بیتی رات کے ساتھ سفر کرتے عمر نے آنکھے کھولیی تو کمرے کے گلابی پن نے گلاب کی سی رنگت نزاکت رکھنے والی لڑکی کی یاد اس سے شیدت سے دلائی کہ گزری رات کا واقعہ اس کی آنسو بھری آنکھوں کہ ساتھ پوری جزئیات سے اسے یاد آیا تھا وہ طاہر کے بیڈروم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا یہ۔۔۔۔۔۔۔ ایک اتفاق تھا کہ وہ ایسے رخ سے بیٹھا تھا کہ کمرے کی کھولی کھڑکی سے ڈھلتی شام کی دھوپ یکدم اس کے چہرے پہ پڑنے لگی تھی وہ باتیں کرتے کرتے یکدم کھڑکی بند کرنے کے ارادے سے اٹھا لیکن ڈھلتی شام اور ڈوبتے سورج کے حسین منظر روک لیے جبھی کمرے میں نیہا کی آواز ائی ۔۔۔۔
طاری بھیا کہاں ہیں آپ ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ طاہر جو عمر باتیں کرتے ھوے شام میں اپنے دوست کے پاس جانے کے لیے وارڈروب میں گھسا اپنی مطلبوبہ شرٹ تلاش کر رہا تھا ۔۔نیہا کی آواز پر پلٹا ۔۔۔
ہاں بولو ہنی ۔۔۔ عمر ان دونوں کی باتیں سننے کے لیے پردے کی اوٹ میں ہو گیا یوں کے نیہا کو معلوم ہی نہ ہو سکھا کہ عمر بی کمرے میں موجود ہے ، بلیک جینس پر گلابی کرتا پہنے گردن کے گرد لپٹا گلابی دوپٹا اونچ پونی ٹیل بناۓ ایک ہاتھ گلابی اور سلور چوڑیوں سے بڑھا ہوا تھا دوسرا ہاتھ خالی وہ طاہر سے اپنے دوست کے برتھڈے میں پچنھے کہا کہنے ائی تھی لیکن سب بھول بھال کر اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی طاہر کی ڈیجیٹل گھڑی اور ریپ ھوے پرفیوم پر چلئ گئی وہ یکدم کسی خیال اور شرارت کہ تحت نیہا کی آنکھیں چمکنے لگی ڈریسنگ ٹیبل کے قریب جا کر اس نے بڑھے دلار سے طاہر کو مخاطب کیا ۔۔۔۔
طاری بھیا ۔۔۔ اس کے لاڈ پر طاہر کے کن کھڑے ھوے کیوں نکہ نیہا کو طاہر پہ اس وقت پیار آتا جب اس کی کوئی چیز پسند اتی ۔۔ پردے کی اوٹ میں کھڑے عمر اس کے انداز پہ چونک گیا کیوں نکہ نیہا نے کھبی اسے سے اتنے لاڈ سے نہ کھبی بھلایا تھا نہ کھبی فرمائش کی تھی ایک جھجک سی تھی یا پھر ایک خول تھا جو عمر نے صرف نیہا کے لیے اپنے اردگرد بنا رکھا تھا ۔۔۔
طاری بھیا ۔۔۔۔ یہ گھڑی میں لے لو ۔۔۔ نیہا نے کہنے سے ساتھ ہی سلور رنگ کی وہ ڈیجیٹل گھڑی اپنی ودھیا کلائی پر بندی عمر نے اس کی کلائی کی طرف دیکھا بیشک وہ اس کی کلائی پہ سج گئی تھی ۔۔
ہنی یہ گھڑی میں نے کل ہی خریدی ہے اپنےانیول فنکشن کے لیے ۔۔ طاہر نے دانت کچکچاتے ھوے اسے بتایا گویا یہ اشارہ تھا کہ وہ گھڑی شرافت سے واپس رکھ دے ۔۔۔
میرے لیے گھڑی ہے نہ ۔۔۔ نیہا نے معصومیت سے آنکھیں ٹپٹپائیں تو اس کی شرارت اور آنکھیں ٹپٹپانے سے جہاں طاہر کی ہنسی نکل گئی وہی عمر بھی بے ساکت مسکرا دیا اس کی ہنسی سے شے پاتے ھوے نیہا نے ٹیبل پہ رکھا پرفیوم اٹھیا اور شرارت سے دوبارہ طاہر کی طرف دیکھے ھوے بولی ۔۔۔
اور یا پرفیوم بھی میں لے لوں ۔۔۔۔
