ایریل،تم جانتے ہو کہ تم بہت برے ہو؟دیکھو مان جاؤ نا،اور پکا تم اس میں بہت کیوٹ لگو گے جیسے میں لگ رہا ہوں۔۔۔۔۔
ارحام کب سے اسے شرٹ پہنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایریل پہن ہی نہیں رہا تھا وہ جب بھی اس کی گردن کو پکڑ کر پہناتا وہ بار بار اس کی تمام تر کوششوں کو رائیگاں کر دیتا اور خاور پاس کھڑا یہ دیکھ رہا تھا
چھوٹے شاہ۔۔۔ویسے آپ ایک شیر کو کپڑے کیوں پہنا رہے ہیں
خاور متجسس تھا صبح صبح ہی ارحام نے اسے اپنی ایک شرٹ دیکھائی اور کہا کہ اسی طرح کی ایک بڑی سی شرٹ لانی ہے
آپ کو نہیں پتا نا۔۔۔اب دیکھیں میں نے کتنی مشکل سے یہ شرٹ منگوائی ہے۔۔۔آج میں نے بھی بلیک ٹی شرٹ پہنی ہے چاچو نے بھی بلیک ٹی شرٹ پہنی ہے اور کیا ہو جائے گا کہ اگر ایریل بھی بلیک ٹی شرٹ پہن لے گا
وہ اب نیچے گھاس پر ایریل کے پاس بیٹھا افسردگی سے کہہ رہا تھا
بہرام ابھی تک اس سائیڈ پر نہیں آیا تھا اور ارحام نے اب تک ایریل کو نا جانے کتنا تنگ کر چکا تھا کبھی اس سے دوڑ لگواتا اور کبھی فٹبال سے اس کے ساتھ کھیلتا اور اب اسے ٹی شرٹ پہنانا ایسا لگ رہا تھا کہ ایریل اب خود تنگ آ چکا ہے
ارحام نے اسے پیچھے گردن سے پکڑا جب وہ غرایا اور یہ بہت کم ہوتا تھا جب وہ غراتا تھا
اس کے دھاڑنے پر ارحام بھی تھوڑا پیچھے ہٹ گیا اور ایریل کو غصے سے گھورنے لگا خاور ڈر کر آگے بڑھا
چھوٹے شاہ رہنے دیجیے وہ ایک شیر ہے۔۔۔اور آپ ابھی چھوٹے ہیں
اس نے اس ساڑھے پانچ سال کے بچے کو سمجھانا چاہا
وہ شیر ہے تو کیا ہوا۔۔۔۔۔میں بھی میر ارحام علی شاہ ہوں۔۔۔میر بہرام علی شاہ کا ڈیول۔۔۔۔میرے آگے یہ شیر کیا ہے۔۔اور ویسے بھی۔۔
ارحام بالکل ایریل کے ساتھ کھڑا ہو گیا جس سے اس کا منہ ارحام کے کندھے تک آ رہا تھا
یہ دیکھیں۔۔۔یہ تو مجھ سے چھوٹا ہے ہائٹ میں تو۔۔۔اور میں کوئی چھوٹا نہیں ہوں
ارحام اب بالکل ایریل کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کے بڑے سے منہ کو پکڑا اور اپنی سبز آنکھیں اس کی سنہری آنکھوں میں ڈالیں اور اسے گھورنے لگا
دیکھو۔۔۔میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ایسے کرو۔۔۔اگر تم نے میری بات نا مانی نا تو۔۔۔میں تو۔۔۔ہاں تمہاری گردن کے بال کاٹ دوں گ
وہ ایریل کو کہہ رہا تھا جبکہ ایریل کبھی اس طرف دیکھتا تو کبھی اس طرف جیسے اسے اس میں کوئی انٹرسٹ ہی نا ہو
ارحام تھک کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی گردن کے نچلے حصے کی طرف اس کی گردن کے بالوں میں اپنا چھوٹا سا ہاتھ گھسا کر سہلانے لگا جس سے ایریل بھی آرام سے اپنے پنجوں کے بل بیٹھ چکا تھا جب کبھی ایریل ایسے کرتا تو بہرام بھی یہی کرتا تھا اور ارحام نے اسی سے یہ سیکھا تھا
