وہ ابھی ہیئر سپا سے واپس آیا تھا ہفتے میں دو دفعہ تو وہ ہیئر سپا کا چکر ضرور لگا لیتا تھا شاور لینے کے بعد وہ باہر نکلا تو ایک مین آرٹسٹ اس کے انتظار میں تھا اس نے شیروانی کا صرف انر ہی پہنا ہوا تھا وہ ڈریسنگ کے سامنے جا کر بیٹھ گیا ہیئر کٹ تو اس کا آج ہی تازہ تازہ ہوا تھا
آرٹسٹ نے سب سے پہلے مین فاؤنڈیشن یوز کیا جو کہ بالکل نیچرل ٹون میں تھا اس کی سٹبل بئیرڈ کی پہلے ہی ٹرمنگ ہو چکی تھی جو کہ اس کے پر کشش چہرے پر بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی
آرٹسٹ کو خود سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ اس کے چہرے پر کیا استعمال کرے کیونکہ کچھ بھی لگانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی وہ ویسے ہی بے حد وجیہہ لگ رہا تھا
اس کے پاس مین میک اپ کا کافی سامان موجود تھا اور وہ زیادہ تر میل ایکٹرز کے میک اپ کے لیے اپائنٹ ہوتا تھا اور اس نے آج پہلا بندہ دیکھا تھا جس کا قدرتی حسن ہی سب کو مات دیتا تھا
فاؤنڈیشن بھی اس کی سکن سے ملتی تھی اس کے بعد اس نے اس کے بالوں کو جیل سپرے کی مدد سے پہت ہی خوبصورتی سے سیٹ کیا
ہونٹوں پر لگانے کے لیے وہ سوچ رہا تھا کہ کیا یوز کرے لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے اس کے قدرتی ہونٹوں کے لیے ٹرانسپیرنٹ لپ بام پکڑا اور ابھی اس کے ہونٹوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب اس نے اسے ٹوک دیا
اس کی ضرورت نہیں یہاں تک پہنچنے کے لیے حق صرف ایک کے ہی پاس ہے اور کوئی نہیں یہاں تک پہنچ سکتا
اس نے اسے صاف لفظوں میں ہی کہہ دیا
اوکے سر پھر مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور چیز کی آپ کو ضرورت ہو
وہ اٹھا اور ایک شیروانی کا اپر جو کے فل کالے رنگ کی تھا پہنی جو اس کی سرخ و سفید رنگت پر الگ ہی چھب دکھلا رہی تھی آرٹسٹ نے اس کے سر پر ایک ڈارک ریڈ اور ڈل گولڈن کلاہ رکھا اور اس کے سائیڈ پر بائیں طرف ایک براؤچ لگایا جس پر لکھا ہوا تھا
Queen's King
بالکل اسی طرح جس طرح اس نے حورم کے لیے بنوایا تھا پھر ایک ڈارک ریڈ جس کے کناروں اور بیچ میں ڈل گولڈن کڑھائی ہوئی تھی اسے اس کے دائیں کندھے سے لے جا کر بائیں کندھے کے بازو سے پن اپ کیا گیا اور خوشبوؤں میں ڈوبا ہوا وہ بالکل کسی سلطنت کا بادشاہ ہی لگ رہا تھا
آرٹسٹ اپنا کام مکمل کر چکا تھا اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا جب صارم اندر آیا اور اسے دیکھ کر حیران ہوتے بولا
ارے واہ بدشاہ سلامت خیر ہو
آج اس کی آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی ایک عجب ہی سرشاری تھی جو اس کے چہرے کو منفرد بنا رہی تھی صارم ہلکے سے اس کے گلے ملا
یار قسم سے میر آج تو چھا جانے والا ہے
اس کی بات پر مسکرا دیا
تو بھی کچھ کم نہیں لگ رہا ویسے
صارم نے آج بلیو شیروانی پہنی ہوئی تھی جس میں وہ بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا
یار میری تو تیاری بنتی بھی ہے اگر سنگل ہوتا تو بات الگ تھی پھر تو
وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا
جب کہ تھوڑی دیر بعد بارات روانہ ہو چکی تھی ایک بادشاہ اپنی ملکہ کو اپنی سلطنت میں لانے والا تھا
حیدر ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا کہ جب ثناء کمرے میں آئی
بھائی جلدی تیار ہوں آبش کی کال آئی تھی کہ ماموں لوگ تو نکل چکے ہیں
حیدر جو کے کوٹ پہن رہا تھا اس کی طرف مڑا
یار ثناء میں تو بس تیار ہو گیا مام ریڈی ہیں
وہ پرفیوم سپرے کرتا بولا
مام تو کب کی ریڈی ہیں بھائی آخر کو ان کے لاڈلے بھتیجے کی بارات ہے وہ تو بے صبری سے آپ کا ویٹ کر رہی ہیں
چلو یار میں بھی آنے لگا ہوں
ثناء سر ہلاتے باہر نکل گئی اور وہ سوچ میں پڑ گیا
شاہ تو اب تک اتنا خاموش کیسے ہے کیا چل رہا ہے تیرے دماغ میں یہ تو طے ہے کہ تو اپنے ارادوں کی کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دے گا
وہ حورم کی وجہ سے پریشان تھا کہ اس سب میں نقصان اس معصوم کا ہونا تھا اور جو ہونا تھا بہت برا ہونا تھا
بارات آ چکی تھی اور بہت ہی شاندار استقبال کیا گیا تھا فرزام نے ہر چیز بہت شاندار رکھی تھی صارم اس کے ساتھ ساتھ تھا اس نے ہال میں قدم رکھا تو بہت سے دل دھڑکنا بھولے تھے اس کی سحر انگیز پرسنالیٹی کا جادو پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا
وہ ایک شان سے چلتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھا آج اس کے چہرے پر بغیر وجہ کے ہی مسکراہٹ تھی جو ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرا رہی تھی بہت سی لڑکیاں تو اس سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہی تھیں کہ جب صارم نے اس کے کان میں سرگوشی کی
میر دیکھ لے کیسے ساری پاگل ہو رہی ہیں ایک نظر انہیں دیکھ لے گا اگر تو مجھے لگتا ہے یہیں بے ہوش ہو جائیں گیں
جواباً اس نے صارم کو گھورا
بیٹا فکر نا کر اب تو پھوپھو بھی ادھر ہی ہیں
اس کی بات پر وہ دونوں ہنسنے لگ گئے پھر سب سے ملنے ملانے کے بعد سمائرہ بیگم نے حورم کو لانے کا کہا فرزام حمدان صاحب کے کہنے پر برائڈل روم کی طرف بڑھا تھوڑی دیر بعد شور اٹھا اور ساتھ ہی ہال کی ساری لائٹس آف کر دی گئیں جبکہ ایک سپاٹ لائٹ سامنے اینٹرنس پر تھی
