کمرے میں الارم کی آواز پورے زوروشور سے گونج رہی تھی لیکن کمفرٹر میں سوئے وجود پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اس نے کمفرٹر میں سے ہی ہاتھ نکال کر فون کو پکڑ کر اندر ہی کر لیا اور اگلے لمحے میں ہی کمفرٹر اسی تیزی سے دور اچھالا گیا
او مائی گاڈ میں اتنی دیر سے سوتی رہی؟آج تو آفس میں فرسٹ ڈے ہے
وہ تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر وارڈروب کی جانب بڑھی اور اس میں سے وائٹ باتھ روب نکال کر باتھ روم میں گھس گئی
تقریباً بیس منٹ بعد نکل کر پہننے کے لیے ڈریسز دیکھ رہی تھی
امممم۔۔۔۔۔۔ فرسٹ ڈے کیسا ڈریس ہو؟
وہ خود سے ہی بولتی آگے بڑھی اور ایک بلیک جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ نکالی وہ کبھی بھی تنگ ڈریسز چوز نہیں کرتی تھی ڈریس لے کر وہ ڈریسنگ روم میں چل دی تھوڑی دیر بعد باہر نکلی اور ہیئر ڈرائیر سے بالوں کو ڈرائی کرنے کے بعد ہلکے ہلکے کرلز کو نمایاں کیے اور ساتھ ہی بلیک لیدر کی جیکٹ نکال کے پہنی جس کے بازؤوں پہ لیدر کی ہی دھاریاں لٹک رہی تھیں اور شو ریک میں سے وائٹ لانگ شوز نکالے ہلکی سی ہیل والے اور پہن کے کنشول کے سامنے کھڑی ہو گئی اور سیفورہ کی چینل پرفیوم سے سپرے کیا اس کی تیاری ہمیشہ سے یہی ہوتی تھی کہ میک اپ کے نام پہ کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی
اتنی سی تیاری میں بھی وہ اچھا خاصہ ٹائم لگا چکی تھی
اففف۔۔۔۔ ورکرز بھی کیا کہیں گے کہ میں پہلے دن ہی لیٹ۔۔۔۔۔۔ اففف حورم جلدی کرو یار
اپنے سے ہی بولتی وہ دراز کھول کر اس میں سے رِسٹ واچ نکال کر اس نے اپنی نازک سی کلائی پر پہنی اور دراز کو بند کرنے ہی لگی تھی کہ اس میں ایک کالی ڈبیہ اسے نظر آئی اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے نکالا اور کھول لیا بے ساختہ ہی کسی یاد نے ذہن کے دریچوں پر دستک دی اور بے ساختہ ہی لب بھینچ گئی اس نے اس بلیو ڈائمنڈ کی نوز پن کو باہر نکال لیا چار سال پہلے کسی کا دیا ہوا تحفہ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری طرف سے آپ کے لیے ایک ادنیٰ سا تحفہ امید ہے کہ پسند آئے گا
پتہ نہیں اس انسان کو بلیو کلر اتنا پسند کیوں تھا لیکن وہ اسے سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی
تم ایک بار محبت سے پوچھ تو لیتے
یہ کب کہا تھا کہ بات ہی نہیں کریں گے
پتہ نہیں اسے کیا سوجھی اور اس نے اسے پہن لیا
دو سال پہلے جاتے وقت وہ اسے اتار کر رکھ گئی تھی اور آج دو سال بعد وہ اسے پہن رہی تھی پہننے کے بعد وہ وارڈروب کے مرر کے سامنے کھڑی ہو گئی
اور سر تا پیر جائزہ لیا
سفید لانگ شوز، بلیک جینز، وائٹ شرٹ پر بلیک لیدر کی جیکٹ اور گلے میں نیلا ڈائمنڈ کا نیکلس کھڑی ناک میں نیلی نوز پن اور سفید رنگت پر نیلی آنکھیں کسی کو بھی ایک نظر میں ہی مارنے کا ہنر رکھتی تھیں
ایسی آنکھوں پر غزل لکھنا مشکل ہو گا
ایسی آنکھوں پر تو قربان جوانی ہو گی
گاگلز ہاتھ میں پکڑے باہر نکل آئی کہ سامنے لاؤنج سے ہی فرحت بیگم مل گئیں
انہوں نے اسے دیکھتے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی کہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں اسے انہی کی نظر نہ لگ جائے
مما آپ ابھی تک نہیں گئیں مجھے تو لگا آپ چلیں گئیں ہوں گی؟
وہ ان کے پاس آ کر ان کے گال چومتے بولی
میری بیٹی گھر آئی ہے اور میں آج بھی جاتی آج میں آپکے لیے اپنے ہاتھوں سے ڈنر بناؤں گی
مما اس کی کیا ضرورت تھی
کیوں۔۔۔۔ کیوں نہیں ضرورت؟
اوکے میری پیاری مما ۔۔۔۔۔۔آااا۔۔۔۔۔ مام میں پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکی ہوں پلیز آ کے بات ہوگی سٹاف کیا کہے گا کہ پہلے دن ہی لیٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھڑی میں ٹائم دیکھتے بولی
ہاہا۔۔۔۔ اوکے دھیان سے جانا اور اپنا خیال بھی رکھنا
ان سے مل کر وہ جلدی سے باہر نکلی جہاں سروس ہوئی مرسڈیز کھڑی تھی اور ساتھ ہی ڈرائیور اس نے ڈرائیور کو چھٹی دی اور چابی خود لے کے سرعت سے نکل چکی تھی وہ ایسی ہی تھی بہت کم وہ ڈرائیورز کو ساتھ لیتی تھی
گاڑی ایک عالیشان بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں رک چکی تھی اس کی گاڑی کے بائیں طرف ایک نئی ماڈل BMW کھڑی تھی وہ تھوڑا حیران ہوئی لیکن یہ وقت ابھی سوچنے کا نہیں تھا چار منزلہ عمارت بہت ہی خوبصورتی سے تیار کی گئی تھی
گلاس ڈور دھکیل کر کے وہ اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ انٹریس کو بلیو اینڈ وائٹ کلر کے بیلونز اور دوسری چیزوں سے سجایا گیا تھا اور سامنے ہی ویلکم مائی ڈول بڑا کر کے لکھا ہوا تھا کبھی کبھار تو اسے اپنے آپ پر ہی رشک ہونے لگتا کہ اسے سب سے اتنا پیار ملتا ہے لیکن کیا اسے زندگی میں کسی کے پیار کے لیے ترسنا بھی پڑے گا؟
وہ ابھی یہ دیکھ ہی رہی تھی کہ اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے تھوڑا مڑ کر دیکھا ایک سٹائلش سی لڑکی اسے ہی تک رہی تھی حلیے سے وہ سیکرٹری لگی جبکہ وہ لڑکی تو ایک موم کی گڑیا کو دیکھ کے حیران ہی ہو گئ تھی اس نے جب چہرہ اس کی طرف موڑا تو ایک پل کے لیے تو وہ ایک لڑکی ہو کر کچھ نہ بول سکی اپنی نیلی آنکھیں لیے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی
ہیلو میم
I'm sure you are the sister of Sir Farzam Chaudhary
اس نے جلدی سے بولا
Yes but this is?
