وہ تیار ہو کر چادر لے کر باہر نکلی اسے بہرام نے کوئی ایڈریس سینڈ کیا تھا اور تھوڑی دیر پہلے اس کی کال بھی آئی تھی ارحہ سے بات کر کے وہ باہر نکلی جہاں گارڈز اس کے منتظر تھے
ہمیں شاہ صاحب نے آپ کو بحفاظت پہنچانے کا کہا ہے
وہ چلتی گاڑی میں جا بیٹھی اور اس کے پیچھے ہی گارڈز کی گاڑی تھی
نا جانے بہرام نے اسے کیوں بلوایا تھا یہ تو وہاں جا کر ہی پتہ چلنا تھا
اسے نہیں پتہ تھا کہ اسے یہاں کیوں بلایا گیا تھا وہ جب کی یہاں آئی تھی اسے ایک کرسی سے باندھ دیا گیا تھا وہ تو بس اپنے شوہر کے کہنے پر یہاں آئی تھی لیکن یہ سب اس کی سمجھ سے باہر تھا
یہ کوئی کمرہ تھا جس کی پچھلی دیوار پر ایک کھڑکی تھی کہ تبھی دروازہ کھلا اس نے مڑ کر دیکھا تو جیسے اس کے اوسان خطا ہو گئے
بہرام سیدھا چلتا اس کے پاس آیا اور کچھ کہے بنا اس کے منہ پر ایک زور دار تھپر مارا جس سے اس کا سر ایک طرف ہو گیا وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی
می۔۔میں نے کیا کیا ہے کیوں لائے ہو مجھے یہاں
وہ چلاتی بولی جب بہرام نے اس کے سامنے ریسٹورنٹ والی تصویریں کی
اب بھی نہیں پتہ چلا
وہ اس کا منہ اپنے ہاتھوں سے دبوچتا بولا
مج۔۔مجھے نہی۔۔نہیں پتہ
وہ اس کے خوف سے اٹکتی بولی تھی جب ایک بار پھر اس کا بھاری ہاتھ اٹھا اور اس کے چہرے پر اپنا نقش چھوڑتا چلا گیا
جھوٹ ہرگز نہیں چلے گا اور بہرام شاہ سے تو ہرگز نہیں۔۔۔تمہیں کیا لگا تھا کہ تم یہ سب کرو گی اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا
وہ اس کے بالوں سے پکڑتے خوفناک تیور لیے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولا جس سے اسے خوف آنے لگا
وہ کچھ کہے بنا رونے لگ گئی تھی جب بہرام نے اسے دیکھتے کوفت سے سر جھٹکا
خاور
اس نے باہر کھڑے خاور کو آواز دی جس نے اندر آتے ایک آدمی کو نیچے فرش پر پٹخا تھا
اس کی حالت اتنی ابتر تھی کہ وہ اسے دیکھتے کانپنے لگی تھی اچھا خاصہ مارا گیا ہوا تھا اسے جگہ جگہ سے وہ زخمی تھا اس کا چہرہ خون سے بھر چکا تھا اور ایک ٹانگ پر گولی بھی لگی ہوئی تھی جو یقیناً اس کے بھاگنے کی کوشش کو ناکام کرنے کے لیے چلائی گئی تھی وہ درد سے کراہ رہا تھا
بہرام اس کے سامنے نیچے بیٹھتے بولا
میں نے کہا تھا نا کہ میری بیوی سے دور رہنا ورنہ بہت برا حال کروں گا۔۔۔۔
وہ کسی شیر کی مانند غراتے بولا
اس۔۔اس نے کچھ نہیں کیا
اس کی صفائی پر وہ طنزیہ ہنسی ہنسا تھا جب ایک گارڈ اندر آیا
سر!!!
