آج وہ پورے پچپیس دن بعد کالج ائی تھی اور کالج انے سے لےکر اب تک ادھ کالج اس کی خیریت دریافت کرنے آ چکا تھا اسے جہان خوشگواریت کا احساس ہوا تھا وہی عمر عباس سے متعلق سوالات پہ زچ ہو چکی تھی اور ان سوالات سے بچنے کے لیے اور بیماری کے دنوں طے کیا جانے والے لائحہ عمل پہ عمل کرنے کے لیے وہ بریک ٹائم میں پرنسپل سے اجازت لے کر عفرا کو بغیر بتائے کالج سے نکل ائی ۔۔۔ اس نے بیگ میں رکھا والت اور مطلوبہ سامان چیک کیا اور سامنے سے آتے رکشے کو دیکھ کر اسے ہاتھ دے کر روک لیا تھوڑی دیر بعد وہ سعودی ایمبیسی کے باہر کھڑی تھی ۔۔۔ ایمبیسی سے اپنا پاسپورٹ ری نیو کروانے کے بعد وہ جس وقت ایمبیسی سے باہر نکلی تو بارہ بج رہے تھے سورج آسمان کے سینے پر پوری شان سے چمک رہا تھا اس نے چلچلاتی دھوپ کو نظر انداز کیا اور سامنے سے اتی وین میں سوار ہو گئی ، وین میں بیٹھے اسے ایک پل کے لیے خوف آیا کیوں نکہ آج تک اس نے وین میں سفر نہیں کیا تھا جہان بی جانا ہوتا طاہر یا عمر کے ساتھ جاتی تھی یا پھر عفرا اور وہ ڈرائیور کے ساتھ جاتی تھیں ۔۔۔ کیوں نکہ زندگی کا سفر اب نیے لائحہ عمل سے شروع کرنا تھا ۔۔ تو یہ ڈر کیا معنی رکھتا تھا وہ کس وقت عباس ہاؤس میں داخل ہوئی اس وقت ڈیڑھ بج رہا تھا اسے معلوم تھا عفرا کالج سے واپس آ چکی ہو گی لیکن اسے اب گھر میں مجود نہ پہ کر وہ پریشانی ہوگی لیکن وہ نہ صرف خود پرشان ہوگی بلکہ سب کو پرشان کر دے گی اس بات کا نیہا کو اندازہ نہیں تھا ۔۔۔ اس نے لان میں لگے آم کے درخت کو سانس بھر کر دیکھا اور پورچ کراس کرتی لاونج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی لیکن اندر داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گئی سامنے ہی بی جان بیٹھی تھی جن کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور لب کسی چیز کا ودر کر رہے تھے ان کے پاس عفرا طاہر عمر کے علاوہ علی حیدر اور اسماء حیدر بھی مجود تھے اس کو دیکھ کر سب سے پہلے طاہر لپک کر اس کے پاس آیا ۔۔اس کو آنکھوں میں خوف کے ساتھ غصہ بھی تھا ۔۔
کہاں تھی تم ۔۔ تمھیں پتا ہے ہم سب کتنا پرشان ہوگے تھے ۔۔ طاہر نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجوڑا۔۔
ائی یم سوری ۔۔۔ اس نے کہ کر نظر جھک لی ۔۔۔۔
میں پوچھ رہا ہو کہا تھی تم ہنی ۔۔؟؟؟
اس نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا تو عمر اٹھ کر اس کے پاس اگیا ۔۔
ہٹو طاہر میں اس سے پوچھتا ہوں یہ کہاں گئی تھی ۔۔۔۔ عمر اسے ایک طرف ہٹاتے ھوے کہا تو نیہا جواب تک طاہر سے سر جھکا کر بات کر رہی تھی یکدم سر اٹھا کر بے لحاظی سے بولی ۔۔۔۔۔
آپ کون ہوتے ہیں یہ پوچھنے والے ؟؟؟۔۔۔
اور اس کے جواب سے زیادہ اس کے انداز نے سب کو حیران کر دیا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں بے خوفی کے ساتھ جو ہلکا سا احساس ہلکورے لے رہا تھا اسے طاہر کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھا لیکن عمر جان چکا تھا ساہ آنکھوں میں ہلکورے لیتا احساس کسی اور چیز کا نام نہیں بلکہ نفرت ہے وہ ایک غلطی جو عمر عباس کے نزدیک غلطی ہی تھی وہ نیہا سلیمان کو نئی زندگی دینے کا سبب بنی تھی جس میں عمر عباس کے لیے سوائے نفرت کے کوئی جگہ نہ تھی ۔۔۔
