ڈاکووں کے سردار کو پابہ زنجیر رکھا گیا تھا۔دلیپ سنگھ کی ہدایت تھی کہ اس پر کسی قسم کا اعتبار نا کیا جائے۔اسے دونوں وقت کا کھانہ پہنچانے کا کام علی کا تھااور علی کو ہر وقت فکر رہتی تھی کہ شاید اس کا پیٹ نہیں بھرا اور ہر کھانے پر بوڑھے سردار کو علی کے کہنے پر ایک دو لقمے زیادہ ہی کھانے پڑتے۔
زبیر کا سلوک بھی اس کی توقع کے خلاف تھا۔زبیر دن میں ایک دو دفعہ ضرور اس کے پاس آتا۔پہلی بار اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی میں باتیں کرنے کی کوشش کی لیکن اسے جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ وہ عربی میں بےتکلفی سے بات چیت کرسکتا ہے۔
ایک دن اس نے زبیر سے کہا۔”موت کے انتظار میں جینا میرے لیے بہت صبرآزما ہے۔اگر آپ مجھ پر رحم نہیں کرنا چاہتے تومیں چاہتا ہوں کہ مجھے جو سزا ملنی ہے جلد مل جائے۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے تمہارے بڑھاپے پہ ترس آتا ہےلیکن تمہیں اس وقت تک قید سے نہیں چھوڑا جاسکتا جب تک مجھے یہ یقین نا ہوکہ تم آزاد ہوکر پھر یہی پیشہ اختیار نا کرلوگے۔“
اس نے جواب دیا۔”میرے جہاز غرق ہوچکے ہیں اور اب میں بڑھاپے کے باقی دن کسی جنگل میں چھپ کر گزارنے کے سوا کرہی کیا سکتا ہوں۔“
”ڈاکو ہر جگہ خطرناک بن سکتا ہے۔تم سمندر میں جہازوں کو لوٹتے تھے خشکی پر لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالو گے اگر میں تمہیں بصرہ لے جاوں تو وہاں غالباً تمہارے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔اور اگر تمہارا فیصلہ جےرام پر چھوڑوں تو باقی عمر تمہیں قید خانے کی کوٹھری میں گزارنا پڑے گی۔“
ڈاکووں کے سردار نے جواب دیا۔”میں آپ کی حکومت کے متعلق کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ دیبل کی حکومت کو مجھے سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔“
”وہ کیوں؟“
”وہ اس لیے کہ میں گزشتہ چند برس جو کچھ سمندر میں اپنے جہاز پر سورا ہوکر کرتا رہا ہوں۔وہی کچھ سندھ کا راجہ تخت پر بیٹھ کر کرتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کے اہلکار کمزور اور غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں جبکہ میرے ساتھی چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی بجائے صرف بڑے بڑے جہازوں کو لوٹتے ہیں۔ہمارا پیشہ ایک ہے لیکن نام ہمارے مختلف ہیں۔میں ایک ڈاکو ہوں اور وہ ایک راجہ۔اس کی طرح اس کا باپ بھی راجہ تھا لیکن میرا باپ ڈاکو نا تھا۔میں خود بھی ڈاکو نا بنتا لیکن ظلم نے مجھے بنا دیا۔خیر ان باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں۔آپ غالب ہیں اور میں مغلوب۔لیکن میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے سندھ کی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے خود جو سزا چاہیں دے لیں۔“
زبیر نے کہا۔ ”میں تمہاری سرگزشت سننا چاہتا ہوں۔“
ڈاکووں کے سردار نے قدرے تامل کے بعد مختصر الفاظ میں اپنی سرگزشت یوں بیان کی۔
”میرا نام گنگو ہے۔“
میرا نام گنگو ہے۔میں دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہوا۔اپنے باپ کی طرح میرا بھی پیشہ ماہی گیری تھا۔بیس سال کی عمر میں میرے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا۔ہمارے گاوں میں ایک لڑکی تھی۔اس کا نام لاجونتی تھا اور وہ تھی بھی لاجونتی۔اس کی آنکھیں ہرنی کی آنکھوں سے زیادہ دلفریب اور اس کی آواز کوئل کی آواز سے زیادہ میٹھی تھی۔لوگ اسے جل پری کہا کرتے تھے۔گاوں میں کوئی نوجوان ایسا نا تھا جو لاجو کے لیے جان دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ لیکن وہ صرف مجھے چاہتی تھی۔ اس کا باپ سادہ دل آدمی تھا۔برسات میں ایک دفعہ دریا زوروں پر تھا تو اس نے شرط لگائی کہ میں لاجو کی شادی اس کے ساتھ کروں گا جو یہ دریا تیر کر عبور کرے۔ہمارے گاوں میں اچھے اچھے تیراک تھےلیکن برسات میں کسی کو دریا میں کودنے کی ہمت نا ہوئی۔میں لاجو کے لیے جان قربان کرنے کو تیار تھا۔میں نے اس کی شرط پوری کی اور چند دنوں میں میری اور اس ی شادی ہوگئی۔
ہم دونوں خوش تھے اور زیادہ وقت کشتی پر گزارتے تھے۔میں مچھلیاں پکڑا کرتا تھا اور وہ کھانا پکایا کرتی تھی۔رات کے وقت ہم ہنستے ہنستے اور گاتے گاتے تاروں کی روشنی میں سوجاتے تھے۔عجیب دن تھے وہ بھی۔“
یہاں تک کہہ کر گنگو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دیر تک ہچکیاں لینے کے بعد اس نے پھر سے اپنی داستان شروع کی:-
”لیکن ایک دن ایسا آیا کہ مجھے لاجو سے جدا ہونا پڑا۔ہمیشہ کے لیے مجھے معلوم نا تھا کہ ایک نیچ ذات اور کمزور آدمی کے لیے خوبصورت بیوی رکھنا پاپ ہے ہمارے گاوں سے ایک کوس کے فاصلے پر ہمارے علاقے کے سردار کا شہر تھا۔ ایک دن وہ چند سپاہیوں کے ساتھ دریا پر آیا۔مجھے پار لے جانے کے لیے کہا۔کشتی پر سوار ہوکر وہ لاجو کو بری طرح گھور رہا تھا۔اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ یہ میری بیوی ہے۔وہ بولا”یہ کسی ماہی گیر کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔تم اسے کہاں سے لائے ہو؟“ میں نے کوئی جواب نا دیا۔ دوسرے کنارے پر اس نے مجھے پہنچ کربتایا کہ میں شام تک وآپس آجاوں گا۔تم اتنی دیر میرا انتظار کرو۔لیکن وہ شام سے پہلے ہی وآپس آگیا اور میں نے اسے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔وہ میرا نام پوچھ کر چلاگیا۔اس کے بعد وہ ہمارے گاوں کے ماہی گیروں کا شکار دیکھنے کے بہانے کبھی کبھی چلاآتا۔گاوں کے لوگ اسے اپنے ساتھ بےتکلفی سے پیش آتا دیکھ کر خوش ہوتے لیکن لاجو نے ایک دن مجھے کہا کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں وہ میری طرف بہت بری نظروں سے دیکھتا ہے۔
ایک دن لاجو حسبِ معمول کشتی پر کھانا پکا رہی تھی۔وہ گھوڑے پر آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ”تمہارے پاس کوئی تازہ شکار ہے تو لاو“ میں نے تھوڑی دیر بیشتر دو بڑی مچھلیاں پکڑی تھیں۔وہ میں نے اسے پیش کیں۔اس نے مجھے مچھلیاں پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ شہر دور نا تھا۔میں نے لاجو سے کہا۔”میں کھانا تیار ہونے تک آجاوں گا۔“