بہرام نے اسے خود بڑا کیا تھا اور ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا اور ایریل کے لیے اس کے سپیشل بندے بھی تھے اور وہ ارحام کو شروع سے ہی ایریل کے پاس لاتا تھا اور اسی لیے اس نے اس کے پنجے کے نوکیلے ناخن بھی نکلوا دیے تھے تا کہ کھیلتے وقت بھی ارحام کو کوئی نقصان نا پہنچے اور زیادہ تر جو شیر پالے جاتے ہیں پہلے ان کے پنجے اور زیادہ تر ان کے جبڑے کے دانت نکلوا دیے جاتے ہیں
ایریل میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے زیادہ چاچو سے پیار کرتے ہو لیکن یہ بھی دیکھو نا کہ چاچو سے زیادہ میں تم سے پیار کرتا ہوں
ارحام اپنی ضد پر ابھی بھی اڑا تھا اور خاور بہرام کا انتظار کر رہا تھا کہ ارحام صرف اسی کی بات مانے گا
کہ تھوڑی دیر بعد شاہ اسے ادھر آتا دکھائی دیا بہرام کو دیکھتے ہی ایریل اٹھ کر اس کی طرف بھاگا تھا جس سے اس کی گردن کے بال ہوا میں بل کھا کر اڑے
بہرام نے اس کی پیٹھ سہلائی اس نے خاور سے کہہ کر اسے نہلوایا تھا فریش فریش سا ایریل اب اس کے سامنے تھا وہ اٹھ کر ارحام کی جانب بڑھا جو گھاس پر بیٹھا ہوا تھا اس کے پیچھے ایریل بھی ایک شان سے چلتا آیا
میرے شیر کو کیا ہو گیا
بہرام ارحام کے پاس بیٹھ کر شرارتاً بولا
آپ بتائیں چاچو کہ آپ اس نقلی والے شیر سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا پھر اپنے اس اصلی والے شیر سے
وہ ہہلے ایریل کی طرف اشارہ کر کے بولا اور پھر اپنی طرف
میں تو اپنے اس اصلی والے شیر سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔۔۔۔
بہرام اسے گدگدی کرتے بولا جس پر وہ ہنسنے لگا
اچھا لیکن یہ نقلی والا شیر کیسے ہو گیا
اس کی بات ہر ارحام نے منہ بنایا
یہ نقلی والا شیر ہے۔۔۔اگر یہ اصلی والا ہوتا تو یہ سب کچھ کر سکتا تھا لیکن اس سے ایک شرٹ نہیں پہنی جاتی
اس کی بات پر بہرام نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی
تو یار رہنے دو نا۔۔۔شرٹ پہنا کر کیا کرنا ہے
اس کی بات پر ارحام نے ایریل کی طرف دیکھا
میں ایریل کو بھی اپنے جیسے بنانا چاہتا تھا لیکن وہ بات ہی نہیں مان رہا
بہرام نے ارحام کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا
بالکل نہیں۔۔۔میرے ارحام کی طرح کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔یہ ایریل بھی نہیں
اس کی بات پر ارحام نے اپنی سبز جھیل سی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا ارحام کی آنکھوں کی ساخت بالکل بہرام کی طرح تھی بس رنگت مختلف تھی
میرا شہزادہ
بہرام نے جھک کر اس کے گلابی گال کو چوما اور ہلکا سا کاٹا بھی
چاچوووو۔۔۔۔اب میں بھی آپ کو کاٹوں گا
اس کے انداز پر وہ ہنسنے لگ گیا
آبش کمرے کی چیزیں سمیٹ رہی تھی جب اس کے فون پر بہرام کی کل آئی
بہرام نے اسے اپنے جانے کے بارے میں انفارم کیا تو آبش بولی
بہرام۔۔۔تم یورپ جا رہے ہو لیکن وہاں سے آنے کے بعد تمہیں یہ مسئلہ سورٹ آؤٹ کرنا ہو گا