ہر گز نہیں ۔۔۔۔ طاہر تیزی سے اس سے پرفیوم لینے اس کی طرف بڑھا لیکن نیہا نے سرعت سے اپنے پر فیوم والا ہاتھ اپنی پیشت پہ کر لیا ۔۔۔
ہنی یہ گفت ہے میرا ۔۔۔ مجھے میرے دوست نے دیا ہے اس نے عفرا کا نام نہیں لیا مبادا عمر اس کو غلط نہ سمجھے ۔۔۔
کون ہے وہ ؟؟ نیہا نے آنکھیں گھمائیں ۔۔۔
ہے میرا ایک دوست ۔۔۔طاہر نے تپ کر کہا
میرا یا میری ؟؟؟ نیہا نے خفت سے ناک چڑھا کر کہا
کیوں نکہ وہ جانتی تھی یہ گفت عفرا نے دیا ہے۔۔۔اسی کے ساتھ جا کر عفرا نے یہ خرید تھا ۔۔۔اگر طاہر نہیں بتا تو وہ بی کیوں بتائی
طاہر نے غصہ سے عفرا کو دیکھا لیکن نیہا بھی شرارت سے بولی ۔۔۔
بس میں نے کہ دیا یہ پرفیوم میرا ہے اور گھڑی بھی ۔۔۔۔ اس نے کلائی اگے گی اور طاہر کو یاد کروایا یہ اب اس کی ہے اور طاہر کے ٹلملا نے پر عمر جانے کیسے احساس سے تحت پردے کی واٹ سے نکل آیا
عمر بھیا آپ ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ عمر کو طاہر کےکمرے میں دیکھ کر نیہا شاک تھی ۔۔۔۔
دوسروں کی چیزوں اور رشتوں پہ قبضہ کرنا آپ کی پرانی عادت ہے نیہا سلیمان ۔۔۔
عمر نے طنز کرتے ھوے اسے دیکھا ۔۔۔۔نیہا کا چہرہ عمر کی مجودگی اور اس کے طنز پر پیلا پر گیا ۔۔۔
کیا مطلب عمر بھیا ؟؟؟؟۔۔۔ اس نے سکھے لبوں پہ زبان پھری ۔۔۔
مطلب یہ کے آپ کی اپنی پیدائش سے پہلے تم نے میری پھپھو کو جدا کیا ۔۔۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد میرے دادا جن کی محبت لے لی ۔۔۔ ان کی وفات کے بعد میرے ماما پاپا پہ قبضہ کر بیٹھی ان کو اس جہان سے رخصت کر کے میری دادو جان پہ بھی قبضہ کر گئی ۔۔ تم اخری کتنے راشتے چھینوں گی نیہا سلیمان ۔۔۔عمر کے دل میں پتا نہیں کتنے سالوں کا لاوا پھت گیا اور ستم یہ تھا اس کا شکار بس نیہا سلیمان ہوئی نہ جانے وہ اس کے کس زخم کو چڑ بیٹھی ۔۔۔۔
میری کچھ سمجھ نہیں رہ رہا عمر بھیا ۔۔۔۔
وہ کانپنے لگی تھی عمر کے انداز و لفظوں اور آنکھوں سے نکلتی نفرت پہ ، اس کے لزرتے جسم اور ہاتھوں نے پرفیوم کی بوتل اٹھاننے سے انکار کر دیا ۔۔۔ نتیجتاً بوتل ہاتھ سے نکل کر نیچے جا گری اور قالین پہ گرنے کے باوجود کانچ کی بوتل ٹوٹ گئی نیہا سلیمان کے دل کی طرح بس فرق یہ تھا کہ کانچ کے ٹکڑے قالین پہ گرنے کے باوجود نظر ا رہے تھے جبکہ اس کے دل کے ٹکڑے جسم کی ساتھ تہوں میں ھونے کی وجہ سے نظر نہیں سکے تھے ۔۔۔ عمر شیشے کی کرچیوں کو نیہا کی ذات پندار کے ساتھ روندتا کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔ طاہر نے لزرتی اور کانپتی نیہا کو سنھبالا۔۔۔۔ قریب تھا کے وہ ان کانچ کی کرچیوں پہ گر کر خود کو لہولہان کر لیتی طاہر کے سنھبانے وہ اس سے لپٹی اور روتی چلئ گئی وہ عمر کے لفظوں کا مہفوم سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا سورج دھند میں لپٹا اپنی دھیمی کا احساس کھڑکی کی جھروکوں سے دلا رہا تھا ، عمر کو اپنے لفظ اور نیہا کی شوخی و شرارت سے یاد آ رہی تھی ،۔۔۔ وہ اپنے آپ کو ان لفظ پہ زمین میں دھنستا محوس کر رہا تھا ۔۔۔زندگی اور موت بیشک خدا کے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔۔ اگر اس سے وابستہ رشتوں کی محبت نیہا کی حصے دار بن گئی تھی تو یہ اس کا قصور نہ تھا اور نہ ہی ان راشتوں کے اس دنیا سے چلے جانے کا قصور وار نیہا تھی ۔۔۔ مگر اس پل عمر راشتوں کی جدائی میں اس قدر اندھا ہو چکا تھا کہ ہر جائز اور نہ جائز بات کی معتوب وہی اس کی نظر میں ٹھرتی جاتی لیکن آج موت نے خود نیہا کا ہاتھ تھاما ۔۔۔اسی پل نیہا کے بےجان وجود کو اٹھائے اسے ادراک ہو چکا تھا کہ وہ لاکھ بے نیازی کا اظہار کرے ۔۔۔۔۔ لاکھ ہر بات کے نقصان کے لیے نیہا کو قصور وار ٹھراے لیکن یہ بی ایک حقیقت تھی کہ وہ نیہا وجود کا ۔۔۔اس کی شرارتوں ، معصومیت اور خوف میں چھپی محبت کا عادی ہو چکا تھا اب وہ ان سب چیزوں کا عادی ہوا یا وہ در حقیقت نیہا کی محبت میں کھو چکا ہے ۔۔۔ یہ قبول کرنا کم زا کم عمر عباس کے لیے مشکل امر تھا ۔۔۔۔
آج تیسرا دیں تھا اس کو ہوش و حواس سے بیگانہ ھوے ڈاکٹرز نے انھیں 72 گھنٹے کا ٹائم دیا تھا ۔۔۔۔ اگر وہ 72 گھنٹے میں ہوش میں آ جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کوما میں چلئ جائے گی ۔۔۔ ڈاکٹر کے اس جملہ پہ وہ ساکت رہ گے ۔۔۔۔ طاہر نے شکوہ کن نظروں سے عمر کو دیکھا تو اس نے شرمندہ گی سے نظرے جھکا لی ۔۔۔ آج تیسرا دیں تھا طاہر عمر اور بی جان کے ساتھ عفرا بھی ضد کر کے ا گئی تھی ۔۔۔ عفرا اس سے پہلے بھی آ چکی تھی لیکن خون میں ڈوبی نیہا کو دیکھ کر اس کے رونے اور چینوں پہ قابو نہیں رکھ سکتی تھی تو عمر نے نہ صرف عفرا کو واپس بھیجوا دیا بلکہ طاہر کو بھی تاکید کی وہ عفرا کو نہ لائی جب تک نیہا کو ہوش نہیں آ جاتا ۔۔۔۔ کیؤں کہ آج ڈاکٹرز نے امید دلائی تھی نیہا کے ہوش میں آنے کی سو وہ آج ضد کر کے آ گی سب لوگ ائی سی یو کے باہر بیٹھے تھے ۔۔۔ ڈاکٹرز اندر کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔ جی جان کے ہونٹ مستقل ہل رہے تھے ۔۔۔ جبکہ عفرا کانپتے لبوں سے روتی ہوئی اس کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاہر کی حالت نہ گفتہ تھی جبکہ عمر بس ساکت سا ائی سی یو کی گلاس وال کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ایک گھنٹے بعد ائی سی یو کا دروازہ کھلا تھا عمر طاہر بیک وقت ڈاکٹر کی طرف بڑھے عفرا بھی کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
