صبح ہو چکی تھی اور پردوں سے چھن کے آتی سورج کی روشنی نے اسے کسمسانے پر مجبور کیا۔۔۔۔اس نے کروٹ بدل کر ہلکے سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو اس کے سوئے ہوئے حواس بیدار ہونے لگے۔۔۔۔۔لیکن ساتھ ہی اس کے دل کی دھڑکن بھی بڑھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی خوشبو محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے ساتھ بیڈ پر رکھا۔۔۔۔وہ آیا تھا۔۔۔۔ہاں وہ آیا تھا۔۔۔۔اس کا دل گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔۔اس کی خوشبو اس اپنے جسم کے اردگرد محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے بیڈ شیٹ کو دونوں مٹھیوں میں جکڑا اور آنسو اپنے اندر اتارنے لگی۔۔۔۔۔۔کہ تبھی اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے ایک کاغذ پر پڑی تھی۔۔۔۔
حورم نے کانپتے ہاتھوں سے اٹھایا اور اسے کھولا جس پر لکھا تھا
"شاید کبھی بعض اوقات لفظوں کی مدد سے بھی حال دل نہیں بیان کیا جا سکتا کہ جس تکلیف سے تم گزر رہی ہو میں بھی اسی تکلیف سے گزر رہا ہوں اسی لیے زیادہ نہیں بس اتنا کہوں گا حورم کہ بس میرے واپس کا انتظار کرنا۔۔۔۔ایک نئی زندگی کی شروعات کے لیے۔۔۔۔۔اتنی دیر تک اپنا اور ہمارے بے بی کا بہت اچھے سے خیال رکھنا ہے تمہیں اور آئندہ سے سلیپنگ پلز لینے کی کوئی ضرورت نہیں میری جان۔۔۔۔بس سوتے وقت آنکھیں بند کر کے مجھے سوچنا تو تم مجھے اپنے پاس ہی پائے گی
سنا ہے کہ وہ راتوں کو جاگتی ہے
اسے کہنا کہ سوتے ہم بھی نہیں
سنا ہے کہ وہ چھپ چھپ کے روتی ہے
اسے کہنا کہ اب ہنستے ہم بھی نہیں
سنا ہے کہ وہ مجھے بہت یاد کرتی ہے
اسے کہنا کہ بھولے تو ہم بھی نہیں
سنا ہے کہ وہ وفا کا دعویٰ کرتی ہے
اسے کہنا کہ بے وفا ہم بھی نہیں
سنا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے
اسے کہنا کہ مجھے بھی اس سے محبت ہے
اور ہاں میری طرف سے ہمارے بچے کو ڈھیر سارا پیار دینا اور اداس بالکل مت ہونا"
آنسو بہہ کر اس کاغذ کے ٹکڑے پر گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا دن بہت خوشگوار تھا کیونکہ آج ارحم ارحہ اور ارحام ان سے ملنے آئے تھے کیونکہ وہ اسلام آباد واپس جانے والے تھے اسی لیے فرزام اور آبش کے اصرار پر انہیں ایک رات یہاں رکنا پڑا۔۔۔۔۔
بہرام کو گئے ہفتہ ہو چکا تھا اس کے بعد حورم خود کو سنبھال چکی تھی اور فرزام اور آبش اس کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے کہ کبھی کبھی وہ چڑ بھی جاتی تھی۔۔۔۔جس پر وہ دونوں اپنی ہنسی ضبط کرتے۔۔۔۔۔فرزام اب آفس سے جلد واپس آ جایا کرتا تھا اور حورم کے ساتھ اچھا خاصہ ٹائم بھی سپینڈ کرتا۔۔۔۔۔
اس وقت وہ باہر باغیچے میں بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ ارحہ فرزام اور حورم کے ماموں کی بیٹی تھی اور آبش کی بھابھی جس سے ان کی اچھی خاصی فرینکنس بھی تھی جبکہ ارحام باغیچے میں اڑتی ہوئی تتلیوں کو پکڑنے کی کوشش میں تھا
