کراچی کے مشہور سی ایم ایچ (CMH) ہاسپٹل کا منظر تھا جہاں آرمی آفیسرز ادھر ادھر اور ڈاکڑز افراتفری میں آئی سی یو کی جانب بڑھ رہے تھے___
کرنل معید اور سعید بھی ادھر ہی آ چکے تھے اور ارحم سے گفتگو میں مصروف تھے____
وہ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ عاشر کی تلاش میں ہی لگا تھا جب پریشانی میں فرزام آیا تھا اس کے پاس۔۔۔۔۔اور تھوڑی دیر تک اسے بہرام کا میسیج وصول ہو چکا تھا جس میں اس نے حورم کی لوکیشن ٹریس کرنے کو کہا اور عاشر کا بتایا۔۔۔۔۔اس تب ہی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کیا تھا اور لوکیشن کی سمت جا رہے تھے
حیدر بھی اپنی ٹیم سمیت اس کے ساتھ تھا جبکہ صارم بھی ٹریسنگ میں مصروف اور جی پی ایس کی وجہ سے وہاں تین لوگوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ابھی وہ آدھے راستے میں ہی تھے جب اسے بتایا گیا کہ ایک اس جگہ سے دور جاتا دکھائی دیا۔۔۔۔ارحم نے وہاں سے ہی حیدر کو اس کی ٹیم کے ساتھ اس کے پیچھے بھیجا جس کی وجہ سے عاشر پکڑا جا چکا تھا____
ارحم اور فرزام وہاں پہنچے تو فرزام کا دماغ تو حورم اور بہرام کی حالت دیکھ کر کام کرنا جیسے چھوڑ گیا جب اسے ارحم نے ہوش دلایا تھا اور ایمرجینسی میں انہیں ہسپٹل لایا گیا_____
اور تب ہی اس پر یہ راز بھی کھل گیا کہ بہرام شاہ اصل میں ایجینٹ میر علی ہے____
اب وہ خستہ حال سا آئی سی یو کے سامنے بیٹھا تھا جہاں ایک طرف تو اس کی گڑیا تھی اور دوسری طرف اس کا دوست___
بہرام کی طرف سے ابھی ڈاکٹرز نے کچھ نہیں بتایا تھا جبکہ حورم کے بارے میں ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ بے بی کی پری میچیور برتھ ہو گی ورنہ ماں اور بچے دونوں کو نقصان ہو سکتا تھا___
وہ سوچ رہا تھا جب اسے اپنے کندھے پر دباؤ سا محسوس ہوا___فرزام نے سر اٹھا کر دیکھا تو ارحم اس کے پاس بیٹھ چکا تھا
حوصلہ رکھو__فرزام___انشاءاللہ سب اچھا ہی ہو گا
ارحم اس کو تسلی دیتے بولا جبکہ خود اس کی حالت بھی تو مختلف نا تھی
بھائی ڈاکٹرز نے بہرام کے بارے میں کیا کہا ہے
انہوں نے کہا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے__بہرام کی حالت بہت کریٹیکل ہے ابھی بس دعا کرو کہ سب ٹھیک ہو جائے
تھوڑی دیر بعد آبش اور ارحہ ہاسپٹل میں آتی دکھائی دیں
ارحم نے ابھی گھر خرم صاحب اور سمائرہ بیگم کو بتانے سے منع ہی کیا تھا
بھائی
آبش ارحم کے گلے لگ کر رونے لگ گئی
کچھ نہیں ہوا آبش__سب ٹھیک ہو جائے گا
وہ اسے چپ کرانے میں مصروف تھا جبکہ فرزام سر جھکائے لب بھینچے بیٹھا ہوا تھا
حورم اور بہرام کو کچھ نہیں ہو گا نا
وہ اس کے گلے روتے بولی تھی جبکہ ارحم سے اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا___
تھوڑی دیر تک آئی سی یو سے ایک لیڈی ڈاکٹر نکلی اور بیٹی ہونے کی خوشخبری سنائی
ڈاکٹر میری بہن اور بے بی دونوں ٹھیک تو ہیں نا
فرزام پاس آتا بولا
دیکھیں پیشنٹ تو خطرے سے باہر ہیں لیکن پھر بھی احتیاط کریں اور جب انہیں ہوش آ جائے تو آپ مل سکتے ہیں لیکن چونکہ بے بی کی برتھ پری میچیور ہے تو اسے انکیوبیٹر میں انڈر ابزورویشن رکھا جائے گا
