وہ دونوں اسائمنمنٹس مکمل کرنے میں بری طرح منہک تھیں کیوں نکہ بقول عمر عباس کے جو کلاس میں اسائمنمنٹ جمع نہیں کروائے گا وہ نہ صرف اس کا نام نوٹس بورڑ پہ لکھ دے گا بلکہ 8 دین تک اس کی کلاس اٹینڈ کرنے پہ پابندی ہوگی اور اس کی دھمکی کی بدولت نیہا اور عفرا پوری طرح مگن تھی ، نیہا کی تو آدھی اسائمنمنٹ تیار ہو چکی تھی اور آدھی وہ مکمل کرنے والی تھی جبکہ عفرا نے صرف اسائمنمنٹ فائل تیار کر کے انتہائی دیدہ زیب رائٹنگ میں بس اپنا نام لکھا تھا باقی پوری فائل خالی تھی کیوں نکہ اسے پتا تھا نیہا اس کی بھی فائل مکمل کر دے گی پھر فائل پرے دھکیل کر میسج کرنے میں مگن ہو گئ نیہا نے اسے عمر کی دھمکی سے ڈرنا چاہا جسے اسنے ہاتھ ہلا کر نظر انداز کر دیا جبھی دروازے پہ ہونے والی کھٹکے پر نیہا نے مڑ کر دیکھا ،۔۔۔ اسماء حیدر اندر داخل ہو رہی تھی عفرا نے ماں کی شکل دیکھتے ہی موبائل تکیہ کے نیچے چھپایا اور فائل اپنی طرف گھسیٹ لی بدحواسی میں اسے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ نہ صرف فائل الٹی پکڑی ہوئی ہے بلکہ وہ فائل اس کی نہیں نیہا کی ہے ۔
کیا ہر رہی ہو بیٹا تم لوگ ؟؟ اسماء حیدر نے بیڈ پہ بیٹھے ھوے پوچھا ۔۔
وہ ماما ہم لوگ اسائمنمنٹ بنا رہی تھیں ۔۔ عفرا نے جھٹ سے کہا ۔۔۔
تو بنا لی بیٹا ؟؟؟ ۔۔۔ اسماء حیدر نے مسکراتے ھوے پوچھا ۔۔۔
جی ماما ۔۔۔ عفرا نے تابعداری سے سارے ریکارڈ توڑے ۔۔۔
اچھا میری بیٹی اتنی جینئسس ہے نہ صرف فائل الٹی پکڑ کر تیر کرتی ہے بلکہ دوسروں کی فائل کو اپنے نام کر لیتی ہے لیکن بیٹا جانی اپنی چیز تو اپنی ہوتی ہے دوسروں کی چیز پہ اپنے نام کہ ٹیگ نہیں لگنے سے وہ اپنی نہیں ہو جاتی ، ۔۔ اسماء حیدر نے اس کی گود سے الٹی فائل کو اٹھیا اور نیہا کی طرف بڑھا دی ، نیہا کی جہاں ہنسی نکل گئی وہیں عفرا کہ سر خفت سے جھک گیا ۔۔
سوری ماما !!! ۔۔۔
ایٹس اوکے بٹ اب اپنی اسائمنمنٹ بھی تیار کر لو زیادہ بہتر ہوگا ورنہ پھر تم نے بیچاری نیہا کہ دماغ کھانا ہوگا ۔۔ دیکھو ذرا اس لڑکی کے چکر میں اصل بات تو کرنا ہی بھول گئی ۔۔ اسماء حیدر نے پیشانی پر ہاتھ مررتے ھوے خود کو سرزنش کی ۔۔۔۔
نیہا بیٹی !!!۔۔۔۔۔ انہوں نے نیہا سے ہاتھ محبّت سے تھامے۔۔
اگر میں بی جان اور تمارے انکل تمارے لے کوئی فیصلہ کریں گے تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا ؟؟؟؟!!۔۔۔۔ اسماء حیدر نے تمہیہ باندھی ۔۔۔
