جُمّن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا یارانہ تھا۔ ساجھے میں کھیتی ہوتی۔ لین دین میں بھی کچھ ساجھا تھا۔ ایک کو دوسرے پر کامل اعتماد تھا۔ جُمّن جب حج کرنے گئے تھے تو اپنا گھر الگو کو سونپ گئے تھے اور الگو جب کبھی باہر جاتے تو جُمّن پر اپنا گھر چھوڑ دیتے۔ وہ نہ ہم نوالہ تھے نہ ہم مشرب۔ صرف ہم خیال تھے اور یہی دوستی کی اصل بنیاد ہے۔
اس دوستی کا آغاز اسی زمانہ میں ہوا جب دونوں لڑکے جُمّن کے پدر بزرگوار شیخ جمعراتی کے روبرو زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ الگو نے استاد کی بہت خدمت کی خوب رکابیاں مانجھیں۔ خوب پیالے دھوئے۔ ان کا حقّہ دم نہ لینے پاتا تھا۔ ان خدمتوں میں شاگردانہ عقیدت کے سوا اور کوئی بھی خیال مضر نہ تھا۔ جسے الگو خوب جانتا تھا۔ ان کے باپ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ تعلیم کے مقابلے میں انھیں استاد کی خدمت پر زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے استاد کی دعا چاہیے جو کچھ ہوتا ہے فیض سے ہوتا ہے۔ اور اگر الگو پر استاد کے فیض یا دعاؤں کا اثر نہ ہوا تو اسے تسکین تھی کہ تحصیل علم کا کوئی دقیقہ اس نے فروگزاشت نہیں کیا۔ علم اس کی تقدیر ہی میں نہ تھا۔ شیخ جمعراتی خود دعا اور فیض کے مقابلے میں تازیانے کے زیادہ قائل تھے اور جُمّن پر اس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے اسی کا یہ فیض تھا کہ آج جُمّن کے قرب و جوار کے مواضعات میں پرسش ہوتی تھی۔ بیع نامہ یا رہن نامہ کے مسودات پر تحصیل کا عرائض نویس بھی قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ حلقہ کا پوسٹ میں کانسٹیبل اور تحصیل کا مذکوری یہ سب ان کے دست کرم کے محتاج تھے۔ اس لیے اگر الگو کو ان کی ثروت نے ممتاز بنا دیا تھا۔ تو شیخ جُمّن بھی علم کی لازوال دولت کے باعث عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔
شیخ جُمّن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں۔ ان کے پاس کچھ تھوڑی سی ملکیت تھی۔ مگر غریب کا وارث کوئی نہ تھا، جُمّن نے وعدے وعید کے سبز باغ دکھا کر خالہ اماں سے وہ ملکیت اپنے نام کرالی تھی، جب تک ہبہ نامہ پر رجسٹری نہ ہوئی تھی خالہ جان کی خوب خاطر داریاں ہوتی تھی۔ خوب میٹھے لقمے چٹ پٹے سالن کھلائے جاتے تھے۔ مگر پگڑی کی مہر ہوتے ہی ان کی خاطر داریوں پر بھی مہر ہو گئی وہ وعدے وصال کے دمورے ثابت ہوئے۔ جُمّن کی اہلیہ بی فہیمن نے روٹیوں کے ساتھ چیز بھی بدل دیں اور رفتہ رفتہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کر دی۔ بڑھیا وقت کے بوریے بٹورے گی کیا، دو تین بیگھے اوسر کیا دے دیا ہے، ایک دن دال بغیر روٹی نہیں اترتی۔ جتنا روپیہ اس کے پیٹ میں گیا، اگر ہوتا تو اب تک کئی گاؤں مول لے لیتے کچھ دنوں تک خالہ جان نے اور دیکھا مگر جب برداشت نہ ہوئی تو جُمّن سے شکایت کی۔ جُمّن صلح پسند آدمی تھا۔ اب اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کچھ دن تو رو دھو کر کام چلا۔ آخر ایک روز خالہ جان نے جُمّن سے کہا۔