میں اس کے گھوڑے کے پیچھے چل رہا تھا کہ راستے میں جھاڑیوں کی آڑ سے چند آدمی نمودار ہوئے اور مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی لیکن کسی نے میرے سر پر لاٹھی ماری اور میں تیورا کر گرپڑا۔اس کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک تاریک کوٹھری میں پڑا ہوا تھا۔
دودن میں بھوکا اور پیاسا جان کنی کی حالت میں وہاں پڑا رہا۔تیسرے دن دروازہ کھلا اور لاجونتی کے ساتھ تین آدمی جن میں سے ایک کھانا اور پانی اٹھائے ہوئے تھا،اور دو کے ہاتھوں مین ننگیں تلواریں تھیں،کوٹھری میں داخل ہوئے۔لاجونتی کا رنگ زرد تھا اور اس کی آنکھیں دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے پانی کا تمام ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔اس کا نگاہ پڑتے ہی بھوک اور پیاس بھول گئی۔میرا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر اس سے لپٹ جاوں لیکن میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھے۔لاجو نے سپاہیوں کی طرف دیکھا اور وہ تلوار سے میری رسیاں کاٹ کر باہر نکل گئے۔
میں نے پوچھا۔”لاجو! تم یہاں کیسی پہنچیں؟“ اور وہ ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخوں کو ضبط کرتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔لیکن اچانک اس نے خوفزدہ ہوکر مجھے چھوڑ دیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔اس نے مجھے بتایا کہ میرے چلے آنے سے تھوڑی دیر بعد چند آدمیوں نے کشتی پر حملہ کیا اور اسے پکڑ کر سردار کے پاس لے آئے اسے میرا حال معلوم نا تھا اور وہ بےغیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینا چاہتی تھی لیکن سردار نے اسے میری قید کا حال بتا کر یہ دھمکی دی کہ اگر میں نے اس کے محل میں بےحیائی کی زندگی نا گزارنے پر آدمی نا ہوئی تو تیرا شوہر اس کوٹھری میں بھوکا اور پیاسا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا۔اب وہ میرے پاس آئی تھی، یہ کہنے کے لیے کہ گنگو تم آزاد ہو۔تم جاو اور یہ سمجھو کہ تمہاری لاجو مرگئی۔وہ اپنی عصمت سے میری ازادی کا سودا کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے اسے غلط سمجھا۔میں سمجھا کہ وہ ایک غریب ملاح کی کشتی چھوڑ کے محلوں میں رہنا چاہتی ہے۔میں نے اسے برا بھلا کہا، گالیاں بھی دیں اور ان ظالم ہاتھوں سے تھپڑ بھی مارے لیکن وہ پتھر کی مورتی کی طرح کھڑی یہ سب برداشت کرتی رہی۔اس نے صرف یہ کہا۔”گنگو! میں بےعزتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دوں گی لیکن میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ مجھے تمہاری جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے بھگوان کے لیے تم جاو! موقع نا گنواو۔ممکن ہے کہ تم آزاد ہو کر مجھے اس ظالم کے پنجے سے آزاد کرانے کی کوئی تدبیر سوچ سکو۔“
اس کے آنسو اور آہوں نے میری غلط فہمی دور کردی۔میں نے اسے پھر گلے لگا لیا اور وعدہ کیا کہ میں جلد آوں گا۔میں اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔
قید خانے کا دروازہ پھر کھلا ، سپاہیوں کی بجائے وہ ظالم بھیڑیا اندر داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار نا ہوتی تو یقیناً میں اس پر حملہ کردیتا۔اس نے آتے ہی لاجو سے کہا۔”اب بتاو کیا فیصلہ کیا تم نے؟اس کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے۔“
لاجو نے جواب دیا۔”اگر میں آپ کی بات مان لوں تو کیا ثبوت ہے کہ یہ زندہ اور سلامت شہر سے نکل جائیں گے؟“
اس نے کہا۔”میں وعدہ کرتا ہوں۔“
لاجو آنسو بہاتی ہوئی اس کے ساتھ چلی گئی اور مجھے چار سپاہی شہر سے باہر لے آئے۔ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں۔مجھے سردار کے وعدے پر اعتبار نا تھا۔شہر سے نکل کر جب ہم اس جنگل میں پہنچے جو دور تک پھیلا ہوا تھا تو ایک شخص نے پیچھے سے اچانک مجھ پر وار کیا۔مجھے پہلے ہی اس حملے کی توقع تھی اس لیے میں نے ایک طرف کود کر خود کو بچا لیا۔اس پر چاروں نے مجھ پر حملہ کردیا لیکن میں بھاگنے میں تیز تھا جلد ہی جنگل میں پہنچ کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپ گیا۔وہ تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔
شام ہورہی تھی۔میں چھپتا چھپاتا دریا کے کنارے پہنچا۔میری کشتی جل رہی تھی اور دریا کے کنارے وہی چاروں کھڑے تھے۔ان واقعات نے میرے جیسے امن پسند آدمی کو بھیڑیا بنا دیا۔میں گاوں کی طرف بھاگا۔میری آواز میں ایک اثر تھااور آن کی آن میں چند نوجوان لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر میرے ساتھ نکل آئے۔ہمیں دیکھ کر سپاہی سراسیمہ ہوکر بھاگے لیکن ہم نے کسی کو بچ نکلنے کا راستہ نادیا اور چاروں کو مار کے ان کی لاشیں دریا میں پھینک دیں۔آدھی رات تک میں نے ماہی گیروں کی بیس پچیس بستیوں سے کوئی دو سو نوجوان اکٹھا کرلیے اور تیسرے پہر سردار کے محل پر دھاوا بول دیا۔شہر کے لوگ پہلے ہی اس کے مظالم سے تنگ تھے کوئی اس کی مدد کے لیے نا نکلا۔اس کے چند سپاہیوں نے مقابلہ کیا۔لیکن اکثر نے بھاگ کر لوگوں کے گھر پناہ لی۔ہم نے سردار کو پکڑ لیا اور اس سے لاجو کے متعلق پوچھا وہ ہر سوال پر یہ جواب دیتا تھا کہ ”میں بے قصور ہوں بھگوان کے لیے مجھے چھوڑ دو“ میں نے مشعل پکڑ کر جلا دینے کی دھمکی دی تو وہ مجھے محل کی نچلی منزل کے ایک کمرے میں لےگیا۔ فرش پر لاجو کی لاش دیکھ کر میری چیخ نکل گئی وہ ہاتھ باندھ کر کہہ رہا تھا کہ ”میں نے اسے نہیں مارا اس نے محل کی چھت سے چھلانگ لگا دی تھی۔تم سپاہیوں سے پوچھ سکتے ہو۔بھگوان کے لیے مجھ پر دیا کرو۔“ میں نے جلتی ہوئی مشعل اس کی آنکھوں میں جھونک دی اور کلہاڑی کے پےدرپے وار کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔میرے دل میں کسی کے لیے رحم نا تھا۔میں نے کئی سرداروں کو لوٹا اور جب راجہ کی فوج نے زمین تنگ کردی ہمارے لیے تو میں نے دریا کے راستے سمندر کا رخ کیا۔دیبل کی بندرگاہ سے ہم نے رات کے وقت دو جہاز چوری کیے اس کے بعد میں اب تک کئی جہاز لوٹ چکا ہوں۔میں ہر اس شخص کو اپنا دشمن سمجھتاہوں جو راجوں اور سرداروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔مجھے ہر دولت مند انسان میں اس سردار کی روح نظر آتی ہے۔مجھے ہر اونچے ایوان میں لاجونتی جیسی مظلوم لڑکیوں کی روحیں انتقام کے لیے پکارتی نظر آتی ہیں۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے اس لڑکی کی دردناک موت کا سخت افسوس ہے اور سردار سے جنگ کرنے میں بھی شاید تم حق بجانب سمجھے جا سکو گے۔لیکن تم ایک انسان کے ظلم کا بدلہ دوسرے انسان سے کیسے لے سکتے ہو؟ تم نے ہمارے جہاز پر حملہ کیا اور اس پر کوئی سردار نا تھا۔ اس پر چند یتیم بچے اور عورتیں تھیں۔“