ڈاکٹر پیشہ وارانہ انداز میں کہتی چلی گئی
رات ہو چکی تھی جبکہ بہرام کے بارے میں ڈاکٹرز نے کوئی رسپونس نہیں دیا تھا اور باہر سب کا سانس اٹکا ہوا تھا
رات تک خرم صاحب اور سمائرہ بیگم بھی آ چکی تھیں خرم صاحب پریشانی سے ٹہل رہے تھے جبکہ سمائرہ بیگم آبش کو ساتھ لگائے چپ کروانے میں مصروف تھیں بہرام کو بلڈ کی اشد ضرورت تھی جو کہ فرزام نے دیا تھا کیونکہ ان دونوں کا بلڈ گروپ سیم تھا
وہ سب پریشانی میں ہی تھے جب ایک سینئر ڈاکٹر باہر آئے
دیکھیں پیشنٹ کا بلڈ بہت حد تک ضائع ہو چکا ہے اور ابھی انہیں بلڈ دیا گیا اور سینئر اور سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی ٹیم بھی آ چکی ہے لیکن ہم آپ کو کوئی امید نہیں دے سکتے۔۔۔۔آپ کو ہر خبر کے لیے تیار رہنا ہو گا___
کرنل سعید آگے بڑھے
کہنا تو چاہیے کیونکہ یہ ہسپٹل وہ ہے جہاں کے ڈاکٹرز اپنی جان تک لگا دیتے ہیں لیکن پھر بھی جو اندر ہے وہ ہمارا بہت انمول اثاثہ ہے اسی لیے ہر ممکن کوشش کیجیے گا
ان کی بات پر ڈاکٹر نے سر ہلایا
تھوڑی دیر بعد حورم کے کمرے سے شور آنے لگا
میں دیکھتا ہوں
فرزام کہتے آگے بڑھا
وہ اور بہرام اکٹھے کھڑے تھے لیکن تھوڑی دیر بعد بہرام اس سے دور جا رہا تھا وہ اسے بلا رہی تھی لیکن وہ دور ہی جاتا جا رہا تھا جب وہ چلائی
بہرام!!!!!!!!!!
آپ نہیں جا سکتے بہرام!!!!!!!
وہ بند آنکھوں سے چلا رہی تھی جب ایک دم اس کی آنکھ کھلی تھی
بہ۔۔بہرام!!!
فرزام بھاگتا اس کے قریب آیا تھا
حورم میری جان کیا ہوا
وہ اس کے پاس بیٹھتا بولا
بھ۔۔بھائی۔۔۔وہ۔۔۔وہ بہ۔۔بہرام کہاں ہیں۔۔۔مجھے ملنا ہے ان سے
وہ اس کو نظرانداز کرتے بیڈ سے اترنے لگی
کچھ۔۔کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے حورم
فرزام اسے پکڑتے بولا
ک۔۔کیسے ٹھیک ہے۔۔۔سب۔۔آپ کو پتہ ہے میں۔۔میں نے اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔
وہ اپنے ہاتھ آگے کرتی بولی فرزام کو وہ اپنے ہوش میں نہیں لگی
میں۔۔میں کیسے رہوں گی۔۔۔ان کے بغیر۔۔۔بہت مشکل ہے بھائی۔۔۔۔آپ آپ کہیں نا بہرام کو کہ۔۔۔آگے بہت دوری جھیل۔۔۔لی ہے۔۔۔اب ایسا نا کریں۔۔۔میرے ساتھ۔۔۔آپ۔۔۔آپ کی بات وہ مانیں گے۔۔۔آپ انہیں کہیں گے نا۔۔۔۔۔
وہ فرزام کی طرف دیکھتی خود ہی بولی جا رہی تھی جبکہ فرزام تو اس کی حالت پر ششد تھا وہ مسلسل روئے جا رہی تھی
ہاں۔۔۔میں میں کہوں گا میری جان لیکن پلیز رونا بند کرو
وہ اس کے آنسو صاف کرتا بولا
بہ۔۔بہرام کو کچھ نہیں نا ہو گا
وہ اس کے ہاتھ ہٹاتی بولی
کچھ۔۔۔کچھ نہیں ہو گا
فرزام کو سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ وہ اسے تسلی دے رہا تھا یا خود کو
ہم۔۔ہم نے تو ابھی زندگی کو۔۔۔جیا ہی۔۔کہاں تھا۔۔۔میں۔۔۔میں تو ایک پل بھی نہیں رہ سکتی بہرام کے بغیر۔۔۔۔آپ۔۔۔نے۔۔بھی تو بلاوجہ ہی سزا دی ہوئی تھی نا۔۔۔
اس نے اپنا پہلا شکوہ غیر ہوتی حالت میں فرزام سے کر ہی دیا تھا جو اس کے الفاظ چھین گیا
وہ اس کے کندھے سے لگے مسلسل بس روئے جا رہی تھی فرزام سے اس کی حالت دیکھنا بہت مشکل تھا
