کراچی کے مشہور ایئر پورٹ پر فلائٹ لینڈ ہو چکی تھی۔ سب مسافر باہر نکل رہی تھے ایسے میں وہ بھی اپنا سامان لے کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔ آج وہ اپنے وطن واپس آ ہی گئی تھی۔ دو سال بعد وہ اس سرزمین پر قدم رکھ رہی تھی۔
بلیک جینز پر بلیک ٹاپ اور وائٹ کینوس شوز پہنے، بلیک گاگلز پہنے، بالوں کو کرل کیے اور سٹالر کو لاپروہی سے گلے میں لپیٹے بے شک وہ سب میں سے منفرد نظر آ رہی تھی اور ہر کوئی مڑ کر اس حسینہ کو دیکھ رہا تھا لیکن وہ انجان بن کر سیدھا باہر آگئی
اس کی نیلی آنکھوں میں اک عجب سا تاثر ہوتا کہ کوئی بھی اسے پڑھ نہیں پاتا
وہ ایئرپورٹ سے باہر نکل چکی تھی کہ تب ہی خان بابا دوڑتے اس کے پاس آئے۔
بیٹا! السلام علیکم
وعلیکم اسلام! خان بابا، کوئی اور تو نہیں آیا ساتھ؟
نہیں بیٹا
وہ ان کے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ چکی تھی اس کی بلیک مرسیڈیز سامنے ہی کھڑی تھی اور اس کے پیچھے ہی بلیک ہیلکس میں گارڈز بھی براجمان تھے۔۔
خان بابا آپ ایسا کریں چابی مجھے دیں اور آپ گارڈز کے ساتھ حویلی واپس چلیں جائیں میں آجاؤں گی۔
بیٹا ہم ایسا نہیں کر سکتا چھوٹا صاحب ہم سے ناراض ہو گا
انہوں نے کہا
اچھا آپ رکیں
اس نے بیگ میں سے فون نکالا اور کسی کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔۔۔
دور سات سمندر پار شاندار سے آفس میں بیٹھے فرزام نے چونک کے فون کو دیکھا اور گڑیا کالنگ دیکھ کے سرعت سے فون اٹھایا۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد کال اٹینڈ کی جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو بھائی
حورم گڑیا آپ سیفلی پہنچ چکی ہو
جی بھائی میں پہنچ چکی ہوں اور پلیز آپ خان بابا کو کہیے کہ وہ واپس چلیں جائیں ،میں تھوڑی دیر تک خود ہی آ جاؤں گی
یہ تو بہت مشکل ہے تمھیں آگے ہی پتہ ہے کہ بابا کو پہلے میں نے کتنی مشکل سے منایا تھا تمھارے کہنے پر کہ کوئی بھی تمھیں لینے نہ آئے اور پھر ہی انہوں نے گارڈز کے ساتھ خان بابا کو لینے بھیجا ہے اگر مجھے پہلے بتا دیتی تو میں پہلی فلائٹ سے ہی پاکستان آ جاتا
بھائی میں آپ کو بھی منع کر دیتی اور ویسے بھی میں اکیلے ٹائم گزارنا چاہتی ہوں کچھ دیر۔۔۔۔۔۔ اور خود کو تیار بھی کرنا ہے حالات کا سامنا کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔
لیکن گڑیا
پلیز بھائی
اچھا ٹھیک ہے میں بابا کو کال کر کے بتا دیتا ہوں لیکن یاد رہے کے واپس جلدی آ جانا ہے مما بابا ویٹ کر رہے ہیں
جی بھائی اوکے اللہ حافظ
اللہ حافظ
وہ اب خان بابا کی طرف مڑی
خان بابا میری بھائی سے بات ہو چکی ہے وہ بابا کو بتا دیں گے
