ہر طرف ایک نئی صبح روشن ہو چکی تھی اور صبح کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے آسمان پر چمک رہا تھا جو کہ بہت سوں کے لیے ایک امید کی کرن لایا تھا کہ کیا پتہ آج کا دن ان کے لیے خوشی کی نوید لائے جبکہ بہت سوں کے لیے اداسی کی چادر لایا تھا جسے پہن کر ایک اور دن مسکرانا تھا کہیں کسی کی زندگی کو تاریکی سے نکال رہا تھا تو کہیں کسی کی زندگی کو اندھیرے میں دھکیل رہا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ روشنی میں جون جاتا ہے اور اندھیرے میں کون۔۔۔۔۔
اس کی آنکھ ہمیشہ کی طرح اپنے وقت پر کھلی وہ کمفرٹر ہٹاتا اٹھ بیٹھا اور آدھے گھنٹے بعد وہ نزدیک ہی پارک میں ٹریکنگ سوٹ پہنے جاگنگ میں مصروف تھا
یہ اس کا روز کا معمول ہوتا اور سوئمنگ اور ایکسرسائز زیادہ تر وہ رات کے وقت کرتا
اسے ٹریک پر دوڑتے کافی دیر ہو گئی تھی جب اس کے کانوں میں حیدر کی آواز گونجی
"تو اس کھیل میں جیت کر بھی بری طرح ہار جائے گا اور سب کھو دے گا"
وہ نزدیک ہی بینچ پر بیٹھ گیا اور سر پیچھے ٹکا کر آنکھیں موند گیا تو اسے اس کی معصوم شکل دکھائی دی
"کیا میں غلط کر رہا ہوں؟"
اس نے خود سے ہی سوال کیا
"میں اس انسان کی محبت اس سے چھین لوں گا چاہے اب حورم کو ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے اس میں لیکن میری زندگی کا مقصد صرف اسے برباد کرنا ہے"
وہ ہر ان سوچوں کو جھٹکتا اٹھ بیٹھا اور تھوڑی دیر بعد گھر پہنچ چکا تھا
شاور لینے کے بعد وہ باہر نکلا آج ایک میٹنگ بھی تھی
اسی لیے اس نے بلیو کلر کا پینٹ کوٹ نکالا اور اس کے ساتھ لائٹ پنک ڈریس شرٹ نکال کر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا شو ریک سے شوز نکالے اور بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے رولیکس کی گھڑی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر پہنی اور پرفیوم سپرے کرتا آفس کے لیے روانہ ہو چکا تھا
وہ صبح تقریباً پونے چھ بجے اٹھ چکی تھی وہ روزانہ صبح سویرے اٹھنے کی عادی تھی لیکن اگر رات کو وہ دیر سے سوئے یا پھر تھکی ہوئی ہوتی تو اکثر لیٹ ہو جاتی
وہ اٹھ کر واش روم سے ہاتھ منہ دھو کر باہر نکلی اور ٹریکنگ سوٹ نکال کر نیچے بنے جم میں آ گئی
وہ شروع سے ہی اپنی فٹنس کا ہمیشہ خیال رکھتی تھی اور اب بھی وہ صبح صبح روزانہ ایک گھنٹہ جم میں گزارتی وہ ٹریڈ مل پر دوڑ رہی تھی کے اسے یاد آیا کہ رات کو نینا نے اسے میٹنگ کے لیے انفارم کیا تھا وہ نیچے اتری اور پانی کی بوٹل پکڑی اور باہر نکل آئی
ابھی ہر طرف خاموشی ہی تھی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے جبکہ فرزام نے اپنے کمرے کے ٹیرس ایریا کی سائیڈ پر ایکسرسائز مشینز سیٹ کروائیں تھیں اس کے روم کا ٹیرس بیک سائیڈ پر تھا
وہ اپنے کمرے میں آئی تو دیکھا سات بجنے میں آدھا گھنٹہ رہتا تھا اس نے جلدی سے باتھ روب لے کر شاور لینے چلی گئی اور بیس منٹ بعد وارڈروب کے سامنے کھڑی ڈریسز دیکھ رہی تھی اس نے کل ہی شاپنگ کی تھی اور کچھ الگ ڈریسز لیے تھے اس نے سب پر ایک نظر دوڑائی اور ایک شاکنگ کلر کی پیروں کو چھوتی گھیردار فراک نکالی جو کہ ڈبل بنی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ شاکنگ ہی دوپٹہ تھا وہ ایسے ڈریسز بہت کم یوز کرتی اور اب اسے آفس کے لیے یہی مناسب لگا
بالوں کو ہلکے سے کرل دیے اور آج اس نے شاکنگ لپ گلوس بھی لگایا تھا اور کانوں میں گول بڑی سی ٹرپل لئیرز کی بالیاں بھی پہن لیں اور اس کے نیچے اس نے وائٹ درمیانی ہیل والا جوتا نکال کر پہنا گھڑی پہن کر اور پرفیوم کو سپرے کرتی وہ تیار ہو چکی تھی
باہر نکل کر نیچے آئی تو ڈائینگ ٹیبل پر فرحت بیگم اور فرزام پہلے سے موجود تھے جب وہ سلام کرتی کرسی سنبھال چکی
کیا بات ہے بھائی آپ نے آج آفس نہیں جانا؟
وہ جوس کا گلاس پیتے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی
نہیں میں آج آفس بالکل نہیں جا رہا آج کی میٹنگ تم خود دیکھ رہی ہو ہاں البتہ شاہ ہو گا
وہ آملیٹ کھاتا بولا
کچن سے فرحت بیگم ملازمہ کو ہدایت دیتے آ رہیں تھیں
تو پھر آپ آج کیا کریں گے ؟
یہ آج اپنی گڑیا کے لیے پارٹی کی ارینجمنٹس دیکھے گا اور میں نے تمھارے بابا کو بھی کال کر کے بتا دیا ہے وہ بھی پہنچ جائیں گے شام تک
فرحت بیگم بیٹھتیں ہوئے بولیں
اس نے ناشتہ کیا اور اٹھ گئی فرحت بیگم کے گال چوم کر باہر کی طرف بڑھنے لگی کے پیچھے سے فرزام کی آواز آئی
حورم ویٹ
وہ اٹھ کر اس کی طرف آیا اور اس سر پر بوسہ دیا اور کہا
Best of luck my doll
وہ بے اختیار اس کے گلے لگی
فرحت بیگم نے دونوں کو پیار سے دیکھا
And always remember،
"Success does not come from what you do occasionally، It comes from what you do consistently"
زندگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے انسان کبھی جیتتا ہے اور کبھی ہار جاتا ہے لیکن کامیاب ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو اپنی ہار سے سیکھے
Because behind every successful man، There's a lot of unsuccessful years۔
حورم نے فرزام کو مسکرا کر دیکھا جس پر وہ ہنس دیا
اب مسکرا کیوں رہی ہو؟
میں دیکھ رہی ہوں جس کے ساتھ آپ جیسے بھائی کی سپورٹ ہو جو ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہو وہ انسان کیسے کامیاب نہ ہو؟ہو سکتا ہے بھلا
وہ دونوں ہنس دیے
حورم آفس کے لیے نکل گئی جبکہ فرزام واپس بیٹھ گیا
اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے
فرحت بیگم نے کہا جس پر فرزام سامنے دیکھنے لگا
"مام میں حورم کی آنکھوں میں آنسو ہرگز نہیں برداشت کر سکتا اور جو چیز اس کے آنسؤوں کا باعث بنی میں اس وجہ کو ہی مٹا دوں گا"
فرزام کہاں گم ہو گئے بیٹا؟
وہ جو خود سے بول رہا تھا کہ ان کی آواز پر چونکا
جی نہیں کچھ نہیں
اچھا تو تم نے اپنے بارے میں بھی کچھ سوچا ہے کہ نہیں؟
وہ اس کی طرف دیکھتے بولیں
مام دیکھ پلیز ابھی اس شادی کے ٹاپک کو کلوز ہی رکھیں۔۔۔
وہ چڑ کے بولا تو وہ ہنس دی
بیٹا جی ایک نہ ایک دن تو کروانی ہی ہے؟
جبکہ وہ منہ بنا کر رہ گیا البتہ نظروں کے سامنے کسی کا عکس لہرایا اور مسکرا کر سر جھٹک دیا
وہ آفس پہنچی اور لیفٹ سے تھرڈ فلور پہنچی راہداری سے گزر کر اپنے آفس بڑھ رہی تھی جب اس نے نینا کو مخاطب کیا
Miss Neena، come to my office after a while۔
Yes Mam۔
وہ سر ہلا کر اندر بڑھ گئی اور آفس کا جائزہ لینے لگی یہ آفس بھی سیکنڈ فلور کے آفس کی ہی طرح تھا لیکن تھوڑا سا چینج تھا اُس کا کمبینیشن بلیو تھا لیکن اِس کا بلیک اینڈ گرے تھا
وہ کرسی پر آ کر بیٹھی اور چیئر کو گھما کر گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی کہ تبھی دروازہ ناک ہوا اس نے اجازت دی تو نینا اندر آئی
مس نینا یہ آفس پہلے کس کے زیر استعمال تھا؟
وہ اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے بولی
میم یہ آفس پہلے سر شاہ کا تھا اور سیکنڈ فلور پر سر فرزام کا لیکن آپ کے آنے سے دو دن پہلے سر شاہ نے سر فرزام کے کہنے پر چینج کروایا تھا اور سٹاف کو بھی تبدیل کروایا تھا
اوکے آپ ایسا کریں مجھے آفس کے بارے میں بتائیں؟
میم گراؤنڈ فلور پر ہمارے پروجیکٹس کے ہیڈ ہیں جو کہ اسسٹنٹ ہیں اور اگر کوئی ایمرجنسی بھی ہو جائے تو وہ ہی ہینڈل کرتے ہیں اور سیکنڈ فلور پر اب سر شاہ کا آفس ہے اور ان کا سٹاف جبکہ فورتھ فلور پر کمپنی کے سارے ڈیزائنرز ڈریسز اور ڈیمو وغیرہ ادھر ہی ہوتے ہیں اور انڈسٹری یہاں سے تھوڑی دور ہے جہاں ٹیلرز وغیرہ ڈریسز کی سٹیچنگ کرتے ہیں اور انڈسٹری سے ہی ڈریسز تیار ہو کر کمپنی میں آتے ہیں
وہ تفصیلاً بتاتے ہوئے بولی
And
ابھی حورم اس سے مزید کچھ پوچھتی کہ کوئی دروازہ ناک کر کے سیدھا اندر آیا
وہ راہداری سے گزرتا اپنے آفس کی جانب بڑھ رہا تھا جب اس نے سحر کو آفس آنے کا کہا
وہ کوٹ اتار کر کرسی کی بیک سے ہینگ کر کے بیٹھا جب دروازہ ناک ہوا اس نے اجازت دی تو سحر اندر آئی
Miss Sehar، what is today's schedule?
وہ سنجیدگی سے کہتا لیپ ٹاپ آن کرنے لگا
"Sir، today you have a meeting at 9 o'clock from Ahmed Sons Industry and in the afternoon there is a photoshoot of Miss Alina and in the evening، Sir Farzam is invited to the party۔"
ہممممم۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔
وہ بنا اس کی طرف دیکھے بولا
اور وہ سر ہلاتی چلی گئی
وہ لیپ ٹاپ کھول کر ای میلز چیک کر رہا تھا اور ساتھ فون پر بھی اس کی انگلیاں حرکت کر رہی تھیں تھوڑی دیر بعد ان سب سے فارغ ہو کر اس نے کرسی کی بیک سے سر ٹکا لیا تو اس کا خیال آیا اس نے انٹرکام اٹھایا اور سحر کو آفس آنے کا کہا تھوڑی دیر بعد وہ آفس میں موجود تھی
Miss Sahar، bring last week's photoshoot of Miss Alina and cancel today's photoshoot
اوکے سر
اور مس حورم آفس آ چکی ہیں؟
اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا
یس سر وہ کچھ دیر پہلے ہی آفس آ چکی ہیں۔
اوکے آپ ایسا کریں ان سے کہیے کہ یا رہنے دیں میں خود ہی ان سے بات کرتا ہوں آپ مس علینہ کا مسئلہ سورٹ آؤٹ کریں
وہ کہتے ہوئے آفس سے نکلا اور اس کے پیچھے سحر بھی اپنے کیبن میں جا کر بیٹھی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا
افففف۔۔۔۔۔۔آج پھر اس چڑیل سے نپٹنا پڑے گا ایک تو نخرے ہی میڈم کے اتنے ہیں پتہ نہیں سر شاہ نے کیسے اسے اپنی کمپنی کا ماڈل بنایا ہوا ہے
وہ علینہ کی شان میں قصیدے پڑھتی پچھلا فوٹوشوٹ ڈھونڈنے لگی
وہ تھرڈ فلور پر پہنچا تو سارا سٹاف چوکنا ہو گیا وہ سیدھا آفس کے دروازے پر ناک کر کے سیدھا اندر آیا جہاں وہ بیٹھی نینا سے محو گفتگو تھی
اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھا تھا اس کی ڈریسنگ اور آج تو لال ہونٹوں پر لپ گلوس بھی لگا ہوا تھا اس نے ایک ہی نظر میں اس کا گہرا جائزہ لیا اور نینا کی طرف مڑا
مس نینا آپ جا سکتی ہیں
وہ سر ہلا کر باہر کی جانب بڑھ گئی تو وہ اس کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہو گیا
وہ توصیفی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا بلاشبہ آج وہ پہلے سے الگ لگ رہی تھی اس کی نظروں سے خائف ہوتی وہ نظروں کا رخ موڑ گئی جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیا
جب کچھ دیر بعد وہ نہ بولا تو وہ خود ہی بول پڑی
غالباً آپ یہاں کسی کام سے آئے ہیں مسٹر شاہ؟
وہ ریلیکس ہو کر بیٹھتا کہنے لگا
میرے خیال سے آج آپ نے میٹنگ کے لیے بھی جانا ہے تقریباً آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے اور آپ پانچ منٹ میں اپنی سیکرٹری کے ساتھ نیچے ملیں
وہ اب سنجیدگی سے کہتا اٹھ گیا اور ایک گہری نظر اس پر ڈالتا باہر نکل گیا
اور پیچھے وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی اس انسان کی آنکھوں میں دیکھنا اس کے لیے مشکل تھا بہت مشکل
وہ اٹھی اور آفس کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو ایک نظر دیکھنے کے بعد باہر نکل آئی اور نینا کے کیبن میں آئی اور اسے ساتھ لے کر لیفٹ سے نیچے پہنچی جہاں پر وہ براؤن سن گلاسز لگائے بلیو پینٹ کوٹ اور لائٹ پنک ڈریس شرٹ پہنے فون پر کسی سے بات کرتا دھوپ میں مزید چمکتا کسی کا بھی دل دھڑکا سکتا تھا
اس نے اسے گالاسز سے ہی آتے دیکھا آج بار بار اس کی نظر اس کی طرف اٹھ رہی تھی جو بھرپور کانفیڈنس سے اسی کی جانب آ رہی تھی اس نے کال بند کی اور اور اسے ساتھ آنے کا کہا لیکن وہ پہلے ہی بول پڑی
میں اپنی گاڑی میں آنا پسند کروں گی
وہ سر ہلاتا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا
اس کے پیچھے ہی حورم کی مرسڈیز تھی جبکہ آخر پہ ہنڈا سٹی میں سحر اور نینا
ویسے نینا آج پھر اس چڑیل سے میرا سامنا ہونا ہے
اس کی بات پر وہ ہنسنے لگی
مطلب پھر آج اس کا فوٹوشوٹ کینسل
بالکل یار پتہ نہیں عجیب بندی ہے سر شاہ کے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہے
کہیں پھنسا ہی نہ لے سر کو؟
نینا نے ہنس کر کہا جس پر اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا
کہیں پھنسا ہی نہ لے۔۔۔۔۔۔ سر کے ساتھ تو ویسے میم حورم اچھی لگتی ہیں۔۔ ہے نہ؟
یار بالکل دونوں کا کپل کتنا سویٹ ہو گا؟
وہ سوچتے بولی
چلو کیا پتہ کسی کو کہ کیا ہونا ہے آگے۔۔۔
اس نے بات ختم کی
وہ آج پھر دوبارہ اس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا لیکن آج اس کے سامنے مزید ایک آفیسر تھا وہ چلتا ان کے پاس آیا اور سیلیوٹ مار کر ان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا
سو میجر ارحم رپورٹ کیا ہے؟
کرنل سعید نے اس سے پوچھا
سر اس فائل میں تمام ڈیٹیلز ہیں اور ہم کافی حد ان کے ٹھکانوں کا پتہ لگا چکے ہیں لیکن ابھی تک پاشا چھپا ہوا ہے اس تک رسائی ابھی نہیں ہوئی
انہوں نے فائل چیک کی جبکہ دوسرے آفیسر بولے
ارحم تمہیں پتا ہے نہ کہ یہ تمھارے بابا کا خواب تھا جو ادھورا رہ گیا لیکن اب اسے تم مکمل کرو گے اور جیسے بھی کر کے تم پاشا تک رسائی حاصل کرو گے
کرنل معید نے اس کی طرف دیکھتے کہا جب کرنل سعید نے فائل ان کی طرف پاس کی اور بولے
ہمیں تم پر اور تمھاری ٹیم پر فخر ہے ارحم۔۔۔۔۔۔ اور تم تو ویسے بھی فراز کے بیٹے ہو تمھیں دیکھ کر ہمیشہ اس کی یاد آتی ہے
وہ اس کی طرف دیکھ کر بولے جبکہ وہ مسکرا دیا اس کی زندگی میں بہت سے لمحات آئے تھے جب اس کو اس کے بابا کے حوالے سے کہا جاتا اور اسے فخر ہوتا اس کے لیے اس کے بابا ایک آئیڈیل تھے
اب ارحم نے سامنے lcd پر usb کے ذریعے کچھ چلایا اور ان کو اگلے پلان کے بارے میں بتانے لگا
وہ مال پہنچ چکے تھے تینوں گاڑیاں آگے پیچھے داخل ہوئیں سب سے پہلے وہ نکلا اس کے پیچھے حورم نکل کر اس کی طرف آئی اس نے سحر اور نینا کو دیکھنے کے لیے گردن پیچھے کی طرف موڑی تو اس کی بالیوں کا ایک بہت خوبصورت سا ہلکا سا ساز بجا جس نےاسے اپنی طرف متوجہ کیا
وہ دونوں آگے بڑھے اور ان کے پیچھے نینا اور سحر بھی
وہ
اب الیکٹرک سٹئیرز کی جانب بڑھ گئے وہاں سے وہ سیکنڈ فلور پر پہنچ کر دائیں جانب مڑ گئے جہاں اس نے ایک علیشان میٹنگ روم ارینج کروایا تھا ان کی آج دو پارٹیز کے ساتھ اکٹھی میٹنگ تھی اور ان کے ساتھ اس نے نیا پروجیکٹ شروع کرنا تھا اس کی میٹنگ مسز احمد کے ساتھ تھی لیکن ان کے آگے ایک اور کلائنٹ تھے جن کے ساتھ انہوں نے ڈن کرنا تھا اور ان کا بھی اس میٹنگ میں ہونا ضروری تھا وہ ابھی آئے ہی تھے کہ ان کے کانوں میں ایک خوشگوار سی آواز گونجی حورم نے مڑ کر دیکھا تو ایک چالیس سال کی خاتون تھیں وہ مسز احمد تھیں احمد سنز انڈسٹری سے جن سے ان کے پہلے بھی پروجیکٹز فائنل ہو چکے تھے