رات سونے کے وقت حورم ٹیرس پر کھڑی تھی اور جب کمرے میں داخل ہوئی تو ارحام دروازہ ناک کرتا کمرے میں آیا
اسے دیکھ کر حورم مسکرائی۔۔۔۔وہ بہرام کی کاپی تھا۔۔۔اسی طرح کے نین نقش بس آنکھیں گرین تھیں۔۔۔۔
کیا ہو گیا لٹل ڈیول کو۔۔۔۔نیند نہیں آ رہی کیا آپ کو
وہ اس کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھتی بولی
کیا میں آج آپ کے پاس سو سکتا ہوں۔۔۔۔
وہ اپنی آنکھیں پٹپٹاتے بولا جس پر وہ ہنس دی
کیوں نہیں۔۔۔۔۔میں بھی ویسے بور ہو رہی تھی۔۔۔آپ کے ساتھ باتیں بھی ہو جائیں گی پھر تو۔۔۔
وہ اسے لیے بیڈ کی جانب بڑھی اور اس کے بالوں میں اپنی نرم انگلیاں چلانے لگی
لٹل ڈول۔۔۔۔کیا آپ چاچو کو مس کرتی ہیں۔۔۔
وہ ایسے ہی لیٹا پوچھ رہا تھا۔۔۔۔اس کی بات پر حورم کا ہاتھ رکا
ہممم۔۔۔۔آتی تو ہے ان کی یاد۔۔۔۔آپ بھی مس کرتے ہو
وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی
ہاں نا۔۔۔میں بھی انہیں بہت مس کرتا ہوں۔۔۔۔
وہ بہت معصومیت سے بول رہا تھا کہ حورم کو اس پر جی بھر کر پیار آیا
اچھا۔۔۔۔آپ سٹوری سنو گے
وہ اس کے ماتھے کو چومتی بولی
ویسے مجھے یہ سٹوریز پسند تو نہیں ہیں لیکن میں آپ سے سننا چاہوں گا
حورم نے اسے سلانے کے لیے سنڈریلا کی سٹوری سنائی کیونکہ رات بھی کافی ہو چکی تھی اور ارحام اب تک جاگ رہا تھا لیکن شاید اسے ابھی بھی نیند نہیں آ رہی تھی
اگر پرنس کو اس کی سنڈریلا مل گئی تھی تو پھر اس نے اس کی سٹیپ مدر اور سسٹرز کو کچھ نہیں کہا جنہوں نے اس کی سنڈریلا کو اتنا ہرٹ کیا تھا
وہ سٹوری ختم ہونے کے بعد بولا
اممم۔۔۔۔پتہ نہیں کیونکہ بعد میں دونوں ہیپی لائف گزارنے لگے
وہ سوچتے بولی اور دعا کی کہ کسی بھی سنڈریلا سے اس کا پرنس نا جدا ہو اور بے اختیار ہی بہرام کی یاد آئی
اگر میں پرنس ہوتا نا تو اپنی سنڈریلا کو ذرا سی بھی تکلیف دینے والے کا بہت برا حال کرتا
اس کی بات پر حورم ہنسنے لگی اور ارحام کی بات کو سیریس نا لیا لیکن شاید ارحام مذاق کے موڈ میں نہیں تھا
آج چار ماہ گزر چکے تھے بہرام کو گئے ہوئے اور اس کی پریگنینسی کو آٹھ ماہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے اسے ایک ماہ بعد کا ٹائم دیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس کی برتھڈے کا دن تھا اور آج ہی ارحام کا بھی برتھڈے تھا۔۔۔۔۔۔کل ہی اسے پتہ چلا تھا کہ وہ ارحم ایک کام کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا تھا اور ارحہ اور ارحام اس وقت شاہ پیلیس تھے۔۔۔۔۔۔
لیکن آج کے دن سے عجیب قسم کی وحشت ہو رہی تھی۔۔۔۔۔کچھ ماحول بھی افسردہ سا تھا کہ نا کوئی ہوا چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور نا ہی موسم اتنا خوشگوار تھا۔۔۔
