وہ اپنے آفس میں بیٹھا سامنے رکھا فوٹوشوٹ دیکھ رہا تھا جبکہ سحر اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی نینا اسے بتا چکی تھی کہ حورم گھر جا چکی ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے اسے فرزام کی کال آئی تھی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ رات کی پارٹی کے لیے ڈیزائنز ڈریسز وہ اپنی ہی کمپنی کے پہنے گے
سو ابھی ڈریسز بھی سیلیکٹ کرنے والے تھے اور علینہ کا فوٹوشوٹ ابھی پینڈنگ ہی تھا علینہ ان کی کمپنی کی ماڈل تھی جو کہ دو سال سے کام کر رہی تھی لیکن وہ ابھی اس کی شکل بالکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا سو اس کا پہلا فوٹوشوٹ دیکھ رہا تھا کہ تب ہی وہ آندھی طوفان بنی اندر آئی اسے دیکھ کر اس کے ماتھے کے بلوں پر واضح اضافہ ہوا تھا جبکہ سحر کا تو منہ ہی بن گیا
شاہ یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟
وہ اس کے سامنے آتی بولی اس نے سحر کو جانے کا اشارہ کیا اور اس کی طرف مڑا
مس علینہ پہلی بات تو یہ کہ یہ میرا آفس ہے نہ کہ آپ کا گھر جو آپ یونہی منہ اٹھا کر آ سکتی ہیں دوسری بات یہ کہ میں آپ کو ہرگز اتنا بے تکلف ہونے کی اجازت نہیں دوں گا کہ آپ مجھے ایسے بولائیں اور تیسری اور آخری بات یہ کہ جو آپ نے سنا وہ بالکل سچ ہے کہ آپ کے فوٹوشوٹ کے پروجیکٹ کو مس حورم ہی ہینڈل کریں گی
وہ اس کی طرف دیکھتے ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا تھا جبکہ اس کی اتنی بے عزتی سے وہ ضبط کر کے رہ گئی اسے صبح ہی نینا نے بتایا تھا کہ پروجیکٹ کو شاہ نہیں کوئی اور ہیڈ کرے گا
ٹھیک ہے لیکن میں دو سال سے تمھیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کے میں تم سے پیار کرتی۔۔۔۔
وہ اپنی بات پوری کرتی کہ وہ درشت لہجے میں اسے ٹوک گیا
Shut up، just shut up
غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں اس کی دھاڑ پر تو وہ بھی سہم گئی تھی وہ اس کی جانب آیا اور انگلی اٹھا کر گویا ہوا
تم شاید بھول رہی ہو کے آج تم اس مشہور کمپنی کی ماڈل کے طور پر میرے آفس میں کھڑی ہو تو صرف اور صرف فرزام کی وجہ سے اگر اس نے مجھے نا روکا ہوتا نہ تو کب کا تمہیں نکال چکا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔کیا کروں جان سے عزیز دوست ہے اس کی بات ٹال نہیں سکتا اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ کیا اہمیت ہے میری نظر میں تمھاری صرف میرے دوست کی خواہش اتنی عزیز ہے مجھے کہ تمھیں ابھی تک رکھا ہوا ہے
وہ چبا چبا کر استہزایہ انداز میں بولا اور اس کا چہرہ مارے اہانت سے سرخ ہو گیا
تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے
لیکن افسوس میں ایسا کر چکا ہوں اور اب تم خود ہی شرافت سے جا سکتی ہو میں کوئی مزید تماشہ نہیں چاہتا
وہ بولتے کرسی پر بیٹھ گیا
اور وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی باہر نکل گئی اس کی آج تک اتنی بےعزتی کسی نے نہیں کی تھی وہ خوبصورت تو بہت تھی لیکن افسوس وہ بہرام شاہ پر دل ہار چکی تھی لیکن وہ اسے ایسے تو جانے نہیں جانے دے سکتی تھی
اس کے جانے کے بعد اس نے ایک گلاس پانی پیا اور خود کو ریلیکس کرنا چاہا کہ تبھی اس کا فون بجا حیدر کی کال تھی اس نے اٹھا لی اور جو خبر اسی دی گئی پہلے تو وہ حیران ہوا لیکن پھر ایک پراسرار مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کیا وہ فون بند کر کے سر کو پیچھے ٹکا کر سکون سے آنکھیں موند گیا
اب مزہ آئے گا
کہ تبھی اسے حورم کا اس کا ہاتھ پکڑنا یاد آیا وہ آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا جو حورم نے پکڑا تھا پہلی بار زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے ایسے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا ایک عجیب سا احساس اسے گھیرے ہوا تھا کہ وہ جلدی سے اس حصار سے نکلا
نہیں یہ ٹھیک نہیں بالکل نہیں