گنگو نے کہا۔”مجھے افسوس ہے۔لیکن دوسرے جہاز پر سراندیپ کے راجہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور آپ اس کے معاون تھے تاہم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کے جہاز پر عورتیں اور بچے سوار ہیں تو میں حملہ نا کرتا۔چند ماہ ہوئے میں نے اسی سمندر پر آپ کے ملک کا ایک جہاز دیکھا تھا لیکن میں نے اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ اس میں مردوں کے علاوہ چند عورتیں بھی تھیں۔“
خالد چلا اٹھا۔”کیا اس پر سراندیپ کے چند ملاح بھی تھے؟“
”ہاں!“
”وہ تو ابا کا جہاز تھا۔اور ابھی تک اس کا پتہ نہیں۔تم جھوٹ کہتے ہو تم نے ان کا جہاز غرق کرچکے ہو۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر میں اس جہاز کو غرق کرچکا ہوتا۔تو مجھے آپ کے سامنے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نا تھی۔“
”اس جہاز پر ہاتھی بھی تھے؟“
”ہاں!“
تمہیں اس کے مطلق یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غرق ہوا ہے؟“
”نہیں مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ جہاز دیبل تک صحیح سلامت پہنچ گیا تھا۔“
زبیر نے پوچھا۔”اس سمندر میں تمہارے سوا لٹیروں کا کوئی اور گروہ بھی ہے؟“
”ہاں!“
”کیا یہ ممکن ہے دیبل کے حاکم نے وہ جہاز لوٹ لیا ہو؟“
”ہاں!میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ خشکی کے ڈاکو سمندر کے لٹیروں سے زیادہ خطرناک ہیں۔“
اس گفتگو کے بعد گنگو کے ساتھ زبیر کی دلچسپی بڑھ گئی۔جےرام عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔گنگو کی سرگشت نے زبیر کی طرح اسے بھی متاثر کیا لیکن ایک وفادار سپاہی کی طرح وہ راجہ کو نکتاچینی سے بلند سمجھتا تھا۔وہ رعایا کے کسی فرد کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار ناتھا کہ وہ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر راجہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیے۔وہ راجووں کی تقدیس کے مقابلے میں رعایا کی کمتری کا قائل تھا۔تاہم جب زبیر نے گنگو سے پرامن رہنے کا وعدہ لےکراس کی زنجیریں کھلوا دیں تو اس نے مزاحمت نا کی۔
چند دن زبیر کی صحبت میں رھ کہ گنگو نے اپنے خیالات میں عجیب تبدیلی محسوس کی۔زبیر نے چند ملاقاتوں میں روم اور ایران کے خلاف مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں کا ذکرکے یہ ثابت کردیاتھا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا نظام پیش کرتا ہے جو جبرواستبداد کی حکومتوں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔گنگو ایک ڈاکو کی زندگی اختیار کرکے سماج کے تمام مذہبی عقاید سے کنارہ کش ہوچکا تھا۔اس کے لیے دنیا ایک وسیع جھیل تھی، جس میں چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کو نگلتی ہیں، وہ خود کو ایک چھوٹی مچھلی سمجھ کے ہر بڑی مچھلی کے ساتھ جنگ کے لیے تیار تھا۔مسلمانوں کے ساتھ اس کی ہمدردی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ روحِ زمین پر بڑی مچھلیون کے خلاف برسرِپیکار تھے۔
ایک دن زبیر نے اسے سمجھایا کہ ”تم ظلم کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہو لیکن تمہارا ہتھیار دشمن کے ہتھیار سے مختلف نہیں۔انھوں نے تمہاری کشتی جلائی تھی اور تم ان کے جہاز جلاتے ہو دونوں کا اصول ظلم ہے۔جس طرح کئی بےگناہ ان کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں اسی طرح کئی بےگناہ تمہارے ظلم کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ تم خود تسلیم کرچکے ہوکہ تم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔تم دونوں میں سے کسی کے پاس عدل و انصاف اور امن کا قانون نہیں۔ اور جب تک تم دونوں میں سے ایک کے پاس یہ قانون نہیں تم دونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں گی۔ ایک تلوار کند ہوگی تو تم دوسری اٹھا لوگے اور ایک کمان ٹوٹے گی تو تم دوسری بنا لو گے۔ لیکن ظلم کے مقابلے میں حق و انصاف کے لیے لڑنے والے انسان اپنے حریف کی تلوار کند ہی نہیں کرتے بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھین لیتے ہیں۔ایران و روم پر عربوں کی فتح دراصل نظامِ باطل پر نظامِ حق کی فتح تھی۔ایران مصر اور شام کے وہ لوگ جو کل تک حق پرستوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آج افریقہ اور ترکستان سے ظلم کی طاقتوں کو مٹانے کے لیے ہمارے دوش بدوش لڑرہے ہیں۔“
گنگو نے متاثر ہوکر پوچھا۔”کیا میں بھی آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں؟“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”ایک ڈاکو کی حثیت سے نہیں۔ہمارا کام بھٹکے ہوئے قافلوں کو لوٹنا نہیں انھیں سلامتی کا راستہ دیکھانا ہے وہ انسان جو خود ایک غلط مسلک پر کاربند ہو، ایک صحیح اصول کا علمبردار نہیں ہوسکتا۔“
گنگو نے نادم سا ہوکر کہا۔”اگر میں آپ کو یقین دلاوں کے میں ایک لٹیرے کی زندگی سے توبہ کرچکا ہوں تو کیا آپ میرا یقین کرلیں گے؟“
”میں خوشی سے تم پر اعتبار کروں گا۔“
