آدھی رات کا وقت ہو رہا تھا جب وہ شاہ پیلس داخل ہوا۔۔۔۔۔ہر طرف خاموشی نے بسیرا کیا ہوا تھا سب اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے جب وہ سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچا اور آہستہ سے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا کیونکہ اس کے کمرے کے سامنے ہی ارحم کا کمرہ تھا اور وہ رات دیر تک جاگتا رہتا تھا۔۔۔۔
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو ایک پل کو رکا اپنے بیڈ پر کسی کو سوئے دیکھ کر ایک اداسی بھری ہلکی سی مسکراہٹ پل بھر کے لیے اس کے ہونٹوں پر آئی
وہ چلتا بیڈ کے قریب آیا اپنی رسٹ واچ اور سیل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر بیٹھ گیا اور اس کے بالوں پر آہستہ آہستہ انگلیاں چلانے لگا اور جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا
پھر اٹھ کر فریش ہونے چل دیا تھوڑی دیر بعد وہ آرام دہ ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھا وہ جا کر ٹیرس میں جا کر کھڑا ہو گیا
آج جو خوشی اسے ملی تھی وہ چاہ کر بھی خوش نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس پر خوش ہونا چاہتا تھا وہ سب کو اپنی خوشی بتانا چاہتا تھا لیکن اس ادھوری خوشی پر وہ کیسے خوش ہو سکتا تھا
اور آج حورم کی کیفیت اس سے مختلف تو نا تھی۔۔۔۔وہ آج سے تو اس سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ بچپن سے وہ اس کے دل میں بسی تھی جب ٹریننگ کے بعد اسے ایتھنز جانا پڑا جو کے اس کے ایک مشن کا ہی حصہ تھا وہاں فرزام سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اور جب اسے پتہ چلا تھا کہ حورم کا نکاح اس کے کزن سے ہو چکا تھا وہ پیچھے ہٹ چکا تھا ایک بار تو وہ بالکل ہی امید ہار چکا تھا لیکن پھر عاشر سے طلاق کے پیچھے بھی تو اسی کا پلین تھا
اسی نے سارہ کو جو کہ کرنل سعید کی بیٹی تھی اور اس کی ٹیم کی ایک اہم رکن، حورم کے کالج بھیجا تھا کہ وہ ہر روز اسے عاشر سے متنفر کر دے اور ایسا ہی ہوا تھا اور انہی دنوں میں تو اسے پاشا کے بارے میں پتا چلا تھا وہ حورم سے محبت کرتا تھا لیکن ابھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ حورم کو اس کے ساتھ جوڑا جائے اور حقیقتاً بھی ارحم نے ہی اس پر دباؤ ڈالا تھا اور نکاح پر حورم کے سامنے اس نے ایسا شو کیا تھا کہ جیسے اسے حورم میں انٹرسٹ نہیں اور یہ نکاح اس نے صرف ارحم کے کہنے پر کیا ہے وہ ابھی حورم کو خود سے دور رکھنا چاہتا تھا لیکن دو سال بعد وہ واپس آ چکی تھی اور آفس میں اس سے ٹکرائی اس نے بہت حد تک اجنی پن اپنایا اور حورم کو لگتا تھا کہ اسے واقعی ہی اس میں انٹرسٹ نہیں لیکن وہ پھر بھی اس کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اور حورم بھی اپنے دل کو اس کی طرف بڑھنے سے نا روک سکی تھی کیونکہ تھا تو نکاح کا رشتہ۔۔۔۔۔۔اور خاص کر علینہ سے اس کی جیلیسی بہرام کو بہت بھاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جس دن رخصتی کی بات کرنے چوہدری حویلی جانا تھا اس نے ساتھ جانے سے منع کر دیا تھا لیکن آفس کے کام کے سلسلے میں اسے فرزام سے بات کرنی تھی لیکن فرزام نے اسے گھر ہی بلوا لیا۔۔۔۔