اسے بہرام کی شدت سے یاد آ رہی تھی۔۔۔۔۔اسے دیکھے اس سے ملے آج سات ماہ ہونے کو آئے تھے لیکن آج اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اس کا دل بس اسے اپنے سامنے دیکھنے کو کر رہا تھا۔۔۔۔۔
آ جا ، کہ ابھی ضبط کا ، موسم نہیں گزرا
آ جا ، کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ھے
خوشبو کے جزیروں سے ، ستاروں کی حدوں تک
اِس شہر میں سب کچھ ھے ، بس تیری کمی ھے
وہ جانتی تھی کہ ایسا ممکن نہیں اسی لیے اس نے باہر جانے کا فیصلہ کیا
وہ جانتی تھی کہ فرزام کی آج ایک آفس میٹنگ ہے ورنہ وہ اسے کبھی بھی نا جانے دیتا۔۔۔۔اس نے بڑی مشکل سے آبش کو منایا تھا۔۔۔۔۔
حورم۔۔۔۔میں بالکل بھی تمہیں یوں جانے نہیں دوں گی۔۔۔اپنی حالت دیکھو اور تم اکیلے جانا چاہتی ہو
آبش اسے سمجھاتے بولی
بھابھی۔۔۔پلیز جانے دیں۔۔۔۔اگر میں آج نا گئی تو مجھے لگ رہا ہے کہ میرا دل بند ہو جائے گا۔۔۔۔مجھ سے اور صبر نہیں ہو رہا۔۔۔۔
اس کی بے انتہا ضد کے آگے آبش گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔۔۔
حورم نے کمرے میں آکر الماری سے چادر نکالی جو کہ سات ماہ پہلے اس کی اور بہرام کی آخری ملاقات کے وقت بہرام نے اسے اوڑھائی تھی۔۔۔۔
سفید شیفون کی پیروں کو چھوتی فراک پر گہرے نیلے رنگ کے ڈوپٹے کو گلے میں ڈالے اوپر بہرام کی چادر اوڑھ کر اس نے خود کو مکمل کور کیا اور ناک میں نیلے رنگ کی نوزپن گلے میں نیلے رنگ کا نیکلس پہنے نیلی سرخ سی آنکھیں لیے وہ تیار تھی۔۔۔۔۔جب کبھی اسے بہرام کی یاد آتی تو اسی چادر کو اپنے گرد لپیٹ کر اس کے ہونے کے احساس کو محسوس کرتی۔۔۔۔۔۔
نکلتے وقت اس کا دل دھڑک اٹھا تھا۔۔۔۔۔آج کچھ ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔اپنی حالت کو بھلائے وہ اکیلی ہی نکل چکی تھی اور اس کا رخ ساحل سمندر تھا جہاں آج وہ اپنے دل کے غبار کو نکال سکتی تھی ورنہ اسے لگ رہا تھا کہ آج کے دن اس کا دم گھٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔
حورم اسی چٹان کی طرف بڑھی جہاں وہ اور بہرام اکثر آیا کرتے تھے۔۔۔۔ان کی شادی کے کچھ ہی مہینوں میں اسے بہرام کی بری طرح عادت لگ چکی تھی خیر محبت تو اسے آفس میں پہلی ہی دفعہ ہو گئی تھی شاید ان کے درمیان موجود نکاح کے پر اثر رشتے کا بھی اثر تھا کہ حورم کا دل بار بار اس کی چاہ کرتا تھا۔۔۔۔اس نے بہت بار اپنے دل کو ڈپٹا کہ نا جانے وہ اس رشتے کو قائم رکھنا بھی چاہتا ہے یا نہیں لیکن وہ کہاں باز آنے والا تھا اور رخصتی کے بعد بہرام کی اتنی محبت کے نتیجے میں اس کے لیے بہرام کے بغیر رہنا بہت مشکل تھا
وہ جیسے جیسے اس چٹان کے نزدیک آ رہی تھی اس کا دل مزید رفتار پکڑتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی سمندر سے آتی ہوا اسے پرسکون کر رہی تھیں جیسے کسی سے ٹکڑا کر اس کی خوشبو کو اس تک لا رہی تھیں۔۔۔۔۔
