دس دن بعد ایک صبح بندرگاہ پر دو جہاز سفر کے لیے تیار کھڑے تھے۔ایک جہاز پر زبیر یتیم بچوں اور بیواوں کو لیے جارہا تھا اور دوسرے جہاز پر دلیپ سنگھ راجہ کی طرف سے حجاز بن یوسف اور خلیفہ ولید کے لیے ہاتھی، سونا، چاندی اور ہیروں کے تحائف لے جارہا تھا۔ہاتھی تعداد میں دس تھے۔
راجہ اور ولی عہد زبیر اور اس کے ساتھیوں کو رخصت کرنے کے کیے بندرگاہ تک آئے۔راجہ بیواوں اور یتیم بچوں میں سے ہر ایک کو گرانقدر تحائف دے چکا تھا۔زبیر کو اس نے کئی چیزیں پیش کیں لیکن فقط اس نے گینڈے کی ڈھال پسند کی۔رانی اپنا موتیوں کابیش قیمت ہار سخت اصرار کے بعد ناہید کو پہنا سکی۔راجکماری رخصت کے دن اس کے گھر آئی اور بضد ہوکر ناہید کو اپنی ہیرے کی آنگوٹھی دے گئی۔
بندرگاہ پر جہاز میں سوار ہونے سے پہلے راج کمار نے آبدیدہ ہوکر خالدکو گلے لگا کیا اور اپنی موتیوں کی مالا اتار کر اس کے گلے میں ڈال دی۔
جہازوں کے بادبان کھولے گئے اور ہوا کے ایک جھونکے جہازوں کو دھکیلنے لگے۔شہر کے لوگوں نے اپنے مہمانوں کو آنسووں اور آہوں کے ساتھ آلودع کیا۔
عورتوں کے لیے جہاز کے اندر ایک کشادہ کمرے کے علاوہ بالائی تختہ کے ایک حصے پر بھی چلمنیں ڈال کر پردے کا انتظام کیا گیا تھا۔خالد ادھر ادھر گھوم کر ملاحوں کے کام میں دلچسپی لے رہا تھا۔ناہید،علی کے ساتھ تختہ جہاز پر کھڑی ناریل کے ان بلند قامت اور سرسبز درختوں کو دیکھ رہی تھی۔جن کی چھاوں میں اس نے زندگی کے بہترین دن گزارے تھے۔
صبح شام میں تبدیل ہوگئی اور سراندیپ کا ساحل افق پر ایک ہلکی سی سرسبز لکیر نظر آنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ لکیر بھی شام کے دھند لکے میں چھپ گئی۔وہ آنسو جو دیر سے ناہید کی آنکھوں میں جمع ہورہے تھے،ٹپک پڑے، علی بھی اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر قدرے ملول تھا۔لیکن اس کے دل میں خالد اور ناہید کے ساتھ جانے کی خوشی اس سے زیادہ تھی۔
رات کے وقت مطلع صاف تھا۔بچے اور عورتیں عرشے پر کھلی ہوا میں سوگئے۔ناہید دیر تک آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتی رہی۔چلمن کی دوسری طرف خالد، زبیر اور ملاحوں سے باتیں کررہا تھا۔
ہاشم ایک آٹھ سال کا لڑکا ناہید کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔اس کی ماں فوت ہوچکی تھی اور باپ ابوالحسن کے ساتھ لاپتہ ہوچکا تھا۔ہاشم اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرادھر ادھر دیکھنے لگا۔ناہید نے پوچھا۔”کیا ہے ہاشم۔۔۔۔۔۔۔؟“
اس نے سوال کیا۔”عکی کہاں ہے؟“
”وہ خالد کے ساتھ ملاحوں سے باتیں کررہا ہے۔“
”میں اس سے ایک بات ابھی پوچھ کرآتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ہاشم تاریکی میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا علی کے پاس پہنچا اور پوچھنے لگا۔”علی! جب جہاز ڈوب جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟“
علی نے بھولے پن سے جواب دیا۔”سمندر کی تہہ میں چلا جاتا ہے۔“
ملاح اس جواب پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ہاشم نے پھر کہا۔”واہ! یہ تو مجھے معلوم تھا۔لوگ کہاں جاتے ہیں؟“
”لوگوں کو مچھلیاں کھا حاتی ہیں۔“
”جھوٹ! مچھلیوں کو تو آدمی کھاتے ہیں۔“
علی نے پھر جواب دیا۔”زمین پر آدمی مچھلیوں کو کھاتے ہیں۔ لیکن سمندر میں مچھلیاں آدمیوں کو کھا جاتی ہیں۔“
ہاشم کچھ سمجھا اور کچھ نا سمجھا اور وآپس آکر بستر پر لیٹ گیا۔