اس نے تب فرزام سے کہا تھا کہ اس کے آنے کی کسی کی خبر نا ہو لیکن جاتے وقت اس کا حورم سے سامنا ہو چکا تھا اور صارم کا جب رخصتی کا کہنا اور حورم کا نظریں چرانا اس پر آشکار کر چکا تھا کہ وہ یہی سمجھتی ہے کہ بہرام اس رشتے سے خوش نہیں تب تو وہ خاموشی سے آ گیا اور اگلے دن فوٹوشوٹ پر بھی حورم کافی خاموش تھی پھر جب وہ عاشر سے ملنے گیا تو راستے میں اس کی ملاقات اتفاقیہ ہی تھی اور تب وہ حورم کے سامنے پہلی بار بدلے مزاج کے ساتھ آیا تھا جس پر حورم کو یقین کرنا مشکل لگا تھا اور پھر رخصتی کے بعد آہستہ آہستہ وہ اسے اپنی محبت پر یقین دلاتا چلا گیا
وہ اب اس سے دور تھی لیکن اس کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی وہ ابھی تک اس کے ہونٹوں کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔اس کے وجود کی نرماہٹ نے ابھی تک اس کے گرد حصار کیا ہوا تھا
قطرہ قطرہ_______میرے حلق کو تر کرتی ہے
میری رگ رگ میں اس کی محبت سفر کرتی ہے
اب بھی حورم کو اس کی محبت پر یقین تو تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے خلاف نہیں جائے گی
اسے جو کرنا تھا اب خود ہی کرنا تھا اور اس نے اب اسی سلسلے میں فرزام سے بات کرنے کا فیصلہ کیا
کافی دیر بعد وہ کمرے میں واپس آیا اور بیڈ کی جانب بڑھ گیا اور لیٹ کر پہلے اسے اپنی جانب کیا
میرا شہزادہ
ارحام گہری نیند میں ہونے کے باوجود بھی شاید اپنے چاچو کی آواز پہچان چکا تھا اسی لیے اپنے چھوٹے چھوٹے بازؤوں کو بہرام کے گرد سختی سے باندھ دیے
شروع سے ہی جب بھی ارحام ادھر آتا تو وہ بہرام کے پاس ہی سوتا تھا اور اس کی شادی کی رات اس نے کافی ضد کی تھی کہ اگر اس نے سونا ہے تو صرف اپنے چاچو کے پاس اور بلآخر ارحم نے بہرام کو فون کیا کہ وہ ہی آ کر اسے سمجھائے اور اس رات وہ حورم کو چینج کرنے کا کہہ کر خود ارحم کے کمرے کی جانب بڑھ گیا
کیا ہوا بھائی؟سب خیریت ہی ہے نا
وہ کمرے میں داخل ہوتا بولا جہاں ارحم اور ارحہ بیڈ پر موجود تھے جبکہ ارحام درمیان میں اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا
کیا ہونا ہے۔۔۔۔تم نے ہی بگاڑا ہے اب تم ہی سنوارو گے اسے۔۔۔۔موصوف آپ کی شادی کی پہلی رات آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔سمجھاؤ اسے کہ اب یہ لیلیٰ بننا چھوڑ دے کیونکہ اس کا مجنوں اب شادی کر چکا ہے
ارحم تپ کر بولا کیونکہ حقیقتاً اب وہ جھنجھلا اٹھا تھا کب کا وہ اسے کہہ رہا تھا کہ اس کے چاچو کی شادی ہو چکی ہے لیکن نہیں وہ ارحام ہی کیا جو بات مان جائے گا۔۔۔۔پہلے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اب بہرام شادی شدہ تھا اور اس طرح ارحم کو تو برا لگا اور پھر جب وہ نا مانا تو اکتا کر اس نے بہرام کو ہی بلوا لیا
ارحم کے طرز مخاطب پر بہرام مسکرا کر رہ گیا اور پھر بیڈ پر ارحام کے قریب بیٹھا جو جو کے تکیے میں منہ دیے ہوئے تھا