اس نے اشارے سے کہا تو وہ خاور کو اشارہ کرتا وہ باہر کی جانب بڑھا
حال سے ابھی نکلا ہی تھا جب وہ اسے دیکھتے اس کے پاس آئی
بہرام۔۔۔آپ۔۔آپ ٹھیک تو ہیں کیا ہوا ہے۔۔۔
وہ اس کا چہرہ تھامتے بولی جو غصے سے سرخ ہو چکا تھا
میری جان۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں بس کچھ لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلانی تھی۔۔۔آؤ
وہ قدرے نارمل ہوتے بولا تا کہ وہ پریشان نا ہو سکے اور اس کا ہاتھ تھامتا اندر اسی کمرے میں آ گیا
انہیں دیکھتے حورم نے بہرام کا ہاتھ اور زور سے پکڑ لیا
بہرام نے اسے ریلیکس کا کہتے ایک کرسی پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے آیا
تم خود کو کیا سمجھتی تھی علینہ شیرازی!!!!ہنہہ
وہ اس کے سامنے آتا اس کا منہ دبوچتا بولا جس سے اسے لگا کہ اس کا منہ ٹوٹ جائے گا
تم دونوں نے ہمارے رشتے کو کیا سمجھا تھا کہ کوئی تیسرا ایسے ہی آ جائے گا۔۔۔
وہ چھوڑتا پیچھے ہٹا جب کہ وہ حیران بنے اسے دیکھ رہے تھے جب وہ ان کی شکلیں دیکھتا ہنسا
کیا ہوا۔۔۔یقین نہیں آ رہا کیا چلو میں بتاتا ہوں
***
بہرام لیپ ٹاپ پر جھکا کام کر رہا تھا جب حورم اس کے پاس آ کر بیٹھی اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسے اپنی جانب متوجہ کیا
کوئی بات کرنی ہے کیا
وہ لیپ ٹاپ بند کرتا بولا
جی۔۔وہ آج دوپہر کو مسٹر شیرازی کی کال آئی تھی
وہ خود بھی حیران تھی
ہمم۔۔۔۔کیا کہہ رہا تھا
اس نے حورم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے کہا
کسی ریسٹورنٹ میں ملنے کو کہا تھا۔۔۔کوئی امپورٹنٹ بات کرنی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ میں آپ کو نا بتاؤں۔۔۔۔لیکن میں نہیں جا رہی__
بہرام نے اسے دھیرے سے اپنے ساتھ لگایا اور ایک ہاتھ سے اس کے بال سہلانے لگا
لیکن آپ کل ملنے جا رہی ہیں
حورم نے اٹھنا چاہا لیکن بہرام نے اسے یونہی ساتھ لگائے رکھا
کچھ نہیں ہوتا۔۔۔گارڈز آپ کے ساتھ ہی ہوں گے اور آپ سن لینا کہ کیا کہتا ہے وہ۔۔۔سمپل
وہ اس کے سمجھانے پر ہی مانی تھی
***
پھر بھی تم لوگوں کو کیا لگا تھا کہ اگر حورم اس رات مجھے نا بھی بتاتی تو اتنا بے اعتبار رشتہ نہیں ہے ہمارا کہ ان چیزوں اور تم لوگوں سے اسے آنچ بھی آئے۔۔۔حورم اور بہرام علی شاہ کا عشق ہے نا کہ تم جیسوں کے لیے بے معنی رشتے کی مانند جو محض کاغذ کے ٹکڑے تک محدود ہے__
بہرام نے اپنا فون نکالا اور اس پر ایک ریکارڈنگ چلائی جو اس دن کی ساری گفتگو تھی جو حورم نے ریکارڈ کیا تھی
اور علینہ۔۔۔میں اگر خاموش تھا تو صرف اس لیے کہ تم ایک عورت تھی لیکن تم بدلے کی آگ میں اس قدر گر گئی کہ تم نے فرزام کے تھپر کا بدلہ لینے کے لیے حورم کو نقصان پہچانا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ نخوت سے بولتا مڑا
حورم۔۔آر یو اوکے
وہ اسے پریشان دیکھتا اس کے پاس آیا
بہرام۔۔چلے یہاں سے۔۔مجھے ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھنی
اس کے کہنے پر وہ اسے لیکر باہر کی جانب بڑھا اور پھر رک کر خاور کی جانب مڑا
