بہرام کرنل سعید کے بنگلے میں پہنچ چکا تھا ابھی وہ بیٹھا ہی تھا جب وہ ڈرائنگ میں داخل ہوئے
السلام و علیکم سر
اس نے کھڑے ہوتے جواب دیا
یار اب اتنے تکلف کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔تم میرے گھر پر ہو ڈیوٹی پر نہیں جو سر کہو
وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گئے
جی انکل اور سنائیں کیسے ہیں آپ
اس نے ہلکا سا مسکراتے جواب دیا
برخوردار میں ٹھیک ہوں تم سناؤ
انہوں نے سگار سلگاتے کہا
جی الحداللہ سب ٹھیک بس ادھورا کام مکمل کرنے والا رہتا ہے بہرحال آپ بتائیں سب خیریت ہے
اس نے سنجیدگی سے کہا
ہمم۔۔۔۔خیریت ہی ہے بس اسلام آباد ایجینسی نے تمہیں طلب کیا ہے۔۔۔۔۔کچھ دنوں تک تمہیں اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے اور وہاں سے تمہیں یورپ کے لیے جانا ہے۔۔۔۔ایجینسی سے ہی تمہیں تمہاری نئی شناخت مل جائے گی۔۔۔۔جو ثبوت اکٹھے کیے ہیں انہی کے ذریعے یورپ کے مخلتف ملکوں سے پاشا عبدالرحمن کے قائم کردہ ایجنڈوں کا خاتمہ کرنا ہے
ان کی بات پر کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہو گیا
اگر تم چاہو تو ریسٹ لے سکتے ہو۔۔۔۔تھوڑے عرصے تک
انہوں نے اسے دیکھتے کہا
نہیں انکل اس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔جتنی جلدی ہو سکے میں یہ ختم کرنا چاہتا ہوں
اس کی بات پر انہوں نے سر ہلا دیا
اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور ان سے بات کرتا رہا اور پھر اجازت لیتا آ گیا
وہ بچپن سے ہی انہیں جانتا تھا کیونکہ وہ اس کے بابا کے کالج کے فرینڈ بھی تھے
صارم اور حیدر دونوں اپارٹمنٹ میں موجود فرنچ فرائز سے لطف اندوز ہو رہے تھے
ویسے حیدر تمہارا کا خیال ہے کہ کرنل صاحب نے میر کو کس لیے بلوایا ہے
صارم سوچتے بولا
ہنہہ۔۔۔۔پوچھ تو ایسے رہے ہو کہ جیسے میں نے شاہ کو بلوایا ہے۔۔۔۔کیا پتہ کہنا ہو کہ برخوردار ہم نے تمہاری بیوی کو واپس لانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ہمارے بنائے پلین پر عمل کرے گی اور حورم کو باحفاظت واپس لائے گی
حیدر آخر میں کرنل سعید کی نقل اتارتے بولا جس پر صارم ہنسنے لگ گیا
یار پھر بھی فرزام ویسے غلط کر رہا ہے۔۔۔۔۔حورم کا معاملہ ہے اسے خود فیصلہ کرنے دے وہ
صارم ساتھ کوک پیتے بولا
ایک طرف سے دیکھا جائے تو لگے گا کہ غلط کر رہا ہے فرزام لیکن تم نہیں سمجھو گے صارم۔۔۔۔جس طرح اس نے حورم کو رکھا ہے اس کا حورم کے لیے پیار۔۔۔وہ اب کیسے برداشت کر لے کہ ایک بار اس کی جان سے عزیز بہن کی جان خطرے میں تھی۔۔۔۔۔مانا کہ بہرام کی فل سیکیورٹی اس کے ساتھ تھی لیکن وہ نہیں مانے گا۔۔۔۔۔اب دیکھ لو میرا ہی بڑا دل ہے جو میں نے اپنی بہن تجھ جیسے دے دی۔۔۔
آخر پر وہ مصنوعی ناک چڑھاتے بولا
ویٹ ویٹ۔۔۔۔ویٹ۔۔۔۔کیا مطلب ہے کہ تجھ جیسے۔۔۔ہنہہ۔۔۔میر صارم علی شاہ تجھے ایسا ویسا لگتا ہے