ارحام،My Devil Boy،
چاچو کی طرف دیکھو
بہرام اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا پیار سے بولا
چاچو،میں نے نہیں کرنی آپ سے بات،آپ بہت برے ہیں،ایک تو پاپا اتنی دیر بعد آپ سے ملوانے لائے ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے کہ اس گھر میں میرے ہوتے ہوئے آپ کے کمرے میں میری جگہ ہے پھر کوئی کیسے منع کر سکتا ہے،میں کچھ نہیں جانتا مجھے آپ کے پاس سونا ہے
وہ نروٹھے سے انداز میں بولتا سارے تکیے نیچے پھینکنے لگا اور ارحم اور ارحہ نے شکر کیا کہ کچھ تو بولا ہے
ارحام آپ کیسے سوئیں گے وہاں کیونکہ اب تو آپ کی لٹل ڈول ہیں وہاں،
وہ اسے بہلاتے بولا
میں ایسے ہی سؤوں گا جیسے ماما بابا کے ساتھ سوتا ہوں اور لٹل ڈول تو اتنی سویٹ اور کیوٹ ہیں وہ کچھ نہیں کہیں گیں
ارحام بیڈ پر بیٹھے بہرام کی گود میں سر رکھتے بولا
وہ کہیں گیں تو کچھ نہیں آپ کو لیکن وہ ان کمفرٹیبل تو ہوں گیں نا،ایسے آپ کی ڈول کو نیند بھی نہیں آئے گی
بہرام اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے بولا
اچھا۔۔۔۔۔لیکن آپ پھر کمفرٹیبل رہیں گے ان کے ساتھ؟
اس کی بات پر ارحہ اور ارحم ہنسنے لگے
یار۔۔۔۔۔ہاں نا۔۔۔۔۔۔میں سہی رہوں گا یار۔۔۔۔۔۔ورنہ تمہارے یہاں ہوتے مجھے وہاں کیسے نیند آنی تھی
بہرام اس کی طرف دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے اس کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا
اچھا۔۔۔۔۔اس کا مطلب ہوا کہ آپ کو میرے بغیر نیند نہیں آتی تو آپ کو ڈول کے ساتھ نیند آ جائے گی تو پھر مجھے بھی آپ کے بغیر نیند نہیں آتی پھر مجھے بھی لٹل ڈول لا کر دیں پھر مجھے بھی نیند آ جائے گی
وہ خود ہی بھاری آواز میں بولتا جا رہا تھا شاید اس کی گود میں ہی وہ غنودگی میں جا رہا تھا
اسے نیند آ جائے گی۔۔۔۔ہنہہ۔۔۔۔بہرام میں کہہ رہا ہوں کہ اس کے بگاڑنے میں تمہارا ہی ہاتھ ہے
بہرام احتیاط سے ارحام کا سر تکیے پر رکھ رہا تھا جب ارحم سامنے صوفے سے اٹھتا ارحام کی دوسری جانب آیا
بھائی۔۔۔رہنے دیں۔۔۔میرا شہزادہ ہے یہ تو
وہ اس کے سر پر اور پھر اس کے دونوں سفید اور گلابی پھولے ہوئے گالوں پر بوسہ دیتے بولا
اوہ بھئی شہزادہ ہے تو ساتھ میں اتنا شیطان بھی ہے۔۔۔۔۔ دو سال ابھی ہوئے نہیں سکول جاتے جتنی اس کی شکائتیں آتی ہیں۔۔۔۔۔آئے دن کبھی ارحام نے کسی لڑکے کا سر پھاڑ دیا تو کبھی کسی کا ہوم ورک خراب دیا اور پانچ سال کا ہو گیا ہے اب لیکن اسلام آباد میں ہوتے ہوئے ہر وقت چاچو کے پاس کب جانا ہے اور کراچی میں ہوتے چاچو کے پاس سونا ہے۔۔۔مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ میرا نہیں تمہارا بیٹا ہو
ارحم نے اس پر کمبل سیدھا کرتے اس کے ماتھے کے بال پیچھے کرتے آہستہ آواز میں کہا تا کہ یہ چھوٹا شیطان نا اٹھ جائے جس پر بہرام ہنسنے لگا
اچھا۔۔۔۔آپ بھی آرام کریں اور میرے شہزادے کی لٹل ڈول میرا انتظار کر رہی ہو گی
وہ شرارت سے کہتا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔جبکہ ارحم سوچنے لگا کہ اگر کبھی ارحام کو اس کے بغیر رہنا پڑے تو وہ کیسے رہے گا۔۔۔۔۔جان تو ارحم کی بھی ارحام میں بستی تھی