نہیں چچی جان ۔۔۔ آپ لوگ میرے بڑے ھیں ایسا کیسے ممکن ہے کہ آپ لوگ کہاں اور میں آپ لوگوں کی بات نہ مانوں آپ لوگ جو میرے لے فیصلہ کرے گئیں اور غلط نہیں ہوگا ۔۔۔ نیہا نے ان کے ہاتھ محبت سے تھام کر چومے ۔۔۔ تو اس کے مان و محبّت پر اسماء حیدر نہال ہو گئیں ۔۔
بیٹا ہم نے تمہارا اور عمر کہ رشتہ طے کر دیا ہے اور انشاء اللّه اگلے ماہ کے پہلے جمعہ تم دونوں کہ نکاح ہے ۔۔ رخصتی عمر کے انگلینڈ سے بزنس ٹریپ کے بعد ہوگی ۔۔ ایک دھماکہ تھا جو نیہا سلیمان کے سر پر ہوا تھا وہ بے یقینی سے انھے دیکھتی رہی تھی ۔۔۔
ج ۔۔۔ج ۔۔۔جی نیہا نے ہکلا تے ھوے بے یقینی سے دیکھا پھر عفرا کو جو خود بھی بے یقین سی تھی لیکن اس کی حالت نیہا جیسی نہیں تھی ۔۔
چچی جان !! کیا عمر بھیا اس رشتے پہ راضی ھیں ؟؟؟ ۔۔۔ اس نے لبوں سے سرسراتے ھوے جملہ جو نکالا وہ عفرا کے لے نہ قابل یقین تھا ۔۔
ہاں بیٹا کیوں نہیں بی جان نے عفرا اور تمہارا نام اس کے سامنے رکھا تھا۔۔ لیکن عفرا کو اس نے یہ کہا کے انکار کر دیا وہ اس کی چھوٹی بہن سمجھتا ہے ۔۔۔ ہاں بی جان کی خواہش پہ اس نے تمہارے لے رضامندی دے دی تھی ۔۔۔ اچھا بیٹی چلتی ہوں تمہارے انکل آ گئے ہو گے انھیں چائے بھی دینی ہوگی ۔۔۔ یہ کہا کر وہ اس کے سر پہ محبت سے ہاتھ پھیر کر چل دیں لیکن نیہا ان کے ایک جملہ میں ٹک سی گئی اور وہ بھی بی جان کی خواہش پر عمر عباس کی رضامندی گویا وہ جبراً راضی ہوا تھا ۔۔ ان کے جانے کے بعد عفرا نے باقاعدہ بھنگڑے ڈالتے ہوۓ گنگنا شروع کر دیا ۔۔
لے جایئں گے ۔۔۔۔لے جایئں گے ۔۔دل والے دلہنیا لے جایئں گے ۔۔۔۔
وہ عمر بھیا اتنے چھپے ستم ھیں یہ تو مجھ معلوم ہی نہ تھا ۔۔۔عفرا خوشی سے بے حال اپنے میں مگن بولتے ھوے مستقل گنگنا رہی تھی جبکہ نیہا کی سوچ اپنی ذات سے عمر کی نفرت کی آگاہی کے بعد بھی صرف بی جان کی خواہش پر راضی ہونے پہ ٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
عفرا پلیس لیو می الون ۔۔۔ اس نے باقاعدہ چیخ کر گنگناتی اور بھگڑا ڈالتی عفرا کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔
کی ہنی تم خوش نہیں ہو اس فیصلے پر ۔۔؟؟؟
اس نے نیہا کو خطرناک حد تک سنجیدہ دیکھا تو گنگناٹیں چھوڑ کر فکرمندی سے اس کے پاس بیٹھ کر پوچنے لگی ۔۔۔
آئی ڈونٹ نو بٹ آئی ریکویسٹ یو لیو می الون ۔۔۔ !!!!!