”اور آپ مجھے آزاد بھی کردیں گے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر تم توبہ کے لیے یہ شرط پیش کرو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اس لیے توبہ نہیں کررہے کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو اور اپنی اصلاح کرنے چاہتے ہو بلکہ اس لیے کہ تم آزاد ہونا چاہتے ہو۔“
”لیکن میری توبہ سے آپ یہ خیال تو نہیں کریں گے کہ میں بزدل ہوں؟“
”نہیں۔ توبہ کرنا بہت بڑی جرات کا کام ہے۔“
”تو میں آپ سے ایک ڈاکو کا پیشہ ترک کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
”مجھے تم پہ یقین ہے اور اگر تم اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوتو میں تم سب کو آزاد کردوں گا، اور جس جگہ کہو گے اتاردوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”میرے ساتھیوں نے صرف میری وجہ سے یہ پیشہ اختیار کیا تھا۔ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو میری راہنمائی کے بغیر ایسی جرات نہیں کرسکتے اور اگر آپ انھیں سندھ کے کسی غیرآباد حصے پر اتار دیں تو پھر سے ماہی گیری کا پیشہ اختیار کرلیں گے۔وہ مدت سے میرے ساتھ ہیں اور انھیں پہچانے گا بھی کوئی نہیں لیکن ان میں چار آدمی خودسر ہیں۔ان کے متعلق میں آپ کو یقین نہیں دلاسکتا۔مجھے خود اپنے اوپر اعتبار نہیں اگر آپ نے مجھے آزاد کردیا تو ممکن ہے کہ کسی ظالم سرادر کو دیکھ کر میں صبر نا کرسکوں اور پھر اسی ظلم پر اتر آوں۔اگر آپ مجھے اپنے ساتھ لیں چلیں تو ممکن ہے کہ آپ کے ملک میں رھ کے میں بھی آپ جیسا انسان بن جاوں۔وہ چار آدمی جن کا میں نے ذکر کیا ہے میری طرح اس جہاز پر ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کی باتیں انھیں بھی متاثر کرتی اگر آپ اجازت دیں تو میں آپنے ساتھیوں سے مل لوں۔“
اگلےدن جہاز ایک ڈاپو کے کنارے لنگراندز ہوئے۔زبیر گنگو کو ساتھ لےکر دلیپ سنگھ کے جہاز پرچلاگیا۔گنگو نے اپنے ساتھیوں کے سامنے سندھی زبان میں مختصر تقریر کی۔رہائی کا مثدہ سن کے قیدیوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے لیکن جب زبیر نے یہ بتایا کہ وہ لوٹ مار سے توبہ کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ چکا ہے تو بعضوں کی خوشی غم میں تبدیل ہوگئی۔ گنگو نے یکے بعد دیگرے سب سے قسمیں لیں لیکن تین آدمی جن میں سے ایک وہ بھی تھاجس کے آدھے سر اور داڑھی اور مونچھوں پر دلیپ سنگھ کے ساتھی اپنے استروں کی دھاڑ کی آزمائش کرچکے تھے۔مذبذب ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
گنگو نے ان سے مخاطب ہوکرکہا۔”کالو، داسو اور موتی، تم کچھ عرصہ میرے ساتھ رہو گے۔“
اس کے بعد اس نے زبیر سے مخاطب ہوکر کہا۔”میں ان کے پرامن رہنے کی ضمانت دیتا ہوں۔“ زبیر نے دلیپ سنگھ سے چند باتیں کرنے کے بعد ملاحوں کو قیدیوں کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا۔
کالو،داسو،موتی اور گنگو زبیر کے ساتھ دوسرے جہاز میں چلے گئے۔ داسو کا عجیب و غریب حلیہ دیکھ کر تمام عرب اس کے گرد جمع ہوگئے۔علی نے بےاختیار ایک قہقہہ لگایا اور عورتوں تک یہ خبر پہنچانے کے لیے بھاگا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ہاشم کے علاوہ چند اور بچے بھی تھے۔تمام لوگ حیران ہوکر اسے دیکھنے لگے، ہاشم نے اگے بڑھ کے معصومانہ انداز میں پوچھا۔”تمہارے چہرے کے بائیں طرف بال نہیں اگتے؟“
تمام عرب ہنس پڑے۔علی کا قہقہہ سب سے بلند تھا۔گنگو نے ہنستے ہوئے ہاشم کو گود میں اٹھا لیا۔
شام کے وقت خالد نے زبیر سے کہا۔”ناہید کا خیال ہے کہ گنگو کو ابا حضور کے جہاز کا ضرور علم ہوگا۔وہ بذاتِ خود گنگو سے چند سوالات پوچھنے پر اصرار کررہی ہے۔“
زبیر نے کہا۔”میرے خیال میں ہمیں گنگو کے باتوں پر اعتبار کرنا چاہیے۔“
خالد نے کہا۔”لیکن ناہید یہ کہتی ہے کہ اگر اسے علم نا بھی ہوا تو بھی وہ ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔کل انھیں کوئی خواب نظر آیا تھا اور وہ کہتی ہے کہ اباجان زندہ ہیں۔“
”پوچھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے ہے کہ وہ گنگو پر کوئی شک و شبہ ظاہر نا کریں۔جاو اپنی بہن کو بلا لاو۔میں گنگو کو بلاتا ہوں۔“
دلیپ سنگھ نے گنگو کو بلا لیا اور ناہید کے ساتھ مایا دیوی بھی آگئی۔ناہید کے چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔اس نے مایا دیوی کے کان میں کچھ کہا، اور مایادیوی کے اثبات میں سر ہلانے پر اپنا ہار اتار کر اس کے ہاتھ میں دےدیا۔
مایا دیوی نے ہار گنگو کے ہاتھ میں دے کرکہا۔”آپ نے چنددن قبل ان کے باپ کے جہاز کا ذکرکیا تھا۔اگر اپ ان کے باپ کا پتہ لگا سکیں تو یہ آپ کا انعام ہے۔“
گنگو نے رنج و ندامت سے آبدیدہ ہوکریکے بعددیگرے خالد اور زبیر کی طرف دیکھا اور پھر ناہید سے مخاطب ہوکرکہا۔”بیٹی میں اتناگرا ہوا تو نا تھا!“
ناہید نے اس کے آنسووں سے متاثر ہوکر کہا۔”آپ کو غلط فہمی ہوئی۔مجھے آپ پر شک نہیں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ ہماری مدد کریں۔“
”اس کے لیے مجھے ہار دینے کی ضرورت نا تھی۔میں زبیر کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا۔اگر کوئی لٹیرا اس جہاز کو لوٹتا تو مجھے ضرور معلوم ہوجاتا لیکن مجھے شک ہے کہ وہ جہاز دیبل کی بندرگاہ کے آس پاس شہر کے حاکم نے لوٹا ہے۔“
ناہید نے کہا۔”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا باپ زندہ ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر وہ زندہ ہے تو سندھ کے کسی قیدخانے میں ہوگا۔ جہاں سے لوگ موت سے پہلے نہیں نکلتے لیکن میں ان کا سراغ لگانے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔اگر ان کا پتہ مل گیا تو میں مکران کے حاکم کے پاس اطلاح بھیج دوں گا۔“
یہ کہہ کروہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ مجھے دیبل کے آس پاس اتار دیں اور جےرام اگر میری مدد کرے تو میں بہت جلد ان کا پتہ لگا سکوں گا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”میں اپنے بھائی کی طرف سے تمہاری مدد کا وعدہ کرتی ہوں۔دیبل کا حاکم ان کا دوست ہے اور وہ ان سے کوئی بات نہیں چھپائے گا۔“