رات یونہی بیت رہی تھی اور ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا تھا جب سورج کی آتی روشنی کی وجہ سے وہ کسمسایا تو دیکھا کہ ارحام اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا اور جب نظریں گھما کر گھڑی کی طرف دیکھا جو کہ دس بجا رہی تھی اس نے پھر ارحام کو دیکھا
ارحام۔۔۔۔
اس نے اسے بیڈ پر لٹاتے اس کے بال بگاڑتے کہا جس پر وہ کسمسایا
یار اٹھ جاؤ اب دس بج گئے ہیں اور ابھی تک سو رہے ہو۔۔۔۔۔اور اب تو ایکسرسائز کا ٹائم بھی نہیں رہا
وہ اسے ہلکا ہلکا جھنجوڑتے بولا
چاچو۔۔۔۔آج تو اس ایکسرسائز کو رہنے دیں۔۔۔۔آج اتنے دنوں بعد تو مزے والی نیند آئی ہے۔۔۔۔آج پکا میں کچھ ہیوی بالکل نہیں کھاؤں گا
وہ پھر اس سے لپٹتے بولا
اچھا ٹھیک ہے پھر جلدی سے اٹھ جاؤ۔۔۔۔فریش ہو جاؤ میں ادھر ہی ناشتہ منگواتا ہوں
اس کی بات پر ارحام نے اپنی گرین آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔کانچ جیسی شفاف چمکتی ہری جھیل سی گہری آنکھیں۔۔۔
بہرام نے جھک کر اس کی آنکھوں پر بوسہ دیا
چاچو۔۔۔۔۔آپ پہلے کی طرح نہیں لگ رہے۔۔۔۔کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔۔۔لٹل ڈول ناراض ہو گئی کیا۔۔۔۔
ارحام اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔۔۔۔۔
وہ ساڑھے پانچ سال کا بچہ شاید بہرام کو لے کر زیادہ ہی حساس تھا جو اس کی آواز سے اس کی آنکھوں سے ہی اس کی کیفیت پہچان لیتا اور بہرام کبھی کبھی ڈر بھی جاتا کہ وہ اسے زیادہ ہی قریب کر رہا تھا کہ بعد میں اس کے بغیر رہ ہی نا سکے
نہیں۔۔۔کچھ نہیں ہوا بس ویسے ہی نیند پوری نہیں ہوئی تھی یار۔۔۔۔اتنی گہرائیوں میں مت جایا کرو اور تمہاری لٹل ڈول کو میں منا لوں گا
وہ اس بٹھاتے بولا
اچھا۔۔۔۔آپ فارم ہاؤس تھے نا تو Ariel سے ملے تھے آپ
وہ اشتیاق سے پوچھنے لگا۔۔۔یہ اس کا فیورٹ ٹاپک تھا
اممم۔۔۔۔ارحام یار بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔اس بار نہیں مل سکا۔۔۔۔۔نیکسٹ ضرور مل کے آؤں گا
بہرام بول رہا تھا جب وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس کا چہرہ چھونے لگا اور پھر اس نے اپنی چھوٹی سی انگلی اس کے ہونٹ کے اوپر تل پر رکھی
This always attracts me۔۔۔۔۔
یہ میرے پاس نہیں ہو سکتا کیا
وہ اپنی بڑی روشن گرین آنکھیں میچتا بولا کالے بال بالکل اپنے پاپا اور چاچو کی طرح لیکن بہت سے نقوش اس نے بہرام سے چرائے تھے اور وہ لگتا بھی بہرام کی طرح ہی تھا۔۔۔۔سمائرہ بیگم تو اکثر ارحام کو دیکھ کر بہرام کا بچپن کہتیں۔۔۔۔۔۔سفید گلابی رنگت اور ان پر تضاد سبز آنکھیں اور بھرے بھرے لال گال وہ چھوٹا سارا تو تھا لیکن انتہا کا کیوٹ بچہ تھا
بہرام کو پتہ چل چکا تھا کہ وہ اب پورا ایکسرے کر کے چھوڑنے والا تھا اس کا آخر کو اتنے مہینوں بعد وہ مل رہے تھے اور ابھی تو اس کا کل رات لیٹ سے آنے والا جرم شاید اسے یاد نہیں تھا
