دیکھیں ہم نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ کو ہر خبر کے لیے تیار رہنا ہے__
ڈاکٹر نے ایک نظر سب ہر ڈالی جو سانس روکے آگے کے منتظر تھے
ہم گولی نکال چکے ہیں لیکن ہیڈ انجری کی وجہ سے وہ کوما میں جا چکے ہیں
حورم دو قدم پیچھے ہوئی تھی اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا سانس رک رہا ہو__مطلب کے ابھی اس کی آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی
اور ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ انہیں کب تک ہوش آئے گا_ایک ہفتہ،ایک مہینہ،ایک سال__کچھ نہیں کہا جا سکتا__گولی اور ہیڈ انجری سے وہ جلد ہی ریکور ہو جائیں گے لیکن اس سٹیٹ سے وہ کب باہر آئیں گے نہیں بتا سکتے__باقی جو اللہ کو منظور__
ڈاکٹر بتا کر جا چکے تھے
حوصلہ رکھو جوان__تمہیں نے ہی سب کو سنبھالنا ہے
ارحم جو یہاں سے غائب ہونا چاہتا تھا کرنل سعید کی آواز پر انہیں دیکھنے لگا انہوں نے اسے گلے لگا لیا
انکل آپ جانتے ہیں نا کہ مام ڈیڈ کے بعد وہی تو ہے میرے پاس__بھائی کی طرح نہیں بیٹے کی طرح پالا ہے__ارحام اور بہرام دونوں مجھے ایک سے عزیز ہیں
وہ شکستہ لہجے میں بول رہا تھا__اس کا دل کر رہا تھا کہ روئے لیکن وہ رو نہیں سکتا تھا
انہوں نے اسے حوصلہ دیا جبکہ تھوڑی دور بینچ پر بیٹھی حورم سر جھکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی لیکن آنسو پھر بھی راستہ بناتے بہہ نکلے__وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اب تک کا کتنا رو چکی ہے آبش اسے اپنے ساتھ لگائے چپ کرا رہی تھی گو کہ وہ خود بھی ٹوٹ چکی تھی
فرزام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اب کس طرح حوصلہ دے اسے جب حورم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا
آپ۔۔۔آپ نے نہیں کہا نا اسے بھائی۔۔۔دیکھیں وہ نہیں اٹھ رہا اسے کہیں نا کہ اب بس کرے نا کب تک مجھے میرے نا کردہ جرم کی سزا ملتی رہے گی
وہ اس کے سینے سے لگے بول رہی تھی جب اس سے الگ ہوئی
یہ۔۔یہ مجھے آپ سے وعدہ توڑنے۔۔کی سزا ملی ہے نا۔۔۔لیکن بھائی میں۔۔میرا خود کا ارادہ۔۔نہیں تھا بہرام سے ملنے کا۔۔۔اب آپ کہتے ہیں نا کہ نا ملوں۔۔پکا وعدہ نہیں ملوں گی
لیکن اسے کہیں کہ اپنی آنکھیں کھولے
وہ ہچکیوں سمیت بری طرح روتے بولی
اسے کہیں اٹھ جائے نا۔۔۔اب۔۔اب میں بہرام کی آواز کب سنوں گی بھائی۔۔۔کب ان آنکھوں میں دیکھوں گی۔۔۔۔بھائی
وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھے بول رہی تھی جب فرزام بھی اس کے پاس بیٹھ گیا
صبر کرو حورم__
وہ اس کے آنسو صاف کرتا بولا
صبر۔۔۔صبر اب کتنا صبر کروں بھائی۔۔۔اب اور نہیں ہوتا۔۔۔ہر بار میں نے صبر کیا آپ لوگ جو کرتے رہے میں نے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔میرا عاشر سے نکاح کے وقت میں نے کچھ نہیں پھر بہرام سے نکاح کے وقت میں خاموش رہی اور جب آپ نے ہمیں الگ کیا تھا تب بھی تو صبر ہی کیا تھا کچھ نہیں بولی تھی اور کتنا صبر کروں اب تھک چکی ہوں
وہ چیختے روتی فرزام کے سینے سے لگی مدھم آواز میں بولنے لگی جبکہ فرزام کے دل پر تو جیسے برچھیاں چل رہی تھیں
فرزام کے آنسو اس کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔حورم کو اس حالت میں دیکھنا بہت مشکل تھا اس کے لیے
بہر۔۔بہرام کو ٹھیک ہونا ہو گا نا
وہ مدھم بولتے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی۔۔اس میں اتنی ہی سکت تھی___
وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسے نیند بالکل نہیں آ رہی تھی__اسے سب پہ غصہ آ رہا تھا کہ آگے وہ چار مہینے اپنے چاچو سے مل نہیں سکا تھا اور اب بھی کوئی اسے ملنے نہیں دے رہا تھا اور آج تو اس کا برتھڈے بھی تھا کتنا مزہ آتا کہ وہ اپنے چاچو کے ساتھ یہ دن گزارتا لیکن آج کا دن پھر بھی اس کے لیے خاص بن چکا تھا کہ اس کی سوچیں بھٹکتی ہوئی اس بے بی گرل پر چلی گئیں
آج تو Baby Girl کی برتھڈے بھی ہوئی نا مطلب کے ہم دونوں کا برتھڈے سیم ہے
اسے انجانی سی تھوڑی سی خوشی ہوئی تھی جو اسے ابھی محسوس نا ہو سکی
اس کے لپس کا تل بالکل چاچو کی طرح تھا
وہ سوچنے لگا وہ تو آگے اپنے چاچو کا دیوانہ تھا
یہ اس کی پہلی برتھڈے تھی جب اسے کسی نے گفٹ نہیں دیا تھا لیکن آج کے دن کا گفٹ شاید اس کی زندگی کا سب سا خوبصورت گفٹ بننے والا تھا جس سے ابھی وہ خود بھی انجان تھا
اس کے پوچھنے پر ارحم نے اس سے کہہ دیا تھا کہ اب ایک منتھ تک وہ دوبارہ بے بی گرل سے نہیں مل سکتا تھا اور انہی سوچوں میں گم وہ کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا اسے خبر ہی نا ہوئی
ہسپٹل کے پرائیوٹ روم میں سمائرہ بیگم اسے گلے لگائے چپ کروانے میں مصروف تھیں جبکہ ارحہ دوسری طرف بیٹھی تھی اور آبش سامنے__فرزام نا جانے کہاں تھا رات کو حورم کی طبیعت مزید بگڑ چکی تھی
بیٹا اب کتنا روئیں گی آپ۔۔۔اب بس کر دیں
وہ اس کے بال ٹھیک کرتی بولیں
جب ارحم کمرے میں داخل ہوا اس نے ارحہ کو اشارہ کیا تو وہ اٹھ گئی اور ارحم حورم کے پاس بیٹھا وہ کچھ دیر پہلے بہرام کو مل کے آیا تھا لیکن اسے دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا
حورم ادھر دیکھیں میری طرف
ارحم نے اسے متوجہ کیا اس کی شخصیت سب سے الگ تھی اور اس کی آرمی لک اسے سب سے منفرد بناتی تھی
حورم نے سر اٹھا کر بمشکل دیکھا آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں
حورم آپ اگر ایسا کریں گی تو آپ کی طبیعت مزید بگڑ سکتی ہے تو ہم بعد میں بہرام کو کیا جواب دیں گے اور دعا کریں کہ اسے جلد از جلد ہوش آ جائے نا کہ یوں ہمت ہار جائیں کیونکہ جب بہرام کو ہوش آئے تو اسے پہلی والی حورم ملے۔۔۔میری بات مانیں گی نا
وہ اس کا رویا رویا چہرہ اپنے ہاتھوں سے صاف کرتا بولا
جی بھائی
ارحم اس کے اور فرزام کے لیے بڑا بھائی ہی تھا
دو ہفتے ہو چکے تھے اور ان دو ہفتوں میں بھی بہت کچھ ہو چکا تھا__فرزام کو خوشخبری سے نوازا گیا تھا جہاں وہ آبش کو کچھ نہیں کرنے دیتا تھا وہیں اس نے مزید اچھی ملازماؤں کا انتظام بھی کیا تھا اور وہیں امل بھی اب کراچی ہی شفٹ ہو گئی تھی__بہرام کی کمی سب کو بہت ہی محسوس ہو رہی تھی لیکن سب کو یقین تھا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو کر ان کے درمیان ہو گا
لیکن ارحام ان دو ہفتوں میں بہت روڈ ہو چکا تھا__اسے تھوڑا بہت بتایا گیا تھا کہ اس کے چاچو ابھی ہوش میں نہیں آ سکتے لیکن اس کا اب کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا تھا__
وہ ایسے ہی بور ہو کر باہر لان میں آیا تو اسے سامنے جھاڑیوں میں کچھ محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ ایک بلی تھی جو اس سے ڈر رہی تھی۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں ڈر واضح تھا جسے دیکھ کر اسے کے ماتھے پر نا جانے کیوں تیوری چڑھی تھی__
وہ اب چھ سال کا ہو چکا تھا اور بہت بدل بھی رہا تھا وہ تھوڑا آگے بڑھا تو وہ پیچھے ہو گئی اور کارنر میں دبکی پڑی تھی وہ بہت دیر تک اسے دیکھے گیا پھر نا جانے اس کے دماغ میں کیا سمائی کہ اس نے لان میں پڑی ایک رسی کو پکڑا اور وہاں آ گیا جہاں وہ بلی خوف سے ابھی بھی بیٹھی تھی اس نے رسی کا سرا اس بلی کے گلے میں ڈال کر باندھا جو اس کے قریب آنے پر بے بسی سے دبی دبی سی آواز میں میاؤں میاؤں کرنے لگ گئی__
ارحام نے جھاڑی کے پاس ایک درخت کی مضبوط شاخ دیکھی اور پھر ایک سٹول کی مدد سے اس نے رسی کا سرا دوسری طرف کیا اور اسے سٹول سے باندھ دیا جس سے بلی رسی سمیت زمین پر بیٹھی بے بسی سے اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی جبکہ سٹول ہوا میں معلق ہو چکا تھا__
ارحام کچھ دیر دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ کر سٹول کو نیچے کھینچا جس سے دوسری طرف بلی رسی سمیت اوپر کو اٹھ رہی تھی__
ارحام اب سٹول پر بیٹھ چکا تھا جس سے وہ بلی اوپر رسی سمیت اوپر ہوتی گئی اور اس کا گلا رسی کے ساتھ بندھنے کی وجہ سے کھنچا جا رہا تھا اور اب وہ باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھ پیر یونہی ہوا میں مارنے لگی__جبکہ سٹول پر بیٹھا وہ بڑے انہماک سے یہ دیکھ رہا تھا اور تھوڑی دیر تک وہ بلی ساکت ہو چکی تھی اور یونہی جھول گئی__
اسے یہ دیکھ کر مزہ آیا کہ تھوڑی دیر پہلے جو بلی اس سے ڈر رہی تھی وہ اب مر چکی تھی کہ جب ارحہ کی آواز نے اسے متوجہ کرایا
ار۔۔ارحام
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا
جی مام
وہ اب پہلے کی طرح نہیں تھا اور یہ بات ارحہ کو بری طرح چبھ رہی تھی
یہ۔۔یہ آپ نے کیا کیا ارحام۔۔۔آپ ایسا کیوں کر رہے ہو
وہ حیرانگی سے اس کے پاس آتی بولی
وہ میرے سے ڈر رہی تھی اور مجھے پتہ نہیں کیوں غصہ آ گیا تھا کہ میں نے اسے مار دیا کہ جو ڈرتے ہیں انہیں زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا
ارحام اپنی سبز آنکھیں سامنے گاڑھے کہتا اندر جا چکا تھا جبکہ کہ ارحہ کو اپنے چھ سالہ بیٹے کی فکر لاحق ہوئی__
وہ کچھ زیادہ ہی ایکسٹرمسٹ بنتا جا رہا تھا اور کچھ بہرام کا اثر تھا کہ وہ اب ایسی حرکتیں کرنے لگ گیا تھا__وہ ابھی پہلے والے واقعے سے نہیں نکلی تھی کہ اب یہ__
پہلے اس نے مچھلیوں کی آنکھیں نکال دیں تھیں کہ وہ اسے گھور کر دیکھ رہی تھیں اور اب ایک بلی کو مار دیا کہ وہ اس سے ڈر رہی تھی
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اسے دیکھا جو ہوش و خرد سے بیگانہ اس کا صبر آزما رہا تھا۔۔۔وہ چلتی اس کے پاس آئی اور اس کے بال کو ہٹا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا جو وہ ہر روز کی طرح آج بھی محسوس کر سکتا تھا لیکن کچھ کہہ نہیں سکتا تھا__حورم کے آنسو اسے تکلیف دیتے تھے لیکن وہ انہیں صاف نہیں کر سکتا تھا__وہ ہر روز اس سے ڈھیروں باتیں کرتی تھی لیکن وہ ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا تھا
حورم اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے سینے پر سر رکھ لیا__اس کی دھڑکن سننا اس کا ہر روز کا معمول تھا کہ وہ اس کے لیے بھی جتنا شکر کرتی کم تھا کہ اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔۔۔۔اس کے زخم بہت حد تک مندمل ہو چکے تھے۔۔۔سینے کا تو ٹھیک ہو چکا تھا بس سر کی چوٹ ریکور ہونے والی رہتی تھی
