فرزام صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب آبش نے اسے پکارا
فرزام!!!
اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو بیڈ سے اٹھ کر اب اس کے پاس آ چکی تھی
اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
وہ۔۔وہ نا۔۔۔مجھے کچھ کھانا ہے
اس نے اٹکتے کہا
رئیلی آبش۔۔میرے خیال سے ہم نے ڈنر کیا تھا اور اب آدھی رات کو پھر سے بھوک۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ بند کر کے اب پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا
مجھے نہیں پتہ۔۔۔بس مجھے بھوک لگی ہے
اس وقت نا تو باہر جایا جانا تھا اور نا ہی کوئی ملازمہ آ سکتی تھی فرزام کچھ سوچتا اٹھا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اس نے تھام لیا
وہ اسے لے کر کچن میں آیا اور ایک کرسی پر بٹھایا اور کچھ سوچتے کیبنز کی طرف بڑھا
آبش آرام سے اس کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی
فرزام نے کچھ سوچتے پاستا بنانے کا سارا سامان نکالے ایتھنز میں وہ اور بہرام بناتے رہے تھے اسی لیے اس کی کوکنگ کافی اچھی تھی
تھوڑی دیر تک پاستا ریڈی تھا اس نے آبش کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی کچھ سنیکس بھی لے آیا
آبش کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر فرزام کو بھی نظر انداز کیے کھانے مشغول تھی جو اس کے سامنے بیٹھا اسے تک رہا تھا وہ حیران تھا کہ وہ اتنا کچھ کیسے کھا لیتی تھی
فرزام نے پلیٹس اٹھائیں تو وہ اب سنیکس کھانے لگ گئی
ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ آج کل تم زیادہ ہی نہیں کھانے لگ گئی
وہ واپس اس کے پاس آ کر بیٹھتا بولا جس پر آبش نے گھورا
کیا مطلب۔۔۔آج کل۔۔اس سٹیج میں اب بھوک لگتی ہے تو میں کیا کروں
وہ سنیکس بھی ختم کرتی بولی
چلو آؤ
وہ اٹھتا بولا اور اسے بھی ساتھ اٹھایا اور اسے لیے باہر باغیچے میں آ گیا
فرزام واپس آئیں نا۔۔۔سونا نہیں
وہ دروازے میں ہی رک گئی
بالکل نہیں۔۔۔آدھا گھنٹہ واک کرو گی پھر سونا ہے۔۔۔کھانے کے فوراً بعد نہیں سونا
وہ اسے لیے باہر آ گیا اور اس کے گرد بازو پھیلائے باتیں کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا
سیڑھیوں سے چڑھنے سے پہلے ہی فرزام اسے اپنی بانہوں میں اٹھا چکا تھا اور آبش اس کے گلے میں بازو ڈالے اسے دیکھنے لگ گئی اور مسکرا اٹھی
یار تم پہلے سے زیادہ موٹی بھی ہو گئی
کمرے میں لا کر اسے اتارتے بولا
فرزام!!!!!
اس کے بلانے پر وہ ہنسنے لگ گیا
اچھا نہیں کرتا اب ادھر آؤ رات بہت ہو گئی ہے اور ایک ہیلتھی بے بی کے لیے اچھی نیند بہت ضروری ہے
وہ بیڈ پر لیٹتا اس کا سر اپنے بازو پر رکھتے بولا اور اس کے بال سہلانے لگا اس نے دیکھا تو وہ تھوڑی دیر تک گہری نیند سو چکی تھی
وہ آج مطمئن تھا آج وہ بہرام سے ملنے بھی گیا تھا
ماموں کی جان کیا کر رہی ہے
وہ حورام کو پیار کرتے بولا وہ آج شاہ پیلیس موجود تھا اور اب حورام سے کھیل رہا تھا اور وہ اس سے کھیلتے ہی سو چکی تھی
کہ تھوڑی دیر تک بہرام کمرے میں داخل ہوا تھا فرزام اسے دیکھتا سیدھا ہوا
اب کیسے ہو
وہ آکر ان کے قریب بیٹھا تو فرزام نے پوچھا
تم شاید دیکھ کے بتا سکتے ہو کہ میں اب کیسا ہوں
