دلفگار ایک پر خار درخت کے نیچے دامن چاک بیٹھا ہوا خون کے آنسو بہا رہا تھا۔ وہ حسن کی دیوی یعنی ملکہ دلفریب کا سچا اور جانباز عاشق تھا۔ ان عشاق میں نہیں جو عطر پھلیل میں بس کر اور لباس فاخرہ سج کر عاشق کے بھیس میں معشوقیت کا دم بھرتے ہیں، بلکہ ان سیدھے سادے بھولے بھالے فدائیوں میں جو کوہ اور بیاباں میں سر ٹکراتے اور نالہ و فریاد مچاتے پھرتے ہیں۔ دلفریب نے اس سے کہا تھا کہ اگر تو میرا سچا عاشق ہے۔ تو جا۔ اور دنیا کی سب سے بیش بہا شے لے کر میرے دربار میں آ۔ تب میں تجھے اپنی غلامی میں قبول کروں گی۔ اگر تجھے وہ چیز نہ ملے تو خبر دار! ادھر کا رخ نہ کرنا ورنہ دار پر کھینچوا دوں گی۔ دلفگار کو اپنے جذبے کے اظہار کا شکوہ شکایت اور جمال یار کے دیدار کا مطلق موقع نہ دیا گیا۔ دلفریب نے جونہی یہ فیصلہ سنایا۔ اس کے چوبداروں نے غریب دلفگار کو دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ اور آج تین دن سے یہ ستم رسیدہ شخص اسی پر خار درخت کے نیچے اسی وحشت ناک میدان میں بیٹھا ہوا سوچ رہا ہے کہ کیا کروں؟ دنیا کی سب سے بیش بہا شے! نا ممکن! اور وہ ہے کیا؟ قارون کا خزانہ؟ آب حیات؟ تاج خسرو؟ جام جم؟ تخت طاؤس؟ زرپرویز؟ نہیں یہ چیزیں ہر گز نہیں دنیا میں ضرور ان سے گراں تر، ان سے بھی بیش بہا چیزیں موجود ہیں۔ مگر وہ کیا ہیں؟ کہاں ہیں؟ کیسے ملیں گی؟ یا خدا میری مشکل کیوں کر آسان ہو گی۔
دلفگار انہیں خیالات میں چکر کھا رہا تھا اور عقل کچھ کام نہ کرتی تھی منیر شامی کو حاتم سا مددگار مل گیا۔ اے کاش کوئی میرا بھی مدد گار ہو جاتا۔ اے کاش مجھے بھی اس چیز کا جو دنیا کی سب سے بیش بہا ہے، نام بتلا دیا جاتا۔ بلا سے وہ شے دستیاب نہ ہوتی مگر مجھے اتنا معلوم ہو جاتا کہ وہ کس قسم کی چیز ہے۔ میں گھڑے برابر موتی کی کھوج میں جا سکتا ہوں۔ میں سمندر کا نغمہ، پتھر کا دل، قضا کی آواز، اور ان سے بھی زیادہ بے نشان چیزوں کی تلاش میں کمر ہمت باندھ سکتا ہوں۔ مگر دنیا کی سب سے بیش بہا شے یہ میرے پر پرواز سے بالا تر ہے۔
آسمان پر تارے نکل آئے تھے۔ دلفگار یکا یک خدا کا نام لے کر اٹھا اور ایک طرف کو چل کھڑا ہوا۔ بھوکا پیاسا، برہنہ تن خستہ و زار وہ برسوں ویرانوں اور آبادیوں کی خاک چھانتا پھرا۔ تلوے کانٹوں سے چھلنی ہو گئے۔ جسم میں تار سطر کی طرح ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ مگر وہ چیز جو دنیا کی سب سے بیش بہا شے تھی۔ میسر نہ ہوئی۔ اور نہ اس کا کچھ نشان ملا۔
