فرزام گھر آ چکا تھا لیکن حورم ابھی تک نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔اور یہی آبش کو پریشانی تھی۔۔۔۔حورم کو گئے دو گھنٹے ہو چکے تھے اور فرزام بھی کچھ جلد ہی میٹنگ سے فارغ ہو گیا تھا۔۔۔۔آبش اپنے ہی خیالوں میں تھی جب فرزام نے اسے پکارا
کہاں کھو گئی مسز
اس کے پکارنے پر وہ ہڑبڑائی
نہ۔۔نہیں کہیں نہیں۔۔۔۔بس آپ کچھ جلدی نہیں آ گئے
اس نے اس کا کوٹ اتارتے پوچھا
ہممم۔۔۔۔۔میٹنگ جلد ہی ختم ہو گئی تھی اسی لیے آ گیا ویسے حورم کدھر ہے نظر نہیں آ رہی
آبش اس کا کوٹ ہینگ کر رہی تھی جب فرزام نے پوچھا اور اسی سوال سے وہ بچنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔جھوٹ تو وہ بول نہیں سکتی تھی لیکن سچ بتا کہ نا جانے اس کا کیا ری ایکشن ہو
وہ۔۔۔وہ حورم تو صبح سمندر پر جانے کی ضد کر رہی تھی وہاں ہی گئی ہے
اس کے کہنے پر جو وہ فریش ہونے چل دیا رک گیا
کیا مطلب چلے گئی۔۔۔۔کس کے ساتھ گئی اور مجھ سے پوچھے بغیر
فرزام اس کے پاس آتے پریشانی سے بولا
اکیلی ہی گئی فرزام۔۔۔لیکن۔۔۔۔
وہ ابھی کہہ رہی تھی جب فرزام کمرے سے باہر نکلا
فرزام رکیں تو سہی۔۔۔پوری بات تو سن لیں
وہ اس کے پیچھے آتی بولی
آبش تم نے اس کی کنڈیشن کو دیکھتے کیسے اسے جانے دیا۔۔۔کچھ بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے
وہ جلدی سے کہتے گارڈز کو اشارہ کرتے بولا اور خان بابا سے چابی لے کر گاڑی خود نکالی۔۔۔پیچھے ہی اس کے گارڈز بھی تھے۔۔۔۔وہ بری طرح پریشان تھا اور اسے صرف حورم کی فکر تھی۔۔۔۔اس کا رخ ساحل سمندر کی جانب تھا
پیچھے آبش نے اس کی سلامتی کی دعا کی۔۔۔۔۔
حورم سے اس کی ملاقات اتفاقیہ تھی۔۔۔۔اس سے مل کر وہ اندر تک سرشار ہو گیا تھا اور اب اس نے گاڑی گھر کی جانب موڑی جب اس کا فون رنگ کرنے لگا۔۔۔اس نے ڈرائیو کرتے ہی ان ناؤن کال ریسیو کی تھی لیکن دوسری طرف سے آنے والی آواز نے اس کا پاؤں بریک کی جانب بڑھایا اور بریک اتنی شدید تھی کہ ایکسیڈنٹ ہوتے بچا۔۔۔۔
یاد رکھنا کہ بہرام تمہیں نہیں چھوڑے گا
حورم کی تڑپتی آواز نے جیسے اس کی قوت گویائی چھین لی ہو
دیکھتے ہیں کہ کون کسے چھوڑتا ہے اور کسے نہیں۔۔۔ڈئیر کزن
عاشر کی آواز نے جیسے اسے ہوش کی دنیا میں لایا
ہی۔۔۔ہیلو۔۔۔حورم
اس نے چیخ کر پکارا جس پر مقابل کا قہقہہ بے ساختہ تھا
اوہ۔۔۔تو شاہ صاحب بھی تڑپ گئے
وہ ہنستے بولا
اگر میری بیوی اور بچے کو کچھ بھی ہوا نا تو یاد رکھنا بہت برا حال کروں گا کہ اپنے آپ کو پہچاننے سے انکار کر دو گے عاشر چوہدری
بہرام دھاڑا
اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔میں ڈر گیا میر بہرام علی شاہ۔۔۔۔ٹھیک ہے ویسے تمہاری بیوی میری کزن بھی اور سابقہ منکوحہ بھی ہے۔۔۔۔اسے ایک آنچ نہیں آنے دوں گا لیکن۔۔۔۔
بہرام لب بھینچے سن رہا تھا۔۔۔۔اس کی آنکھیں خطرناک حد تک سرخ ہو چکی تھیں بس نہیں چل رہا تھا کہ حورم کے پاس پہنچ جائے