اس باسٹرڈ کو تم ابھی اپنی قید میں رکھو گے خاور اور میں نے آج رات کی اس کی ٹکٹ کروائی ہے اسے اور اس کے بیٹے کو تم خود ائیرپورٹ چھوڑ کر آؤ گے اور اگر آج میں اسے چھوڑ رہا ہوں تو اس بچے کی وجہ سے ہی اور آئندہ اگر تمہارا سایہ بھی ہمیں اپنی زندگیوں میں دکھا تو نام و نشان مٹانے میں دیر نہیں لگاؤں گا
وہ سرخ آنکھیں لیے آخر میں عمینہ کو بولتا حورم کو لیے باہر نکل گیا
اسے پتہ تھا کہ ہوٹل میں تصویریں بنائی گئی تھی اس کے بندے شیرازی سے پہنچنے سے پہلے ہی ریسٹورنٹ میں موجود تھے اور گارڈز باہر۔۔۔۔۔اور کیمراز سے ساری تصویریں موصول ہو چکی تھیں۔۔۔۔اس نے اس کام کو صارم اور حیدر کے سپرد کیا تا کہ پتا لگ سکے وہ چاہتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔جب اسے تصویریں ملیں تب ہی صارم اور حیدر کی کلیکٹ کی گئی انفارمیشن بھی اس تک پہنچ چکی تھی اور جو چیز اس کے طیش کا سبب بنی وہ تھی علینہ۔۔۔۔ایک سال پہلے ہی اس نے شیرازی سے اپنے مفاد کے لیے نکاح کیا جبکہ شیرازی کا ایک اپنا بیٹا تھا پہلے ہی۔۔۔۔اور اب ان کی کالز ٹریسنگ سے یہ پتہ چلا تھا کہ علینہ بہرام کے نا ملنے اور سب کے سامنے فرزام کے تھپڑ کا بدلہ ان دونوں کی جان حورم کو برباد کر کے لینا چاہتی تھی اور نا جانے کیا اور بھی کرنے کے ارادے تھے
لیکن انہیں پہلے ہی خبر ہو چکی تھی اور آج اگر اس نے علینہ کو چھوڑا تھا تو وہ گھر پڑے اس اکیلے بچے کی وجہ سے وہ اسے دور بھیجنا چاہتا تھا تا کہ اس بچے کا مستقبل نا خراب ہو۔۔۔۔وہ ان کہ زندگی سے نکل چکے تھے یا نہیں۔۔۔۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتانے والا تھا
ایک مہینہ ہو چکا تھا اور اب سب نارمل ہی تھا اور انڈسٹری کو کامیابی حاصل ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ڈیزائنز میں حورم بھی کافی مدد کرتی تھی بہرام کے ساتھ مل کر اور اب ان کے ڈریسز کی ڈیمانڈ آؤٹ آف کنٹری بھی بڑھتی جا رہی تھی اور اس پر سونے پر سہاگہ بہرام نے اپنی کمپنی کے سپر پروجیکٹ میں بچوں کے سیکشن میں ارحام اور حورام کا فوٹوشوٹ کروایا جو کافی زیادہ مثبت رہا۔۔۔۔
بہت سی کمپنیز اور دنیا کی بڑی بڑی انڈسٹریز نے بچوں کے فوٹوشوٹ میں ارحام اور حورام کا کہا لیکن بہرام سہولت سے سب کو منع کر چکا تھا
ان دنوں میں اسے دنیا کہ سب سے بڑے ایوارڈ شو سے انویٹیشن بھی آ چکا تھا جو کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کی کوئین آف دی اینجل لاس اینجیلس میں منعقد تھا اور وہاں جانا بھی ضروری تھا جو تقریباً ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتا تھا انوائٹڈ تو فرزام بھی تھا لیکن وہ آبش کی حالت کے مد نظر نا منع کر چکا تھا
اور اب وہ حورم کے لیے سپیشلی ایک ڈریس ڈیزائن کروا رہا تھا اور ساتھ ہی حورام کا بھی سیم اور اس نے ارحام کو بھی ساتھ لے جانے کا ارادہ کر لیا تھا گو کہ ارحم نہیں مان رہا تھا لیکن بہرام منوا چکا تھا
آج ان کی کیلیفورنیا کی فلائٹ تھی۔۔۔آبش کی طبیعت کی وجہ سے وہ انہیں ملنے گھر ہی چلے گئے
