صبح ہو چکی تھی لیکن اس کی رات تو آنکھوں میں کٹی تھی اس کے خیالوں میں خوابوں میں صرف ایک ہی وجود بسا تھا ابھی تو صرف ایک رات اس کے بغیر گزری تھی ابھی نا جانے کتنی راتیں اور گزارنی تھیں
اسے اس کی کمی کا احساس شدت سے ہو رہا تھا اس وقت ابھی وہ اپنے بیڈ پر لیٹا اس کے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا رات کو وہ ٹھیک سے سو بھی نا سکا تھا اور اب بھی نا جانے کب تک یونہی پڑا رہتا کہ اس کے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز اس کے کانوں میں گونجی
اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا جس پر Devil Calling لکھا ہوا تھا اس نے یس کیا
ہیلو میرا ڈیول کیسا ہے
اس نے مدھم آواز میں آنکھیں بند کیے کہا
چاچو آپ سیڈ ہیں
ارحام نے شاید اس کی آواز سے پہچان لیا تھا
ہنہہ۔۔۔۔نہیں یار بس ویسے ہی سویا تھا
وہ اٹھتے بولا وہ جانتا تھا کہ ارحام اسے لے کر کتنا ٹچی ہے اور اس سے کتنا پیار کرتا ہے
ویسے میں تو آپ سے ناراض تھا لیکن ادھر تو آپ پہلے ہی سیڈ ہیں اب آپ مجھے منائیں گے بھی نہیں
اس نے افسوس سے کہا
یار ا ب تم تو مجھ سے بات کر رہے ہو تو اب کیسی ناراضگی ہوئی
بہرام نے مزے سے بولا
میں ناراض ہوں ابھی بھی اتنے دن ہو گئے اور آپ ملنے بھی نہیں آئے اور اب ہم کراچی آئیں ہیں تو آپ ادھر بھی نہیں۔۔۔۔میں آپ کو مس کر رہا ہوں وہ بھی زیادہ والا
اچھا میرے چھوٹے شیطان ٹھیک ہیں شام تک آ جاؤں گا اب خوش
جی خوش وہ بھی زیادہ والا
اس کی بات پر بہرام کی ہنسی گونجی
بہت ہی شیطان ہو یار
تھوڑی دیر اور اس نے ارحام سے بات کی تھی اور پھر فون رکھ دیا
وارڈروب سے ٹراؤزر شرٹ نکالا اور فریش ہونے چل دیا
شاور لینے کے بعد باہر نکلا جہاں خاور اس کا ہی انتظار کر رہا تھا
فرزام سے بات کرنے کے بعد وہ ناشتہ کرنے ڈائننگ ٹیبل پر آئی اور فرزام اور آبش کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا
حورم میں نے خان بابا کو کہا ہے وہ آپ کے ساتھ جائیں گے
فرزام ناشتہ کرنے کے بعد بولا
جی بھائی
تھوڑی دیر تک فرزام آفس جا چکا تھا جبکہ حورم اور آبش باہر لان میں آ گئیں جب ارحہ کی کال آئی تھی وہ کراچی آ چکی تھی
بھابھی ارحم بھائی اور میرا گولو کیسا ہے
آبش نے مسکراتے پوچھا
ٹھیک ہیں دونوں اور ارحام تو سکون سے بیٹھ ہی نہیں رہا کہ بس چاچو کے پاس جانا ہے اسے
فون سے ارحہ کی آواز آئی جبکہ اس کے ذکر پر اس کے دل کی دھڑکن بڑھی تھی
کیوں بہرام گھر پر نہیں
آبش نے حیرانگی سے پوچھا تھا جبکہ حورم بھی جواب سننے کی منتظر تھی
نہیں۔۔۔۔۔گھر پر نہیں ہے فارم ہاؤس ہے کل کا۔۔۔۔
اور تم سناؤ حورم کیسی ہے اب۔۔۔۔میں کسی دن چکر لگاؤں گی ویسے
جی ضرور آئیے گا اور حورم بھی ٹھیک ہے اب۔۔۔۔آپ بات کر لیجیے
آبش نے فون حورم کی طرف بڑھایا
دوپہر کا وقت ہو رہا تھا بہرام نے ناشتہ کرنے کے بعد فارم ہاؤس کا چکر لگایا
صبح کی نسبت موسم اب ذرا ٹھنڈا تھا جس وجہ سے اس نے اپنی کالی چادر کندھوں کے گرد اوڑھی ہوئی تھی وہ یہاں آتا جاتا رہتا تھا اس کے بعد وہ پچھلی سائیڈ پر آ گیا