وہ خود سے کہتا باہر نکلا اور سحر اور نینا کو لے کر سب سے اوپری منزل پر پہنچا جہاں ان کی کمپنی کے معروف و مشہور ڈیزائنر ڈریسز تھے ان کی کمپنی ملک کی اعلیٰ کمپنیوں میں سے ایک تھی جن کے ڈیزائنز کی اتنی ڈیمانڈ تھی اور جبکہ فرزام چودھری اور بہرام شاہ کے اکٹھے اشتراک سے یہ پچھلے چار سالوں میں کافی شہرت حاصل کر چکی تھی اور اب اسے ایک انٹرنیشنل کمپنی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا اور اب کراچی کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں ان کی کئی برانچز موجود تھیں جہاں کے مینیجر اور ہیڈز اچھے طریقے سے سب سنبھال رہے تھے
جبکہ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی میٹنگز میں جاتا رہتا
وہ اوپر پہنچ چکے تھے اور اب وہ ڈریسز کو دیکھ رہا تھا آج کے فنکشن کے حساب سے ہی اسے کچھ سیلیکٹ کرنا تھا
مجھے لیٹسٹ ڈیزائنز۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب ڈیزائنز چیک کرتا نینا سے کہہ رہا تھا کہ اس کی نظر سامنے بنے ڈیمو پر جا کر ٹھہر گئی وہ اسی جانب بڑھ گیا جب کہ سحر بھی اس کے ساتھ تھی
سر یہ لیٹسٹ ڈیزائن ہے اب تک کمپنی کا اور ابھی تک یہ مارکیٹ بھی نہیں پہنچا کیونکہ یہ ڈیزائن ابھی کل ہی تیار ہو کے آیا ہے
وہ سامنے ڈیمو کو دیکھ کر کہہ رہی تھی جہاں پر ایک انتہائی خوبصورت بلیک کلر کی ہی پرنسس گاؤن تھی جو کہ کافی گھیر دار بنی ہوئی تھی اور اس کی سب سے اوپر والی نیٹ کی ہی لئیر کو بہت دلکش انداز سے اوپر سے نیچے فولڈ کیا گیا تھا اور اس کے اوپری حصے پر خوبصورتی سے بلیک موتیوں سے کام ہوا تھا جو کہ گلے سے لیکر کندھوں تک مالا کی طرح بنے تھے اور وہاں سے بازؤں کے گرد بھی لڑی کی طرح نیٹ کے اوپر لپٹے ہوئے تھے جبکہ نچلے حصے کو بلیک نیٹ کے پھولوں سے کور کیا گیا تھا گو کہ وہ پہلی ہی نظر میں سب کو اپنی طرف متوجہ کرا سکتی تھی نینا اور سحر دونوں نے اس کی پسند کو سراہا اور وہ اس میں اس کو تصور کرتے مبہم سا مسکرایا تھا
وہ اچھی خاصی مہنگی گاؤن تھی اور وہ اسے اس لیٹسٹ ڈیزائن میں سب سے پہلے اسے دیکھنا چاہتا تھا نینا سے سیلیکٹ کرنے کا کہہ کر وہ جینٹس سائڈ پر آیا اور اس نے اپنے اور فرزام کے لیے سیم ہی بلیک پرنس کوٹ سلیکٹ کیے جس کی سائڈ پر بلیک ہی رنگ ہی ہلکی ہلکی کڑھائی ایک سائڈ پر ہوئی تھی جو کے روشنی پڑنے پر شائن کرتی اسے اپنے اور فرزام کے لیے یہی بیسٹ لگا اور ویسے بھی پارٹی کے لیے وہ تھیم بلیک ہی سلیکٹ کر چکے تھے
وہ نینا کو ڈلیور کرنے کا کہہ کر چلا گیا
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا جب آبش اس کے کمرے میں آئی
تم ابھی تک کام پر لگے ہوئے ہو؟
وہ اس کے پاس بیٹھتی بولی
یار کچھ زیادہ کام تھا وہی مکمل کرنے والا رہتا ہے
وہ ہنوز مصروف ہی تھا
کچھ دیر ہونہی خاموشی چھائی رہی جب وہ کچھ دیر تک نہ بولی تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی
آبش؟
ہمممم۔۔۔۔
کیا کوئی مسئلہ ہے؟
اس کی بات پر اس نے سر اٹھایا
مجھے کیا مسئلہ ہونا ہے کچھ بھی تو نہیں
تو پھر یوں منہ کیوں بنا ہوا ہے
وہ لیپ ٹاپ کو بند کرتے بولا
کچھ نہیں بس بھائی کی یاد آ رہی تھی
وہ روہانسی ہو کر بولی تو اس نے لمبا سانس کھینچا
کیا یار میں بھی کہوں کہ آبش کو کیا ہو گیا ہے اور ویسے بھی میری بھائی سے بات ہوئی تھی آئیں گے ملنے۔۔۔۔
کیا آئیں گے ملنے انہیں احساس بھی ہے کہ ان کی ایک چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی پے لیکن انہیں کیا
اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں
یار آبش
Don't be like a silly girl
تم جانتی ہو کہ ان کا کام کیسا ہے انہیں ٹائم نہیں ملتا یار
وہ اس کے آنسو صاف کرتے بولا وہ جیسا بھی تھا لیکن اپنے سے جڑے ہر رشتے کی پرواہ بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی اظہار کر بھی دیتا اور اس کی اس کے بھائی سے جتنی بھی ناراضگی ہوتی لیکن وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ آبش بھی ناراض ہو
میرا ایک ہی بڑا بھائی ہے جو بھابھی سے بھی نہیں ملنے دیتا اور مجھے میرے گولو کی بھی اتنی یاد آ رہی ہے اور ایک چھوٹا بھائی ہے جسے فرصت ہی نہیں اور نکاح کر کے بھول ہی گیا ہے ۔۔۔۔حورم سے کب ملوا رہے ہو