وہ حیدر کو کشن مارتے بولا اور ابھی مزید مصنوعی رعب جھاڑنے ہی لگا تھا کہ تبھی انہیں باہر کے دروازے کا لاک کھولنے کی آواز آئی اور پھر کسی کے قدموں کی چاپ
وہ دونوں ابھی بھاگنے کی تیاری میں تھے ہی جب بہرام لاؤنج میں داخل ہوا
اسے دیکھ کر انہوں نے زبان دانتوں تلے دبائی
بہرام کبھی ان دونوں کی شکل دیکھے تو کبھی لاؤنج کی حالت جہاں ہر چیز بکھری پڑی تھی مختلف چیزوں کے ریپر ادھر ادھر بکھرے، ٹیبل پر کوک گری ہوئی،فرنچ فرائز کے باؤل پڑے ہوئے اور کشن بھی ادھر ادھر پڑے
شا۔۔۔شاہ دیکھ یہ ہم نے نہیں کیا
حیدر نے کہا تو بہرام ابرو اچکا کر اسے دیکھا
نہی۔۔۔نہیں اس کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ہی کیا ہے لیکن غلطی سے۔۔۔یار
اس کے گھورنے پر اس کی آواز آہستہ ہو گئی
تم دونوں کو میں نے کسی مشن پر ساتھ کیا خاک رکھنا۔۔۔۔۔لگتا ہے پچھلی بار بھول گئے
پچھلی بار کو یاد کرتے دونوں نے ہی سر جھکا لیا کیونکہ پچھلی بار انہیں سیدھا اپارٹمنٹ سے نکال دیا گیا تھا اتنی بےعزتی کے بعد بھی وہ بھول گئے تھے
بہرام دونوں ہاتھ سینے پر باندھے انہیں دیکھ رہا تھا
دل تو میرا کر رہا ہے کہ تم دونوں کو آج کھڑکی سے سیدھا دھکا دوں مطلب حد ہو گئی ہے۔۔۔۔اگر کام نا نا ہوتا تم دونوں سے تو کرنا تو ایسا ہی تھا۔۔۔بہرحال پانچ منٹ تک مجھے پورا لاؤنج صاف چاہیے اور روم میں ملو
وہ دونوں کو تنبیہ کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
پیچھے سے انہوں نے سکھ کا سانس لیا
افف۔۔۔شکر ہے بچ گئے۔۔۔لیکن ویسے یہ اتنی جلدی آ گیا ہے
صارم چیزیں اٹھاتا بولا
ہاں۔۔۔اب کرنل صاحب نے اسے رات تو رکھنا نہیں تھا۔۔۔۔آنا تو ہے تھا واپس
حیدر نے کہا اور اگلے پانچ منٹوں میں انہوں نے ساری چیزیں ترتیب سے رکھیں اور پھر سامنے ایک کمرے کی جانب چل دیے جو کہ بیڈ روم کے ساتھ والا تھا
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جب بہرام کمرے میں داخل ہوا اور سربراہی کرسی پر بیٹھا
فائلز اور مختلف پیپرز لیپ ٹاپز پہلے سے ہی میز پر تھے
ان پیپرز میں ساری تفصیل ہے کہ یورپ کی کن کن جگہوں پر حملہ کرنا
حیدر نے کچھ پیپرز اس کے سامنے کیے
اور ان فائلز میں ان کے ساتھ کی گئیں ڈیلز کے ثبوت ہیں۔۔۔جو کہ ہمارے ساتھ ہی ہوئی تھی
صارم نے فائلز اس کی طرف بڑھائیں اور اس نے ایک نظر میں انہیں دیکھا
ٹھیک ہے میں کچھ دنوں کے لیے اسلام آباد کے لیے نکل رہا ہوں اور پیچھے سے سارا کام تم دونوں کے ذمے ہو گے۔۔۔۔اور ہاں عاشر چودہدری کی تلاش بھی جاری رکھو۔۔۔۔پچھلی بار تو جانے دیا تھا اس بار نہیں بچنا چاہیے۔۔۔۔۔
اس کی انگلیاں اب لیپ ٹاپ پر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں جب کہ دماغ مختلف سوچوں میں الجھا ہوا تھا
تھوڑی دیر بعد صارم اور حیدر جا چکے تھے جب کہ وہ اپنے کام میں مصروف تھا جب غیر ارادہ اس کی نظر سامنے رکھی ایک براؤن فائل پر پڑی تھی اور ساتھ ہی اس کی یاد بھی ہوا کے جھونکے کی مانند اسے مسرور کر گئی