گنگو نے کہا۔”حاکم کسی کے دوست نہیں ہوتے اور دیبل کے حاکم کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ دیبل کی بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میرا تو ارادہ نا تھا لیکن جےرام کے مجبور کرنے پر میں ایک دو دن کا ارادہ کرچکا ہوں۔“
گنگو نے کچھ سوچ کرجواب دیا۔”مجھے معلوم نہیں کے سندھ کے راجہ اور دیبل کے حاکم پر جےرام کا کتنا اثر ہے۔ورنہ میں آپ کو سندھ کے ساحل پر اترنے کا مشورہ نا دیتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ہمارے ساتھ سندھ والوں کے تعلقات اتنے برے نہیں پچھلے دنوں ابوالحسن کے متعلق پوچھنے کے لیے والئی مکران وہاں گیا تھا راجہ اس کے ساتھ غرور سے ضرور پیش آیا۔لیکن اس کے ساتھ دست درازی نہیں کی۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اس کا جہاز خالی ہوگا۔ لیکن آپ کے جہاز میں ہاتھی ہیں اور وہ اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے ہاتھیوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔اس کے علاوہ آپ کے ساتھ عورتیں ہیں جن کے لیے اس کے دل میں کوئی عزت نہیں۔“
گنگو، قالو،داسو اور موتی کے علاوہ باقی تمام قیدی دیبل سے چند کوس دور ایک غیر آباد مقام پر اتار دیے گئے۔گنگو،ابوالحسن کا سراغ لگانے کا بیڑہ اٹھا چکا تھا،اس لیے اس نے ایک گجراتی تاجر کے بھیس اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دیبل کی بندرگاہ پر اترنے کا فیصلہ کیا۔جےرام اس مہم میں گنگو کی مدد کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔تاہم اس نے زبیر کو بار بار یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ حکومت سندھ ایسا نہیں کرسکتی اگر ابوالحسن کا جہاز دیبل کے آس پاس لوٹا گیا ہے تو دیبل کے حاکم اور راجہ کو اس کی خبر نہیں ہوگی۔
زبیر نے جواب دیا۔"مجھے خود یہ شبہ نہیں۔لیکن میں ناہید کے شبہات دور کرنا چاہتا ہوں۔"
شام سے کچھ دیر پہلے یہ جہاز دیبل کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوئے، مایا دیوی نے تمام عرب عورتوں کو اپنے گھر لےجانے پر اصرار کیا۔جےرام نے تمام ملاحوں کو دعوت دی۔لیکن گنگو نے دلیپ سنگھ کے کان میں کچھ کہا،اور اس نے جےرام کو مشورہ دیا۔”آپ کئی ماہ کے بعد دیبل وآپس جارہے ہیں۔ممکن ہے آپ کی جائے قیام پر کسی اور کا قبضہ ہو ممکن ہے دیبل کا حاکم انھیں شہر میں جانے کی اجازت دینے میں کوئی عزر پیش کرے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”اسے کیا عزر ہوسکتا ہے۔وہ خود آپ کا میزبان بننے پر اصرار کرے گا۔اگر آپ میری مدد نا کرتے تو کاٹھیاوار کے بیش قیمت تحائف راجہ تک نا پہنچ سکتے۔اب تو راجہ پر بھی آپ کا حق ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”آپ شہر کے گورنر سے مل آئیں۔پھر ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نا ہوگا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”بھیا! آپ جائیں۔اگر آپ کے مکان پر کوئی اور قابض ہوا تو یہ بری بات ہوگی۔آپ مہمانوں کو ٹھہرانےکا انتظام کرآئیں۔میں اتنی دیر بہن ناہید کے پاس ٹھہروں گی۔“
جےرام نے بندرگاہ سے ایک ملازم کو بلاکر اسے تحائف اٹھانے کا حکم دیااور سیدھا دیبل کے گورنر پرتاپ رائے کے محل چلا گیا۔پرتاپ رائے نے کاٹھیاوار کے تحائف کے ذکر کے سوا باقی سرگزشت بےتوجہی سے سنی لیکن جب اس نے یہ بتایا کہ اسے ڈاکووں سے بچا کر یہاں پہنچانے والے سراندیپ کے جہاز ہیں تو اس نے چونک کر سوال کیا۔”کیا یہ جہاز وہی تو نہیں جن پر سراندیپ کے راجہ نے عربوں کو ہاتھی بھیجے ہیں؟“
”ہاں! لیکن آپ کو کیسے معلوم؟“
”یہ بعد میں بتاوں گا۔پہلے میرے سوال کا جواب دو۔اس میں عرب عورتیں اور بچے بھی ہیں؟“
”ہاں!“
”یہ جہاز بحری ڈاکوووں کے دو جہاز ڈبو چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی طرح مسلح ہیں۔وہ بندرگاہ سے روانہ تو نہیں ہوگئے؟“
”نہیں! میں مسافروں کو اپنے پاس ایک دو دن مہمان رکھنا چاہتا ہوں۔انھوں نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں۔میں آپ سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ ان کے شہر میں ٹھہرنے پر آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟“
”اعتراض! نہیں۔وہ باقی تمام عمر ہمارے مہمان رہیں گے۔میں مہاراج سے ان کے جہاز لوٹنے اور انھیں گرفتار کرنے کی اجازت لے چکا ہوں۔“
اگر اس محل پر بجلی گرتی تو بھی شاید جےرام اس قدر بدحواس نا ہوتا وہ ایک لمحہ کے لیے ایک بےجان مجسمے کی طرح بےحس و حرکت کھڑا رہا۔بالآخر اس نے سنبھل کر کہا۔”آپ مذاق کرتے ہیں؟“
پرتاپ رائے نے ذرا سخت لہجے میں جواب دیا۔”میں بچوں کے ساتھ مذاق کرنے کا عادی نہیں۔ہمیں سندھی تاجروں سے ان جہازوں کی آمد کی اطلاح مل گئی تھی اور مہاراح کا حکم یہی ہے کہ ان جہازوں کو چھین لیا جائے۔مہاراح تحائف کا یہ صندوق دیکھنے سے زیادہ اس بات سے زیادہ خوش ہوں گے کہ آپ مال و متاع سے بھرے ہوئے دو جہاز یہاں لے آئے ہیں۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”نہیں! یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔وہ میرے مہمان ہیں۔وہ میرے دوست اور محسن ہیں۔“
پرتاپ رائے نے ڈانٹ کرکہا۔”ہوش سے بات کرو۔تمہیں معلوم نہیں تم کہاں کھڑے ہو؟“
جےرام نے کہا۔”یہ انسانیت کے خلاف ہے۔تم ایک ایسی قوم کی دشمنی مول لو گے جو سندھ جیسی کئی سلطنتیں پاوں کے نیچے روند چکی ہیں۔مہاراج کو اس قسم کا مشورہ دینے والے نے اچھا نہیں کیا۔میں جاتا ہوں۔مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔“
”راجہ کے باغی ہوکر تم کہیں نہیں جاسکتے۔“ یہ کہتے ہوئے پرتاپ رائے نے پہرے داروں کو آواز دی اور آن کی آن میں چار چار سپاہیوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ اس کے گرد گھیرا ڈال لیا۔“
جےرام کو اپنی تلوار بےنیام کرنے کا موقع نا ملا۔پرتاپ رائے نےکہا۔”تمہیں کچھ دیر میری قید میں رہنا ہوگا۔بندرگاہ سے وآپس آکر میں تمہیں آزاد کردوں گا۔کل تمہیں مہاراج کے پاس روانہ کردیا جائے گا۔اگر تم اپنے مہمانوں کی جان بخشی کروا سکو، تو میں انھیں رہا کردوں گا۔لیکن تمہاری خوشی کے لیے میں راجہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا۔“