آپ کو پتہ ہے کہ آج ایک مہینہ ہونے والا ہے اور آج میں حورام سے مل کر آ رہی ہوں۔۔۔۔اسے بھی آج ڈسچارج کر دیا گیا ہے اور وہ بالکل آپ پر گئی ہے۔۔۔آنکھوں کے کلر کا تو نہیں پتہ کیونکہ اس نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں لیکن اس کے بالوں کا کلر بالکل آپ کی طرح ہے اور اس کے ہونٹ کا تل بھی__
حورم نے سر اٹھا کر بہرام کے ہونٹ کے اوپر تل کو دیکھا اور پھر وہاں بوسہ دیا اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر چوما__
آپ اب جلدی سے ٹھیک ہو جائیں کہ آپ جب پہلی بار حورام کو دیکھیں گے تو کتنا پیارا احساس ہو گا نا
وہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے بول رہی تھی
بہرام خاموشی سے اس کی ہر بات کو سن رہا تھا اور ہر حرکت کو محسوس کر رہا تھا
بہرام
وہ جب بھی اس کا نام پکارتی تھی اس کی دھڑکن بڑھ جاتی تھی
میں منتظر ہوں جب آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ مجھے تم سے محبت ہے__ترس گئی ہوں سننے کے لیے__آپ کہا کرتے تھے نا کہ تم ہمیشہ میرے پاس رہنا دیکھیں میں تو آپ کے پاس ہوں لیکن آپ میرے پاس نہیں ہیں
اس نے کہتے ہی دوبارہ اس کے سینے پر سر رکھ لیا
وہ ابھی اپنے بابا کے ساتھ ہسپٹل آیا تھا ارحم اسے اپنے ساتھ اس لیے لایا تا کہ اس کا مائنڈ ڈائیورٹ ہو سکے جو اب زیادہ تر خاموش رہنے لگ گیا تھا ارحم اور صارم نے بہت کوشش کی کہ وہ پہلے کی طرح کھیلے اور شرارتیں کرے لیکن کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا
ارحم اسے روم میں بھیجتا خود ڈاکٹر سے ملنے چلے گیا جہاں ارحہ اس کی منتظر تھی وہ آج بے بی گرل سے ملنے آئے تھے__
ارحام جب کمرے میں داخل ہوا تو حورم تو اسے کمرے میں دکھائی نا دی لیکن بے بی کاٹ میں اسے حورام نظر آئی تھی__
وہ پاس جا کر اسے دیکھے گیا پتہ نہیں اسے وہ گلابی سی گول مٹول سی بہت پیاری لگی تھی کہ وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگ گیا__
اب وہ پہلے کی نسبت ٹھیک تھی اور بہت ہی کیوٹ بھی تھی کہ اس کے سرخ پڑتے ہونٹ اور گلابی چہرے پر کالا تل اور کالے ہی بال__
ارحام بے بی کاٹ پر جھکا اسے دیکھ رہا تھا جب حورام نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں__وہ نیلی شفاف آنکھیں ان کانچ کی سی سبز آنکھوں سے ٹکرائیں تو جہاں وہ نیلی آنکھیں مسکرا اٹھیں تھیں وہی ان سبز جھیل سی آنکھوں کو لگا تھا کہ وہ جیسے نیلے سمندر کے گہرے پانی میں اپنا شفاف سا عکس دیکھ رہا ہو__بالکل سمندر کے گہرے نیلے پانی میں اپنا عکس ہو__وہ صاف حورام کی آنکھوں میں اپنے آپ کو دیکھ سکتا تھا کہ تب ہی وہ تھوڑا سا ہنسی تھی__وہ ایک مہینے کی بچی اسے اپنے سامنے پا کر اب اپنے پاؤں کو ہاتھوں کی مدد سے پکڑ کر کھلکھلانے لگی کہ اس دنیا میں آنکھ کھولتے سب سے پہلا چہرہ اس نے ارحام کا دیکھا جبکہ ارحام اپنے دونوں بازو کاٹ کے ساتھ لگا کر بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا__اسے اس ایک مہینے میں آج ریلیکسیشن ملی تھی
حورم کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا ارحام بے بی کاٹ پر جھکا بری محویت سے حورام کو دیکھ رہا تھا اسے دیکھ کر حورم مسکرائی اور پھر اس کے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر حورام کو دیکھنے لگی جو اپنی آنکھیں ہاتھ پیر چلا رہی تھی
بے بی گرل کیوٹ ہے نا
ارحام اب حورم سے پوچھ رہا تھا جو اس کی ملائم سے گالوں کو چھو کر دیکھ رہی تھی
ہمم۔۔۔بالکل آپ کی طرح کیوٹ ہے نا__اس کی چکس تو بالکل آپ کی طرح سافٹ سی ہیں
ارحام حورم کی بات پر ہنسنے لگا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے گالوں کو چیک کیا جس پر حورام نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال لیا اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں حورم کی طرح تھیں اور اس کے ہونٹ ہر چھوٹا سا تل بہرام کی طرح___
تھوڑی دیر تک ارحم اور ارحہ بھی آ چکے تھے ارحہ نے آتے ہی حورام کو پنک بے بی کمفرٹر سمیت بے بی کاٹ سے نکال لیا اور اسے دیکھنے لگی
ماشاءاللہ حورم__یہ کتنی پیاری ہے نا
وہ اس کے گالوں کو چومتے بولی جس پر حورم بھی مسکرا دی
یہ تو ارحام سے بھی زیادہ پیاری ہے__
ارحم نے کہا تو ارحام کو چڑانے کے لیے تھا لیکن وہ لڑنے کی بجائے ہنس دیا__ارحہ اور ارحم نے حیرانگی سے اسے دیکھا کیونکہ اگر غلطی سے بھی کوئی کہہ دے کہ وہ ارحام سے زیادہ پیارا ہے تو لڑنے لگ جاتا تھا یا پھر اس کے ماما پاپا کو کوئی اور اس سے زیادہ پیارا لگے تو ہفتوں ناراض رہتا کہ کہا کیوں آپ نے__
ہم کیا اسے اپنے ساتھ لے کے جا سکتے ہیں__
اس نے معصومیت سے پوچھا
نہیں۔۔۔ابھی نہیں ہم لے کر جا سکتے لیکن بعد میں ہم بے بی گرل کو اپنے ساتھ رکھیں گے فلحال تو ہم دونوں جا رہے ہیں
ارحم اس سے بولا تو وہ بیڈ کی جانب بڑھا جہاں ارحہ حورام کو لیے بیٹھی
Can i kiss her?