Hello Mr۔ Shah and
who is this beautiful lady،
your wife۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عورت کچھ زیادہ ہی خوش مزاج تھیں اسی لیے جو مرضی کہہ رہی تھیں نینا اور سحر بھی اسی طرف متوجہ ہو گئیں
Actually، Mrs۔ Ahmad۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی کچھ کہتا کہ حورم بول اٹھی
No Mam، we are bussiness partners۔۔۔۔
اس نے جلدی سے کہا
Ohhh۔۔۔۔ Am sorry
But your couple is very cute۔۔۔۔۔
وہ ہنستے ہوئے فراخدلی سے بولیں تو جواباً وہ گلا کھنکار کے رہ گیا
By the way، are you married yet or not ۔۔۔۔
انہوں نے اس سے پوچھا
ان کی بات سن کر پل بھر کے لیے حورم کا ہاتھ فائل پلٹتے ہوئے رکا اسے بھی شدت سے انتظار تھا اس کے جواب کا
وہ اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہا تھا یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کا رکنا بھی
Sorry but i am not interested to answer this question۔۔۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے بڑے شائستہ طریقے سے کہا جس پر وہ ہنس دیں جبکہ وہ لب بھینچ کر رہ گئی کیا تھا اگر وہ بتا دیتا
اچھا ویسے ہینڈسم مین اس بیوٹی کا تعارف نہیں کرواؤ گے
وہ حورم کو دیکھتے بولیں
Yes،of course why not
وہ اس کی طرف بڑھا
Miss Hooram،she is our client Mrs۔ Ahmed
and Mrs۔ Ahmed، she is my new bussiness partner and also Farzam's sister Miss Hooram Chaudhary
اینڈ مس حورم یہ ہماری بہت پرانی کلائنٹ بھی ہیں
اس نے دونوں کا تعارف کروایا جبکہ حورم نے ہاتھ آگے بڑھایا
Nice to meet you Mrs۔Ahmed
انہوں نے بھی جواباً ہاتھ ملاتے کہا
Mee too۔
ویسے مسٹر شاہ لگتا ہے کراچی کا حسن تو آپ نے اپنی کمپنی میں رکھا ہوا ہے پہلے تم دونوں بوائز کافی تھے کسی کو مکھن لگانے میں جو اب مس حورم بھی ۔۔۔۔ویسے رئیلی تم تینوں لاجواب ہو
ان کی بات پر وہ ہنس دیا جب کہ حورم نینا اور سحر سے کچھ ڈسکشن کر رہی تھی کہ اتنی دیر میں دو اور بندے انٹر ہوئے
Hello guys
مسز احمد نے آگے اپنے کلائنٹ سے ان کا تعارف کروایا اور پھر اس کا
He is Mr۔ Sherazi
اور یہ آگے سے اس کلیکشن کو پروموٹ کریں گے
جبکہ شیرازی کی نظریں حورم پر ہی ٹکی ہوئیں تھیں جسے ان دونوں نے نوٹ کیا حورم رخ موڑ کر سامنے سربراہی کرسی پر بیٹھی اور اس کے سامنے دوسری سربراہی کرسی پر وہ خود بیٹھا جبکہ مسز احمد اور مسٹر شیرازی ایک طرف تھے اور نینا حورم کی سائڈ پر جبکہ سحر شاہ کی سائڈ پر
میٹنگ سٹارٹ ہوئی اور حورم بڑے غور سے ہر چیز نوٹ کر رہی تھی حتیٰ کہ اس کی باڈی لینگوئج بھی جو ہر چیز کو بڑے ہی منفرد طریقے سے سمجھا رہا تھا
پھر اس نے حورم کو ڈیزائنز دکھانے کا کہا
اس نے نینا سے لے کر مسز احمد کو دکھائے جنہوں نے بہت پسند کیے اور آخر کار میٹنگ کامیاب ٹھہری تھی
مسز احمد شیرازی سے کچھ ڈسکس کرنے کے بعد جا رہی تھیں جب وہ انہیں سی آف کرنے گیا
حورم جو فائیلز سنبھال رہی تھی شیرازی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ متوجہ ہوئی اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھا تھا
Is everything okay، Mr۔ Sherazi
وہ اٹھتے بولی
کچھ بھی تو سہی نہیں ہے جب سے آپ کو دیکھا ہے
وہ اسے دیکھتے بولا جبکہ وہ طنزیہ مسکرا دی وہ میٹنگ میں بھی اس کی نظریں خود پر محسوس کر چکی تھی اور اب تک اس کی لائف میں بہت سارے ایسے کے آ چکے تھے
اوہ۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ کچھ بھی سہی نہیں ہے لیکن میں سب کچھ صحیح کر سکتی ہوں اگر آپ اکیلے میں ملیں تو سہی
اس کی نیلی آنکھوں میں چمک در آئی جو کہ ایک شکار کو دیکھ کر کسی شکاری کی آنکھوں میں آتی ہے ویسے بھی ان غنڈوں کو مارنے کے بعد اس کا دل مزید کسی کی ٹھکائی کرنا چاہ رہا تھا اگر جگہ مناسب ہوتی تو وہ کر بھی دیتی
ہائے آپ کی یہ نیلی آنکھیں تو غضب کا گھائل کرتی ہیں
اس کی بات پر وہ مٹھیاں بھنچ کر رہ گئی ابھی کچھ اچھا سا اسے سناتی کہاس کی آواز اسے اپنے قریب سے آئی
Hey، you stop this nonsense and stay away from her۔۔۔۔۔
She is only mine۔۔۔۔
And i will not allow anyone to say that۔۔۔
وہ دبے دبے غصے سے بولا
ارے ہم نے کیا کہا ہے بس ان کے حسن کو سراہا ہے
وہ اب بھی بعض نہیں آیا تھا کہ وہ کڑے تیوروں سے اس کی جانب بڑھا
You bloody bastard۔۔۔۔
وہ ابھی اس کا گریبان پکڑتا کہ کسی نے سرعت سے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔
"بہرام !پلیز"
حورم نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا جبکہ وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا
حورم جو ابھی اس کے لفظوں سے بھی سنبھلی نہ تھی اسے آگے بڑھتا دیکھ کر جلدی سے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا
اس کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کر کے وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگا جس نے اس کا نام لیا تھا
"مسٹر بہرام شاہ، یہاں سب موجود ہیں چلیے یہاں سے"
اس کے کہنے پر اس نے گلاس وال سے اس پار مال کو دیکھا اور لب بھینچتا اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا
مسٹر شاہ میرا ہاتھ چھوڑیں میں اپنی حفاظت کرنا اچھے طریقے سے جانتی ہوں
وہ اسے بہت کچھ باور کراتی بولی
اوہ۔۔۔۔ سیریسلی میں تو جانتا ہی نہیں تھا
اس کا ہاتھ چھوڑے اس کے سامنے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا اور اس کے لیے اس کی آنکھوں میں دیکھنا ہی سب سے مشکل کام ہوتا تھا اسے لگتا کہ اگر وہ دیکھتی رہی تو کبھی بھی اپنا ضبط کھو سکتی تھی
لیکن میری ایک بات کان کھول کر سنو اگر وہاں پر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتی تو میں ۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی بول رہا تھا کہ اس نے اس کی بات کاٹی
"کوئی اور ہوتی تو پھر بھی میں یہی کرتا"
ہے نا۔۔۔وہی ناولز کا پرانا گھسا پٹھا ڈائیلاگ میں جانتی ہوں
وہ بولے اس کی طرف بنا دیکھے اپنی کار کی جانب بڑھ چکی تھی جبکہ وہ ابھی تک اس کی بات پر حیران کھڑا تھا
یہ کیا کہہ کر گئی ہے میں ایسا تو ہر گز نہیں کہنے ولا تھا کہ کوئی اور بھی ہوتا تو یہی کرتا
اور سیریسلی لائک ناول۔۔۔۔
وہ خود سے ہی ہنستے گاڑی کی جانب بڑھ گیا
اور فون نکال کر سحر کو ملایا
Miss، Sehar cancel today's deal with Mr۔ Sherazi
وہ سنجیدگی سے کہتا فون کاٹ گیا
وہ وہاں سے سیدھا گھر واپس آ گئی اس نے نینا کو کال کر کے بتا دیا تھا
وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
گھرمیں ڈیکوریشن سٹارٹ ہو چکی تھی پارٹی کے لیے
وہ کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے جملے اس کے کانوں میں گونجے
She is only mine
کیوں بہرام شاہ کیوں تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے تمھاری سحرزدہ کالی آنکھیں اور تل میری کمزوری ہیں لیکن میں اسے کمزوری نہیں بننے دوں گی
وہ چہرہ صاف کرتی اٹھ کھڑی ہوئی
ماضی۔۔۔۔۔۔
مری میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد وہ واپس آ چکی تھی اور اس سے اگلے دن فرزام بھی ایتھنز سے ڈگری لے کے واپس آیا تھا وہ بہت خوش تھی اور اس کے کالج کا سال بھی آخری تھا اور ان دنوں میں ہی امل کی منگنی اس کے دادا کے ایک بہت ہی اچھے اور قریبی دوست کے پوتے مصطفیٰ سے کر دی گئی گو کہ ان کے والدین کے درمیان بھی بہت اچھے تعلقات تھے اور دوست بھی تھے
اور اس کی اٹھارہویں برتھڈے بھی قریب تھی
انٹرمیڈیٹ کے امتحان دینے کے بعد اس کا رزلٹ آیا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ ٹاپ پر تھی وہ بہت خوش تھی اور اس نے یونیورسٹی کے لیے ایپلائی کیا لیکن مسئلہ تب ہوا جب عاشر نے آگے پڑھنے سے منع کر دیا اس کا کہنا تھا کہ اسے ایسی بیوی نہیں چاہیے کہ جو گھر نہ سنبھالے اور جاب کرتی پھرے
جبکہ اس کا خود کا نظریہ تھا کہ ہر لڑکی کو خودمختار ہونا چاہیے نہ کے آنے والی زندگی میں کسی کا محتاج
اس دن اس نے سارہ سے بات کی اور اسے ساری صورتحال بتائی تو اس نے آگے سے کہا
میں پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ تمھیں آگے نہیں پڑھنے دے گا
تو یار اب میں کیا کروں میں نے اپنی لائف ایسی تو نہ سوچی تھی
پھر ایک ہی حل بچتا ہے
کیا جلدی بتاؤ
یہی کہ یا تو تم آگے پڑھ سکتی ہو یا پھر اس شادی کو قائم رکھنا چاہو گی آگے تمھاری مرضی
اس نے اس رات بہت سوچا تھا اس کا ارادہ بابا سے اسلام آباد سے واپسی پر انہیں بتانے کا تھا لیکن تب تک عاشر بھی پاکستان آ چکا تھا اس نے فرحت بیگم سے بات کی وہ تو ہرگز نہیں مان رہی تھی البتہ اس نے رو دھو کر فرزام اور امل کو منا لیا تھا پھر اس نے رات کا کھانا کھائے بغیر سوگئی انہوں نے حمدان صاحب سے ساری بات کی اور اگلے دن واپس آنے کا کہا
اگلے دن فرحت بیگم اس کے کمرے میں تھیں
"حورم، بس بہت ہو گیا"
"ماما یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ بہت ہو گیا، اب بس کریں "
وہ بیڈ سے اتر کر ان کے پاس کھڑی ہو گئی کہ تب ہی اس کے بابا جان نے کمرے میں قدم رکھا۔ ان کی عزیز از جان بیٹی نے انہیں کہاں پہنچا دیا تھا یا پھر ان کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ سب اتنی جلدی میں ہوا تھا کہ انہیں بھی سمجھ میں نہ آئی۔اور اب ایک سال بعد یہ سب کچھ۔۔۔۔
"بابا جان! آپ کہاں پر چلے گئے تھے اور اتنی دیر آنے میں،آپ کو پتہ ہے آپ کی گڑیا نے آپ کو کتنا مس کیا"