یہ تب کی بات تھی جب وہ صارم کے ساتھ ایک پارٹی سے سمگلنگ کی ڈیل کے متعلق ایک مال میں میٹنگ اٹینڈ کرنے پہنچا جب صارم کی نظر حورم پر پڑی تھی صارم کے سامنے بھی اس نے لاتعلقی ہی ظاہر کی جب اسے حیدر کا میسیج کا آیا کہ عاشر نے دو آدمیوں کو حورم کو اٹھوانے کے لیے بھیجا ہے اس نے صارم کو میٹینگ کے لیے بھیج کر حورم کو ڈھونڈتے پارکنگ ایریا پہنچا تھا لیکن اس سے پہلے ہی وہ ان لوگوں کا کام تمام کر چکی تھی ایتھنز میں بھی اس کی نظر حورم پر تھی لیکن اس نے مارشل آرٹ بھی سیکھا تھا یہ اسے نہیں تھا پتہ بہرحال وہ اس کے پاس پہنچا اور وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی جب پیچھے سے ایک آدمی نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے حورم کو اپنی اور کھینچا تھا اور جواباً اس پر حملہ کر دیا اور جس سے وہ وہی دم توڑ گیا اور اسی کی پستول سے دوسرے کا نشانہ لیا تھا ویسے بھی دونوں کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ تو تھا لیکن حورم کے لیے سب کچھ حیران کن تھا اور تب اس کا بہرام سے ڈرنا۔۔۔۔۔اور اس کا ڈرتے پوچھنا کہ آپ کون ہیں تب تو اسے واقعی ہی نہیں پتہ تھا کہ وہ کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف نام سے زیادہ وہ نہیں جانتی تھی
حورم کے وہاں سے جانے کے بعد اس نے خاور کو حورم کے پیچھے بھیجا تھا اور خود میٹنگ اٹینڈ کرنے چلا گیا اور اس میٹنگ میں اس نے اپنا گیٹ اپ چینج کیا تھا براؤن لینز لگا کر اور آرٹیفیشل ہی براؤن داڑھی کا بھی استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔۔
سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں اس کے کسمسانے کا سبب بنیں۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو کسی کے مضبوط حصار میں پایا آبش نے کروٹ لی تو دیکھا کہ فرزام اسے بازؤوں کے گھیرے میں لیے سو رہا تھا لیکن وہ تو گیسٹ روم میں تھیں تو یہاں کیسے آ گئی
اس نے اپنا آپ چھڑوانا چاہا لیکن اس کا حصار اتنا بھی کمزور نا تھا
آبش نے اس کے بازو کو ہٹانا چاہا تو فرزام کی آنکھ کھل گئی
چھوڑیں مجھے اور کیوں لائے ہیں یہاں
وہ اس کا بازو ہٹاتے بولی جب فرزام نے اسے مزید قریب کیا
چھوڑنے کے لیے تھوڑی پکڑا ہے
فرزام کہتے ہی اس پر جھکا
چھوڑنے تو والے ہی ہیں
اس نے نظریں چراتے کہا ورنہ اس کی قربت اس کی جان نکال رہی تھی
لیکن چھوڑا تو نہیں نا
اس کی بات پر آبش نے کچھ کہنا چاہا جب اس نے اس کے منہ پر انگلی رکھ دی
اب کچھ نہیں بولی گی اور آبش فرزام چوہدری کبھی بھی فرزام چوہدری کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتی۔۔۔۔
فرزام نے کہتے ہی اس کے سر پر بوسہ دیا جب کے آبش کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی
وہ دونوں آج فارم ہاؤس جانے کے لیے تیار تھے بہرام نے خاور کو کہہ دیا تھا کہ وہ فارم ہاؤس سے گارڈز کو بھیج دے آج ارحام بھی اس کے ساتھ تھا