وہ اس کی طرف دیکھتے بولی گئی
ایک منٹ تم نہ یہ پانچ منٹ بڑی ہونے پر اتنی اترایا نہ کرو
وہ اسے گھورتے بولا جب کہ وہ ہنس دی آبش کو شروع سے ہی شوق تھا کہ اس کا بڑا بھائی اسے چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کرے جبکہ اپنے جڑوا بھائی سے وہ بڑی بہن کی طرح پیش آئے جو کہ اس سے صرف پانچ منٹ چھوٹا تھا
ہاہا اب بڑی ہوں تو بڑا ہی بنوں گی نہ اب چاہے پانچ منٹ ہی کیوں نہ ہوں
وہ ابھی بول رہی تھی کہ جب صارم بھی آ ٹپکا
یہ تم دونوں بہن بھائی اب میرے خلاف کونسا محاذ کھولنے کی تیاری کر رہے ہو
وہ خفگی سے گھورتے بولا
صارم کسی نے محاذ کیا کھولنے ہیں تم نے اپنے لیے تو خود کھولے ہوتے ہیں
وہ آنکھیں مٹکاتی بولی
تم دونوں بہن بھائی سچ میں جڑواں ہی لگتے ہو مجال ہے کبھی میری سائڈ کسی نے دی ہو اور تم کب جا رہی ہو اسلامآباد
وہ آخر پر آبش کو دیکھتے بولا
میں جب مرضی جاؤں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں
وہ اترا کر بولی تو اسے بھی تپ چڑھ گئی
میر دیکھ لو۔۔۔۔پھر تم نے مجھے ہی باتیں سنانی ہیں کہ میں ایسے کرتا ہوں اسے خود ذرا خیال نہیں کہ ایک ہی کزن پاس ہوتا اس کی ہی تھوڑی عزت افزائی کر لوں اور میں تو دعا کرتا ہوں کہ ہسپتال والے یہ جو کبھی کبھار اسلام آباد ڈیوٹی کے لیے تمہیں بلاتے ہیں نہ کاش تمھاری جاب وہاں ہی شفٹ کر دیں
وہ چڑ کر بولا جب وہ دونوں ہنس دیے یہی تو ایک تھا جس سے آبش سارا دن لڑتی رہتی
چلو تم اپنی شان میں قصیدے پڑھتے رہو میں ذرا آنٹی کی ہیلپ کرا لوں
وہ کہتی کھڑی ہو گئی
مام کو کہنا کہ تمھیں ذرا کم بولنے والی دوائی دے دیں
وہ اٹھ کر اس کی جگہ پر بیٹھ گیا جبکہ وہ سر جھٹک کر چلے گئی اگر اس سے لڑتی تو یہ لڑائی کبھی ختم ہی نہیں ہونی تھی
شام کا وقت ہو رہا تھا وہ اپنے کمرے میں آئی اور شاور لینے کے بعد باہر آئی ٹاول سے بالوں کو آزاد کرتے ہوئے اس کی نظر سامنے ہینگ ہوئی نیٹ کی پرنسس گاؤن پر پڑی جو یقیناً ملازمہ اس کے شاور لینے کے دوران ہینگ کر گئی تھی وہ بغور اس کا جائزہ لے رہی تھی وہ واقعی بہت قیمتی اور انتہائی خوبصورت تھی جو کہ فل بلیک میں ہی تھی اور بلیک موتیوں سے ہی اس پر کام ہوا تھا فرزام اسے بتا چکا تھا کہ آج ان دونوں کے ڈریسز بہرام شاہ نے ہی سلیکٹ کر کے بھیجنے تھے خیر وہ اسے لے کر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی اور تھوڑی دیر باہر آئی تو وہ خود بھی حیران تھی
وہ اس پر وقعی ہی بہت جچ رہی تھی گاؤن کے سلیوز فل تھے جس پر بلیک موتیوں کی لڑیاں نیٹ کے اردگرد لپٹی تھیں جبکہ گلے پر بھی موتیوں کا کام ہوا تھا جو جو کہ فل بین والا تھا جبکہ نیچے سے وہ بلیک نیٹ کے پھولوں سے بہت خوبصورتی سے بنائی گئی تھی
پسند تو جناب کی بہت اعلیٰ ہے ویسے تو
نہ جانے اسے بلیک کلر اتنا پسند کیوں تھا کیا راز تھا اس کے پیچھے
وہ خود سے بولتی تیار ہونے لگی اسے ویسے بھی کسی بیوٹیشن کی ضرورت تو ہے نہیں تھی کیونکہ وہ اپنی سکن اور ہیلتھ کو لے کر بہت کانشیس تھی وہ ڈریسنگ کے سامنے آ کر اس نے بالکل ہلکا سا میک اپ کیا تھا اور لائنر لگا کر پہلے سے ہی گھنیری اور لمبی پلکوں کو مزید مسکارے کی مدد سے نمایاں کیا اور اس پر اس نے روز ریڈ رنگ کی لپ سٹک کی مدد سے ہونٹوں کو مزید آتشہ کیا جو اس کی سفید رنگت پر مزید پر کشش بنا رہے تھے
اس سب سے انجان اس نے اپنے بالوں کو سمیٹا اور دو حصوں میں کیا اوپر والے بالوں کو نیچے سے رف سا کیا اور انہیں پن اپ کرنے کے بعد اوپر والے بالوں سے سموتھ کیا اور باقی بالوں کا ڈھیلا سا میسی جوڑا بنایا اور بلیک ہائی ہیل منتخب کی گو کہ وہ ہیل کچھ زیادہ ہی نازک تھی لیکن اسے اس گاؤن کے نیچے وہی صحیح لگی جیولری کے نام پر اس نے صرف بلیک ڈائمنڈ کے ائیر رنگس پہنے جبکہ نیلی نوزپن اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی جبکہ نیکلس بھی گاؤن کے گلے کے نیچے چھپا ہوا تھا بریسلٹ یا واچ پہننے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سلیوز فل تھے
کہ اسی اثنا میں سحر اور نینا اجازت لے کر اندر آئیں
Hello ladies