ایک روز بھولتا بھٹکتا ایک میدان میں نکلا۔ جہاں ہزاروں آدمی حلقہ باندھے کھڑے تھے۔ بیچ میں عمامے اور عبا والے ریشائیل قاضی شان تحکم سے بیٹھے ہوئے باہم کچھ غرفش کر رہے تھے اور اس جماعت سے ذرا دور پر ایک سولی کھڑی تھی۔ دلفگار کچھ ناتوانی کے غلبے سے۔ اور کچھ یہاں کی کیفیت دیکھنے کے ارادے سے ٹھٹک گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کئی برقندار ایک دست و پا بزنجیر قیدی کے لئے چلے آ رہے ہیں۔ سولی کے قریب پہونچ کر سب سپاہی رک گئے۔ اور قیدی کی ہتھکڑیاں بیڑیاں سب اتار لی گئیں۔ اس بد قسمت شخص کا دامن صد ہا بے گناہوں کے خون کے چھینٹوں سے رنگین ہو رہا تھا۔ اور اس کا دل نیکی کے خیال اور رحم کی آواز سے مطلق مانوس نہ تھا۔ اسے کالا چور کہتے تھے۔ سپاہیوں نے اسے سولی کے تختے پر کھڑا کر دیا۔ موت کی پھانسی اس کی گردن میں ڈال دی۔ اور جلادوں نے تختہ کھینچنے کا ارادہ کیا۔ کہ بد قسمت مجرم چیخ کر بولا ’’للہ مجھے ایک دم کے لیے پھانسی سے اتار دو۔ تاکہ اپنے دل کی آخری آرزو نکال لوں۔‘‘ یہ سنتے ہی چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ حیرت میں آ کر تاکنے لگے۔ قاضیوں نے ایک مرنے والے شخص کی آخری استدعا کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اور بدنصیب سیہ کار کالا چور ذرا دیر کے لیے پھانسی سے اتار لیا گیا۔
اس مجمع میں ایک خوبصورت بھولا بھالا لڑکا ایک چھڑی پر سوار ہو کر اپنے پیروں پر اچھل اچھل کر فرضی گھوڑا دوڑا رہا تھا۔ اور اپنے عالم سادگی میں مگن تھا گویا وہ اس وقت واقعی کسی عربی رہوار کا شہسوار ہے۔ اس کا چہرہ اس سچی مسرت سے کنول کی طرح کھلا ہوا تھا جو چند دنوں کے لیے بچپن ہی میں حاصل ہوتی ہے۔ اور جس کی یاد ہم کو مرتے دم نہیں بھولتی۔ اس کا سینہ ابھی تک معصیت کے گردو غبار سے بے لوث تھا۔ اور معصومیت اسے اپنی گود میں کھلا رہی تھی۔
بدقسمت کالا چور پھانسی سے اترا۔ ہزاروں آنکھیں اسی پر گڑی ہوئی تھیں۔ وہ اس لڑکے کے پاس آیا اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگا۔ اسے اس وقت وہ زمانہ یادآیا جب وہ خود ایسا ہی بھولا بھالا ایسا ہی خوش و خرم اور آلائشات دنیوی سے ایسا ہی پاک و صاف تھا۔ ماں گود یوں میں کھلاتی تھی۔ باپ بلائیں لیتا تھا اور سارا کنبہ جانیں و ارا کرتا تھا۔ آہ! کالے چور کے دل پر اس وقت ایام گزشتہ کی یاد کا اتنا اثر ہوا کہ اس کی آنکھوں سے جنھوں نے نیم بسمل لا شوں کو تڑپتے دیکھا۔ اور نہ جھپکی تھیں۔ آنسو کا ایک قطرہ ٹپک پڑا۔ دلفگار نے لپک کر اس درّ یکتا کو ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس کے دل نے کہا بیشک یہ شے دنیا کی سب سے انمول چیز ہے جس پر تخت طاؤس اور جام جم اور آب حیات اور زر پرویز سب تصدق ہیں۔