یہ جگہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی جہاں پر ایک مصنوعی جھیل کی طرح کا سوئمنگ پول بنا ہوا تھا اور آس پاس درخت تھے جس نے اس جگہ پر سایہ کیا ہوا تھا آس پاس ہلکی ہلکی نرم ہری گھاس چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی
وہ چلتا ہوا ایک درخت کے پاس آیا اور اس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا ٹھنڈی ہوا سے اس کے بال ماتھے پر آ گئے کہ تبھی کوئی خوشگوار یاد نے ذہن کے دریچوں پر دستک دی تھی
اپنے ٹرپ پر جانے جانے سے ایک رات پہلے وہ حورم کو فارم ہاؤس لایا تھا اور اس کے ساتھ یہ رات ان حسین راتوں میں سے ایک رات تھی ویسے تو حورم کے ساتھ گزارا ہر پل اس کے حسین لمحات تھے
جب وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور حورم نے اس کے سینے پر سر رکھا ہوا تھا جبکہ بہرام کے بازؤوں کا حصار اس کے گرد تھا حورم اس کے سینے پر اپنی انگلی کی مدد سے نقش و نگار بنانے میں مصروف تھی جب بہرام کی آواز اسے سنائی دی
میری جان کیا سوچ رہی ہے
اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جب بہرام نے جھک کر اس کے ماتھے کو چوما جس پر حورم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی
میں سوچ رہی تھی کہ میں آپ سے جب پہلی بار ملی تھی نا آفس میں۔۔۔۔وہ ملاقات بڑی عجیب تھی
حورم اس کی آنکھوں میں دیکھے جیسے وہ لمحے پھر سے جی رہی تھی
اچھا۔۔۔۔۔کیا عجیب لگا میری کوئین کو
وہ اسے مزید نزدیک کرتے بولا
آپ کی۔۔۔۔۔۔آنکھوں میں دیکھنا عجیب لگا تھا جیسے میں کھنچی جا رہی تھی آپ کی طرف۔۔۔۔مجھے خود نہیں تب سمجھ لگا تھا بس آپ کی آنکھیں میری آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں تب اور پھر میں اپنے دل کو قابو نا رکھ سکی تھی۔۔۔۔میں اسے روکنا چاہتی تھی آپ کی طرف بڑھنے سے لیکن نہیں ہو سکا تھا۔۔۔مجھے ڈر لگتا تھا
وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں بول رہی تھی جبکہ وہ اسے دیکھنے میں مصروف تھا
کیوں۔۔۔۔۔۔کیوں روک رہی تھی
وہ اس کے بالوں کو سامنے سے کان کے پیچھے اڑستے بولا جب حورم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
وہ۔۔۔۔وہ جس طرح ہمارا نکاح ہوا تھا اور آپ نے کہا کہ یہ آپ نے صرف اپنے بھائی کی وجہ سے کیا۔۔۔۔مجھے لگتا تھا کہ آپ خوش نہیں ہیں اس رشتے سے اور شاید یہ قائم نا رہے
اس نے نظریں جھکاتے کہا
اور ڈر کیوں لگتا تھا
وہ اپنی نظروں کے راستے اسے دل میں اتار رہا تھا یہ احساس ہی سکون بخش تھا کہ وہ اس کے پاس ہے صرف اس کی ہے
مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں آپ مجھ سے الگ نا ہو جائیں۔۔۔۔۔مجھ سے دور نا چلے جائیں۔۔۔۔کہیں مجھے آپ کے بغیر نا رہنا پڑے۔۔۔۔۔۔میں نہیں رہ سکتی اب آپ کے بغیر بہرام
اس کی نیلی آنکھوں میں نمی ابھری تھی بہرام اس کی نم آنکھوں کو ہی دیکھ رہا تھا
تمہاری ﺟﺎگتی ﺭﻭئی ہوئی ﺁنکھوﮞ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ۔۔
مجھے بھی ﺗﻢ ﺳـﮯ بچھڑنا محال لگتا ﮨـﮯ!!