اس نے ڈیکوریشن کی طرف اشارہ کیا
میم سر فرزام نے کل ہی یہ ڈیکوریشن کروائی ہے۔
اوکے۔۔
چلیں میں آپ کو آپ کا آفس دکھا دوں
حورم اس کے ہمراہ آگے بڑھی اور لفٹ کے ذریعے تھرڈ فلور پر پہنچی سامنے ہی ایک راہداری تھی اور اس کے اینڈ پر اس کا آفس۔۔۔۔۔ وہ چلتی آگے بڑھی کہ سب ہی اسے دیکھ کے کھڑے ہو گئے اس پورشن میں سب لڑکیاں ہی تھیں۔۔۔۔۔ وہ سیکرٹری کے ہمراہ اپنے آفس پہنچی اور یہ کیا پورے آفس کو سجایا گیا ہوا تھا اور سامنے ہی کیک بھی پڑا ہوا تھا آفس کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی
بھائی بھی نہ؟
وہ آگے بڑھی تو اس کے اوپر لکھے ورڈز دیکھ کر ٹھٹھکی
ویلکم بیک حورم چوھدری
بعد کا پوچھتی وہ اس کی طرف مڑی جو کہ توصیفی نگاہوں سے آفس کو دیکھ رہی تھی یہ تو اس کے علم میں بھی نہیں تھا کہ سر شاہ نے ایسا ڈیکوریٹ کروایا ہو گا
سو آپ کا نام
حورم اب اس سے پوچھ رہی تھی
Mam، I'm Neena۔۔۔۔
سو مس نینا مجھے بھائی کے آفس کے بارے میں بتا دیں
میم سیکنڈ فلور پر سامنے سے لیفٹ لیکن۔۔۔۔۔
حورم جو باہر نکل رہی تھی اس کے لیکن کہنے پر ٹھٹھکی اور اس سے دیکھا
کچھ نہیں میم وہ بس وہاں۔۔۔
وہ ابھی بول رہی تھی کہ حورم نے اس کی بات کاٹی
اوکے میں دیکھ لوں گی آپ فکر نہ کریں
وہ کہہ کر باہر نکل گئی جبکہ نینا سر شاہ کے بارے میں سوچنے لگی کہ وہ تو کسی کو بھی اپنے آفس نہیں آنے دیتے تھے
جبکہ حورم لِفٹ سے سیکنڈ فلور پہنچ چکی تھی اور لفٹ سے باہر نکلی تو ہر کوئی اسے ہی تک رہا تھا کہ جیسے وہ اس وقت سب کچھ ایکسیپٹ کر رہے تھے لیکن ایک مومی گڑیا کو نہیں وہ سب کو نظرانداز کیے آگے بڑھ رہی تھی اس کی ہیل کی ٹک ٹک الگ ہی آواز پیدا کر رہے تھے جبکہ اینڈ پر بیٹھی سحر بھی حیرت میں مبتلا تھی کہ کون بغیر پوچھے سر کے آفس میں جا رہا ہے ہوش تو اسے تب آئی جب وہ لیفٹ مڑ چکی تھی
لو یہ توگئیں۔۔۔۔۔ ظالم بادشاہ کے پاس
حورم لیفٹ مڑ کر آفس کے دروازے تک پہنچی اور ابھی کھولنے ہی لگی تھی کہ دروازے کو پہلے ہی کسی نے کھولا اور آگے گرنے ہی والی تھی کہ کسی نے جلدی سے اسے پکڑ کر اپنی اور کھینچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس کے سامنے اس نے اپنی BMW روکی اور اندر کی طرف بڑھ گیا لیکن اینٹرنس پر ہی اس کے قدم رک گئے
یہ لڑکا بھی نہ؟
ڈیکوریشن دیکھ کر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا راہداری سے گزرتا اپنی سیکرٹری سحر کو اپنے آفس آنے کا کہہ کر آگے بڑھ گیا سارے ورکرز اس کی موجودگی میں مہذب رہتے ورنہ جب تک فرزام تھا تو وہ بھی کبھی کبھا ریلیکس ہو جاتے لیکن اس کی موجودگی میں مجال ہو جو کوئی لیٹ ہو یا پھر ٹائم کا ضیاع کرے
دروازہ ناک ہوا تو اندر آنے کی اجازت دیتے اس نے سارے دن کا شیڈول پوچھا اور تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا پھر گویا ہوا
Miss Sehar، Decorate Farzam's office with black and white ballons within one hour and a cake written with Welcome Hooram Chaudhary
اپنے ازلی لہجے میں بولتا شیڈول دیکھنے لگا
Okay Sir، but one hour۔۔۔۔۔۔?