’’بیٹا۔ تمہارے ساتھ میرا نباہ نہ ہو گا۔ تم مجھے روپے دے دیا کرو میں اپنا الگ پکا لوں گی۔‘‘
جُمّن نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ ’’روپیہ کیا یہاں پھلتا ہے۔‘‘؟
خالہ جان نے بگڑ کر کہا ’’تو مجھے کچھ نان نمک چاہیے یا نہیں۔‘‘؟
جُمّن نے مظلومانہ انداز سے جواب دیا ’’چاہیے کیوں نہیں میرا خون چوس لو! کوئی یہ ٹھوڑے ہی سمجھتا تھا کہ تم خواجہ خضر کی حیات لے کر آئی ہو۔
خالہ جان اپنے مرنے کی بات نہیں سن سکتی تھیں جامہ باہر ہو کر پنچایت کی دھمکی دی۔ جُمّن ہنسے۔ وہ فاتحانہ ہنسی جو شکاری کے لبوں پر ہرن کو جال کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر نظر آتی ہے۔ کہا ہاں۔ ضرور پنچایت کرو فیصلہ ہو جائے مجھے بھی رات دن کا وبال پسند نہیں۔
پنچایت کی صدا کس کے حق میں اٹھے گی اس کے متعلق شیخ جُمّن کو اندیشہ نہیں تھا۔ قرب و جوار، ہاں ایسا کون تھا جوان کا شرمندہ منّت نہ ہو؟ کون تھا جو ان کی دشمنی کو حقیر سمجھے؟ کس میں اتنی جرأت تھی جو ان کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ آسمان کے فرشتہ تو پنچایت کرنے آئیں گے نہیں مریض نے آپ ہی دوا طلب کی۔
اس کے بعد کئی دن تک بوڑھی خالہ لکڑی لیے آس پاس کے گاؤں کے چکرّ لگاتی رہیں۔ کمر جھک کر کمان ہو گئی تھی۔ ایک قدم چلنا مشکل تھا مگر بات آ پڑی تھی اس کا تصفیہ ضروری تھا۔ شیخ جُمّن کو اپنی طاقت رسوخ اور منطق پر کامل اعتماد تھا۔ وہ کسی کے سامنے فریاد کرنے نہیں گئے۔
’’بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں تو گریہ و زاری کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ مگر خوبیِ تقدیر کوئی اس طرف مائل نہ ہوا۔ کسی نے تو یوں ہی ہاں ہوں کر کے ٹال دیا کسی نے زخم پر نمک چھڑک دیا ذرا اس ہوس کو دیکھو قبر میں پیر لٹکائے ہوئے ہیں۔ آج مریں کل دوسرا دن ہوا، مگر صبر نہیں ہوتا۔ پوچھو اب تمھیں گھر بار جگہ زمین سے کیا سروکار۔ ایک لقمہ کھاؤ ٹھنڈا پانی پیو اور مالک کی یاد کرو۔ سب سے بڑی تعداد ستم ظریفوں کی تھی۔ خمیدہ کمر پوپلا منہ سن کے سے بال اور ثقل سماعت جب اتنے تفریح کے سامان موجود ہوں تو ہنسی کا آنا قدرتی امر ہے۔ غرض ایسے درد رس,۔ انصاف پرور آدمیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جنھوں نے خالہ جان کی فریاد کو غور سے سنا ہو، اور اس کی تشفی کی ہو، چاروں طرف سے گھوم گھام کر بڑھیا الگو چودھری کے پاس آئی لاٹھی پٹک دی اور دم لے کر کہا۔‘‘
’’بیٹا تم بھی چھن بھر کو میری پنچایت میں چلے آنا۔‘‘
الگو بے رخی سے بولے۔
مجھے بلا کر کیا کرو گی۔ کئی گاؤں کے آدمی تو آئیں گے ہی۔‘‘
