بہرام نے لیپ ٹاپ کے ساتھ یو ایس بی اٹیچ کی اور اس پر ریکارڈنگز چلائیں اور فرزام کو سنایا جو کہ ہونق بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
اور اب مختلف تصویریں لیپ ٹاپ پر چل رہی تھیں۔۔۔۔۔
اب بھی نہیں یقین آیا؟
سب کچھ دکھانے کے بعد بہرام بولا
جبکہ فرزام حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
میں حورم کی حفاظت کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں فرزام چودھری۔۔۔۔اگر تمہیں اپنی بہن عزیز ہے تو مجھے بھی اپنی بیوی عزیز ہے۔۔۔۔میں جا تو رہا ہوں لیکن واپس ضرور آؤں گا لیکن تب تک میری امانت تمہارے پاس رہے گی۔۔۔۔اور تب مجھے کوئی نہیں روک سکے گا۔۔۔تم بھی نہیں فرزام۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا
بہرام واپس جانے کے لیے مڑا لیکن رک گیا
اور ہاں ایک اور بات۔۔۔۔میں جانتا ہوں کہ یہ سب تمہاری حورم سے محبت ہی تھی جس کی وجہ سے تم نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا لیکن اب مزید اور نہیں اور فرزام تم مجھے دوست سے زیادہ عزیز تھے اور رہو گے۔۔۔۔ابھی تو یورپ جا رہا ہوں۔۔۔اب واپسی ہر ہی ملاقات ہی ہو گی
وہ اس کی طرف دیکھتا آفس سے نکل گیا جبکہ فرزام کرسی پر بیٹھ گیا اور سر ہاتھوں میں تھام لیا
اس کا اپنا کزن عاشر حورم کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا
مطلب اگر بہرام اسے ٹریس نا کرتا تو حورم کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا اور اس نے اس سب کی سزا بھی اپنی گڑیا حورم کو ہی دی۔۔۔۔
اس نے ٹیبل سے ساری فائلز نیچے پھینک دیں اور پانی کا گلاس پی کر سامنے دیوار پر دے مارا۔۔۔۔۔
لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بدلا تھا۔۔۔اسے اب بہرام کے واپس آنے کا انتظار تھا لیکن کہتے ہیں نا کہ وقت بہت ظالم چیز ہے ایک دفعہ چلا جائے تو واپس نہیں آتا اور اس وقت کی دھاڑ میں بہت کچھ بہہ جاتا ہے کہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا اور یہ پچھتاوا فرزام چودھری کے حصے میں آنے والا تھا۔۔۔۔۔
وہ اس کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ گہری نیند میں سو رہی تھی وہ چپ چاپ خاموشی سے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا اور اس کے پاس بیٹھ کر اس کے براؤن بال سہلانے لگا
کیا اس نے واقعی ہی غلط کیا تھا؟
اس نے اپنی گڑیا کی طرف دیکھا جو کہ محویت سے سو رہی تھی وہ آج بھی فرزام کے لیے اس کی وہی چھوٹی سی گڑیا تھی جس میں اس کی جان بستی تھی جس کی آنکھوں میں آنسو اس اب بھی اس کا سکون چھین لیتے تھے جس کی چھوٹی سی تکلیف آج بھی اس کو تڑپا کر رکھ دیتی تھی لیکن اب جانے انجانے میں وہی ہی اس کی تکلیف کا باعث بنا تھا
امل تھوڑے دن رہ کر واپس بھی جا چکی تھی اس نے بھی یہ موضوع چھیڑا تھا لیکن فرزام اس موضوع کو شروع ہونے سے پہلے ہی بند کر چکا تھا
"اگر تمہیں اپنی بہن عزیز ہے تو مجھے بھی اپنی بیوی عزیز ہے۔۔۔۔"
اسے تب جو حورم کے لیے صحیح لگا اس نے وہی کیا تھا شاید وہ کچھ زیادہ ہی جزباتی ہو چکا تھا یا پھر بےبس۔۔۔۔۔
وہ اس کے سر پر بوسہ دیتا خاموشی سے اٹھتا کمرے سے نکل گیا