وہ فریش ہو کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا جب ارحام کمرے میں داخل ہوا
چاچو آئی ایم ریڈی
وہ خوش ہوتا اس کے قریب آیا بہرام نے اسے دیکھا بالکل سیم اس کی طرح کی ڈریسنگ کی ہوئی تھی اس نے بلیک جینز پر وائٹ ٹی شرٹ کے اوپر بلیو جیکٹ اور وائٹ شوز پہنے وہ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہا تھا
واؤ میرا شیطان تو بہت ہی پیارا لگ رہا ہے
بہرام نے اسے اٹھا کر اپنے سامنے ڈریسنگ پر بٹھا دیا اور خود بال سیٹ کرنے لگا پھر پرفیوم اٹھا کر پہلے خود پر سپرے کی اور پھر ارحام۔۔۔۔اب وہ دونوں بالکل تیار تھے
خاور کا میسیج آ چکا تھا کہ وہ پہنچ چکا ہے
تھوڑی دیر تک وہ دونوں بلیک گلاسز لگائے باہر پہنچ چکے تھے بہرام نے خاور سے اپنی بلیک ہیلکس کی چابی لی اور پہلے ارحام کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا جب کہ اس کی گاڑی کے پیچھے خاور کی گاڑی تھی اور ساتھ ہی اس کے گارڈز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبش فریش ہو کر نکلی تو فرزام اس کے انتظار میں بیٹھا تھا اس نے آبش کو اپنے قریب بلایا
وہ اس کے پاس کاؤچ پر بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے فرزام کو دیکھنے لگی
آبش ایم سوری مجھے پتہ ہے کہ میں اس معاملے میں تھوڑا خود غرض ہو گیا ہوں سب کی طرح شاید تم بھی مجھے غلط سمجھو لیکن یقین کرو میں خود کو اس معاملے میں بے بس محسوس کرتا ہوں میں نہیں جانتا کہ میں صحیح کر رہا ہوں یا غلط لیکن میں حورم کے معاملے میں اب کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔تم نہیں جانتی کہ وہ میرے لیے کیا ہے۔۔۔۔ماما بابا کے جانے کے بعد اب تم دونوں ہی میری زندگی ہو۔۔۔۔میں جانتا ہوں کہ پچھلے دنوں میں میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا لیکن
وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے کہہ رہا تھا
میں تم سے بھی محبت کرتا ہوں آبش اور میں چاہتا ہوں کہ تم تو مجھے سمجھو کہ کوئی بھائی یہ سب برداشت کر سکتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔
آبش نے اس کی طرف دیکھا وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ بہن کی محبت میں اتنی آگے بھی نا چلے جائے کہ وہ حورم کی حالت کو ہی نا سمجھ سکے۔۔۔۔وہ کہنا چاہتی تھی کہ اس وقت حورم کو آپ سے زیادہ بہرام کی ضرورت ہے لیکن وہ اب کچھ کہہ کر دوبارہ بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ فرزام کچھ نہیں سمجھے گا اب وقت ہی اسے سمجھائے گا اور جب وقت سمجھائے گا تب تو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارم ہاؤس میں ان کی گاڑیاں ایک سیدھ میں داخل ہوئیں۔۔۔۔بہرام نے اترتے چابی خاور کو پکڑائی اور ارحام کو لیے آگے بڑھا
چاچو کدھر
ارحام نے اسے اندر کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا
یار پہلے بیٹھ تو جائیں پھر چلتے ہیں
