وہ ڈاکٹر کے کیبن سے نکلتا کچھ دیر کے لیے ایک سائیڈ پر بنی بالکنی میں جا کر کھڑا ہو گیا تھا
آج کا دن بھی اسے دیکھنا پڑے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا اس کا اپنا دوست ہی ایسا کرے گا اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا
بہرام پر تو وہ اپنا سب کچھ بھی وارنے کو تیار تھا لیکن یہاں تو معاملہ ہی اس کی بہن کا تھا اس کی گڑیا کا
اس رشتے کے لیے اسی نے تو حورم کو منایا تھا اب کیسے وہ اس کا سامنا کرتا کہ اس کا انتخاب اس کے حق میں صحیح نہیں تھا وہ کافی دیر کا وہاں پر کھڑا تھا جب کوئی اس کے برابر میں آ کر کھڑا ہوا
آبش حورم سے مل کر نکلی تو اسے راہداری کی بالکنی میں کھڑے دیکھ کر وہاں ہی آ گئی تھی
کیوں آئی ہو یہاں
فرزام سامنے دیکھتا بولا
میں نے تو ادھر ہی ہونا جہاں آپ ہوں گے
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے اس کی طرف دیکھتے کہہ رہی تھی
لیکن شاید تمہارے بھائی کو اچھا نا لگے تمہارا میرے پاس ہونا
وہ اس کی طرف چہرہ موڑتے استہزائیہ لہجے میں بولا تھا جبکہ آبش کا دل کٹ کے رہ گیا اس سب میں بھلا اس کا قصور کہاں تھا جو وہ اسے ساتھ بلاوجہ سزا کا مستحق ٹھہرا رہا تھا اور تب جب وہ اس کی ہو چکی تھی جب اس کے دل کی سرزمین پر وہ براجمان ہو چکا تھا تو اب یہ بے رخی دکھا رہا تھا
میرا بھائی آپ کی طرح ہرگز نہیں جو اپنی بہن کے دل کی خواہش ہی نا جان سکے
وہ بھی تلخ ہو چکی تھی اس کی بات پر اس کا دماغ گھوما
تو تم کیا چاہتی ہو کے اسے پھر تمہارے بھائی کے حوالے کر دوں جسے پرواہ ہی نہیں اس کی جسے اپنا فرض اپنی بیوی سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔۔ تم کیا جانو کہ کیسے اسے رکھا ہے میں نے ۔۔۔۔۔کوئی تکلیف اس تک نہیں آنے دی تھی۔۔۔ اب میں کیسے برداشت کر لوں۔۔۔ جب حورم کو پتہ چلے گا کہ اس کے شوہر نے یہ سب جان بوجھ کر کیا
وہ سختی سے کہہ رہا تھا جب حورم کے نام پر وہ خود بخود دھیما پڑ گیا وہ واقعی کیسے بتائے گا اسے
آبش کچھ دیر اسے دیکھتی رہی
فرزام یہ نا بھولیے گا کہ آپ کے پاس بہن کے علاوہ بھی ایک اور رشتہ ہے ۔۔۔اسے اس سب میں نا نظرانداز کر دیجیے گا
وہ کہتی رکی نہیں وہاں سے چلی گئی تھی فرزام کچھ دیر سوچتا رہا پھر اس نے اپنے قدم حورم کے کمرے کی جانب بڑھا دیے وہ لمحہ بھر کو رکا پھر ہینڈل گھما کر اندر داخل ہوا تو دیکھا حورم آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی کمزوری کی وجہ سے ڈرپ بھی لگی ہوئی تھی
وہ چلتا قریب آیا اور سٹول پر بیٹھ کر دیکھنے لگا اس کا پھیکا پڑتا چہرہ
اسے یاد آیا جب وہ چھوٹے ہوتے اسے کہا کرتی تھی کہ جب تک میرا بھائی میرے ساتھ ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں دے سکتا اور اب اس کا بھائی ہی اس کی تکلیف کی وجہ بنا تھا وہ اپنے آپ کو ہی قصوروار سمجھ رہا تھا کیونکہ حورم تو اس رشتے کے لیے کب مان رہی تھی اس نے ہی اسے منایا تھا تب اپنے دوست کی سائیڈ دی تھی اور اس سب میں حورم کا کیا ہوا
حورم کی زندگی کے دو فیصلے ہی اس کے لیے صحیح ثابت نا ہوئے تھے پہلے اس نے اپنے ماں باپ کا بھرم رکھنے کے لیے ہاں کر دی تھی تو دوسری بار اپنے بھائی کا مان رکھنے کے لیے اور کیا نتیجہ نکلا