رات اپنے پر پھیلائے بیٹھی تھی اور اس کی تاریکی سے ہر شے تاریک ہوئی پڑی تھی ہر طرف گہرا سکوت چھایا ہوا تھا اگر شور تھا تو صرف سمندر کی ٹھاٹھے مارتیں لہروں کا جو کہ آ کے پھر سے واپس پلٹ جاتی تھیں اور وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ان لہروں کو دیکھ رہا تھا
صبح ہونے تک اس نے اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا اور وہاں سے ہی یورپ کے لیے۔۔۔۔۔لیکن اس کا دیدار کیے بنا جانے کا اس کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔
نا جانے پھر کب تک اس کی واپسی ہو۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ گزارے ہر لمحے اس کے سکون کا باعث تھا۔۔۔۔۔اسے وہ پل یاد آیا جب وہ اور حورم آخری بار یہاں آئے تھے
افف۔۔۔۔بہرام دیکھیں نا کتنا پیارا منظر ہے نا
وہ بہرام کی بانہوں کے حصار میں چاند کی روشنی میں نہائے سمندر کی لہروں کو دیکھ کر بولی
وہ دونوں ساحل سمندر پر بلیک جیپ سے ٹیک لگا کر کھڑے تھے
ہاں۔۔۔۔بالکل بہت ہی خوبصورت منظر ہے۔۔۔۔میں تم اور سامنے شور مچاتا یہ سمندر
وہ اس کے کان کے پاس بولا جس پر وہ مسکرائی
آپ کے ساتھ تو بتایا ہر لمحہ ہی خوبصورت ہے
اس نے رخ اس کی طرف کیا اور اس کی کالی سحر انگیز آنکھوں میں دیکھا دونوں ہی بلیک جینز پر نیوی بلیو ہائی نیک پہنے اور اوپر بلیک ہی سلیولیس جیکٹ پہنے انتہائی خوبصورت اور شاندار لگ رہے تھے ایک دوسرے کے سنگ بہت ہی مکمل۔۔۔۔۔۔اور اوپر چودھویں کا چاند ان پر اپنی چاندنی بکھیر رہا تھا
اور اگر کبھی میں تم سے دور ہو گیا تو۔۔۔۔
وہ سمندر کی لہروں کو دیکھتا انجانے خدشے کے تحت کہہ رہا تھا جبکہ حورم کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا تھا
آ۔۔۔آپ آئندہ کبھی ایسا مت کہیے گا بہرام
اس نے بمشکل ہی اپنا لہجہ نارمل رکھتے غصے سے کہا اور آنکھوں کی نمی چھپاتی رخ موڑ لیا اس کے انداز پر اس کے ہونٹ مسکرا اٹھے
میری جان تو غصہ ہی کر گئی۔۔۔۔اچھا دوبارہ نہیں کہتا۔۔۔۔میں بھلا دور رہ سکتا ہوں تم سے۔۔۔شادی سے پہلا لگتا تھا کہ شاید رہ لوں گا لیکن نا جانے شادی کے بعد کیسا جادو کیا ہے تم نے کہ سوچ بھی نہیں سکتا
وہ حورم کو کندھوں سے پکڑتا خود کے قریب کرتا بولا جس پر حورم نے اس کے سینے سے اپنا سر ٹکا کر بہرام کے گرد بازو باندھیں
میں بھی نہیں دور رہ سکتی۔۔۔بہت بری عادت لگائی ہے آپ نے اپنی محبت کی۔۔۔۔
اس کے کہنے پر بہرام مسکرانے لگا
میری بیوی میرے سے اتنی محبت کرتی ہے تو آج اس کا ثبوت بھی دے دے۔۔۔۔
اس کی بات پر حورم نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا
ک۔۔کیا مطلب
اس کے ہاتھ بہرام کے سینے پر تھے
مطلب تو تم سمجھ گئی ہو مسز
وہ اپنا ہاتھ اس کے چہرہ پر رکھتا اپنے انگوٹھے سے اس کے لال ہونٹ سہلاتے خمار آلود لہجے میں بولا جس پر حورم نے آنکھیں سکیڑ کر گھورا جس پر اس نے مسکراہٹ ضبط کی
ہاں نا۔۔۔۔۔اب تم بھی اپنی محبت کا ثبوت دو نا کہ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے جیسے میں دیتا ہوں
وہ ابھی بھی اپنی بات پر بضد تھا
بہت برے ہیں آپ۔۔۔میں نہیں کر رہی۔۔۔
وہ سرخ چہرہ لیے خفگی سے بولی
آہ۔۔۔۔اگر یہ آخری خواہش ہوئی تب بھی پورا نہیں کرو گی
اس نے کہا تو مزاق میں تھا لیکن حورم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا
آپ چاہتے کیا ہیں بہرام۔۔۔سکون ملتا ہے آپ کو ایسی باتیں کر کے یا پھر مجھے یوں ترپتا دیکھ کر۔۔۔۔
وہ اس کے سینے پر مکے برساتے بولی جبکہ نیلی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا
حورم۔۔۔۔یار اتنا حساس پن۔۔۔اوکے میری جان اب کبھی ایسی بات نہیں ہو گی اور نا ہی کروں گا لیکن پلیز رونا تو بند کرو نا
وہ اس کے آنسو صاف کرتے بولا
بہت حساس ہوں آپ کے لیے۔۔۔رات کو آپ کے بغیر سو نہیں سکتی۔۔۔آپ کے بغیر اس دل کو سکون نہیں ملتا۔۔۔۔آپ نا دکھیں تو نظریں بیتاب رہتیں ہیں۔۔۔نا کسی کے ساتھ دیکھ سکتی ہوں آپ کو۔۔۔بہت بے بس ہوں آپ کے معاملے میں۔۔۔
وہ جذبات میں آتے سب کہہ گئی۔۔۔آفس میں علینہ کا اس کے آس پاس ہونا کہاں سے اسے برداشت ہوتا تھا بھلا۔۔۔۔
بہرام نے اسے کھینچ کر اپنے سینے میں بھینچ لیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔۔جب تھوڑی دیر بعد وہ چپ ہوئی تو شرارتاً بولا
ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے بچوں کا کیا ہو گا۔۔۔۔کیسے دیکھو گی تم مجھے ان کے ساتھ۔۔۔۔ویسے حورم ان کے ساتھ شئیر کر لو گی کیا مجھے۔۔۔۔ہمم
وہ آنکھیں میچیں سرخ چہرہ لیے اس کے سینے میں منہ چھپائے تھی
بہرام نا کریں نا پلیز۔۔۔۔
اس کی بے بس سی آواز اس کی سماعتوں میں ٹکرائی جس پر اس نے مسکراتے ہوئے اس کے بھورے بالوں پر لب رکھتے اسے مزید خود میں بھینچ لیا
اسے احساس تک نا ہوا کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔۔۔کبھی کبھی انسان زندگی کے ایسے موڑ پر بھی آ جاتا ہے کہ جس کے بغیر آپ زندہ نہیں رہنا چاہتے لیکن پھر بھی آپ زندہ ہوتے ہیں۔۔۔آپ کی سانسیں چل رہی ہوتیں ہیں۔۔۔۔۔۔وہ چاہتا تو آج بھی حورم کو لا سکتا تھا لیکن اسے لا کر پھر بھی اسے ابھی دوری برداشت کرنی تھی کیونکہ وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا کیونکہ اگر شاہ پیلس حورم ہوتی تو وہاں اس کا خیال رکھنے والا کوئی نا تھا کیونکہ ارحہ ارحم کے ساتھ واپس اسلام آباد جانے والی تھی اور سمائرہ بیگم اس عمر میں اس کا کتنا خیال رکھتیں اور ملازمین پر وہ بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔وہ مطمئن تھا کہ وہاں آبش ہو گی اس کے پاس جو اس کا خیال رکھ سکتی تھی اور ویسے بھی زندگی میں جو ہونا لکھا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔۔۔ہونے کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔۔۔
اس نے اپنا چہرہ صاف کیا۔۔۔
تھوڑی جگہ دے دے مجھے
تیرے پاس کہیں رہ جاؤں میں
خاموشیاں تیری سنوں اور
دور کہیں نا جاؤں میں
"مجھے فکر ہے کہ بعد میں آپ کو پچھتاوا نا آن گھیرے"
وہ اس پل کو یاد کرنے لگا جب حورم نے پہلی بار اس پر اپنا حق جتایا تھا
اپنی خوشی دے کے میں تجھے
تیرے درد سے جڑ جاؤں میں
ملا جو تو یہاں مجھے
دلاؤں میں یقیں تجھے
رہوں ہو کے تیرا سدا
بس اتنا چاہتا ہوں میں
تھوڑی جگہ دے دے مجھے
تیرے پاس کہیں رہ جاؤں میں
خاموشیاں تیری سنوں اور
دور کہیں نا جاؤں میں
اس کا دل ایک بار صرف اسے دیکھنے کو مچلنے لگا تھا۔۔۔کہ آخری بار وہ اسے دیکھ سکے
بے سہارہ تیرے بنا میں
تو جو نا ہو میں بھی نہیں
دیکھوں تجھے یارا جتنی دفعہ میں
تجھ پہ ہے آتا مجھ کو یقیں
سب سے میں جدا ہو کہ ابھی
تیری روح سے جڑ جاؤں میں
ملا جو تو یہاں مجھے