جب اس کی نظر سامنے بنی پورٹریٹ پر گئی جہاں پہلے اس کی تصویر ہوا کرتی تھی اور اب حورم اور اس کی شادی کی تصویر تھی جسے بڑی ہی خوبصورتی سے کھینچا گیا تھا جس میں حورم اس کے سینے پر بائیں طرف ہاتھ رکھے جبکہ دائیں طرف اس کے دل کے اوپر اپنا سر رکھے آنکھیں موندیں تھی جبکہ وہ اس کے سر پر بوسہ دے رہا تھا۔۔۔۔۔اس تصویر میں وہ دونوں کتنے مکمل اور حسین لگ رہے تھے جیسے بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی جب وہ دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا وہ جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور ہمیشہ کی طرح فرزام اسے نظرانداز کرتا فریش ہونے چل دیا
اب آبش کو بھی غصہ آنے لگا تھا آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا فرزام کا تو اب معمول بن چکا تھا کہ صبح وہ جلدی نکل جاتا اور رات کو دیر سے آنا ہسپٹل سے آنے کے بعد ان کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی لیکن آج اس نے اس معاملے کو آر یا پار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دیکھا کہ وہ فریش فریش سا ٹاول سے بالوں کو رگڑتا واشروم سے نکلا اور ڈریسنگ کی جانب بڑھ گیا تھوڑی دیر بعد اس نے اپنا موبائل پکڑا اور اس میں مصروف ہو گیا یہاں آبش کا ضبط جواب دے گیا تھا آخر کب تک اپنا نظرانداز ہوتے دیکھتی
وہ بیڈ سے اٹھتی اس کی جانب بڑھی اور اس کے ہاتھ سے فون کھینچ لیا
یہ کیا حرکت ہے میرا فون واپس کرو
وہ اس اچانک افتاد پر حیران ہوتے اس سے پوچھنے لگا جو اس کے سامنے کھڑی تھی
پہلے آپ مجھے بتائیں کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا آپ اس میں مجھے میرا قصور بتائیں کہ میں کس جرم کی سزا بھگت رہی ہوں
وہ فون کو صوفے پر اچھالتی بولی
تمہارا قصور یہی ہے کہ تم اس انسان کی بہن ہو
وہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتا بولا
اب تو وہ اس کا نام بھی نہیں لیتا تھا شاید اتنی نفرت کر بیٹھا تھا
اگر یہ میرا قصور ہے نا تو پھر قصور آپ کا بھی ہوا کہ آپ نے ہی اس انسان کی بہن سے شادی کی ہے سزا کے مستحق تو آپ بھی ہوئے فرزام چودھری
وہ اس کی شرٹ کو کالر سے پکڑتے بولی اور فرزام اس کی آنکھوں میں چمکتے موتیوں کو دیکھنے لگا
ایک دم وہ اسے چھوڑتی پیچھے ہوئی اور دروازے کی جانب بڑھی اور رک کر اس کی طرف مڑی
آپ سے یہ امید نہیں تھی فرزام کہ آپ رشتوں کو توازن میں رکھنا ہی بھول جائیں گے۔۔۔۔لیکن فکر نا کریں آپ کو اب دوبارہ میری شکل نہیں دیکھنا پڑے گی۔۔۔۔
وہ اسے تاسف سے دیکھ کر چلی گئی
جبکہ فرزام نے صوفے پر ڈھے سے گیا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ آبش کے معاملے میں غلط کر رہا ہے
تھوڑی دیر بعد کمرے سے نکل گیا
وہ ابھی نیچے اپنے باغیچے سے ہو کر آئی تھی۔۔۔۔ڈنر کے بعد وہ اکثر وہاں چلی جاتی۔۔۔۔اور اب سونے کی تیاری کرنے لگی کہ دروازہ ناک ہوا اس نے مڑ کر دیکھا تو فرزام دروازے پر کھڑا تھا پھر چلتا ہوا اس کی جانب آیا
میری گڑیا میڈیسن ٹائم پر لیتی ہے؟
وہ سائیڈ ٹیبل سے اس کی میڈیسن نکالتے بولا اور نکال کر میڈیسن اور پانی کا گلاس اس کے ہاتھ میں پکڑایا