وہ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے بولی
Mam، you really look like a princess۔۔۔۔۔
وہ دونوں اسےآنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھ رہی تھیں کہ آج تو وہ واقعی ہی قیامت ڈھا رہی تھی
میم سر فرزام نے آپ کو لانے کے لیے کہا تھا
وہ پرفیوم سپرے کرتی خود پر تنقیدی جائزہ لیتی وہ انہیں ساتھ لیتی باہر نکل گئی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی نیچے سے آوازیں آ رہی تھیں مطلب کے سارے گیسٹس آ چکے تھے اس نے ابھی سیڑھیوں پر قدم رکھا تھا کہ ساری لائٹس آف ہو گئیں
فرزام نے ارینجمنٹ بہت ہی اچھی کروائی تھی
گیٹ سے اینٹر ہوتے ہی راہداری کی اطراف کو برقی قمقوں سے روشن کیا گیا تھا اور سائڈوں پر لائٹس پول سے کور کیا گیا تھا جبکہ باغیچوں کو سٹرنگ لائٹس سے سجایا گیا ہوا تھا
وہ تیار ہو کر آ چکا تھا اس نے اپنی گاڑی پورچ میں لا کر کھڑی کی جبکہ باقی سب کی پارکنگ باہر ہی تھی وہ گاڑی سے باہر نکلا اور اندر کی جانب بڑھ گیا پورا لاؤنج روشنی میں نہایا ہوا تھا کہ جب وہ داخل ہوا سب کی نظریں اس کی طرف اٹھی تھیں آج اس کی مردانہ وجاہت سب پر بجلیاں گرا رہی تھی اور ان میں علینہ بھی تھی جسے اسے پانے کی تمنا پھر سے عود کر آئی تھی وہ ایک شان سے چلتا ہوا فرزام کی جانب بڑھ گیا جو یقینا نینا اور سحر کو کچھ کہہ رہا تھا
Hello buddy
فرزام نے اسے آتے دیکھ کر بات ادھوری چھوڑ کر اس سے ملا اور بغل گیر ہوا لگ تو فرزام بھی کسی سے کم نہیں رہا تھا جہاں پر فرزام اپنی پولائٹ نیچر سے دل جیت لیتا وہاں ہی وہ اپنی سٹینڈ اپ ٹیمپرامنٹ سے اپنی طرف متوجہ کر لیتا اسی وجہ سے تو بزنس کو ان دونوں نے اپنی اپنی نیچر سے مزید بڑھایا
سنا یار کیسا ہے اور اتنی دیر
فنکشن کے چیف گیسٹ کو آنے میں دیر تو ہو ہی جاتی ہے پھر
وہ مسکراتے آس پاس دیکھ کر کہنے لگا اس کی بات کا مطلب سمجھتے وہ کھل کر ہنسا
شاہ صاحب بعض آ جائیں آگے ہی بڑی دنیا کو آپ نے ابھی تک نظر کرم بھی نہیں بخشا
وہ اس سے کہہ رہا تھا اور نینا اور سحر کو حورم کو لانے کے لیے وہ مہمانوں کی طرف بڑھ گئے یہ ایک بزنس پارٹی تھی جس میں اور بزنس مین ان کے پارٹنرز ان کے کلائنٹس بھی شامل تھے تھوڑی دیر بعد چوہدری حماد اور چوہدری حمدان صاحب بھی اپنی اپنی بیگمات کے ہمراہ آ چکی تھے ایسے کی بزنس پارٹیز وہ پہلے بھی اٹینڈ کر چکے تھے لیکن یہ فرزام نے خاص کر حورم کے لیے رکھی تھی حماد اور حمدان صاحب دوپہر کو ہی واپس آ چکے تھے
فرزام اسے لے کر اپنے والدین کی طرف بڑھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد حورم سیڑھیوں سے اترتی نظر آئی تو ساری لائٹس آف کی جا چکی تھیں اور ایک سپاٹ لائٹ اس پر تھی وہ پر وقار طریقے سے پر اعتماد ہو کر نیچے آئی اور آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہی لائٹس آن ہوئیں اور فرزام اس کی طرف بڑھا
اگر یہ دو سال پہلے کی بات ہوتی تو شاید وہ نروس بھی ہوتی لیکن ان دو سالوں میں اس نے خود کو پہچانا تھا سب سے الگ لیکن اب دو سال بعد وہ بدل رہی تھی وہ دوبارہ سے خوش رہنے لگی تھی
اس نے فرزام کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو ہر طرف تالیوں کا شور اٹھا
بھائی کی جان بہت پیاری لگ رہی ہو
وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے آگے بڑھا
اور اس کے بعد اس نے سب سے تعارف کروایا اور اپنی جگہ پر اس کے ہونے کیاناؤسمنٹ کی
فرحت بیگم نے اس کا تعارف اپنے جاننے والوں سے کروایا
شاہ مسز احمد کے ساتھ کھڑا تھا کہ وہ فرزام حورم کو لے کر ان کی جانب بڑھا
اس کی پسند کے ڈریس میں اسے کوئی گڑیا ہی لگ رہی تھی اپنے بھائی کے ساتھ اور شاید یقین کر بھی لیتا گڑیا کا اگر اس دن اس کا وہ روپ نہ دیکھ لیتا
سلام دعا کے بعد وہ مسز احمد سے میٹنگ کے بارے میں پوچھ رہا تھا جبکہ حورم نے ایک بار بھی اس کی طرف نہ دیکھا تھا وہ بات کر رہے تھے کہ مسز احمد بولیں کہ شاہ نے شیرازی کے ساتھ ڈیل کینسل کر دی ہے حالانکہ اس میں فائدہ بھی ان کا ہی تھا جب وہ خود بولا
مجھے اس کے کام سے کوئی سیٹسفیکشن نہیں ہوئی اسی لیے کینسل کر دی