اسی خیال سے خوش ہوتا، کامیابی کی امید سے سرمست، دلفگار اپنی معشوقہ دلفریب کے شہر مینو سواد کو چلا۔ مگر جوں منزلیں طے ہوتی جاتی تھیں۔ اس کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ کہ کہیں اس چیز کی جسے میں دنیا کی سب سے بیش بہا چیز سمجھتا ہوں، دلفریب کی نگاہوں میں قدر نہ ہوئی تو میں دار پر کھینچ دیا جاؤں گا۔ اور اس دنیاسے نامراد جاؤں گا پر ہر چہ بادا باد۔ اب تو قسمت آزمائی ہے۔ آخر کوہ و دریا طے کرتے شہر مینوسواد میں آ پہونچا۔ اور دلفریب کے در دولت پر جا کر التماس کی کہ خستہ و زار دلفگار بفضل خدا تعمیل ارشاد کر کے آیا ہے اور شرف قدم بوسی چاہتا ہے۔ دلفریب نے فی الفور حضور میں بلا بھیجا۔ اور ایک زر نگار پر دہ کی اوٹ سے فرمائش کی کہ وہ ہدیہ بیش بہا بیش کرو۔ دلفگار نے ایک عجب امید بیم کے عالم میں وہ قطرہ پیش کیا اور اس کی ساری کیفیت نہایت ہی موثر لہجے میں بیان کی۔ دلفریب نے کل روداد بغور سنی۔ اور تحفہ ہاتھ میں لے کر ذرا دیر تک غور کر کے بولی۔ ’’دلفگار بیشک تو نے دنیا کی ایک پیش قیمت چیز ڈھونڈ نکالی۔ تیری ہمت کو آفریں اور تیری فراست کو مرحبا! مگر یہ دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز نہیں۔ اس لیے تو یہاں سے جا اور پھر کوشش کر۔ شاید اب کی تیرے ہاتھ در مقدور لگے اور تیری قسمت میں میری غلامی لکھی ہو۔ اپنے عہد کے مطابق میں تجھے دار پر کھینچوا سکتی ہوں۔ مگر میں تیری جان بخشی کرتی ہوں۔ اس لیے کہ تجھ میں وہ اوصاف موجود ہیں جو میں اپنے عاشق میں دیکھنا چاہتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تو ضرور کبھی سرخ رو ہو گا۔ ناکام و نامراد دلفگار اس عنایت معشوقانہ سے ذرا دلیر ہو کر بولا۔ ’’اے محبوب دلنشیں بعد مدتہائے دراز کے تیرے آستاں کی جبہ رسائی نصیب ہوئی ہے۔ پھر خدا جانے ایسے دن کب آئیں گے۔ کیا تو اپنے عاشق جانباز کے حال زار پر ترس نہ کھائے گی اور اپنے جمال جہاں آرا کا جلوہ دکھا کر اس سوختہ تن دلفگار کو آنے والی سختیوں کے چھیلنے کے لیے مستعد نہ بنائے گی۔ تیری ایک نگاہ مست کے نشہ سے بیخود ہو کر میں وہ کر سکتا ہوں جو آج تک کسی سے نہ ہوا ہو۔ دلفریب عاشق کے یہ اشتیاق آمیز کلمات کو سن کر برافروختہ ہو گی اور حکم دیا کہ اس دیوانے کو کھڑے کھڑے دربار سے نکال دو۔ چوبدار نے فوراً غریب دلفگار کو دھکے دے کر کوچۂ یار سے باہر نکال دیا۔
کچھ دیر تک تو دلفگار معشوقانہ ستم کیش کی اس تند خوئی پرآنسو بہاتا رہا۔ بعد ازاں سوچنے لگا کہ اب کہاں جاؤں۔ مدتوں کی رہ نوردی و بادیہ پیمائی کے بعد یہ قطرۂ اشک ملا تھا۔ اب ایسی کون سی چیز ہے جس کی قیمت اس در آبدار سے زائد ہو۔ حضرت خضر! تم نے سکندر کو جاہ و ظلمات کا راستہ دکھایا تھا۔ کیا میری دست گیری نہ کرو گے؟ سکندر شاہ ہفت کشور تھا۔ میں تو ایک خانماں برباد مسافرہوں۔ تم نے کتنی ہی ڈوبتی کشتیاں کنارے لگائی ہیں۔ مجھ غریب کا بیڑا بھی پار کرو۔ اے جبرئیل عالی مقام! کچھ تمہیں اس عاشق نیم جان و اسیر رنج و محن پرترس کھاؤ۔ تم مقربان بارگاہ سے ہو۔ کیا میری مشکل آسان نہ کرو گے؟ الغرض دلفگار بیزار نے بہت فریاد مچائی۔ مگر کوئی اس کی دستگیر کے لیے نمودار نہ ہوا۔ آخر مایوس ہو کر وہ مجنوں صفت دوبارہ ایک طرف کو چل کھڑا ہوا۔