وہ سیدھا ان کے سینے سے جا لگی۔
"پھر شروع ہو گئی مکھن لگانا۔اسے تو آپ ہی سمجھائیں، اس کا تو دماغ ہی گھوم گیا ہے"
فرحت بیگم کہتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
"بابا کی گڑیا کیوں پریشان ہے؟"
"بابا آپ کو پتہ ہے کہ میں ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی اور آپ نے میرا نکاح کر دیا ہوا ہے"
وہ روہانسی ہو کر بولی اور خوبصورت نیلی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور یہاں ہی تو ان کی بس ہو جاتی تھی، وہ کبھی بھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔
"ایک مہینے بعد تو اٹھارہ کی ہو جاؤ گی نہ؟"
"ماما! میں بابا سے بات کر رہی ہوں، پلیز"
"تو بیٹا، آپ کو پتہ ہے نہ کہ آپ کے تایا ابو نے کتنی چاہت سے آپ کا رشتہ مانگا تھا"
"بابا جان، میں کچھ نہیں جانتی، میں اپنے خوابوں کے درمیان کسی کو بھی نہیں آنے دوں گی چاہے وہ کوئی بھی ہو، چاہے آپ کا لاڈلا بھتیجا ہی کیوں نہ ہو"
وہ اپنی نیلی آنکھوں میں ایک عزم لے کے بولی تھی۔ اور وہ اس کی آنکھوں میں ہی دیکھتے رہ گئے کیونکہ وہ جو کہہ دیتی پھر اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا تھا چاہے معاملہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔
"معاملہ بہت سنجیدہ لگ رہا ہے؟"
وہ اپنی بیگم کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے بولے۔
"چوھدری صاحب، آپ اب اس کی کوئی بات نہیں مانیں گے، آپ نے اور آپ کے بڑے بیٹا بیٹی نے ہی اس کو اتنا ضدی بنا ڈالا ہے"
"ماما آپ ہی بتائیں کہ آپ چاہتیں ہیں کہ آپ اگلے سال اپیا کے ساتھ میری بھی رخصتی کر دیں گیں تو میں ایسا نہیں ہونے دوں گی"
وہ حتمی لہجے میں بولی۔
پھر ایک ہی حل بچتا ہے۔
وہ بیڈ پر جاتے بولے۔۔۔۔۔
"آپ کیا کہ رہے ہیں اگر عاشر اسے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہا تو حرج ہی کیا ہے اس میں"
ماما یہی تو مسئلہ ہے کہ میرے آگے پڑھنے میں حرج ہی کیا ہے؟"
"حورم بس اب واقعی ہی بہت ہو گیا، تم ناولز پڑھ پڑھ کر زیادہ ہی خیالوں میں اڑھ رہی ہو، حقیقت کی دنیا میں آؤ"
وہ اسے بڑی طرح ڈپٹے بولیں۔
"ماما میں بھی آپ کو یہی بتا رہی ہوں کہ یہ کوئی ناول کی سٹوری نہیں کہ اٹھارہ سال کی لڑکی کا ایک تیس سال کے مرد سے نکاح کرا دیا جائے اور ہنسی خوشی زندگی گزار لیں میں ایسی نہیں ہوں اور نہ ہی ابھی میں کسی بھی رشتے کے لیے تیار ہوں۔"
حورم نے قالین پر بیٹھ کر اپنے بابا کے گھنٹوں پہ سر رکھ دیا۔ اور وہ بہت پیار سے اس کے سر پر انگلیاں چلانے لگے اور فرحت بیگم بھی ان کے پاس آ گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سارے ہی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ بھائی سے فرمائشیں کرنا، بہن کو تنگ کرنا، اپنے ماما اور بابا کی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا جان، آپ کہا کرتے تھے نہ کہ آپ کی گڑیا ایک دن اپنا نام بنائے گی، آپ ہی تو کہا کرتے تھے کہ بیٹا آپ نے بہت محنت کرنی ہے اور کچھ بن کے دکھانا ہے، پھر کہاں گئے آپ کے خواب، اگر بڑے پاپا لوگ چار سال ٹھر جائیں پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں جانتی ہوں نہ کہ وہ نہیں ٹھہریں گے، اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے"
وہ اپنی بھیگی آنکھیں اٹھا کہ اپنے بابا کی طرف دیکھنے لگی۔
"ٹھیک ہے، جیسے میری گڑیا کہے گی بالکل ویسا ہی ہو گا، میں آج ہی وکیل سے بات کرتا ہوں کہ وہ خلع کے پیپرز بنوائے۔"
انہوں نے اسے نیچے سے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور وہ خاموشی سے آنسو اپنے اندر اتارنے لگی گو کہ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا اور بہت کچھ ہونے والا تھا ایسے ہی کوئی رشتہ ختم نہیں ہو جاتا لیکن اس کا دل ہی نہیں مان رہا تھا پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔۔
"اب میں اپنی گڑیا کی آنکھوں میں آنسو بالکل بھی نہ دیکھوں۔ "
انہوں نے اس کے آنسو پونچھتے کہا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
"حور، میری جان"
انہوں نے آنسو لیے اسے پکارا۔
"ماما اب آپ کیوں رو رہی ہیں؟"
وہ ان کے پاس آ کر بولی۔
"بیٹا، مجھے ڈر لگ رہا ہے، ہم اس رشتے کو ٹھکرا رہے ہیں اور عاشر وہ تو تم سے اتنی محبت کرتا ہے وہ کبھی نہیں مانے گا؟"
"ماما وہ مانیں یا نہ مانیں اگر وہ میرے پڑھانے کے حق میں نہیں تو مجھے طلاق چاہیے اور میں ایک آزاد اور خود مختار رہنا چاہتی ہوں نہ کہ بعد میں کسی اور کی سہارے میں۔ میں اپنا نام بنانا چاہتی ہوں اور انہیں ماننا ہی ہو گا، ہمارے راستے شروع سے ہی الگ تھے انہیں زبردستی ملایا گیا ہے۔ "
"بس اللہ سے دعا ہے کہ جو بھی ہو اچھا ہی ہو"
وہ اسے ساتھ لگاتے بولیں لیکن اندر سے بہت سے وسوسوں کا شکار تھیں۔
"آمین!"