جی بھائی۔۔۔ٹائم پر ہوتی ہیں۔۔۔آپ اس کی فکر نا کریں
وہ میڈیسن کھاتے مسکراتے گلاس ٹیبل پر رکھتے بولی
فرزام نے اس پر کمفرٹر سیدھا کیا
اور حورم اپنا خیال رکھا کرو اور کوئی بھی پرابلم یا کسی چیز کی ضروت ہو شئیر ضرور کرنا۔۔۔۔میں اپنی بہن کو اداس بالکل نہیں دیکھ سکتا
وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے جانے لگا جب حورم نے اس کا ہاتھ پکڑا
بھائی میں اپنا خیال رکھ لوں گی اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں لیکن۔۔۔۔بھائی پلیز بھابھی کو آپ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ ان سے بات بھی نہیں کرتے۔۔۔۔
حورم کچھ نہیں ایسا۔۔۔۔بس ویسے ہی تھوڑا کام کا سٹریس ہے اسی لیے اسے ٹائم نہیں دے پایا تو ناراض ہے تم بالکل فکر نا کرو منا لیتا ہوں
وہ اس کو تسلی دیتے اس کا ہاتھ تھپکتے باہر نکل آیا اور اب اس کا ارادہ گیسٹ روم کی طرف تھا
وہ گیسٹ روم کا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ دونوں ٹانگیں اوپر کیے شال کو لپیٹے صوفے پر ہی سو رہی تھی
وہ افسوس سے سر ہلاتا اس کی جانب آیا اور اس کے قریب ہی بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا وہ لڑکی پہلی ملاقات میں ہی اس کو اچھی لگی تھی اور پھر آہستہ آہستہ وہ اس کے دل میں بستی گئی اور اس کے والدین کی ڈیتھ کے بعد جیسے اس نے اس کا ساتھ دیا تھا اس کا دل میں اس کا مقام اور بڑھ چکا تھا لیکن یہاں حورم کے معاملے میں وہ بے بس تھا جب بہرام نے اس سے کہا کہ آبش اس کے ساتھ نہیں رہے گی تو یہ بات اسے مزید طیش دلا گئی تھی
اس کے گالوں پر آنسؤوں کے مٹے مٹے نشان گواہی دے رہے تھے کہ وہ رو کر سوئی ہے۔۔۔فرزام کو تکلیف ہوئی اس نے اس کے گال پر ہاتھ پھیرا اور جھک کر آرام آبش کو بانہوں میں اٹھایا اور گیسٹ روم سے نکل کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
شام کا وقت ہو رہا تھا اور وہ سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے آج حیدر بھی آیا ہوا تھا سمائرہ بیگم اور ارحہ کچن میں ملازمہ کو شام کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھیں جبکہ خرم صاحب ابھی آفس سے آئے سب بچوں سے مل کر فریش ہونے کمرے میں چل دیے اور لاؤنج میں اب ارحم صارم اور حیدر تھے
پھوپھو نہیں آئیں حیدر۔۔۔۔کافی دن ہو گئے ان سے ملے
ارحم ٹی وی پر چینل چینج کرتا بولا
جی بھائی ماما ویسے کہہ رہی تھیں کہ جانا تو ہے اور ویسے بھی شاہ سے ان کی ملاقات کو بھی کافی دن ہو گئے ہیں۔۔۔۔ایک دو دن تک آ جائیں گی آپ بتائیں آپ کی چھٹی کب تک ہے
یار بس چھٹی بھی ختم ہونے والی ہے
وہ بول رہا تھا جب لاؤنج میں ارحام داخل ہوا بلیک جینز پر وائٹ شرٹ جس پر بلیک میں بڑا کر کے آگے DEVIL لکھا ہوا تھا پہنے منہ پر بارہ بجے ہوئے تھے
یہ آیا میرا چیمپ
صارم اسے اٹھاتا اپنے ساتھ کاؤچ پر ہی لے آیا جبکہ وہ ہنوز خاموش تھا
اسے کیا ہوا
صارم ارحم کی طرف دیکھ کر کہنے لگا
کیا ہونا ہے۔۔۔۔یار سمجھ جاؤ نا بیچاری لیلیٰ کا مجنوں نہیں اس کے پاس۔۔۔۔۔اداس ہے ہماری لیلیٰ