وہ ہچکچاتے بولی
مس سحر میرے ایک گھنٹے کا مطلب صرف ایک گھنٹہ ہے
وہ موبائل پر کچھ دیکھتے تھوڑا غصے سے بولا
O۔۔۔okay Sir۔۔
جلدی سے جواب دیتی پلٹ گئی البتہ ذہن میں بہت سے سوال تھے کیونکہ کبھی بھی ان کے کھڑوس باس نے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی تھی اور اب ایسے کی فرمائش اور وہ بھی کسی لڑکی کے لیے حیرت کی بات تو تھی
ضرور ان کا تعلق سر فرزام سے ہو گا لگتا ہے بہت خاص ہیں؟
گھنٹہ سے بھی پہلے سجاوٹ کروا کے خود سے بولی البتہ نچلے فلور کی ڈیکوریشن سے انجان تھی
----------------
وہ اپنے آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ سامنے رکھا کسی سوچ میں گم تھا کہ ڈیکوریشن کمپلیٹ ہونے کی اطلاع ملی پھر کافی دیر فون پر میسجز میں بزی تھا جب آدھا گھنٹا گزر چکا اور فرزام کے آفس جانے کا اردہ کرتے ہوئے اٹھا اور فون پر دیکھتا دروزہ کھولا کہ کوئی اس پار سے اچانک ہی آیا اور اسے گرنے سے بچانے کے لیے اپنی اور کھینچا کہ تب ہی حورم نے حیرانگی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا اسے لگا کہ فرزام تو ہے نہیں آفس میں کوئی بھی نہیں ہوگا لیکن اب حیرانگی سے اس کالی آنکھوں والے ساحر کو دیکھ رہی تھی وہ اس وقت کچھ بھی توقع کر سکتی تھی لیکن یہ نہیں
بلیک سوٹ اور وائیت ڈریس شرٹ پہنے کالے بال جیل کی مدد سے کھڑے کیے کسی کو بھی پاگل کر سکتا تھا
کالی مقناطیسی کشش رکھنے والی آنکھیں اسے اپنی اور کھینچ رہی تھیں وہ اپنی نظریں ہٹانا چاہتی تھی لیکن ایسا کر نہ سکی مبہوت ہو کر اسے دیکھ رہی تھی اس نے اپنی نیلی آنکھوں کی بہت تعریف سنی تھی لیکن اس کے آگے اسے اپنا آپ بھی کم لگنے لگا وہ اس کی زندگی میں آنے والا شاید نہیں یقیناً پہلا مرد تھا جس نے اسے اپنی اور کھینچا تھا
اسے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ نے احاطہ کیا وہ آسانی سے سمجھ رہا تھا کہ حورم کی نیلی آنکھیں اس کی کالی آنکھوں سے ہیپناٹائز ہو رہی ہیں
حورم جو اس کی آنکھوں کے سحر سے ابھی نکل نہیں پائی تھی کہ اس کی مسکراہٹ پر کھو گئی اور اس پہ تضاد اس کے ہونٹ سے قدرے اوپر کالا تل اس کے حسین چہرے کو اور حسین بنا رہا تھا اس کا دل کیا کہ وہ اسے چھو کر دیکھے
آنکھوں کے سحر سے بھی نکل گئے، مسکراہٹ کے وار سے بھی بچ گئے
لیکن اس کے ہونٹ کے تل کے آگے
دل_____خود بخود ہی جھک گیا
(ازخود)
کمرے میں حورم کی چینل پرفیوم اور اس کی ڈائیور کی سیواگ پرفیوم کی خوشبو نے الگ ہی ماحول بنایا ہوا تھا کہ تبھی اس نے ذرا سا جھک کر اس کے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا
ویلکم مس حورم چودھری
کہہ کر اس نے آرام سے اپنے سے الگ کیا
حورم نے اس کے منہ سے نام سن کر ہی چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا آنکھوں میں بے یقینی واضح تھی
اس کی آنکھوں میں لکھے سوال کو پڑھ کر وہ دلکشی سے ہنس دیا اور اپنی سیٹ کی جانب بڑھ گیا
وقت آنے پر آپ کو آپ کے سارے سوالات کے جوابات مل جائیں گے
یہ سن کر اسے غصہ چڑھا اور کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ آفس کا دروازہ کھلا اور فرزام اندر آیا
بھائیی۔۔۔۔۔۔۔
حیرانی سے چلائی اور اس کے سینے سے لگ گئی
بھائی آپ بتا تو دیتے کہ آپ نے آنا ہے
اس نے سر اٹھا کر شکوہ کیا آخر دو سال کے بعد وہ مل رہی تھی
اگر بتا دیتا تو سرپرائز کیسے ہوتا
ان دونوں نے اس کی موجودگی کو از سر نو ہی فراموش کر دیا ہوا تھا کہ جبھی بولا
ایکسکیوز می؟شاید کوئی اور بھی یہاں ہے
وہ اٹھتا بولا
جواباً حورم نے منہ بنا لیا جبکہ فرزام اس سے بغلگیر ہوا
سنا اور میٹنگ کیسی رہی
شاہ نے پوچھا
ایک دم پرفیکٹ اور زرا تم دونوں میرے ساتھ کانفرنس روم میں آؤ۔۔۔
ان سے کہتا ان دونوں کو ساتھ لیتا وہ باہر نکلا جبکہ سٹاف ان تینوں کو ساتھ دیکھ کر حیران تھا بہت سو کی آنکھوں میں ستائش تھی درمیان میں بلیک اینڈ وائٹ میں کوئی موم کی گڑیا تھی اور اس کے دونوں طرف ان کے سر فرزام اور سر شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ان دونوں کو لے کانفرنس روم کا گلاس ڈور دھکیلتا اندر داخل ہوا جس کی دو دیواریں شیشے کی تھیں جس سے باہر کا منظر صاف دیکھائی دے رہا تھا اور باقی دو دیواروں پر lcd کے ساتھ پروجیکٹر کا سسٹم سیٹ کیا گیا تھا اور درمیان میں بڑی سی میز کے گرد کرسیاں۔۔۔۔۔