حورم ابھی تیار ہو کر بیٹھی تھی کہ ارحہ اپنے شرارتی سے بیٹے ارحام کے ساتھ برائڈل روم میں آئی سارہ کافی دیر کی اس کے پاس تھی ارحام تو سیدھا اس کے پاس ہی آ گیا
Mom،she is a beautifull doll
ارحام اپنی ماں سے کہتا بولا جس پر وہ مسکرا دی
حورم کا ارحام بہت پسند تھا
Hey،little cute boy
آپ بھی بہت کیوٹ ہو
اس نے ارحام کو کہا تو اس نے منہ بنا لیا
I am not a little cute boy
وہ ویسے ہی منہ بناتے بولا
تو پھر آپ کیا ہو مجھے تو اتنے کیوٹ لگتے ہو
اس نے اس کے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹتے کہا
میرے چاچو مجھے کہتے ہیں کہ
I am a little devil boy
اور میں کوئی کیوٹ نہیں ہوں میں تو اپنے چاچو کی طرح چھوٹا سا ڈیول ہوں
ویسے ماما نے مجھے بتایا تھا کہ جس دن آپ کی برتھڈے تھی نا میں اس دن ہوا تھا مطلب آپ کی اور میری برتھڈے سیم ہے
وہ خوشی سے بولا اور ارحام بہت کم کسی سے فرینک ہوتا تھا بس جو لوگ اسے اچھے لگتے تھے ورنہ تو وہ اپنے بہرام کے علاوہ کسی سے اتنی بات نہیں کرتا
تھوڑی دیر بعد بارات کا شور اٹھا حورم سارہ اور ارحہ کے ساتھ باتوں میں لگی تھی کہ فرزام اندر آیا حورم اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور فرزام تو اپنی گڑیا کو دلہن بنے دیکھ کر ہی افسردہ سا ہو چکا تھا وہ حورم کے سامنے بالکل کمزور نہیں تھا پڑنا چاہتا وہ اپنی جگہ ہی کھڑا تھا جب حورم اس کے سینے سے آ لگی
بھائی آپ کی بہت یاد آئے گی
وہ اس کے سینے سے لگی افسردگی سے بولی
بھائی کی گڑیا آپ کونسا غیروں میں جا رہی ہیں آپ کا جب ملنے کا دل کرے آپ آ سکتی ہیں
وہ اسے سامنے کرتا بولا اور اس کا ماتھا چوما
تھوڑی دیر بعد وہ اسے لے کر باہر کی جانب بڑھا جب انٹرینس پر پہنچے تو ساری لائٹس آف ہو چکی تھیں جبکہ صرف ایک سپاٹ لائٹ تھی جس کی روشنی میں وہ فرزام کے ساتھ چلتی آ رہی تھی
وہ مبہوت ہوتے اس حسن کے پیکر کو دیکھ رہا تھا وہ اس کی دلہن تھی صرف اس کی تھی
" غالب " نظر کے سامنے حسن و جمال تھا
" محسن " وہ بشر خود میں سراپا کمال تھا
ہم نے " فراز " ایسا کوئی دیکھا نہیں تھا
ایسا لگا " وصی " کہ وہ گڈری میں لعل تھا
اب " میر " کیا بیان کریں اس کی نزاکت
ہم " فیض " اسے چھو نہ سکے یہ ملال تھا
اس کو " قمر " جو دیکھا تو حیران رہ گئے
اے " داغ " تیری غزل تھا وہ بیمثال تھا
" اقبال " تیری شاعری ہے جیسے باکمال
وہ بھی " جگر " کے لفظوں کا پر کیف جال تھا
بلکل تمہارے گیتوں کے جیسا تھا وہ " قتیل "
یعنی " رضا " یہ سچ ہے کہ وہ لازوال تھا
وہ چلتی سٹیج تک آئی اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا حورم نے آنکھیں بند کر کے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا اور پورے ہال روشنیوں میں نہا گیا اور تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا ہر کوئی ان دونوں کو دیکھ کر اپنی جگہ ساکت تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے سنگ لگ ہی اتنے خوبصورت رہے تھے جیسے انہیں صرف ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا گیا ہو دونوں ایک دوسرے کی خوبصورتی کے معیار پر اترتے تھے
سارے انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور بہت زیادہ نے ان کی جوڑی ہمیشہ سلامت رہنے کی دعا کی ان سب میں کوئی بھی حسد کا شکار نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے
وہ لگ بھی کسی سلطنت کا بادشاہ رہا تھا اور اس کے پہلو میں اس کی ملکہ
حورم نے اپنی نظریں جھکائی رکھیں تھیں اس میں انہیں اٹھانے کی ہمت نہیں تھی
تھوڑی دیر بعد رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا فرزام کے لیے یہ ایک بہت مشکل وقت تھا اس میں حوصلہ نہیں تھا کہ اپنی بہن کو رخصت کرتا لیکن اسے کرنا پڑا تھا اس نے اپنے آنسؤوں کو زبردستی روکا ہوا تھا
حماد اور حمدان چودھری اپنی جگہ افسردہ تھے جبکہ فرحت بیگم کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے
وہ لوگ مینشن پہنچ چکے تھے کل آبش اور فرزام کے نکاح کا فنکشن رکھا گیا تھا جبکہ اس کا حورم کا ریسیپشن اس سے اگلے دن تھا اور اس نے ریسیپشن اپنے فارم ہاؤس کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا
آبش اور ثناء اسے کمرے میں لے آئے وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی سامنے ہی کنگ سائز بیڈ پڑا ہوا تھا جس کی پچھلی دیوار کالے رنگ کی تھی اور اس پر اس ایک نہایت خوبصورت پورٹریٹ تھا جس میں وہ بہت ہنڈسم لگ رہا تھا سنجیدہ چہرہ اس کی پرسنلیٹی کو ایک الگ ہی رعب دار بنا دیتی تھی
کمرے کو پوری طرح گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا اور جگہ جگہ فینٹیسی کینڈل لائٹس تھیں جس کی روشنی کمرے کا منظر خوابناک بنا رہی تھی اس نے اپنی شال اتاری سامنے ٹیرس تھا اور گلاس وال بھی اوپن تھی وہ وہاں آ گئی تو سامنے بڑے بڑے درخت تھے اور ایک سائڈ سے نیچے جانے کا راستہ تھا جہاں پر ایک عالیشان بڑا سا سوئمنگ پول تھا جہاں جانے کے لیے سیڑھیاں ٹیرس سے جاتی تھیں اور یہ سپیشلی اس کا سوئمنگ پول تھا وہاں جانے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا جبکہ سوئمنگ پول کے ایک سائڈ پر اوپن جم بھی بنا ہوا تھا جس میں ایکسرسائز کے لیے ہر مشین بھی موجود تھی وہ جائزہ لینے میں مگن تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے آنکھیں بند کر کے اس کی خوشبو محسوس کی