جبکہ حورم کو پتہ لگ چکا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا جب فرزام بولا
سو مسز احمد جب شاہ منع کر چکا ہے تو میرا بھی یہی فیصلہ ہے
وہ بات کر رہے تھے جب حورم فرزام سے کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گئی اسے ویسے بھی اتنے لوگ پسند نہیں تھے اور اس کی برتھڈے پارٹیز تو ایسے کی ہوتیں لیکن اب وہ زیادہ رش سے کتراتی
بہرام نے اس کا جانا نوٹ کیا لیکن وہ فرزام کے ساتھ باقی سب سے ملنے کے لیے آگے بڑھ گیا
علینہ جسے فرزام نے بلایا تو تھا لیکن اس کی نظر بہرام سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی اور وہ اس کی نظریں حورم کی طرف نوٹ کر چکی تھی اور حسد کی انتہا پر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے نکل کر اپنے باغیچے کی جانب آ گئی جہاں روشنیوں کا الگ ہی سماں تھا چاروں طرف ایل ای ڈی لائٹس سے روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ اندر داخل ہوئی اور ہر طرف نظریں دوڑانے لگی وہ آسٹریا کے درخت کے پاس کھڑی تھی
جب وہ اس طرف آیا تو وہ آنکھیں بند کر کے کھڑی تھی وہ آس پاس سے اتنی بے خبر تھی کہ اسے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی تھی
وہ پوری طرح محو ہو کر اسے دیکھ رہا تھا بالوں کا خوبصورتی سے میسی جوڑا بنا ہوا تھا جس میں سے دو تین لٹیں نکل کر اس کے چہرے کے اطراف پر بکھری تھیں اور جھیل سی گہری آنکھیں اس وقت بند تھیں اور اوپر سے تضاد سرخ رنگ کے ہونٹ اس کے حسن کو مزید دو آتشہ بنا رہے تھے
نظرکو نظر کی نظر نہ لگے،،، کوئی اچھا بھی اس قدر نہ لگے
تجھے دیکھا ہے بس اس نظر سے جس نظر سے ،تجھے نظر نہ لگے
وہ اسے دیکھ رہا تھا جب ہوا کا جھونکا آیا اس نے دیکھا اس کے لب مسکرائے تھے پھولوں کی خوشبو چار سو پھیلنے لگی اور درخت کی ٹہنیاں ہوا سے ہلتے ہوئے ایک عجیب ہی سر بکھیر رہی تھیں وہ ہونہی ہلکا سا گھومی اور تھوڑا آگے بڑھی تو اس سے ٹکڑا گئی اس نے سرعت سے آنکھیں کھولیں تو اس کے چہرے سے ٹکرائیں جو سکون سے ویسے ہی کھڑا تھا لیکن اس کے دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی جبکہ وہ جو اس کے ٹکرانے پر ہوش میں آئی پیچھے ہٹی
وہ سوری پتہ نہیں چلا
اس کی طرف دیکھتے نارمل بولی لیکن وہ اس کی طرف جھکا اور اس کے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا
آپ ٹکرا کے معذرت نہ کریں
پھول لگنے سے کچھ نہیں ہوتا
اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور کھول کر اس کی طرف دیکھا جو فل بلیک میں کالے بالوں کالی ہلکی ہلکی بئیرڈ اور کالی ساحر آنکھوں سمیت اس کے دل کی دنیا کو اتھل پتھل کر گیا تھوڑی دیر بعد وہ بولی
آپ نے مسٹر شیرازی سے ڈیل کیوں کینسل کی
میری مرضی میں نے کر دی آپ اس کی فکر نہ ہی کریں
وہ کندھے اچکا کر بولا
لیکن مجھے فکر کرنی چاہیے اور میں وہ ڈیل کینسل نہیں ہونے دوں گی
وہ اس کی طرف دیکھتے بولی تو وہ اس کے قریب آیا
تم کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ ڈیل کینسل کرنے کے لیے ایک اونر ہی کافی ہے لیکن ڈن کرنے کے لیے دونوں
وہ اس کے قریب کھڑا بول رہا تھا جبکہ وہ اس کی سحرزدہ شخصیت کی زد میں تھی
یہ آپ کی بھول ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتی
وہ ایسے ہی ٹرانس کی کیفیت میں بولی تو وہ حیران ہوا
اچھا تو آپ کیا کر سکتی ہیں
وہ اس کے مزید قریب ہوا اور آنکھوں میں جھانک کر بولا
مجھے فکر ہے کہ بعد میں آپ کو پچھتاوا نہ آن گھیرے
پچھتاوے تو زندگی کا حصہ ہی ہوتے ہیں ان کا کیا ہے آپ اپنی بتائیں کیا کر سکتی ہیں
اس کی بات پر وہ مسکرائی اور اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے آنکھیں بند کر کے تھوڑا سا آگے بڑھ کر نرمی سے اس کے ہونٹ کو اوپر تل کو چوم لیا ہوا نے درخت کی شاخوں کو ہلایا تو پتوں کی ہلکی سی بارش نے مزید فسوں بکھیرا تھا
تیرے حسن نے______یہ راز کھولا ہے
صنم حسین ہو تو نیت بدل ہی جاتی ہے