اس نے سربراہی کرسی پر حورم کو بیٹھایا اور شاہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ خود بھی بیٹھا اب البتہ پہلے کی نسبت تھوڑا سنجیدہ تھا
بھائی کیا بات ہے
اس نے اسے دیکھتے پوچھا
گڑیا دیکھو جو بھی میں کہوں گا غور سے سنو گی
اوکے؟
اس نے ہاں میں سر ہلایا
حورم اصل میں یہ کپمنی اس شہر کی مین برانچ ہے اور آج سے یہ تمھارے نام ہوئی اور اس کمپنی کے ففٹی شیئرز شاہ کے نام ہیں پچھلے دو سالوں سے اور اور اب ففٹی شیئرز تمھارے نام ہیں البتہ اب میں اس کمپنی میں نہیں ہوں گا آج سے میری سیٹ پر تم ہو اور ان پیپرز پر سائن کرو۔۔۔
نینا سے پیپرز وہ پہلے ہی منگوا چکا تھا جو اس نے نکال کر اس کے سامنے کیے جو اب تک بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی حیران تو شاہ بھی تھا لیکن چپ بیٹھا تھا ورنہ اس پر غصہ تو اسے بہت آ رہا تھا
حورم کیا ہوا؟
وہ اب تک کچھ نہیں بولی تھی اور فرزام کو ہی تک رہی تھی کہ اس نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا
بھا۔۔۔بھائی لیکن یہ سب میرا مطلب اتنی جلدی میں کیسے کروں گی سب ہینڈل ابھی تو مجھے کوئی ایکسپیرینس ہی نہیں پھر؟
حورم میں زندگی کے ہر سفر پر تمھارے ساتھ ہوں گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمھیں زندگی کے ہر موڑ پر کسی کی مدد کی ضرورت ہو گی اور ویسے بھی شاہ ادھر ہی ہے وہ تمھیں گائیڈ کرے گا آخر کو دو سال اکٹھے ہی پڑھ کر آئے ہیں۔۔۔
اس نے کہنے کے لیے بولنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی شاہ بول اٹھا
میرے خیال سے یہ بہتر فیصلہ ہے کیوں مس حورم چوھدری ؟
اس نے آخر میں اسے دیکھا جو اسے دیکھنے سے اجتناب کر رہی تھی
مجھے پتہ ہے کہ کونسا فیصلہ میرے لیے بہتر ہے اور کونسا نہیں مسٹر شاہ
وہ ہلکے سے غصے سے بولی اس وقت اسے اس مغرور انسان کا بیچ میں بولنا پسند نہیں آیا تھا اور پھر فرزام کی طرف مڑی جو کہ مسکراہٹ چھپا رہا تھا
لیکن بھائی میں اتنی جلدی نہیں کر سکتی؟
کیوں نہیں کر سکتی آخر کو حمدان چودھری کی بیٹی ہو فرزام چودھری کی بہن اور۔۔۔۔۔
وہ ابھی آگے بولنے لگا تھا کہ اس نے اس کی بات کاٹی
اوکے اوکے لائیں پیپرز میں سائن کر دوں
اس نے پیپرز پکڑے اور سوچتے ہوئے سائن کر دیے
That's like my doll۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب کھڑے ہو چکے تھے اور باہر نکل آئے
فرزام میں اپنے آفس ہوں کچھ کام پینڈنگ ہیں۔۔۔
لیکن یار اوپر تو آ نہ
نہیں ابھی نہیں
وہ حورم کی طرف دیکھتے بولا اور اپنے آفس کی طرف رخ کر لیا
ویسے بھائی اتنی ڈیکوریشن کی بھی کیا ضرورت تھی ؟
وہ ساتھ چلتے بولی
کیا مطلب کیا ضرورت تھی ؟میری گڑیا کا آج آفس پہلا دن تھا تو اتنا تو بنتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
Miss Neena، come to my office after few minutes۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ اپنی سیکرٹری کو کہتے وہ آفس میں داخل ہوا لیکن اس کی سجاوٹ دیکھ کر چونک گیا
واؤ۔۔۔۔۔زبردست۔۔۔۔۔
کیا مطلب بھائی یہ آپ نے نہیں کروایا؟
وہ اس کے تاثرات دیکھتی گویا ہوئی
آئی تھنک یہ شاہ نے کروایا ہے؟
وہ کیک کو دیکھتا بولا
حورم کو سنتے ہی غصہ چڑھا اور پچھلی ملاقات یاد آئی کہ تبھی نینا ناک کر کے اجازت لیتی اندر آئی
مس نینا، میرا آج آفس میں لاسٹ ڈے سو مجھے کمپنی کی ہر چیز کی انفارمیشن چاہیے
And she is my beloved sister Miss Hooram Chaudhary
اور کوشش کیجیے گا کہ انہیں کسی بھی شکایت کا موقع نہ ملے اور آپ ان کے ساتھ رہیں گی
وہ پوری ڈیٹیل بتاتا بولا جبکہ حورم سامنے صوفے پر بیٹھے جائزہ لینے میں مصروف تھی
Okay Sir and Welcome Mam۔
جواباً حورم نے سر ہلانے پر اکتفا کیا تو وہ نینا بھی چلے گئی
گڑیا کیا سوچا جا رہا ہے؟
وہ کب سے اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا کہ پوچھ بیٹھا
کچھ بھی نہیں بھائی۔۔۔
اس کے جواب پر وہ اٹھ کر اس کے ساتھ صوفے پر آیا اور اس کے ہاتھ تھام کر بولا