وہ اس چٹان کے پاس آئی لیکن اسے رکنا پڑا تھا۔۔۔۔اس کے قدم ریت پر ہی منجمند ہو چکے تھے۔۔۔۔اسے اپنے سامنے پا کر سفید شرٹ پہنے بند آنکھوں سے کھڑا دیکھ کر جہاں اس کا دل پہلے زور و شور سے دھڑک رہا تھا اب بالکل خاموش ہو چکا تھا۔۔۔۔۔جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا ہو
اس نے بہرام کو اب آنکھیں کھولتے دیکھا تو سامنے ہی اسے پا کر وہ بے چین ہوتا اس کی طرف بڑھا تھا
حورم چاہ کر بھی اپنے قدموں کو ہلا نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔وہ اب اس کے قریب آ چکا تھا۔۔۔۔۔
بہرام۔۔۔
حورم نے تڑپ کر اسے پکارا
جانِ بہرام
اس کے شدت سے پکارنے پر حورم کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں اس نے لمبا لمبا سانس لینا شروع کیا
میری جان کیسی ہے
بہرام نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے سے سر ٹکا کر پوچھا
اس کے پوچھنے پر حورم کا دل کیا کہ چیخ چیخ کر اس سے کہا کہ آپ کے بغیر میں کیسی ہو سکتی ہوں
اس نے کچھ کہے بنا ہی اپنا سر اس کے کندھے سے ٹکا دیا آنسو کو خود بخود ہی بہنے کا راستے مل چکا تھا
حورم۔۔۔۔میری جان۔۔۔رونے کے لیے تو نہیں کہا میں نے
بہرام نے حورم کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے کہا
آپ کو پتہ ہے کہ اتنے عرصے جب بھی آپ کی یادوں کے بادل میرے دل کی سرزمین پر چھاتے ہیں نہ تو سوائے آپ کے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور جب یہ گرجتے ہیں نہ تو بہت اذیت دیتے ہیں اور جب برسنے لگ جاتے ہیں تو ان کا پانی میری آنکھوں کے رستے باہر نکلتا ہے یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ ہے اتنے عرصہ دوری برداشت کی ہے اب اور نہیں ہوتی مجھے لگتا ہے کہ میں آج مر جاؤں گی
وہ کب سے اس کے کندھے پر سر رکھے رو رہی تھی اور جب اس کی آخری بات برداشت نہیں ہوئی تو سختی سے اس کے چادر میں لپٹے وجود کو اپنے سینے میں بھنچ لیا
حورم بس کر جاؤ یار
وہ اسے سینے سے لگائے خود بھی رو رہا تھا بس فرق اتنا تھا کہ وہ آنسؤوں سے اس کا سینہ بھگو رہی تھی جبکہ وہ ضبط کی انتہا پر ہو کر اپنے آنسؤوں کے اپنے آنکھوں کے ذریعے اپنے سینے میں اتار رہا تھا
کیسے بس کر جاؤں بہرام۔۔۔۔آپ بتائیں کیسے بس کر جاؤں۔۔۔۔اور مجھے اپنے نا کردہ جرم کی کتنی سزا ملے گی۔۔۔۔اور ابھی کتنا تڑپنا پڑے گا بہرام۔۔۔۔خدا کا واسطہ ہے یہاں سے لے جائیں مجھے۔۔۔۔نہیں رہنا مجھے اب آپ کے بغیر۔۔۔۔۔
وہ اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے کہہ رہی تھی
اب کچھ نہیں ہو گا حورم۔۔۔۔اب تم میرے پاس ہو گی۔۔۔۔اب ہم دونوں ہوں گے اور ہماری خوبصورت سی زندگی
وہ اس کی پیٹھ سہلاتے کہہ رہا تھا
حورم۔۔۔۔اپنی حالت کا خیال کرو یار۔۔۔۔طبیعت بگڑ جائے گی۔۔۔۔
وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اس کی روئی روئی آنکھوں کو باری باری چومتے بولا
میں نہیں رکھوں گی اب خیال۔۔۔۔بہت رکھ لیا اپنا خیال۔۔۔اب آپ رکھیں گے میرا خیال