اسے نہیں پتہ تھا کہ کب اس کی آنکھ سے آنسو نکل کر اس کا گال پر لکیر بناتا بہہ گیا اس نے جھک کر حورم کی پیشانی پر بوسہ دیا جس پر اس نے ہلکا سا کسمسا کر آنکھیں کھولیں اور فرزام کو دیکھنے لگی
بھائی آپ رو رہے ہیں
اس نے اٹھنے کی کوشش کی جب اس نے روک دیا
لیٹی رہو حورم
اس نے کہتے اپنا گال صاف کیا جبکہ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی فرزام بھی اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا
بھائی اب تو آپ کے سوا میرے پاس کوئی بھی نہیں میں آپ کو پریشان نہیں دیکھ سکتی بھائی
وہ اس کے کندھے سے سر ٹکا گئی
بھائی کی جان اپنے بھائی کو معاف کر دو
فرزام کی بات پر اس نے سر اٹھایا
لیکن آپ نے کیا کیا
وہ فرزام کی طرف دیکھتی بولی
حورم میں جانتا ہوں کہ آپ اس رشتے کے لیے نہیں تھیں راضی میرے کہنے پر آپ مانیں تھیں لیکن میرا فیصلہ ہی غلط تھا
وہ اس کے پاس سے اٹھ کر سامنے کھڑکی کی طرف بڑھ گیا
بھائی اب ایسا کیا ہوا کہ آپ کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہو رہا ہے
وہ پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اسے اب تھوڑی بہت سمجھ لگ رہی تھی
میں کچھ نہیں جانتا بس اتنا پتہ ہے کہ وہ انسان تمہارے قابل نہیں ہے
وہ باہر کھڑکی کے اس پار دیکھتے بولا
بھائی اتنی جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم نہیں کی جا سکتی ہر انسان اپنے اندر کوئی نا کوئی کہانی رکھتا ہے انہوں نے ایسا کیوں کیا اس کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ہو گی
اس نے چھوٹی سی کوشش کی جو کہ رائیگاں ہی جانے والی تھی اس کی بات پر فرزام مڑا اور اس کے پاس آیا
اس کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ کسی انسان کو پکڑنے کے لیے اسے تمہاری ضرورت پڑے آخر کسی کا تمہارے سے کیا تعلق آخر ۔۔۔۔اس نے اپنے فرض کی راہ میں تمہیں استعمال کیا ہے حورم اسے تمہاری کوئی فکر نہیں چاہے تمہیں کچھ بھی ہو بس یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو کہ اس کا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اب
وہ جانتا تھا کہ اس کے الفاظ اسے تکلیف دیں گے لیکن کبھی نا کبھی تو پتہ چلنا تھا فرزام کہتے اسے دیکھنے لگا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے باہر نکل گیا
پیچھے حورم کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کا چہرہ بھگو گئے
بہرام
اس نے کرب سے اسے پکارا اور اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا
آپ نے ایک دفعہ بھی نا سوچا کہ میرا کیا ہو گا ہمارے بچے کا کیا ہو گا ۔۔۔میں کیسے رہوں گی آپ کے بنا
اس نے درد سے آنکھیں میچ لیں یہ خیال ہی سوہان روح کا باعث تھا کہ اسے اب اس کے بغیر رہنا ہے
مُرشِد ، تھا جس کا ڈر
وہی بات ہو گئی۔۔۔۔
مُرشِد ، میری سنو ، کہ
مجھے مات ہو گئی۔۔۔
مُرشِد ، میرے تو جذبے
سارے ہی ،، بیان تھے۔۔۔
مُرشِد ، اُسی کے ساتھ ،،
میرے ،، دو جہان تھے۔۔۔
مُرشِد ، خوشی ملی بھی تو،،
آ کر ،،،،، پلٹ گئی ۔۔۔۔۔
مُرشِد ، میرے نصیب پر ،،
سیاہی ،،، اُلٹ گئی ۔۔۔
مُرشِد ، کُچھ اور بولوں اب
جرات ،،، نہیں رہی ۔۔۔!!