تو پھر میری گڑیا مسکرا کیوں نہیں رہی؟آپ بہت بدل گئی ہو ان دو سالوں میں، مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ آپ اتنی بڑی ہوگئی ہو کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے بھی شئیر نہیں کرو گی؟
جواباً اس نے اس کے بازو پر سر ٹکا دیا
بھائی انسان وقت کے ساتھ بڑا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات حالات اسے وقت سے پہلے بڑا کر دیتے ہیں اور
اور وقت تو بہت کچھ چھین لیتا ہے خیر میری تو مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اوپر سے آج جو کچھ ہوا۔۔۔۔۔۔
وہ افسردگی سے بول رہی تھی کہ آخر میں اس نے سر اٹھایا
حورم میری جان زندگی میں آگے بہت کچھ آنے والا ہے اور آپ نے ہر حالات کا سامنا کرنا ہے اور اس میں مجھے آپ ہمیشہ ساتھ پاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔۔۔
اچھا آپ ایسا کریں گھر چلیں جائیں آج تو کچھ بھی نہیں ہے مس نینا آج سے آپ کی سیکرٹری ہیں اور میں اسے بریفنگ دے دوں گا
وہ اٹھتے بولا اور ٹیبل سے کیک کا چھوٹا سا پیس اٹھایا اور حورم کی طرف بڑھایا
سوچا چکھ لیتے ہیں ورنہ جناب کا کیا پتہ؟
کیک کا ٹکڑا منہ میں رکھتا بولا
بھائی میں چلتی ہوں آج ماما گھر پر ہیں تو تھوڑا ٹائم سپینڈ کر لوں اور آپی سے بھی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔۔
وہ کھڑے ہوتے بولی
اوکے میں بھی کوشش کروں گا کہ جلدی گھر آ جاؤں
حورم نچلے فلور کی جانب بڑھ گئی جبکہ فرزام کا ارادہ شاہ کے آفس کی طرف تھا
نینا ایک بار پھر سے اسے دیکھتی رہ گئی وہ دونوں بہن بھائی کمال کے تھے
فرزام سر کی بہن تو ان کی طرح ہی خوبصورت ہے یار
نینا اپنی اسسٹنٹ سے بولی
اور سر شاہ کے ساتھ تو کیا کمال کی جوڑی لگ رہی تھی
بالکل یہ تو ۔۔۔۔میں نے پہلی بار نیچے دیکھا تو سچی پوچھو مجھے تو ایک موم کی گڑیا کا گمان ہوا تھا پتہ تو تب چلا جب انہوں نے رخ میری طرف کیا
ویسے آج کوئی خاص بات ہے کیا جو اتنی تیاری
یار بس سر نے کل کہا کہ ان کی بہن آنے والی ہیں تو تھوڑا بہت ڈیکور کروانا ہو گا اور پھر صبح سحر آئی کہ شاہ سر نے آفس ڈیکور کرنے کے لیے کہا ہے
ہممممم۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں کام کی طرف متوجہ ہو گئیں جبکہ نینا سوچ رہی تھی کہ پہلے ایک سے سامنا مشکل ہوتا تھا اب تو دونوں مغرور انسانوں سے کیسے کرے گی
وہ سیدھا اپنے آفس میں داخل ہوا اور کوٹ اتار کر ہینگ کیا اور بیٹھ کر پانی کا گلاس پیا اور سر پیچھے گرا لیا اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا پھر کچھ سوچ کر اس نے فون اٹھایا اور کسی کا نمبر ڈائل کیا کچھ دیر بعد فون اٹھا لیا گیا
ہیلو حیدر کیا صورتحال ہے؟
اس نے جھٹ سے پوچھا
سب کچھ تیار ہے لیکن شاہ تو ایک بار پھر سوچ لے کہ کیا یہ صحیح ہو گا میرا مطلب ہے کہ حورم کے ساتھ نہیں کوئی اور راستہ ڈھونڈتے ہیں جب حورم کو پتہ چلے گا تو اس کا ری ایکشن اور پھر کیا بعد میں تمھارا یقین کرے گی
حیدر میں تجھ سے جتنا کہا ہے تو اتنا ہی کرے گا اور میں سب کچھ پہلے ہی سوچ چکا ہوں اب بس کھیل شروع ہونے کا انتظار ہے
وہ دبے دبے غصے سے بولا
اوکے یار جیسی تیری مرضی
حیدر نے کہنے کے ساتھ ہی فون بند کر دیا تو اس نے فون ٹیبل پر پھینک دیا
وہ کافی دیر سے بیٹھا ہوا تھا کہ تبھی فرزام اندر داخل ہوا
اور اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا
کیا میں پوچھنے کا اہل ہو سکتا ہوں کہ فرزام چودھری نے یہ حماقت کیوں کی
وہ غصے سے بولا
آپ یہ پوچھنے کے بالکل بھی اہل نہیں
وہ غیر سنجیدہ تھا
فرزام میرے سے تو پوچھ تو لیتا کہ ابھی وہ واقعی اس قابل ہے یا نہیں وہ کیسے ہینڈل کرے گی؟
وہ تپ کر بولا
شاہ دیکھو اگر حورم کے ساتھ میں ہوتا تو وہ کبھی بھی سیکھ نہیں سکے گی کیوں کہ اسے پتہ ہو گا کہ ہر قدم پر میں اس کے ساتھ ہوں گا لیکن اب جب وہ اکیلی ہے تو اسے خود کچھ کرنا پڑے گا اور تجھ سے بڑھ کر کوئی ہینڈل نہیں کر سکتا یہ سب اور مجھے تم پر پورا یقین ہے
اس نے اب آرام سے کرسی سے ٹیک لگا لی
اتنا بھی یقین نہ کیا کسی پر؟
وہ باہر دیکھتے بولا
کسی پر کب کرتا ہوں بس تجھ پر ہے یار۔۔۔۔ اچھا اتنی دیر بعد آیا ہوں کافی ہی پلا دے
ہمممم۔۔۔۔ کہتا ہوں