وہ ہلکا سا مسکراتے بولا
بہرام۔۔میں تم سے معا۔۔۔۔۔
اس سے قبل کے وہ اپنا جملہ مکمل کرتا کے بہرام بول اٹھا
فرزام میں تمہیں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا ٹھیک ہے جو تم نے کیا تم اپنی جگہ صحیح تھے اور تمہاری نظر میں شاید حورم کی بھلائی اسی میں تھی۔۔۔جو ہوا سو ہوا اور یار پلیز یہ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کرو ہم جیسے پہلے دوست تھے ویسے ہی ہیں ایتھنز والے دوست۔۔۔۔کہ جو پورے ایتھنز پر چھائے تھے
اس کے کہنے پر فرزام آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گیا
شاہ یار تو واقعی ہی نا۔۔۔۔میں واقعی ہی شکر کرتا ہوں کہ حورم کی زندگی میں تو ہے
اس کی بات پر وہ بھی اسے گلے لگائے مسکرا دیا
فرزام وہ پل یاد کرتا پھر سے مسکرا دیا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا
وہ کمرے میں آئی تو دیکھا دونوں باپ بیٹی باتوں میں مشغول تھے اور حورام بہرام کی باتوں کو نا سمجھتے ہوئے بھی ہنس رہی تھی
حورم بھی بیڈ پر آ گئی جہاں درمیان میں حورام لیٹی ہوئی تھی اور اس کی سائیڈ پر بہرام الٹا لیٹا ہوا تھا وہ بھی دوسری سائیڈ پر آ کر نیم دراز ہو گئی
بہرام اب سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے اور کتنا خوبصورت ہے نا سب
وہ حورام کا ایک ہاتھ چومتے بولی
اور اس سب کو خوبصورت بنانے کے لیے شکریہ حورم۔۔۔میری زندگی خوبصورت بنانے کے لیے اسے مکمل کرنے کے لیے اس چھوٹی سی جان کے لیے شکریہ حورم
وہ پہلے حورام کا ہاتھ چومتے بولا اور پھر حورم کے ماتھے پر بوسہ دیتے بولا
حورام ان دونوں کے درمیان لیٹی انہیں دیکھ رہی تھی جب وہ ان دونوں کو دیکھتے رونا شروع ہو گئی
بہرام اور حورم نے اکٹھے اس کی طرف دیکھا جو اپنا نچلا ہونٹ ڈھیلا کیے رو رہی تھی
آآآ۔۔۔ماما کی جان کو کیا ہوا
وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہو چکے تھے جب حورم نے اس کا گال زور سے چومتے کہا اس کے چومنے پر وہ چپ ہوتے اپنا منہ بہرام کی طرف موڑ گئی
جس پر بہرام نے اس کے دوسرے گال کو دیکھتے زور سے چوما تھا
حورام نے اپنا منہ دوبارہ حورم کی طرف موڑ لیا لیکن حورم نے پھر ویسے ہی کیا جب اس نے بہرام کی طرف دیکھا تو بہرام نے پھر اس کے گال پر بوسہ دیا
پھر ایسے ہی وہ جب حورم کی طرف دیکھتی تو وہ چومتی اور بہرام کی طرف منہ کرنے پر وہ اس کا گال چومتا جس سے اس کے دونوں گال سرخ ہو چکے تھے
آخر میں وہ دونوں کی بجائے سیدھا اوپر دیکھنے لگ گئی جس سے بہرام اور حورم نے اکٹھے اس کے دونوں گالوں کو زور سے چوما تھا جس پر اب کی بار وہ اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے ملائے کھلکھلانے لگ گئی اور پورے کمرے میں اس کی کھلکھلاہٹ اور مدھم سی ہنسی گونجنے لگی جس پر اس کی معصوم اداؤں کو دیکھ کر بہرام اور حورم بھی ہنس دیے__
حورام سے ان کی زندگی حسین رنگوں سے مزین ہو چکی تھی جس نے انہیں مکمل کر دیا تھا
سورج ایک حسین صبح کو لیے طلوع ہو چکا تھا اور چڑیوں کی چہچاہٹ نے ماحول کو اور خوشگوار بنا دیا ہوا تھا ایسے میں وہ دونوں شاہ پیلیس داخل ہوتے نظر آئے تھے__