دلفگار نے پورب سے پچھم تک اور اترسے دکھن تک کتنے ہی دیاروں کی خاک چھانی۔ کبھی بر فشانی چوٹیوں پرسویا۔ کبھی ہولناک وادیوں میں بھٹکتا پھرا۔ مگر جس چیز کی دھن تھی وہ نہ ملی۔ یہاں تک کہ اس کا جسم ایک تودۂ استخواں ہو گیا۔
ایک روز وہ شام کے وقت کسی دریا کے کنارے خستہ حال پڑا تھا۔ نشہ بے خودی سے چونکا، دیکھتا ہے کہ صندل کی چتا بنی ہوئی ہے اور اس پر ایک نازنین شہا نے جوڑے پہنے، سولہوں سنگار کئے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کے زانو پر اس کے پیارے شوہر کی لاش ہے۔ ہزاروں آدمی حلقہ باندھے کھڑے ہیں۔ اور پھولوں کی برکھا کر رہے ہیں۔ یکا یک چتا میں سے خود بخود ایک شعلہ اٹھا۔ ستی کا چہرہ اس وقت ایک پاک جذبے سے منور ہو رہا تھا۔ مبارک شعلے اس کے گلے لپٹ گئے۔ اور دم زدن میں وہ پھول سا جسم تودۂ خاکستر ہو گیا۔ معشوق نے اپنے تئیں عاشق پر نثار کر دیا۔ اور دو فدائیوں کی سچی، لافانی اور پاک محبت کا آخری جلوہ نگاہ ظاہر سے پنہاں ہو گیا۔ جب سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹے تو دلفگار چپکے سے اٹھا اور اپنے گریبان چاک دامن میں یہ تودۂ خاک سمیٹ لیا۔ اور اس مشت خاک دنیا کی سب سے گراں بہا چیز سمجھتا ہوا کامرانی کے نشہ میں مخمور کوچۂ یار کی طرف چلا۔ اب کی جوں جوں وہ منزل مقصود کے قریب آتا تھا، اس کی ہمتیں بڑھتی جاتی تھیں۔ کوئی اس کے دل میں بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا اب کی تری فتح ہے اور اس خیال نے اس کے دل کو جو خواب دکھائے۔ اس کا ذکر فضول ہے۔ آخر وہ شہر مینوسواد میں داخل ہوا۔ اور دلفریب کے آستان رفعت نشان پرجا کر خبر دی کہ دلفگار سرخرو اور با وقار لوٹا ہے اور حضوری میں بار یاب ہوا چاہتا ہے۔ دلفریب کے عاشق جانباز کو فوراً دربار میں بلایا اور اس چیز کے لیے جو دنیا کی سب سے بیش بہا جنس تھی، ہاتھ پھیلا دیا۔ دلفگار نے جرأت کر کے اس ساعد سیمیں کا بوسہ لے لیا اور وہ مشت خاک اس میں رکھ کر وہ ساری کیفیت نہایت دلسوز انداز میں کہہ سنائی اور معشوقہ دلپذیر کے نازک لبوں سے اپنی قسمت کا مبارک اور جانفزا فیصلہ سننے کے لیے منتظر ہو بیٹھا۔ دلفریب نے اس مشت خاک کو آنکھوں سے لگا لیا اور کچھ دیر تک دریائے تفکر میں غرق رہنے کے بعد بولی۔ ’’اے عاشق جاں نثار دلفگار! بیشک یہ خاک کیمیائے صفت جو تو لایا ہے دنیا کی نہایت بیش قیمت چیز ہے۔ اور میں تیری صدق دل سے ممنون ہوں کہ تو نے ایسا بیش بہا تحفہ مجھے پیش کش کیا۔ مگر دنیا میں اس سے بھی زیادہ گراں قدر کوئی چیز ہے۔ جا اسے تلاش کر اور تب میرے پاس آ۔ میں تہہ دل سے دعا کرتی ہوں کہ خدا تجھے کامیاب کرے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پردۂ زر نگار سے باہر آئی۔ اور معشوقانہ ادا سے اپنے جمال جاں سوز کا نظارہ دکھا کر پھر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ایک برق تھی کہ کوندی اور اور پھر پردۂ ابر میں چھپ گئی۔ ابھی دلفگار کے حواس بجا نہ ہونے پائے تھے کہ چوبدار نے ملائمت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کوچۂ یار سے نکال دیا۔ اور پھر تیسری بار وہ بندۂ محبت۔ وہ زاویہ نشین گنج ناکامئ یاس کے اتھاہ سمندر میں غوطہ کھانے لگا۔
دلفگار کا ہباؤ چھوٹ گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ میں دنیا میں ناشاد و نامراد مر جانے کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور اب بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ کسی پہاڑ پر چڑھ کر اپنے تئیں گرا دوں۔ تاکہ معشوق کی جفا کاریوں کی لیے ایک ریزہ استخواں بھی باقی نہ رہے۔ وہ دیوانہ وار اٹھا اور افشاں و خیزاں ایک سر بفلک کوہ کی چوٹی پر جا پہنچا۔ کسی اور وقت وہ اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا مگر اس وقت جان دینے کے جوش میں اسے وہ پہاڑ ایک معمولی ٹیکرے سے زیادہ اونچا نہ نظر آیا۔ قریب تھا کہ وہ نیچے کود پڑے کہ ایک سبز پوش پسر مرد سبز عمامہ باندھے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں عصا لیے برآمد ہوئے۔ اور ہمت افزا لہجے میں بولے۔ ’’دلفگار! نادان دلفگار! یہ کیا بزدلانہ حرکت ہے؟ استقلال راہ عشق کی پہلی منزل ہے۔ با ایں ہمہ ادعائے عاشقی تجھے اتنی بھی خبر نہیں۔ مرد بن اور یوں ہمت نہ ہار۔ مشرق کی طرف ایک ملک ہے جس کا نام ہندوستان ہے۔ وہاں جا اور تیری آرزو پوری ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت غائب ہو گئے۔ دلفگار نے شکریہ کی نماز ادا کی۔ اور تازہ حوصلے، تازہ جوش، اور غیبی امداد کا سہارا پا کر خوش خوش پہاڑ سے اترا اور جانب ہند مراجعت کی۔