تم کہاں گئی تھی بیٹا ہم سب کتنا پرشان تھے ۔۔۔۔ علی حیدر سوف سے اٹھ کر اس کے پاس آ کر شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ کر کر پوچھا ۔۔۔۔
ائیمسبیی گئی تھی ۔۔ چاچو ۔۔
ائیمسبیی !!!!!۔۔سب سے منہ سے حیرت زدہ نکالا ۔۔۔۔
میں چاچو کے پاس دبئی جانا چاہتی ہوں ۔۔۔اس نے علی حیدر کے بھائی کا نام لیا جو دبئی میں مقیم تھے ۔۔۔۔ اور بار ہاں اس کو دبئی آنے کی دعوت دے چکے تھے اس نے نظر اٹھا کر سب کو دیکھا اور پھر اپنا ارادہ ظاہر کر دیا کیوں نکہ ایک نہ ایک دن یہ بات سب کو بتانی تھی ۔۔۔
مگر کیوں ؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی ۔۔۔۔ اس نے لاپرواہی سے کہا ۔۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی ان سب کو پتا چلے کہ ایسے ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ہمشہ سے لیے جانا چاہتی ہے ۔۔۔۔
یہ بیٹھے بٹھائے کیا دبئی کی سوجھ گئی تمیں ۔۔۔۔۔ بی جان کی پرشانی اور اس کا ارادہ سن کے جھنجھلاہت کر بولی ۔۔۔
پلیز بی جان جانے دے اب تو ایگزام بھی ختم ہو گئے ہیں ۔۔۔ اس نی بھی جان کی منت کی اور کوئی جواب نہ پا کر علی حیدر اور اسماء حیدر کی طرف مڑگئی۔۔۔
پلیز چاچو بی جان سے کہے نہ مجھ دبئی جانے دے صرف کچھ دنوں کی بات ہے اس نے ان کو اپنا سپورٹر بنایا کھبی بی جان کے پاس جاتی کبھی علی حیدر کے پاس اس پریڑ مارچ میں وہ عفرا طاہر اور عمر کو بھول چکی تھی اور جہان طاہر اور عمر کے لیے حیرت کا باعث تھی وہی اس کی بے گانگی پہ عفرا کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے اسے اس نے سرعت سے پیچھے دھکیل دیا ۔۔بالآخر اس کی ایک گھنٹے کی پریڈ علی حیدر کی سپورٹ کم آ گئی بی جان اس کو دبئی بجنے کے لیے مان گئی لیکن صرف ایک ماہ کے لیے اور اس کے لیے تو ان کی اجازت ہی کافی تھی وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی یوں کے اگر اس نے ابھی پیکنگ شروع نہ کی تو بی جان کا قرار انکار میں نہ بدل جائے پیچھے بی جان اسے کھانے کی ہدایت کرتی رہ گئی لیکن وہ سب کچھ نظر انداز کرتی اپنے کمرے کی طرح چلتی گئی ۔۔کمرے میں آ کر اس نے بیڈ کے نیچے سے سوتے کیس گھسیٹا اور وار ڈروب کھل کر کپڑے ہینگر سمیٹ سوٹ کیس میں بڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔ کپڑے رکھنے کے بعد اس نے تمام ڈاکومنٹسں رکھے اور سائیڈ کارنر میں رکھی ماں باپ کی تصویر سوٹ کیس میں رکھی وہ گویا یوں تیری کر رہی جیسے آج شام کو اس کی فلائٹ ہو اور یہی ہوا بھی ۔۔۔۔ اس نے کمرے میں آنے سے بعد علی حیدر سے ضد کر کے اگلی شام کی ٹکٹ بک کروائی ۔۔۔ عفرا جو کافی دیر سے دروازے میں کھڑی تھی دیکھا رہی تھی جب بضط نہ ہو سکا تو پھٹ پڑی ۔۔۔۔۔
دس از ٹو مچ ہنی ۔۔۔۔۔ تم عمر بھائی کی غلطی کی سزا ہم سب کو کیوں دے رہی تم ان کی غلطی کو معاف نہیں کر سکتی ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ اس نے لا پرواہی سے یک لفظی جواب دیا ۔۔۔
مجھے ایسا کیوں لگا رہا ہے ہنی تم یہ پلاننگ ایک ماہ کی نہیں بلکہ اس سے زیادہ کچھ دیر سے ۔۔۔۔ عفرا نے اس کے کاندھے ہاتھ رکھ کر اپنی طرف گھماتے ھوے کہا ٹو نیہا اس کی صیح قیاس آرائی پر ٹھٹک گئی پھر یکدم ہکلاتے ھوے بولی ۔۔۔۔۔