خالہ نے ہانپ کر کہا ’’اپنی فر یاد تو سب کے کان میں ڈال آئی ہوں۔ آنے نہ آنے کا حال اللہ جانے؟ ہمارے سیّد سالار گہار سن کر پیڑسے اٹھ آئے تھے۔ کیا میرا رونا کوئی نہ سنے گا۔‘‘
الگو نے جواب دیا۔ ’’یوں آنے کو میں آ جاؤں گا، مگر پنچایت میں منہ نہ کھولوں گا۔‘‘ ’’خالہ نے حیرت سے پوچھا کیوں بیٹا۔‘‘
الگو نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا۔ ’’اب اس کا کیا جواب؟ اپنی اپنی طبیعت جُمّن میرے پرانے دوست ہیں۔ اس سے بگاڑ نہیں کر سکتا۔‘‘
خالہ نے تاک کر نشانہ مارا ’’بیٹا کیا بگاڑ کے ڈرسے ایمان کی بات نہ کہو گے؟‘‘
ہمارے سوئے ایمان کی ساری جتھا چوری سے لٹ جائے۔ اسے خبر نہیں ہوتی۔ مگر کھلی ہوئی للکار سن کر وہ چونک پڑتا ہے اور ہوشیار ہو جاتا ہے۔ الگو چودھری اس سوال کا جواب نہ دے سکے کیا وہ ’’نہیں‘‘ کہنے کی جرأت کر سکتے تھے۔؟
شام کو ایک پیڑ کے نیچے پنچایت بیٹھی۔ ٹاٹ بچھا ہوا تھا۔ حقّہ کا بھی انتظام تھا یہ سب شیخ جُمّن کی مہمان نوازی تھی۔ وہ خود الگو چودھری کے ساتھ ذرا دور بیٹھے حقّہ پی رہے تھے۔ جب کوئی آتا تھا ایک دبی ہوئی سلام علیک سے اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔ مگر تعجب تھا کہ با اثر آدمیوں میں صرف وہی لوگ نظر آتے۔ جنھیں ان کی رضا جوئی کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تھی۔ کتنے مجلس کو دعوتِ احباب سمجھ کر جھنڈ کے جھنڈ جمع ہو گئے تھے۔
جب پنچایت پوری بیٹھ گئی تو بوڑھی بی نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا: ۔
’’پنچوں آج تین سال ہوئے میں نے اپنی سب جائیداد اپنے بھانجے جُمّن کے نام لکھ دی تھی اسے آپ لوگ جانتے ہوں گے۔ جُمّن نے مجھے تا حین حیات روٹی کپڑا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سال چھ مہینے تو میں نے ان کے ساتھ کسی طرح رو دھو کر کاٹے مگر اب مجھ سے رات دن کا رونا نہیں سہا جاتا، مجھے پیٹ کی روٹیاں تک نہیں ملتیں۔ بیکس بیوہ ہوں۔ تھانہ کچہری کر نہیں سکتی سوائے تم لوگوں کے اور کس سے اپنا دکھ درد روؤں۔ تم لوگ جو راہ نکال دو اس راہ پر چلوں اگر میری بُرائی دیکھو میرے منہ پر تھپڑ مارو جُمّن کی بُرائی دیکھو تو اسے سمجھاؤ۔ کیوں ایک بیکس کی آہ لیتا ہے۔‘‘
رام دھن مصر بولے ’’(ان کے کئی اسامیوں کو جُمّن نے توڑ لیا تھا۔ )جُمّن میاں پنچ کسے بناتے ہو ابھی سے طے کر لو۔‘‘
جُمّن نے حاضرین پر ایک اڑتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ اپنے تئیں مخالفوں کے نرغے میں پایا۔ دلیرانہ انداز سے کہا: ۔
’’خالہ جان جسے چاہیں پنچ بنائیں مجھے عذر نہیں ہے۔‘‘
خالہ نے چلّا کر کہا۔ ’’ارے اللہ کے بندے تو پنچوں کے نام کیوں نہیں بتا دیتا۔؟
جُمّن نے بڑھیا کو غضبناک نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔‘‘
’’اب اس وقت میری زبان نہ کھلواؤ جسے چاہو پنچ بنا دو۔‘‘
خالہ نے جُمّن کے اعتراض کو تاڑ لیا۔ بولیں ’’بیٹا۔ خدا سے ڈر۔ میرے لیے کوئی اپنا ایمان نہ بیچے گا۔ اتنے بھلے آدمیوں میں کیا سب تیرے دشمن ہیں اور سب کو جانے دو۔ الگو چو دھری کو تو مانے گا۔؟