بہرام نے کہا کیونکہ وہ اس کا ارادہ جان چکا تھا
نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔بعد میں بیٹھیں گے۔۔۔۔پہلے ہم ایریل سے ملنے جا رہے ہیں
ارحام یار تم جاؤ۔۔۔میں تھوڑی دیر تک آؤں گا
بہرام۔۔۔۔پہلے آپ بتائیں کہ آپ نے کیا خاص دکھانا ہے مجھے
بہرام اس کے گرد شال لپیٹ رہا تھا جب حورم نے منہ بناتے کہا اس وقت صبح صبح یوں منہ بناتے وہ بہرام کو اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ وہ بتا نہیں سکتا بہرام تو اس کی ہر ادا پر اپنی جان وارنے کو تیار تھا
اس نے کچھ کہے بنا جھک کر نرمی سے حورم کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور آرام سے باہر کی جانب بڑھا
بہرام۔۔۔کیا کر رہے ہیں سارے گارڈز ہوں گے باہر۔۔۔پلیز نیچے تو اتاریں
وہ سرخ چہرہ لیے بولے البتہ بازو اس کی گردن کے گرد حمائل تھے وہ صبح سے اسے بتا نہیں رہا تھا کہ آخر بہرام نے اسے کیا دکھانا ہے
بہرام۔۔۔۔۔
وہ راہداری سے گزرتا باہر کی جانب بڑھنے کی بجائے فارم ہاؤس کی پچھلی جانب بنے دروازے کی طرف بڑھا جب حورم نے اس کے نام پر زور دیتے اسے پکارا اس کے انداز پر وہ دلکشی سے مسکرا دیا
جی جان بہرام
اس نے محبت پاش لہجے میں کہا جس پر حورم جھینپ دی
کوئی دیکھ لے گا نا
وہ باہر آ چکے تھے جب اس نے آہستہ آواز میں کہا
میرے یہاں ہوتے کسی کی بھی نہیں جرات کہ وہ بیک سائڈ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔۔۔ہمیں دیکھنا تو دور کی بات ہے
وہ اسے ایک کورنر کی طرف لایا اور نیچے اتارا
یہاں پر تو کچھ بھی نہیں
اس نے حیرانگی سے پوچھا کیونکہ اس کے سامنے دیوار اس کا منہ چڑا رہی تھی کیا بہرام اسے دیوار دکھانے لایا تھا
اچھااا۔۔۔۔واقعی ہی کچھ نہیں
وہ خود حیرانگی سے بولتا آگے بڑھا اور کورنر پر ہاتھ رکھتے دیوار پر آہستہ سے دباؤ ڈالا جس سے وہ آگے کو سرک گئی
یہ۔۔۔یہ کیا تھا
حورم حیرانگی کے سمندر میں ڈوبی اس سے پوچھ رہی تھی جب اس نے غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک دروازہ ہی تھا لیکن اس طرح بنایا گیا تھا کہ دویوا کا حصہ معلوم ہوتا تھا
وہ دوسری طرف آئی لیکن اندر کا منظر ہی الگ تھا۔۔۔۔سامنے ایک طرف کھلا سا میدان کی طرح بنا حصہ جبکہ دوسری طرف لہلہاتے درخت تھے اور ایک طرف کچھ عجیب سا بنا ہوا تھا
وہ ابھی دیکھ ہی رہی تھی جب بہرام نے پیچھے سے آ کر اسے بانہوں میں لیا اور حورم کے گرد بازؤوں کا حصار باندھا اور اپنی تھوڑی اس کے کندھے سے ٹکا لی جس سے اس کا گال حورم کے گال سے مس ہو رہا تھا۔۔۔۔
ہلکی ہلکی ہوا کے جھونکے ماحول کو بہت خوشگوار بنا رہے تھے بہرام نے حورم کے گرد حصار کو مزید تنگ کیا اور اس کے کان کے پاس مخمور لہجے میں سرگوشی نما آواز میں بولا
سنو ۔۔۔۔۔۔!!
تم سے یہ کہنا ہے
کہ تم میری محبت سے کبھی بدگماں مت ھونا
کہ میری زندگانی کے سبھی رستے جو سچ پوچھو
تمہاری سمت آتے ہیں
میں تم سے دور ره پاؤں یہ اب ممکن نہیں جاناں
سنو۔۔۔!!