لیکن تمہیں میرے بتائے گئے ایڈریس تک پہنچنا ہو گا اور کوئی ہوشیاری یا چالاکی نہیں ہونی چاہیے ورنہ اپنی بیوی اور بچے کو بھول جانا اور ہاں نا ہی کال بند ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے اسے راستہ بتایا جا رہا تھا۔۔۔۔اور بہرام نے اسی طرف گاڑی موڑی۔۔۔۔اس کا رواں رواں سلگ رہا تھا۔۔۔۔۔
اس بلڈنگ پر اوپری فلور پر تمہیں آنا ہے
اس کے بتائے ایڈریس پر پہنچ کر بہرام نے کال بند کی اور ایک میسیج ارحم کو چھوڑتا موبائل گاڑی میں ہی پھینکتا باہر نکل کر بلڈنگ کی جانب بڑھا جبکہ پیچھے سے اس کے موبائل پر کسی کی کال مسلسل آ رہی تھی
فرزام ساحل سمندر پہنچ چکا تھا جہاں اکثر حورم اس کے ساتھ آتی تھی لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔پریشانی اس کے چہرے پر واضح تھی۔۔۔۔اس نے سارہ سے کال کر کے پوچھا لیکن وہ وہاں پر بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ اس کی کوئی اور دوست بھی نہیں تھی جس سے فرزام پوچھتا
بہرام۔۔۔ہاں بہرام سے پوچھتا ہوں
اس نے بہرام کے نمبر پر ٹرائی کیا لیکن کال جا رہی تھی لیکن ریسیو نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔
اس نے گاڑی کے ٹائر پر زور سے پاؤں مارا
حورم۔۔۔کہاں ہو یار۔۔۔کہاں ڈھونڈو۔۔۔کم از کم بتا تو دیتی
وہ خود سے بولتا گاڑی میں بیٹھا اور اب اس کا رخ شاہ پیلیس کی طرف تھا۔۔۔۔
اسے اس ویران سی بلڈنگ میں لایا گیا تھا جس کا اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔۔۔۔ہر جگہ دھول اور مٹی تھی اور جگہ جگہ لوہے کی سلاخیں اور راڈز پڑی ہوئیں تھیں اور اوپر سے اسے خوف الگ۔۔۔۔۔۔کرسی پر بیٹھی وہ ادھر ادھر نگاہ دوڑا رہی تھی جب سامنے سے اسے عاشر آتا دکھائی دیا۔۔۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا سگا کزن ہی اس قدر سفاک ہو سکتا ہے۔۔۔۔کم از کم کزن ہونے کا ہی بھرم رکھ لیا ہوتا اس نے۔۔۔
یہاں زیادہ مسئلہ تو نہیں ہو رہا نا
وہ سامنے کھڑکی سے پار دیکھتا بولا جہاں سے سامنے اینٹرینس کا منظر تھا اور اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا جب وہ بولی تھی
یاد رکھنا کہ بہرام تمہیں نہیں چھوڑے گا
وہ چلائی تھی جبکہ اس کو جواب دینے کے بعد وہ کال پر بہرام سے بات کرنے لگا اور اسے جگہ کا بتا رہا تھا۔۔۔۔
حورم کا دل بند ہونے کو تھا اسے صبح کا لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہونے کو ہے۔۔۔۔
عاشر نے کال بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور پھر ایک سائیڈ پر غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔
حورم بس رو دینے کو تھی جب اسے سامنے سے بہرام آتا دکھائی دیا جیسے اسے نئی زندگی ملی ہو۔۔۔۔۔
اسے اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر بہرام نے ایک سکون کا سانس لیا اور اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ جب فائر کی آواز کے ساتھ گولی چلی
ٹھاہ!!!!!!!!!