جُمّن فرط مسرت سے باغ باغ ہو گئے۔ مگر ضبط کر کے بولے۔
’’الگو چودھری ہی سہی میرے لیے جیسے رام دھن مصر، ویسے الگو چودھری کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔‘‘
’’الگو بغلیں جھانکنے لگے۔ اس جھمیلے میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے۔ معترضانہ انداز سے کہا۔‘‘
’’بوڑھی ماں تم جانتی ہو کہ میری اور جُمّن کی گاڑی دوستی ہے۔‘‘
خالہ نے جواب دیا۔
’’بیٹا دوستی کے لیے کوئی اپنا ایمان نہیں بیچتا۔ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ پنچ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ اللہ کی طرف سے نکلتی ہے۔‘‘
الگو کو کوئی چارہ نہ رہا۔۔ سرپنچ بنے۔ رام دھن مصر دل میں بڑھیا کو کوسنے لگے۔
الگو چودھری نے فرمایا۔
شیخ جُمّن۔ ہم اور تم پرانے دوست ہیں۔ جب ضرورت پڑی ہے۔ تم نے میری مدد کی ہے اور ہم سے بھی جو کچھ بن پڑا ہے، تمھاری خدمت کرتے آئے ہیں۔ مگر اس وقت نہ تم ہمارے دوست ہو، نہ ہم تمھارے دوست۔ یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے۔
خالہ جان نے پنچوں سے اپنا حال کہہ سنایا۔ تم کو بھی جو کچھ کہنا ہو کہو۔‘‘
جُمّن ایک شانِ فضیلت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: ۔
پنچوں میں خالہ جان کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہوں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھتا۔ ہاں عورتوں میں ذرا اَن بَن رہتی ہے۔ اس میں میں مجبور ہوں۔ عورتوں کی تو عادت ہی ہے۔ مگر ماہوار روپیہ دینا میرے قابو سے باہر ہے۔ کھیتوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے چھپی نہیں۔ آگے پنچوں کا حکم سر اور ماتھے پر ہے۔‘‘
الگو کو آئے دن عدالت سے واسطہ رہتا تھا۔ قانونی آدمی تھے۔ جُمّن سے جرح کرنے لگے۔ ایک ایک سوال جُمّن کے دل پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگتا تھا۔ رام دھن مصر اور ان کے رفیق سر ہلا ہلا کر ان سوالوں کی داد دیتے تھے۔ جُمّن حیرت میں تھے کہ الگو کو کیا ہو گیا ہے۔ ابھی تو یہ میرے ساتھ بیٹھا کیسے مزے مزے کی باتیں کر رہا تھا۔ اتنی دیر میں ایسی کایا پلٹ ہو گئی کہ میری جڑ کھودنے پر آمادہ ہے۔ اچھی دوستی نباہی۔ اس سے اچھے تو رام دھن ہی تھے۔ وہ یہ تو نہ جانتے کہ کون کون سے کھیت کتنے پر اٹھتے ہیں اور کیا نکاسی ہوتی ہے۔ ظالم نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
جرح ختم ہونے کے بعد الگو نے فیصلہ سنایا۔ لہجہ نہایت سنگین اور تحکمانہ تھا۔
’’شیخ جُمّن۔ پنچوں نے اس معاملہ پر اچھی طرح غور کیا۔ زیادتی سراسر تمھاری ہے۔ کھیتوں سے معقول نفع ہوتا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ خالہ جان کے ماہوار۔ گذارے کا بندوبست کر دو۔ اس کے سوائے اور کوئی صورت نہیں اگر تمھیں یہ منظور نہیں تو ہبّہ نامہ منسوخ ہو جائے گا۔