وہ جو کمرہ میں آیا تو اسے خبر تک نہیں ہوئی تھی اپنی شیروانی اتارتا اس کی جانب ہی آ گیا اور اسے پیچھے سے اپنے بازؤوں کے حصار میں لیا اور اس کے کندھے پر اپنی تھوڑی رکھ کر اس کے کان میں ہلکی سی آواز میں سرگوشی کی
Welcome in my life،My Queen
اس کی بات پر اسے کچھ یاد آیا تھا بہت سالوں کہی اپنی بات
You mean i'm your queen and you are my queen
اس نے حیرت سے اس کی جانب مڑتے اسے دیکھا جو اب مسکراتے اسے دیکھ رہا تھا
کچھ یاد آیا
اس نے کہتے ہی اسے اپنی حانب کھینچا تھا حورم کے ہاتھ اس کے سینے پر تھے اور ابھی تک حیرت سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اسے اپنے اور اس کے براؤچز کی اب سمجھ آئی اس کا دل ایک دم ہی تیز تیز دھڑکنے لگا جسے وہ بھی بخوبی محسوس کر سکتا تھا اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا حورم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا وہ اسے لیے اندر کی جانب بڑھ گیا
لا کر اسے بیڈ پر بیٹھایا اسے نیٹ کی چنری اور ڈوپٹے سے آزاد کروایا اور اس کی جیولری اتارنے میں اس کی مدد کی
اس نے حورم کا ہاتھ پکڑا اور ایک ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کے ہاتھ کو سہلانے لگا
حورم آج میں کچھ نہیں کہوں گا نہ تمہاری خوبصورتی کی تعریف کروں گا
وہ اس کی طرف دیکھ کے کہہ رہا تھا جو اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی
کیونکہ میرے پاس ایسے کوئی الفاظ ہی نہ نہیں کہ میں بتا سکوں کہ آج میں کیا محسوس کر رہا ہوں میرے احساسات کیا ہیں تمہیں یہاں اپنے سامنے دیکھ کر اپنے پاس پا کر میں مجھے کیسا لگ رہا ہے تم آج کتنی حسین لگ رہی ہو میرے پاس واقعی ہی اظہار کے لیے کوئی لفظ نہیں
وہ دم سادھے اسے سن رہی تھی اس کا اظہار بھی اس کی طرح ہی عجیب تھا اس نے اس کی تعریف میں کچھ نہیں کہا تھا بلکہ کچھ نہ کہنے میں ہی اس نے سب کچھ کہہ دیا تھا
اسے سب نے کہا تھا کہ وہ کتنی پیاری لگ رہی ہے لیکن اسے یقین اب آ رہا تھا اس کی بھی باقی دلہنوں کی طرح ایسی کوئی خواہش نہیں تھی وہ بھی اظہار کا نیا انداز چاہتی تھی اور اس کی یہی بات تو حورم کے دل کو لگی تھی
کچھ نہیں کہو گی
اس کی بات پر حورم نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا
میرے پاس بھی آج کوئی الفاظ نہیں کہ جس میں میں آپ کو اپنی کیفیت بتا سکوں
اس کے کہنے پر وہ مسکرا دیا دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے لبوں پر تو خاموشی تھی لیکن نظریں محو گفتگو تھیں بہت کچھ کہہ رہیں بہت کچھ پوچھ رہیں نظریں
اس نے دھیرے سے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے اپنے پیار کی پہلی نشانی حورم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اس کے کلون کی خوشبو اس کے اندر اتر رہی تھی اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی
وہ پیچھے ہٹا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ نکال کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اس نے اس باکس کو کھولا اور ایک نہایت قیمتی اور خوبصورت بریسلٹ باہر نکالی اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا حورم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس نے بلیک ڈائمنڈز سے سجے اس بریسلٹ کو اس کی سفید خوبصورت کلائی کی زینت بنایا جو کہ اس کی کلائی پر پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا اس نے پھر اسی باکس کی ایک سائیڈ سے ایک مردانہ انگوٹھی نکالی وہ بھی کالے ہی رنگ کی تھی اس نے اس انگوٹھی کی مدد سے اس کے بریسلٹ کو لاک کیا تھا کہ اب وہ بریسلٹ اس کی انگوٹھی کے بغیر نہیں کھل سکتا تھا ایک چیز دونوں میں سیم تھی کہ اس کی انگوٹھی پر کنگ کراؤن کا ڈیزائن تھا جبکہ اس کے بریسلٹ جو کہ بلیک ڈائمنڈز کا تھا اس پر چھوٹے چھوٹے کوئین کراؤن لٹک رہے تھے جو کہ اس کے ہاتھ ہلانے پر مدھم سا سر بکھیرتے
شکریہ
حورم نے ہلکے سے کہا وہ اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا اس نے اس کی کلائی پر نبض کی جگہ اپنے ہونٹ رکھے
اس سے پہلے کے حورم کی حالت بگڑتی کہ تبھی اس کے فون کی گھنٹی بجی
وہ پیچھے ہٹا اور سائڈ سے فون نکالا
حورم چینج کر لو ڈریس کافی ہیوی بھی ہے میں فون کال سن لوں
وہ کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ اس نے ایک لمبا گہرا سانس لیا وہ اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھی اسے کے لفظوں میں چھپی شدت وہ محسوس کر سکتی تھی اسے ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا تھا اس کی قربت پر اس کا دل بری طرح مچل رہا تھا اس نے اپنی کلائی دیکھی جہاں پر اس کے ہونٹوں کا لمس اب بھی تھا وہ محسوس کر سکتی تھی
وہ اٹھی اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی اور ایک آرام دہ نائٹ سوٹ پہن کر باہر نکلی اور سونے کی تیاری کرنے لگی بیڈ پر لیٹ کر اس نے کمفرٹر اپنے اوپر پھیلا لیا اور ایک کنارے پر ہی تھی اور جلدی نیند آنے کی دعا کرنے لگی
تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں آیا تو اسے بلینکٹ میں پیک آنکھیں بند کیے دیکھ کر مسکرانے لگ گیا فون ٹیبل پر رکھا اور چینج کرنے چل دیا تھوڑی دیر بعد باہر نکلا اور سونے کی تیاری کرنے لگے وہ بیڈ پر لیٹے اسے دیکھنے میں مگن تھا جو شاید ابھی نیند میں جا رہی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی حانب کھینچا تو وہ اس کے کشادہ سینے سے آ لگی
وہ جو نیند کی وادیوں میں اترنے ہی والی تھی کہ کسی کے کھینچنے پر وہ بیدار ہوئی آنکھیں کھولیں تو نیم اندھیرے میں اس کی آنکھوں سے ٹکرائیں وہ اس کے سینے پر تھی اس کے دل کی دھڑکن اس کمرے کی خاموشی میں واضح سنائی دے رہی تھی اس نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن اس کی گرفت ڈھیلی ہونے کے باوجود بھی مضبوط تھی
میرے اس حصار کو تم نہیں توڑ سکتی اسلیے یہ بلاوجہ کی کوشش بھی ناکام ہے
اس نے اسے ہلکا سا جھٹکا دیا جس سے حورم کا سر اس کے کندھے سے آ لگا اس نے اس کے کان میں سرگوشی کی
سو جاؤ صبح ایک اور فنکشن بھی ہے
حورم نے خود کو ریلیکس کیا اور اپنا ارادہ ترک کرتے اس کے سینے پر سر رکھ دیا حورم اس کے دل کی دھڑکن واضح سن سکتی تھی اس کی خوشبو اس کے حواسوں پر چھا رہی تھی اس کے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا لیکن سکون بخش بھی
اس نے مسکراتے اس کے سر پر اپنے لب رکھے اور اس کے گرد حصار کو مزید تنگ کرتے وہ آنکھیں موند گیا آج اسے اپنے چاروں طرف سکون ہی سکون محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے صدیوں کی مسافت کے بعد کا سکون
اگلے دن کا سورج آسمان پر اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا آج فرزام کا نکاح تھا اور اس کی تیاریاں ہی جاری تھیں یہ فنکشن بھی ایک ہال میں بک تھا فرزام کب کا وہاں پینچ چکا تھا اور ساری ارینجمنٹس اپنی نگرانی میں کروا رہا تھا پھر وہ ہدایت دیتا خود تیار ہونے کے لیے چلا گیا
دوپہر تک مہمان آنا بھی شروع ہو چکے تھے اور نکاح کی رسم بھی ادا کی جا چکی تھی سفید شلوار قمیص میں آج خوبرو لگ رہا تھا اور کچھ اندرونی خوشی تھی
جبکہ آبش کی حالت بھی کچھ الگ نہیں تھی اس سے جب بات کی گئی تھی تو اس نے فیصلہ اپنے بھائیوں پر چھوڑ دیا تھا اور آج وہ کسی کے نام کر دی گئی تھی وہ خوش بھی تھی لیکن تھوڑی نروس بھی
نکاح کا فنکشن بھی انتہائی خوش اسلوبی سے ادا ہو چکا تھا فرزام اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ رک چکا تھا جبکہ میر اور صارم بھی ان کے ساتھ ہی تھے
چوہدری حماد اور حمدان بھی گھر کے لیے نکل چکے تھے
وہ سارے دوست اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے انہیں ریسٹورینٹ میں آیے کافی دیر ہو چکی تھی اور اب وہ خوش گپیوں میں مصروف تھے کافی دیر بعد انہیں ایسے وقت ملا تھا
جب فرزام کے موبائل کی گھنٹی بجی اس نے ریسیو کیا اور فون کان سے لگاتا ایکسکیوز کرتا اٹھ کھڑا ہوا لیکن جو خبر اسے دوسری طرف سے دی گئی تھی وہ اس کے پیروں تلے زمین نکالنے کے لیے کافی تھی
وہ بے یقین سی کیفیت کے ساتھ کھڑا تھا جب صارم اور میر بھی اس کے پاس آئے
فرزام کیا ہوا ہے
اس کے چہرے کے تاثرات غلط ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے
جلدی جلدی ہوسپیٹل چلو
وہ لڑکھڑاتے لفظوں میں کہتا باہر کی جانب بڑھا جبکہ وہ دونوں بھی اس کی تقلید میں بڑھے انہیں پتہ تو نہیں تھا لیکن کچھ غلط ہوا تھا
چوہدری حماد اور چوہدری حمدان کی کار کا آتی دفعہ ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکراؤ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ چاروں موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے ان کی باڈیز کو ہاسپٹل لایا گیا اور جانچ پڑتال کے بعد فون میں لاسٹ کال فرزام کے نام سے تھی جسے کال کر کے اسے ہاسپٹل کا بتایا گیا اور ڈیڈ باڈیز کے بارے میں
وہ عجلت میں ہاسپٹل آیا تھا وہ دونوں اس کے ساتھ ہی تھے انہیں فرزام نے ایکسیڈینٹ کے بارے میں بتایا تھا اسے روم میں لے جایا گیا سامنے ہی چار لاشیں تھیں اس نے گرنے سے بچنے کے لیے ان دونوں کا سہارا لیا وہ اسے لے کر باہر بڑھے اور اسے بینچ پر بٹھایا
یہ یہ کیا ہے یہ جھوٹ ہے نا مام ڈیڈ ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے
وہ ابھی تک بے یقین تھا صارم اور اس نے اسے حوصلہ دیا
فرزام یار تمہیں خود کو سنبھالنا پڑے گا حورم کے لیے
اس کے کہنے پر فرزام نے سر اٹھایا
حور حورم اس اسے جب پتہ چلے گا میرے سے سامنا نہیں ہو گا اس کا
وہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر بری طرح رو دیا
ایسے کیسے وہ جا سکتے ہیں یار ابھی تو میری شادی بھی انہیں دیکھنی تھی
فرزام حوصلہ رکھ یار
وہ خود بھی افسردہ تھا
ایک ماہ بعد:
آج ان کو گئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا لیکن حورم کی تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی شادی کے ایک دن بعد ہی یہ حادثہ اس کے لیے بہت ہی غیر متوقع تھا اس نے ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ مینٹلی بہت زیادہ ڈسٹرب ہوئی تھی