سب سے ملنے کے بعد وہ ائیر پورٹ کے لیے نکل چکے تھے اور وہاں سے کیلیفورنیا جہاں ایک اور فتح ان کی منتظر تھی
تو بالآخر وہ دن بھی آ چکا تھا وہ اس وقت ہالی ووڈ اینٹرٹینمنٹ کے منبع لاس اینجیلس میں موجود تھے جہاں ہر طرف روشنیوں کا ہی سیلاب تھا
ایوارڈ شو کے لیے ساری تیاریاں بہت ہی شاندار طریقے سے کی گئی تھی جیسے یہ کوئی الگ ہی دنیا کا حصہ ہو۔۔۔۔۔
اس ایوارڈ شو کے دو ہوسٹ تھے جن میں فیمیل امریکہ کی تھی جبکہ میل ہوسٹ پاکستانی تھا سٹیج کو نت نئی جدید رنگ برنگی روشنیوں سے مزین کیا گیا تھا اور نشستیں حد درجہ پھیلی ہوئی تھیں کہ اس میں ہر ملک سے تعلق رکھنے والے مدعو کیے گئے تھے
انڈین یورپین ایشین بزنس مینز داخل ہو رہے تھے
اور بالآخر ایشین کپل کی آمد ہو گئی تھی روشنیوں میں نہائی ہوئی سرمئی رات میں ریڈ کارپٹ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور کناروں پر چمکتے سٹینڈ کے ساتھ گولائی کی طرح ہی لال رنگ کے ربنز تھے جبکہ سائڈوں پر تماشائیوں کا رش
کہ ان کے سامنے ایک لمبی چمچماتی کالی لیموزین آ کر رکی اور اس کا دروازہ کھلا جس میں سے ایشین مین اپنی ایشین بیوٹی کے ساتھ باہر نکلا تو سب کی توجہ ان کی جانب مڑ چکی تھی اور کیمرا مینز اور صحافی دھڑا دھڑ تصویریں لینے میں مصروف ہو چکے تھے اب تک کی لیڈیز کے مقابلے میں حورم کا ڈریس سب سے الگ تھا جو سب کو اپنی طرف متوجہ کر گیا
ریڈ کلر کی لانگ چمکتی میکسی میں وہ کئی اپسرا ہی لگ رہی تھی کیونکہ سرخ رنگ میں وہ الگ ہی روپ دکھلا رہی تھی کالے رنگ کی چکمتی مکیش اور موتی میکسی کے نچلے حصے کو قبضے میں کی ہوئی تھی جو اوپر جاتے جاتے چاروں طرف سے اس کی کمر کے نیچے تک آہستہ آہستہ کم ہو کر ختم ہوتی گئی نیچے سے اوپر تک یوں لگتا کہ جیسے سرد سرمئی شام میں دھند چھٹے اس کے بازو سلیوو لیس تھے جسے کوور کرنے کرنے کے لیے بہرام نے ایک سٹالر کی طرح کا بلیک اپر بنوایا جو بالکل اسی کالی مکیش اور موتیوں کی طرح تھا جو میکسی کے نچلے حصے پر تھی جو آگے سے اس کے گلے پر ایک پھول کی مدد سے اوپر گلے پر اٹیچ تھا اور اپر نیچے سے اوپن تھا اور اسے ایسے ہی پیچھے لے جایا گیا تھا کہ اس کے بازو کور ہو چکے تھے جو کہ ڈریس کو مزید خوبصورت بنا گیا
بالوں کو ون سائیڈ فرنچ کر کے پیچھے سے کھلے ہوئے تھے ڈیپ ریڈ لپسٹک لگائے کالی پینسل ہیل پہنے اپنے شہزادے کے بازو میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی اور خود اس کا شہزادہ کالے ٹیکسیڈو میں سفید رنگت لیے چمک دکھلا رہا تھا لیکن بہت سوں کی توجہ کا مرکز لٹل کیوٹ کپل تھا جہاں ایک لٹل پرنسس سرخ شارٹ فراک میں کوئی کھلے ہوئے گلاب کی مانند لگ رہی تھی جو اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کو پٹپٹا رہی تھی
اور لٹل پرنس اپنے چاچو کی طرح بلیک ٹیکسڈو میں اپنی گرین آنکھیں لیے بڑوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کروا رہا تھا