جُمّن نے فیصلہ سنا اور سنّاٹے میں آ گیا۔ احباب سے کہنے لگا۔
’’بھئی اس زمانہ میں یہی دوستی ہے کہ جو اپنے اوپر بھروسہ کرے۔ اس کی گردن پر چھُری پھیری جائے۔ اسی کو نیرنگی روزگار کہتے ہیں، اگر لوگ ایسے دغا باز جو فروش گندم نما نہ ہوتے تو ملک پر یہ آفتیں کیوں آتیں یہ ہیضہ اور پلیگ انہی مکاریوں کی سزا ہے۔‘‘
مگر رام دھن مصرا اور فتح خان اور جگّو سنگھ اس بے لاگ فیصلہ کی تعریف میں رطب اللّسان تھے۔ اس کا نام پنچایت ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی دوستی دوستی کی جگہ ہے۔ مقّدم ایمان کا سلامت رکھنا ہے۔ ایسے ہی ستیہ بادیوں سے دنیا قائم ہے ورنہ کب کی جہنم میں مل جاتی۔ اس فیصلہ نے الگو اور جُمّن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں۔ تناور درخت حق کا ایک جھونکا بھی نہ سہہ سکا۔ وہ اب بھی ملتے تھے مگر وہ تیر وسپر کی طرح جُمّن کے دل سے دوست کی غّداری کا خیال دور نہ ہوتا تھا اور انتقام کی خواہش چین نہ لینے دیتی تھی۔
خوش قسمتی سے موقع بھی جلد مل گیا پچھلے سال مصروٹبیسرکے میلے سے بیلوں کی ایک اچھی گوئیاں مول لائے تھے۔ پچھائیں نسل کے خوبصورت بیل تھے مہینوں تک قرب و جوار کے لوگ انھیں دیکھنے آتے رہے۔
اس پنچایت کے ایک مہینہ بعد ایک بیل مرگیا۔ جُمّن نے اپنے دوستوں سے کہا۔
’’یہ دغا بازی کی سزا ہے۔ انسان صبر کر جائے، مگر خدا نیک و بد دیکھتا ہے۔ الگو کو اندیشہ ہوا کہ جُمّن نے اسے زہر دلوایا ہے اس کے برعکس چودھرائن کا خیال تھا کہ اس پر کچھ کرایا گیا ہے۔ چودھرائین اور فہمین میں ایک دن زور شورسے ٹھنی۔ دونوں خواتین نے روانی بیان کی ندی بہا دی۔ تشبیہات اور استعاروں میں باتیں ہوئیں۔ بارے جُمّن نے آگ بجھا دی۔ بیوی کو ڈانٹا اور رزم گاہ سے ہٹا لے گیا۔ ادھر الگو چودھری سے اپنے ڈنڈے سے چودھرائین کی شیریں بیانی کی داد دی۔
ایک بیل کس کام کا۔ اس کا جوڑا بہت ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ ناچاراسے بیچ ڈالنے کی صلاح ہوئی۔ گاؤں میں ایک سجھو سیٹھ تھے۔ وہ یکّہ گاڑی ہانکتے تھے۔ گاؤں میں گڑ گھی بھرتے اور منڈی لے جاتے۔ منڈی سے تیل نمک لاد کر لاتے اور گاؤں میں بیچتے تھے۔ اس بیل پر ان کی طبیعت لہرائی سوچا اسے لے لوں، تو دن میں بلا کسی منت کے تین کھیوے ہوں۔ نہیں تو ایک ہی کے لالے رہتے ہیں۔ بیل دیکھا گاڑی میں دوڑایا۔ دام کے لیے ایک مہینہ کا وعدہ ہوا۔ چودھری بھی غرض مند تھے گھاٹے کی کچھ پرواہ نہ کی۔