گھر کی صورتحال دیکھتے سمائرہ بیگم نے آبش کی رخصتی سادگی سے کرنے کا مشورہ دیا اور تھوڑے دنوں بعد آبش کی رخصتی بھی کر دی گئی اور ولیمے کا بعد میں سوچا گیا فرزام کو بھی گھر میں کسی کی ضرورت تھی کب تک ملازموں کے سہارے رہتے حورم بھی اس ایک مہینے سے یہی تھی آبش نے ہی دونوں بہن بھائیوں کو سنبھالا ہوا تھا میر ملنے آ جاتا تھا اس نے بھی حورم کو ابھی واپس آنے کے لیے فورس نہیں کیا تھا وہ اس کی حالت سمجھ سکتا تھا لیکن اب ایک مہینہ ہو رہا تھا کب تک ایسا چلتا اسی لیے وہ اس وقت ان کے گھر موجود تھا آبش اور فرزام سے ملنے کے بعد وہ حورم کے کمرے کی جانب بڑھا دروازے کو ہلکا سا ناک کر کے وہ اندر آیا تو دیکھا وہ ٹیرس پر کھڑی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی سردی سے بچنے کے لیے شال کو اس نے اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا
وہ اسی طرح کھڑی تھی جب اسے کسی کی مخصوص خوشبو کا احساس ہوا اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جو کہ ریلنگ پر تھا
سردی کافی ہے ادھر چلو اندر آؤ
وہ اسے ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھ گیا اور بیڈ پر بیٹھ گیا حورم نے اپنا سر اس کے کندھے سے ٹکا لیا جبکہ وہ بیڈ پر نیم دراز تھا
حورم میں نے کچھ سوچا ہے
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے کہہ رہا تھا
کیا
اس نے آنکھیں بند کیے ہی جواب دیا
میں نے سینٹورنی کی ٹکٹس بک کروائیں ہیں اور ہم کچھ دنوں کے لیے جا رہے ہیں
حورم نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا
لیکن آپ جانتے ہیں نا کہ
اس نے روہانسے ہوتے کچھ کہنا چاہا
حورم مائی کوئین کب تک ایسا چلے گا نارمل لائف میں واپس آنا ہے تو اب ہی کیوں نہیں اور ویسے بھی ایک مہینہ ہو گیا تم سے دور ہوئے اب اور نہیں
وہ اسے سمجھاتے بولا
پلیز
وہ امید بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی
حورم جو مر جاتے ہیں ان کے لیے دوسروں کو نہیں مارا جاتا اپنے آس پاس ذرا دیکھو فرزام تمہارے لیے کتنا پریشان ہے لیکن اگر تم نہیں چاہتی تو ٹھیک ہے میں کینسل کروا دیتا ہوں
وہ آخر میں کندھے اچکاتا خفا ہوتا بولا
ٹھیک ہے نا کچھ نہیں کہہ رہی میں۔۔۔۔۔نا کروئیں کینسل اب ایسے ناراض تو نا ہوں
وہ دوبارہ اس کے کندھے پر سر ٹکاتی بولی
اب اگر ایسے کرو گی تو ناراض رہ سکتا ہے
اس کی بات پر اس نے مسکرا کر اس کے سینے پر سر رکھ دیا ایک وہ اور فرزام ہی تو تھے جنہوں نے اس کا ہر پل ساتھ دیا تھا اور اب بھی وہ اس کے لیے ہی کر رہا تھا
میں نے فرزام سے بات کر لی ہے کل ہم شاپنگ پہ جائیں گے اور پرسوں کی فلائٹ ہے ہماری
وہ اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے بولا
فرزام اپنے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ آبش اس کی وارڈروب سیٹ کرنے میں مگن تھی وہ اس کے جانب بڑھ گیا
مسز میں نے کتنی بار کہا ہے کہ خود نہ کیا کرو یار گھر میں اتنی ملازمہ ہیں کسی سے کہہ دیا کرو
وہ اس کی طرف مڑی
اور میں بھی آپ کو اتنی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ آپ کے کاموں کے لیے میں نہیں ہوں کیا جو کسی ملازمہ سے کرواؤں
اس کی بات پر فرزام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا اور خود بھی اس کے قریب بیٹھ گیا
آبش تم نے جیسے مجھے سنبھالا حورم کو سنبھالا اور اس گھر کو سنبھالا ہے میں وقعی ہی تمہارا شکرگزار ہوں
آبش نے جیسے اس کے لیے اپنی جاب کو بھی چھوڑا دیا تھا اس کے دل میں اس کی قدر اور بڑھا گیا تھا
یہ میرا فرض تھا فرزام اور مجھے ہی کرنا تھا اور آپ زیادہ نہ سوچیں ابھی اس بارے میں حورم کی بتائیں وہ مان گئی ہے کیا جانے کے لیے
وہ اس کی طرف دیکھتے پوچھنے لگی
ہاں تمہارا بھائی اسے منانا جانتا ہے مجھے بھی آئیڈیا اچھا لگا ہے کب تک وہ اس گھر میں رہے گی کہیں باہر نکلے تھوڑا ریلیکس بھی ہو جائے گی
اچھا چلیں آپ فریش ہو جائیں میں دیکھ لوں کھانا بنا ہے کہ نہیں
وہ مسکراتے اٹھ کھڑی ہوئی
وہ آج اسے لے کر سب سے بڑے مال آیا ہوا تھا اس کی گاڑی پارکنگ میں کھڑی ہوئی پیچھے ہی اس کے گارڈز تھے جنہوں نے اس کے اترنے سے پہلے ہی دروازہ کھول دیا تھا اس نے خود بلیو پینٹ پر بلیو ہی ڈریس شرٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ حورم نے بلیو فراک اور بلیو ہی جینز پر شال لی ہوئی تھی اس کی کلائی پر بلیک ڈائمنڈز کا بلیک ہی بریسلٹ چمک رہا تھا وہ گارڈز کو ہدایت دیتا اس کا ہاتھ پکڑتا اندر کی جانب بڑھ گیا جبکہ کچھ گارڈز اس کے ساتھ تھے
اس نے حورم کو ڈھیروں شاپنگ کروائی تھی ڈھیروں ڈریسز کے ساتھ میچنگ شوز وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں ہی لیے ہوئے تھا جب اس نے پکارا
ہم ویسے ایک مہینے کے لیے ہی جا رہے ہیں نا
اس کی بات پر وہ اسے دیکھنے لگا
کیوں
نہیں میرا مطلب اتنی شاپنگ
تو اس میں کیا ہے
وہ اب کسی جیولری شاپ پر تھے جب حورم کا فون رنگ کیا دیکھا تو سارہ کی کال تھی وہ اسے کہتے شاپ کے باہر ہی آ گئی سارہ کی کال تھی ورنہ شاید وہ اسے جانے کی اجازت نہ دیتا اس نے اس کے لیے میچنگ جیولری کا آرڈر دیا
وہ سارہ سے بات کر کے ابھی پلٹی ہی تھی کہ کوئی اس کے سامنے آ گیا
اوہ مس حورم ادھر دیکھ کر خوشی ہوئی
شیرازی ہنستے اسے کہہ رہا تھا جب کہ حورم کو اس کی ہنسی زہر لگ رہی تھی
آپ کی بکواس اگر ختم ہو گئی ہو تو پیچھے ہٹ سکتے ہیں کیا
وہ بے رخی سے بولی
آپ کی یہی ادائیں تو ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بکواس کرتا کہ کسی نے سائیڈ سے اس کے جبڑے پر گھونسا مارا جو اتنا زوردار تھا کہ وہ پیچھے گرنے سے بچا ہی تھا