نیہا !!! عفرا نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔۔
پلیز عفی !!!۔۔۔۔۔۔ تو عفرا اس کی کفیت کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ھوے باہر نکل گئی ۔۔۔ اور اس کے جانے کے بعد نیہا نےمیکانکی انداز میں اٹھ کر دروازہ بند کیا اور بیڈ پہ اوندھے منہ گر گئی سوچتے سوچتے نہ جانے کب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ ہچکیوں سے رو دی آج نہ جانے کیوں شیدت سے ماں باپ کی یاد ائی تھی ۔۔
ماما آپ مجھے چھوڑ کر کیوں چلئ گئی ۔۔ پلیز ماما آ کے اپنی ہنی کو دیکھے کتنی اکیلی ہو گئی ہے وہ آپ بغیر ۔۔۔ بے تحاشا روتے ھوے وہ ماں کو یاد کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی ان کی تصویر سے باتیں کرتے نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات دھرے دھرے بیت چکی تھی ، پو پھٹنے لگی تھی اذان کی آواز پہ اس کی آنکھ کھلی پہلے اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ٹائم ہوا ہے رات بھر رونے سے سر اتنا بھری ہو رہا تھا آنکھ سوج سے گئی تھی ، اس نے پاس رکھا موبائل اٹھا کے ٹائم دیکھا صبح کے 5 بج رہے تھے اس نے اٹھ کر پردے سرکائے اذان کی آواز زیادہ واضح سنائی دینے لگی سر ڈھک کر اذان سننے کے لے چیر پر بیٹھ گئی ، اذان ختم ہوئی تو اسنے جا کر وضو کیا اور باہر آ کے نماز کی نیت باندھ لی نماز ختم کر کے اس نے دعا کے لے ہاتھ اٹھاے تو کب کے رکے آنسو ایک بار پھر اس کی گال پہ اگے ہچکیوں سے روتے ھوے وہ سجدے میں گر گئی نہ جانے کتنی دیر ہوگی تھی اسے روتے ھوے کچھ دیر بعد اس کے دل کو سکون محسوس ہوا تو چہرے پہ ہاتھ پھیرتی جائے نماز تہ کر کے اٹھ کھڑی ہوئی ، الماری سے یونیفارم نکل کر پریس کیا ، رائٹنگ ٹیبل سے بکھری اپنی اسائمنمنٹ سمیت کر فائل کلپ کی اور شاور لینے واشروم گھس گئی انتہائی اطمینان سے شاور لینے کے بعد بال سلجھاے اور اونچی سے پونی ٹیل بنائی پھر نہ جانے کس احساس کے تحت ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا کاجل اٹھا کر آنکھوں میں لگایا تو سیاہ چمکتی آنکھوں کہ کاجل کی دھار سے جگمگانے لگیں اس کہ زھن مختلف سوچوں کی آما جگاہ بنا ہوا تھا جس میں کل شام عمر عباس کی نفرت تھی جو اس کی سوچوں سے راستہ بنا کر لفظوں کی شکل میں نیہا سلیمان نے سنی تھی اور اس کے بعد وہ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی تھی شاہد اگر جو طاہر عباس اس کو اپنی بھر پور محبت سے نہ سنبھالتا وہ شعوری اور لاشعوری طور پر وہ سب کچھ کر رہی تھی جو روٹین لائف ممکن نہ تھا یکدم سے سوچ کو حتمی روپ دے اس نے نگاہ اٹھا کر ٹائم دیکھا سوا سات بج رہے تھے اس نی وادڑ ڈوب میں لٹکتی چادر کو دیکھا اور نظرے پھیر لیں پاس پرے دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا یوں کے درپٹے کہ دوسرا سرا گلے میں پڑے مفلر