سجھو نے نیا بیل پایا تو پاؤں پھیلائے دن میں، تین تین چار چار کھیوے کرتے نہ چارے کی فکر تھی نہ پانی کی۔ بس کھیووں سے کام تھا۔ منڈی لے گئے وہاں کچھ سوکھا بھس ڈالا دیا اور غریب جانور ابھی دم بھی نہ لینے پایا تھا کہ پھر جوت دیا۔ الگو چودھری کے یہاں تھے تو چین کی بنسی بجتی تھی۔ راتب پاتے، صاف پانی، دلی ہوئی ارہر، بھوسے کے ساتھ کھلی، کھبی کبھی کبھی گھی کا مزہ بھی مل جاتا۔ شام سویرے ایک آدمی کھریرے کرتا۔ بدن کھجلاتا، جھاڑتا، پونچھتا، سہلاتا، کہاں وہ ناز و نعمت کہاں یہ آٹھوں پہر کی رپٹ مہینہ بھر میں بیچا رے کا کچومر نکل گیا۔ یکّہ کا جوا دیکھتے ہی بے چارے کا ہاؤ چھوٹ جاتا۔ ایک ایک قدم چلنا دوبھر تھا۔ ہڈیاں نکل آئی تھیں، لیکن اصیل جانور، مار کی تاب نہ تھی۔ ایک دن چوتھے کھیوے میں سیٹھ جی نے دونا بوجھ لادا دن بھر کا تھکا جانور، پیر مشکل سے اٹھتے تھے۔ اس پر سیٹھ جی کوڑے رسید کرنے لگے۔ بیل جگر توڑ کر چلا۔ کچھ دور دوڑا۔ چاہا کہ ذرا دم لے ادھر سیٹھ جی کو جلد گھر پہنچنے کی فکر، کئی کوڑے بے دردی سے لگائے بیل نے ایک بار پھر زور لگایا مگر طاقت نے جواب دے دیا۔ زمین پر گر پڑا اور ایسا گرا کہ پھر نہ اٹھا۔ سیٹھ نے بہت مارا پیٹا، ٹانگ پکڑ کر کھینچی، نتھنوں میں لکٹی کھونس دی، مگر لاش نہ اٹھی تب کچھ اندیشہ ہوا غور سے دیکھا بیل کو کھول کر الگ کیا اور سوچنے لگے کہ گاڑی کیوں کر گھر پہنچے بہت چیخے اور چلّائے مگر دیہات کا راستہ بچّوں کی آنکھ ہے سر شام سے بند، کوئی نظر نہ آیا قریب کوئی گاؤں بھی نہ تھا۔ مارے غصّہ کے موئے بیل پر اور درّے لگائے سسرے تجھے مرنا تھا تو گھر پر مرتا۔ تو نے آدھے راستہ میں دانت نکال دیے۔ اب گاڑی کون کھینچے؟ اس طرح خوب جلے بھنے کئی بورے گڑ اور کئی کنستر گھی کے بیچے تھے۔ دو چار سو روپے کمر میں بندھے ہوئے تھے، گاڑی پر کئی بورے نمک کے تھے چھوڑ کر جا بھی نہ سکتے گاڑی پر لیٹ گئے، وہیں رت جگا کرنے کی ٹھان لی اور آدھی رات تک دل کو بہلاتے رہے۔ حقہّ پیا، گایا، پھر حقّہ پیا، آگ جلائی، تاپا۔ اپنی دانست میں وہ تو جاگتے ہی رہے۔ مگر جب پو پھٹی چونکے اور کمر پر ہاتھ رکھا، تو تھیلی ندارد کلیجہ سن سے ہو گیا، کمر ٹٹولی۔ تھیلی کا پتہ نہ تھا گھبرا کر اِدھر ادھر دیکھا، کئی کنستر تیل کے بھی غائب تھے۔ سر پیٹ لیا، پچھاڑیں کھانے لگے۔ صبح کو بہزار خرابی گھر پہنچے۔
سیٹھانی جی نے یہ حادثہ المناک سنا تو چھاتی پیٹ لی، پہلے تو خوب روئیں تب الگو چودھری کو گالیاں دینے لگیں۔ حفظ ما تقدم کی سوجھی نگوڑے نے ایسا منحوس بیل دیا کہ سارے جنم کی کمائی لٹ گئی۔
اس واقعہ کو کئی ماہ گذر گئے الگو جب اپنے بیل کی قیمت مانگتے تو سیٹھ اور سیٹھانی دونوں جھلّائے ہوئے کتّوں کی طرح چڑھ بیٹھے۔ یہاں تو سارے جنم کی کمائی مٹّی میں مل گئی، فقیر ہو گئے۔ انھیں دام کی پڑی ہے۔ مردہ منحوس بیل دیا تھا، اس پر دام مانگتے ہیں۔ آنکھ میں دھول جھونک دی۔ مرا ہوا بیل گلے باندھ دیا۔ نرا پونگا ہی سمجھ لیا ہے۔ کسی گڈھے میں منہ دھو آؤ تب دام لینا۔ صبر نہ ہوتا ہو تو ہمارا بیل کھول لے جاؤ مہینے کے بدلے دو مہینے جوت لو اور کیا لو گے؟ اس فیاضانہ فیصلے کے قدر دان حضرات کی بھی کمی نہ تھی۔ اس طرح جھڑپ سن کر چودھری لوٹ آتے مگر ڈیڑھ سو روپے سے اس طرح ہاتھ دھو لینا آسان کام نہ تھا۔