بہرام پھر سے جاگنگ سٹارٹ کر چکا تھا اور ارحام کو وہ اپنے ساتھ ضرور لے کر جاتا تھا ارحم واپس اسلام آباد گیا ہوا تھا لیکن ارحام کی ضد کی وجہ سے ارحہ کو مجبوراً اس کے ساتھ ادھر ہی رکنا پڑا وہ اپنی لٹل گرل کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا__
وہ لان سے گزر رہے تھے جب ان کی نظر حورم اور حورام پر پڑی جو نرم گھاس پر اسے لیے کھیل رہی تھی انہیں دیکھنے پر ان دونوں کے لب مسکرا اٹھے اور اسی طرف آ گئے
آپ آ گئے۔۔۔اسے ذرا پکڑیے گا میں اس کا فیڈر بنا لاؤں
انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر حورام کو ان کے حوالے کیے حورم اندر بڑھ گئی
تو بابا کی پرنسس صبح صبح ٹھنڈی ہوا لینے آئی ہے
بہرام اسے ریڈ اور وائٹ ٹراؤزر شرٹ میں دیکھتے بولا جو اس چھ ماہ کی بچی پر بہت جچ رہا تھا
ارحام بھی ادھر بیٹھتا اسے دیکھنے لگا اور اسے اپنے کھلونوں سے کھیلتا دیکھ کر ہنسنے لگا
چاچو ہم اس کو چلنا سکھائیں۔۔۔جب یہ چلنا سیکھ جائے گی نا میں اسے بہت کچھ سکھاؤں گا
ارحام بڑے اشتیاق سے بولا
پھر بہرام نے اسے اٹھایا اور ایک طرف سے حورام کو بہرام نے پکڑا تو دوسری طرف سے ارحام نے پکڑا ہوا تھا اور اسے سہارہ دیے تھوڑا سا چلایا جس پر وہ ان دونوں کو دیکھتے ہنسنے لگ گئی
ارحام کو تو اسے دیکھ کر نا جانے کیا ہو رہا تھا وہ چاہ رہا تھا کہ وہ ہمیشہ یونہی ہنستی رہی اسے اس کی نیلی صاف شفاف سی ہنستی آنکھیں بہت پسند تھیں
بہرام مسکرا کر اسے دیکھنا لگا جو ان دونوں کے سہارے تھوڑا سا چلنے کی کوشش کر رہی تھی پھر بہرام نے اسے گھاس پر ہی بٹھا دیا اور اس کے دونوں ہاتھ چوم کر اس کا ماتھا چوما
پھر وہی گھاس پر لیٹ گیا جس پر حورام اس کے ایک بازو کے ساتھ لیٹی تھی اور ارحام اس کے دوسرے بازو کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی اور پھر ان دونوں سے باتیں کرنے لگ گیا
جبکہ حورم لان میں آتی ان تینوں کو دیکھ کر مسکرانے لگی
دوپہر کا وقت تھا جب حورم حورام کو سلا کر سیدھی ہوئی تو اس کے فون پر کال آنے لگی ان ناؤن نمبر دیکھتے ہوئے اس نے اٹھائی
ہیلو۔۔۔حورم شاہ بات کر رہی ہیں
مردانہ آواز ائیر پیس سےآئی
جی۔۔۔آپ کو کوئی کام تھا
حورم نے جواباً کہا
جی۔۔وہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔
اس کے کہنے پر وہ حیران ہوئی
لیکن آپ ہیں کون اور کیوں ملنا چاہتے ہیں
اب وہ تھوڑے سخت لہجے میں بولی
میں شیرازی ہوں اور ایک کام تھا ریکویسٹ سمجھ لیں پلیزز
یاد کرنے پر حورم کو یاد آیا تو وہ تھوڑا حیران ہوئی اس نے ایڈریس بتایا جو کسی مشہور ریسٹورنٹ کا تھا وہ فون رکھنے لگی جب وہ بولا
پلیز بہرام شاہ کو مت بتایے گا
اس کے آخری الفاظ سنتے وہ فون رکھ چکی تھی اور تھوڑی دیر سوچتے سر جھٹکتی کمرے سے باہر نکل آئی
رات اپنے پر پھیلائے بیٹھی تھی جب وہ کمرے میں آئی ارحہ سے باتیں کرتے ٹائم گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور اب وہ کمرے میں آئی تو دیکھا حورام بے بی پنک ٹراؤزر شرٹ پہنے بہرام کے سینے پر لیٹی سو رہی تھی اور بہرام بھی بلیک ویسٹ پہنے شاید سو چکا تھا
وہ نائت ڈریس لیتی چینج کرنے چلے گئی اور باہر نکل کر بیڈ پر ٹک کر انہیں دیکھنے لگی جو سو رہے تھے
تھوڑی دیر اور گزری پھر اس نے بہرام کو ہلایا
بہرام۔۔۔بہرام