میں جانتا ہوں آبش۔۔اگر ابھی نا جانا ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتا اور ہاں اب حورم تمہارے حوالے ہے۔۔۔اس کا خیال رکھنا
یہ کہنے کی ضرورت بھی ہے۔۔۔اپنے سے زیادہ اس کا خیال رکھتی ہوں اس کی فکر مت کرو اور جلد ہی آنے کی کوشش کرنا
یہ سچ بھی تھا ان دنوں آبش اپنے سے زیادہ حورم کا خیال رکھتی تھی اس کی میڈیسنز اس کی واک ڈاکٹر سے چیک اپ ویسے تو وہ خود بھی ڈاکٹر تھی لیکن حورم کے معاملے میں وہ کوئی کوتاہی نہیں برتنا چاہتی تھی
جبکہ حورم جو آبش سے بات کرنے آئی تھی دروازے سے پلٹ گئی اور اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی
بہرام آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے اور کسی کی نہیں۔۔۔۔
آنکھوں سے آنسو باڑ توڑ کر بہنے لگے اس کی کیفیت کو کوئی بھی نہیں سمجھ رہا تھا
نا جانے خوشیاں کیوں مجھ سے روٹھ گئیں ہیں۔۔۔بھائی خود کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔۔میں کیسے خود انہیں کہہ سکتی ہوں۔۔۔اب میں انہیں ناراض تو نہیں کر سکتی کیونکہ ماما بابا کے بعد وہی تو ہیں
اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے سوچا جہاں ایک اور وجود سانسیں لے رہا تھا اس کی پریگننسی کو تین ماہ ہو چکے تھے
یونہی دوریوں میں گزر گئی
کبھی وہ جدا
کبھی میں جدا
انہیں چاھتوں کے حصار میں
کبھی میں رکی
کبھی وہ رکا
وھی راستے وھی منزلیں
وھی جستجو
نہ اسے خبر نہ مجھے پتہ
مگر آگ میں تری جاں بلب
کبھی میں جلی
کبھی وہ جلا
ترا کھیل بھی کیا عجیب ھے
اے مرے خدا
نہ وہ بے وفا
نہ میں بے وفا
ترا عدل بھی ھوا کیا ھوا
کہ نہ مل سکے
نہ ھی میں اسے
نہ ھی وہ مجھے
یونہی دُوریوں میں گزر
مری زندگی مرے ھمنوا،،
رات اپنے پر پھیلائے بیٹھی تھی اور ہر طرف خاموشی کا عالم تھا
ایسے میں وہ راہداری سے ہوتا باہر آیا اور پھر اسی خاموشی سے وہ نیچے بنے تہہ خانے کی جانب بڑھا جبکہ خاور اس کے پیچھے تھا بیسمینٹ کی سیڑھیوں سے ہوتا وہ نیچے آیا جہاں گھپ اندھیرا تھا
اس نے آخری سیڑھی پر کھڑے ہوتے دیوار پر لگے سوئچ سے بٹن دبایا جس سے ہلکی سبز رنگ کی روشنی چاروں طرف پھیلی تھی بڑے سے تہہ خانے میں وہ ایک طرف آیا جہاں پر کوئی وجود لٹکا ہوا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو زنجیروں سے اوپر کی طرف باندھا گیا ہوا تھا
اس نے خاور کو اشارہ کیا جس پر اس نے اسے کھولا اور اور لا کر ایک کرسی پر بٹھایا اس کی ابتر حالت اس بات کا ثبوت تھی کہ اس کی روز ہی خاطر تواضع ہوتی تھی
بہرام اس کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھا اور اب ان دونوں کے درمیان ایک میز تھا جب کہ خاور بہرام کے پیچھے تھا
لگتا ہے میری غیر موجودگی میں بھی مہمان نوازی خوب کی گئی ہے