وہ نروٹھے پن سے بولی۔۔۔اس کے انداز نے بہرام کو مسکرانے پر مجبور کر دیا
بالکل۔۔۔۔بھلا کنگ سے زیادہ کوئی اس کی کوئین کا خیال رکھ سکتا ہے
بہرام کے ہاتھ اس کے چہرے کے گرد تھے جبکہ حورم کے ہاتھ بہرام کے ہاتھوں پر
آپ بھائی سے آج ہی بات کریں گے۔۔۔۔اور اب واپس بھی جانا ہو گا
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی
تھوڑی دیر اور نہیں رک سکتی
بہرام نے اس کو کمر سے پکڑتے قریب کیا
اتنی ہی فکر ہے تو اب تک کہاں تھے۔۔۔مجھے اب جانا ہے
وہ خفا سی بولی
تمہاری ہی تو فکر تھی
وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے بولا
بھائی پریشان ہوں گے نا پا کر اور ویسے بھی بھابھی اکیلی ہیں
وہ جانے کے لیے مڑی لیکن رک کر بہرام کی طرف دیکھا اور اس کے قریب ہو کر اس کی پیشانی سے بال ہٹاتے اس کی صبیح پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے اس کی حرکت پر وہ مسکرا دیا
میں انتظار کروں گی
وہ کہتے ہی وہاں سے چلی گئی اور اس کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا
کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈنا
کبھی اُس نگر تجھے ڈھونڈنا ،
کبھی رات بھر تجھے سوچنا
کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا ،
مجھے جا بجا تیری جستجو
تجھے ڈھونڈتا ہوں میں کوبہ کو،۔۔!!!!
کہاں کھُل سکا تیرے روبرو
میرا اس قدر تجھے ڈھونڈنا ،
میرا خواب تھا کہ خیال تھا
وہ عروج تھا یا زوال تھا،۔۔!!!!
کبھی عرش پر تجھے ڈھونڈنا
کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈنا ،
یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے
تیرا شہر قرئیہ غیر ہے،۔۔!!!!
یہاں سہل بھی تو نہیں
کوئی میرے بےخبر تجھے ڈھونڈنا ،
تیری یاد آئی تو رودیا
تو جو مل دیا تجھے کھو دیا،۔۔!!!!
میرے سلسلے بھی عجیب ہیں
تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا ،
وہ واپسی کے لیے جا رہی تھی جب اس کا دل عجیب ہونے لگا۔۔۔۔بہرام سے مل کر آنے کے بعد دوبارہ اس کی حالت پہلے جیسے ہو گئی تھی۔۔۔۔ایک ڈر تھا یا پھر کیا
وہ بے چینی سے دروازہ کھولتی باہر نکل آئی۔۔۔۔سورج اپنے پورے جوبن پر تھا اور سڑک خالی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھوڑی دیر ٹہلتی رہی لیکن پھر گاڑی کی طرف مڑی اور دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ اس اپنی کمر پر کچھ محسوس ہوا اور پھر کسی کی جانی پہچانی آواز
ہیلو۔۔۔۔ڈئیر کزن۔۔۔تمہیں کیا لگا کہ اتنی آسانی سے پیچھا چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔اگر اپنی زندگی چاہتی ہو تو آرام سے سامنے گاڑی میں جا کر بیٹھو ورنہ تمہیں اور تمہارے بچے کو اڑانے میں کوئی وقت ضائع نہیں کروں گا
اس کی آواز سے اسے خوف محسوس ہونے لگا اور اس کی حالت بھی کچھ ایسی نا تھی کہ وہ مقابلہ کر سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