ایک بار وہ بھی بگڑے سیٹھ جی گرم ہو پڑے۔ سیٹھانی جی جذبہ کے مارے گھر سے نکل پڑیں سوال و جواب ہونے لگے۔ خوب مباحثہ ہوا مجادلہ کی نوبت آ پہنچی سیٹھ جی نے گھر میں گھس کر کواڑ بند کر لیے۔ گاؤں کے کئی معزز آدمی جمع ہو گئے۔ دونوں فریق کو سمجھایا۔ سیٹھ جی کو دلاسا دے کر گھر سے نکالا۔ اور صلاح دی کہ آپس میں سرپھٹّول سے کام نہ چلے گا۔ اس سے کیا فائدہ پنچایت کر لوجو کچھ طے ہو جائے اسے مان جاؤ۔ سیٹھ جی راضی ہو گئے۔ الگو نے بھی حامی بھری فیصلہ ہو گیا۔ پنچایت کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دونوں فریق نے غول بندیاں شروع کیں۔ تیسرے دن اسی سایہ دار درخت کے نیچے پھر پنچایت بیٹھی۔
وہی شام کا وقت تھا کھیتوں میں کووّں کی پنچایت لگی ہوئی تھی۔ امر متنازعہ یہ تھا۔ مٹر پھلیوں پر اس کا جائز استحقاق ہے، یا نہیں، اور جب تک یہ مسئلہ طے نہ ہو جائے وہ رکھوالے لڑکے کی فریاد بے دار پر اپنی بلاغت آمیز ناراضگی کا اظہار ضروری سمجھتے تھے۔
درخت کی ڈالیوں پر طوطوں میں زبردست مباحثہ ہو رہا تھا۔ بحث طلب یہ امر تھا کہ انسان کو انھیں من حیث القوم بے وفا کہنے کا کیا حق حاصل ہے۔
پنچایت پوری آ بیٹھی، تو رام دھن مصر نے کہا: ۔
’’اب کیوں دیر کی جائے بولو چودھری کن کن آدمیوں کو پنچ بدتے ہو‘‘؟
الگو نے منکسرانہ انداز سے جواب دیا: ۔
سمجھو سیٹھ ہی چن لیں:
سمجھو سیٹھ کھڑے ہو گئے اور کڑک کر بولے:
میری طرف سے شیخ جُمّن کا نام رکھ لو۔
الگو نے پہلا نام جُمّن کا سنا تو کلیجہ دھک سے ہو گیا، گویا کسی نے اچانک تھپڑ مار دیا رام دھن مصرا الگو کے دوست تھے۔ تہ پر پہنچ گئے بولے ’’چودھری تم کو کوئی عذر تو نہیں ہے۔‘‘
چودھری نے مایوسانہ انداز سے جواب دیا۔ ’’ نہیں مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد چار نام اور تجویز کیے گئے۔ الگو پہلا چرکا کھا کر ہوشیار ہو گئے تھے خوب جانچ کر انتخاب کیا۔ صرف سرپنچ کا انتخاب باقی تھا۔ الگو اس فکر میں تھے، کہ اس مرحلہ کو کیوں کر طے کروں کہ یکایک سمجھو سیٹھ کے ایک عزیز گوڈر شاہ بولے: ۔
’’سمجھو بھائی سر پنچ کسے بناتے ہو؟
سمجھو کھڑے ہو گئے اور اکڑ کر بولے۔ شیخ جُمّن کو۔‘‘
رام دھن مصر نے چودھری کی طرف ہمدردانہ انداز سے دیکھ کر پوچھا۔ ’’الگو تمھیں کوئی عذر ہو تو بولو۔
الگو نے قسمت ٹھونک لی، حسرتناک لہجے میں بولے۔ ’’ نہیں عذر کوئی نہیں ہے۔‘‘
اپنی ذمّہ داریوں کا احساس اکثر ہماری تنگ ظرفیوں کا زبردست مصلح ہوتا ہے اور گمراہی کے عالم میں معتبر رہنما۔
ایک اخبار نویس اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھا ہو امجلس وزرا کو کتنی بے باکی اور آزادی سے اپنے تازیانہ قلم کا نشانہ بناتا ہے مگر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ خود مجلس وزراء میں شریک ہوتا ہے۔ اس دائرہ میں قدم رکھتے ہی اس کی تحریر میں ایک دل پذیر متانت کا رنگ پیدا ہوتا ہے، یہ ذمّہ داری کا احساس ہے۔