بہرام مبہم سا مسکراتا خاور سے بولا جس پر خاور بھی مسکرا دیا
بہرام آج پہلی بار اس کے سامنے تھا اس نے آخری بار اگر کسی کی ٹھکائی کی تھی تو وہ تھا شیرازی۔۔۔۔۔۔۔۔اس دن حورم کو گھر چھوڑنے کے بعد وہ سیدھا شیرازی کی طرف ہی گیا تھا حورم کو کوئی کچھ کہے اور بہرام اسے چھوڑ دے یہ ہو نہیں سکتا تھا
حورم کی وجہ سے وہ اسے تو بھول ہی گیا تھا
اس کے بازو سامنے میز پر رکھے گئے تو بہرام نے میز کی سائیڈ سے بٹن دبایا جس سے اس کی کلائیوں کو لوہے کی راڈ نے جکڑ لیا
اب اس نے سائیڈ سے ایک تیز دھار والا چاقو نکالا تھا اور اسے اس کی ہتھیلی پر رکھ کر گھمایا
ہمم۔۔۔تم نے کیا سوچا تھا کہ میری کوئین کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی کرو گے اور بچ جاؤ گے
بہرام نے کہتے ہی چاقو پر دباؤ ڈالا جس سے وہ اس کی ہتھیلی میں ہی پیوست ہو گیا جس پر اس کی چیخ گونجی
اب اس نے دوسری ہتھیلی پر بھی ایسا ہی کیا تھا لوہے کی راڈ کی وجہ سے وہ اپنے ہاتھ کو پیچھے بھی نہیں کر سکتا تھا اور تکلیف سے کراہ رہا تھا
مم۔۔مجھے مم۔۔معاف۔۔۔
اس نے بولنا چاہا
اس دن تمہاری وجہ سے وہ ڈری تھی
بہرام کی سرخ ہوتی آنکھیں صرف اس کے ہاتھوں پر ٹکی تھیں اس نے کہتے ہی اس کے دائیں ہاتھ کی پہلی انگی کو تین وار میں تین حصوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر وار پر اس کی چیخ گونجتی وہ بے بس نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے ظالم کو دیکھ رہا تھا
انہی ہاتھوں سے تو نے چھونے کی کوشش کی تھی نا
آہستہ آہستہ اس کی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں تین تین حصوں میں تقسیم ہو چکی تھیں اور اس سے تکلیف برداشت کرنا اس کے بس سے باہر۔۔۔اس نے ایک ہی وار میں اس کے ہاتھوں کو نہیں کاٹا تھا بلکہ ہر وار میں اس کے لیے اذیت تھی
وہ اپنے ہاتھوں سے نکلتے خون کو دیکھ کر تڑپ رہا تھا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی
جبکہ سیڑھیوں کی اوٹ میں کوئی کھڑا اس سے ڈر کم اور حیران زیادہ ہو رہا تھا اور وہ وہاں سے چپ چاپ ہی پیچھے ہٹ چکا تھا
خاور نے اسے کھول کر دوبارہ زنجیر سے اس کے بازؤوں کو باندھ کر لٹکایا
بہرام نے ایک مکا اس کے منہ پر جڑا اور پھر ایک کے بعد ایک پنچ اس کو مارتا گیا جبکہ اس ذہن میں کسی کی باتیں گردش کر رہی تھیں
آپ کہاں تھے بہرام مجھے ڈر لگنے لگا تھا
اس نے ایک زور دار پنچ اس کے پیٹ پر رسید کیا تھا جس سے اس کی حالت ادھ موا ہو چکی تھی
بہرام پسینے میں شرابور پیچھے ہٹا اور خاور کی طرف متوجہ ہوا
اسے لاؤ۔۔۔آج یہ ایریل کی خوراک ہو گا
تھوڑی دیر تک وہ ایریل کی آرام گاہ میں تھے اس کی آواز پر ایریل اپنے غار نما گھر سے باہر نکلا اور اسے بیدردی سے ایریل کے حوالے کیا جا چکا تھا جس نے اسے چیڑ پھاڑ کے رکھ دیا تھا