مُرشِد ، تسلیوں کی ،،،
ضرورت ،،، نہیں رہی ۔۔!!
مُرشِد ، اب زندگی میں ،
سویرا ،، نہیں رہا ۔۔۔
مُرشِد ، جو میرا تھا وہ ،
میرا ،،،، نہیں رہا ۔۔
مُرشِد ، وہ میرا ۔۔ کہتے
میری بات رُک گئی !
مُرشِد ، لکھے کے آگے ،
میری ذات ، جُھک گئی !
مُرشِد ، یہ میرے سر کی ،
بلائیں ،، نہیں گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
مُرشِد ، عرش سے پار ،،
دُعائیں ،، نہیں گئیں
تھوڑی دیر بعد ایک نرس آئی جسے فرزام نے حورم کو کو نیند کا انجیکشن دینے کے لیے کہا تھا تا کہ تھوڑی دیر تک وہ ان سوچوں سے آزاد رہے
آبش سے بات کرنے کے بعد اس کی پریشانی کم نہیں ہوئی تھی وہ اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود تھا جہاں صارم حیدر اور سارہ اس کا پہلے سے ہی انتظار کر رہے تھے
وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ تینوں میز پر چیزیں پھیلائے کسی ڈسکشن میں مصروف تھے اسے دیکھ کر انہوں نے سیٹ سنبھالی وہ سربراہی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا
سر آپ کی پرسوں شام کرنل سعید سے میٹنگ ہے
سارہ نے اسے انفارم کیا جس پر اس نے سر ہلا دیا
یہ کچھ انفارمیشن ملی ہے وہاں سے
حیدر نے اس کے سامنے پیپرز کیے جس پر اب تک کی ڈیٹیلز اور باقی پارٹنرز کی انفارمیشن بھی تھی وہ غور سے دیکھ رہا تھا جب اس نے صارم کو مخاطب کیا
تم بتاؤ ان چپس سے کونسی انفارمیشن نکلی
صارم اس کی ٹیم کا ہیکر تھا ایسے کام وہ ہی حل کرتا
میں بہت حد تک ڈی کوڈ کرنے پر کامیاب ہو گیا ہوں بس تھوڑا سا رہتا کل تک رپورٹ حاضر ہو گی
صارم سنجیدگی سے بولا
تم لوگوں کو یہ نہیں بھولنا کہ تم سب میری ٹیم میں ہو اور ایک انڈر کوور ایجنٹ ہو تم سب۔۔۔۔۔ نا کہ آرمی سے ریلیٹ ہو تم لوگوں کو اپنی شناخت چھپا کہ ہی رکھنی ہے دنیا کی نظروں میں کچھ بھی ہو لیکن تم لوگوں کی زندگی کا کیا مقصد ہے یہ ہمیشہ یاد رکھنا
وہ اتنا کہہ کر اٹھ گیا آج وہ باقی دنوں کی نسبت سنجیدہ تھا اس کی اس ٹیم کو پانچ سال ہو گئے تھے
شروع سے بہرام اپنے بھائی اور بابا کی طرح تو آرمی میں جانا چاہتا تھا لیکن ارحم نے اس کو ایک انڈر کوور ایجنٹ بنایا تھا اس کی سپیشل ٹریننگ بھی شروع سے ہی ویسے ہی ہوئی تھی کیونکہ ارحم کا تو سب کو پتہ تھا کہ اس کا تعلق فوج سے ہے جبکہ بہرام شاہ پوری دنیا کے سامنے ایک بزنس ٹائیکون تھا
وہ اپارٹمنٹ سے سیدھا اپنے فارم ہاؤس آیا تھا اس کا دل ابھی گھر جانے کو بالکل نہیں تھا اسی لیے وہ فارم ہاؤس آ گیا خاور اس کے ساتھ ہی تھا
ہزاروں کنال پر بنا فارم ہاؤس خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا چاروں طرف گارڈز سے گھرا ہوا تھا
وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا تھا یہ کمرا باقی سب کمروں سے الگ تھا جس کی ایک دیوار چھوڑ کر باقی سارا شیشے کا بنا ہوا تھا جس پر بھاری خوبصورت پردے گرے پڑے تھے شیشے کی والز سے باہر کا خوبصورت منظر واضح تھا جہاں بڑے بڑے درختوں کے درمیان راستہ بنایا گیا تھا
خاور اس کے پاس آیا
سر اس لڑکے کا کیا کرنا ہے وہ تہہ خانے میں ہے
خاور نے بتایا
اس کی خبر بھی لوں گا لیکن ابھی نہیں خاور تم بھی ابھی جا سکتے ہو اپنے کمرے میں اور مجھے کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا اب
اس کے کہنے پر خاور سر ہلا کر باہر نکل گیا جبکہ وہ صوفے کی جانب بڑھ گیا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا
اس نے واقعی ہی یہ نہیں سوچا تھا کہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ اسے حورم سے دوری بھی برداشت کرنی پڑے گی
وہ فرزام کو جانتا تھا کہ اب وہ اپنے فیصلے سے ہرگز پیچھے ہٹنے والا نہیں آخر دو سال اس نے اس کے ساتھ گزارے تھے اکٹھے اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وہ رشتوں کے معاملے میں کس حد چلا جاتا تھا
ایک بار ایتھنز میں بات ان کی دوستی پر آئی تھی تو اس نے اپنی سالوں کی دوستی ختم کر دی تھی اور اب تو بات اس کی بہن کی تھی اور حورم کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت تھی اور وہ حورم کو لے کر کتنا حساس تھا وہ انجان نا تھا اور اب اگر وہ اپنی جان بھی دے دیتا تب بھی فرزام نہیں ماننے والا تھا
اسے اپنے سے زیادہ حورم کی پریشانی تھی وہ خود ایک مضبوط مرد تھا اسے اس کی کمی جتنی محسوس ہو رہی تھی تو حورم کی کیا کیفیت ہو گی
سلگتی تلخ باتوں سے
بڑے بےدرد ہاتھوں سے
لو دیکھو __مار دی تم نے
محبت ہار دی تم نے
صبح کا سورج ہر طرف طلوع ہو چکا تھا اور آج اپنے ساتھ ایک بےنام سی ادسی بھی لیکر آیا تھا جس نے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا
حورم اس وقت اپنے کمرے میں تھی وہ آج صبح ہی ڈسچارج ہو کر ہو کر واپس آ چکی تھی اور اب ٹیرس پر کھڑی اپنے باغیچے کو دیکھ رہی تھی لیکن اس کی سوچوں کا محور صرف ایک شخص ہی تھا
محبت بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نا ہمیشہ اسی سے ہوتی ہے جسے آپ کی قدر ہی نا ہو لیکن بہرام آپ پر تو میں نے اتنا بھروسہ کیا تھا آپ تو ایسا نا کرتے اتنی مشکل سے تو مجھے خوشیاں ملیں تھیں وہ بھی آپ کی وجہ سے آپ کے آنے سے میں خوش رہنے لگی تھی اور آپ نے ہی یہ خوشی چھین لی