اسے تو گارڈز دیکھ کے ہی کوفت ہونے لگی کہ اسے تو ہر طرف سے جیسے خطرہ ہے نہ کہ ہر وقت اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہو لیکن شاید وہ یہ بات بھول چکی تھی کہ خطرہ بتا کے تھوڑی ہی آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ساحل سمندر کے قریب مرسڈیز کو روک دیا اور باہر نکل کر گاڑی سے ٹیک لگا لی۔۔۔۔۔۔شام ڈھلنے کا وقت ہو رہا تھا اور اس وقت اکثر لوگ یہاں کا رخ کر لیتے۔ وہ ایک کافی پر سکون گوشے میں تھی۔۔۔۔۔سامنے ہی ایک دلفریب منظر اس کی نظروں کو خیرہ کر رہا تھا۔
یہ شام کا منظر تھا سامنے ہی دور دور تک سمندر کا پانی تھا سورج آہستہ آہستہ ڈوبنے کے قریب تھا ایک پرسکون شام اور ہلکی ہلکی ہوا۔۔۔۔ تھوڑے دور ہی کچھ بچے کھیل رہے تھے۔۔۔۔ زندگی سے بھر پور کھیل۔۔۔۔ اس کی زندگی بھی تو ایسی ہی تھی خوشیوں اور شرارتوں بھری،ہنستی مسکراتی زندگی۔۔۔۔۔۔
وہ تھوڑی دیر بچوں کو کھیلتا دیکھتی رہی پھر اچانک ہی اس نے شوز اتارے اور جینز کو ٹخنوں تک فولڈ کیا اور ننگے پاؤں چلنے لگ گئی
لہریں اس کے پیروں کو چھو کر واپس جا رہی تھی اور ایک عجب ہی سرور بخش رہی تھیں ان لہروں کے شور سے اس کے اندر کا شور کہیں دب جاتا تھا
ایتھنز میں بھی اسے ساحل سمندر پر جانا بہت پسند تھا اور اکثر شام کے وقت وہ میم الیکسا کے ساتھ ایڈم بیچ پہ آ جاتی۔۔۔ ورنہ تو وہ کہیں بھی نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ان دو سالوں میں اپنے بھائی کی طرح ایتھنز یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ بزنس (AUEB) میں ایک نام بنایا تھا اور بہت سے ایوارڈز بھی اپنے نام کیے تھے بہت سے سٹوڈنٹس نے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اسے کسی چیز میں بھی انٹرسٹ نہیں تھا اسی وجہ سے وہ پوری یونیورسٹی میں attitude girl کے نام سے مشہور تھی پچھلے چار سالوں میں اس کی زندگی بدل کے رہ گئی تھی لیکن شاید ابھی اور بہت کچھ بھی بدلنے والے تھا
وہ کافی دیر سے ایک چٹان کے ساتھ کھڑی تھی کہ اسے سردی کا احساس ہوا سردی کی وجہ سے اس کی ناک اور گال گلابی رنگ کے ہو چکے تھے اس نے گاڑی سے کیپ شال نکال لی جو کہ وہ جہاز میں اتار چکی تھی گاڑی کے ساتھ کھڑی وہ شال کو لپیٹ رہی تھی کہ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں پہنے نیکلس پر رکا جس میں ایک نیلے رنگ کا ڈائمنڈ جگمگا رہا تھا بالکل اس کی آنکھوں کے رنگ جیسا نیلا اور ساتھ ہی دینے والے کے دو سال پہلے الفاظ بھی اس کے کانوں میں گونجے
"نکاح مبارک ہو مسز اور اسے اتارنا مت تا کہ یہ تمھیں یاد دلاتا رہے کہ یہ میں نے صرف اپنے بھائی کے کہنے پر کیا ہے امید ہے کہ تمھارا دو سال کا یہ سفر اچھا رہے"
اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی نیلی جھیل سی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کے گالوں پر لڑھک گئے جس کے گھر والوں نے کبھی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ نکلنے دیا انہیں تو خبر ہی نہیں کہ اب تک اکیلے میں نہ جانے کتنے آنسو بہا بیٹھی ہے اور کہیں نہ کہیں ذمہ دار وہ بھی تھے اور پتہ نہیں یہ آنسو کب تک اس کی قسمت میں ساتھ رہنے والے تھے کہ کب وہ مسکرائے گی کہ اس کے کانوں میں ایک اور انسان کا لہجہ گونجا