سپاہیوں نے جےرام کو محل کی ایک کوٹھی میں بند کردیا۔جےرام دروازوں کو دھکے دینے، دیواروں سے سر پٹخنے اور شور مچانے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔اسے اپنی بہن کا خیال آیا اور پھر اٹھ کر دروازے سے ٹکریں مارنے لگا۔اس نے تلوار نکالی لیکن مضبوط کواڑ پر چند ضربیں لگانے سے وہ ٹوٹ گئی۔اس نے ٹوٹی ہوئی تلوار کا پھل اٹھا کراپنے سینے میں گھونپے کا ارادہ کیا لیکن کسی خیال نے اس کا ہاتھ روک لیا وہ اٹھ کر بیقراری سے کوٹھری میں ٹہلنے لگا۔پھر اسے ایک خیال آیا اور وہ پہرے داروں کو آوازیں دینے لگا۔انھیں طرح طرح کے لالچ دیے لیکن کسی نے اس کے حال پر توجہ نا دی۔اس نے راجہ کے پاس شکایتیں کرنے کی دھمکیاں دیں، لیکن جواب میں پہرے داروں کے قہقہے سنائی دیے۔
جےرام کے شہر جانے سے کچھ دیر بعد گنگو اور اس کے ساتھی شام کے دھندلکے میں زبیر سے رخصت ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔شہر میں داخل ہوتے ہی انھیں پندرہ بیس سوار اور ان کے پیچھے قریباً دوسو پیدل سوار بندرگاہ کا رخ کرتے ہوئے دیکھائی دیے۔گنگو کا ماتھا ٹھنکا اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک طرف ہوکرکھڑا ہوگیا۔سوار اور پیدل گزر گئے تو گنگو نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”شہرکا سردار مسلح آدمی لےکر بندرگاہ کی طرف جارہا ہے۔ان کی رفتار سے لگ رہا ہے ان کی نیت ٹھیک نہیں۔ہمیں وآپس چلنا چاہیے۔“
کالو نے کہا۔”اگر وہ واقعی کسی بری نیت سے جارہے ہیں تو ہم لوٹ کرکیا کرسکتے ہیں انھیں تو جہازوں کے لنگر اٹھانے اور بادبان اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ہمیں اپنی فکرکرنی چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”اگر تم میرا ساتھ چھوڑنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔لیکن میں ضرور جاوں گا اور داسو اور موتی تم بھی جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔“
ان دونوں نے یک زبان ہوکرکہا۔”نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“
کالو نادم سا ہوکر بولا۔”میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟“
گنگو نے کہا۔”یہ ہم وہاں جا کے دیکھیں گے۔“
موتی نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ جےرام نے اپنے محسنوں کو دھوکا دیا ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کی نیت بری ہوتی تو وہ اپنی بہن کو وہاں کیون چھوڑجاتا۔“
داسو نے کہا۔”یہ سمجھنا مشکل نہیں۔وہ اپنی بہن کو اس لیے ان کے پاس چھوڑ گیا تھا کہ وہ اس کے جانے بعد بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ تبدیل نا کردیں۔میرا خیال ہے کہ وہ لڑکی بھی اس سازش میں شریک تھی۔دیکھنے میں وہ کتنی بھولی بھالی ہےوہ جہاز پر اس عرب عورت کو اپنی بہن کہا کرتی تھی۔“
گنگو نے کہا۔”اور جےرام خالد کو چھوٹا بھائی کہا کرتا تھا اور جب زبیر بیمار تھا۔وہ دن رات اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔جھوٹا، مکار، دغاباز! کاش وہ میرے ہاتھ پڑ جائے لیکن وہ لڑکی___کالو وہ ہمارے ہاتھ سے ناجائے اسے پکڑ کر ہم بہت سے کام نکال سکتے ہیں۔چلو جلدی کرو۔یہ باتوں کا وقت نہیں۔“
گنگو اور اس کے ساتھی پوری رفتار سے بندرگاہ کی طرف بھاگنے لگے۔
عرب ملاح جہاز پر نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد دعا کررہے تھے کہ دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز سے ان کے جہاز پر پہنچ کر انھیں بندرگاہ کی طرف متوجہ کیا۔زبیر اور اس کے ساتھ ساحل پر مسلح سپاہی دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔چار آدمی ایک کشتی پر سوار ہو کر جہاز پر پہنچے اور ان میں سے ایک نے سندھی زبان میں کہا۔”دیبل کے حاکم سردار پرتاپ رائے آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ ان جہازوں کے آفسروں سے ملنا چاہتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے پرتاپ رائے کے پیام رساں سے پوچھا۔”لیکن جےرام کہاں ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”وہ مہاراج پرتاپ رائے سے مل کر آپ لوگوں کی دعوت کا انتظام کرنے کے لیے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ہیں۔مہاراج خود آپ کا استقبال کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے زبیر سے عربی میں کہا۔”یہ ضرور کوئی فریب ہے لیکن ہمارے لیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میں خود حیران ہوں کے دیبل کا حکمران اتنے سپاہی ساتھ لے کر کیوں آیا ہے لیکن مجھے جےرام سے فریب کی توقع نہیں۔اس کی بہن اس جہاز پر ہے۔“
ایلچی نے پھر پوچھا۔”میں مہاراج کے پاس کیا جواب لےجاوں؟“
زبیر نے کہا۔”ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔“
زبیر اور دلیپ سنگھ کشتی میں سوار ہوکر ساحل پر پہنچے۔دلیپ سنگھ پرتاپ رائے کے سامنے جھک کر آداب بجالا، لیکن زبیر کی گردن میں خم نا آنے پر پرتاپ رائے نےکہا۔”تو تم عرب کے باشندے ہو۔تم میں سے کسی کو بڑوں کا ادب کرنا نہیں آتا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”ان کے مذہب میں انسانوں کے سامنے جھکنا پاپ ہے۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”ہمارے پاس رھ کر اسے انسانوں کے سامنے جھکنا بھی آجائے گا۔“
دلیپ سنگھ نے پوچھا۔”آپ کا مطلب؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”کچھ نہیں۔تمہارے جہازوں پر کیا ہے؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”جےرام نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔آپ ہم سے کیوں پوچھتے ہو؟“
”جےرام نے کچھ بتایا ہے۔اگر وہ صحیح ہے تو یہ جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔“
”جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔وہ کیوں؟“
”یہ راجہ کا حکم ہے۔“