بہرام نے اس کی دونوں آنکھوں پر بوسہ دیا جب حورم اس کے گلے لگ گئی کہ اسے ڈر تھا کہ وہ اس سے جدا کر دیا جائے گا
بہرام نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگا
تمہارا ڈر سچ ثابت ہوا حورم۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔
اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اس کا دل شدت سے صرف اسے ایک بار دیکھنے کو کر رہا تھا ایک وہ اس کے پاس ہو اس کے سامنے ہو وہ اسے محسوس کر سکے
اسے ایک دم ہی عجیب سا احساس ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے لگا تھا کہ وقت تھم سا گیا ہو ہر چیز ساکت ہو چکی ہو بس وہ اس کے سامنے تھی ہاں اس کے سامنے تھی یہ اس کوئی خواب نہیں تھا اس کی کوئین کے معاملے میں اسے کوئی وہم نہیں ہو سکتا تھا
اس کی بیتاب نظریں اس سے ٹکرائیں لیکن ان کی سرخی حورم کے دل پر قیامت برپا کر چکیں تھیں ان نظروں میں جو کچھ تھا حورم کی برداشت سے باہر تھا
اگر وہ ان نظروں کی کیفیت۔۔۔۔۔۔ان کا مفہوم۔۔۔۔۔ہی نا سمجھ سکے تو پھر اس کی کیسی محبت ہوئی اس کا کیسا عشق ہوا
ارحہ سے بات کرنے کے بعد حورم اپنے کمرے میں تیار ہونے جا چکی تھی پہلے تو اس کا ارادہ کسی ریسٹورنٹ میں ملنے کا تھا لیکن اسے جب پتہ چلا کہ وہ فارم ہاؤس تھا تو اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا
آبش سے ملنے کے بعد وہ باہر آئی تو جہاں خان بابا گاڑی تیار کیے اس کے انتظار میں کھڑے تھے
اس کے بیٹھنے کے بعد خان بابا نے گاڑی سٹارٹ کی
وہ خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی آبش اسے بتا چکی تھی کہ بہرام کو اس نے کچھ نہیں بتایا
گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دی تھی جب گاڑی رک گئی حورم نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے ہی فارم ہاؤس تھا وہ نیچے اتری اور خان بابا کو انتظار کا کہتے اندر کی جانب بڑھ گئی جہاں چاروں طرف وردی میں ملبوس گارڈز تھے وہ ایک بار پہلے بھی آ چکی تھی یہاں لیکن تب میں اور اب میں بہت فرق تھا
وہ گھبرا رہی تھی کہ وہ آج بہرام سے ملے گی دوبارہ بچھڑنے کے لیے
اس وسیع و عریض کنالوں پر محیط فارم ہاؤس کو نہایت خوبصورتی سے بنایا گیا تھا
درمیان سے سائڈوں پر چاروں طرف راستے جاتے تھے اور ان راستوں کے اطراف پر درخت
وہ آگے آئی تو سامنے ہی اندرونی دروازہ تھا جہاں پر خاور تھا وہ حورم کو دیکھتے ہی اسی جانب آ گیا
سلام بی بی جی
اس نے سر جھکاتے کہا
وعلیکم السلام،شاہ کہاں پر ہیں خاور
اس نے سلام کا جواب دیتے کہا
بی بی جی شاہ صاحب پچھلی سائڈ پر ہیں
وہ کہتا ایک سائڈ پر ہو گیا کیونکہ بہرام کے وہاں ہوتے کسی اور کو جانے کی اجازت نا تھی لیکن یہاں حورم تھی اور خاور سے اچھا بہرام کی زندگی میں حورم کی اہمیت کا کون جان سکتا تھا حورم کے مطابق تو اسے خاور سے ملے کچھ مہینے ہوئے تھے لیکن وہ تو خاور کو پتہ تھا کہ وہ کب سے اس کی حفاظت میں مصروف تھا خاور کو اپنی بی بی جی بھی اتنی ہی عزیز تھی جتنا اسے بہرام کیونکہ وہ بہرام شاہ کی زندگی تھی
حورم پچھلی سائڈ پر آئی تو اسے تھوڑا ٹھنڈ کا احساس ہوا صبح کی نسبت اب ہلکی ہلکی ٹھنڈ تھی
اس نے نیلے رنگ کی شیفون کی پیروں کو چھوتی فراک پہنی ہوئی تھی جبکہ اس کے ساتھ ہی ہم رنگ ڈوپٹہ تھا اور بالوں کو کیچر کی مدد سے باندھا ہوا تھا