اب کر بکواس تو میرے سامنے
اس نے اسے کالر سے پکڑ کر اس کے منہ پر ایک اور زور کا پنچ مارا جس سے وہ پیچھے گر چکا تھا حورم نے اسے پکڑا ہوا تھا
تم اس کے لیے میرے سے لڑ رہے ہو جانتے نہیں کہ کون ہوں میں
شیرازی منہ سے نکلتے خون کو صاف کرتے بولا
اس کی بات پر وہ نیچے بیٹھا اور کالر سے اسے پکڑ کر غرایا
اس کے لیے پوری دنیا سے اکیلا لڑ سکتا ہوں تو تم کیا چیز ہو
وہ بری طرح اسے چھوڑتے بولا
اور پیچھے ہٹ گیا رش اردگرد لگ چکا تھا
تم اپنا نقصان کرو گے یاد رکھنا
اس کی بات پر حورم نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا جبکہ وہ ہنس دیا
تو یاد رکھنا اس کے علاوہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا
اس نے اس کی طرف دیکھتے قہر برساتی نظروں سے اس سے کہا اور پاس پڑے گلاس شوپیس کو غصے میں آ کر اپنے ہاتھوں میں توڑ دیا اس کی حورم نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا
اس نے اپنے گارڈ کو کچھ اشارہ کیا جس پر وہ سمجھ کر سر ہلا گیا اتنی دیر میں مینیجر بھی پہنچ چکا تھا اور غالباً اسے پہچان بھی چکا تھا
سر معاف کیجیے گا کہ یہاں آپ کو کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا
وہ اس کی طرف دیکھتے کہنے لگا جس کی گوری رنگت نیلی شرٹ میں ہلکی سرخ ہو گئی تھی اور اس کے بازو شرٹ میں کچھ ورزش کرنے سے اور کچھ غصے سے ٹائٹ ہو چکے تھے جبکہ وہ سب کو نظرانداز کرتا حورم کا ہاتھ پکڑے باہر کی طرف نکل پڑا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس کا خون نکل رہا تھا اس نے حورم۔کو گاڑی میں بیٹھایا حورم نے اس کے ہاتھ پر رومال باندھ دیا تھا وہ باہر جانے لگا کہ جب اس نے پکارا
آپ اب کہاں جا رہے ہیں دیکھیں کتنا خون نکل چکا ہے پہلے ہی
وہ بس رونے والی تھی
میں بس ادھر ہی ہوں ایک منٹ
وہ دروازہ بند کرتے اپنے خاص وفادار گارڈ کی جانب مڑا
خاور وہ انسان آج اپنے گھر نہیں جانا چاہیے مجھے ہر حال میں چاہیے اور جو سامان وغیرہ ہے وہ بھی پہنچا دینا
اس کی بات پر اس نے سر ہلایا
میں نے اپنے بندوں سے کہہ دیا اور سامان بھی آ جائے گا لیکن آپ اپنی پٹی کروا لیں پہلے
اس نے جھکے سر سے کہا
یار کروا لیتا ہوں اب
وہ اس کی پریشانی پر ہنستے ہوئے پلٹا خاور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا وہ بیٹھ گیا تو دروازہ بند کرتے وہ اگلی سائیڈ پر بیٹھ گیا
خاور تم ہاسپٹل چلو
جب وہ خود نا بولا تو حورم ہی بول اٹھی جبکہ خاور اس کی طرف دیکھنے لگ گیا
یار حورم گھر چلے جاتے ہیں وہاں بینڈیج ہو جائے گی ہاسپٹل جانے کی کیا ضرورت ہے اتنی زیادہ چوٹ بھی نہیں
اس نے اس کا ہاتھ پکڑتے کہا
کیا مطلب ضرورت نہیں ہم ابھی ہاسپٹل ہی جا رہے ہیں ایک آپ کو کیا پڑی تھی اتنا بننے کی اب دیکھے نا کتنا خون نکل چکا ہے
اس نے روہانسے ہوتے کہا اور رخ دوسری طرف موڑ لیا
یار ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔چلو یار خاور ہاسپٹل ہی چلو
خاور نے بھی مسکراتے گاڑی کا رخ ہاسپٹل کی جانب موڑ لیا
ہاسپٹل پہنچ کر وہ کمرے میں بیٹھا تھا جبکہ حورم رومال اتار رہی تھی جب ایک ڈاکٹر اندر آئی
اوہ تو ہاتھ پر چوٹ لگی ہے
وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی یقیناً وہ بھی اس کی پرسنیلٹی سے مرعوب تھی وہ بینڈیج کرنے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی جب اس نے روک لیا
میں کسی بھی لڑکی کو خود کو چھونےکی اجازت نہیں دیتا سو پلیز اس کے لیے میری وائف موجود ہیں آپ سامان رکھ سکتی کے جا سکتی ہیں
اس کی بات پر جہاں وہ حیران ہوئی تھی وہیں حورم بھی ساکت تھی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کوئی کیسے اتنا پوزیسسیو ہو سکتا ہے خود کے لیے بھی اور اس کے اپنے لیے بھی
اب دیکھ کیا رہی ہو کرو بینڈیج
اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جبکہ اس کی آواز پر وہ چونکی اور اسے بینڈیج کرنے لگی
آپ نے یہ ابھی کیا کہا
حورم نے اس سے پوچھا
کیا کچھ بھی تو نہیں بس اتنا ہی کہا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے صرف اپنی کوئین کے لیے میرے پر صرف اس کا حق ہے
وہ مسکراتے اس کے بال پیچھے کرتے بولا جبکہ وہ بس رونے ہی والی تھی نہ جانے کیوں
انہیں سینٹورنی آئے بیس دن ہو رہے تھے اور یہاں آ کر حورم سب کچھ بھول چکی تھی وہ جگہ تھی ہی اتنی خوبصورت کہ ہر دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی یونان کا ایک جزیرہ حو سمندر کے کنارے پر تھا انہوں نے سمندر کے سامنے ہی ایک ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی اور وہ ہر نئے دن کو الگ طریقے سے انجوائے کرتے تھے شام کو سمندر پر سورج غروب ہونے کا منظر حورم کو تو ویسے ہی بہت بھاتا تھا اور ادھر ہر روز وہ منظر دیکھنے کو ملتا تھا
وہ ابھی بوٹ رائیڈنگ کے لیے آئے تھے ادھر آ کر تو حورم کی مسکراہٹ ہی الگ نہ ہو رہی تھی وہ بہت خوش تھی اور اس کی اسی خوشی کی خاطر تو میر اسے ادھر لایا تھا اس کی مسکراہٹ کے لیے تو وہ کچھ بھی کر سکتا تھا تو یہ سینٹورنی کیا چیز تھی
نیلے سمندر کا پانی اسے بالکل اس کی آنکھوں کی طرح ہی لگ رہا تھا
اس کے بعد وہ کافی دیر بیچ پر چہل قدمی کرتے رہے وہ اس کے ساتھ واقعی ہی بہت خوش تھی ہر چیز کو دوبارہ سے جی رہی تھی اس سے ڈھیروں باتیں کرنے