اس کی بات پر سب ہنسنے لگے
اگر ہم آپ کو منع کریں گے تو کیا آپ ہو جاؤ گے؟
ارحہ نے دبی مسکراہٹ سے پوچھا پچھلے ایک مہینے کے بعد آج وہ اسے پہلے سے بہتر دیکھ رہی تھی
No۔۔۔۔۔۔
اس نے کہتے ہی حورام کے گلابی پڑتے گال کو چوما تھا
جس پر وہ اپنی آنکھیں پٹپٹاتے اسے دیکھنے لگی
One More۔۔۔۔۔
ارحام نے کہتے اس کا دوسرا گال بھی چوم لیا جس پر اب کی بار حورام اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو کھولتے بند کرتے ہاتھ پیر چلاتے کھلکھلاتے اسے دیکھنے لگی
حورم آج چودھری حویلی آئی تھی اپنا چیزیں لینے__حورام ارحہ کے پاس تھی جبکہ وہ فرزام کے ساتھ آئی تھی اور اپنے کمرے میں بیٹھی چیزیں سمیٹ رہی تھی جب فرزام کمرے میں داخل ہوا
بھائی آپ ادھر کیوں کھڑے ہیں اندر آ جائیں نا
وہ اسے دروازے کے پاس کھڑا ہوتے دیکھ کر بولی
حورم میں کچھ کہنا چاہتا ہوں
وہ بیڈ پر بیٹھتے بولا حورم اس کے پاس آ کر بیٹھی
میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں حورم ہو سکے تو اپنے بھائی کو معاف کر دینا
وہ بے بسی سے نظریں جھکائے بولا جب حورم نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھاما اور نفی میں سر ہلایا
ایسے مت کہیں بھائی__
فرزام نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھاما
میں نہیں جانتا کہ کن لفظوں میں تلافی کروں لیکن میں نے انجانے میں تمہیں بہت تکلیف دی ہے__اب جب مجھے اتنی بڑی خوشخبری ملی ہے تو احساس ہوا کہ خوشی کیا ہوتی ہے میں نے تو بہرام سے یہ خوشی بھی چھین لی تھی میں اتنا خود غرض کیسے ہو سکتا ہوں تم بھی مجھ سے ناراض ہو گئی تھی نا
دو آنسو ٹوٹ کر حورم کے ہاتھ پر گرے
بھائی یہ قسمت کی بات ہوتی ہے آپ اپنے آپ سے بدگمان مت ہوں اور میں تو محبتوں میں پلی بڑھی ہوں بھلا ہو سکتا ہے کہ میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔اس دن مجھے نہیں پتہ چلا کہ کیسے منہ سے وہ الفاظ نکل گئے لیکن آپ ہرٹ نا ہوں۔۔۔۔آپ نے جو کیا تھا میری محبت میں ہی کیا تھا نا__
حورم پیار سے اس کے آنسو صاف کرتے بولی
اب آپ بالکل نہیں روئے گے
فرزام نے اسے گلے لگا لیا
تم جانتی ہو کہ تم دنیا کی سب سے بیسٹ بہن ہو
اس کی بات پر حورم مسکرائی
اور آپ دنیا کے بیسٹ بھائی___
آج وہ آفس آئی تھی ارحم اور فرزام کے بے جا اصرار پر__ان دونوں نے اسے سمجھایا کہ وہ آفس کو بھی تھوڑا ٹائم دے تا کہ اس کا ذہن بٹ سکے اور ریلیکس بھی ہو سکے__
وہ صبح بہرام سے مل کر آئی تھی تین مہینے ہونے جا رہے تھے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اسے ہوش کبھی بھی آ سکتا تھا لیکن کب یہ کوئی نہیں جانتا تھا__
ابھی آفس میں بیٹھے وہ یہی سوچ رہی تھی جب نینا داخل ہوئی صبح سب اس سے گرم جوشی سے ملے تھے اور اب بھی فرزام نے اسے کچھ معاملات دیکھنے کو کہا تھا__
نینا اسے فائلز دے کے جا چکی تھی اور وہ انہیں دیکھ رہی تھی ویسے بھی وہ خود بھی چاہتی تھی کہ جب بہرام ٹھیک ہو جائے تو وہ اس بزنس کو بڑھتا ہوا دیکھ کے خوش بھی ہو__
کچھ میٹنگز کی فائلز دیکھتے وہ نینا کو بلانے لگی لیکن پھر خود ہی اٹھ کر باہر آ گئی تا کہ دیکھ بھی سکے
اسے دیکھ کر نینا کھڑی ہو گئی حورم اس سے کچھ دیر فائلز کے متعلق ڈسکس کر رہی تھی اور واپس جانے لگی کہ کوئی اس کے سامنے آیا تھا
اوہ۔۔۔۔مس حورم چودہدری
علینہ کو دیکھ کر نینا نے تیوری چڑھائی جبکہ حورم کو اس کے منہ لگنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا وہ جانے لگی کہ وہ پھر سے بولی
ہممم۔۔۔۔تو کیسا لگا بہرام شاہ کو اپنے جال میں پھنسا کر__
وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے بولی
کہ یہاں تک کے اس سے شادی بھی کر لی
حورم نینا کی طرف مڑی
نینا فالتو لوگوں کو اندر آنے کی اجازت کس نے دی اور اسے فوراً یہاں سے بھیجو
حورم کہہ کر جانے لگی جب وہ ایک بار پھر سامنے آئی تھی
ویسے بات ماننی پڑے گی کہ تم جیسی لڑکیاں۔۔۔۔۔۔
حورم نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی وہ کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی کہ اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی کسی نے جارہانہ طریقے سے پیچھے سے اس کے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور سنبھلنے کا موقع دیے بغیر۔۔۔۔
چٹاخ!!!!!!!!!