وہ جو اس کی ہر حرکت کو بغور دیکھ رہا تھا اس کی اس حرکت پر اس کے دل کی رفتار تھمی تھی اسے ہر چیز کی امید تھی لیکن اس کی نہیں وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا رہ گیا اس نے اسے دیکھا جو ہنوز مسکرا رہی تھی اسے اس کی دماغی حالت پر شبہ سا ہوا
اب دیکھتے ہیں کون پچھتاتا ہے
وہ کہہ کر جانے لگی کہ اس نے پیچھے سے اسے بازو سے پکڑا اور پیچھے سے ہی اس کے کان میں کہا
مجھ سے دور رہو حورم چودھری میں بہت خطرناک ہوں
اس
کی بات پر وہ مسکرائی اور اس کی طرف ہلکا سا چہرہ موڑا
کیا ہوا ابھی سے پچھتانے لگ گئے اور یہ میرا مسئلہ نہیں ہے کہ آپ کتنے خطرناک ہیں
اور اس کے کان کے پاس بولی
ہو نہ جائے حسن کی شان میں گستاخی
تم چلے جاؤ کہ تمہیں دیکھ کر پیار آتا ہے
وہ مسکراتے اس کے شعر کا جواب دیتے سکون سے اپنا بازو چھڑا کر جا چکی تھی لیکن اس کے سکون کو درہم برہم کر گئی اس نے ریلیکس ہونے کے لیے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا وہ اسے چڑانے کے لیے آیا تھا لیکن وہ تو اس پر ہی الٹا وار کر چکی تھی اس نے آنکھیں بند کر کے گہری سانس لی اور تل پر ہاتھ رکھا جہاں اس کے ہونٹوں کی نرماہٹ کو وہ ابھی بھی محسوس کر سکتا تھا
نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے یہ لڑکی مجھے پاگل کر دے گی
کر کے ہم نے عشق
خود کو بڑا ستانا ہے
اگلی صبح وہ اپنے آفس موجود تھی رات میں کی گئی بے اختیاری کا اندازہ اسے اب ہو رہا تھا وہاں سے جانے کے بعد فرزام سے کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور وقتی طور پر ہر سوچ کو جھٹک دیا آج آفس میں اس نے نینا سے نئے ڈیزائینز منگوائے اس نے جائزہ لے کر جہاں کچھ مس فٹ لگا وہاں سے تصحیح کر کے دوبارہ ڈیزائنز بنوانے کا کہا ابھی تک بہرام شاہ سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی
اس نے رات کو نینا سے شیرازی سے ڈیل دوبارہ کرنے کو کہا تھا کہ وہ پھر سے منع کر چکا تھا وہ کچھ سوچتے ہوئے اس کے آفس کی جانب بڑھ گئی
دوسری طرف وہ اپنے آفس میں بیٹھا ونٹر کلیکشن کی ڈیٹیلز دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی کل والی میٹنگ کا کنٹریکٹ تھا اور علینہ کا فوٹوشوٹ بھی بیچ میں تھا
وہ اس سال کی سیلز پر نظر دوڑا رہا تھا جب وہ نینا کے ساتھ اندر داخل ہوئی آج چہرہ کل کی نسبت سنجیدہ تھا
اس کے آتے ہی سحر سامنے سے اٹھی اور نینا کے ساتھ کھڑی ہو گئی
مسٹر بہرام شاہ مجھے شیرازی کی ڈیل کی تفصیلات چاہیے
وہ اس کی طرف دیکھتے بولی
لیکن کیوں
یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے
وہ زور دے کر بولی
لیکن شاید بدقسمتی سے آپ کے ساتھ اس کمپنی کا میں پارٹنر ہوں
تو ٹھیک ہے اگر آپ شیرازی کے ساتھ ڈیل نہیں کریں گے تو مسز احمد کے ساتھ بھی آپ کی ڈیل کینسل
وہ دوبدو بولی
میں ایسا نہیں کروں گا
وہ سکون سے ٹیک لگا کر بولا تو اسے بھی تپ چڑھ گئی لیکن اس کی نظر سامنے کنٹریکٹ پر پڑی جس پر بڑا کر کے احمد سنز کپمنی لکھا تھا
تو ٹھیک ہے آپ کچھ نہ کریں
اس نے آرام سے کاغذات پکڑے وہ تھوڑا حیران ہوا لیکن اس کی اگلی حرکت نے نینا اور سحر کے ساتھ ساتھ اسے بھی حیران کر دیا
اس نے سکون سے ان کاغذات کے دو ٹکڑے کر دیے جس کے ساتھ ساتھ علینہ کے فوٹوشوٹ کی تصویریں بھی دو حصوں میں بٹ چکیں تھیں اس نے اس کے سامنے میز پر رکھ دیے جو ابھی تک منہ کھولے دیکھ رہا تھا اسے اس کی حالت کافی مزہ دے رہی تھی
رات کو تو بڑا بن رہا تھا کہ میں کچھ نہیں کر سکتی
وہ سوچ کر زیر لب مسکرائی
نینا اور سحر تو خود اس کروڑوں کی ڈیل کو ٹکڑوں میں دیکھ کر حیران کبھی حورم کو دیکھتیں تو کبھی بہرام کو
لو نینا پہلے تو وہ ویسے ہی نہیں بیٹھتی تھی اب اسے اپنی تصویروں کی حالت کا پتہ چل گیا نہ جل ہی جائے گی
سحر اس کے کان پر بولی
بہرام نے ان دونوں کو باہر جانے کا کہا
اور اپنی آنکھیں بند کر کے دوبارہ سے کھول کر دیکھا جیسے یقین کر رہا ہو کے اس نے جو کیا ہے وہ سچ میں کیا ہے
اور اس کی طرف نظر اٹھائی جو مسلسل مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اس کے ساتھ ابھی تک نہ جانے کیا کر چکا ہوتا
وہ اس کے سارے تاثرات دیکھ رہی تھی
تم کو الجھا کر کچھ سوالوں میں