ریڈ کارپٹ پر چلتے وہ اندر پہنچ چکے تھے اور منتخب کی گئی سیٹس پر سب سے فرنٹ لائن پر ایک حسین فیملی کی مانند سپیشل کاؤچ پر بیٹھے____
دنیا میں ہر قسم کے بزنس میں موجود قابل بزنس مینز مدعو کیا گئے تھے۔۔۔۔۔۔
شو اپنی پوری تیاریوں سے جاری تھا جبکہ اب تک بہت سی لڑکیاں ارحام کے ساتھ سیلفیز لینے آ چکی تھیں جنہیں وہ بے زاریت سے دیکھتا بنوا رہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس پوز میں بھی کتنا کیوٹ لگ رہا تھا اور کچھ حورام اور ارحام کی تصویریں لینے آئے تھے۔۔۔۔۔۔
سٹیج پر ہر شعبے سے منسلک بیسٹ بزنس مین کو ایوارڈ دیا جا رہا تھا اور پھر فیشن کی دنیا میں موجود بڑے بڑے بزنس مینز کے نام نومینیٹ کیے گئے جب ہوسٹ جس کا نام معاذ تھا وہ بولا
تو لیڈیز اینڈ جینٹل مین۔۔۔۔اب تک کے جتنے ایوارڈز بھی دیے گئے ہیں وہ تو اپنے اپنے شعبے میں نامور رہا لیکن اب جنہیں سٹیج پر بلایا جائے گا
وہ ساتھ سٹیج پر چلتا جا رہا تھا
وہ سب سے الگ ہیں اگر وہ فیشن سے منسلک ہیں تو انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ بندہ واقعی ہی فیشن ایکسپرٹ ہے اپنے اپنے بزنس میں سب نے چاہے جتنا نام کمایا لیکن فیشن سب کی فرسٹ چوائس ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے پوری دنیا میں اپنے آپ کو منوایا کہ دیکھ لیں کہ ان کی برینڈز کہاں تک پہنچ گئی ہیں اور میں نے بھی اس شو کے لیے یہ سپیشل ڈیزائن کروایا ہے انہی کی کمپنی سے دیکھیں کتنا ہینڈسم لگ رہا ہوں
آخر پر وہ شوخی سے بولا جس سے سب ہنسنے لگ گئے اس کے بعد لیڈی ہوسٹ جس کا نام جیسمین تھا وہ آگے بڑھی
پتہ لگ رہا ہے کہ آپ کتنے ہینڈسم لگ رہے ہیں لیکن پھر بھی کوئی ہے جو آپ سے زیادہ لگ رہا ہے سو موسٹ ویلکم دی ینگ بیوٹیفل ڈیشنگ اینڈ ہاٹ ایشین ہنک میر بہرام علی شاہ
مائیک میں اس کی آواز گونجی جب ہر طرف تالیوں کا شور گونج اٹھا تھا بہرام کے چہرے پر ایک خوبصورت اور قاتلانہ مسکراہٹ آئی تھی جو چاروں طرف لگے بڑی بڑی سکرینز پر اسے کیمراز کی مدد سے زوم کر کے اس کا چہرہ دکھایا جا رہا تھا
بہرام ہلکا سا جھک کر حورم کی طرف مڑا اور اسے ساتھ لگائے کھڑا ہو گیا اور سٹیج کی طرف بڑھا
ارحام جو حورام کی طرف متوجہ تھا جو اپنی سرخ اور کالے رنگ کی سلیولیس فراک کے ساتھ الجھی ہوئی تھی اس کے ہاتھ پکڑے اپنے چاچو کو بھی دیکھنے لگا جب اسے اپنی انگلی پر کچھ محسوس ہوا
حورام___
اس نے اسے دیکھا جو اب اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی وہ اپنے چھوٹے چھوٹے دانت نکال رہی تھی اور زیادہ تر ارحام کی انگلیاں ہی شکار بنتی تھیں جنہیں وہ کاٹنے کی کوشش کرتی
وہ دونوں بھی سکرین پہ نظر آ رہے تھے
بہرام دو تین سٹیپ چڑھتا سٹیج پر پہنچا جہاں اس نے جیسمین سے ہیلو کیا جبکہ معاذ سے وہ بغل گیر ہوا اور اسے مبارک باد دی ایوارڈ بڑی شان سے اس کے ہاتھ میں جگمگا رہا تھا یہ لمحہ ویسے ہی قابل دید ہوتا ہے