جب وہ وہ اچانک سیدھی ہوئی
مم۔۔میرا بچہ
وہ انجانے خدشے کے تحت پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی کہ تبھی ڈاکٹر اندر آئیں جنہیں فرزام نے اشارہ کیا اور پیچھے ہی ارحام داخل ہوا تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں آیا اور اپنے چاچو سے ملنے کی ضد کر رہا تھا۔۔۔۔۔وہ نا مانی گئی تو اپنی لٹل ڈول کو دیکھنے آ گیا____
بے بی بالکل ٹھیک ہے اور یقیناً تم پر ہی گئی ہو گی حورم___
فرزام بمشکل بولتا اسے بہلا رہا تھا جب ڈاکٹر نے اسے نیند کا انجیکشن دے دیا تھا جس سے وہ غنودگی میں جا رہی تھی اور جو آخری لفظ فرزام اور ارحام نے حورم کے منہ سے سنا وہ تھا
حورام____
ارحام سے مزید اپنی لٹل ڈول کو روتا نا دیکھا گیا تو باہر چلا گیا جبکہ حورم کوئی لمحہ یاد کرتے نیند کی وادیوں میں چلے گئی
ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے بچوں کا کیا ہو گا۔۔۔۔کیسے دیکھو گی تم مجھے ان کے ساتھ۔۔۔۔ویسے حورم ان کے ساتھ شئیر کر لو گی کیا مجھے۔۔۔۔ہمم
وہ آنکھیں میچیں سرخ چہرہ لیے اس کے سینے میں منہ چھپائے تھی
بہرام نا کریں نا پلیز۔۔۔۔
اس کی بے بس سی آواز اس کی سماعتوں میں ٹکرائی جس پر اس نے مسکراتے ہوئے اس کے بھورے بالوں پر لب رکھتے اسے مزید خود میں بھینچ لیا تھا
پتہ ہے حورم مجھے ایک بلیو آئیز والی پرنسس چاہیے جو بالکل تمہاری طرح ہو____
تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولا
اور جانتی ہو کہ اس کا نام کیا ہو گا
اس کی بات پر حورم نے سر اٹھایا
کیا ہو گا
وہ ہلکے سے سرخ چہرہ لیا بولی
حورام____
بہرام نے دھیرے سے کہا
حورام____
حورم نے دہرایا
ہاں__حورام___حورم اور بہرام سے حورام___حورم اور بہرام کے پیار کی نشانی___
وہ جھکتے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے بولا
کتنا خوش کن احساس ہو گا نا حورم جب ہم اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں میں سانس لیتا محسوس کریں گے
وہ اسے خود سے لگائے بول رہا تھا جبکہ وہ سکون سے آنکھیں موندیں ایک نئی اور خوشگوار زندگی کے بارے میں سوچنے لگی___واقعی ہی تب کیسا محسوس ہو گا نا_____
ڈاکٹر انجیکشن لگا کے جا چکی تھی۔۔۔فرزام نے اسے احتیاط سے بیڈ پر لٹایا اور اس کے ماتھے سے ہی اپنا سر ٹکا دیا تھا
اس کا اپنے نکلتے ہوئے آنسؤوں پہ کوئی اختیار نا تھا
مجھے معاف کر دینا حورم___اگر واقعی ہی بہرام کو کچھ ہو گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا
اس سے مزید وہاں رکا نہیں گیا تو وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا____
ارحام باہر آ کر کافی دیر سے اب ضد لگائے بیٹھے تھا کہ اسے بے بی گرل دیکھنی ہے اور ارحم اسے کافی سمجھا رہا تھا لیکن وہ بھی اپنی ضد کا پکا تھا___
بابا،آئی ڈونٹ ناؤ__نا آپ مجھے چاچو سے ملنے دے رہے ہو اور نا ہی اب بے بی گرل سے
اسے جب سے پتہ چلا تھا کہ اس کے چاچو اور لٹل ڈول کی ایک بے بی گرل بھی آ چکی ہے اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا__ویسے تو اسے چھوٹے بچوں سے کوئی خاص الفت تو نہیں تھی لیکن یہاں تو اس کے چاچو کی بے بی گرل تھی