پوری قوت سے تھپڑ مارا تھا کہ وہ سفید سنگ مرمر کے فرش پر گری وہ شاک کی کیفیت میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے سانس روکے دیکھنے لگی جس کی آنکھیں لال انگارہ ہو چکی تھیں سارا سٹاف کھڑا ہو چکا تھا
فرزام نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور خونخوار لہجے میں بولا
میری بہن کے متعلق میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور مجھے بہرام شاہ ہرگز مت سمجھنا جو عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتا کیونکہ جب تم جیسی اپنی حد بھول جایا کرتیں ہیں انہیں ان کی اوقات یاد دلانا پڑتی ہے
وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ سارا سٹاف سہم گیا انہوں نے شروع سے ہی اسے پولائٹ دیکھا تھا حورم واپس چلے گئی جب فرزام نے گارڈ کو بلایا
اسے فوراً یہاں سے نکالو اور اس کی شکل دھیان سے یاد رکھنا اگر یہ کہیں آس پاس بھی اب دکھی بہت برا حال کروں گا
وہ کہتا حورم کے پیچھے گیا وہ کیمرے میں دیکھ رہا تھا جب حورم آفس سے نکلی اور نینا سے بات کر رہی تھی لیکن علینہ کی آمد نے اسے حیران کیا وہ وہاں آیا تو اس کے الفاظ اس کا دماغ گھما گئے
وہ اندر آیا تو حورم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی وہ اس کے پاس آیا
حورم۔۔۔۔آر یو اوکے
حورم نے گہرا سانس لیا اور اسے دیکھا
مجھے کیا ہونا تھا۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں اور ویسے بھی اب اتنی کمزور نہیں ہوں کہ کسی کو باتوں کو دل پہ لے لوں اور ویسے بھی جب میرا بھائی میرے ساتھ ہے تو مجھے فکر کرنے کی ضرورت ہے کیا
وہ کمزور تو صرف ایک انسان کے معاملے میں تھی
حورم نے مسکرا کر کہا جس پر فرزام کو تھوڑا اطمینان ہوا
ارحام ارحہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو کہ حورام کو فیڈر کی مدد سے فیڈ کروا رہی تھی وہ آج حورام کو گھر لے آئی تھی جبکہ حورم نہیں آئی تھی ایک مہینہ ہو چکا تھا اسے آفس جاتے اور آفس سے واپسی پر وہ بہرام کے پاس ہوتی اور ڈھیروں باتیں کرتی لیکن آج ارحہ حورام کو لے آئی تھی کہ رات کو وہ اسے تنگ کرتی تھی وہ چار مہینے کی ہو چکی تھی اور آج تین مہینے بعد ارحام کو اسے دیکھ کر خوشی ہوئی وہ بھی تین مہینے بعد۔۔۔۔۔۔
ماما یہ بڑی کب ہو گی
وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے بولا
ہو تو رہی ہے دیکھیں ماشاءاللہ کتنی بڑی اور پیاری ہو گئی ہے
ارحہ اس کا فیڈر سائیڈ پر رکھتی بولی جو اس نے ختم کر لیا
نہیں نا__اتنی بڑی کب ہو گی جب میرے سے باتیں کیا کرے گی۔۔۔۔میں اس سے باتیں کرنا چاہتا ہوں
ارحہ نے نوٹ کیا تھا کہ جب وہ حورام کو دیکھتا تو وہ اسے بدلہ بدلہ لگتا جیسے پہلے وہ رہا کرتا تھا آج ویسے کا نہیں لگ رہا تھا
ہو جائے گی بڑی اور پھر بہت سی باتیں کیا کرے گی سب سے
ارحہ نے حورام جو اٹھایا اور اپنے کمرے میں ہی رکھے اس کے بے بی پنک کلر کے بے بی کاٹ میں اسے لٹایا
آپ اس کا دھیان رکھو کہ روئے نا۔۔۔میں آتی ہوں
وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی جب وہ اس کے پاس آیا پہلے اس کے گالوں کو چھوا اور پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑا
تو بے بی گرل اگر چاچو ہوتے تو تمہیں کیا کہہ کر بلاتے
اس کی بات پر حورام نے ارحام کا ہاتھ اپنے منہ میں ڈال لیا جس پر اس نے نکالا تو وہ رونے لگ گئی ارحام نے اسے گھورا
Bad Girl۔۔۔۔
اچھااا روؤ نا یہ لو
جب وہ چپ نا کی تو اس نے اپنا ہاتھ دے دیا جو منہ میں ڈالے اسے دیکھنے لگی
چاچو مجھے تو ڈیول کہتے ہیں پھر تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سوچتے دوسرا ہاتھ اپنے منہ پر رکھا
Witch۔۔۔۔۔۔۔Hawww
نہیں یہ تو نہیں ہو گا۔۔۔اتنی پیاری بے بی کا یہ نام نہیں
وہ پھر سوچنے لگ گیا
چاچو پیار سے تو مجھے اپنا پرنس بھی کہتے ہیں نا تو تم ان کی پرنسس ہوئی نا۔۔۔نہیں ان کی نہیں میری بھی پرنسس
وہ آخر پر مسکراتے بولا جس پر حورام بھی اسے دیکھ کر ہنسنے لگ گئی
صبح ہو چکی تھی کھڑکیوں سے ہلکی ہلکی چڑیوں کی چڑچڑاہٹ اندر آ رہی تھی ارحہ نے اٹھتے پہلے کھڑکیوں کو بند کیا اور پھر ارحام کو دیکھا جو بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا تھا رات کو وہ حورام سے باتیں کرتا رہا اور لیٹ سویا تھا__
ارحہ نے حورام کو دیکھا جو جاگ چکی تھی اور اپنا ایک ہاتھ منہ میں ڈالے ادھر ادھر ہو رہی تھی اس نے اسے بے بی کاٹ سے آرام سے نکالا اور اس کے دونوں گالوں کو چوما
پیاری سی گڑیا اٹھ گئی