ایک نوجوان عالم شباب میں کتنا بے فکر ہوتا ہے۔ والدین اسے مایوسانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسے ننگ خاندان سمجھتے ہیں۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد وہی وارفتہ مزاج، ننگ خاندان کتنا سلامت رو، کتنا محتاط ہو جاتا ہے۔ یہ ذمّہ داری کا احساس ہے یہ احساس ہماری نگاہوں کو اور وسیع کر دیتا ہے، مگر زبان کو محدود۔
شیخ جُمّن کو بھی اپنی عظیم الشّان ذمہ داری کا احساس ہوا۔ اس نے سوچا میں اس وقت انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھا ہوں۔ میری آواز اس وقت حکم خدا ہے اور خدا کے حکم میں میری نیت کو مطلق دخل نہ ہونا چاہیے۔ حق اور راستی سے جو بھر ٹلنا بھی مجھے دنیا اور دین دونوں ہی میں سیاہ بنا دے گا۔
پنچایت شروع ہوئی فریقین نے اپنے حالات بیان کیے جرح ہوئی شہادتیں گذریں۔ فریقین کے مددگاروں نے بہت کھینچ تان کی جُمّن نے بہت غور سے سنا، اور تب فیصلہ سنایا۔
’’الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ پنچوں نے تمھارے معاملہ پر غور کیا سمجھو کو بیل کی پوری قیمت دینا واجب ہے جس وقت بیل ان کے گھر آیا۔ اس کو کوئی بیماری نہ تھی۔ اگر قیمت اس وقت دے دی گئی ہوتی تو آج سمجھو اسے واپس لینے کا ہر گز تقاضہ نہ کرتے۔‘‘
رام دھن مصر نے کہا۔ ’’قیمت کے علاوہ ان سے کچھ تاوان بھی لیا جائے سمجھو نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔
جُمّن نے کہا ’’اس کا اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوڈر شاہ نے کہا سمجھو کے ساتھ کچھ رعایت ہونی چاہیے۔ ان کا بہت نقصان ہوا ہے اور اپنے کیے کی سزامل چکی ہے۔
جُمّن بولا ’’اس کا بھی اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ الگو چودھری کی بھل منسی پر منحصر ہے۔ ’’یہ فیصلہ سنتے ہی الگو چودھری پھولے نہ سمائے۔ اٹھ کھڑے ہوئے، اور زور زور سے ہانک لگائی۔
’’پنچ پرمیشری کی جے۔۔۔
آسمان پر تارے نکل آئے تھے اس نعرہ کے ساتھ ان کی صدائے تحسین بھی سنائی دی۔ بہت مدھم گویا سمندر پار سے آئی ہو۔
ہر شخص جمّن کے انصاف کی داد دے رہا تھا۔ ’’انصاف اس کو کہتے ہیں آدمی کا یہ کام نہیں پنچ میں پرماتما بستے ہیں۔ یہ ان کی مایا ہے پنچ کے سامنے کھوٹے کو کھرا بنانا مشکل ہے۔‘‘
ایک گھنٹہ کے بعد جُمّن شیخ الگو کے پاس آئے اور ان کے گلے سے لپٹ کر بولے۔ بھیّا جب سے تم نے میری پنچایت کی ہے میں دل سے تمھارا دشمن تھا۔ مگر آج مجھے معلوم ہوا کہ پنچایت کی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔ انصاف کے سوا اور اسے کچھ نہیں سوجھتا یہ بھی خدا کی شان ہے آج مجھے یقین آ گیا کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔‘‘
الگو رونے لگے۔ دل صاف ہو گئے۔ دوستی کا مرجھا یا ہوا درخت پھر سے ہرا ہو گیا اب وہ بالو کی زمین پر نہیں۔ حق اور انصاف کی زمین پر کھڑا تھا۔
٭٭٭