وہ دل میں پختہ ارادہ کر کے بولی کہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔۔۔۔
اس کے بعد عاشر نے بہت شور اٹھایا تھا حامد صاحب بھی تھوڑا افسردہ ہو گئے لیکن حورم ان کے پاس آئی اور بولی
"بڑے پاپا، آپ سب نے ہمیشہ مجھے ہر چیز دی جس کی بھی میں نے خواہش کی تھی تو میرا اتنا بڑا خواب آپ لوگ کیسے پورا نہیں کر سکتے اور ویسے بھی میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں آپ سب نے ہمیشہ مجھے ایک بچی کی طرح ٹریٹ کیا ہے اور تب جب میرا نکاح ہوا تھا میں تو اتنا جانتی بھی نہیں تھی اور اگر میں یہ شادی کر بھی لوں تو کبھی خوش نہیں رہ پاؤں گی اگر آپ کی بیٹی ہوتی تو کیا آپ اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دیتے ؟"
اس سوال پر انہوں نے تڑپ کر اسے اپنے ساتھ لگایا
"حورم میری بیٹی تم ہی ہو اور میں تمھاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہونے دوں گا چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے"
اس کے بعد انہوں نے عاشر سے بات کی لیکن وہ تو بھڑک ہی اٹھا
بابا میں ایسا ہر گز نہیں کرنے والا
انہوں نے اسے بہت سمجھایا لیکن جب وہ نہ مانا تو مجبوراً انہیں کہنا پڑا
عاشر اگر تم نے میری بات نہ مانی اور حورم کو طلاق نہ دی تو میں تمھیں اپنی ساری جائیداد سے عاق کرتا ہوں اور تمھیں میرا مرا ہوا منہ دیکھنے کی بھی اجازت نہ ہو گی
ان کی بات پر رافعہ بیگم اور عاشر نے تڑپ کر ان کی طرف دیکھا ان کے جانے کے بعد رافعہ بیگم نے اسے بہت سمجھایا
اور وہ ساری رات سوچتا رہا اور ایک فیصلے پر پہنچ کر صبح تک وہ ڈائیورس کے پیپرز پر سائن کر چکا تھا
جانے سے پہلے اس کی ملاقات حورم سے ہوئی
"تم نے مجھے ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا لیکن ایک بات یاد رکھنا حورم کہ جو لوگ محبت کو ٹھکرا دیتے ہیں محبت انہے ہی ٹھکرا دیتی ہے"
یہ الفاظ تب تو اس کے لیے معنئ نہیں رکھتے تھے لیکن آنے والی زندگی میں بہت یاد آنے والے تھے
وہ کہہ کر جانے لگا جب کچھ یاد آنے پر رکا
"اور ایک بات اور میں واپس ضرور آؤں گا"
اس دن کے بعد عاشر یورپ جا چکا تھا
حورم کی اٹھارہویں ساگرہ تھی جب رات کو فرزام فرحت بیگم کے پاس آیا
مام شاہ لینے آیا ہے اور ارحم بھائی کا بیٹا ہوا ہے اور انہوں نے سپیشلی کہا ہے کہ میں ضرور آؤں
وہ ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا
فرزام !شاہ آیا ہے تو اسے اندر تو بلاؤ
مام وہ کافی دیر کا بیٹھا ہوا تھا لیکن آپ کو باقی کاموں سے فرصت ہی نہیں تھی اب وہ باہر ہی کھڑا ہے اوکے
وہ کہتا باہر کی جانب بڑھ گیا ابھی وہ پورچ میں تھا جب عقب سے دونوں کو آواز سنائی دی
شاہ نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا
بھائی آج آپ نے میرے ساتھ باہر جانا تھا اور آپ اپنے کسی دوست کے ساتھ جا رہے ہیں اس کی تھوڑی برتھڈے ہے آج
وہ خفگی سے بولی جب وہ اس کے پاس آیا
گڑیا یار جانا ضروری ہے آج لیکن وعدہ کل جو کہو گی کروں گا
چلیں اگر جانا ضروری ہے تو ٹھیک ہے پھر
اس نے کہا تو وہ مسکراتا چلا گیا البتہ شاہ اندھیرے میں تھا اسی لیے حورم اسے نہ دیکھ سکی لیکن اس نے اسے دیکھ لیا
اس کے بعد حورم نے سب سے مشہور یونیورسٹی میں BBA میں داخلہ لیا سارہ بھی اس کے ساتھ تھی لیکن اس کا ڈیپارٹمنٹ الگ تھا
ایک سال بعد اس کی انیسویں سالگرہ تھی اور اس کے ساتھ فرزام کی بزنس کی دنیا میں کامیابی تھی جس کی وجیبسے فنکشن بہت دھوم دھام سے ہوا اور اس میں امل کے سسرال والے یعنی اس کے دادا کے دوست کی فیملی اور اس کے والد کے دوست بھی تھے دونوں بہن بھائیوں نے کیک کٹ کیا تو سب انہیں وش کرنے لگے جب دو شرارت انسان ہنستے ہوئے اس کے سامنے آئے جنہیں دیکھ کر تو ایک پل کے لیے اس کا رنگ اڑھ گیا
ہیلو بوٹیفل پہنچانا ہمیں
صارم اسے گفٹ دیتے بولا
ججی۔۔۔
اس نے بمشکل ہی جی کہا جبکہ آبش سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہی تھی
کہ تبھی صارم اسے کھینچتا ہوا لایا
اور یہ میرا پیارا سا بھائی کزن اور دوست ہے
وہ جو سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے تعارف پر آنکھیں گھمائی
میر یار اسے گفٹ تو دو
صارم اس کے کان میں کہنے لگا جبکہ وہ بری طرح نروس ہو رہی تھی اور آبش مسلسل ساری سیچویشن کو انجوائے کر رہی تھی
یہ میری طرف سے آپ کے لیے ایک ادنیٰ سا تحفہ امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گا
اس نے اسے ایک بلیک ڈبیہ جو کہ بہت اچھی طرح کور تھی دی اسے ویسے تو کچھ پسند نہیں تھا آیا لیکن پھر اس پر نظر پڑی اور یہی گفٹ لے لیا
شکریہ
اس نے بہت ہی آہستہ کہا جس پر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ کر معدوم ہو گئی اس نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی جو بے بی پنک باربی گاؤن میں اس بہت پیاری لگی
وہ جا چکا تھا جب اس نے ایک گہری سانس لی
میرے بھائی کا گفٹ کھول کر دیکھنا ضرور
آبش نے شرارت سے اسے کہا اور اس کے تاثرات دیکھنے لگی جو کہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
یہ۔۔ یہ آ آپ ککے بھائی تتھے؟
اس نے اٹک اٹک کر پوچھا جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی جب کوئی اس کی ہنسی کی طرف متوجہ ہوا
ایم سوری
وہ شرمندگی سے بولی
اٹس اوکے چل یار
وہ مسکراتے کہنے لگی جس پر وہ بھی زبردستی مسکرا دی کہ تب ہی فرزام وہاں آیا
Hello ladies،
یہ میرے بھائی ہیں فرزام
حورم نے تعارف کروایا تو آبش نے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا جبکہ فرزام کو وہ بولنے والی لڑکی پسند آئی تھی۔۔