"تم نے مجھے ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا لیکن ایک بات یاد رکھنا حورم کہ جو لوگ محبت کو ٹھکراتے ہیں محبت انہیں ہی ٹھکرا دیتی ہے"
شاید اس نے محبت کو ٹھکرایا تھا اسی وجہ سے آج خوشیاں اس سے روٹھ چکی تھیں اور اب بس وہ یہی چاہتی تھی کہ اسے اپنی زندگی میں کسی سے محبت نہ ہو اگر اسے محبت ہو گئی اور اس نے اسے ٹھکرا دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔
فلحال کسی کی طلب نہیں
فلحال اپنی تلاش میں ہوں
ان دو سالوں میں اس نے اپنے اوپر ایک خول چڑھا لیا ہوا تھا اور کسی کو کیا پتہ کے باہر سے نظر آنے والی کانفیڈینس سے بھرپور لڑکی اندر سے کس قدر ٹوٹ چکی تھی اس کی زندگی نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا کہ وہ نازک سی پھولوں جیسی لڑکی اس کھیل میں کس قدر مسلی جا چکی تھی اور شاید ابھی اور مسلا جانا تھا
وہ کب کی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ موبائل کی رنگ ٹون اسے حال میں واپس لائی اس نے چونک کر موبائل دیکھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی اور ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا جو رو رو کر بھیگ چکا تھا۔۔۔۔ پانی کی بوتل نکال کر تین چار گھونٹ پیے اور ڈیش بورڈ سے فون پکڑا۔۔۔۔۔ کال پھر سے آ رہی تھی ضرور بابا نے بھائی کو بتا دیا تھا کہ وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی خیر اس نے کال اٹینڈ کی
ہیلو السلام علیکم بھائی
حورم آپ ابھی تک گھر نہیں پہنچیں ٹائم دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے
دودسری طرف سے فرزام کی خفگی سے بھری آواز آئی
بھائی میرا گھر جانے کو نہیں دل کر رہا
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز نم ہو گئی
حورم میری جان آپ اب تک وہاں پر ہی کھڑی ہو موو آن حورم زندگی میں آگے بڑھنے چاہیے اور آپ اب ایسا کچھ نہیں سوچیں گی
آ کے بات ہو گی اور بابا مما پریشان ہیں گھر پہنچ کر کال کریں مجھے
جی بھائی
اور ہاں صبح آپ آفس جا رہی ہیں وہاں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے
کیا
یہ تو صبح ہی پتہ چلے گا
اوکے اللہ حافظ
اب پتہ نہیں زندگی اس کے ساتھ کرنے والی تھی اس بات سے انجان اس نے گاڑی گھر کی طرف موڑ دی۔
مرسڈیز چوھدری حویلی کے سامنے رک چکی تھی جو باہر سے ہر کسی دیکھنے والے کو ایک حویلی ہی لگتی تھی ایک شاندار حویلی لیکن اندر سے اس سے بھی بڑھ کر تھی پورا محل کا نقشہ تھا اور حامد چوھدری کے ہی کہنے پر اس کا نام چوھدری حویلی رکھا گیا تھا جس میں دو بھائی اپنی اپنی فیملیز سمیت قیام پزیر تھے
سب سے بڑے بھائی حامد چودھری اپنی بیوی رافعہ بیگم اور اپنے اکلوتے بیٹے عاشر چودھری جو کہ زیادہ تر یورپ میں قیام پزیر ہوتا تھا اور وہاں ہی اپنے باپ کا بزنس سنبھالا ہوا تھا