میں نے تمھیں جی بڑھ کر دیکھ لیا
کیا ہوا مسٹر بہرام شاہ یقین نہیں آ رہا کہ آپ کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے کیا کہا تھا کہ میں کچھ نہیں کر سکتی اب بھی پچھتاوا نہیں ہو رہا
وہ مزے سے بولی
تم جانتی ہو تم نے کیا کیا ہے تم کنٹریکٹ کو پھاڑا ہی ہے ساتھ ساتھ مس علینہ کے فوٹوشوٹ کو بھی پھاڑ ڈالا اور اوپر سے ونٹر کلیکشن کے فوٹوشوٹ کا وقت بھی آ چکا ہے
اس نے بہت ضبط کر کے بولا تھا جبکہ وہ کھڑی ہو گئی
تو آپ نے ہی کہا تھا نہ کے یہ میرا مسئلہ نہیں تو پھر میرا مسئلہ نہیں ہے یہ
وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ اچھالتی کھڑی ہوئی جب اس نے سارے ٹکڑے نیچے پھینک دیے
کل سے اب تک جو ہو گیا تھا وہ وسقعی ہی پچھتا رہا تھا
اسے دکھ ڈیل کا نہیں بلکہ فوٹوشوٹ کا تھا جسے وہ ساتھ ہی تباہ کر گئی اور وہ تو دوبارہ علینہ کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا گو کہ اس کو فوٹوشوٹ کے لیے دوبارہ کہتا
وہ اس کے سامنے آیا
تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو؟
میں تو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتی ہاں البتہ آپ ضرور اپنے آپ کو جانی سوساگ سمجھتے ہیں
وہ مزے سے اس کے اس دن گنڈوں والی بات پر چوٹ کر گئی جبکہ وہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے
تم۔۔۔۔۔تم نے مجھے کونسے جرم کرتے دیکھا ہے جو جان باربٹو سے ملا رہی ہو اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے ویسے لائک آ سینتھیا راتھراک ۔۔۔۔۔
اس کی بات پر اس نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا
آپ مجھے اس لمبے منہ والی کٹے بالوں والی چڑیل سے ملا رہے ہیں آپ
اسے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ کیا اسے کہا
اوہ میں تو تمہاری تعریف کی ہے کہ تم اس کی طرح ہی مارشل آرٹ میں ٹرینڈ ہو اور اس کی شکل کے ساتھ تو تم اپنے آپ کو ملا رہی ہو ویسے لگتی نہیں کہ اتنی اچھی دھلائی کر سکتی ہو کسی کی جتنی نازک ہو
وہ مزے سے زیر لب مسکراتے بولا اب اس کی حالت اسے مزہ دے رہی تھی
اور یہ نازک سی مارشل آرٹ میں ٹرینڈ آپ کی بھی دھلائی بھی کر سکتی ہے
وہ اس کے سامنے آتے بولی
او بس میری شیرنی یہ آفس ہے کیا ہو گیا ہے
وہ اس کے بالوں کی لٹ کو پیچھے اڑستے بولا
اس کے الفاظ اور حرکت پر وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے اسے گھورتی باہر نکل گئی
پیچھے وہ کھل کر مسکرایا
ہائے میری شیرنی
کچھ سوچتے ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا
حورم چودھری اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ مجھ سے الجھنا کیا ہوتا ہے
اس نے فون اٹھایا اور فرزام کو ملایا
ہیلو
دوسری طرف سے فرزام بولا
آ ۔۔۔۔فرزام اس سال کی جو ونٹر کلیکشن کا فوٹوشوٹ ہے اس میں میں نے چینجنگ کی ہیں اور مس علینہ اسے نہیں کریں گی
لیکن یار کیوں
کیونکہ میں اسے کل کا ہی فائر کر چکا ہوں
مجھے پتہ تھا کہ جب میں ہٹوں گا تو تو سب سے پہلا کام یہی کرے گا ٹھیک ہے لیکن پھر کون کرے گا کیونکہ میرے خیال سے ونٹر کلیکشن کی سیل کا وقت آ ہی گیا ہے اور اس سے پہلے ہو جانا چاہیے
میں اور حورم کریں گے
کیاااااا
وہ جتنے سکون سے بولا تھا اتنا ہی وہ حیران ہوا
جو تم نے سنا وہی
لیکن شاہ وہ کبھی نہیں مانے گی
تجھے مجھ پر یقین نہیں
یار شاہ تحھ پر ہے لیکن حورم نہیں مانے گی
تو یہ مجھ پر چھوڑ دے
وہ فون رکھ کر مسکرا دیا
نظروں کا کھیل تو بچے کھیلتے ہیں
صاحب
ہم تو سیدها دل پہ وار کرتے ہیں
اس نے اپنے آفس آ کر سارہ کو کال ملائی کچھ دن پہلے اس سے بات ہوئی تو وہ گھر پر نہیں تھی لیکن کل کی وہ آچکی تھی واپس اور اس نے اسے فون کر کے ایک ریسٹورنٹ میں ملنے کا بولا
تھوڑی دیر بعد وہ اس کے سامنے تھی
انہوں نے کچھ آرڈر کیا وہ فون پر ہر بات اس سے شئیر کیا کرتی تھی اور اب بھی ساری صورتحال اسے معلوم تھی
مطلب رئیلی تم وہ کنٹریکٹ پھاڑ ہی آئی
تو اور میں کیا کرتی وہ خود پنگے لے رہا تھا
تو تم بھی حساب برابر کر ہی آئی ویسے حورم مجھے دو سال بعد تم بدلی بدلی لگ رہی ہو
مطلب