اور ایک دم سناٹا چھایا تھا
حورم نے دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھول کر دیکھا تو عاشر ان دونوں کے درمیان کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں پسٹل تھی جبکہ اس نے بہرام اور حورم کے درمیان موجود کھڑکی کو نشانہ بنایا تھا
آ ہاں۔۔۔۔۔۔آگے آنے کو کس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ایک بات ماننی پڑے گی۔۔۔تم دونوں کی تڑپ کمال کی ہے
وہ ایک خستہ حال ڈیسک پر بیٹھتا بولا
تم چاہتے ہو کیا ہو۔۔۔۔سیدھے مدعے پر آؤ۔۔۔۔اور حورم کو اس معاملے میں دور رکھو
بہرام سرخ آنکھیں لیے غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔۔جبکہ حورم خوفزدہ سی تھی
میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔چاہا تو میں نے بھی بہت کچھ تھا لیکن تم دونوں کا میرے ہر پلین کو ناکارہ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہے
وہ اپنے ہاتھ میں پسٹل کو گھماتے بولا
تم لوگ نہیں جانتے کہ حورم کے ذریعے میں کہاں تک پہنچ سکتا تھا لیکن اس نے تو رخصتی سے پہلے ہی طلاق لے لی۔۔۔۔۔اور پھر تم نے کیا کیا مجھ پر میری ہی چال الٹ دی میر بہرام علی شاہ۔۔۔۔میں نے سوچا تھا کہ تمہارے ذریعے میں حورم تک تو پہنچ جاؤں گا لیکن اس کے پیچھے تو تمہارا اپنا مقصد تھا اور تم جانتے ہو کہ سب سے بڑا نقصان بھی تم نے ہی دیا تھا
وہ چلتا حورم کی طرف آیا
تم نے جو کہنا ہے مجھ سے کہو لیکن حورم کو یہاں سے بھیجو۔۔۔۔۔
بہرام حورم کا کانپنا محسوس کر چکا تھا جو کہ آنکھیں بند کیے ہوئے تھی
آج تم دونوں سے ایک ہی واپس جائے گا۔۔۔۔ٹھیک ہے حورم کو کچھ نہیں کہتا لیکن اس کے بدلے تمہیں اپنی جان دینی پڑے گی
اس کے کہنے پر حورم نے آنکھیں کھولیں
نہ۔۔۔نہیں!!!!!!!!!
وہ چلائی تھی۔۔۔۔بے شمار آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے جبکہ بہرام ہی جانتا تھا کہ وہ کس ضبط سے گزر رہا تھا
حورم کرسی سے اٹھ کر بہرام کی طرف بڑھنے لگی کہ جب عاشر نے اس کے سر پر پسٹل تانی
عا۔۔۔عاشر دیکھو۔۔۔۔حورم کو جانے دو۔۔۔۔مجھ سے جونسا بدلہ لینا ہے لے لو لیکن حورم کو یہاں سے بھیجو۔۔۔میری جان چاہیے تو لے لو لیکن حورم کو کچھ نہیں ہونا چاہیے
اس کے کہنے پر حورم نا میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔اسے اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جبکہ عاشر کا قہقہہ گونجا
تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں ماروں گا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ہر گز نہیں
اس نے کہتے ہی پینٹ سے ایک اور پسٹل نکالی اور حورم کی طرف بڑھائی
نہیں۔۔۔۔بلکہ تمہاری بیوی تمہاری جان لے گی۔۔۔۔
وہ بے درد لہجے میں بولتا دونوں کی ہی جان نکال گیا تھا۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔میں ایسا نہیں کروں گی۔۔۔۔تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو مار لو لیکن بہرام کو کچھ نا کہو۔۔۔۔
حورم کو لگ رہا تھا کہ وہ آج واقعی ہی مر جائے گی۔۔۔۔۔بہرام کے بغیر وہ کیسے جینے کا سوچ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔میں اپنی جان دینے کو تیار ہوں لیکن کیا گارنٹی ہے کہ حورم کو ایک خراش تک نہیں آئے گی
بہرام نے ہار مانتے کہا۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ حورم پر کیا بیتے گی لیکن وہاں اس کی دو جانیں تھیں ایک اس کے سامنے۔۔۔اور ایک ابھی جو اس دنیا میں بھی نہیں آئی تھی اور وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا
ہاہاہا۔۔۔۔یار پھر بھی میری رگوں میں چوہدریوں کا خون دوڑتا ہے۔۔۔اتنا غیرت مند ہوں کہ اپنے کیے وعدے سے نہیں مکروں گا۔۔۔۔۔وعدہ رہا کہ حورم کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا
اب منظر یہ تھا کہ عاشر نے پسٹل حورم کے سر پر رکھی تھی اور دوسری اس کے سامنے جبکہ بہرام اس کے سامنے ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح کھڑا تھا ان دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر تھیں جو بہت کچھ کہہ رہی تھیں
مجھے اپنے مرنے کا ڈر نہیں!!!!!!!!!