چند دن بعد یہ جہاز مالابار کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کررہا تھے۔راستے میں سامانِ خوراک اور تازہ پانی حاصل کرنے کے لیے انھیں مغربی ساحل کی مختلف بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونا پڑا۔اس دوران میں انھیں کوئی حادثہ پیش نا آیا۔مالابار کی ایک بندرگاہ پر چند عرب تاجروں نے زبیر کا خیرمقدم کیا اور گذشتہ طویل سفر میں تھکے ہوئے مسافروں کو چار دن کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔ان چار دنوں میں سراندیپ کے راجہ کے گرانقدر تحائف کی خبر دوردور تک مشہور ہوچکی تھی۔
رخصت کے دن حاکمِ شہر بندرگاہ پر زبیر اور دلیپ سنگھ سے ملا اور اس نے انھیں راستے میں بحری ڈاکووں کے حملے کے پیشِ نظر ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”آپ فکر نا کریں! ہمارے جہاز پوری طرح مسلح ہیں۔“
تیسرے دن مستول پر سے دونوں جہازوں کے پہرے داروں ن نے یکے بعد دیگرے افق شمال کی طرف اشارہ کرکے دو جہازوں کی آمد کا پتہ دیا اور جہاز ران پریشان ہوکر تختہِ جہاز پر کھڑے ہوگئے۔دلیپ سنگھ کا جہاز آگے تھا۔وہ اپنے جہاز کو روکنے کا حکم دے کر زبیر کا جہاز قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔جب دونوں جہاز ایک دوسرے کے بہت تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوگئے تو دلیپ سنگھ نے کہا۔”ممکن ہیں وہ جہاز بحری ڈاکووں کے نا ہوں، لیکن ہمیں مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔آپ اپنا جہاز مغرب کی طرف لے جائیں، میں ان سے نمٹ لوں گا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”نہیں! ہم خطرے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”مجھے آپ کی ہمت پر شبہ نہیں لیکن ہماری سب سے پہلی ذمہ داری بچوں کی جان بچانا ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر وہ واقعی بحری ڈاکو ہیں تو ممکن ہے کہ مغرب کی طرف سے بھی انھوں نے ہمارا راستہ روک رکھا ہو۔اس صورت میں بھاگ نکلنے کی بجائے لڑنا کم خطرناک ہوگا اور ہم سے یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اپنے دوستوں کی جانیں خطرے میں چھوڑ کر بھاگ جائیں۔“
”آپ کی مرضی۔تاہم عورتوں کو حکم دیں کے نیچے چلی جائیں۔“
دلیپ سنگھ یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو ہدایت دینے میں مصروف ہوگیا۔
زبیر نے خالد سے کہا۔”خالد! تم عورتوں اور بچوں کو نیچے لے جاو!“
دونوں جہازوں کے ملاح کیل کانٹے سے لیس ہوکر دور سے آنے والے حہازوں کو دیکھنے لگے۔کچھ دیر بعد دلیپ سنگھ ایک جہاز کا سیاہ جھنڈا دیکھ کر چلایا۔”یہ بحری ڈاکووں کے جہاز ہیں۔مقابلے کے لیے تیار ہوجاو۔“
زبیر نے اپنے ساتھیوں سے مخاب ہوکرکہا۔”بھائیو! یہ عورتیں اور بچے ہمارے پاس امانت ہیں۔ہمیں انھیں سلامتی سے بصرہ پہنچانا ہے۔اگر ہم پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری نا ہوتی۔ تو ہمارا طریق جنگ اس طریقے سے مختلف ہوتا جو میں نے اب تجویز کیا ہے۔میں ایک خطرناک مہم کے لیے تم میں سے دو رضاکار چاہتا ہوں۔“
اس پر سب سے پہلے خالد اور پھر یکے بعد دیگرے تمام ملاحوں نے اپنے نام پیش کیے۔زبیر نے کہا۔”اس کام کے لیے دو بہترین تیراک درکار ہیں۔میں یہ کام ابراہیم اور عمر کو سونپتا ہوں۔“