جبکہ حماد چودھری سے چھوٹے حمدان چودھری تھے جو اپنی بیوی فرحت بیگم اور بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے سب سے بڑا بیٹا فرزام چودھری جس نے چار سال پہلے ایتھنز یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ بزنس سے MBA کیا تھا اپنے دوست کے ساتھ اور اب کامیابی سے اپنے بابا کا بزنس چلا رہا تھا اور بہت کم وقت میں ہی اپنا آپ منوایا
فرزام چودھری سے چھوٹی امل چودھری جو کہ آغا یونیورسٹی سے پانچ سال میڈیکل کر کے لندن سے سپیشلسٹ کی ڈگری لی تھی اور اب پاکستان میں ہی ہاسپٹل میں کام کر رہی ہے چار سال پہلے ہی حمدان چودھری نے اپنے والد کے پرانے اور بہت نزدیکی دوست کے پوتے سے منگنی کی تھی اور دو سال پہلے شادی ہو چکی تھی
اور پھر آتی ہیں سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی حورم چوھدری جس میں سب کی جان ہے پیار اور محبتوں میں جو بڑی ہوئی لیکن کہتے ہیں نہ کہ جو سب سے لاڈکا ہوتا ہے زندگی اسے ہی رلاتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ زندگی حورم چودھری کو کتنا رلاتی ہے
------------------
گاڑی کو دیکھ کر گارڈ نے جلدی سے بڑا سا گیٹ کھول دیا سامنے ہی ٹریک بنا ہوا تھا جو کہ سیدھا جا کر پورچ پہ ختم ہوتا اور ٹریک کے دونوں سائیڈوں پر باغیچے بنے ہوئے تھے
اور اس میں ہر قسم کے پھول اور پودے لگے ہوئے تھے جبکہ دائیں طرف کے باغیچے میں وائٹ ویسٹیریا کا درخت اور آس پاس گلابی رنگ کے بلیڈنگ ہارٹ کے پودوں سے خوبصورتی سے راستہ بنایا گیا تھا
اور یہ باغیچہ خاص کر حورم کی فرمائش پر تیار کیا گیا تھا جب وہ دس سال کی تھی اور اپنا زیادہ تر وقت شروع سے ہی یہاں گزارتی تھی
اور دائیں طرف کے باغیچے میں بیٹھنے کے لیے لکڑی سے بنی کرسیوں اور درمیان میں لکڑی کے ٹیبل سے آرائش کی گئی تھی
اس سے ہوتے ہوئے سامنے ہی پورچ تھا اور لکڑی کے مین دروازے سے ہوتے ہوئے اندر کا راستہ تھا
ابھی وہ گاڑی سے نکلی ہی تھی کہ اسے سامنے سے ہی مما بابا اور بڑے پاپا آتے دیکھائی دیے وہ ملازم کو سامان نکالنے کا کہ کر واپس مڑی
حور میری جان
فرحت بیگم نے آگے بڑھ کر اسے خود میں بھینچ لیا آخر دو سال جدائی برداشت کی تھی بیٹی کی انہوں نے کتنا اسے کہا تھا کے ایک دفعہ ہی ملنے آ جائے اور آخر کار دو سال کا یہ انتظار اختتام پزیر ہوا تھا
ماما کیسی ہیں آپ اور آج بھی رو کر ہی ویلکم کریں گیں
وہ ان کے گلے لگی بولی
حورم تم کیا جانو کہ یہ دو سال میں نے کیسے گزارے ہیں
مما دیکھیں نہ میں آ گئیں ہوں اب آپ کہ پاس ہی رہوں گی
ارے ہمیں تو ہماری گڑیا سے ملنے دو
بابا جان
وہ ان کے سینے سے لگی
میری گڑیا میری حورم بابا کی جان کیسی ہو
میں ٹھیک ہوں بابا آپ کیسے ہیں
اب آپ آ گئی ہو نہ تو میں بالکل ٹھیک ہو جاؤں گا
بڑے پاپا آپ سنائیں
وہ اب ان کے سامنے کھڑی تھی