عہد محبت کی مجھے تجدید کرنی ہے
پرانی بات ہے لیکن مجھے پھر بھی یہ کہنی ہے
مجھے تم سے محبت تھی،
مجھے تم سے محبت ہے
ہر اک موسم تمھارا ہے
تمھارا ساتھ پیارا ہے۔۔۔!!
حورم آنکھیں بند کیے اس کے جذبات سے چور لہجے کو محسوس کر رہی تھی جب اسے اپنے گال پر بہرام کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہوا اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بہرام کی طرف رخ کر کے اس کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالیں
آپ کو پتہ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ کیا سکون دیتا ہے
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھے کہہ رہی تھی جبکہ بہرام نے اسے زیادہ قریب کیا
کیا سکون دیتا ہے
بہرام نے اپنا ماتھا حورم کے ماتھے سے ٹکایا
یہی جب آپ کہتے ہیں کہ "مجھے تم سے محبت ہے" بہت سکون دیتا ہے میں اپنے لیے آپ کی محبت آپ کی آنکھوں میں دیکھ سکتی ہوں لیکن میں ہمیشہ سننا چاہوں گی آپ کے منہ سے
آپ کو پتہ ہے بھوک صرف کھانے کی ہی نہیں لگتی
بعض دفعہ لفظوں کی بھی لگتی ہے
اس ایک جملے کی بھی لگتی ہے کہ
"مجھے تم سے محبت ہے"
اس کا ایک ہاتھ بہرام کی گردن کے پیچھلے حصے پر نقش و نگار بنا رہا تھا اس کی بات پر وہ دلکشی سے مسکرایا جس سے اس کے ہونٹ کا تل بھی مسکرایا
حورم کا دوسرا ہاتھ اب اس کے ہونٹ کے تل پر تھا
پھر اس نے تھوڑا اوپر ہو کر نرمی سے تل پر اپنے ہونٹ رکھ دیے جسے بہرام نے آنکھیں بند کیے روح کی گہرائیوں سے محسوس کیا محبت کی فضا نے ان دونوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا یہ دوسری دفعہ تھا جب حورم نے خود پیش رفت کی تھی
بہرام نے دیکھا تو وہ اب نظریں جھکائے کھڑی تھی لیکن اس کے ہاتھ ابھی بھی اس کے گرد تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ انہیں ایک دوسری کی سانسوں کی تپش محسوس ہو رہی تھی بہرام کا ایک ہاتھ اس کے گرد تھا جب کہ دوسرے ہاتھ اس کے چہرے کے گرد اور اس کا انگوٹھا اس کے نچلے ہونٹ کو سہلا رہا تھا
اور تمہیں پتہ ہے حورم کے مجھے سب سے زیادہ سکون کب ملتا ہے جب تم میرے قریب ہوتی ہو،جب میں تمہیں اپنے پاس پاتا ہوں
گھمبیر لہجے میں کہتا وہ اس کے ہونٹوں پر جھکا اور شدت بھری مہر ثبت کی
حورم نے اپنے ہاتھوں میں اس کی شرٹ جکڑی ہوئی تھی تھوڑی دیر بعد وہ پیچھے ہٹا تو دونوں کی سانسیں پھول رہی تھیں حورم گلابی چہرہ لیے خفا نظروں سے اسے گھور رہی تھی جس پر بہرام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی
That's not fair my queen
تم کر سکتی ہو لیکن میں نہیں۔۔۔
اس نے اپنی شوریدہ دھڑکنوں پر قابو پایا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں
ادھر کیوں آئیں ہیں ہم
جب کچھ نا بن پایا تو یہی پوچھ بیٹھی لیکن نظریں نہیں ملائیں
ہمم۔۔۔لگتا ہے ایک بار پھر کر کے بتانا پڑے گا کہ کیا کرنے آئے ہیں