نیچے جہا پڑا تھا ایک سرا اس کے اگے ڈالا تھا اونچی سی پونی ٹیل کاجل کی دھار اور مفلر نما لمبے سے دوپٹہ نے ایک نئی نیہا سے تعارف کروایا تھا اس روپ میں عفرا اسے دیکھ لیتی تو یقیناً بےہوش ہوجاتی اور عمر عباس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اسے قتل ہی کر ڈالتا اس نے شیشے میں اخری نگاہ ڈال کر اپنی تیری دیکھی اور نجانے کیسے احساس تحت پنک لپ گوزا اٹھا کر لبوں پہ لگا لیا کرسی پہ رکھا شولڈر بیگ اٹھا کر اس نے کندہ ھے پہ ڈالا اور باہر نکل ائی اسے معلوم تھا جی جان اس وقت اپنے کمرے میں تھیں جبکہ عمر بھی کالج جانے اور طاہر یونیورسٹی جانے کے لے تیار ہو رہا تھا ، وہ سیدھی چلتی ہوئی مین گیٹ تک آئی اور چوکیدار کو بتا کر باہر نکل گئی نگاہ اٹھا کر بھی حیدر ولا کی طرف نہیں دیکھا تھا وہ جلد سے جلد پبلک ٹرانسپوسٹ سے کالج پہنچھنا چاہتی تھی ، چوکیدار اسے نئی روپ میں دیکھ سے حیران سا تھا جسے اسنے نظر انداز کر دیا ، وہ جس وقت کالج میں داخل ہوئی پونے 8 بج رہے تھے کالج کے لان میں کچھ لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھی جبکہ کچھ کاریڈور میں ٹہل رہیں تھیں ، وہ سب سے بے نازناک کی سیدھی چلتی ہوئی اپنی کلاس میں چلئ گئی کلاس پوری خالی تھی وہ ہر سوچ اور احساس کا جھٹکتی اپنی سیٹ پہ بیٹھ گئی ، سوچوں نے ایک بار پھر یلغار کی تو آنکھے پھر برس نے کو تیار ہو گئی جسے اسنے سختی سے پیچھے دھیکل دیا تھوڑی دیر میں لڑکیاں کلاس میں داخل ہونے لگیں ۔ ۔۔۔ ہاے نیہا کیسی ہو ؟؟؟ ۔۔۔ ہیلو ہنی کیا حال ہے ؟؟۔۔۔۔۔ امیزنگ آج اتنی جلدی کیسے آ گئی ؟؟؟ مختلف لڑکیاں مختلف انداز میں کمنٹس دے رہیں تھیں جسے نیہا چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ ساجے وصول کر رہی تھی جبھی کلاس میں عفرا داخل ہوئی وہ تر کیطرح نیہا کے پاس ائی ۔۔۔
ہنی تم اکیلی ائی ہو تمہیں پتا ہے جی جان ناراض ہو گئی اور میری اسائمنمنٹ کا کیا بنا ۔۔۔ ویسے امیزنگ نیوز سناؤں آج میں عمر بھیا کے ساتھ ائی ہوں ہو سکتا ہے آج ساتھ آنے کی خوشی میں میری کچھ بچت ہو جائے وہ میری اسائمنمنٹ نہ چیک کریں کیوں نکہ میں ان کی چھوٹی بہن کے ساتھ ہونے والی سالی بھی ہوں عفرا خوشی سے بولتی چلئ گئی اور اسے اس خوش و خوشی میں نیہا کی بدلتی کفیت نظر ہی نہ ائی جبھی کلاس میں عمر داخل ہوا تو نون اسٹاپ بولتی عفرا کو نیہا نے ٹوکا ۔۔۔
عفرا سر کلاس میں آ گے ھیں تم اپنی جگہ پہ جاؤ اور نیہا کے ٹوک نے سے اس کو حیرت اس کے سرد اور اکھرے انداز سے ہوئی اور حیرت سے اس ک برابر والی سیٹ کی رو میں کچھ قدم پہ بیٹھ گئی ۔۔عمر روسڑم پہ جا کے نیہا کو بقاعدہ غور سے دیکھا وہ اس ڈری سیمی نیہا سے مختلف تھی آج جو اس کے دل میں چہرے پہ نہ تھا ورنہ وہ ہمیشہ سے ہی عمر عباس کے لے کھولی کتاب تھی آنکھوں میں لگے کاجل نے سوجن چھپائی تھی لیکن جھیل جسی آنکھے حزن نمایاں کر دیا یکدم کلاس میں موجودگی کے خیال سے اس نے نیہا سے نظر ہٹائی کیوں نکہ کالج میں یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا عفرا اور نیہا سر عباس کی کزن ھیں یہ ہدایت بھی عمر عباس کی طرف سے تھی ۔۔۔۔