اس نے حورام کو بیڈ پر لٹایا
آپ آرام سے ادھر لیٹیں میں آپ کا فیڈر تیار کر کے لاتی ہوں
ارحہ کے جانے بعد حورام آس پاس نظر دوڑانے لگی جہاں اسے ارحام تکیے میں منہ دیے نظر آیا اس نے اس سائیڈ پر ہونا چاہا تو وہ الٹی ہو گئی اب پھر وہ ارحام کو دیکھنے لگی اور اس کی طرف بڑھنا چاہا
وہ چار مہینے کی ہو چکی تھی اور رینگنا سیکھ رہی تھی عموماً چار سے سات ماہ کے درمیان تک بچے رینگنا سیکھ جاتے ہیں یہ ہر بچے کی فزیکل ہیلتھ پر ڈیپینڈ کرتا ہے اور حورام تو ویسے بھی ہیلتھی تھی
وہ آہستہ آہستہ اوپر ہوتے اس تک پہنچی اور اس کے کالے بالوں کا اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور انہیں کھینچنے لگی اور خود ہی ہنسنے لگی لیکن وہ پھر بھی نہیں اٹھا تھا
پھر وہ مزید رینگتے اس کے اوپر ہو گئی اور اس کے منہ پر ہاتھ مارنے لگی
کسی کے بال کھینچنے اور ننھنے ننھنے نازک ہاتھوں سے اس کی آنکھ کھلی تو کسی کو اپنے اوپر پایا جو اب دوبارہ سے اس کے بال کھینچنے لگ گئی تھی اور اسے اٹھتا دیکھ کر ہنسنے لگی
ارحام نے اسے نیچے اتار کر لٹایا اور اسے دیکھنے لگا
سونے کیوں نہیں دے رہی رات کو بھی اتنی لیٹ سونے دیا تھا
اس کی بات پر حورام منہ بنا کر اسے دیکھنے لگی
اگر ایسے منہ بناؤ گی تو پھر میں نہیں چھوڑوں گا
اسے وہ یوں بناتے پھولے پھولے گالوں سے اتنی کیوٹ لگی کہ اس نے مسکرا کر کہتے اس کے دونوں گالوں کو زور سے چوما تھا
میرا دل کرتا ہے کہ میں تمہیں کھا ہی جاؤں
وہ اس کے ایک گال پر ہلکے سے دانتوں سے کاٹتا بولا جس پر وہ اس کے منہ پر ہاتھ مارنے لگ گئی جس پر وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہنسنے لگ گیا
وہ اپنے سامنے میز پر رکھے اس باکس کو دیکھ رہی تھی حو اسے حیدر نے دیا تھا کہ وہ بہرام کی طرف سے تھا جو وہ یورپ جانے سے پہلے دے کر گیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کچھ ہو جائے یا وہ دور کر دیا جائے تو حورم تک پہنچا دیا جائے تو حیدر نے اسے وہ دے دیا__
وہ اسے ہاتھ میں پکڑے گھما رہی تھی جو کہ ایک کیو باکس کی طرح تھا لیکن ہے نہیں۔۔۔اوپر اور نیچے کی سطح کالی اور نیلی تھی جبکہ چاروں طرف کی سائیڈ پر کوئی پزل کی طرح ورڈز تھے
اس نے دیکھا تو اس پر الفاظ لکھے ہوئے تھے اور اسے پہلے بھیجے گئے کالے نیلے پیپرز یاد آئے۔۔۔۔۔۔اس نے ہر سائیڈ کی پزل کو سولو کرنا چاہا تو ایک سائیڈ پر اس نے ورڈز میں سے ڈھونڈ کر بہرام لکھا تھا جو کہ ہر ورڈ سے بنایا اور اس کے سامنے حورم پھر باقی دو سائیڈوں کو دیکھنے لگی تو نوٹ کیا کہ تین سائیڈیں نیلی تھیں اور تین کالی اور اسے دیے گئے پیپرز بھی کالے اور نیلے ہی تھے۔۔۔۔
اس نے دونوں سائیڈوں پر یہی ورڈز لکھ دیے تھے تو وہ باکس اپنی چھ سطحوں سمیت تھوڑا تھوڑا دور ہو کر کھل گیا جس میں ایک کاغذ تھا۔۔۔۔۔حورم نے وہ اٹھا لیا اور اسے کھول کر پڑھنا شروع کر دیا
"حورم میری جان میں تمہیں اپنی آج تک کی زندگی کے بارے میں بتاتا ہوں__میں چھوٹا سا ہوا کرتا تھا جب گرینڈ پا اور ڈیڈ کے ساتھ اکثر چوہدری حویلی آیا کرتا۔۔۔گرینڈ پا نے ہی بتایا تھا کہ وہ اور تمہارے گرینڈ پا بچپن کے دوست ہوا کرتے تھے اور ایک ہی گاؤں میں رہا کرتے تھے پھر جب بابا چاچو اور پھوپھو ہوئے تو وہ لوگ شہر چلے گئے پھر ان کے جانے کے بعد میں اکثر ڈیڈ کے ساتھ چوہدری حویلی آتا تھا پھر وہاں ایک دن مجھے تم ملی تھی ایک چھوٹی سی گڑیا کی طرح پیاری سی__پھر اکثر مجھے اپنے بھائی کے ساتھ وہ نظر آیا کرتی تھی پتہ نہیں لیکن بچپن سے ہی وہ بہت قریب ہو چکی تھی دل کے__
پھر میں بورڈنگ سکول جایا کرتا تھ ڈیڈ چونکہ آرمی آفیسر تھے وہ ہم دونوں بھائیوں کو بھی آرمی یونیفارم میں دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔ان دنوں وہ ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور بہت حد تک رسائی بھی حاصل چکے تھے لیکن کیا پتہ تھا کہ اس مشن کے لیے وہ اپنے جان دے دی گیں__اس دن مام ڈیڈ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے لیکن بھائی چونکہ آرمی ٹریننگ میں تھے تو انہوں نے مجھے ایک انڈر کوور ایجینٹ بنانا چاہا__
اٹھارہ سال کا جب ہوا اور کالج سے رخصت ہوا تو دو سال ٹریننگ کے انڈر رہا اور پھر بیس سال کی عمر میں مجھے ایتھنز بھیجا گیا تھا مجھے شروع سے ہی اس ادھورے مشن کو پورا کرنا کا کہا گیا ایتھنز میں ایم بی اے کے دوران فرزام سے ملاقات ہوئی آگے بھی جانتے تھے تو دوستی مزید گہری ہوتی گئی لیکن اصل مقصد ایتھنز کی ایجینسی کے انڈر رہ کر MBA کی ڈگری حاصل کرنا تھا__