حورم نے جا کر سب سے پہلے بلیک ڈبیہ کھولی جس میں بلیو ڈائمنڈ کی چھوٹی سی نوز پن تھی وہ نوز پن پہنتی تھی اور اسے بہت پسند بھی تھیں یقیناً اس نے اس دن ہی اس کے ناک میں نوز پن کو نوٹ کر لیا تھا جو کہ وائٹ ڈائمنڈ کی تھی
اس کے یہ دو سال بہت اچھے گزرے اور پھر امل کی شادی کا شور اٹھا
اس کی شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی تھی لیکن حورم کی زندگی کی کایا بھی پلٹ گئی
حال۔۔۔۔۔۔۔
وہ آفس میں تھا جبکہ صارم اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور لیپ ٹاپ پر بہت سی سائٹس کھولے بیٹھا ہوا تھا
جب اس کا فون رنگ کرنے لگا اس نے دیکھا "بھائی کالنگ"لکھا تھا اس نے کٹ کر دیا لیکن بار بار آ رہا تھا تو اس نے فون ہی سوئچ آف کر دیا لیکن تھوڑی دیر بعد صارم کا فون بجنے لگا وہ اٹھ کر گلاس وال سے باہر دیکھنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا اس نے کال اٹھا لینی ہے
صارم نے فون اٹھایا
ہیلو
جی بھائی
جی
اوکے
وہ کہتا اس کی طرف بڑھا
میر! مصطفیٰ بھائی کی کال ہے اور وہ بہت ہی غصے میں ہیں
اس نے اس کی طرف فون بڑھایا جو اس نے تھوڑی دیر بعد دیکھنے کے بعد پکڑ لیا اور صارم نے شکر کیا کہ چلو کسی سے اس ٹاپک پر بات تو کرے گا
سلام دعا کے بعد مصطفیٰ سیدھے مدعے پر آیا
ویسے تم سے یہ امید ہر گز نہیں تھی
کیسی امید ؟
دیکھ ہنوز باہر رہا تھا جبکہ صارم اسے
حورم کیسی ہے
آپ لوگوں کو پتہ ہو کے مجھے کیا پتہ
اس نے طنز کیا
مت بھولو کہ وہ تمھاری منکوحہ ہے
اب وہ بھی تھوڑا غصے سے بولے
آپ بھی یہ مت بھولیں کہ میں نے یہ نکاح صرف آپ لوگوں کی ضد کی وجہ سے کیا تھا ورنہ آپ لوگ مجھے اچھی طرح جانتے تھے کہ میں ابھی کسی رشتے کو افورڈ نہیں کر سکتا
لیکن جو ہونا تھا ہو گیا اب آگے کی سوچو
آپ سنائیں آپ کیسے ہیں اور امل بھابھی کیسی ہیں اور عالیان
وہ بات بدلتے بولا
ہم سب ٹھیک ہیں بس تم اپنی خیر مناؤ کہ وہ جو تمھاری منکوحہ ہے نہ ایس پی مصطفیٰ کی سالی صاحبہ ہیں کہیں یہ ہی نہ ہو جائے کہ حوالات کی سیر کرنی پڑ جائے
بھائی اس کا تو ارادہ پکا ہے آپ تیاری کر لیں
صارم کی دہائی پر وہ دونوں ہنس دیے
حورم کے یونیورسٹی کے دو سال بہت اچھے گزرے تھے لیکن جب اس نے باہر پڑھنا چاہا تو فرزام نے ایتھنز یونیورسٹی میں اس کا ایڈمیشن اپنے توسط سے کروایا اور ویسے بھی اس کے وہاں اچھے روابط تھی اسی لیے حورم کے لیے کوئی مشکل پیش نہ آئی
اس کے جانے میں ابھی ایک ہفتہ تھا جب امل کے سسرال ولے آئے اور حورم کا ہاتھ مانگا
اس دن اسے نہیں پتہ تھا کہ سب کے درمیان بات چیت کیا ہوئی لیکن اس کے بابا اور ماما مان گئے تھے اور حتی کہ فرزام بھی
"بھائی جب پہلے نکاح ہوا تھا تب آپ یہاں نہیں تھے لیکن آج تو ہو نہ تو پھر سے دوبارہ کیوں"
وہ اس سے گلہ کرتی بولی جب فرزام نے اس کے آنسو صاف کیے
حورم میری گڑیا کبھی بھی مجھے ماما بابا یا جو رشتے آپ سے جڑے ہیں انہیں غلط مت سمجھنا اور ماما بابا جو فیصلہ کرتے ہیں وہ اولاد کی بھلائی کے لیے ہی ہوتا ہے بس سمجھنے میں دیر ہو جاتی ہے مانا پہلے جلدبازی نہیں تھی کرنی چاہیے لیکن اس بار آج اپنے بھائی کی بات مان لو یقین کرو جو میری گڑیا کو دکھ پہنچائے گا نہ تو اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا
وہ اسے سمجھاتے بڑے مان سے بولا اور حورم چودھری نے ایک بار پھر قربانی دے دی
اور نکاح اگلے دن کیا جا چکا تھا
شام کا وقت تھا جب وہ اس کے کے کمرے میں آیا نکاح تھوڑی دیر پہلے ہی ہوا تھا جب صارم نے اسے زبردستی ملنے کے لیے بھیجا
وہ اس کے سامنے سفید پیروں کو چھوتی سمپل سی گاؤن جس میں سرخ کلیاں تھیں اور لال رنگ کا ڈوپٹی سر پر ٹکا ہوا تھا آج بھی وہ میک اپ سے پاک چہرہ لیے اس کے سامنے تھی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو رہی تھیں اور اس کی نیلی آنکھوں کا سرخ رنگ کے ساتھ امتزاج نے اسے ایک پل کے لیے مبہوت کیا تھا
لیکن اگلے پل سب کچھ یاد آتے وہ سر جھٹک کر آگے بڑھا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا جس نے نظریں نیچی کی ہوئیں تھیں
اس نے سفید شلوار قمیض کے اوپر نیلی ویسٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی جو کہ اس کی مردانہ وجاہت پر بہت کھل رہی تھی اس نے ویسٹ کوٹ سے ایک نیکلس نکالا جس میں نیلے رنگ کا ڈائمنڈ جگمگا رہا تھا
اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے گلے میں پہنایا جو آنکھیں بند دیے اور ہونٹوں کو زبردستی بھینچے کھڑی تھی
پہنانے کے بعد اس کے کانوں میں اس کے الفاظ گونجے
"نکاح مبارک ہو مسز اور اسے اتارنا مت تا کہ یہ تمھیں یاد دلاتا رہے کہ یہ نکاح صرف میں نے اپنے بھائی کے کہنے پر کیا ہے اور امید ہے کہ تمھارا دو سال کا یہ سفر اچھا گزرے"
وہ کہہ کر جا چکا تھا جبکہ وہ کب کے روکے آنسوؤں کو بہانے لگی
مطلب وہ جس کی زندگی میں شامل کی گئی تھی اس کی مرضی کے خلاف کی گئی تھی اور یہ چیز اس کے رونے میں مزید اضافہ کر گئی اور تب سے اس نے دنیا کے سامنے کمزور ہونا چھوڑ دیا
اور اپنے گرد ایک خول بنا لیا لیکن تھی بھی وہ ایک انسان۔۔۔۔۔ کب تلک ایسے رہتی ایک نہ ایک دن اس کا ضبط ٹوٹ جانا تھا اور نہ جانے کیا کرنے والا تھا اور
کس کس کی زندگی کو نیا موڑ دینے والے تھا
لیکن یہ تو طے تھا حورم چودھری کسی پر اپنا دل بڑی طرح ہار چکی تھیں اب اس دل کا ہارنا اس سے کیا کروائے گا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی
نصیب کا کھیل بھی عجب طریقے سے کھیلا ہم نے
جو نہ تھا نصیب میں اسی کو ٹوٹ کر چاہا ہم نے