اس کی چیخوں پر کوئی وجود دور کھڑا کسی سوچ میں غرق تھا اور وہ واپس کمرے میں آ گیا
خاور مجھے صبح تک یہ جگہ بلکل صاف اور پہلی جیسی چاہیے
بہرام حکم دیتا وہاں سے ہٹ گیا اور اپنے جھیل کی طرح بنے سوئمنگ پول کی طرف بڑھ گیا
کیسے جیوں گا کیسے
بتا دے مجھ کو
تیرے بنا۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں آپ مجھ سے الگ نا ہو جائیں۔۔۔۔۔مجھ سے دور نا چلے جائیں۔۔۔۔کہیں مجھے آپ کے بغیر نا رہنا پڑے۔۔۔۔۔۔میں نہیں رہ سکتی اب آپ کے بغیر بہرام"
تیرا میرا جہاں
لے چلوں میں وہاں
کوئی تجھ کو نا مجھ سے چرا لے
رکھ لوں آنکھوں میں میں
کھولوں پلکیں نا میں
کوئی تجھ کو نا مجھ سے چرا لے
بہرام وہیں اس درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا جہاں وہ حورم سے آخری دفعہ ملا تھا
چاروں طرف اندھیرا تھا صرف چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی تھی اور اسے یہ تاریکی اپنے وجود کا ہی حصہ لگ رہی تھی
میں اندھیروں سے گھرا ہوں
آ دکھا دے تو مجھ کو سویرا میرا
میں بھٹکتا اک مسافر
آ دلا دے تو مجھ کو بسیرا
"میں نہیں جانتی بہرام کہ۔۔۔۔۔ہمارے بچے کو بھی آپ کا پیار مل سکے گا کہ نہیں"
ایک آنسو خاموشی سے نکل کر اس کے گال پر بہہ گیا
جاگی جاگی راتیں میری
روشن تجھ سے ہے سویرا
تو ہی میرے جینے کی وجہ
جب تک ہیں یہ سانسیں میری
ان پہ ہے صدا حق تیرا
پوری ہے تجھ سے میری دعا
"مجھے جانا ہو گا بہرام۔۔۔۔میرے سے اور نہیں رہا جا رہا اب"
تیرا میرا جہاں
لے چلوں میں وہاں
کوئی تجھ کو نا مجھ سے چرا لے
رکھ لوں آنکھوں میں میں
کھولوں پلکیں نا میں
کوئی تجھ کو نا مجھ سے چرا لے
رات ایسے ہی گزر رہی تھی جبکہ کوئی اور بھی تھا جس کی آج نیند اڑ چکی تھی اور شیشے کے اس پار اداسی میں گھرے وجود کو دیکھ رہا تھا
آج کے انکشافات ارحام کے لیے حیران کن تھے وہ سو رہا تھا جب اس کی آنکھ کھل گئی اور بہرام کو ڈھونڈنے کے چکروں میں وہ تہہ خانے تک پہنچ گیا اس نے اپنے چاچو کو کسی کا برا حال کرتے دیکھا تھا
ارحام کمرے میں رکھے چھوٹے سے میز کی طرف آیا جس کے اوپر ایک شو پیس پڑا ہوا تھا اور پاس رکھے سنگل صوفے پر بیٹھ گیا اور اس شو پیس کو دیکھنے لگا جو کہ ایک آئرن بال کلکر تھا جس کے دونوں طرف سٹینڈ تھا اور لوہے کے سات بالز کو لوہے کی ہی رسیوں سے دونوں طرف سے باندھا گیا ہوا تھا
اس نے اپنی طرف کے آخری بال کو پکڑا اور تھوڑا دور لے جا کر چھوڑ دیا جس سے دوسری طرف کا آخری بال اتنی دور گیا جتنی دور اس نے اپنی طرف والے آخری بال کو کھینچا تھا اور رات کے اندھیرے میں جہاں گلاس وال سے چاند کی روشنی آ رہی تھی خاموش کمرے میں ایک خوبصورت سا ارتعاش پیدا ہوا
چاچو لٹل ڈول کو اتنا چاہتے ہیں کہ کسی نے انہیں ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے اتنا مارا