نہ ۔۔نہ ۔۔۔نہ ۔۔۔نہیں تمھیں ایسا کیوں لگ رہا ہے ۔۔۔ اصل میں چاچو سے ملنے کی خوشی میں کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا ناں تو بس جو ہاتھ میں آیا رکھ لیا ۔۔۔۔ اس نے بے تکا جواب دیا عفرا مطمئن تو کیا اس کی بتاؤں پہ بے چین ہو گئی ۔۔۔
ہنی تم کیا کرنا چاہتی ہو ؟؟؟ ۔۔۔ اس نے سرد انداز میں پوچھا ۔۔۔
پلیز عفرا لیو می الون ۔۔ میں ایسا ویسا کیسا جیسا کچھ نہیں کرنا چاہتی ہر بات کے پیچھے کیا پر جائے کرو ۔۔۔۔ نیہا نے جھنجلا کر نہایت باتمیزی سے جواب دیا اور اس جواب کے پیچھے گویا اشارہ تھا دفع ہو جاؤ یہں سے عفرا کی آنکھوں میں تیزی سے پانی جمع ہونے لگ گیا وہ اس کو اجنبییت اور لفظوں پہ لبوں پر ہاتھ رکھے کمرے سے بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی ۔۔۔ کمرے سے باہر نکلتے ھوے عمر عباس سے ٹکرآ گئی ۔۔۔ آنسو بھری آنکھوں سے اسے ایک بار دیکھا اور بھاگتی چلئ گئی ۔۔۔ آنسو بھری آنکھوئیں اس بات کی گواہ تھی کے عمر بھی سب کچھ سن چکا ہے ۔۔۔ لیکن اس پل اپنی مائیگی اور بے غرتی کا احساس اتنا شاید تھا کہ ایک پل کے لیے بھی نہ رکی عمر نے ایک نظر اپنے پورشن کی طرف جاتی عفرا کو دیکھا اور دوسری نظر نیہا پہ ڈالی جو اتنا کچھ کہنے کے بعد اب اردگرد سے انجان سر پکڑے بیڈ پہ چشیمان سی بیٹھی تھی ۔۔۔۔
ہنی ۔۔۔ عمر نے کمرے میں داخل ہو کر نیہا کو پکارا نیہا نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا اور کھڑی ہو گی عمر عباس کی اس کے کمرے میں مجودگی ایک ناقابل یقین بات تھی اس نے چند لخطے کے لیے اسے دیکھا اور سوٹ کیس میں رکھے کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگی ، عمر نے اس کی بےگانگی اور سرد انداز کو بہت شدت سے محسوس کیا اور ضبط کر لیا تھا ،اس وقت جو وہ اس کے کمرے میں آیا تھا وجہ بی جان تھی یا پھر وہ محبت جو اسنے خاموشی سے عمر عباس نے قبول کیا تھا ، اب تو اسے محبت کا اعتبارا سونپسنا تھا ، اس کی بیہوش کے وہ تین دن اس کی جدائی میں بی جان کی بگڑتی حالت کے ساتھ اس پہ بہت سی آ گہی کے در وا کرگئے تھے ، اس لیے تمام انا کو بالائے طاق رکھ کر اس نے کہا ۔۔۔
نیہا مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔۔ عمر کے لفظ پہ نیہا کو سو والٹ کا کرنٹ لگا تھا ۔۔ عمر عباس وہ بھی معافی مانگ رہا تھا اور معافی بھی کس سے نیہا سے جو ہر غلطی ہر گناہ کی مرتکب ٹھہرتی تھی اس کی نظر میں عمر کے شکتہ انداز پہ قریب تھا کہ وہ پکھل جاتی لیکن اس نے اپنا رخ مڑ کر خود کو مظبوط کرنے کی کوشش کی ،نہ جانے کب کے رکے بہ آواز آنسو اس کے گالوں پہ لڑھکنے لگے جسے اس نے بے دردی سے پونچھتے ھوے کہا ۔۔۔
معافی کیسی عمر بھیا ۔۔۔ اپنے تو کوئی غلطی ہی نہیں کی تو معافی کس بات کی غلطی تو میں کرتی ہو مجرم بھی میں ہوں ۔۔۔ اس کی آواز بھرا گئی جس کو اس نے ضبط کر لیا ۔۔۔۔
میری وجہ سے آپ کو آپ کی پھوپھی کی محبت نہ مل سکی یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ میں نے دنیا میں آنکھ کھلنے کے بعد سے ماں باپ کی محبت اور ان کے لمس سے محروم ہوں ، اپنی ماں کی موت کی ذمہ دار بھی میں ہی ہوں ، باپ کی ماں سے محبت میں جدائی اور پھر انتقال کی گناہ گار ہوں ۔۔۔ دادا جان کی محبت اس وقت اصل کرنے کی گناہ گار جب محبت لفظ کے معنی بھی نہیں آتے اور ان کے اس دنیا سے چلنے جانے کی میں ذمہ دار ہوں ، مامو مامی جیسی شفیق ہستیاں ملیں تو مامو نے باپ کی محبت سے جہان آشنائی کروائی وہی مامی نے لفظ ماں سے اشنا کروا کے ماں کے محبت سے محرومی کو ختم کر دیا تھا لیکن آپ کا اور طاری بھیا کے حصے کی محبت وصول کرنے اور مامو مامی کے دینے سے چلے جانے کی بھی گناہ گار میں ہوں ۔۔۔۔۔