میری بیٹی میں بالکل ٹھیک ہوں
انہوں نے اسے گلے لگا لیا ان کو کتنی چاہ تھی ایک بیٹی کی اور اللہ نے حورم کے روپ میں انہیں بیٹی دی اور وہ بیٹیوں سے بڑھ کر اس کا کرتے تھے اور حورم نے بھی تو انہیں کبھی بیٹی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی
اس کے لیے یہ سب پیار نیا نہیں تھا بلکہ وہ تو خود ان دو سالوں میں اس پیار کے لیے ترسی تھی سب اتنا پیار کرتے تھے کہ کبھی کبھی اسے لگتا کہ کہیں اسے اتنا ہی غموں سے سامنا نہ کرنا پڑے اسے اس وقت شدت سے رونا آ رہا تھا
اس کے بڑے پاپا جنہوں نے اس کی خوشی کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشی کا بھی خیال نہ رکھا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی وجہ سے ان سب کو پریشان نہیں کرے گی
وہ اب لاؤنج میں آ چکے تھے بہت عالیشان لاؤنج جس کے درمیان میں سنہری فانوس تھا اور سامنے درمیان سے سیڑھیاں جاتی تھیں جو کہ اوپر جا کر دو پورشن میں تقسیم ہو جاتیں
مما میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتی ہوں بہت تھک گئی ہوں بھوک بالکل نہیں اور صبح بھائی نے آفس بھی بلا لیا ہے
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔۔
ثریا جاؤ حورم کو ایک گلاس دودھ دے کے آؤ
انہوں نے ساتھ ہی ملازمہ کو آواز دی
جی بی بی جی
وہ سر ہلا کر چل دی
بیٹا اب آرام کرو صبح بات ہو گی
اوکے گڈنائٹ
اپنی ماں کے گالوں کو چوم کر وہ سیدھا سیڑھیوں سے دائیں طرف مڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے کچھ غلط تو نہیں کر دیا دیکھیں نہ اب حور پہلے جیسی نہیں رہی
فرحت بیگم صوفے پہ بیٹھتیں افسردگی سے بولی
نہیں میرے خیال سے وہ وقت کے ساتھ سمجھ جائے گی حماد چودھری بولے
لیکن بھائی صاحب اب اوپر سے صبح آفس میں اس کا ری ایکشن کیا ہو گا
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا
بیگم کچھ بھی نہیں ہو گا صبح اور ویسے بھی فرزام ہے نہ
حمدان چودھری بولے
چلیں دیکھتے ہیں
-------------------------
اس نے کمرے کا دروازہ کھولا سامان پہلے ہی ملازم رکھ کے جا چکا تھا وہ اپنے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی وائٹ اور پنک کلر کا کمبینیشن کا کمرہ
اسے ابھی بھی سب بچی ہی سمجھتے تھے
سامنے ہی بڑا سا بیڈ اور بیڈ کے ساتھ ہی سامنے صوفہ تھا اور صوفے اور بیڈ کے عین سامنے والی دیوار ساری ہی وال کبرڈ سے کور تھی جس کے درمیان میں فل سائز LCD نصب تھی اور دائیں طرف بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے ساتھ کنشول تھا جس کے اوپر گولائی میں شیشیہ تھا جس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے شیشوں سے بہت ہی خوبصورت ڈیزائن ہوا تھا
اور اس کے ساتھ ہی گلاس ڈور سے ٹیرس جانے کے لیے راستہ تھا جبکہ بائیں طرف باتھ کے ساتھ ڈریسنگ روم تھا اور دروازہ جو کہ باہر راہداری میں کھلتا تھا کمرے کی ہر چیز اس کے مالک کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی
فرزام نے حال ہی میں اس کا کمرا رینیووٹ کرایا تھا
امل اور اس کا کمرا ایک ہی ہوتا تھا اور وہ روز اپنی اپیا سے ڈھیروں باتیں کیا کرتی
"آپی اب تو آپ بھی میرے پاس نہیں میں کس سے باتیں کروں اور مما بابا کو میں پریشان نہیں کرنا چاہتی"
دیوار کے ساتھ لگی سب کی فوٹوز کے سامنے کھڑی اپنی اور امل کی تصویر دیکھ رہی تھی پھر گلاس ڈور دھکیل کر ٹیرس پہ آ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی اسے یہاں کھڑے کہ دروازہ نوک ہوا اس نے پلٹ کر دیکھا تو ملازمہ دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جا رہی تھی
اس نے اندر آ کر سامنے کبرڈ سے سلیپنگ ڈریسز میں سے پنک ٹراؤزر شرٹ لے کر فریش ہونے چل دی
تھوڑی دیر بعد فریش ہو کر باہر آئی اور ایک میسج میں اس نے فرزام کو اپنی واپسی کا بتا کر بیڈ پر بیٹھ کر دودھ پی کر سونے کے لیے لیٹی کہ بہت سی یادیں ذہن کے پردے پر جلملھانے لگیں اور ایسی ہی نیند کی وادیوں میں اتر گئی
جبکہ صبح کا دن اس کی زندگی کا ایک الگ دن ہونے والا تھا
یہ ایک عالیشان بیڈروم کا منظر ہے جس کا مالک آرام سے کنگ سائز بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ سامنے رکھے کام کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک ہی دروازہ دھڑام سے کھلا
وہ آنے والے سے انجان نہیں تھا اسی لیے سر اٹھانے کی زحمت بھی نہ کی
وہ کب کا اس کے سامنے کھڑا تھا لیکن مجال ہو جو اس نے سر اٹھا کر دیکھا بھی ہو
اب تو اسے واقعی ہی تپ چڑھ گئی کہ جبھی اس نے پاس پڑے کشن سے اسے پیٹنے لگ گیا
میر ! تو جانتا ہے تو اس دنیا کا سب سے بڑا کمینہ دوست بھائی اور کزن ہے
اس نے جواباً کشن کھینچ کر واپس جگہ پر رکھا اور بڑے سکون سے گویا ہوا
بلکل میں جانتا ہوں کچھ نیا بتا
میر!!!!
وہ چیخا
صارم کیوں کان کے پردے پھاڑنے لگا ہے بتا بات کیا ہے
اس نے اس سے لیپ ٹاپ لے کر بند کیا اور گویا ہوا
تمھیں پتہ ہے آج حورم نے واپس آنا تھا
وہ اس کے پاس بیٹھتے بولا
تو میں کیا کروں
سکون ہنوز ویسا ہی قائم تھا
تو تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا
اسے لگا وہ کچھ تو کہے گا
صارم تو اپنی بکواس بند کرنے کے لیے کیا لے گا
وہ بولا
فقط ایک اظہار محبت
وہ پھر سے شرارتی ٹون میں واپس آچکا تھا جانتا تھا کہ اگر اور اس نے کہا تو کوئی شک نہیں تھا کہ اٹھا کر ہی باہر پھینک دے
چاچو سے کہتا ہوں
جواب ویسا ہی آیا
اب میں نے ایسا بھی نہیں بولا
وہ روہانسا ہوا
اچھا بتا لینے کیا آیا ہے
وہ اس کی طرف رخ کر کے بولا
آج میرا دل یہاں سونے کو کر رہا ہے
وہ بیڈ پر لیٹتا بولا
دل کی بات ہے تو ثناء کے پاس جا
طنزیہ کہا گیا
یار ظالم انسان کیا یاد دلا دیا
اچھا اچھا بس اب اگر سونا ہے تو چپ کر کے لیٹ جا ورنہ میں نے اٹھا کہ باہر پھینک دینا ہے