وہ سوچ رہا تھا اب ارحام نے اپنی طرف سے دو بالز کو پکڑا اور انہیں دور لا کر چھوڑ دیا جس سے دوسری طرف سے آخری دو بالز اتنی ہی دور گئے جس سے ساز بجا
لیکن اتنا کیسے چاہتے ہیں چاچو انہیں کہ وہ ان کے بغیر اتنے سیڈ ہیں۔۔۔یا پھر خود ہی ان سے رہا ہی نہیں جا رہا۔۔۔کیا لٹل ڈول بھی اتنا ہی چاہتی ہوں گیں چاچو کو
ارحام نے اب اپنی طرف سے تین بالز کو اکٹھے دور لے جا کر چھوڑا جس سے دوسری طرف سے آخری تین بالز بھی اتنی دور گئے اور ایک اکیلا بال اس سارے قصے میں ساکت تھا چاہے اس طرف سے بالز کو اچھالا گیا یا پھر دوسری طرف سے بالز اچھلے وہ اپنی جگہ سے نا آگے ہوا تھا نا پیچھے
کیا مجھے بھی بالکل ویسے ہی لٹل ڈول ملے گی جسے میں بالکل چاچو کی طرح چاہوں گا
وہ بہت کم عمر میں بہت میچیور ہو رہا تھا اور ایک بات سے دوسری کو جوڑ رہا تھا
آج وہ زندگی کے ایک نئے پہلو سے روشناس ہوا تھا محبت کی ایک نئی حقیقت اس پر آشکار ہوئی تھی اور وہ تھی جنونیت۔۔۔۔۔۔۔جو بعد میں نا جانے اس سے کیا کچھ کروانے والی تھی کہ جس کی زد میں جو آتا ہے وہ نا جانے کیا کچھ کھو دیتا ہے لیکن وہ میر ارحام علی شاہ تھا جو اپنی چیز حاصل کرنے کے لیے جنون کو بھی پیچھے چھوڑنے والا تھا
مجھے عشق ہو گا تجھ سے
وہ بھی جنون کی حد تک
فرزام اپنے آفس میں بیٹھا کام میں مصروف تھا جب کوئی بنا ناک کیے اس کے آفس میں داخل ہوا تھا
تم۔۔۔تم ادھر کیسے آئے
وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا شاید وہ تھا اسی لیے اسے انفارم نہیں کیا گیا تھا
اتنا غصہ سالے صاحب۔۔۔ریلیکس یار
اس کی بات پر اس نے مٹھیاں بھینچیں بہرام سیدھا اس کی طرف آیا اور پیچھے لگائے بلائنڈز کو فولڈ کیا
کچھ روشنی اندر آنے دیا کرو تا کہ تمہارے دماغ کی کھڑکیوں سے روشنی اندر جا سکے جنہیں تم بند کیے بیٹھے ہو
وہ اب اس کے سامنے تھا
اب کیا لینے آئے ہو۔۔۔کچھ رہ گیا تھا باقی کیا
اس کی بات پر بہرام ہنسا
کچھ کیا میرا سب کچھ تو تمہارے پاس ہے یار
وہ ٹیبل پر بیٹھا ایسے نارمل بات کر رہا تھا جیسے دونوں میں سب ٹھیک ہو اور یہی بات فرزام کو غصہ دلا رہی تھی
اگر تم سوچ رہے ہو کہ حورم کو واپس پا سکو گے تو بھول ہو گی تمہاری یہ
اس کی بات پر بہرام ٹیبل سے اٹھ کر اس کی طرف آیا
فرزام وقت سے پہلے اپنی آنکھیں کھولو یہ نا ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے اور تب وقت واپس نہیں آئے گا اور اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ مجھے حورم کی پرواہ نہیں تھی تو کان کھول کر سنو اگر تب حورم کو وہاں میں نا نا بھجواتا تو تمہارا اپنا سگا کزن عاشر چوہدری اسے کسی بھی وقت لے کر جا سکتا تھا اور تب میں واقعی ہی کچھ نہیں کر پاتا
فرزام نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
عاشر۔۔۔۔
اس نے ہولے سے نام دہرایا