کہتے ہی ریسیور اٹھایا
--------------------------------------------------------------------------
وہ ایک اندھیرے کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ساتھ اپنی ماں سے بات کر رہا تھا
اور مام سنائیں گھر کے حالات
کیا سناؤں عاشر کل کی آ گئی ہوئی ہے حورم اور پھر سے سب کے لاڈ اور پیار۔۔۔۔۔۔تمھارے باپ کو تو تم سے زیادہ اس کی فکر ہے
دوسری طرف سے رافعہ بیگم کی آواز آئی
مام چھوریں اس بات کو آپ بتائیں آپ کیسی ہیں
وہ تھوڑی دیر ان سے بات کرتا رہا اور پھر کال بند کر کے فون میں اس کی تصوریں نکال کے دیکھنے لگا
حورم تم خود نہیں جانتی کہ تم کتنی خوبصورت ہو اور شاید معصوم بھی۔۔۔۔۔۔
اسے پانچ سال پہلے کا منظر یاد آیا جب وہ پاکستان پہنچا تھا وہ رات کو گھر پہنچا اور صبح اس کا ٹکراؤ حورم سے ہوا وہ اسے کافی دیر بعد دیکھ رہا تھا ویسے تو وہ اگلے مہینے اس کی برتھ ڈے کے لیے آیا تھا
"عاشر بھائی آپ؟
وہ صبح سو کے اٹھی تھی کہ سامنے ہی عاشر تھا اور ہمیشہ کی طرح بولنا شروع ہو گئی
ویسے بھائی آپ میری برتھڈے میں آئے ہیں نہ اگلے مہینے میں سترہ کی ہو جاؤں گی"
"یار کیا سارا مزہ ہی خراب کردیا ویسے اتنے ہینڈسم بندے کو تم بھائی بول کر اس کی انسلٹ کر دیتی ہو"
وہ اپنی بھوری آنکھوں سے اسے گھورنے لگا
"ہینڈسم لڑکے کو بھائی بولنا اس کی انسلٹ ہوتی ہے؟"
وہ آنکھیں پھیلا کر پوچھنے لگی
"تو اور کیا"
"پھر روزانہ میں تو اتنوں کو بھائی بولتی ہوں ان سب کی انسلٹ کر دیتی ہوں ہائے انہوں نے کبھی شرمندگی سے پھر کہا ہی نہیں ہونا اچھا کیا آپ نے بتا دیا۔ ویسے آپ کو شرمندگی نہیں تھی ہوئی؟"
وہ معصومیت سے بولی۔
"ویسے تمھیں اتنا بھی معصوم نہیں ہونا چاہیے تھا؟"عاشر عجیب سے انداز میں بولا۔
لیکن اس کے پلے کچھ نہیں پڑا
اچھا ٹھیک ہے حورم پھر ملاقات ہوتی ہے میں فریش ہو جاؤں۔۔
اوکے بھائی
افففف۔۔۔ اوکے ٹھیک ہے
وہ کہتے اپنے پورشن کی جانب بڑھ گیا
فون پر ہونے والے میسج سے وہ حال میں واپس آیا اور کچھ میسجز کرنے کے بعد کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا
اور آخر کار تم دو سال بعد واپس آ ہی گئی ہو
حورم تم نے کیسے سوچ لیا کہ تم مجھ سے دور چلی جاؤ گی بالکل نہیں تمھیں واپس میرے پاس آنا ہی ہو گا ۔۔۔۔۔۔اور کوئی تمھارے پاس راستہ نہیں ہو گا
اس کا چہرہ نے ایک دم ہی سخت تاثرات اختیار کر لیے
حورم نے آج پورا دن اپنی ماں کے ساتھ گزارا تھا
فرحت بیگم ایک اینجیو چلاتی ہیں جبکہ حماد اور حمدان چودھری آج کل گاؤں کے کاموں میں الجھے ہوئے تھے یہ سچ تھا کہ وہ لوگ قدرے دور ہو گئے تھے لیکن اپنے گاؤں کو وہ نہیں بھولے تھے اور کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہتے تھے جبکہ رافعہ بیگم تو اپنے پورشن سے کم ہی نکلا کرتیں اور حورم کا سامنا بھی ان سے کم ہی ہوتا تھا
سہ پہر تک فرزام بھی گھر آ چکا تھا اور وہ تینوں کافی وقت کے بعد اکٹھے بیٹھے تھے انہوں نے امل کو بھی کال کی اسلام آباد میں وہ رہتی تھی اپنے شوہر مصطفیٰ اور ایک سال کے بیٹے عالیان کے ساتھ اور فلحال اس کا آنا مشکل تھا
فرزام پچھلے دنوں سے کافی تھک چکا تھا اور اوپر سے ائیرپورٹ سے سیدھا آفس چلا آیا تو تھوڑی دیر سونے کے لیے چلا گیا جبکہ تھوڑی دیر بعد حورم بولی
مما میں نا تھوڑی دیر کے لیے مال جا رہی ہوں کچھ چیزیں لینی ہیں
تو بیٹا کیسے جاؤ گی فرزام کو تو اٹھ لینے دو
مام ویسے ہی بھائی کافی تھکے ہوئے ہیں اور میں نے کونسا کچھ زیادہ شاپنگ کرنی ہے جلدی واپس آ جاؤں گی
اوکے لیکن حور اپنا دھیان رکھنا
وہ ان سے ہدایات لیتے باہر آ گئی اور گاڑی نکال کر کراچی کے مشہور مال کی طرف موڑ دی اسے کچھ زیادہ چیزیں نہیں چاہیے تھا بس اپنے لیے ڈریسز شوز وغیرہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کچھ لینے کے بعد وہ باہر نکل آئی تو اسے لگا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے لیکن جب اس نے سر اٹھایا تو کوئی بھی نہ تھا
وہ سر جھٹکتے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔
وہ صارم کے ساتھ مال آیا ہوا تھا اور صارم ثناء کے لیے کچھ پسند کر رہا تھا کہ اس کی نظر سامنے پڑی۔۔۔۔۔۔
میر!!!!