کلاس آپ لوگوں کی اسائمنمنٹ کمپلیٹ ہے ؟؟؟؟ ۔۔۔
یس سر !!!!! ۔۔۔ کچھ آوازیں خوش تھی کچھ انتہائی پست ۔۔
اوکے ۔۔۔ اس نے پہلی بنی دائیں ہاتھ کی رہ سے اسائمنمنٹ چیک کرنے شروع کر دیا ۔۔اور اسائمنمنٹ دیکھ کے اپنے ریمارکس دیکھتا پھر اگلی سیٹ کی طرف بڑھ جاتا دوسری رو میں بیٹھی عفرا کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے کیوں نکہ وہ بکل خالی ہاتھ بیٹھی تھی اور عمر اس کی رو میں بیٹھی لڑکیوں کی اسائمنمنٹ چیک کر کے اس کے پاس آنے والا تھا بے ذاتی کے احساس سے وہ آنکھیں بند کر کے زیرلب دعائیں پڑھنے لگی جبھی ایک ہاتھ نے اس کی فائل اٹھا کر اپنی فائل کھول کر رکھ دی ، جو انتہائی انتہائی نفست سے تیار شدہ تھی عمر اس کے پاس آیا تو وہ جھٹ سے کھڑی ہو گی عمر نے فائل اٹھائی ایک طائرانہ نظر اس پہ ڈالی اور اپنے ریمارکس لکھ کر اگے بڑھ گیا ، اس نے حیرت سے عمر کو دیکھا اور اپنی ٹیبل پہ رکھی فائل کو وہ بے یقینی سے نیہا کو دیکھنے لگی جو اطمنان سے اپنی باری کہ انتظار کر رہی تھی ، اس سے پہلے عفرا عمر کو اصل حقیقت سے آگاہ کرتی عمر نیہا کے پاس پہنچ چکا تھا ۔
مس نیہا give me assinement ؟؟؟ ۔۔ نیہا نے خالی نگاہوں سے اسے دیکھا اور خالی فائل اسے تھما دی ، اس کی خالی نظریں عمر پہ تھی لاشعوری میں چھپا وہ احساس کہ نئے رشتے کی اینٹ رکھی جانے پر عمر اس کی غلطی نظر انداز کرتا یا نہیں،۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ عمر نے فائل اٹھا کر ٹیبل پہ چٹختی۔
آپ کی اسائمنمنٹ کہاں ہے ؟؟؟ ۔۔ مس نیہا
اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ بےتاثر انداز میں خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی ۔
گیٹ وٹ فرام مائی کلاس ۔ عمر نے اس کی نظروں خالی پن کو نظر انداز کر کے انتہائی سختی سے کلاس سے نکل جانے کہ اشارہ کیا ،۔۔۔وہ ساکت سی کھڑی عمر کو دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھک کر تھکی تھکی چال چلتے باہر نکل گئی وہ اپنی آزمائش میں ہار گئی تھی عمر عباس کے لے وہی نیہا سلیمان تھی جسے وہ درخواعتنا نہیں سمجھتا تھا ۔
سر !!!۔۔۔۔۔ عفرا نے پکارا ۔۔۔۔ لیکن عمر نے نظر انداز کر دیا کیوں نکہ اسے معلوم تھا وہ نیہا کے ہی فور میں بولے گئی وہ ان سنی کرتا باقی لڑکیوں کی فائل چیک کرتا رہا اور اپنے کام میں مگن اس نے یہ نوٹ ہی نہ کیا کہ نیہا نے کلاس سے باہر نکلنے کے لے داخلی دروازے کی بجایۓ پچھلے دروازے کہ انتخاب کیا ،۔۔ کلاس کے اس دروازے کی سیڑھیاں قدرے اونچی بنی ہوئی تھی اور اس پر مستزاد سڑھی کا اخری اسٹیپ کلاس میں نکلتا تھا یعنی اخری سڑھی چڑھتے ہی بندہ ڈائریکٹ کلاس مجود یہی وجہ تھی کہ اس طرف کھلنے والا دروازہ اور سڑھیاں کا استعمال لڑکیاں کم ہی کرتی تھی کیوں نکہ ایک تو سڑھیوں کے اسٹیپ بہت اونچے تھے دوسرا سڑھیاں کالج لان کے پچھلے حصے کی طرف کھلتی تھی جہاں آج کل کنسڑکشن کا کام ہو رہا تھا ،۔۔ وہ لاشعوری طور پر غائب دماغی سے چلتی دروازے کی چوکھٹ پہ آ کر کھڑی ہوگی ، کلاس اف ہونے کے بعد عمر اس کے پاس آیا اسے یقین تھا کوئی نہ کوئی ریزن ضرور دے گی لیکن عمر کے قریب آنے پر بھی وہ کچھ نہ بولی اور خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ، اس کے اس طرح دیکھنے پر عمر کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا کلاس رولز کے مد نظر رکھتے ھوے اس نے کہا تو صرف اتنا آپ میری کلاس میں امتحانوں سے پہل نہیں بیٹھیں گئی اور یہی آپکی سزا ہے ۔
you dont come in my class before exams...its your punished
ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎ ﻣﻮﺷﯽ ﭘﮧ ﺍﻧﮩﺘﺎﮨﯽ ﻃﺒﺶ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﺭﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻣﮍ ﮔﯿﺎ ، ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻣﮍ ﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺎﻧﺪﮬﺎ ﻧﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﺷﺎ ﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺲ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﮍﮬﯽ ﭘﮧ ﮐﮭﮍﯼ ﻧﯿﮩﺎ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﻣﻮﺭﺗﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﯿﮍ ﮬﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭨﺮ ﮬﮑﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺊ،
ﻓﻀﺎ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﭼﯿﺦ ﺳﮯ ﮔﻮ ﻧﺞ ﺍﭨﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﻋﻤﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻣﮍﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ... نیہا گیند کی طرح لڑ ھکتی زمین پہ پیھلے کنسڑکشن کے کام کے لے لائے گے سریوں پہ گری تھی لان کے عقبی حصے میں کام کرتے مزدور نسوانی چیخ پر چونک کر مڑے تھے ، نیہا ٹوٹے بھکرہے سریوں پہ گرتے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔ سریوں پہ گرنے سے ایک نوکیلا سریا اس کے پچھلے حصے میں گھس گیا ، سرخ گاڑھا خون دیکھتے ہی دیکھتے فرش کو رنگنے لگا عمر عباس کے ہوش اڑا دئیے وہ اندھا دھند نیچے اترا اور کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اسے دونوں بازوں میں اٹھاے بھاگتا ہوا کار پارکنگ میں گیا ، ساری لڑکیوں کی چیخیں نکل گئی ، عفرا بھی سارا سامان چھوڑ کر داخلی دروازے پارکنگ کی طرف بھاگی لیکن اس کے پہنچے سے پہلے ہی عمر کار لے جا چکا تھا ، ساری لڑکیاں عمر کی ریزر و نیچر کو جانے ھوے اس کی تیز رفتاری اور بے تکلیفی پہ حیران عفرا کے گرد جمع تھیں ۔