وہ دوبارہ لیپ ٹاپ پر جھک چکا تھا
یہی امید تھی تیرے سے
صارم کہ کر کروٹ لے کے سو گیا جبکہ وہ دوبارہ کام میں مصروف ہو چکا تھا لیکن اب کام کہا ہونا تھا سو سب کچھ بند کر کے فریش ہو کر سونے کی تیاری کرنے لگا
اس روم میں ابھی دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے
ویل ڈن ارحم شاہ
انہوں نے فائل کو دیکھتے توصیفی نگاہوں سے اس کالی آنکھوں اور کالے ہی بالوں والے خوبرو مرد کو دیکھا جس نے شاید ہارنا نہیں سیکھا تھا
شکریہ سر
اس نے سر کو ہلکا سا خم کیا
سو ارحم میرے خیال اس دو سال پرانے کیس کو کھولنے کا وقت آ گیا ہے
جی سر میں بھی یہی سوچ رہا تھا
مجھے امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کامیابی تمھارے مقدر میں ہو گی
ان کی نظروں میں اس کے لیے واضح ایک مان تھا
بس آپ کی دعاؤں کا اثر ہے ٹھیک ہے سر اجازت دیجیے
اوکے اللہ حافظ برخوردار
اللہ حافظ سر
وہ روم میں سے باہر نکل آیا تھا ایک اور عزم کے ساتھ
یوں ہی تو نہیں جلتا زمانہ ہم سے
ہم انداز ہی زمانے سے الگ رکھتے ہیں
صبح کا سورج ہر طرف طلوع ہو چکا تھا اور اپنی روشنی سے ہر چیز کو روشن کر رہا تھا کہ ایسے میں وہ ڈریسنگ کے سامنے اپنے بال کو جیل کی مدد سے سیٹ کر رہا تھا کہ اس کا فون بجنے لگا
اس نے پلٹ کر بیڈ سے فون اٹھایا اور یس کر کے سپیکر پر لگا دیا
ہیلو
اور شوز ریک سے شوز نکال رہا تھا کہ کمرے میں فرزام کی آواز گونجی
صبح بخیر شاہ صاحب! سنائیں کیسے حالات ہیں؟
خوشگوار لہجے میں بولا گیا
بس چودھریوں کی دعائیں ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ شوز پہنتے بولا
جواباً اس کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا
اچھا یار شاہ سن ؟
فرزام تھوڑا سنجیدہ ہوا
ہممم۔۔۔ کیا ہوا
یار آج حورم آفس آنے والی ہے تو
تو کیا
لہجہ ویسے ہی نارمل
تو بدتمیز انسان اس کے ساتھ ایسا رویہ رکھا نا تو پھر بتاؤں گا جانتا نہیں کہ وہ
وہ تپ کر بول رہا تھا کہ اس نے بات کاٹی
کہ وہ فرزام چودھری کی بہن حورم چودھری ہے جس سے ذرا سا بھی غصہ نہیں ہونا اور کچھ
وہ اب گھڑی اٹھا کر بائیں بازو میں پہنی اور ٹائی لے کے باندھنے لگا
شاہ کیا بات ہے بڑا جاننے نہیں لگ گیا تو؟
فرزام میں فون رکھ رہا ہوں آگے ہی لیٹ ہو رہا ہوں
اس نے اب کوٹ پہن کر فون اٹھایا
چل ٹھیک ہے بعد میں بات ہو گی۔۔۔۔
فون بند کر کے وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ کالی آنکھیں کالے بال اور ہلکی ہلکی ئیرڈ اس کے پر کشش چہرے کو اور پرکشش بنا رہا تھا۔۔۔ ایک تنقیدی جائزہ لے کر وہ آفس کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ وہ کسی کو بھی اپنی ایک نظر سے ہی زیر کر سکتا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ اس کے عتاب کے زیر اثر کون کون آنے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مثال_____ بن کر نہیں
مثال دے کر جیا کرتے ہیں