اور وہ اب بھی بہت سی دھڑکنوں میں انتشار برپا کر رہا تھا سکرینز پر اسے ہی دکھایا جا رہا تھا جو سٹائلش سے بلیک ٹیکسیڈو میں تھا جس کی کالر کافی خوبصورت انداز میں بنائی گئی تھی جہاں سامنے سے نیچے بلیک چمکتے سٹونز تھے اور سب سے منفرد جو بنا رہا تھا وہ وائٹ شرٹ اور بلیک کوٹ پر قیمتی و پرکشش مفلر تھا جو کہ سفید کالے اور سرخ رنگ میں چیک کا بنا ہوا تھا جسے وہ سلیقے سے گلے میں ڈالے ہوئے تھا جیسے عموماً مہندیوں پر زیادہ تر دلہے کے گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور سامنے بیٹھے ارحام کا بھی یہی سٹائل تھا
ایک مائیک بہرام کی طرف بڑھایا گیا جہاں اس نے اپنی خوشی کا اظہار کیا جب معاذ مائیک میں بولا
سر ویسے ایک بات پوچھنی تھی کہ آپ نے بھابھی کا ڈریس بھی خود ہی ڈیزائن کروایا ہے
اس کی بات پر سب ہنسنے لگ گئے
کیوں۔۔۔کہیں آپ نے اپنے لیے تو نہیں بنوانا
بہرام مائیک میں بولا جب بڑے سے ہال میں اپنی اپنی نشستوں میں بیٹھے سب کا قہقہہ گونجا تھا
سر اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر میری بیوی نہیں تو جیسے ہو گی بھی نہیں
وہ ہنستے بولا
وہ اکثر پاکستان میں بھی مل چکے تھے
اچھا چلیں۔۔۔اسے چھوڑیں۔۔آپ کے لیے اتنا بڑا دن ہے آپ کو بھابھی کے لیے کچھ بولنا ہے کچھ کہیں لیکن رومینٹک سا__
اس بے رومینٹک پر زور دے کر لمبا کیا اس کی بات پر چاروں طرف ہوٹنگ کی آوازیں آنے لگیں
بہرام نے معاذ کو کچھ کہا جسے اس نے مائیکروفون میں پیچھے کچھ کہا
وہ ویسے بھی حورم کو کچھ سپیشل سنانا چاہتا تھا تو آج اس کے لیے بھی ایک خوشی کا موقع تھا تو اس نے مائیک آگے کیا اور بولنے لگا چونکہ اردو میں تھا جس سے معاذ کے کہنے پر ساتھ ساتھ انگلش میں ٹرانسلیٹ کر کے سکرین پر دکھایا جا رہا تھا
میں جب اس سے کہتا ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ
بتاؤ نا! کہ کتنی ہے؟
میں بازو کھول کر کہتا ہوں کہ
زمیں سے آسماں تک ہے
فلک کی کہکشاں تک ہے
میرے دل سے تیرے دل تک
مکاں سے لا مکاں تک ہے
وہ کہتی ھے، کہ بس اتنی!!!
میں کہتا ھوں
یہ بہتی ھے
لہو کی تیز حدت میں
میرے جذبوں کی شدت میں
تیرے امکاں کی حسرت میں
میرے وجداں کی جدت میں
سکرین پر حورم کا چہرہ واضح تھا
وہ کہتی ہے
نہیں کافی ابھی تک یہ
میں کہتا ہوں
ہوا کی سرسراہٹ ہے
تیرے قدموں کی آھٹ ہے
کسی شب کے کسی پل میں
مجسم کھنکھناہٹ ہے
وہ کہتی ہے یہ کیسے محسوس ہوتی ھے؟؟
میں کہتا ہوں
چمکتی دھوپ کی مانند
بلوریں سوت کی مانند
صبح کی شبنمی رت میں
لہکتی کوک کی مانند
وہ کہتی ہے
مجھے بہکاوے دیتے ہو؟
مجھے سچ سچ بتاؤ نا
مجھے تم چاہتے بھی ہو
یا بس بہلاوے دیتے ہو؟
میں کہتا ہوں
مجھے تم سے محبت ہے
کہ جیسے پنچھی پر کھولے
ہوا کے دوش پر جھولے
کہ جیسے برف پگھلے اور
جیسے موتیا پھولے
وہ کہتی ھے
مجھے پاگل بناتے ہو!!
مجھے کیوں اتنا چاہتے ھو؟
میں اس سے پوچھتا ہوں اب
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟
بتاؤ نا کہ، کتنی ہے
وہ بازو کھول کے
مجھ سے لپٹ کے
جھوم جاتی ہے
میری آنکھوں کو کر کے بند
مجھ کو چوم جاتی ھے
دکھا کے مجھ کو وہ چٹکی
دھیرے سے مسکراتی ھے
میرے کانوں میں کہتی ھے
فقط اتنی
بس اتنی سی۔۔۔۔!!
