار ہوا چلی رہی ہے۔‘‘
آشا اس وقت کیسے آ سکتی ہے ابھی اسے رسوئی جانا ہے۔ وہاں سے کہیں بارہ ایک بجے تک فرصت ملے پھر گھر کے کام دھندے سر پر سوار ہو جائیں گے، اسے کہاں فرصت ہے۔ پھر کل سے اس کے کلیجے میں کچھ درد بھی ہو رہا ہے، رہ رہ کر درد اٹھتا ہے، ایسا درد کبھی نہ ہوتا تھا۔ رات نہ جانے کیوں درد ہونے لگا۔
سیٹھ جی ایک بات سوچ کر دل ہی دل میں پھول اٹھے وہ گولیاں رنگ لا رہی ہیں۔ راج وید نے آخر کہا بھی تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کیجئے گا کیوں نہ ہو خاندانی وید ہے۔ اس کا باپ مہاراجہ بنارس کا معالج تھا پرانے مجرب نسخے ہیں اس کے پاس۔
چہرے پر سراسیمگی کا رنگ بھر کر پوچھا۔ ’’تو رات ہی سے درد ہو رہا ہے۔ تم نے مجھ سے کہا نہیں ورنہ وید جی سے کوئی دوا منگوا دیتا۔‘‘
’’میں نے سمجھا تھا کہ آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا مگر اب بڑھ رہا ہے۔‘‘
’’کہاں درد ہو رہا ہے؟ ذرا دیکھوں تو کچھ آماس تو نہیں ہے؟‘‘
سیٹھ جی نے آشا کے آنچل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آشا نے شرما کر سر جھکا لیا اور بولی۔ ’’یہی تمہاری شرارت مجھے اچھی نہیں لگتی۔ جا کر کوئی دوا لا دو۔‘‘
سیٹھ جی اپنی جواں مردی کا یہ ڈپلوما پا کر اس سے کہیں زیادہ محظوظ ہوئے جتنا شاید رائے بہادری کا خطاب پا کر ہوتے۔ اپنے اس کار نمایاں کی داد لیے بغیر انہیں کیسے چین ہو جاتا۔ جو لوگ ان کی شادی سے متعلق شبہ آمیز سرگوشیاں کرتے تھے انہیں زک دینے کا کتنا نادر موقع ہاتھ آیا ہے پہلے پنڈت بھولا ناتھ کے گھر پہنچے اور بادل درد مند بولے۔ ’’میں تو بھئی سخت مصیبت میں مبتلا ہو گیا، کل سے ان کے سینے میں درد ہو رہا ہے کچھ عقل کام نہیں کرتی، کہتی ہیں ایسا درد پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
بھولا ناتھ نے کچھ زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ بولے ’’ہوا لگ گئی ہو گی، اور کیا؟‘‘
سیٹھ جی نے ان سے اختلاف کیا۔ ’’پنڈت جی ہوا کا فساد نہیں ہے۔ کوئی اندرونی شکایت ہے۔ ابھی کمسن ہیں نہ؟ راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں۔‘‘
’’میں تو سمجھتا ہوں آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ بات نہیں سمجھتے یہی آپ میں نقص ہے۔‘‘
’’آپ کا جو خیال ہے وہ بالکل غلط ہے مگر خیر دوا لا کر دیجیے اور اپنے لیے بھی دوا لیتے آئیے گا۔‘‘
سیٹھ یہاں سے اٹھ کر اپنے دوسرے دوست لالہ پھاگ مل کے پاس پہنچے اور ان سے بھی قریب انہیں الفاظ میں پر ملال خبر کہی۔ پھاگ مل بڑا شہدہ تھا۔ مسکرا کر بولا، ’’مجھے تو آپ کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
سیٹھ جی کی باچھیں کھل گئیں۔ ’’میں اپنا دکھ سنا رہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھتا ہے ذرا بھی انسانیت تم میں نہیں ہے۔‘‘
’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں بھلا اس میں مذاق کی کیا بات ہے وہ ہیں کم سن، نازک اندام۔ آپ ٹھہرے آزمودہ کار، مرد میدان۔ بس اگر یہ بات نہ نکلے تو مونچھیں منڈوا ڈالوں۔‘‘
سیٹھ جی نے متین صورت بنائی، ’’میں تو بھئی بڑی احتیاط کرتا ہوں، تمہارے سر کی قسم۔‘‘
’’جی رہنے دیجیے میرے سر کی قسم نہ کھائیے میرے بھی بال بچے ہیں۔ گھر کا اکیلا آدمی ہوں۔ کسی قاطع دوا کا استعمال کیجیے۔‘‘
’’انہیں راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں۔‘‘
’’اس کی دوا وید جی کے پاس نہیں آپ کے پاس ہے۔‘‘