لیکن اکثر فرزام کی باتوں میں تمہارا ذکر مجھے تمہاری طرف کھینچتا تھا__فرزام کے لہجے میں تمہارا پیار بولتا تھا لیکن ایک سال بعد جب پتہ چلا کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اپنے کزن سے تو میں پیچھے ہٹ گیا تھا ایک بار تو لیکن پھر بھی تمہاری یاد ستایا کرتی تھی اور پھر میں نے کہا کہ نہیں مجھے اپنی محبت سے یوں دستبردار نہیں ہونا چاہیے اسے حاصل کرنے کی کوشش تو کرنی چاہیے تھوڑی بہت عاشر کی انفارمیشن فرزام سے پتہ چلی تھی پھر میں نے اس کام کے لیے سارہ کو تمہارے کالج تمہارے ساتھ پڑھنے کو بھیجا__تا کہ وہ تمہیں اس کے خلاف بدزن کرے اور تم ہوتی گئی اور ایتھنز کا آخری سال پورا کر کر پاکستان آ گیا جبکہ فرزام نے تھوڑے دن بعد آنا تھا اور اس رات بھائی سے ملنے اسلام آباد گئے تو صارم آبش اور ثناء نے گھومنے کی ضد کی تو انہیں ایک ریسٹورنٹ میں لے آیا لیکن کیا پتہ تھا کہ وہاں تم سے ملاقات ہو جائے گی__
پھر دیکھو خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ عاشر سے تمہیں ڈائیورس ہو گئی اور پھر جب بعد میں مجھے اس کی اصلیت کا پتہ چلا تو مجھے اگر تھوڑا بہت ملال جو تھا وہ بھی جاتا گیا اور پھر جب تمہاری یونیورسٹی کے دو سال مکمل ہوئے اور میں بائیس کا ہو چکا تھا اور تم فارن پڑھنا چاہتی تھی تو بھائی نے میرے سامنے تمہارے ساتھ نکاح کا آپشن رکھا تھا جسے میں فوری قبول نا کر سکا کیونکہ میں اتنی جلدی نہیں چاہتا تھا یہ سب لیکن بھائی کی ضد ہر کرنا پڑا کیونکہ وہ بھی میرے دل کا حال جانتے تو تھے__پھر نکاح والے دن میں تھوڑا روڈ ہو گیا تھا تا کہ فلحال تم مجھ سے کوئی ایسی امید نا رکھو اس کے بعد تمہیں ایتھنز بھیجا گیا کیونکہ وہ سب سے محفوظ جگہ تھی کیونکہ وہاں تک پاشا کے بندے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ وہاں ممنوع تھا اور میرے دو سال انڈر کوور ایجینٹ کی ٹریننگ میں لگے اور ان دو سالوں کے بعد ایز آ بزنس مین سامنے آیا دنیا کی نظروں میں لیکن تمہاری طرف سے بھی لاپرواہ بالکل نا تھا اور جب تم واپس آئی تو تمہیں دیکھ کر خوشی ہوئی تھی اور میں یہ بھی جان گیا تھا کہ ہماری ملاقات دونوں پر بہت بھاری رہی تھی اور پغر ہر دن کے بعد تم مزید نزدیک ہوتی چلی گئی تھی کہ میں بھی نا جان سکے اور اب جب ہم دور ہیں تو دل بہت اداس رہتا ہے__میری یہ ستائیس سالہ زندگی تمہارے بغیر کچھ نہیں حورم اور بس یہ چاہتا ہوں کہ جب میں واپس آؤں تو تم میرے پاس ہو"
حورم نے اپنا سر میز پر رکھے اس کاغذ پر ٹکا دیا جہاں اس کے لکھے گئے الفاظ جگمگا رہے تھے وہ اپنی چوبیس سالہ زندگی میں کسی کے لیے اتنا نہیں روئی تھی جتنا اس ایک شخص کے لیے___
ارحام سیڑھیوں سے اترتا نیچے آیا تو لاؤنج میں حورام رو رہی تھی اسے دیکھتے ہی فوراً بے انتہا غصہ آیا تھا اور اس کے ماتھے پر بل واضح تھے اور گرین آنکھوں میں غصہ__
اس نے آگے بڑھ کر حورام کو بے بی کاٹ سے نکالا اور اٹھا کر صوفے پر لے آیا اور زور زور سے اس کی میڈ کو بلانے لگا جو کچھ مہینوں پہلے ہی اس کی مام نے سپیشل حورام کے لیے رکھی تھی جو صرف اس کے کام کرتی تھی ویسے تو حورام کو سنبھالتی ارحہ ہی تھی اور آج وہ مال گئی تھی حورام کے لیے شاپنگ کرنے__
کچن سے ملازمہ ہڑبڑاتی ہوئی آئی تھی
میں نے تمہیں پہلے دن ہی کہا تھا کہ یہ مجھے روتی ہوئی نا ملے وجہ پوچھ سکتا ہوں کہ یہ کیوں رو رہی ہے
اس کی آواز اتنی ضرور تھی کہ لاؤنج کے باہر خاور تک پہنچتی وہ اندر آیا تو دیکھا کہ ارحام ملازمہ پر برس رہا تھا جبکہ حورام اس کا ہاتھ پکڑے منہ میں ڈالے لیٹی تھی
جی۔۔۔وہ ان کے لیے دودھ بنا کر لا رہی تھی
وہ ہڑبڑاتی جواب دینے لگی وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسے چھوڑ کر گئی تھی
ارحام حورام کے معاملے میں سینسیٹو ہو رہا تھا
اس نے ملازمہ کو غصے سے گھورتے حورام کو اٹھایا جو اس کے اٹھانے پر خاموش ہو چکی تھی اس نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اس کا چہرہ صاف کیا
آئندہ اگر یہ مجھے روتی ملی تو کام سے نکال دوں گا
خاور نے اس ملازمہ کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا
ارحام کافی دیر اس سے کھیلتا رہا اور اس کی معصوم معصوم سی حرکتوں پر کبھی ہنسنے لگ جاتا تو کبھی اس کے گال چومنے لگ جاتا__
خاور ان دونوں کا دیکھ کر مسکرا رہا تھا
تھوڑی دیر بعد وہ لان میں تھے وائٹ کلر کی شیٹ نرم گھاس پر ڈالے اور بلینکٹ کی تہہ بنا کر حورام کو لٹایا ہوا تھا جو اپنا انگوٹھا منہ میں ڈالے اوپر دیکھ رہی تھی اور ارحام اسے__