زبیر کی ہدایت پر دونوں جہازوں سے دو کشتیاں سمندر میں اتار دیں گئیں اور ان کے ساتھ باندبان باندھ دیے گئے۔دلیپ سنگھ کے جہاز پر ہاتھیوں کے لیے خشک گھاس موجود تھی۔ملاحوں نے اس کے چند گٹھے اتار کر کشتیوں پر لادیے۔ابراہیم اور عمر ہاتھوں میں جلتی مشعلیں لیے کشتیوں پر سوار ہوگئے۔اس کے بعد زبیر اور اس کے ساتھی تیرکش اور کمان سنبھال کر حملہ آوروں کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے۔اگلے جہاز کا رخ دلیپ سنگھ کے جہاز سے زیادہ زبیر کے جہاز کی طرف تھا۔عمر اور ابراہیم کی کشتیاں ایک لمبا چکر کاٹ حملہ آوروں کے عقب میں پہنچ چکی تھیں۔
زبیر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں کو ہدایت دے رہا تھا۔حملہ آور جہاز نے قریب آتے ہی زبیر کے جہاز پر تیر برسانے شروع کردیے اور ایک تیر سن سے زبیر کے سر کے قریب سے گزرگیا۔اس کے ساتھ ہی اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ”آپ کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ جائیے۔ہم دشمن کے تیروں کی زد میں آچکے ہیں۔“
زبیر نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ناہید تیرو کمان لیے کھڑی تھی۔ آنکھوں کے سوا اس کا باقی چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا۔ زبیر نے کہا۔”تم یہاں کیا کررہی ہو؟ جاو نیچے!“
ناہید نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ میری فکر نا کریں۔ میں تیر چلانا جانتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ کرایک سپاہی کے قریب بیٹھ گئی۔
کچھ دیر تیروں کی لڑائی ہوتی رہی۔لٹیرے زیادہ قریب پہنچ کر جلتے ہوئے تیر پھنکنے لگے۔دوسری طرف زبیر کی ہدایت کے مطابق ابراہیم اور عمر نے اپنی کشتیاں لٹیروں کے جہازوں کی طرف چھوڑ دیں اور قریب پہنچ کر جلتی ہوئی مشعلوں سے گھاس میں آگ لگائی اور خود پانی میں کود گئے۔ لٹیرے جو ہاتھوں میں کمندے لیے ہوئے اپنے حریف کے جہازوں میں کودنے کے لیے تیار کھڑے تھے بدحواس ہوکر کشتیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ہوا کے جھونکوں نے کشتیوں سے آگ کے شعلوں کو جہازوں کے بادبانوں تک پہنچا دیا۔ آن کی آن میں لٹیروں کے دونوں جہازوں پر آگ بےقابو ہوچکی تھی اور وہ چیختے چلاتے سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دلیپ سنگھ اور زبیر کے ساتھی تیر برسا رہے تھے۔زبیر نے لٹیروں کا ایک جہاز اپنے جہاز کے قریب آتا دیکھ کر آگ کے خطرے سے بچنے کے لیے لنگر اٹھانے کا حکم دیا لیکن اتنے میں آٹھ دس لٹیرے کمندے ڈال کر زبیر کے جہاز پر کودنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ زبیر کے ساتھیوں نے انھیں اڑے ہاتھوں لیا۔لٹیروں کے جہاز سے ایک تیر آیا اور زبیر کے بائیں بازو میں پیوست ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی ناہید کی کمان سے ایک تیر نکلا اور ایک لٹیرے کے سینے میں پیوست ہوگیا۔
زبیر نے مرحبا کہا۔ناہید نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔زبیر کمان پھینک کر بازو سے تیر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ناہید نے جلدی سے کمان نیچے رکھ کہ ایک ہاتھ سے زبیر کا بازو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے تیر کھینچ کرنکال دیا۔تیر کے نکلتے ہی زبیر کے بازو سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ناہید نے اس کی آستین اوپر چرھائی اور جھٹ سے اپنا نقاب اتار کر اس کے بازو پر باندھ دیا۔