دلیپ سنگھ نے چاروں طرف دیکھا،زبیر اور اس کے گرد مسلح سپاہیوں کا گھیرا تنگ ہوچکا تھا۔اس نے عربی زبان میں زبیر کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور زبیر کے سمجھانے پر وہ پرتاپ رائے سے مخاطب ہوا: ”یہ سندھ کے نادار ملاحوں کی کشتیاں نہیں جن پر آپ دست درازی کرسکیں، یہ عربوں کے جہاز ہیں۔ان پر اس قوم کی بیٹیاں سوار ہیں جو سرکشوں اور باغیوں کے مقابلے میں آندھی کی طرح اٹھتی ہے اور بادل کی طرح چھاجاتی ہے اور جو آسمان سے بجلیاں گرتی دیکھ کر نہیں ڈرتے، وہ ان کی تلوار دیکھ کر نہیں ڈرتے۔“
پرتاپ رائے نے غضب ناک ہوکر تلوار نکال لی۔دلیپ سنگھ اور زبیر نے تلواریں کھنچنے کی کوشش کی لیکن کئی ننگیں تلواروں اور چمکتے ہوئے نیزوں نے ان کے ہاتھ روک لیے۔پرتاپ رائے نے کہا۔”تم سندھی معلوم ہوتے ہو لیکن تمہاری رگوں میں کسی بزدل غدار اور کمینے آدمی کا خون ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”دنیا میں سب سے بڑی غداری اور کمینگی اپنے مہمان کو دھوکہ دینا ہے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔“
دلیپ سنگھ کا فقرہ پورا نا ہوا تھا کہ پرتاپ رائے کی تلوار کی نوک اس کے سینے میں اتر گئی اور وہ تیورا کر زمین پر گرپڑا۔زبیر نے جھک کر اسے ہاتھوں کا سہارا دیا۔اس نے ایک جھرجھری لےکر زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”زبیر! تمہارے ساتھ میرا سفر مکمل ہوا۔میں دل پر ایک بھاری بوجھ لےکر جارہا ہوں۔میں جہالت کی گود میں پلا۔ابوالحسن نے مجھے انسان بنایا اور تم نے میرے دل میں اسلام کے لیے تڑپ پیدا کی لیکن نامعلوم میں اب تک کیوں اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے سے جھجھکتا رہا۔میں لوگوں کی نظروں سے چھپ کر نمازیں پڑھ چکا ہوں۔روزے رکھ چکا ہوں۔لیکن اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے سے جھجھکتا رہا،اب میں ارادہ کررہا تھا کہ بصرہ پہنچ کر مسلمان ہونے کا اعلان کروں، لیکن خدا کو یہ منظور نا تھا۔مجھے ناہید کا افسوس ہے۔خدا اسے بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچائےمیرے دوست! مجھے۔۔۔۔۔بھول نا جانا! میرے لیے دعا کرنا!!“
دلیپ سنگھ نے پھر ایک جھرجھری لےکر آنکھیں بند کرلیں۔چند بارکلمہ توحید دہرایا۔اس کی آواز بدھم اور خفیف ہوتی گئی۔ہونٹ کپکپائے،بھنچے اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔بصرہ کے مسافر کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی ایسی منزل کو دیکھ رہی تھیں جس کے مسافر وآپس نہیں آتے۔دلیپ سنگھ دائمی نیند کی گود میں جاچکا تھا۔زبیر نے اناللہ واناالیہ راجعون کہا اور دلیپ سنگھ کا سر زمین پر رکھ کر حقارت سے پرتاپ رائے کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی کشتیوں پر سوار ہوکر تیر برساتے ہوئے جہازوں کا رخ کررہے تھے اور جہازوں سے تیروں کا جواب تیروں میں آرہا تھا۔زبیر کے لیے فرار کی تمام راہیں بند تھیں۔پرتاپ رائے کے اشارے سے آٹھ دس سپاہی اس پر پل پڑے اور اسے رسیوں سے جکڑ کر زمین پر ڈال دیا۔زبیر حسرت سے اپنے جہازوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
جہاز پر ناہید کے علاوہ دوسری عرب عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہی تھیں۔ہاشم دیر تک دوسرے بچوں کے ساتھ ایک کونے میں چھپ کرنا بیٹھ سکا۔وہ اوپر آکر خالد کے قریب کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا۔”ہمیں کتنی بات بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑے گا؟“
خالد نے کمان میں تیر چڑھاتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔ہاشم کے قریب مایا دیوی حیران و ششدر کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”مایا دیوی تم ہاشم کو نیچے لے جاو۔“مایا دیوی ہاشم کو اٹھانے لگی تو ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور ہاشم کے سینے میں پیوست ہو گیا۔مایا دیوی نے بھاگ کر اسے ایک کونے میں لٹا دیا اور تیر نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ہاشم ایک ہلکی سے آہ اور معمولی سی کپکپاہٹ کے بعد ٹھنڈا ہوگیا مایا دیوی سسکیاں لیتی ہوئی اٹھی۔لیکن پیچھے سے ایک مضبوط ہاتھ کی گرفت میں بےبس ہوکر رھ گئی۔
”کون؟ گنگو!“ اس نے چاند کی دھیمی روشنی میں آنکھیں پھاڑ کردیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔میں ہوں۔کالو اٹھا لو اسے اور اگر شور کرے تو گلا گھونٹ دینا۔“
کالو مایا دیوی کو اٹھا کر جہاز کی پچھلی طرف رسی کی ایک سیڑھی سے اتر کر کشتی پر سوار ہوگیا۔گنگو نے اگے بھر کے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”اب مقابلہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ان کی تعداد ہم سے بہت زیادہ ہے اور عقب سے بھی دوجہاز ہم پر حملہ کرے کے لیے آرہے ہیں۔میری کشتی جہاز کے پیچھے کھڑی ہے۔میں تمہیں اور ناہید کو بچا سکتا ہوں۔“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”ہم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔“
”لیکن تم نہیں جانتے وہ لوگ تمہاری بہن کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔“
”لیکن میں جہاز کی تمام عورتوں کو اپنی بہنیں سمجھتا ہوں، اب جےرام کی دغابازی سے مجھے کسی پر اعتبار نہیں رہا۔“
ایک تیر ناہید کو لگا اور وہ پسلی پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے اگے بڑھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”میں ٹھیک ہوں۔خالد! تم میری فکر نا کرو۔“
خالد نے اس کے اصرار کے باوجود اسے اٹھا کر ہاشم کے قریب بیٹھا دیا۔ہاشم کی لاش دیکھ کر ناہید کو اپنا زخم بھول گیا۔اس نے ہاشم کو جھنجوڑا، آوازیں دیں اور انتہائی کرب کی حالت میں بولی۔”ہاشم تم اوپر کیوں آئے؟“
گنگو نے بےخبری کے عالم میں باہید کی پسلیوں سے تیر نکال کر پھینک دیا اور داسو سے کہا۔”اسے اٹھا لو۔“