مدتوں تک پر خار جنگلوں، شرر بار ریگستانوں، دشوار گزار وادیوں اور ناقابل عبور پہاڑوں کو طے کرنے کے بعد دلفگار ہند کی پاک سرزمین میں داخل ہوا۔ اور ایک خوشگوار چشمہ میں سفر کی کلفتیں دھوکر غلبۂ ماندگی سے لب جوئبار لپٹ گیا۔ شام ہوتے وہ ایک کف دست میدان میں پہونچا جہاں بیشمار نیم کشتہ اور بے جان لاشیں بے گور و گفن پڑی ہوئی تھیں۔ زاغ و زغن اور وحشی درندوں کی گرم بازاری تھی۔ اور سارا میدان خون سے شنگرف ہو رہا تھا۔ یہ ہیبت ناک نظارہ دیکھتے ہی دلفگار کا جی دہل گیا۔ خدایا! کس عذاب میں جان پھنسی۔ مرنے والوں کا کراہنا سسکنا اور ایڑیاں رگڑ کر جان دینا۔ درندوں کا ہڈیوں کو نوچنا اور گوشت کے لوتھڑوں کے لے کر بھاگنا۔ ایسا ہولناک سین دلفگار نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ یکا یک اسے خیال آیا۔ میدان کارزار ہے اور یہ لاشیں سو رما سپائیوں کی ہیں۔ اتنے میں قریب سے کراہنے کی آواز آئی۔ دلفگار اس طرف پھرا تو دیکھا کہ ایک قومی ہیکل شخص، جس کا مردانہ چہرہ ضعف جان کندنی سے زرد ہو گیا ہے۔ زمین پر سرنگوں پڑا ہا ہے۔ سینے سے خون کا فوارہ جاری ہے۔ مگر شمشیر آبدار کا قبضہ پنجے سے الگ نہیں ہوا۔ دلفگار نے ایک چیتھڑا لے کر دہان زخم پر رکھ دیا تاکہ خون رک جائے اور بولا۔ ’’اے جوان مرد تو کون ہے؟‘‘ جوان مرد نے یہ سن کر آنکھیں کھولیں اور دلیرانہ لہجہ میں بولا۔ ’’کیا تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ کیا تو نے آج اس تلوار کی کاٹ نہیں دیکھی؟ میں اپنی ماں کا بیٹا اور بھارت کا لخت جگر ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کے تیوروں پر بل پڑ گئے۔ زرد چہرہ خشمگیں ہو گیا اور شمشیر آبدار پھر اپنا جوہر دکھانے کے لیے چمک اٹھی۔ دلفگار سمجھ گیا کہ یہ اس وقت مجھے دشمن خیال کر رہا ہے۔ ملائمت سے بولا۔ ’’اے جوان مرد! میں تیرا دشمن نہیں ہوں۔ ایک آوارہ وطن غربت زدہ مسافر ہوں۔ ادھر بھولتا بھٹکتا آ نکلا۔ براہ کرم مجھ سے یہاں کی مفصل کیفیت بیان کر۔‘‘ یہ سنتے ہی زخمی سپاہی نہایت شیریں لہجہ میں بولا۔ ’’اگر تو مسافر ہے تو آ اور میرے خون سے تر پہلو میں بیٹھ جا کیوں کہ یہی دو انگل زمین ہے جو میرے پاس باقی رہ گئی ہے اور جو سوائے موت کے کوئی نہیں چھین سکتا۔ افسوس ہے کہ تو یہاں ایسے وقت میں آیا۔ جب ہم تیری مہمان نوازی کرنے کے قابل نہیں۔ ہمارے باپ دادا کا دیس آج ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور اس وقت ہم بے وطن ہیں۔ مگر (پہلو بدل) ہم نے حملہ آور غنیم کو بتا دیا کہ راجپوت اپنے دیس کے لیے کیسی بے جگری سے جان دیتا ہے۔ یہ آس پاس جو لاشیں تو دیکھ رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کی ہیں جو اس تلوار کے گھاٹ اترے ہیں (مسکرا کر) اور گو کہ میں بے وطن ہوں۔ مگر غنیمت ہے کہ حریف کے حلقہ میں مر رہا ہوں۔ (سینے کے زخم سے چیتھڑا نکال کر) کیا تو نے یہ مرہم رکھ دیا۔ خون نکلنے دے۔ اسے روکنے سے کیا فائدہ؟ کیا میں اپنے ہی وطن میں غلامی کرنے کے لیے زندہ ہوں؟ نہیں ایسی زندگی سے مرنا اچھا۔ اس سے بہتر موت ممکن نہیں۔