دلاؤں میں یقین تجھے
رہوں ہو کے تیرا سدا
بس اتنا چاہتا ہوں میں
اپنے دل کی مچلتی خواہش ہر لبیک کہتا وہ گاڑی کی طرف بڑھا
وہ خاموشی سے بالکونی کے رستے ٹیرس میں اترا تھا اور بغیر آواز کیے گلاس ڈور کا دروازہ ان لاک کرتا خانوشی سے ہی اندر داخل ہوا
آدھی رات تو ویسے ہی بیت چکی تھی۔۔۔وہ اندر آیا تو سامنے ہی وہ دشمن جاں گہری نیند میں تھی۔۔۔۔لیمپ کی روشنی میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔۔۔گھنیری پلکیں گہرے نیلے سمندر کو چھپائے بیٹھیں تھیں اور پنکھڑی کے مانند گلابی لب آپس میں پیوست تھے۔۔۔اس کا دل بے اختیار ہی تھم کر پھر دھڑکا تھا۔۔۔۔۔
اسے اپنے سامنے دیکھ کر کتنا سکون اس کے اندر اترا تھا۔۔۔
وہ آہستگی سے بیڈ کی جانب بڑھا جس کے وسط میں وہ سو رہی تھی لیکن اس کے پاس بیٹھنے سے پہلے اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی اور وہ اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔۔اس کی میڈیسنز کے ساتھ نیند کی گولیاں بھی پڑی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔
مطلب کے وہ سونے کے لیے ان کا سہارا لیتی تھی۔۔۔بھلا اسے بہرام کے بغیر کیسے نیند آ سکتی تھی۔۔۔۔۔
عادتوں میں اول ہے میری
تیری بانہوں میں نیند آنا
وہ اس کے سرہانے بیٹھا جو کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو گال کے نیچے رکھے سو رہی تھی۔۔۔۔لیکن بے سکونی نیند میں بھی واضح تھی۔۔۔۔۔
وہ آہستہ سے اس کے سر پر انگلیاں چلانے لگا اور کمفرٹر ہٹاتا تھوڑا سا سرک کر حورم کے برابر ہی لیٹ چکا تھا اور اسے اپنے قریب کر لیا۔۔۔۔۔
ایم سوری میری جان۔۔۔۔بہت برا ہوں نا میں
اس نے اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھا اور یاد کرتا ایک آنسو آنکھ سے لڑھک کر حورم کے کندھے پر گرا
وہ اس کی کنپٹی کو چومتا اس کے ماتھے سے اپنا سر ٹکا گیا
بہت دکھ دیا ہے نا میں نے۔۔۔۔
وہ حورم کا سر اپنے سینے پر رکھتا بولا جبکہ وہ گہری نیند میں گولیوں کے زیر اثر ہونے کے باوجود بھی اس کی خوشبو محسوس کر رہی تھی جو کہ اس کے چہرے سے دکھ رہا تھا۔۔۔۔بھینچے ہوئے لب اب جدا تھے اور حورم کے بازو اس کے گرد مضبوطی سے حصار بنائے ہوئے تھے کہ نیند میں بھی وہ اس کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی
بہرام اس کی خوشبو اپنے سینے میں اتارنے لگا
رات یونہی سرک رہی تھی۔۔۔۔اسے صبح ہونے سے پہلے واپس بھی جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری بانہوں میں نیند جیسا سکون ہے
اپنے پلو سے تو باندھ لے مجھ کو
وہ کمرے سے نکلتا باہر آیا لیکن راستے میں باہر کی راہداری میں پڑے بڑے سے شو پیس نے اس کی نظریں اپنی طرف متوجہ کیں
ارحام اسے دیکھتا ان کی جانب بڑھا اور غور سے دیکھنے لگا جہاں رنگ برنگی مچھلیاں پانی سے بھرے ہوئے شیشے کے بڑے سے شو پیس میں تیر رہی تھیں لیکن کچھ مچھلیاں اس کے گزرنے پر اسے دیکھنے لگیں
اور جب ارحام پاس آیا تو اس کی طرف دیکھ کر شیشے کے پاس جمع ہونے لگ گئیں اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگیں۔۔۔وہ اپنی گرین آنکھوں سے خاموشی سے انہیں دیکھ رہا تھا
آج اس کے چاچو کو گئے ایک مہینہ ہو چکا تھا اور جاتے وقت وہ اسے کافی کچھ سمجھا کے گئے تھے اور تب سے اس کی طبیعت کچھ خاموش سی بھی تھی۔۔۔۔