زبیر کا جہاز کمندوں کی زد سے نکل چکا تھااور جلتے ہوئے جہاز کے رہے سہے ملاح مایوس ہوکر سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔زبیر نے دوبارا کمان اٹھاتے ہوئے کہا”ناہید! اب تم عورتوں کے پاس جاو اور انھیں تسلی دو کہ ہم خدا کے فضل سے فتح حاصل کرچکے ہیں۔“
ناہید نے چلتے چلتے رک کرپوچھا۔”آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی؟“
”نہیں یہ بہت معمولی زخم ہے۔تم میری فکر نا کرو!“
یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے زبیر کی نگاہیں نائید کے چہرے پر گڑگئیں۔سپاہیانہ وقاراس کے خدوخال کی دلکشی میں اضافہ کررہا تھا۔ ناہید نے اچانک محسوس کیا کہ وہ بےنقاب ہے، اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی نیچے عورتوں کے پاس چلی گئی۔
جلتے ہوئے جہاز سے چند آدمی اتر کر ایک کشتی پر سوار ہوئے اور ایک آدمی جو کہ ڈاکووں کا سردار معلوم ہوتا تھا سفید جھنڈا لہرانے لگا۔زبیر نے تیر اندازوں کو ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔عمر اور ابراہیم اپنا کام کرکے جہاز کے قریب پہنچ چکے تھے۔زبیر نے اپنے جہاز کو خطرے سے محفوظ پاکر لنگر ڈالنے اور رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینکنے کا حکم دیا۔ عمر اور ابراہیم جہاز پر چڑھ آئے۔خالد نے زبیر کو دلیپ سنگھ کے ساتھیوں کی طرف متوجہ کیا، جو ابھی تک سمندر میں غوطے کھانے والے دشمنوں پر تیروں کی مشق کررہے تھے۔زبیر نے انھیں بھی ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور لٹیرے قدرے مطمین ہوکر سیڑھی کے ذریعے جہاز پر چڑھنے لگے۔سب سے آخر میں لٹیروں کے سردار کی کشتی دونوں جہازوں کے درمیان میں آکررکی۔ایک قوی ہیکل اور معمر آدمی جس کی داڑھی کے آدھے بال سفید ہوچکے تھے، زخمی شیر کی طرح جہاز رانوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کشتی میں زبیر کی نظر ایک نوجوان اور ایک لڑکی پرپڑی۔ دونوں شکل و صورت اور لباس کے اعتبار سے لٹیروں سے بہت مختلف تھے۔
زبیر نے قوی ہیکل اور بارعب آدمی کو ڈوکووں کا سردار سمجھ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور ملاح کشتی کو کھیتے ہوئے جہاز کے قریب لے آئے اور یکے بعد دیگرے رسی کی سیڑھی ہر چڑھتے ہوئے اوپر آگئے۔لڑکی کے چہرے سے علالت اور تکلیف کے اثرات نمایا تھے۔ خوش وضع اور خوش پوش نوجوان اس کا بازو پکڑ کراسے سہارا دے رہا تھااور وہ سنبھل سنبھل کر سیڑھی پر پاوں رکھ رہی تھی۔
جہاز پرپہنچ کر نوجوان نے ایک اجنبی زبان میں کچھ کہا اور لٹیروں کی طرف گھورنے لگا۔زبیر نے اس کی زبان پوری طرح نا سمجھتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ وہ لٹیروں کے مظالم کی شکایت اور اس کا شکریہ ادا کررہا ہے۔
زبیر نے اپنی استطاعت کے مطابق سندھ اور سراندیپ کی ملی جلی زبان میں اسے تسلی دی۔نوجوان اور لڑکی اس کے دوستانہ لہجے سے متاثر ہوکر تشکر آمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی سہمی ہوئی آواز گلے میں آٹک کررھ گئی۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کرزبیر کی طرف دیکھنے لگی۔اس کی عمر چودہ پندرہ سال کے لگھ بھگ معلوم ہوتی تھی۔خوبصورت چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح کملایا ہوا تھا۔زبیر نے پھر ایک بار ان دونوں کو تسلی دی سب سے آخر میں ڈاکووں کا سردار جہاز میں پہنچا۔ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسوون کی جگہ انتقام کی بجلیاں تھیں۔