شام کو کافی لیٹ وہ واپس آئے تھے وہ فریش ہونے کے بعد ای میلز چیک کرنے بیٹھ گیا جب سے وہ آیا تھا اس نے اور کسی کام پر توجہ نہیں دی تھی اور اب وہ کچھ اور بھی پینڈنگ کام دیکھ رہا تھا
حورم فریش ہونے کے بعد نائٹ سوٹ پہنے باہر نکلی وہ سونے کی تیاری کرنے لگی جب اسے بھی پکارا
آپ نے نہیں آج سونا
وہ جو صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا اس کی طرف دیکھا
یار بس تھوڑا سا کام رہ گیا وہ نپٹا لوں تم سونے کی تیاری کرو
اس کی بات پر وہ لیٹ رو گئی لیکن اسے نیند بالکل بھی نہیں آ رہی تھی وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی اور اٹھ کر اس کے پاس ہی آ گئی
مجھے نیند نہیں آ رہی ہے
وہ لیپ ٹاپ بند کرتے بولی اس کی بات پر وہ اسے دیکھنے لگا اور اسے اٹھا کر بیڈ کی جانب بڑھ گیا کام تو اب ہونا نہیں تھا
کیوں کیا ہوا ہے
وہ کمفرٹر سیدھا کرتے بیڈ پر بیٹھتے بولا اور اسے بھی ساتھ ہی بیٹھایا
پتہ نہیں مجھے ایسے نیند نہیں آ رہی ہر روز آپ کے سینے پر سر رکھ کر سوتی ہوں آپ نے عادت جو ڈال دی ہوئی ہے اب۔۔۔۔۔۔مجھے آپ کے سینے کے بغیر نیند نہیں آتی
وہ اس کے سینے پر سر رکھے بول رہی تھی جب اس نے اسے اچانک ہی لٹا کر خود اس پر جھک گیا
لیکن میرا تو کچھ اور ہی کرنے کا اردہ ہے
وہ اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکتے کہہ رہا تھا
لیکن مجھے نیند آ رہی ہے
وہ نظریں جھکاتی لڑکھڑاتی آواز میں اس کی لو دیتی نظروں سے آنکھیں چراتی بولی اسے اس کی بالکل امید نہیں تھی
وہ اب اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا اس کے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھ گیا
لیکن مجھے تو نہیں آ رہی اور جب مجھے نیند نہیں آئے گی تو میں پھر تمہیں بھی نیند نہیں آئے گی اور ویسے بھی میں تو اپنا کام کر رہا تھا مجھے تم نے ہی بلایا ہے
اس نے جھک کر اپنے دہکتے لب اس کی گردن پر رکھے جب اس نے اس کی شرٹ کو جکڑا
اجازت ہے
اس نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھتے جذبات سے لبریز آواز میں کہا جس پر اس نے نظریں جھکا کر اپنا آپ اسے سونپ دیا
اس نے مسکراتے سائیڈ لیمپ آف کر دیا اور ایک خوشگور اور یادگار رات اپنے ختتام کو پہنچی
یہ ایک کمرے کا منظر تھا جہاں پر تین افراد موجود تھے
ارحم سامنے بیٹھا پیپرز کا جائزہ لے رہا تھا جبکہ اس کے سامنے ایک لڑکا اور ایک لڑکی بیٹھے ہوئے تھے جو کہ اس کی ٹیم میں شامل تھے جب لڑکی بولی
سر اب آگے کیا کرنا ہے ہم پاشا کے تمام اڈوں تک پہنچ گئے ہیں لیکن ہمیں اس کا مین ٹھکانے ک ابھی تک پتہ نہیں چلا
اس کی بات پر ارحم نے سر ہلایا
فکر نہ کرو بہت جلد مل جائے گا کب تک بچے گا اور ہمیں کسی بھی وقت اٹیک کے لیے ریڈی رہنا چاہیے
اس کی بات پر ان دونوں نے سر ہلا دیا
انہیں واپس آئے کافی دن ہو چکے تھے ان کا یہ ٹور بہت شاندار رہا تھا اور حورم کا مائنڈ بھی کافی حد تک بدل چکا تھا اور یہ سب اس کی مرہون منت تھا انہوں نے وہاں ہر پل کو انجوائے کیا تھا
آج حورم کو سارہ نے ایک ریسٹورنٹ میں بلوایا تھا اور وہ وہاں جانے کے لیے ہی ریڈی ہو چکی تھی ان گزرے ہوئے دنوں نے اسے اور بھی حسین بنا دیا ہوا تھا اور اس کی محبت نے تو اس پر الگ ہی جادو کیا تھا اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا سب اتنی آسانی سے ٹھیک ہو چکا تھا
اس نے بلیک جینز پر بلیک ہی ہائی نیک پر بلیک لانگ کوٹ پہنا تھا اور سارہ سے ملنے کے لیے نکل چکی تھی
وہ آفس میں بیٹھا ہوا تھا جب اس نے عاشر کو کال ملائی تھوڑی دیر بعد فون اٹھا لیا گیا
ہیلو تیار ہے سب کچھ
عاشر نے اس سے پوچھا
سب کچھ تیار ہے وعدے کے مطابق اسے میں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا جبکہ حورم ریسٹورنٹ کے لیے نکل چکی ہے اور یاد رکھنا ادھر ایک اور لڑکی بھی ہو گی وہ تمہارا شکار ہوئی
اس کی بات پر وہ قہقہہ لگا اٹھا
لیکن یاد رکھنا بہرام شاہ سارے ثبوت ہیں میرے پاس تمہارے خلاف اگر کچھ ہوا نا تو پھر سوچ لینا
عاشر نے ہنستے کہا
دیکھا جائے گا چلو ٹھیک ہے پھر
اس نے فون رکھ دیا اور آگے کا سوچنے لگا
وہ نہ جانے کب کی اس کمرے میں کرسی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی اسے اتنا یاد تھا صررف کہ وہ سارہ کے ساتھ ہوٹل سے نکلی تھی جب اسے بےہوش کر دیا گیا اس کے بعد کیا یوا اسے کچھ یاد نہیں تھا اور اب وہ یہاں کرسی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی اسے اپنی طبیعت بھی بوجھل لگ رہی تھی
کہ جبھی کوئی دروازہ کھولتے اندر آیا
اس نے اس کے ہاتھ ڈھیلے کیے جبکہ کوئی اور بھی اندر آیا
آئیے پاشا صاحب
پہلے والے آدمی نے اس سے کہا جسے حورم اندھیرے میں ہونے کے باعث نہ دیکھ سکی لیکن جب وہ سامنے روشنی میں ہوا تو حورم کی آنکھیں حیرت سے پھیل اٹھیں
عا۔۔۔۔عاشر
اس نے لڑکھڑاتے کہا
حورم مائی کزن کیسا لگا سرپرائز
وہ اس کے سامنے آتا بولا
مجھے ادھر کیوں لائے ہو عاشر
وہ چلائی
ماننا پڑے گا وقت کے ساتھ اور خوبصورت ہو گئی ہو
عاشر اپنی بکواس بند کرو اور کھولو مجھے
اس کی بات پر وہ ہنسنے لگا
کون بچائے گا حورم تمہیں وہی جس نے خود تمہیں میرے حوالے کیا ہے
اس کی بات پر وہ حیرت زدہ اسے دیکھنے لگی جبکہ اس نے سامنے کچھ چلایا
جس میں بہرام اور اس کی گفتگو تھی