کہ تھوڑی دیر بعد وہ بری طرح رونا شروع ہو چکی تھی شاید اسے یہاں مزہ نہیں آ رہا تھا
ارحام اس کے پاس آیا اور اسے چپ کرانے لگا
Little Girl۔۔۔۔What Happened۔۔۔۔۔
لیکن وہ بری طرح رو رہی تھی
حورام دیکھو چپ کر جاؤ ورنہ میں تمہیں درخت سے الٹا لٹکا دوں گا
وہ دھمکی دینے پر اتر آیا لیکن پھر بھی مسلسل روئے جا رہی تھی
اس نے خاور کو اسے الٹا لٹکانے کا کہا تو وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا
چھوٹے شاہ__میں لٹکاؤں۔۔۔لیکن عمر تو دیکھیں
خاور حیرانگی سے پوچھنے لگا
کس کی آپ کی؟
ارحام نے حیرت سے پوچھا
نہ۔۔نہیں جی۔۔۔حورام بی بی کی
اس نے ہڑبڑاتے کہا
تو میں کیا کروں اتنی چھوٹی بھی نہیں
وہ اسے ابھی بھی چپ کرا رہا تھا
لیکن چکر بھی آ سکتے ہیں نا
خاور نے پھر کہا
کسے آپ کو
ارحام نے پھر حیرانگی سے پوچھا
نہیں جی چھوٹی بی بی کو
ارحام حورام کو دیکھنے لگا جو کہ اب بھی رو رہی تھی اسے اس کا رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا کہ اتنی دیر میں ارحہ آ چکی تھی وہ ابھی بھی آئی تھی اور حورام کی آواز سن کر اسی طرف آ گئی
اور اسے اٹھا کر سینے سے لگایا
مام لٹل گرل تو چپ ہی نہیں کر رہی
وہ معصومیت سے اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا
ارحام اسے بھوک لگی ہے بیٹا__چلیں آئیں آپ بھی
وہ حورام کو لیے اندر کی طرف بڑھی جو تھوڑا بہت رونا بند کر چکی تھی
رات کے گہرے سائے اپنے پر پھیلائے بیٹھے تھے اور ہر طرف خاموشی کا عالم تھا جب وہ ہسپٹل کے پرائیوٹ روم میں داخل ہوئی اس نے دروازہ لاک کیا اور دھڑکتے دل سے اندر بڑھی اور پاس رکھے سٹول پر بیٹھ گئی اور کانپتے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا___
اور اسی کے چہرے پر بیتاب نظریں جمائے رکھی تھیں کہ اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی طرف دیکھا تھا جس کی آنکھیں اس کی آنکھوں سے ٹکڑانے کے بعد بہنا شروع ہو چکی تھیں
حورم میری جان
اس کی آواز سننے کو وہ ترس گئی تھی اس نے اپنے آپ کو رونے سے نہیں روکا تھا بس اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ روئے جا رہی تھی جب اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو حورم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا__بہرام نے اسے نرمی سے کھینچ کر اپنے پاس بٹھایا تھا اور اس کے آنسو صاف کیے
اب بھی روؤ گی میری جان
حورم بنا کچھ کہے اس کے سینے لگ گئی
بہرام!!!!!
اور ہچکیوں سمیت رونے لگ چکی تھی اس نے اسے نہیں روکا تھا اور رونے دیا تھا
ادھر دیکھو میری طرف
اس نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھاما اور اس کی روئی روئی آنکھوں کو چوما اور پھر اس کے سر پر بوسہ دیا
اتنی دیر کیوں لگائی تھی آنے میں
وہ اس کی آنکھیں صاف کرتے بولا
اللہ کے آگے شکر بھی تو کرنا تھا اور ہمت نہیں تھی ہو رہی__پانچ مہینے بعد آپ کی آواز سن رہی ہوں۔۔۔آپ کی آنکھوں میں دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔آپ سے بات کر رہی ہوں
وہ اس کے گلے لگے ہچکیوں سمیت بولی تھی
اتنی شکایات ہیں میری جان کو مجھ سے
وہ اس کے گرد مضبوط حصار قائم کرتا بولا
بہت سی شکایات ہیں۔۔۔۔
وہ روتے کہنے لگی جب بہرام نے احتیاط سے اسے اپنے برابر لٹایا اور اس کے چہرے کے گرد بالوں کو ہٹاتے اس کے لبوں پر جھکا تھا حورم کے ہاتھ اس کے گریبان پر تھے__اتنے مہینوں کی پیاس آج بجھ رہی تھی شدت بھرا لمس چھوڑتے بہرام نے اس کی طرف دیکھا
رکھ کے تیرے لب پہ لب
سب شکائیتیں مٹا دیں گے
اور اس کے کان میں بولتا اس کے کان کی لو چومی
حورم کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں
اب میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گی
اس کے سینے میں منہ چھپائے وہ بولی تھی جب اس نے بھی یونہی اسے بانہوں میں لیا تھا
اسے آج شام کو ہی ہوش آ چکی تھی جس پر وہ سب سے ملا تھا اور اپنی زندگی ننھی سی حورام سے بھی__اسے دیکھ کر اسے پکڑ کر اسے محسوس کر کے وہ رو دیا اور اسے سینے سے لگا لیا جو خود بھی اپنے باپ کی آغوش اور خوشبو پا کر سکون میں آ گئی تھی اور آخر میں اسے تب کا جس کا انتظار تھا وہ سب سے آخر میں اس سے ملنے آئی تھی__اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور سینے میں بھینچ کر اس کی خوشبو محسوس کرنے لگا
تیرے احساس کی خوشبو سے معطر ہے سارا وجود میرا
میری رگ رگ میں محبت تیری،میری ہر سانس پر حق تیرا