اس کی سریلی آواز چاروں طرف کوئی جادو چلا گئی تھی کوئی فسوں پھیلا تھا کہ ہر طرف خاموشی تھی اور اُس کا اظہار جو وہ پوری دنیا کہ سامنے کر چکا تھا اس نے حورم کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اپنی آنکھوں میں چمکتے جگنو لیے___
جب معاذ نے اسے بھی سٹیج پر آنے کو کہا کہ ایک بار پھر چاروں طرف ہوٹنگ تھی
وہ اٹھ کر سٹیج کی جانب بڑھی جب سٹیپ کے قریب پہنچ کر بہرام آگے بڑھا اور اپنا ہاتھ آگے کیا جس کو حورم تھامتی تین سٹیپس سے سٹیج پر آئی جب کہ ہر طرف تالیوں کی گونج تھی
ویٹ۔۔۔دس از ان کمپلیٹ
معاذ کہتا نیچے اترا اور سامنے بیٹھے ارحام اور حورام کی طرف بڑھا کیمرے کی مدد سے ان کے ہر موومنٹ کو دکھایا جا رہا تھا
وہ حورام کو اٹھائے اور ارحام کا ہاتھ پکڑے ان کے پاس آیا جنہیں اکٹھے دیکھتے سب اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر کلیپ کرنے لگے اور ان کے اوپر پارٹی بمز کی وجہ سے منظر اور حسین ہو گیا
ویسے ایک بات کہنا چاہوں گا۔۔۔۔اس چھوٹے پرنس کے فوٹوشوٹ کو دیکھتے میں آپ سے زیادہ اس کا دیوانہ ہو گیا ہوں
معاذ ارحام کو دیکھتے بولا جو تقریباً سب سے بے نیاز اپنے چاچو کے ساتھ کھڑا ادھر ادھر دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔۔وہ بالکل بہرام کی کاپی لگ رہا تھا اسی کی طرح گلے میں مفلر ڈالے اور حتیٰ کہ بالوں کا سٹائل لئیرڈ سائیڈ کامب بالکل بہرام کی طرح ہی تھا جو کہ دونوں کو سب سے الگ بنا رہا تھا وہ اکٹھے کھڑے ان کی تصاویر کھینچی جا رہی تھیں
بہت سے تو اس حسین منظر میں ہی کھو گئے بہت سوں کی آنکھوں میں ستائش تھی تو کہیں رشک تھا
بلاشبہ آج کا دن ان کے لیے بہت خاص تھا اور مزید خاص بن چکا تھا
بہت سی دلکش یادوں سمیت یہ رات بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی
وہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حورام بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جبکہ ارحام اسے آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگا
oh my God!!!!!!!
Horaam
وہ اس کی طرف بڑھا جو اپنی نیلی آنکھوں سمیت اسے دیکھنے لگی لیکن پھر اپنے مشغلے میں مصروف ہو گئی
Little Girl۔۔۔۔no Bad Girl۔۔۔۔
اس نے کہتے اسے دیکھا لیکن وہ بڑی سی چاکلیٹ پکڑے اس کھانے میں مصروف تھی لیکن اس سے چاکلیٹ کھائی نہیں جا رہی تھی بلکہ کھانے کی بجائے وہ چاکلیٹ اپنے آدھے منہ پر لگا چکی تھی اور ہاتھ بھی اس کے اسی چاکلیٹ میں ڈوبے ہوئے تھے اور ابھی وہ کھانے میں مصروف تھی بلکہ کھا کم اور لگا زیادہ رہی تھی
افففففففف
ارحام نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور اسے دیکھنے لگا جس کے دونوں گال چاکلیٹ سے بھرے ہوئے تھے ارحام نے ٹشو کا باکس پکڑا اور اسے دیکھنے لگا پھر اس کا منہ صاف کرنے لگا
حورام اسے گھورنے لگی پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ پر رکھا جس سے اس کی ناک پر بھی چاکلیٹ لگ چکی تھی اور اب اسے دیکھ کر ہنسنے لگی
حورام___
ارحام نے اسے گھورا جس پر حورام نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جو چاکلیٹ سے بھرے تھے انہیں ارحام کی دونوں آنکھوں پر رکھ دیے جس سے اس کی آنکھیں بھی خوبصورت منظر پءش کرنے لگیں
ارحام نے پہلے اس کے ہاتھ پکڑ کر صاف کیے پھر اس کا منہ اور پھر خود پر لگی چاکلیٹ کو ٹشو کی مدد سے صاف کیا اور اب بیٹھا اسے دیکھنے لگا
یہ حسین منظر سینٹا مونیکا سٹیٹ بیچ کا تھا جو کہ کیلیفورنیا کی سٹیٹ ہے اور لاس اینجیلس سے تقریباً پچاس میل کے فاصلے پر__
وہ یہاں قدرے ویران اور تنہا گوشے پر تھے جبکہ دور لوگوں کا رش تھا
ساحل سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ان چاروں کو خوش کن احساس میں مبتلا کر گئی جبکہ حورام اور ارحام بھی ان لہروں کو اپنی طرف آتے اور پھر واپس جاتے دیکھ رہے تھے
کچھ دن پہلے ہی حورام نے بابا بولنا شروع کیا تھا جس پر ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا اور کل اس نے مما بولنا سیکھا تھا__
ایک مہینے بعد حورم ارحام اور حورام کا برتھڈے تھا چونکہ ان تینوں کی ایک دن ہی سالگرہ تھی اور ساتھ بہرام کے ایوارڈ کی خوشی__اس نے ایک بہت بڑی گرینڈ پارٹی کا انتظام کرنے کا سوچا تھا تا کہ اتنی ساری خوشیاں وہ اکٹھے ہی سیلیبریٹ کریں اور ساتھ ہی صبح انہیں خبر ملی تھی کہ اللہ نے فرزام اور آبش جو ایک خوبصورت بیٹی سے نوازا تھا جس پر انہوں نے رات واپسی کا سوچا۔۔۔۔۔
امل بھی مصطفی کے ساتھ اپنے بیٹے عالیان کو لیے آ چکی تھی۔۔۔۔صارم اور ثنا کی شادی کی تیاریاں بھی شروع ہونے والی تھی جب حیدر نے اپنی پسند کا سب کو بتایا کہ وہ سارہ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اب ان دونوں کی شادی اکٹھی تھی کہ اب ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا__
ارحام سمندر کی طرف بڑھنے لگا جب اسے آواز آئی
حام!!!!