اس کے ذہن میں نا جانے کیا آیا اور وہ اس پر عمل پیرا کرنے کے لیے آگے بڑھا
کچھ دیر بعد ارحہ ارحام کو ہی ڈھونڈتے باہر کی جانب آئی لیکن اگلا منظر دیکھ کر اس کا دل ہی دہل گیا اور اس نے ترپ کر ہاتھ اپنے دل پر رکھا
ار۔۔۔ارحام۔۔۔یہ کیا کیا آپ نے؟
وہ قریب آتی بولی جبکہ ارحام خاموش نظروں سے دیکھ رہا تھا
کچھ بھی تو نہیں کیا مام
وہ کندھے اچکاتا بولا
لیکن ان مچھلیوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا
ارحہ کی بات پر وہ ہنسا تھا
آپ کو پتہ ہے چاچو کیا کہتے ہیں کہ جو بھی آنکھیں دکھائے اس کی آنکھیں نکال دینے کی ہمت ہونی چاہیے اور انہوں نے میر ارحام علی شاہ کو گھورا تھا تو بس ان سب کی آنکھیں نکال دیں
وہ آرام سے کہتا ان رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھنے لگا جو کہ بغیر آنکھوں اور پانی کے زمین پر تڑپ رہیں تھیں اور ان کی آنکھیں سائیڈ پر پڑی تھیں جبکہ تیز دھاڑ والی چھڑی بھی نزدیک پڑی ہوئی تھی
ارحہ نے خود کو گرنے سے بچایا تھا۔۔۔۔
ارحام۔۔۔میری جان انہوں نے کہا تھا کہ ہمت ہونی چاہیے نا اب یہ تو نہیں کہ آپ ایسا کرو گے۔۔۔۔اور ویسے بھی مچھلیوں کے پاس جو بھی جائے گا وہ ہر ایک کو ایسے ہی دیکھے گیں نا۔۔
وہ اسے سمجھاتے بولی
Mom۔۔۔۔leave it۔۔۔۔
ارحام لاپرواہی سے کہتے ہی اپنے ہاتھ دھونے چلا گیا جبکہ ارحہ کو اپنے بیٹے کی فکر ہونے لگی کہ اس عمر میں وہ کیا بن رہا تھا۔۔۔اس نے ارحم سے بات کرنے کا فیصلہ لیا اور ان مچھلیوں کو دیکھا جن کی بے دردی سے آنکھیں نکال دی گئیں تھیں
اور پھر ملازم سے کہہ کر صاف کروایا
چار مہینے گزر چکے تھے۔۔۔۔۔وہ اسلام آباد سے اپنی شناخت لے کر یورپ کے لیے روانہ ہوا تھا اور ان کی ایجینسی سے مل کر اس نے اپنا کام پورا کیا تھا۔۔۔۔ثبوت اس کے پاس موجود تھے۔۔۔
اور آج چار مہینے بعد وہ دوبارہ یہاں موجود تھا۔۔۔۔اس نے اپنے آنے کی کسی کو بھی خبر نہیں دی تھی اور سب سے پہلے سیدھا وہ یہی آیا تھا اور آج پھر وہ اپنے سامنے اس بہتے نیلے سمندر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔آج چار مہینے بعد وہ اس فضا میں سانس لے رہا تھا جس میں اس کی سانسیں بسی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔
اس جگہ پر اسے عجب ہی سکون ملتا تھا کیونکہ شاید یہ جگہ حورم کی پسندیدہ جگہ تھی۔۔۔۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے اسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے ایک چٹان کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا سکون سے آنکھیں موندے کھڑا تھا۔۔۔۔۔آج اس کا انتظار ختم ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔
آج شدت سے دل چاہ رہا ہے کہ
بند آنکھیں کھولوں تو سامنے تم ہو
اس نے اپنی کالی آنکھیں کھولیں تو وہ نیلے سمندر سے جا ٹکرائیں اور اسے لگا کہ جیسے وقت ساکت ہو گیا ہو۔۔۔۔سمندر کی لہریں ٹھہر گئیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔
ہوا ایک ہی جگہ رک گئی ہو۔۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اتنی جلدی اس کا دیدار نصیب ہو جائے گا۔۔۔۔
وہ بے چینی سے اس کی طرف بڑھا جو ابھی بھی بت بنی ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