اس نے اس کا بازو ہلایا
ہممممم۔۔۔۔
وہ فون پر بزی تھا
یار وہ دیکھ حورم وہ بھی سامنے
اس نے اس کے کہنے پر سر اٹھا کر دیکھا ہمیشہ کی طرح ہی سب سے منفرد لگی اس نے بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیا ہوا تھا جس کے آخر پر موٹے موٹے کرلز تھے اور کچھ کرلی لیٹیں اس کے چہرے کے دونوں جانب تھیں جنہیں وہ بار بار پیچھے ہٹا رہی تھی
وہ اس کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ جلدی سے صارم کو لے کر پلٹ گیا
تو اس سے بات نہیں کرے گا
اس نے ساتھ چلتے پوچھا
صارم منہ بند رکھ ورنہ میں سارا غصہ تیرے پہ نکال دوں گا
وہ موبائل پر تیزی سے ٹائپ کرتے کہہ رہا تھا جبکہ وہ بڑے بڑے منہ بناتا ساتھ چل دیا
وہ مال کے بیک سائیڈ پر بنے پارکنگ ایریا میں آئی جہاں اس کی گاڑی پارک تھی اس نے سامان اندر رکھ کر سیدھی ہوئی ہی تھی کہ اسے پیچھے سے کچھ محسوس ہوا تو دیکھا دو آدمی اس کی طرف بڑھ رہے تھے اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو گئے وہ اطمینان سے ان کا جائزہ لینے لگی جسامت میں اچھے خاصے تھے کہ تبھی ایک بولا
دیکھو لڑکی اگر تو چاہتی ہے کہ کوئی تماشہ نہ ہو تو آرام سے ہمارے ساتھ چل
اوہ رئیلی اور تم لوگوں کو کیوں لگ رہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ چلوں گی
وہ تھوڑا سا فاصلہ مٹاتے بولی
اگر ایسے نہیں ماننا تو ٹھیک ہے ہمیں زبردستی لے کے جانا پڑا گا تجھے
اگر ہے ہمت تو کرو مقابلہ
اس نے جیکٹ کے بازو فولڈ کیے کہ تبھی ان میں سے ایک آگے بڑھا ابھی وہ اسے ہاتھ لگاتا کہ اس نے اچانک ہی دائیں ٹانگ سے حملہ کیا ۔۔۔۔حملہ اتنا اچانک تھا اس کے لیے کہ وہ دور جا گرا
اور دوسرا آگے بڑھا کہ اس نے ایک کک لگائی جس سےبلبلا کہ رہ گیا انہوں نے اسے عام ہی سمجھا تھا اور انہیں بتایا بھی یہی گیا تھا کہ وہ اسے آسانی سے قابو کر سکتے ہیں لیکن اب معاملہ ہی الٹ تھا وہ ان کا ہر وار ضائع کر رہی تھی کہ تبھی ایک بولا
دیکھ لڑکی ہم تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہمیں مجبور مت کر
اوہ نقصان۔۔۔۔۔۔ اگر نقصان پہنچانا ہوتا تو کب کے پہنچا دیتے
اس نے جلدی سے سائیڈ سے ایک لوہے کی راڈ پکڑی اور ایک کے سر پر ضرب لگائی تھی جبکہ دوسرا پہلے ہی بے ہوش تھا
چلو ایتھنز میں مارشل آرٹ کسی کام تو آئی
اس نے ایتھنز میں مارشل آرٹ میں kyuki-do ٹریننگ حاصل کی تھی اور کئی انعامات بھی جیتے تھے جس سے اس میں سیلف ڈیفینس اچھا خاصا تھا وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب ان کا کیا کرے یہ تو ایک پولیس کیس ہو سکتا تھا کہ تبھی تالیوں کی آواز گونجی اس نے چونک کر سر اٹھایا تو آنے والے کو دیکھ کر حیران ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔
وہ پارکنگ ایریا کی طرف بڑھا تھا کہ اسے سائیڈ سے کچھ آوازیں آنے لگیں اس نے دیکھا تو سامنے ہی فرزام چودھری کی بہن حورم چودھری کو دو آدمیوں نے گھیرا تھا ابھی وہ آگے جاتا یا کچھ کرتا کہ اس سے پہلے ہی وہ ان پر ٹوٹ چکی تھی وہ خود دیکھ کر کافی حیران ہوا تھا اس کے وار اور کراس کے طریقے سے مارنے کے انداز میں وہ سمجھ گیا کہ مارشل آرٹ میں چیپمئین رہی ہے
جب وہ دونوں کو نیم بے ہوش کر چکی تو وہ پیچھے سے تالی بجاتا نمودار ہوا
ویلڈن مس حورم چودھری ! آپ نے واقعی ہی حیران کر دیا؟
وہ توصیفی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اوہ تو مسٹر شاہ آپ یہاں
وہ حیران ہوتےمڑی
ویل میں تو میٹنگ کی بکنگ کے لیے آیا تھا یہاں لیکن میرے خیال سے ہم آفس میں نہیں تو نارمل بات کر سکتے ہیں؟
وہ اس کی طرف دیکھتے بولا
تو وہ طنزیہ ہنسی
نارمل ،لیکن یہ آپ کا خیال ہے اور میرے خیال کے مطابق مجھے یہاں سے چلنا چاہیے مسٹر شاہ
وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے اس کی کالی آنکھوں میں دیکھ کر کہنے لگی وہ بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا نیلی نوز پن اس کے چہرے پر جھلملا رہی تھی اس کی بات پر ہنس کر سر جھٹکا
اور کچھ کہتا کہ اس نے جلدی سے اسےہاتھ بڑھا کر اپنی طرف کھینچا وہ جو اس کے لیے تیار نہیں تھی اس کے سینے سے لگتے لگتے بچی لیکن اس کا ایک ہاتھ اس کے گرد جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے پسٹل نکال کر اس پر نشانہ لیا اور فائر کی آواز پر وہ جو پسٹل سے حملہ کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا لیکن اگلے ہی لمحے شاید اس کی زندگی نے اسے مہلت ہی نہ دی۔۔۔
اس کی اس حرکت پر حورم جی جان سے کانپ اٹھی اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ اس نے کیا کیا ہے وہ جھٹکے سے اس کا حصار توڑ کر نکلی
یہ۔۔یہ آ ۔۔آپ نے کیا کیا
وہ اب تک بے یقین تھی کہ کیسے اس نے آرام سے اس کا کام تمام کر ڈالا