نیہا کو سر عباس نے ایسا کیا کہا تھا ؟؟؟
سر عمر نیہا کو اتنی بےتابی سے اٹھا کر ہوسپٹل کو لے گے ہیں ؟ نیہا کو فرسٹ ایڈ کالج سے بھی مل سکتی تھی ؟ ۔۔ سب کی آنکھوں اور لبوں پہ سوال تھے اور یہ سوال صرف سوال نہیں نیہا سلیمان پہ اٹھنے والی وہ انگلیاں تھیں جو عمر عباس کے ردعمل سے اٹھادی تھیں ۔۔عفرا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور نظر اوپر اٹھائی تو سامنے سے پرنسپل آ رہے تھے ۔۔ نیہا کے گرنے کی خبرپورے کالج میں پھیلی تھی پرنسپل کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ قریب آ کے سوال کرتے عفرا پہلے ہی بول پڑی ۔۔۔
سر نیہا گھر میں کچھ فر سٹڈ تھی اس لیے اسائمنمنٹ کمپلیٹ نہ ہونے پہ سر نے کلاس سے باہر نکل دیا ۔۔
سر وہ بے ذاتی برداشت نہیں کر سکی اور ۔۔۔۔عفرا مزید کچھ کھاتی پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کے روک دیا ۔۔۔
عفرا بات نیہا کی فرسڑیشن کی نہیں کالج کے رولز و ریگولیشن کی ہے ، نیہا کو کہاں اور اس طرح اٹھا کر کیوں لے گے اور؟ ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید نیہا اور عمر کے موضوع بناتے عفرا پھٹ پڑی یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا کیوں نکہ وہ نیہا عمر دونوں سے بے تحاشا محبت کرتی تھی ۔۔اور محبت کا تقاضا تو یہ تھا محبت کرنے والوں کو رسوائی اور تماشے سے بچایا جاتا نہ کہ خود ان کا تماشا بنایا جاتا ۔۔۔۔۔
بھاڑ میں جائیں آپ کے رولز اینڈ رگولیشن آپ کے نزدیک کسی کی زندگی سے زیادہ کالج کے رولز اینڈ ریگولیشن اہم ہوں گے ھمارے لیے نہیں اور رہی بات عمر عباس کی ۔۔۔۔ اس نے توقف کیا اس کے عمر عباس کہنے پہ لڑکیاں حیرانی سے اسے دیکھنے لگی جو ڈھرلے سے عمر کو سر عمر کی بجایۓ عمر عباس کہا رہی ۔۔۔
عمر عباس اور نیہا سلیمان کے جانے کی بات تو وہ اس کو کہی بھی لے جاتا سکتے ہیں کیوں نکہ وہ نیہا کے ٹیچر بعد میں شوہر پہلے ہیں ۔۔۔۔ ایک دھمکا تھا جو پارکنگ لان میں کھڑی لڑکیوں اور پرنسپل پہ ہوا ۔۔۔۔
بیوی !!!! ایک لڑکی کے لبوں سے نکالا ۔۔
جی نیہا سلیمان دراصل مسز نیہا عباس ہے ۔۔ اور میں عمر عباس کی اکلوتی لاڈلی بہن ہوں اب تو تسلی و تشفی ہو گئی آپ کی سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عفرا نے چھتے ھوے انداز میں پرنسپل پہ طنز کیا اور کالج گیٹ سے نکل گئی ۔۔۔۔ اسے اپنے جھوٹ پہ کوئی شرمندگی نہیں تھی کیا تھا اگر نیہا عمر کی۔بیوی نہیں تھی یہ خواب تو عباس ہاؤس کے ہار فرد کی آنکھوں میں تھا ۔۔۔
آنکھوں میں چھپے چھپے خواب کو عفرا نے اسے پل نیہا کے کردار پر اٹھنے والی انگلیوں سے بچنے کے لیے حقیقت بنا دیا ۔۔