وہ آگے بڑھی تو سامنے ہی وہ اسے نظر آ چکا تھا۔۔۔۔درخت سے ٹیک لگائے۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کیے۔۔۔۔بلیک ٹراؤزر پر بلیو فل بازؤوں والی شرٹ پہنے جبکہ کالی چادر اس کے کندھوں کے گرد تھی۔۔۔۔
وہ اس کے قریب ہی سامنے والے درخت کے ساتھ کھڑی تھی اور اس کے جائزے میں مصروف تھی جب اس نے ایک دم آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔۔۔
اس کی بے چین نظریں جب حورم کی پیاسی نظروں سے ٹکرائیں تھیں تو حورم کو محسوس ہوا تھا کہ ان بیتاب نظروں میں جیسے اسے دیکھتے سکون اتر آیا تھا
ویسا ہی سکون جو اسے بہرام کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا
حورم پر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بھی تو اس کے بغیر سکون میں نہیں اور جہاں پر سچی محبت ہو پھر وہاں کیسی بد گمانی۔۔۔۔جہاں سچی محنت ہوتی ہے وہاں بدگمانی زیادہ دیر رہ ہی نہیں سکتی کیونکہ دل محبوب کے حق میں بد گمانی اور شک کے معاملے میں عشق جیسا وکیل کرتا ہے جو کوئی نا کوئی منطق یا دلیل دے کر محبوب کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے
بہرام بس اسے دیکھ رہا تھا خاموشی سے لیکن اس کی آنکھیں سب عیاں کر رہی تھیں وہ اپنی جگہ سے دو قدم آگے بڑھا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گیا جو اسے دیکھنے میں مصروف تھی
حورم
اس نے نرمی سے اسے پکارا تھا لیکن اس نرمی میں جو شدت تھی وہ واضح تھی
حورم کی آنکھوں میں نمی تیری۔۔۔۔۔۔
بہرام۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔۔بہت ترپاتے ہیں آپ
حورم کو پچھتاوا ہو رہا تھا یہاں آنے کا۔۔۔۔وہ اب واپس کیسے جا سکے گی۔۔۔۔وہ تو یہاں اپنے سوالوں کے جواب لینے آئی تھی
بہرام نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا اور اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں اور اسے محسوس کرنے لگا
حورم۔۔۔۔وہ کونسے لوگ ہوتے ہیں جن کے گناہوں کی انہیں اتنی جلدی معافی مل جاتی ہے۔۔۔۔لیکن میری غلطی کی سزا اتنی تکلیف دہ ہو گی مجھے نہیں پتا تھا
وہ آہستہ آواز میں بول رہا تھا
آپ جانتے تھے بہرام کہ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی پھر بھی آپ نے ایسا کیا کیوں بہرام۔۔۔۔ایک بار بھی نا سوچا کہ کیسے رہوں گی میں۔۔۔۔۔۔آپ کو مجھ سے محبت نہیں ورنہ سوچتے ضرور آپ۔۔۔۔۔اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو نہیں تھا پڑنا آپ کو کوئی فرق
وہ اس کے ہاتھوں کو ہٹاتی دور ہوتے چلائی تھی جب بہرام نے اسے کندھوں سے پکڑ کر قریب کیا اور اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے بولا
مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔
حورم۔۔۔۔۔
صرف تم سے۔۔۔۔۔اور کسی کو سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔نہیں رہ سکتا میں بھی تمہارے بغیر
وہ ٹھہرتے لفظوں میں بولا
اس نے کھینچ کر اسے سینے میں بھینچا تھا جب اس کی آغوش ملتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی شرٹ میں جذب ہونے لگے
اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔۔۔۔۔اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں بھی نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور میں تمہارے ساتھ تھا حورم تمہارے پاس
وہ اسے خود میں سموئے بول رہا تھا