تھوڑی دیر میں دلیپ سنگھ اپنے جہاز سے اتر کر کشتی کے زریعے زبیر کے جہاز پر پہنچ گیا۔اس نے آتے ہی ڈاکووں کے سردار کو مارنے کے لیے چابک اٹھایا لیکن زبیر نے آگے بھر کر اس کا بازو پکڑ لیا۔دلیپ سنگھ نے زبیر کے قمیص کی آستین کو خون آلود دیکھ کر کہا۔”آپ زخمی ہیں؟“
زبیر نے بےپروائی سے جواب دیا۔”یہ معمولی زخم ہے۔“
خوش پوش نوجوان نے کچھ کہہ کر دلیپ سنگھ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔اس کے بعد دلیپ سنگھ نے ڈاکووں کے سردار سے چند باتیں کرنے کے بعد عربی زبان میں زبیر کے ساتھیوں کو کہا۔”کشتی میں ایک صندوق پڑا ہے اسے اوپر لے آو۔“
ملاحوں نے صندل کی لکڑی کے چھوٹے سے صندوق کو رسے کے ساتھ باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔دلیپ سنگھ نے ڈھکنا اوپر اٹھایا اور تمام ملاح حیران ہوکرسونے موتیوں اور جوہرات سے بھرے صندوق کو دیکھنے لگے۔
زبیر کے استفسار پر دلیپ سنگھ نے خوش پوش نوجوان سے چند سوال پوچھے اور اس نے اپنی آپ بیتی کچھ یوں سنائی:-
نوجوان کا نام جے رام تھا۔وہ کاٹھیاوار کے ایک اعلی نسب راجپوت خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اوائل شباب میں اسے ناموری اور شہرت کا شوق سرزمین سندھ تک لے گیا۔برہمن آباد کے ایک میلے میں اس نے تیر اندازی میں اپنے کمالات دکھا کر سندھ کے راجہ کو اپنا قدردان بنالیا۔راجہ نے اسے اپنی فوج میں معمولی عہدہ دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔دو سال کی خدمت گزاری کے بعد جے رام نے دیبل کے نائب حاکم کی جگہ حاصل کرلی۔دیبل میں آئے ہوئے اسے ایک ہفتہ نا ہوا تھا کہ گھر سے اسے اپنے باپ کی وفات اور ماں کی علالت کی خبر ملی اور چند ماہ کی رخصت لے کر وہ کاٹھیاوار پہنچا۔گھر پہنچنے کے دس دن بعد اس کی والدہ بھی چل بسی۔گھر میں اب اس کی ایک چھوٹی بہن مایادیوی تھی۔جے رام نے رشتے داروں کی نصیحت اور مایا دیوی کے آنسووں سے متاثر ہوکر وآپس سندھ جانے کا خیال چھوڑ دیا، لیکن چار ماہ گھر گزارنے کے بعد اسے اپنی پرسکون زندگی تلخ محسوس ہونے لگی اور ایک دن اس نے کاٹھیاوار کے راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ملازمت کی درخواست کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے راجہ نے اپنا حلقہ اقتدار وسیع کرنے کے لیے پڑوس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کررکھی تھی اور خودمختار راجے اور سرادر اسے اپنا طاقتور ہمسایہ تسلیم کرنے کے ثبوت میں اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کی نزر کیا کرتے تھے۔کاٹھیاوار کے راجہ کو اگرچہ براہِ راست سندھ کے راجہ سے کوئی خطرہ نا تھا۔ تاہم وہ کچھ سونے اور چاندی کے عوض اسے اپنا دوست بنانا غنیمت سمجھتا تھا۔
جے رام کو اپنے دربار میں کوئی عہدہ دینے کی بجائے اس نے سندھ میں اس کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا زیادہ مناسب خیال کیا اور اسے سونے جواہرات اور موتیوں کا صندوق دے کر سندھ کے راجہ کی خدمت میں بھیج دیا۔جے رام کو یقین تھا کہ راجہ دھر اسے وآپس نا آنے دے گا۔ اس لیے اس نے آپنی اکیلی بہن مایا دیوی کو گھر چھوڑنا مناسب نا سمجھا۔مایا دیوی بھی اس کے ساتھ جانے پر بضد تھی۔