وہ شرارتی نظروں سے کہہ رہا تھا
بہرام۔۔۔۔میں واپس جا رہی ہوں
وہ جانے کے لیے مڑی جب اس نے اسے کندھوں سے تھاما
اوکے۔۔۔اوکے۔۔آؤ دکھاؤں
وہ ہنستے ہوئے بولا
پھر اسے لیکر دوسری جانب بڑھا جہاں پر پتھروں سے کچھ عجیب بنا ہوا تھا حورم اس کے ایک بازو کے حصار میں ہی تھی اور بڑے غور سے اسی جانب دیکھ رہی تھی جب بہرام نے مخصوص سیٹی کی آواز نکالی جس سے وہاں سامنے کوئی ہلچل ہوئی لیکن جو وہاں ان پتھروں سے نکلا وہ اس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھا وہ آنکھیں پھاڑے اسے اپنی جانب ہی بڑھتا دیکھ رہی تھی جب وہ چیخی
بہرام۔۔۔۔۔۔
اور سرعت سے بہرام کے پیچھے چھپ گئی اور اس کی شرٹ کو دبوچ لیا
یہ۔۔۔یہ کیا ہے بہرام
وہ بس رو دینے کو ہی ہو گئی تھی یہ شخص اس کا جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا جب کہ وہ اس کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا
یار۔۔۔تم اتنا ڈر جاؤ گی
وہ نیچے اس کے پاس بیٹھ گیا جو اپنا منہ اس کے پاؤں کے ارد گرد کر رہا تھا
میرا شیر۔۔۔۔۔
بہرام اب اس کی پیٹھ سہلا رہا تھا
بہرام۔۔۔کیا کر رہے ہیں آپ
حورم اب بھی خوفزدہ تھی
ادھر آؤ
اس نے اپنا ہاتھ حورم کی طرف بڑھایا
نہیں۔۔۔میں نہیں آؤں گی۔۔۔یہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں اور آپ اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں
وہ نا میں سر ہلا کر بولی
حورم۔۔۔مجھ پربیقین ہے نا تو پھر۔۔۔اور اس سے ڈر رہی ہو۔۔۔تم اپنا ہاتھ دو
اس نے ویسے ہی نیچے بیٹھتے کہا
لیکن یہ اتنا بڑا ہے
وہ بے بسی سے کہنے لگی
حورم۔۔۔۔۔
اس نے اب تھوڑا مصنوعی سنجیدگی سے کہا جب اس نے لب کچلتے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور بہرام کے ساتھ ہی گھٹنوں کے بل بیٹھی
یہ ایریل ہے۔۔۔اور ارحام نہیں ڈرتا تو تم ڈر رہی ہو یار۔۔۔دیکھو کچھ بھی نہیں کہے گا
مطلب یہ ایریل ہے جس کا ارحام ذکر کرتا ہے۔۔بہرام اتنا بڑا شیر وہ بھی شیر اور ارحام کو بھی آپ ملواتے رہے ہیں۔۔۔یہ اتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔۔۔یہ حملہ بھی کر سکتا ہے
وہ حیرانگی سے کہہ رہی تھی
ہو سکتے ہیں نقصان دہ لیکن یہ نہیں ہے۔۔۔یہ بہت چھوٹا تھا جب یہ یہاں آیا تھا اور میں نے بہت پیار سے اسے پالا ہے
اس کے پیار والی بات پر حورم نے منہ بنایا جس پر وہ ہنسا
اور اگر اس نے حملہ کیا تو
ایک اور سوال پوچھا گیا
نہیں کرتا۔۔۔کیونکہ جن جبڑوں کے نوکیلے دانتوں سے یہ حملہ کرتے ہیں وہ ایریل کے نکلوا چکے ہیں جس سے یہ اپنے دانتوں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اس کے پنجے کے ناخن بھی نہیں ہیں اس لیے پریشان نا ہو۔۔۔تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے میں پہلا ہوں جس نے ایک شیر پالا ہوا ہے۔۔۔۔۔