وہ خود سے کلام کر رہی تھی جب ایک سوچ نے اس کے ذہن پر دستک دی تو اس نے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر نکلی اور فرزام کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے
حورم کو اس کے کمرے میں چھوڑنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تھا لیکن آبش پہلے سے ہی وہاں موجود تھی وہ ہسپٹل سے سیدھا گھر واپس آئی تھی فرزام اسے نظرانداز کرتا کپڑے لے کر فریش ہونے چل دیا
شاور لے کر باہر نکلا تو آبش روم کی چیزیں سیٹ کر رہی تھی جب حورم ناک کرتے اندر داخل ہوئی
حورم آنے کی کیا ضرورت تھی میں ابھی آنے والی تھی
آبش اسے دیکھتے اس کی طرف بڑھی
بھابھی اس کی ضرورت نہیں ہے کچھ نہیں ہوتا
وہ ہلکا سا مسکراتے بولی
اب کیسی طبیعت ہے
وہ اسے لیکر صوفے کی طرف بڑھی جبکہ فرزام ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا
اب ٹھیک ہوں بس بھائی سے بات کرنی تھی
وہ بیٹھتے بولی
اچھا ٹھیک ہے تم بات کرو میں ناشتے کا انتظام کرواتی ہوں
آبش اسے کہتے کمرے سے نکل گئی
سب ٹھیک تو ہے نا
فرزام اس کے پاس بیٹھتا بولا
جی بھائی سب کچھ ٹھیک ہے بس ایک بات کرنی تھی
اسے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ وہ کہے یا نا کہے
کیا ہوا ہے حورم
فرزام کو تشویش لاحق ہوئی
بھائی میں ایک دفعہ۔۔۔۔۔بہرام سے ملنا چاہتی ہوں
اس نے نظریں چراتے کہا
حورم
فرازم نے کچھ کہنا چاہا جب حورم نے اس کا ہاتھ پکڑا
بھائی بس ایک بار ایک آخری بار پلیز آپ سے وعدہ رہا کہ آئندہ کبھی نہیں ملوں گی
اس نے التجائیہ نظروں سے فرزام کو دیکھا
فرزام نے اس کے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ رکھا
ٹھیک ہے لیکن آخری دفعہ میں اس سے ملنے کی اجازت دے رہا ہوں اور اسے بھی کہہ دینا کہ وہ بھی اب کوئی امید نا رکھے
فرزام کہتا اٹھ کر باہر نکل گیا اس سے حورم کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی لیکن وہ خود اپنی بہن کو سنبھال لے گا لیکن یہ یقین کتنا پختہ ہونا تھا یہ وقت ہی بتانے والا تھا
بہرام آپ کو میرے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے کہ کیوں کیا آپ نے ایسا ابھی تو آپ کو آپ کے باپ بننے کی خوشی بھی دینی ہے لیکن آپ کو شاید اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا
حورم خود سے بولتی تلخی سے مسکرا دی
کبھی اجنبی
کبھی جان جان
کبھی دوریاں
کبھی پاس پاس
کبھی دُشمنِ جاں
کبھی یاریاں
کبھی چاہتیں
کبھی بے رُخی
کبھی یوں ملا
کہ ہے زندگی
ہوا یوں جدا
لگے موت سی
یوں نہ چھوڑ جا
زرا پاس آ
میری ڈھڑکنوں کو
تو بھی سُن زرا
دلِ گمشدہ
زرا باز آ
اچھا بات سُن
تو سنبھل زرا
کہ محبتوں میں
کہاں فیض ہیں
جنہیں عشق ہوا
وہی قید ہیں