اس لیے یہ دونوں اپنا گھر بار چچازاد کے سپرد کرکے سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن کاٹھیاوار اور سندھ کے درمیان ان کے جہاز کو بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اس کے ساتھی بہادری سے لڑے لیکن ڈاکووں کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔ڈاکووں نے جواہرات کے صندوق پر قبضہ کرلیا، مایا دیوی اور جے رام کے سوا ان کے ساتھیوں کو سمندر کے کنارے آزاد کردیا گیا۔ڈاکووں کا سردار سمجھتا تھا کہ جےرام اور مایا دیوی راجہ کاٹھیاوار کے عزیز ہیں اور وہ اس کی جان بچانے کے لیے معقول رقم دینے پر آمادہ ہوجائے گا۔اس لیے وہ کاٹھیاوار کے ساحل کے غیر آباد حصے پر لنگرانداز ہوکر راجہ کے ساتھ یہ سودا کرنا چاہتا تھا لیکن ان کے ایک جاسوس نے اسے سراندیپ کے جہازوں کی آمد کی خبر کردی اور اس نے کاٹھیاوار ٹھہرنے کی بجائے مالابار کا رخ کیا۔
زبیر نے یہ قصہ سن کر پھر ایک بار جے رام اور اس کی بہن کو تسلی دی اور کہا۔”یہ لٹیرے جیسے ہمارے مجرم ہیں ویسے ہی آپ کے مجرم ہیں۔میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انھیں کیا سزا دی جائے۔ تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے ملک میں انھیں کیا سزا دی جاتی ہے؟“
جے رام نے کہا۔”ایسے ظالم ڈاکووں کے لیے ہمارے قانون میں اور آپ کے قانون میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم جب ان لوگوں سے آپ کا مقابلہ ہوا تھا تو مجھے اور میری بہن کو جہاز کے ایک کونے میں بندکردیا گیا تھا اور جہاز کو آگ لگ جانے کے بعد یہ لوگ ہمیں وہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اپنے لیے شاید میں ان سے رحم کی درخواست نا کرتا لیکن اپنی بہن کے لیے مجھے عاجز ہونا پڑا اور ان لوگوں نے ہمیں کشتی پر سوار کرنے سے پہلے وعدہ لیا کہ میں آپ سے ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش کروں گا، میرا یہ مطلب نہیں کہ انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ میں انھیں صرف موت کی سزا سے بچانا چاہتا ہوں۔لیکن یہ ضروری ہے کہ جب تک ان کے راہِ راست پر آجانے کا اطمینان نا ہو انھیں قید میں رکھا جائے۔“
مایا دیوی علالت کی وجہ سے دیر تک کھڑی نا رھ سکی۔اس نے اپنے بھائی سے کچھ کہا اور بیشر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا۔دلیپ سنگھ نے کہا۔”اوہو! ہمیں معلوم نا تھا کہ آپ کی بہن علیل ہے۔خالد بیٹا! انھیں اپنی بہن کے پاس لے جاو۔“
خالد اگے برھااور مایا دیوی اپنے بھائی کی طرف دیکھنے لگی۔جے رام نے دلیپ سنگھ سے پوچھا۔”اس جہاز پر عورتیں بھی ہیں؟“
”جی ہاں۔آپ کی بہن کو کسی قسم کی تکلیف نا ہوگی۔ہاں بیٹی۔جاو۔تم آرام کرو۔“
جہازوں کی دوبارا روانگی سے پہلے لٹیروں کے سردار کے سوا باقی تمام قیدیوں کو دلیپ سنگھ کے جہاز میں منتقل کردیا گیا۔زبیر نے دلیپ سنگھ کو تاکید کی کہ جب تک ان کی سزا کا فیصلہ نا ہوجائے ان کے ساتھ بدسلوکی نا کی جائے۔ڈاکووں کے سردار کو اس کے ساتھیوں کی نیک چلنی کی ضمانت کے طور پر زبیر نے اپنے جہاز پر ٹھہرا لیا۔جے رام نے اپنی بہن کی علالت کے پیشِ نظر زبیر کے جہاز میں رہنا پسند کیا۔
خالد نے مایا دیوی کو ناہید کے پاس پہنچا دیا۔ناہید نے اسے ایک بستر پر لٹا دیا اور سب عرب عورتیں اس کے گرد جمع ہوگئیں۔پہلی ملاقات میں مہمانوں اور میذبانوں کہ درمیان فقط اشاروں سے ہمدردی اور تشکر کے جزبات کی ترجمانی ہوئی۔
دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز پہ جانے سے پہلے جےرام سے کہا۔”آپ کو شاید کھانے میں دقت ہو۔ میں ایک مدت تک مسلمانوں کے ساتھ رھ رھ کر چھوت چھات کا قائل نہیں رہا۔ہم سب ایک ہی دسترخوان پر کھا لیتے ہیں۔میرے ساتھ جتنے بھی آدمی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو مسلمانوں کے ساتھ نہ کھا چکا ہو۔تاہم میرا یک آدمی جسے میں اس جہاز پر چھوڑ کر جا رہا ہوں آپ دونوں کے لیے کھانا تیار کرے گا۔اور آپ کے میزبان آپ کی مرضی کے بغیرآپ کو اپنے دسترخوان پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کریں گے۔“
دلیپ سنگھ نے چند باتیں زبیر کو سمجھائیں اور اتر کر اپنے جہاز پر چلا گیا۔اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے ساتھی اپنے کنداستروں سے پانچ سفید ریش لٹیروں کےسر اور داڑھیاں، پونچھیں اور نھنویں مونڈ چکے تھے۔ایک ڈاکو جو شکل و صورت سے زیادہ معمر معلوم ہوتا تھا۔اس کی صرف آدھی داڑھی آدھی مونچھ اور اور آدھا سرصاف کرنے پراکتفاء کیا۔
ناہید اور دوسری عورتوں نے دل وجان سے مایادیوی کی تیماداری کی۔موسمی بخار کے لیے ناہید سراندیپ سے چند جڑی بوٹیاں ساتھ لائی تھی ان کے استعمال سے ناہید چند دنوں میں تندرست ہوگئی۔
زبیر نے اپنے بازو کے زخم کو معمولی سمجھ کے شروع میں چنداں پروا نا کی لیکن مرطوب ہوا کے باعث زخم میں تیسرے روز پیپ پر گئی اور اسے درد کی شدت اور بخار سے چند دن بستر پر لیٹنا پڑا۔
دلیپ سنگھ کئی بار اپنا جہاز چھوڑ کر اس کی تیماداری کے لیے آیا۔علی،خالد اور ہاشم،ناہید اور دوسری عرب عورتوں کو ہر آن اس کی حالت سے باخبر رکھتے۔جےرام ہر وقت اس کے پاس بیٹھا رہتا۔مایا دیوی ایک عورت کی ذکاوتِ حس کے بدولت ناہید کے مغموم اور پریشان رہنے کی وجہ سمجھ چکی تھی۔وہ اپنے بھائی کی موجودگی میں کبھی کبھی زبیر کو دیکھ آتی اوروآپس آکر اشاروں میں اور عربی کے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جنھیں وہ چند روز عرب عورتوں کی صحبت میں رھ کر سیکھ چکی تھی۔ناہید کو تسلی دیتی۔
ایک شام زبیر کی حالت قدرے مخدوش تھی۔دلیپ سنگھ آیا اور زخم کی مرہم پٹی کرنے کے بعد چلا گیا۔رات کے وقت مطلع آبرالود تھا اور ہوا تیز تھی ملاح اپنی اپنی جگہ پر متعین تھے۔جےرام خالد اور علی زبیر کی تیماداری کررہے تھے۔
عرب عورتیں عشاء کی نماز کے لیے اٹھیں اور مایا دیوی اپنے بھائی سے زبیر کا حال پوچھنے چلی گئی۔جب ناہید نماز سے فارغ ہوکرزبیر کی صحت کے لیے دعا کررہی تھی تو خالد نے آکر بتایا کہ زبیر بےہوش ہے۔
ایک عمر رسیدہ عورت نے کہا۔”ہمارے تمام آدمی آندھی کی وجہ سے جہاز پر مصروف ہیں۔ہمیں ان کے پاس ضرور جانا چاہیے۔“
تمام عورتیں اٹھ کر زبیر کے پاس پہنچیں۔مایا دیوی نے انھیں دیکھ کراپنے بھائی کی طرف اشارہ کیا اور وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔جےرام نے کئی راتیں آنکھوں میں کاٹی تھیں۔وہ باہر نکلتے ہی جہاز کے ایک کونے میں لیٹ کر گہری نیند سوگیا۔
آدھی رات کے وقت زبیر کا بخار قدرے کم ہوا اور ناہید اور مایا دیوی کے علاوہ باقی عورتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔خالد اور علی وہیں لیٹ گئے۔
رات کے تیسرے پہر زبیر نے آنکھیں کھولیں اور شمع کی روشنی میں ناہید اور مایا دیوی کو دیکھ کر پوچھا۔”آپ یہاں؟ جائیں آرام کریں۔“
ناہید کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس نے سوال کیا۔”آپ اب کیسے ہیں؟“
”میں اب ٹھیک ہوں۔مجھے پانی دیجیے۔“
مایا دیوی نے اٹھ کر صراحی سے پانی کا پیاکہ بھرا اور ناہید کے ہاتھوں میں دے دیا۔ناہید نے ہچکچاتے ہوئے ایک ہاتھ سے زبیر کے سر کو سہارا دے کر اٹھایا اور دوسرےہاتھ سے پانی کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگادیا۔