سیٹھ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ شباب کا احساس پیدا ہوا اور اس کے ساتھ چہرے پر بھی شباب کی جھلک آ گئی، سینہ جیسے کچھ فراخ ہو گیا۔ چلتے وقت ان کے پیر کچھ زیادہ مضبوطی سے زمین پر پڑنے لگے۔ ا ور سر کی ٹوپی بھی خدا جانے کیوں کج ہو گئی۔ بشرے سے ایک بانکپن کی شان برس رہی تھی۔ راج وید سے مژدۂ جانفزا سنایا تو بولے۔ ’’میں نے کہا تھا ذرا سوچ سمجھ کر ان گولیوں کا استعمال کیجیے گا۔ آپ نے میری ہدایت پر توجہ نہ کی۔ ذرا مہینے دو مہینے ان کا استعمال کیجئے اور پرہیز کے ساتھ رہیے، پھر دیکھیے ان کا اعجاز۔ اب گولیاں بہت کم رہی ہیں لوٹ مچی رہتی ہے لیکن ان کا بنانا اتنا مشکل اور دقت طلب ہے کہ ایک بار ختم ہو جانے پر مہینوں تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ ہزاروں بوٹیاں ہیں۔ کیلاش نیپال اور تبت سے منگانی پڑتی ہیں، اور اس کا بنانا تو آپ جانتے ہیں کتنا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ آپ احتیاطاً ایک شیشی لیتے جائیے۔‘‘
جگل نے آشا کو سر سے پاؤں تک جگمگاتے دیکھ کر کہا۔ ’’بس بہو جی آپ اسی طرح پہنے اوڑھے رہا کریں۔ آج میں آپ کو چولہے کے پاس نہ آنے دوں گا۔‘‘
آشا نے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’کیوں آج یہ سختی کیوں؟ کئی دن تو تم نے منع نہیں کیا۔‘‘
’’آج کی بات دوسری ہے۔‘‘
’’ذرا سنوں تو کیا بات ہے۔‘‘
میں ڈرتا ہوں کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں۔‘‘
’’نہیں نہیں کہو میں ناراض نہ ہوں گی۔‘‘
’’آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔‘‘
لالہ ڈنگا مل نے سینکڑوں ہی بار آشا کے حسن و انداز کی تعریف کی تھی، مگر ان کی تعریف میں اسے تصنع کی بو آتی تھی۔ وہ الفاظ ان کے منھ سے کچھ اس طرح سے لگتے تھے جیسے کوئی ہیجڑا تلوار لے کر چلے۔ جگل کے ان الفاظ میں ایک کیف تھا، ایک سرور تھا۔ ایک ہیجان تھا، ایک اضطراب تھا۔ آشا کے سارے جسم میں رعشہ آ گیا۔ آنکھوں میں جیسے نشہ چھا جائے۔
’’تم مجھے نظر لگا دو گے۔ اس طرح کیوں گھورتے ہو؟‘‘
’’جب یہاں سے چلا جاؤں گا تو تب آپ کی بہت یاد آئے گی۔‘‘
’’روٹی بنا کر تم کیا کرتے ہو؟ دکھائی نہیں دیتے۔‘‘
’’سرکار رہتے ہیں۔ اسی لیے نہیں آتا پھر اب تو مجھے جواب مل رہا ہے، دیکھیے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں۔‘‘
آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ’’کون تمہیں جواب دیتا ہے۔‘‘
’’سرکار ہی تو کہتے ہیں تجھے نکال دوں گا۔‘‘
’’اپنا کام کیے جاؤ۔ کوئی نہیں نکالے گا۔ اب تو تم روٹیاں بھی اچھی بنانے لگے۔‘‘
’’سرکار ہیں بڑے گسہ ور۔‘‘
’’دو چار دن میں ان کا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں۔‘‘
’’آپ کے ساتھ چلتے ہیں تو جیسے آپ کے باپ سے لگتے ہیں۔‘‘
’’تم بڑے بد معاش ہو خبردار، زبان سنبھال کر باتیں کرو۔‘‘
مگر خفگی کا یہ پردہ اس کے دل کا راز نہ چھپا سکا وہ روشنی کی طرح اس کے اندر سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ جگل نے اسی بیباکی سے کہا۔ ’’میری زبان کوئی بند کر لے۔ یہاں تو سبھی کہتے ہیں۔ میرا بیاہ کوئی پچاس سال کی بڑھیا سے کر دے تو میں گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤں، یا خود زہر کھا لوں یا اسے زہر دے کر مار ڈالوں، پھانسی ہی تو ہو گی۔‘‘
آشا مصنوعی غصہ قائم نہ رکھ سکی۔ جگل نے اس کے دل کے تاروں پر مضراب کی ایک ایسی چوٹ ماری تھی کہ اس کے بہت مضبوط کرنے پر بھی درد دل باہر نکل ہی آیا۔ ’’قسمت بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘
’’ایسی قسمت جائے جہنم میں۔‘‘
’’تمہاری شادی کسی بڑھیا سے کروں گی، دیکھ لینا۔‘‘
’’تو میں بھی زہر کھا لوں گا، دیکھ لیجئے گا۔‘‘
’’کیوں؟ بڑھیا تمہیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی۔ زیادہ خدمت کرے گی۔ تمہیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔‘‘
’’یہ سب ماں کا کام ہے۔ بیوی جس کام کے لیے ہے اسی کے لیے ہے۔‘‘
’’آخر بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘
’’آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا دیتا کس کام کے لیے ہے۔‘‘
موٹر کی آواز آئی، نہ جانے کیسے آشا کے سر کا آنچل کھسک کر کندھے پر آ گیا تھا اس نے جلدی سے آنچل سر پر کھینچ لیا۔ اور یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی۔ ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آ جانا۔‘‘
٭٭٭