اس کی بات پر جہاں حیدر اور صارم کا قہقہہ بے ساختہ تھا وہاں ارحام نے اور منہ بسورا
ارحم بولتے ارحام کے پاس آیا اور اسے پکڑ کر اوپر اچھالنے لگا
یار اب تو موڈ سہی کر لو۔۔۔۔۔اب تمہارے چاچو کو ہم تمہارے ساتھ باندھ تو سکتے نہیں کہ جہاں وہ جائے وہاں ہی تمہیں بھیجیں
وہ اسے بازؤوں میں اٹھائے صوفے پر بیٹھا
That' not fair Dad،
وہ اپنے گالوں کو اور پھلاتے بولا اور سبز آنکھوں میں خفگی واضح تھی جس پر ارحم نے ہنسی ضبط کی
ارحام،مائی سن دیکھو آج چاچو کی ایک میٹنگ ہے انہوں نے وہاں جانا ہے اور ویسے بھی آج سارا دن تو آپ نے ان کے ساتھ ہی گزارا ہے
وہ اس کے گالوں پر چٹکی بھرتے بولا کہ تبھی وہ خوشبؤوں میں نہاتا فریش سا بلیک جینز پر بلیک ٹی شرٹ کے اوپر براؤن کوٹ پہنے اندر آیا
صارم کل تک مجھے فائلز چاہیے ڈیلز کیں اور تم دونوں کل مجھے اپارٹمنٹ میں ملو
وہ صارم اور حیدر سے کہتا ان کی طرف آیا
بھائی کرنل سعید سے آج میٹنگ ہے دیکھیں کیا بنتا ہے
وہ ارحم کے پاس آتا بولا ارحام کافی غور سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اپنے بابا اور چاچو کی ہر چیز نوٹ کرتا تھا بہرام کی اس پر نظر پری تو ارحام نے منہ دوسری طرف کر لیا پھر وہ اس کے پاس بیٹھ گیا
ارحام ویسے نا کل میں کہہ رہا تھا کہ ایک دو دن میں ایریل سے مل آئیں گے لیکن یہاں تو آپ کا موڈ ہی نہیں سہی۔۔۔۔پھر کینسل کر۔۔۔۔۔۔۔
وہ بول رہا تھا جب ارحام اس کی طرف دیکھ کر بولا
بالکل نہیں۔۔۔۔۔مجھے جانا ہے اپنے ایریل سے ملنے۔۔۔۔۔آپ بھی نہیں اس سے ملے۔۔۔۔کتنا اداس ہو گیا ہو نا میرے سے
ایریل تو اس کی کمزوری تھا اور یہ ہو سکتا تھا کہ وہ منع کرے پھر بہرام اس سے پیار سے بہلاتا سب سے مل کر باہر آ گیا جہاں خاور کھڑا تھا اور چہرے پر پہلے کی نسبت کافی سنجیدگی تھی۔۔۔۔۔۔
چاچا بھتیجے کے شوق بھی نرالے ہیں۔۔۔۔۔
ارحم ارحام کو گھورتے بولا جس پر وہ اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں کو باہر نکالتے ہنسا
بھائی ویسے مجھے لگتا ہے کہ آپ کو یا مام ڈیڈ کو ایک بار فرزام سے بات کرنی چاہیے۔۔۔۔۔جب کی حورم گئی ہے میر اب زیادہ تر اکیلا رہتا ہے
صارم سنجیدگی سے بولا
نہیں صارم،کوئی بھی اس معاملے میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔۔۔۔۔میں نے چاچو اور آنٹی کو اسی لیے خود ہی منع کر دیا تھا۔۔۔۔۔یہ بہرام کا مسئلہ ہے وہ خود ہی حل کرے گا اور وہ ہی فرزام کو یقین دلائے گا۔۔۔۔اسے خود ہی لڑنے دو اور ویسے بھی میں نے اسے منع کیا تھا کہ وہ حورم کو دور رکھے اب چھوٹی موٹی سزا تو بھگتنی پڑے گی
ارحم بے نیازی سے کندھے اچکاتے بولا۔۔۔۔۔خرم صاحب اور سمائرہ بیگم نے بہت کہا تھا کہ وہ فرزام سے بات کریں گے ایسے کیسے وہ حورم کو لے کر جا سکتا ہے لیکن ارحم نے ہی انہیں منع کر دیا تھا
جبکہ صارم سوچنے لگا کہ یہ سزا بہرام شاہ کے لیے اتنی بھی چھوٹی موٹی نہیں۔۔۔۔
ارحام غور سے ان کی بات سن رہا تھا اسے پتہ تو تھا کہ لٹل ڈول اس کے چاچو سے ناراض ہے لیکن کیوں یہ اسے نہیں پتہ تھا