کیا وہ میری طرح ہی کیوٹ ہو گی___
یہ سوچ بار بار اس کے ذہن میں آ رہی تھی
بالآخر ارحم کو ہار ماننی پڑی اور اس نے ڈاکٹر سے پرمیشن لی اور ارحام کو لیے ایک مخصوص کمرے کی جانب بڑھا تھا جب ایک آرمی یونیفارم میں ملبوس نوجوان نے اس سے کہا کہ کرنل سعید نے اسے طلب کیا ہے
وہ ارحام کو اندر جانے کا کہہ کر خود کرنل سعید کی طرف بڑھا___
ارحام اندر آیا تو دیکھا کہ ایک شیشے کے بنے انکیوبیٹر میں ایک چھوٹی سی بچی سیدھی لیٹی ہوئی تھی جسے لال نیلی اور سفید بے شمار باریک تاروں اور ٹیوبز کی مدد سے جکڑا گیا ہوا تھا کہ وہ پوری طرح ان میں ہی کور تھی
بے بی گرل تو میرے سے بہت زیادہ چھوٹی ہے
وہ اسے دیکھتے بولا حالانکہ وہ ایک امیچیور ہو کے بھی ہیلتھی تھی لیکن ارحام کو وہ اپنے سے کافی چھوٹی لگی تھی
وہ انکیوبیٹر کے قریب ہوا تھا
Baby girl،you are also cute_____
لیکن مجھ سے زیادہ تو نہیں___
وہ خود ہی کہتا پھر دیکھنے لگا جب اچانک وہ اپنے ہاتھ پیر چلانے لگی تھی___اس نے ابھی تک اپنی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں اور شاید ایک مہینے تک نہیں کھولنی تھیں___
ارحام نے نوٹ کیا کہ اس کے ہونٹ کے اوپر ایک چھوٹا سا تل تھا بالکل جیسے اس کے چاچو کی طرح کا تھا___
وہ ابھی شاید اور نوٹ کرتا جب اس کا ننھا سا چھوٹا سا ٹیوبز میں جکڑا ہاتھ اس نے ہلایا اور وہ شیشے کے بنے انکیوبیٹر کی دیوار کے ساتھ سیدھا آ کر لگا عین ارحام کے سامنے___
ارحام نے بھی اپنا ہاتھ اٹھایا اور عین اس چھوٹے سے ہاتھ کے اوپر پورا کھول کر رکھ دیا جس سے وہ چھوٹا سا ہاتھ چھپ چکا تھا____
اور دھیرے سے نزدیک آ کر بولا
حورام___
لیکن پھر نفی میں سر ہلایا اور کہا
میر حورام علی شاہ____
رات بھی تاریکی کو چھپائے گزر چکی تھی اور نا جانے اس سویرے کے بعد بھی کب انہیں سویرے کی نوید ملنی تھی___کہ پھر سے رات ہونے کو آ رہی تھی__
خرم صاحب اور سمائرہ بیگم کو ارحم نے زبردستی رات کو ہی بھیج دیا تھا جبکہ وہ جانے کو تیار نہیں تھے۔۔۔۔۔۔جبکہ ان کی رات بھی تو آنکھوں میں ہی کٹی تھی حورم کو کل کو ایک دو بار ہوش آیا لیکن اسے پھر نیند کا انجیکشن دے دیا گیا کہ وہ اسے کیا کہیں گے جب تک وہ خود نہیں جانتے___
ڈاکٹرز نے بھی ابھی کچھ نہیں بتایا تھا کل کا کسی نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔۔صارم ارحم کے پاس آیا
بھائی۔۔۔آپ تو کچھ کھا لیں
اس کی بات پر ارحم نے سر اٹھایا سرخ ڈوروں سے سجی رات بھر جاگنے کی چغلی کر رہی تھیں
کیسے کھاؤں صارم۔۔۔۔جس کا جان سے عزیز بھائی اندر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے جس کا ابھی تک ڈاکٹرز نے کچھ بتایا نہیں وہ کیسے کچھ کھا سکتا ہے
اس کی بات پر صارم نے کچھ نہیں کہا ان سب کی جان بستی تھی سب کا ہی لاڈلا تھا وہ ابھی تک پھوپھو کو خبر نہیں دی گئی تھی کہ وہ جو آگے بیمار رہتی ہیں ان کی طبیعت مزید بگڑ سکتی تھی