عمر کا دل چاہ رہا تھا اس کی سسکیوں بھرے لفظوں کو سننے سے پہلے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لے یا پھر اسے خاموش کروا دے لیکن وہ بے بس کھڑا اسے سنتا رہا ۔۔ بس یہی اس کی سزا تھی شاید ۔۔۔۔
تو اتنے سارے گناہوں کی معافی مجھے مانگنی چاہے ناں اس لیے ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجیے گا رشتوں کے چھن جانے اور محبتوں کے بت جانے پہ ۔۔۔ اس نے آنسوں کا گولہ حلق میں اتارتے ھوے شیدت سے ضبط کیا لیکن دو آنسو لڑھک کر دوبارہ گالوں پہ آ گے تھے جسے اس نے بے دردی سے پونچھتے ھوے کہا ۔۔۔
بی جان کا بہت خیال رکھیے گا میں آپ کو بی جان کی اور عباس ہاؤس کے ہر مکین کی محبت سونپ کر ہمیشہ کے لیے جا رہی ہوں بی جان آپ سے بہت محبت کرتی ہیں مجھے امید ہے آپ ان کو میری کمی اور غیرموجودگی کا احساس نہیں ہونے دیں گئے ۔۔ اس نے سوٹ کیس بند کیا اس کو لاک کر کے نیچے اتار کے وہ مڑی تو اپنے بکل پیچھے عمر عباس ٹکر آگئی وہ لمحوں میں پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔
میں غلط تھا ہونے مجھے اس بات کا شیدت سے احساس ہے ۔۔۔ پلیز بی جان کی خاطر ہی مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ اس نے اب سچ مچ نیہا کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے تھے اور اس کے ہاتھ بندنے پر نیہا ساکت ہو گئی اور اسی کے باندھے ھوے ہاتھوں پہ پیشانی ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ھوے اس نے عمر عباس کو معافی کا عندیہ دے دیا تھا ۔۔۔ عمر نے اس کے ہچکیوں سے لرزتے جسم کو دیکھا تو اس پل محبتوں کی کمی کو اپنے اندر چھپائے سراپا محبت نظر آنے اور بابٹنے والی لڑکی پہ اسے بے تحاشا رشک آیا تھا وہ محبتوں کی کمی کے باوجود سراپا محبت تھی اور وہ عمر عباس اتنی محبتیں اور رشتے کی مٹھاس سمیتنے کے باوجود اپنے مجودہ رشتوں سے نالاں تھے ۔۔ اس نے اپنے بندھے ہاتھ کھول کر اس کے کاندھوں پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔
مڑی وجہ سے آج تک تمہاری آنکھوں میں آنسو اے ہیں ناں لیکن میرا وعدہ ہے تم سے نیہا ان آنسوں کے بدلے اتنی خوشیاں دو گا تم جانے والے رشتوں کو بھول جاؤ گی یہ میرا تم سے وعدہ ہے لیکن تم بھی وعدہ کرو آئندہ عباس ہاؤس چھوڑنے کی بات نہیں کروگی ۔۔۔ وعدہ ؟؟۔ ۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے مظبوط ہاتھوں میں سمیتے ھوے اس نے وعدہ لیا ۔۔۔ نیہا نے اس کے چمکتے چہرے کو دیکھا اور رنگ بدلتی ساہ آنکھوں میں محبت چمکتی دیکھ کر دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔
اور ایک وعدہ اور ۔۔۔۔۔۔ عمر نے پر اسرار طریقے سے کہا ۔۔۔۔۔۔
پلیز م
مجھے بھیا کہنا چھوڑ دو اب ۔۔۔۔ اور اس کی فرمائش پہ نیہا جھینپی جھینپی ہنسی ہنس دی اور ان دونوں سے مسکرانے پہ ڈھلتی شام نے مسکراتے ھوے انہیں دیکھا اور انہیں دائمی خوشیوں کی دعا دیتی پردوں کی اوٹ میں چھپ گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شدہ