نہیں تھے آپ میرے پاس۔۔۔۔میں نے آپ کو آوازیں بھی دیں تھیں۔۔۔۔۔آپ کو بلایا تھا۔۔۔۔آپ نہیں آئے تھے بہرام۔۔۔۔۔نہیں آئے تھے آپ
وہ روتے بول رہی تھی جبکہ وہ سن رہا تھا
حورم ایک بار صرف ایک بار معاف کر دو یار تمہیں خود سے لگائے رکھوں گا لیکن اب دور مت جانا۔۔۔۔۔بہت مشکل ہے
بہرام اس کا چہرہ اپنے طرف کیے اس کے آنسو صاف کرتے کہہ رہا تھا جبکہ وہ خود کو نا چاہتے ہوئے بھی رونے سے روک نہیں پا رہی تھی
آپ کو پتہ ہے بھائی نہیں مانیں گے۔۔۔۔۔یہ آخری موقع دیا ہے۔۔۔۔اس کے بعد پتہ نہیں کب ملیں گے۔۔۔۔۔لیکن بہرام بس اتنا کیجیے گا کہ بس کبھی اپنا نام میرے نام سے جدا مت کیجیے گا
وہ ضبط کیے بولی تھی
کبھی نہیں حورم۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔فرزام میری جان بھی لے لے لیکن کبھی نہیں کروں گا
اس کی بات پر حورم نے آنکھیں بند کیں تھیں
میں نہیں جانتی بہرام کہ۔۔۔۔۔ہمارے بچے کو بھی آپ کا پیار مل سکے گا کہ نہیں
وہ بے ترتیب سانس میں کہتی درخت کے ساتھ نیچے بیٹھ گئی جب بہرام گھٹنوں پر اس کے قریب بیٹھتا بولا
حور۔۔۔۔حورم۔۔۔۔۔سچ میں
بہرام سے تو اب بولا بھی نہیں جا رہا تھا
جب حورم نے سر ہلایا تو اس کی تو جان ہی نکل گئی تھی
اور شاید زندگی میں پہلی بار بہرام کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔۔۔۔اس نے تو اپنے والدین کی موت پر بھی صبر کر لیا تھا لیکن یہ احساس اس کے لیے تھا ہی تکیف دہ
اس کے آنسو گر کر حورم کی ہتھیلی پر گرنے لگے
مرد روتے نہیں
اس نے کہتے بہرام کی گالوں کو اپنی ہتھیلیوں سے صاف کیا تھا
روتے ہیں حورم۔۔۔مرد بھی روتے ہیں۔۔۔۔انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔اور جب تکلیف حد سے بڑھ جائے نا تو آنسو خود بخود آ جاتے ہیں۔۔۔اور یہ تکلیف تھوڑی ہے کہ میں اتنے حسین لمحوں کو جی ہی نہیں سکوں گا
اس نے حورم کے کندھے سے ہی سر ٹکا لیا جبکہ ان دونوں کے آنسو ان کا چہرہ بھگو گئے
میں کتنا بد نصیب باپ ہوں نا۔۔۔۔۔
حورم نے اس کا سر اٹھایا
بہرام آپ ایسا کریں گے تو پھر میرا کیا ہو گا۔۔۔۔۔
جب ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا جس سے حورم سرد پڑنے لگی تھی بہرام نے اپنی چادر اتار کر اس کے گرد لپٹا دی
جب وہ اٹھی
مجھے جانا ہو گا بہرام۔۔۔۔میرے سے اور نہیں رہا جا رہا اب
وہ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے صاف کرتی اٹھی
ابھی مت جاؤ۔۔۔تھوڑی دیر اور رک جاؤ حورم۔۔۔۔۔ابھی تو اس احساس کو جی لینے دو
اس کی بات اس کے آنسو پھر رواں ہوئے تھے
اگر اب اور رکی نا تو اپنے بھائی سے کیا وعدہ ٹوٹ جائے گا بہرام۔۔۔۔۔۔واپس نہیں جا سکوں گی کبھی
اس نے کہتے ہی اس کے ماتھے سے بال ہٹا کر وہاں اپنے لب رکھے تھے اور واپس جانے کے لیے مڑی جب اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا
اور ایک آخری بار اسے سینے سے لگایا
اپنا اور ہمارے بچے کا خیال رکھنا حورم۔۔۔۔۔۔رکھو گی نا
بہرام نے اس کا چہرہ اوپر کرتے کہا جب اس نے سر ہلایا
بہرام نے اس کے ہونٹوں پر لب رکھے اور پھر اسے جانا دیا اور وہ اسے جاتے دیکھتا رہا اور ایک بار پھر آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے تھے
میں بہت جلد آؤں گا حورم۔۔۔۔۔یہاں سے بہت دور جانے کے لیے
لیکن شاید یہ جلد کتنی دیر میں آنا تھا
صاحب آؤ نا تم بھی تماشہ دیکھو عشق کے مجرم کا
پھر کون لٹے گا عشق میں پھر کون کرے گا محبت ایسی