جبکہ کچھ ہی دور بیٹھا فرزام کے دماغ میں ایک جملہ بار بار گردش کر رہا تھا
"آپ۔۔۔نے۔۔بھی تو بلاوجہ ہی سزا دی ہوئی تھی نا۔۔۔"
حورم کے کہے الفاظ اسے اندر تک ڈس رہے تھے۔۔۔۔۔کیسا پیار تھا اس کا اس کی بہن کے لیے
اسے اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جیسے صدیوں کی پیاس ہو جیسے کسی تپتے صحرا میں نا جانے کب سے بیہوش پڑی ہو کہ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ہسپٹل کے کمرے میں پایا تو جیسے سب کچھ یاد آتا گیا تھا___
وہ فوراً سے اٹھی تھی کہ تھوڑی دور کھڑی نرس ہڑبڑا گئی
دیکھیں میم ابھی آپ کو ریسٹ کی ضرورت۔۔۔
اس کی بات ہونے سے پہلے ہی وہ چلا اٹھی
نہیں ضرورت مجھے کسی چیز کی۔۔۔نہیں ہے
جس کی اسے ضرورت تھی نا جانے اس کی کیا حالت تھی اور وہ یہاں بے خبر پڑی تھی
وہ بغیر پرواہ کیے باہر کی جانب بڑھی جب تھوڑی ہی دور آئی سی یو کے سامنے ان کو دیکھتے وہ رکی تھی کل کی نسبت آج وہ کچھ بہتر تھی جب فرزام کی نظر اس پر پڑی تھی
بھ۔۔بھائی بہ۔۔بہرام۔۔۔مجھے ملنا ہے بہرام سے
وہ روتے بولی تھی
مل۔۔ملتے ہیں حورم
وہ اسے پکڑتے بولا جو آئی سی یو کی طرف ہی جا رہی تھی
مجھ۔۔مجھ میں اور دکھ سہنے کی سکت نہیں رہی۔۔۔اس۔۔اس سے کہیے گا کہ مجھے اور تکلیف نا دے پہلے ہی بہت جھیل چکی ہوں
وہ فرزام کے ساتھ لگی تڑپ رہی تھی
آپ۔۔آپ نے کیوں مجھے اتنا پیار دیا بھائی
اس کے انداز پر اسے پریشانی لاحق ہوئی تھی
ک۔۔کیوں مجھے غموں سے نا آشنا رکھا تھا کیوں اتنا پیار دیا تھا کہ ہر تکلیف سے مجھے دور رکھا تھا کہ میں دکھ سے نا واقف ہی رہی اور اب جب پتہ چل رہا ہے کہ تکلیف کیا ہوتا ہے تو شاید اتنی اذیت نا ہوتی
آج اپنی بہن کے سامنے وہ بھائی بے بس تھا وہ آج چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔حورم کی حالت پر ہر آنکھ اشکبار تھی
مجھ۔۔مجھ سے زندگی کیوں اتنے امتحان لے رہی ہے۔۔۔میں نے تو کبھی۔۔کبھی کسی کے بارے میں غلط نہیں سوچا تھا پھر کیوں میرے ساتھ ایسا ہو رہا ہے کیوں__-
جب۔۔جب سب سے زیادہ مجھے۔۔مجھے بہرام کی ضرورت تھی تب آپ کی وجہ سے ہم نے سزا کاٹی بھائی آپ کی وجہ سے۔۔۔۔ایسا پیار تھا آپ کا کہ اپنی ہی بہن کی آنکھوں کو نا پڑھ سکے بھائی___
آبش نے جا کر حورم کو سنبھالا تھا جبکہ فرزام کی حالت تو بیان سے باہر تھی وہ کیسے اتنا لاپرواہ ہو سکتا تھا۔۔۔اپنی بہن کی محبت کا زعم بڑھنے والے بھائی نے ہی اسے کس اذیت میں مبتلا رکھ تھا کہ وہ جان ہی نا سکا___
کہ زندگی میں پہلی بار حورم نے اس سے کوئی شکوہ کیا تھا___
تھوڑی دیر بعد آئی سی یو کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور حورم نے بے اختیار ہی فرزام کو تھاما تھا۔۔۔۔۔
ڈاکٹرز کے چہروں سے واضح تھا کہ کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔۔۔۔حورم کا فرزام کے ہاتھوں پر دباؤ بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔سب کی جان حلق میں ہی اٹکی تھی
دیکھیں ہم نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ کو ہر خبر کے لیے تیار رہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