مبارک ہو آپ لوگوں کی مریضہ کو ہوش آ گیا ہے ۔۔۔ she is perfect and fine now آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں لیکن ایک بات کا خیال رکھیے گا ۔۔ مریضہ سے زیادہ بات کیا کیجئے گا ۔۔۔۔۔ خاص طور پر ایسی بات جو اس کی ذہنی حالت پہ برا اثر ڈالے ۔۔۔ ڈاکٹرز ان دونوں کو ہدایت دیتے طاہر کا کاندھے تھپتھپا کر اگے بڑھ گے ۔۔۔وہ سب لوگ اندر بڑھ گے مگر عمر قصداً باہر روک گیا ۔۔۔ ایک گلٹ تھا جو لا شعوری طور پر اسے رکے ھوے تھا ۔۔۔ عفرا نے رخ موڑ کر عمر کو دیکھا اور اندر چلی گئی ۔۔۔ نیہا آنکھیں موندے زردی مائل چہرہ لیے بیڈ پہ لیٹی تھی ۔۔۔ بی جان تڑپ کر اس کی طرف بڑھیں ۔۔۔
ہنی میری جان ! ۔۔ لیکن وہ ساکت ہی پڑی رہی یوں کہ اس میں زندگی کی رمق ہی نہ ہو ۔۔۔ بی جان نے اس کا چہرہ دیوانہ وار چومنا شروع کر دیا ۔۔۔ عفرا نے اس کی بے گا نگی نظر انداز کر کے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔ طاہر اس کے سر ھنے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔ان سب کی محبت پر اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے جسے اسنے چھپا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
ہنی بیٹا اپنی بی جان سے نارض ہو کیا ۔۔۔بی جان نے اس کی بے گانگی پہ تڑپ کر کہا ۔۔۔۔۔
وہ ان کی اکلوتی کی نشانی تھی ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے ٹکر ٹکر سب کے چہرے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ طاہر بغور اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وہ اسے اس نیہا سے بکل مختلف لگ رہی تھی جسے وہ آج دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔تین دیں مزید ہوسپٹل میں رہنے کے بعد ڈاکٹرز نے اسے رات تک ڈسچارج کرنے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔ سو جیسے ہے عشاء کی اذان کا سلسلہ شروع ہوا ، بی جان نے عفرا کو سامان سمیٹنے کی ہدایت شروع کر دی ،۔۔۔۔۔۔۔وہ شروع سے ہے ہوسپٹل سے گھبراتی تھی ۔۔۔اور پھر خاور عباس کو ہارٹ اٹیک کے بعد ہوسپٹل سے مردہ حالت میں گھر لیا گیا تھا وہ ہوسپٹلوں سے خوف زدہ ہو گئی تھی ۔۔۔
جس وقت وہ لوگ عباس ہاؤس میں داخل ھوے رات کے دس بج رہے تھے ۔۔۔ عمر عباس اس کو کہی بھی نظر نہیں آیا تھا اس کا دل بدگمان ہونے لگا ۔۔
سب سے زیادہ خوشی میرے ایکسیڈنٹ کی عمر بھیا کو ہوئی ہوگی ۔۔۔ آپ تو چاھتے ہی یہی تھے کہ عباس ہاؤس پہ اپکا ہی راج ہو اور اس کے مکینوں کی محبت آپ کا مقدر بن جائے تو بے فکر رہے نیہا آپ کی یہ خواہش بہت جلدی پوری کرے گی اور اس گھر میں صرف آپ کا راج اور نانو کی محبت کے حقدار آپ ہو گے ۔۔۔ وہ دل میں عمر عباس کو مخاتب کئے آنکھیں بند کئے لیٹی تھی ۔۔۔۔
چلو ہونے گرما گرم سوپ پیو اور دعائیں دو مجھے ۔۔۔۔۔ سوپ کی ٹرت سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس نے دائیں ہاتھ سے نیہا کو سارا دے کر اٹھیا تو نہ چار اسے خاموشی سے اٹھنا پڑا ۔۔۔اس کے خاموشی سے اٹھ کر سوپ لینے پر عفرا وہی بیٹھ گئی اور پاس رکھا میگزین اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