حورم نے بے یقین نظروں سے سامنے دیکھ رہی تھی
نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔بہرام ایسا نہیں کر سکتے
وہ نہیں کر سکتے میرے ساتھ ایسا
وہ چلا دی
یقین کر لو حورم کہ تمہیں صرف استعمال کیا گیا ہے اور بہرام شاہ کیا سمجھتا تھا کہ وہ تمہارے ڈریعے مجھے ٹریپ کر لے گا لیکن نہیں وہ یہاں آئے گا لیکن ہم یہاں نہیں ہوں گے
جنید آج اپنے مین اڈے پر جائیں گے
اس نے اپنے ملازم جنید کو حکم دیا جس پر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اس نے بہت سنا تھا لیکن اتفاق آج ہو رہا تھا
پاشا صاحب اس دوسری لڑکی کا کیا کرنا ہے
اس نے اس سے پوچھا
اسے بھی ساتھ ہی لے چلو
وہ کہہ کر جانے لگا جب حورم کی آواز آئی
عاشر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو تم تو پیار کرتے تھے نا
وہ بے بسی سے بولی
پیار۔۔۔۔۔
وہ قہقہہ لگا اٹھا
کونسا پیار حورم کونسا مجھے شروع سے ہی تمہارے سے نفرت تھی تمہارے اس خوبصورت چہرے سے نفرت رہی ہے تم نے آج تک سب کا پیار خود لیا میرے بابا میرے سے زیادہ تمہارا کرتے تھے اسی لیے تم سے نکاح کیا تھا تمہیں برباد کرنے کے لیے لیکن یہاں بھی تمہاری جیت ہو گئی لیکن خیر اب میں مزید دیر نہیں کروں گا
وہ نفرت سے کہہ رہا تھا اور وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی اتنی نفرت اور وہ بھی اس سے
وہ جنید کو کہتا باہر نکل آیا جنید پچھلے بیس سالوں سے اس کا ملازم اور وفادار تھا لیکن آج تک وہ اسے اپنے مین اڈے پر لے کر نا جا سکا
ارحم ساکت نظروں سے سامنے لیپ ٹاپ کو دیکھ رہا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ سچ ہے
اس نے جلدی سے فون پکڑا اور کسی کو کال ملائی
تھوڑی دیر بعد اس نے پھر بہرام کو کال کی
Behram،don't tell me
کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ سچ ہے
بہرام جانتا تھا کہ وہ کس بارے میں کہہ رہا تھا
جی بھائی سچ ہے
اس کی بات پر وہ ششد رہ گیا
بہرام مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم ایسا کچھ کر سکتے ہو میں میں منع بھی کیا تھا تمہیں
ارحم کی بات پر اس نے لب بھینچے
بھائی جو انفارمیشن آپ کو مل رہی ہے پلیز اسے دیکھیں
اس نے کہتے ہی فون کاٹ دیا حیدر بھی وہاں ہی موجود تھا
جب تھوڑی دیر فرزام لال آنکھیں لیے کمرے میں داخل ہوا
وہ سیدھا بہرام کی طرف بڑھا تھا
بہرام مجھے سچ سچ بتانا کہ جو ارحم بھائی نے کہا ہے کیا وہ سچ ہے مجھے بس اس کا جواب چاہیے
وہ اس کے سامنے آتا بولا
وہ سب سچ ہے
اس نے بنا جھجھکے کہا تھا وہ حیران تو تھا کہ بھائی نے فرزام کو اتنی جلدی کیوں بتا دیا
بہرام ۔۔۔۔۔بہرام تو جانتا ہے تو نے کیا کیا ہے
اس نے غصے میں آ کر اسے ایک پنچ مارا
بہرام تو جانتا ہے کہ وہ تجھے کتنا چاہتی ہے
اس نے ایک اور پنچ اسے مارا جب کہ اس کی بات پر اس نے آنکھیں بند کیں
ابھی تو وہ پچھلے غم سے نکلی تھی کہ تو نے اسے پھر۔۔۔۔۔۔۔وہ کیسے برداشت کرے گی
وہ اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تھا کہ حیدر نے اسے پکڑا
میں تمہاری جان لے لوں گا بہرام شاہ
وہ چلایا
فرزام پوری بات پہلے سن لو
حیدر نے اسے بڑی مشکل سے پکڑا ہوا تھا جبکہ اس کا ارادہ تو اسے جان سے ہی مار دینے کا تھا
بہرام نے اپنے ہاتھ سے ناک سے نکلتا خون صاف کیا جو کہ فرزام کے پنچ مارنے سے نکلنے لگ گیا فرزام نے اپنا آپ حیدر سے چھڑوایا اور اس کا گریبان پکڑ کر چلایا
بہرام ایک بات کان کھول کر سن لو آج تک تو نے میری دوستی دیکھی ہے نا آج کے بعد تو میری دشمنی دیکھے گا اس۔۔۔ تو اس یقین کا کہا کرتا تھا نا تو میں ہی پاگل تھا
اس کا گریبان چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹا اور جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ پھر اس کی طرف مڑا
اگر میری بہن کو کچھ بھی ہوا نہ مطلب کچھ بھی تو میں تیری جان لے لوں گا یہ یاد رکھنا
وہ لہو رنگ آنکھوں سے گھورتا دھیمی آواز میں غرایا
اور یاد رکھنا آج کے بعد میری بہن سے تمہارا ہر رشتہ ہر تعلق ختم
اس کی بات پر اس نے ترپ کر سر اٹھایا
فرزام تم ایسا نہیں کر سکتے
اس کا دل کسی انہونی کے تحت دھڑکا
میں ایسا کروں گا اور حورم میری بات مانے گی یاد رکھنا
وہ بھی ویسے ہی بولا
پھر یاد رکھنا کہ میری بہن سے بھی تمہارا تعلق ختم فرزام چودھری
وہ بھی دوبدو بولا
ٹھیک ہے "میر بہرام علی شاہ" ۔۔۔۔ٹھیک ہے اپنی بہن کی خاطر کچھ بھی
اس کی بات پر باہر کھڑی آبش نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا
یہ کیا ہو رہا تھا
جبکہ بہرام وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کیا وہ اتنا کچھ کھونے والا تھا
فرزام باہر نکلتے آبش کو بھی نظرانداز کرتے نکل گیا
بہرام کے کانوں میں حورم کا جملہ گنگنایا
مجھے آپ کے سینے کے بغیر نیند نہیں آتی
اس نے طیش کے عالم میں سامنے گلاس وال پر ہاتھ دے مارا جس سے وہ پوری ٹوٹ کر بکھر گئی
حیدر خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا اس نے اسے کہا بھی تھا کہ ایسا نہ کرے لیکن وہ نہیں مانا تھا یہ تو ہونا ہی تھا
وہ جانے کی تیاری کرنے لگا جب صارم اندر آیا
میر ہمیں آگے ہی دیر ہو چکی ہے جلدی کرنا ہو گا
وہ ان دونوں کو نظرانداز کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا جب حیدر بھی صارم کو لیتا باہر نکلا