ایریل بھی نرم گھاس پر اپنے پنجوں کے بل لیٹا ہوا تھا جب کہ بہرام اس کی گردن کے بڑھے ہوئے بالوں میں ہاتھ چلا رہا تھ
آپ اس سے اچھا کوئی کتا ہی پال لیتے
وہ اب بھی مطمئن نہیں تھی
تو اس میں کیا ہے۔۔۔۔یہ شیر بھی ان کی طرح ہی ہوتے ہیں۔۔۔انہیں بھی سیکھنے اور جاننے کا شوق ہوتا ہے اور اپنے مالک کے وفادار ہوتے ہیں اور ارحام تو ایریل کو نا جانے کیا کچھ سکھا چکا ہے۔۔۔
بہرام نے کہتا حورم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
یہ دیکھو اگر تم نے اسے قائل کرنا ہے تو ایسے ہاتھ پھیرو
ان دونوں کے ہاتھ اب ایریل کے گھنے بالوں کے نیچے چھپ چکے تھے اور حورم بھی بہرام کی دیکھا دیکھی ایریل کی گردن کو سہلا رہی تھی جس سے اس نے اپنا سر مزید نیچے کر لیا جیسے اسے سکون مل رہا تھا حورم کا ڈر بھی اب کافی حد تک کم ہو چکا تھا
اور آپ کی غیر موجودگی میں اسے کون سنبھالتا ہے
حورم نے دوسرے ہاتھ سے بہرام کا بازو پکڑا ہوا تھا
اس کے لیے خاص بندے موجود ہیں جو اس کو سنبھالتے ہیں اور اس کا کھانا بھی سپیشل فارن سے ہی منگوایا جاتا ہے
تو اس نے کبھی انسان کا گوشت نہیں کھایا
پتہ نہیں
اس کی بات پر بہرام نے کندھے اچکائے جبکہ کچھ سوچتے مبہم سا مسکرایا
نہی۔۔نہیں۔۔دیکھو میں میں سب سب کچھ بتاتا ہوں لیکن اس شیر کے آگے مجھے مت ڈالو۔۔۔ہاں میں بتاتا ہوں۔۔
ہاہا۔۔۔تم اس سے مجھے ڈرا رہے ہو۔۔۔تم کیا سمجھتے ہو میں ڈر جاؤں گا۔۔۔میں جانتا ہوں کہ تم کبھی بھی مجھے اس شیر کے آگے نہیں ڈالو گے
لیکن اگلے ہی پل وہ ایریل کے شکنجے میں تھا جب کی اس آدمی کی چیخیں فارم ہاؤس میں گونجنے لگیں
کیا سوچنے لگ گئے
حورم نے اسے متوجہ کیا
وہ جو سوچ رہا تھا کہ مختلف کیسز میں کیسے اسے ایریل کی ضرورت بعض اوقات پڑ جاتی ہے حورم کی آواز پر اس کی طرف دیکھا
نہیں کچھ نہیں۔۔۔
حورم نے اپنا سر اس کے بازو پر ٹکا لیا جبکہ بہرام کا بازو اس کے گرد تھا اور ایریل ان دونوں کے آگے سر جھکائے اپنے پنجے پھیلائے آرام دہ انداز میں لیٹا ہوا تھا
چاچوووو۔۔۔۔۔
ارحام کی آواز پر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں
آپ ابھی تک نہیں آئے
وہ بیڈ پر اس کے پاس آتے بولا
میں مل آیا ہوں اب آپ آئیں۔۔۔ایریل آپ کو بھی مس کر رہا ہے
وہ حورم کے خیالوں میں ہی کھویا ہوا تھا لیکن اب اسے جانا ہی پڑنا تھا
محبت ہے مجھے تنہائیوں سے بھی
تمہارے بعد جو ہمراز ہیں میری
مجھے ان آنسؤوں سے بھی
تجھے نا پا کے آنکھوں کیں مچل جاتے ہیں تنہائی میں
کبھی ان وحشتوں سے پوچھ لے جا کر
جدائی کیوں مقدر میں لکھی میرے
دکھوں سے بھی تم پوچھ لینا خود
تیری چاہت زمانے سے زیادہ ہے،کسی ساون سے
جا کر پوچھ لینا تم
مجھے تم سے محبت ہے
جو میرے دکھ ہیں،میرے ساتھ ان سے پوچھ لینا تم
تیری یادیں مری
سرمایا ہستی ہیں خزاں موسم کے ان
لمحوں سے جن میں ہم تم سے جدا ہوئے تھے
پوچھ لینا تم
مجھے تم سے محبت ہے