جوان مرد کی آواز مدھم ہو گئی۔ اعضا ڈھیلے ہو گئے۔ خون اس کثرت سے بہا کہ اب خود بخود بند ہو گیا۔ رہ رہ کر ایک آدھ قطرہ ٹپک پڑتا تھا۔ آخر کار سارا جسم بیدم ہو گیا۔ قلب کی حرکت بند ہو گئی۔ اور آنکھیں مند گئیں۔ دلفگار نے سمجھا اب کام تمام ہو گیا کہ مرنے والے نے آہستہ سے کہا۔ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ اور اس کے سینہ سے آخری قطرہ خون نکل پڑا۔ ایک سچے محب وطن اور دیس بھگت نے حب الوطنی کا حق ادا کر دیا۔ دلفگار اس نظارہ سے بیحد متاثر ہوا۔ اور اس کے دل نے کہا بیشک دنیا میں اس قطرہ خون سے بیش قیمت شے نہیں ہو سکتی۔ اس نے فوراً اس رشک لعل رمّانی کو ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس دلیر راجپوت کی بسالت پر عش عش کرتا ہوا عازم وطن ہوا۔ اور وہی سختیاں جھیلتا ہوا بالآخر ایک مدت دراز میں ملکہ اقلیم خوبی اور در صدف محبوبی کے در دولت پر جا پہونچا۔ اور پیغام دیا کہ دلفگار سرخرو و کامگار لوٹا ہے اور دربار گہر بار میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ دلفریب نے اسے فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا۔ خود حسب معمولی پردۂ زرنگار کے پس پشت بیٹھی اور بولی۔ ’’دلفگار! اب کی تو بہت دنوں کے بعد واپس آیا ہے۔ لا دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز کہاں ہے؟ دلفگار نے پنجۂ حنائی کا بوسہ لے کر وہ قطرۂ خون اس پر رکھ دیا۔ اور اس کی مشرح کیفیت پر جوش لہجے میں کہہ سنائی۔ وہ خاموش بھی نہ ہونے پایا تھا کہ یکا یک وہ پردۂ زرنگار ہٹ گیا اور دلفگار کے رو برو ایک دربار حسن آراستہ نظر آیا۔ جس میں ایک نانین رشک زلیخا تھی، دلفریب بصد شان رعنائی مسند زریں کار پر جلوہ افروز تھی۔ دلفگار یہ طلسم حسن دیکھ کر متحیر ہو گیا۔ اور نقش دیوار کی طرح سکتے میں آ گیا۔ کہ دلفریب مسند سے اٹھی اور کئی قدم آگے بڑھ کر اس کے ہم آغوش ہو گئی۔ رقاصان دلنواز نے شادیانے گانے شروع کئے۔ حاشیہ نشینانِ دربار نے دلفگار کو نذریں گزاریں۔ اور ماہ و خورشید کو بہ عزت تمام مسند پر بیٹھا دیا۔ جب نغمۂ دل پسند بند ہوا تو دلفریب کھڑی ہو گئی۔ اور دست بستہ ہو کر دلفگار سے بولی۔ ’’اے عاشق جان نثار دلفگار! میری دعائیں تیر بہدف ہوئیں اور خدا نے میری سن لی اور تجھے کامیاب و سرخ رو کیا۔ آج سے تو میرا آقا ہے اور میں تیری کنیز ناچیز‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے ایک مرصع صندوقچہ منگایا اور اس میں سے ایک لوح نکالا جس پر آب زر سے لکھا ہوا تھا۔
’’وہ آخری قطرۂ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے، دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہے۔‘‘
٭٭٭