لیکن
ہائے میں تجھ سے بچھڑ جاؤں گا
حورم پسٹل اٹھاؤ۔۔۔۔۔
بہرام نے اس سے کہا جبکہ وہ سکتے کے عالم میں سر کو نفی میں ہلا رہی تھی۔۔۔۔۔اس سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہو رہا تھا
حورم۔۔۔۔میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔
عاشر نے اس کے سر پر پسٹل سے دباؤ ڈال کر ٹریگر کی طرف ہاتھ بڑھایا جب بہرام کی تنبیہ کرتی نظروں سے اس نے کانپتے ہاتھوں سے پسٹل اٹھائی تھی۔۔۔۔اور رکتی سانسوں سے اس کی جانب بڑھائی۔۔۔۔۔وہ بولنا چاہتی تھی۔۔۔۔منع کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔چلانا چاہتی تھی لیکن سارے الفاظ کہیں کھو گئے تھے۔۔۔۔۔پسٹل سیدھا بہرام کے سینے پر تھی۔۔۔۔۔۔
بہرام ان روتی التجا کرتی نگاہوں میں ہی دیکھ رہا تھا جو اسے کہہ رہی تھیں کہ
بہرام میں مر جاؤں گی آپ کے بغیر
جبکہ بہرام کی نظریں کہہ رہی تھیں کہ
تمہارے بغیر میں مر جاؤں گی
حورم۔۔۔۔شوٹ می
بہرام نے ایک ہلکی سی نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جو حورم کے دل کو دہلا گئے تھے۔۔۔۔اس سے زیادہ دیر دیکھا نہیں گیا تو اپنی آنکھیں بند کر لیں اور بہرام کی آواز پر کانپتے ہاتھوں سے ٹریگر کو دبایا
ٹھاہ!!!!!!!!!!!!!!
گولی نکلتی سیدھا بہرام کے سینے میں پیوست ہوئی تھی
جہاں پسٹل حورم کے ہاتھ سے نکل کر نیچے گرا وہاں بہرام گھٹنوں کے بل نیچے گرا جس سے اس کا سر پیچھے پڑے راڈز پر لگا تھا ایک ہلکی سی چیخ نکلی جس سے حورم کو ہوش آیا تھا
بہرام!!!!!!!!!!!!
وہ چیختے بہرام کی جانب بڑھی تھی جس کے سینے سے نکلتا خون اس کی سفید شرٹ کو داغدار کر چکا تھا اور سر سے نکتا خون فرش کو۔۔۔۔۔
وہ چیختی اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور بہرام کا سر اپنی گود میں رکھا۔۔۔۔۔آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے چہرے پر گر رہے تھے
عاشر ان دونوں پر ایک نظر ڈالتا نکل چکا تھا۔۔۔۔اس کا بدلہ بہرام شاہ سے تھا جو وہ حورم کے ذریعے لے چکا تھا۔۔۔۔۔۔
بہ۔۔۔بہر۔۔۔بہرام!!!!۔۔۔۔آ۔۔۔آپ ایسے نہیں کر سکتے۔۔۔۔آپ کو ابھی جینا ہے۔۔۔۔آپ نے مجھے مر جانے دیا ہوتا
حورم کانپتے لہجے اور ہاتھوں سے بہرام کا چہرہ پکڑتے بولی
تمہارے۔۔۔بغیر۔۔۔میں زندگی کا تصور کر سکتا ہوں بھلا۔۔۔
ایک ہاتھ حورم کے چہرے پر رکھے اٹکتے بولا
آپ کے بغیر میں کیسے رہ سکتی ہوں۔۔۔۔آپ نے ساتھ ایک حسین زندگی شروع کرنے کو کہا تھا نا۔۔۔آپ ایسے دھوکہ نہیں دے سکتے بہرام!!!!!!