داسو ناہید کو اٹھانے کے لیے جھکا لیکن خالد نے اگے بڑھ کر اسے پیچھے دھکیل دیا اور کہا۔”تم جےرام اور یہ سپاہی مختلف راستوں سے آئے تھے لیکن تم سب کا مقصد ایک ہے جاو ہم تمہیں ایک دفعہ معاف کر چکے ہیں۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹا! اگر باتوں کے لیے وقت ہوتا تو میں تمہارا شک دور کرنے کی کوشش کرتا، لیکن ہم پر دشمن کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور اگر ہم نے چند لمحے اور ضائع کردیے تو بھاگنے کے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔افسوس میں تمہیں سوچنے کی مہلت بھی نہیں دےسکتا۔بیٹی! مجھے معاف کرنا۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اچانک ایک چھوٹا ساڈنڈا خالد کے سرپر دے مارا۔ خالد لڑکھڑایا لیکن گنگو نے اٹھا کر اسے کندھے پر رکھ لیا۔داسو نے ناہید کو اٹھا لیا اور گنگو نے داسو سے کہا۔”تم یہ کمانیں اٹھا لو، یہ ہمیں کام دیں گی۔“
حملہ آور کمندیں ڈال کر جہازوں پر سوار ہو رہے تھے اور تیروں کی لڑائی تلواروں کی لڑائی میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس ہنگامے میں کسی کو ناہید، خالد اور مایا دیوی کے اغوا کیے جانے کا پتہ نا چلا۔جب تک یہ لوگ کشتی میں سوار ہوئے، چند کشتیاں عقب سے بھی جہازوں کے قریب پہنچ چکی تھیں۔گنگو اور اس کے ساتھیوں نے سندھی زبان میں ہاہو کر کے حملہ آوروں کو شک نا ہونے دیا اور بچتے بچاتے جہازوں سے ایک طرف نکل گئے۔
گنگو کے کہنے پر مایا دیوی نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر ناہید کے زخم پر پٹی باندھ دی، خالد کو اپنے ساتھ دیکھ کر اب اسے یہ بھی خیال نا تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ گنگو پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر خالد کے ماتھے پر رکھ رہا تھا اور مایا دیوی کو وہ شخص جو چند لمحے بیشتر ایک بدترین دشمن کی صورت میں نمودار ہوا تھا ایک غمگسار نظر آرہا تھا۔
کشتی خطرے کی حد سے دور آچکی تھی اور مایا گنگو سے ہم کلام نا ہونے کا ارادہ کرنے کے باوجود ناربار یہ پوچھ رہی تھی۔”اسے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ یہ کیسے بہوش ہوا؟“
ناہید انتہائی رنج و ملال کی وجہ سے کسی سے ہم کلام نا ہوئی۔وہ تشویش کی حالت میں اپنے بھائی کی طرف دیکھتی اور جب گنگو یہ کہتا۔”بیٹی تم فکر نا کرو۔تمہارے بھائی کو ابھی ہوش آجائے گا۔میں تمہارا دشمن نہیں۔میں سمندر کے دیوتا کی قسم کھاتا ہوں۔“ تو ناہید خون کے گھونٹ پی کررھ جاتی۔
پھر وہ مایا دیوی سے مخاطب ہوا۔”مایا! تم ایک راجپوت لڑکی ہو۔راجپوت جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے میں تم سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں یہ شک تھا کہ تمہارا بھائی انھیں دھوکہ دے گا۔“
”نہیں! نہیں! میرا بھائی ایسا نہیں۔میں بھگوان کی قسم کھاتی ہوں۔“
”اور اگر یہ ثابت ہوگیا تو؟“
”تو میں۔۔۔۔۔۔۔میں کنویں میں چھلانگ لگادوں گی۔آگ میں جل جاوں گی۔اپنا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ ڈالوں گی۔بھگوان کے لیے ایسا نا کہو۔“ مایا دیوی کی ہچکیوں نے ناہید کو متاثر کیا اور اس نے کہا۔”مایا! تم ان باتوں کی پروا نا کرو۔ مجھے تم پر یقین ہے۔ اور اگر تمہارے بھائی نے ہمارے ساتھ دھوکا بھی کیا ہو تو اس میں تمہارا کیا قصور؟“
”میں کہتی ہوں میرا بھائی ایسا نہیں۔اس کی رگوں میں راجپوت کا خون ہے اور وہ اتنا احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔“
ناہید نے کہا۔”اس وقت ہمارا دشمن وہ ہے جس نے ہمیں زبردستی جہاز سے اتارا ہے اور نامعلوم جگہ پر لےجارہا ہے۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹی! کاش میں تمام بچوں اور عورتوں کو ساتھ لاسکتا لیکن اس کشتی پر صرف اتنی سواریوں کی جگہ تھی۔ تم نوجوان ہو اور میں تمہیں ایک بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچانا چاہتا ہوں اور مایا دیوی! تم شاید باقی سب کو بچا سکو۔میں تمہاری آزادی کے بدلے باقی لوگوں کو آزاد کروانا چاہتا ہوں۔“
خالد نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں اور حیران ہوکر سب کی طرف دیکھا۔ گذشہ واقعات یاد آتے ہی وہ آتھ کر بیٹھ گیا اور دکھتے سر پر ہاتھ رکھ کربولا۔”ہمارا جہاز کہاں ہے؟ ہم کہا جارہے ہیں؟ گنگو!!! گنگو!!! ظالم دغاباز فریبی! تم نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ وہ کیا کہیں گے۔تم ہمیں کہاں لے جارہے ہو؟“
گنگو نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔”خالد! یہ میری عمر میں پہلا موقع ہے کہ مجھے کسی کی گالی پر غصہ نہیں آیا۔تم مجھے جوجی میں آئے کہو لیکن میں نے برا نہیں کیا۔میں صرف مایا کو لینے آیا تھا لیکن تمہاری بہن کو زخمی دیکھ کر یہ گوارا نا کرسکا کہ اسے دشمن کے رحم پر چھوڑ دوں۔“
خالد نے حقارت سے مایا دیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”میں اب سمجھا۔جےرام نے ایک طرف ہم پر حملہ کرنے کے لیے سپاہی بھیج دیے اور دوسری طرف سے تمہیں مایا دیوی کو لینے کے لیے بھیج دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لٹیروں کے سردار تم نا تھے جےرام تھا۔“
”تم درست کہتے ہو۔میں نےتوبہ کرلی ہے لیکن جےرام نے توبہ نہیں کی۔ممکن ہے وہ اپنی بہن کی خبرسن کر توبہ کرے۔“
”تو تم ہمیں اس کے پاس نہیں لےجارہے۔“
”تم دیکھ سکتے ہو بندرگاہ کس طرف ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں؟“
”تو تم ہمیں کہاں لے جاو گے؟“
”کسی ایسی جگہ جہاں راجہ کے سپاہی نا پہنچ سکیں۔“
خالد نے کہا۔”اگر تمہاری نیت بری نہیں تو ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس چھوڑ آو۔“
گنگو نے کہا۔”تمہارے ساتھی تھوڑی دیر میں دیبل کے قید خانے میں ہوں گے۔تم قید ہونے کی بجائے قید سے باہر رھ کران کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔“
خالد نے قدرے پرامید ہوکر پوچھا۔”تم سچ مچ ان کی مدد کرنا چاہتے ہو؟“
گنگو نے جواب دیا۔”بیٹا مجھے تم سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نا تھی۔اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو یقیناً اس قدر ٹھنڈے دل سے یہ گالیاں نا سنتا۔“
اگلے دن یہ کشتی دریائے سندھ کے دہانے پر پہنچ گئی۔گنگو کو اپنے ساتھی مچھلیاں پکڑتے ہوئے مل گئے۔