زبیر نے پانی پی کر پھر تکیے پر سررکھ دیا اور ناہید سے کہا۔”ٗان کے بھائی نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔اب وہ کہاں ہیں؟“
”وہ باہر سورہے ہیں۔“
”آپ بھی جاکر سوئیں۔مجھے اب آرام ہے۔ دلیپ سنگھ کے نئے مرحم نے بہت فائدہ کیا ہے۔“
چند دن بعد زبیر چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔عربوں کا خلق جےرام کو بہت متاثر کرچکا تھا۔زبیر سے اس کا انس، انتہائی درجے کی عقیدت اور محبت کی حد تک پہنچ چکا تھا۔وہ زبیر سے عرب کے تازہ ترین حالات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرچکا تھا۔عربوں کے نئے دین میں انسانی مساوات کے تخیل نے شروع شروع میں اسے بہت پریشان کیا۔لیکن زبیر کی تبلیغ سے جلدہی وہ قائل ہوگیا کہ دنیا بھر میں قیامِ امن کے لیے تمام اقوام کا کسی ایسے دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔جو ہر انسان کو مساوی حقوق دیتا ہو۔جو تمام اقوام کو رنگ، خون اور نسل سے نہیں بلکہ اعمال سے پہچانتا ہو۔ ابتدا میں اس نے کھامے پینے کے معاملے میں مسلمانوں کی چھوت سے پرہیز کیا لیکن چنددن زبیر کی صحبت میں رہ کے اسے چھوت اور اچھوت کا امتیاز مضحکہ خیز نظر آنے لگا اور ایک دن وہ اپنی بہن سے مشورہ کیے بغیر زبیر کے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔
مایا دیوی میں اپنے بھائی سے بھی پہلے ذہنی انقلاب آچکا تھا اور اس انقلاب کی وجہ یہ نا تھی کہ وہ اپنے بھائی کی طرح اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوچکی تھی بلکہ اس کی وجہ عربوں کا وہ اخلاق تھا جس نے ایک غیور راجپوت لڑکی کو یہ محسوس نا ہونے دیا کہ وہ ایک اجنبی قوم کے انسانوں کے رحم پر ہے۔مسلمان ملاح اسے دیکھتے اور آنکھیں جھکا لیتے۔پہلے ہی دن وہ محسوس کرنے لگی کہ ان سب کی نگاہیں اس کی بھائی کی نگاہوں سے مختلف نہیں۔
ناہید کی تیماداری نے بھی اسے بہت متاثر کیا تھا۔ان سب سے بڑھ کر وہ خالد کے طرزِ عمل سے متاثر ہوئی تھی۔نجانے کیوں اس کی نگاہیں اسے دیکھنے اور کان اس کی آواز سننے کے لیے بےقرار رہتے اور جب وہ سامنے آتا اسے آنکھ اٹھانے کی جرات تک نا ہوتی۔ وہ بےپروائی سے منہ پھیر کر چلا جاتا اور وہ دیر تک اپنے دل کی دھڑکنیں سنتی رہتی۔کبھی طرح طرح کے خیالات سے پریشان ہوکر وہ اپنے آپ کو کوستی۔
رات کے وقت وہ اپنے ہم عمر لڑکے سے مرعوب ہونے کی بجائے اسے نفرت اور حقارت اور بے پروائی سے دیکھنے کا ارادہ لے کر سوتی لیکن صبح کی نماز کے بعد جب عرب نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔وہ ان ارادوں کے باوجود اٹھ کر عرشے پر چلی جاتی اور ایک طرف کھڑی ہوکر نیلگوں سمندر کی لہروں سے دل بہلانے کی کوشش کرتی لیکن جلد کی اکتا کر منہ پھیر لیتی اور نمازیوں کی طرف دیکھتی غیر شعوری طور پر اس کی نگاہیں خالد پر مرکوز ہوجاتیں۔خالد کی وجہ سے اسے دوسرے نمازیوں کا رکوع و سجود پسند آتا۔ نماز کے بعد خالد کے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہوتے دیکھ کر اسے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا طریقہ دلکش معلوم ہوتا۔
اسلام کے ساتھ اس کی پہلی دلچسپی اس لیے تھی کہ یہ خالد کا دین تھا۔عربی زبان وہ اس لیے سیکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ یہ زبیر کی زبان تھی