کیا کیا کچھ تو نہیں
وہ آرام سے بولتا ان کی جانب آیا اور جس پر فائر کیا گیا تھا اس کے ہاتھ سے پسٹل لے کر دوسرے جس کے سر پر راڈ لگا تھا اس کے سر پر فائر کیا اور پسٹل کو صاف کر کے پہلے والے کے ہاتھ میں تھما دی جبکہ اپنی پسٹل کو رومال سے صاف کر کے دوسرے والے کے ہاتھ میں تھما دی اور آمنے سامنے کر دیا اور سب کام سے فارغ ہو کر اس کی طرف مڑا جو اب تک بے یقین تھی
حورم سے تو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا مانا کہ اس نے انہیں پیٹا تھا لیکن اس کا ارادہ انہیں پولیس کے حوالے کرنا تھا لیکن اس نے تو ان کا کام ہی تمام کر دیا تھا
اس نے آج پہلی بار کسی کا خون ہوتے دیکھا تھا
وہ ویسی ہی کھڑی تھی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر پچھلی سائڈ سے باہر لایا اور اسے ایک کرسی پر بیٹھایا
آپ۔۔۔ آپ کون ہیں۔۔۔۔ مجھے سچ سچ بتائیں ؟
وہ چلائی
اوہ تو تمھیں نہیں پتہ کہ میں کون ہوں؟
اس کے سامنے آتا بولا
میں میں بھائی کو بتاؤں گی؟
وہ ڈرتے بولی
تم اس بات کا کسی سے بھی ذکر نہیں کر رہی انڈرسٹینڈ؟
وہ سنجیدگی سے بولا
میں پولیس کو انفارم کر دوں گی؟
اس کی بات پر وہ ہنسا
تو کرو لیکن میرے سے پہلے تم اندر ہو گی کیونکہ پہلے حملہ تم نے ہی کیا تھا
آپ سچ سچ بتائیں کون ہیں آپ؟
وہ اس کے سامنے آ کر جھکا
دیکھ نہیں رہی مرڈرر ہوں دو لوگوں کو تمھارے سامنا مارا ہے۔۔
آپ بہت خطرناک ہیں۔۔۔۔
اس کی بات پر وہ دلکشی سے مسکرا دیا وہی جان لیوا مسکراہٹ وہ اس کے پیچھے کھڑا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے اور اس کے کان کے قریب جھکا اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ دیں
کبھی میری دسترس میں آؤ تو سہی پھر بتاؤں گا کہ کتنا خطرناک ہوں میں؟
اس کی بات پر وہ اسے اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی نہیں یہ سب نہیں ہونا چاہیئے تھا اس نے آنکھیں کھولیں اور اس سے دور ہوئی اور بنا کچھ کہتے بھاگ گئی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگا اور بیک سے باہر نکل کر کسی کو میسج سینڈ کیا اور فون رکھنے لگا کہ حیدر کی کال آنے لگی اس نے اٹھائی
ہیلو شاہ تو ٹھیک ہے یار؟
دوسری طرف سے بے چینی سے پوچھا گیا
ہمممم۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوں
اور حورم
وہ بھی ٹھیک ہے اچھی خاصی دھلائی کر دی تھی اس نے ان لوگوں کی؟
وہ سامنے دیکھتا بولا
یار لیکن اب زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
کھیل کا آغاز ہو گیا ہے حیدر اب دیکھتے جاؤ کیا کیا ہوتا ہے
وہ سرد لہجے میں بولا
تو بتا اسلامآباد ٹھیک ہے سب؟
ہممم۔۔۔۔ ٹھیک ہے یہاں
پھر رکھتا ہوں بعد میں بات ہو گی۔۔۔۔۔۔
فون بند کر کے وہ آرام سے نکل آیا جبکہ پیچھے لوگوں اور پولیس کی آواز اسے سنائی دینے لگی۔۔۔۔۔۔۔
وہ میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ڈیل کے لیے ڈسکشن چل رہی تھی کے مخالف پارٹی کے باس نے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا
میری طرف سے ڈیل ڈن۔۔۔
جبکہ اور تھوڑی دیر بعد اس پرائیوٹ میٹنگ کا اختتام ہوا اور وہ دونوں ان کو سی آف کرنے کے بعد واپس آ گئے
ویسے میر۔۔۔۔ میں ایک بات سوچ رہا تھا
صارم اس کی طرف دیکھتے بولا
اگر بکواس سوچ رہا ہے تو منہ بند ہی رکھنا
اسے نے اسے بھوری آنکھوں سے گھور کے کہا
یار کیا میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ڈیل کے لیے اتنی جلدی مان کیسے گئے؟
وہ سوچتے بولا
تو اس کے بارے میں نہ ہی سوچ تو اچھا ہے چل گھر چلیں
وہ اس کو لیے باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ وہ بھی اسے باتیں سناتا چل پڑا
وہ ابھی گھر میں داخل ہوا تھا تو اسے کچن سے آوازیں سنائیں دینے لگیں تو وہ مسکراتا ہوا اسی طرف آ گیا جہاں وہ کھڑی چائے بنارہی تھی اور یقیناً اس کی آمد سے بھی بے خبر نہیں تھی
کہ تبھی وہ اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا کہ وہ مسکراتی ہوئ پلٹی
تو آپ آ گئے ؟ کہاں پر تھے اتنی دیر سے؟
وہ مصنوئی خفگی سے بولی
جبکہ وہ اس کی بات پر مسکرا دیا
میں تو یہاں تمھارے پاس ہی تھا
ارحم میں سیریس ہوں میں کب کی ویٹ کر رہی تھی آپ کا اور آپ کے بیٹے نے اور تنگ کر کے رکھا ہوا تھا
وہ اس کی کالی گہری آنکھوں میں اپنی سرمئی آنکھیں گاڑھے پوچھ رہی تھی
ارحہ میری جان۔۔ ۔تھوڑا سا کام زیادہ تھا اسی لیے لیٹ ہو گیا
ارحم اس کا ہاتھ پکڑے کہہ رہا تھا کہ کسی کے رونے کی آواز آئی
لیں اٹھ گیا ہے آپ کا شہزادہ سنبھالے اسے جا کے اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بات پرنرمی سے مسکرا دیا اور اپنے بیڈروم کی جانب بڑھ گیا جہاں ان کی زندگی ان کا شہزادہ "ارحام شاہ" شور مچائے بیٹھے تھے