اس کے آنسو بہرام کو مزید تکلیف دے رہے تھے
اگر زندگی دھوکہ دے۔۔۔تو مجھے بے وفا مت سمجھنا۔۔۔۔حورم بس اتنا یاد رکھنا کہ مجھے تم سے محبت تھی،مجھے تم سے محبت ہے اور مر کر بھی رہے گی
بہرام اٹکتی سانسوں سے بولا جبکہ حورم کے آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔دونوں کے سفید کپڑے خون سے رنگ چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔
سارے فیصلے تم نے خود ہی کر ڈالے
اے زندگی ذرا مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا
کیسے جینا تھا،کس کے ساتھ جینا تھا اور کتنا جینا تھا
آ۔۔آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ابھی تو ہماری زندگی بھی دنیا میں آنے والی ہے نا۔۔۔۔
حورم کا ایک ہاتھ بہرام کے سینے پر گولی والی جگہ پر تھا جہاں سے خون نکلتا جا رہا تھا اور بہرام کا ایک ہاتھ حورم کے ہاتھ پر تھا جبکہ دوسرا ہاتھ اس کے پیٹ پر تھا جس ہاتھ پر حورم کا دوسرا ہاتھ تھا
ت۔۔تم۔۔ہو گی نا۔۔۔خیال رکھنے۔۔۔کے۔۔لیے۔۔ویسے بھی۔۔۔تمہاری بانہوں میں مرنے۔۔۔سے زیادہ خوش نصیبی۔۔کی کیا بات ہو گی۔۔۔شاید۔۔۔ابھی ہی فرز۔۔ام کو یقین آ جائے۔۔۔کہ تمہاری حفاظت کے۔۔لیے جان تک دے سکتا ہوں۔۔۔
اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی۔۔۔۔یہ شاید اس کی سخت ٹریننگ کا ہی نتیجہ تھا جو اتنا برداشت کر کے بھی اس کی سانسیں چل رہی تھیں ورنہ کب کا دم توڑ دیا ہوتا
عارضی۔۔دوری جھیلی ہے۔۔۔بہرام۔۔۔مستقل ہجر کی سکت۔۔۔نہیں۔۔۔مجھ میں۔۔۔میں دعا کرتی ہوں۔۔۔کہ۔۔۔آپ کی سانسیں ختم ہونے سے پہلے میرے دل۔۔۔کی دھڑکن بند ہو جائے بہرام!!!!!!!!
حورم کو لگا تھا کہ اب وہ مزید بولے گی تو اس کا دل رک جائے گا۔۔۔۔۔وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔۔۔۔اور اسے درد شروع ہو چکا تھا
میرے وجود میں سانسوں کی آگاہی کے لیے
تیرا مجھ میں دھڑکنا ، بہت ضروری ہے!!!!!!!
اس سے پہلے کہ تکلیف سے حورم کی آنکھیں بند ہوتیں اس نے جھک کر اپنے لب بہرام کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔۔۔
بہرام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی سانسوں میں سانسیں مل کر آب حیات کا کام کر رہی تھیں یا پھر اس کی روح کو کھینچا جا رہا تھا۔۔۔۔کتنا اذیت ناک وہ لمحہ تھا کہ اس کی خواہش کہاں اور کس وقت پوری ہو رہی تھی جب وہ نا اپنے لیے کچھ کر سکتا تھا اور نا ہی حورم کے لیے۔۔۔۔۔آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہو چکے تھے
حورم نے درد کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے ایک ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا تو دوسرے سے بہرام کو مضبوطی سے پکڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے سینے پر سر رکھ کر گہرے سانس لیتی آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ پرنم، اشک زم زم، سانس مدہم،وقت ہے کم
وصال راحت، ہجر ماتم، رقیب قاتل، موت مرہم