اس کی طرف دیکھتے پوچھا
مطلب یہ کہ جیسے پہلے تم باتیں کرتی اب بھی ویسے ہی باتیں کرنے لگ گئی ہو جبکہ بیچ میں دو سال تم کافی چپ چپ تھی
یار پتہ نہیں لیکن مجھے اب سب کچھ دوبارہ سے اچھا لگنے لگا ہے
اور تمہارا نکاح
اس کی بات پر اس نے لب بھینچے
پلیز میں ابھی اور کسی ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتی
وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوئی
وہ فرزام سے بات کرنے کے بعد ریلیکس ہوا تھا کہ حورم کو اب بتائے گا کہ وہ کیا کر کے گئی تھی
تھوڑی دیر بعد حیدر اس کے آفس میں تھا اور اس کے ہاتھ میں کچھ تصویریں تھیں جو اس نے شاہ کی طرف بڑھائیں جسے دیکھنے کے بعد وہ سیدھا ہوا
واہ یہ تو کمال ہو گیا
وہ انہیں رکھتے بولا
شاہ وہ واپس آ چکا ہے تو اور دیکھ کر یار اس سب سے فرزام اور اس کی فیملی پر کیا اثر پڑے گا
حیدر سنجیدہ تھا
جانتا ہوں حورم کو جب پتہ چلے گا اور فرزام شاید وہ کبھی دیکھنا بھی پسند نہ کرے میں اسے دکھ تو نہیں دینا چاہتا لیکن اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے نہ
وہ پیپر ویٹ کو گمھاتے بولا
اور ارحم بھائی ؟جب انہیں پتہ چلے گا تو
انہیں کوئی نہیں بتائے گا اور میں نہیں چاہتا یہ بات انہیں پتہ بھی چلے آگے ہی وہ خفا ہیں اور ایک ہی تو بھائی ہیں کتنے دیر سے ملاقات بھی نہیں ہوئی
وہ باہر دیکھتے بول
ا
بہرام۔۔۔۔۔
حیدر نے اسے بلایا
ہمممم۔۔۔۔
وہ ابھی بھی باہر ہی دیکھ رہا تھا
کیا تو حورم کو اور کوئی دکھ دے سکتا ہے
شاید نہیں یا یقیناً ہاں
وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا
اور حیدر اسے دیکھ کر رہ گیا
ایک بہت بڑے کمرے کا منظر تھا جہاں ہر طرف ابدھیرا تھا اور وہ آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا جب اس کا خاص وفادار آدمی جنید اس کے پاس آیا
پاشا صاحب
کیا خبر ہے؟
صاحب وہ کل کا مال پہنچ چکا ہے اور اس کی ادائیگی بھی ہو چکی ہے جبکہ اگلا مال اگلے ہفتے پہنچے گا
اس نے فقط ہاں میں سر ہلایا اور وہ باہر نکل گیا
پاشا۔۔۔۔۔ انڈرورلڈ کی دنیا میں ایک نام جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا تھا اور سب کام ایسے کرتا کہ کسی کو بھی خبر نہ ہونے دیتا
ڈرگز اور اسلحے کی اسمگلنگ کے ذریعے وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا لیکن ہر کسی کا وقت آتا ہے اور اس کا بھی وقت قریب ہی تھا
شام کا ٹائم تھا ڈائینگ ٹیبل پر صارم بیٹھا ہوا تھا جب وہ بھی اس کے ساتھ والی کرسی کو کھینچ کر بیٹھ گیا
یار میر ویسے آبش جب جاتی ہے کتنا سکون ہو جاتا ہے نہ
صارم میری بہن ہے مت بھول
یار کبھی کبھار تو وہ نہیں ہوتی ابھی بھی ایک ہفتے کے لیے گئی ہوئی ہے کیا ہے جو تو میری سائڈ پر ہو جا
وہ ابھی کچھ اور کہتا کہ خرم صاحب آ چکے تھے
سنائیں برخودار کیا ہو رہا ہے اور صارم آج تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی نہیں چل رہی
ہاں زبان بند کرنے والی نہیں ہے نہ آج
انہیں نے طنز کیا جب کہ وہ بھی کھل کر ہنسا جبکہ اس کا منہ بن گیا
کیا پاپا آپ بھی یہاں تو کوئی میرا سگا ہے ہی نہیں
وہ مصنوعی خفگی سے بول کر اٹھ کر جانے لگا تو اس نے پکڑ کر اسے بٹھایا
اب بس کر پتہ ہے تیرے سارے ڈرامے مجھے بھی اور چاچو کو بھی
اس کی بات پر وہ مسکرا دیا
اور آپ بھی ذرا اپنی فرمائیں بات ہوئی تھی میری مصطفیٰ اور امل سے آرہے ہیں وہ اور اپنی رخصتی کی تیاری بھی پکڑیں بس
وہ کھانا کھاتے بولے جب اسے بڑی طرح پانی کا اچھو لگا اور بڑی طرح کھانسنے لگا صارم نے اسے پانی دیا اور اس کے کان میں کہا
اب آیا نا اونٹ پہار کے نیچے
اسے اب اس کی حالت مزہ دے رہی تھی
چاچو اتنی جلدی کیا ہے؟
کہ تب ہی سمائرہ بیگم بھی ملازمہ کو ہدایت دیتے وہاں آ گئیں
آپ بھی خوب کرتے ہیں بچوں کو کھانا تو کھانے دیتے اور تم
یہ جلدی ہے بھئی اب دو سال ہو گئے ہیں نکاح کو اب رخصتی تو ہونی ہی چاہیے
وہ خرم صاحب اور اس سے اکٹھے ہی بولتیں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں تو وہ کندھے اچکا کر رہ گیا
باقی کا کھانا بھی ایسے ہی خوشگور ماحول میں کھایا گیا