بہرام اور حورم نے بھی خوشگوار حیرت سے دیکھا
حام!!!
حورام اٹکتے بول رہی تھی
ارحام اس کے پاس آیا
ایک بار پھر بولو لٹل گرل
وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑے کہہ رہا تھا جب وہ ہنس پڑی اور منہ میں اپنی انگلیاں ڈالے نہ کرنے لگی
با۔۔۔با
وہ بہرام کی طرف بڑھی اور اس کی گود میں بیٹھ گئی اور ارحام کو دیکھنے لگی جب وہ بھی ان کے پاس آ گیا اور بہرام کی گردن میں پیچھے سے بازو ڈالے اب حورام کو گھورنے لگا جس پر حورام بھی جواباً اسے آنکھیں دکھا رہی تھی
جب کوئی پاس سے گزرتا فوٹوگرافر ان کی جانب متوجہ ہوا اور اس حسین اور مکمل فیملی کو ہنستے مسکراتے دیکھنے لگا
حورم نے بہرام کے کندھے سے سر ٹکا کر حورام کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب بہرام نے اسے کہا
اگر تم میری زندگی ہو تو ارحام میری سانسوں کی طرح ہے اور حورام میرے دل کی دھڑکن۔۔۔تم تینوں کے سوا کچھ نہیں__
حورم نے مسکراتے اسے دیکھا
حام!!!
وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورنے میں ہی مصروف تھے جب حورام نے اسے پھر پکارا اور اب ارحام ہنس پڑا اور اس منظر کو کیمرے کی آنکھ قید کر چکی تھی جس میں حورم بہرام کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی جبکہ ارحام بہرام کے گلے میں بانہیں ڈالے اس کے سر پر اپنی تھوڑی ٹکائے ہنستے حورام کو دیکھ رہا تھا
جہاں پر ایک حسین محبت کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی تھی وہی عشق کی داستان شروع ہونے والی تھی وہ عشق جو قربانی سے نا واقف ہو گا لیکن عشق تو قربانی مانگتا ہے___
عشق مظلوم ہے تو ، پھر ظالم کون ہے؟
عشق عبادت ہے تو ، کیوں معبود بدل جاتے ہیں؟
عشق مسیحا ہے تو ، کیوں روز دیوانے مرتے ہیں؟
عشق دوا ہے تو ، ہاتھ میں زہر کا پیالہ کیوں؟
عشق دعا ہے تو ، کیوں لوگ مانگنے سے ڈرتے ہیں؟
عشق ہمسفر ہے تو، کیوں پھر راہی بدل جاتے ہیں؟
عشق راستہ ہے تو ،کیوں پھر منزل نہیں ملتی؟
عشق آس ہے تو، کیوں ہر روز ٹوٹ جاتی ہے؟
عشق تسکین ہے تو ،کیوں رات بھر نیند نہیں آتی؟
سنو میرے ہمدم ، میں تم کو بتاتی ہوں۔
یہ ایسا روگ ہے جاناں ، کہ جسکو بھی لگ جائے۔
وہ جیتا ہے نہ مرتا ہے۔
آنکھیں بے اشک پتھرا جائیں۔
دل پھر بھی خون روتا ہے۔
تمہیں کس نے کہا پاگل عشق مظلوم ہوتا ہے؟
(๑(๑♡ ختم شد ♡๑)๑)