اس مے ایک دو دفعہ پکارنے پر اس نے آنکھیں کھول کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
مجھے بھی سونا ہے
اس کے کہنے پر بہرام نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا
حورم یار اتنی جگہ ہے سونے کے لیے
اس کے کہنے پر وہ رونا شروع ہو چکی تھی بہرام حورام کو درمیان پر لٹاتا اٹھ بیٹھا
حورم ادھر دیکھو کیا ہوا ہے۔۔مجھے بتاؤ
اس نے اس کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹاتے کہا
اتنے دن ہو گئے ہیں مجھے سہی سے نیند ہی نہیں آتی۔۔میرے سے نہیں سویا جاتا ایسا۔۔۔آپ کو پتہ ہے کہ میں آپ کے سینے پر سر رکھ کر سوتی ہوں پھر بھی آپ ہر روز مجھے اگنور کر دیتے ہیں
وہ بولتے پھر بری طرح رونا شروع ہو چکی تھی بہرام نے حیرانگی سے اسے دیکھا
Don't tell me
حورم کے تم اپنی بیٹی سے ہی جیلس ہو رہی ہو
بہرام مسکراہٹ ضبط کرتا اسے اپنے ساتھ لگائے بولا
میں جیلس نہیں ہو رہی اب مجھے ایسے نیند نہیں آتی تو میں کیا کروں آپ دونوں باپ بیٹی تو سو جاتے ہیں
وہ اس کی بلیک ویسٹ کو ہاتھوں سے پکڑتے ابھی بھی رو ہی رہی تھی
اوکے تو پھر کیا کریں ہم
وہ اسے کہتا سوچنے لگا
حورام کو بے بی کاٹ میں سلا دیتے ہیں نا
وہ روتے چپ کرتے اتنی معصومیت سے بولی کہ بہرام کو وہ حورام سے بھی زیادہ معصوم لگی
ہم اپنی بیٹی کو اب بے بی کاٹ میں سلائیں گے کیا۔۔۔۔
لیکن حورم اس کے کہنے کی پرواہ کیے بغیر اٹھی اور حورام کو آرام سےاٹھا کر بے بی لاٹ میں لٹا کر اس کو چوم کر واپس آئی
یہ دیکھیں ہمارے پاس ہی تو ہے
وہ اب بہرام کے پاس آتی بولی اور اس کے سینے پر سر ٹکا کر بازو اس کے گرد پھیلا لیے بہرام نے بھی مسکراتے اسے بازؤوں کے حصار میں لے لیا اور مسکراتے اس کے بالوں پر اپنے لب رکھے
وہ دونوں سونے کی کوشش کر رہے تھے جب حورام کے رونے کی آواز آئی
حورم نے اسے روتے دیکھ کر جلدی سے اٹھ کر اسے کاٹ سے نکالتے اپنے ساتھ لگا لیا
ماما کی جان کو کیا ہو گیا
وہ اسے بیڈ پر لاتی بہرام کے پاس بیٹھتی بولی کہ تھوڑی دیر تک وہ خاموش ہو کر دیکھنے لگی اور ایسے ہی آنکھیں موند گئی
میرے خیال سے سو گئی ہے اب کاٹ میں لٹا دو
بہرام نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کرے گی
بالکل نہیں۔۔۔آگے دیکھا نہیں کیسے اٹھ گئی اب تو میں بالکل دور نہیں کروں گی
وہ حورام کو اپنے ساتھ لگاتے بولی
پھر ہم کیسے سوئے گیں
بہرام کو کہنے پر وہ سوچنے لگ گئی
کیسے سوئیں گے اب۔۔۔میں اسے اب کاٹ میں نہیں لٹا رہی
اس کے کہنے پر بہرام نے حورام کو اس سے لیے لیا
میری معصوم سی جان۔۔۔ادھر آؤ
وہ حورام کو اپنے ساتھ لگاتا لیٹتے بولا
حورم اس کے پاس ہی لیٹتے اس کے بازو پر سر ٹکا لیا تو بہرام نے اسے مزید خود سے نزدیک کیا تھا جس سے وہ اس کے آدھے سینے پر آ چکی تھی اور حورام کو بھی اپنے آدھے سینے پر لٹا لیا جس سے ایک ہاتھ اس کا بہرام پر تھا باقی دوسرا ہاتھ حورم کے اوپر__
ہم ایسے سویا کریں گے تا کہ میری دونوں معصوم جانیں میرے سینے پر ہوں
حورم نے اپنا بازو حورام کے اوپر سے لے جاتے ہوئے بہرام کو کس سے پکڑا اور اس کی ایک ٹانگ بھی بہرام کے اوپر تھی
اب سہی ہے
حورم نے ہنستے کہا__
تھوڑی دیر تک تینوں ہی نیند کی وادیوں میں گم ہو چکے تھے جہاں ہر طرف سکون ہی تھا