مہاراجہ سراندیپ تخت پر روبق افروز تھا۔تخت سے نیچے دائیں بائیں آبنوس کی کرسیوں پر چند سردار حسبِ مراتب بیٹھے تھے۔راجہ کے دائیں ہاتھ سب سے پہلی کرسی راجکمار اودھے رام کی تھی۔راج کمار ایک خوش شکل اور بارعب نوجوان تھا۔کرسیوں کے پیچھے کے پیچھے دوقطاروں میں چند عہدہ دار ہاتھ باندھ کرکھڑے تھے۔چوبدار دربار میں داخل ہوا اور رسمی آداب بجالانے کے بعد بولا۔”مہاراج! دلیپ سنگھ حاضر ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔“
راجہ پریشان سا ہوگیا اور بولا۔”دلیپ سنگھ آگیا! ابوالحسن اور اس کے ساتھی کہاں ہیں؟“
چوبدار نے جواب دیا۔”مہاراج! ان میں سے اس کے ساتھ کوئی نہیں، ایک عرب نوجوان ہے اور وہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔“
راجہ نے بےقرار ہوکرکہا۔”بلاو انھیں جلدی کرو۔“
چوبدار کے واپس جانے کے تھوڑی دیر بعد دلیپ سنگھ ایک بیس بائیس سالہ عرب نوجوان حے عمراہ داخل ہوا۔دلیپ سنگھ کے ہاتھ میں چاندی کا ایک طشت تھا جس میں ایک سونے کی ڈبیا اور ایک خنجر تھا۔خنجر کے دستے میں بیش قیمت ہیروں کے نگینے جگمگا رہے تھے۔دلیپ سنگھ نے دروازے اور تخت کے درمیان مختلف مقامات پر تین بار جھکا۔پھر اگے بڑھا اور راجہ کے سامنے تخت رکھنےکے بعد ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا لیکن اس دوران میں راجہ، ولی عہد اور باقی حاضرین دربار کی نگاہیں زیادہ تر اس کے نوجوان ساتھی پرمرکوز تھیں۔
یہ زمانہ جس سے ہماری داستان تعلق رکھتی ہے عرب کے سہرہ نشینوں کی تاریخ کا سنہری زمانہ تھا۔اسلامی فتوحات کی سیلابی موجوں کے سامنے اس سے کئی سال پہلے کفر کے مضبوط قلعوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکیں تھیں اور اب ایک زبردست ریلا انھیں خس وخاشاک کی طرح بہائے لے جارہا تھا۔ترکستان، آرمینیا اور شمالی آفریقہ کے میدانوں میں ان کے گھوڑے سرپٹ دوڑ رہے تھے۔فتوحات کے سیلاب کی ایک لہر مشرق میں مکران تک پہنچ چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قرب وجوار کے ممالک کے باشندے ہر عرب کے چہرے پر سکندر کا بخت، ارسطو کی سی فراست اور سلمان(علیہ السلام) کا سا جاہ و جلال دیکھنے کے عادی ہوچکے تھے۔روئے زمین کی ایک پسماندہ قوم اسلام کی دولت سے مالا مال ہوکر دنیا کی نگاہوں میں وہ بلندی حاصل کرچکی تھی جو آج تک کسی قوم کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
سیلون(سراندیپ) کے راجہ کے دربار میں وہ نوجوان کھڑا تھا۔جس کے آباواجداد قادسیہ اور یرموک کی جنگوں میں مشرق اور مغرب کی دو عظیم سلطنتوں کی عظمت خاک میں ملا چکے تھے، وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جن کی صورت دیکھنے کے بعد کسی کو ان کی سیرت کے متعلق تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔راجہ اور اس کے درباری ایک نظر میں اس کی صورت اور سیرت کی ہزار خوبیوں کے متعرف ہوچکے تھے۔وہ بے پروائی سے قدم بڑھاتا ہوا آگے بڑھا اور دیکھنے والوں کی نگاہیں اس کے جسم کی ہر جنبش میں ایک غایت درجہ کی خوداعتمادی دیکھنے لگیں۔اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور تمام درباری ہمہ تن گوش ہوگئے۔کچھ دیر ”السلام علیکم“ کے الفاظ راجہ اور درباریوں کے کانوں میں گونجتے رہے۔راجکمار وعلیکم السلام کہہ کر مسکراتا ہوا اٹھا اور تمام سردار اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔راج کمار نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور تمام سردار دربار کے آداب کا لحاظ نا رکھتے ہوئے باری باری آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کرنے لگے۔راجکمار نے اسے اپنے قریب بٹھا لیا اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں باتیں کرنے لگا۔
راجکمار نے پوچھا۔”آپ کا نام؟“
نووارد نے جواب دیا۔”زبیر۔“
”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“
”بصرہ سے“
”ابوالحسن اور ان کے ساتھیوں کا پتہ چلا؟“
زبیر نے کہا۔”نہیں! مجھے ڈر ہے کہ وہ راستے میں کسی حادثے کا شکار ہوچکے ہیں۔“
راجکمار کے چہرے پر مژمردگی چھا گئی۔
راجہ کچھ دیر یہ فیصلہ نا کرسکا کہ اسے راجکمار کی باتوں پر خوش ہونا چاہیے یاناراض، حاضرین تخت کی بجائے ان دو کرسیوں کی طرف دیکھ رہے تھے جن پر راجکمار اور عرب نوجوان رونق آفروز تھےاور راجہ کے لیے یہ نئی بات تھی لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کے منہ سے عربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سننے کی مسرت اس تلخی پر غالب آرہی تھی۔بالآخر اس نے کہا۔”ہم آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہیں۔“
زبیر نے جواب دیا۔”شکریہ! سراندیپ کے راجہ کو ہمارے خلیفہ اور وائی عراق سلام کہتے ہیں۔“
یہ فقرہ نصف عربی اور نصف سراندیپ کی زبان میں ادا کیا گیا۔راجہ اور ولی عہد کی مسکراہٹ دیکھ کر تمام درباری ہنس پڑے۔
راجہ نے پوچھا۔”آپ نے ہماری زبان کہاں سے سیکھی؟“
زبیر نے دلیپ سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔”یہ میرے استاد ہیں۔“
راجہ اور درباریوں نے دلیپ سنگھ کو پہلی دفعہ تاجہ کا مستحق سمجھا۔راجہ نے کہا۔”ہاں دلیپ! ابوالحسن کا کچھ پتا چلا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اس سال ہمارے ملک کا کوئی جہاز عرب کی کسی بندرگاہ تک نہیں پہنچا۔بصرہ،مکہ،مدینہ اور دمشق میں ہر جگہ ان میں سے کسی نا کسی کے رشتے دار موجود تھےلیکن سب نے یہی بتایا کہ وہ حج پر نہیں پہنچا۔وآپسی پر میں ہر بندرگاہ سے ان کا سراغ لگاتا آیا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے سندھ کے ساحل کے قریب ان کا جہاز کسی حادثے کا شکار ہوچکا ہے۔مہاراج نے دمشق کے بادشاہ اور عراق کے حاکم کو جو تحائف بھیجے تھے، وہ بھی ان کے پاس نہیں پہنچے، پھر بھی وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے تھے۔میں ان کی طرف سے یہ تحائف آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔اس سونے کی ڈبیہ میں ایک ہیراہے۔ یہ دمشق کے بادشاہ نے بھیجا ہے اور یہ خنجر عراق کے حاکم نے۔میں عربی نسل کے آٹھ گھوڑے بھی لایا ہوں۔چار سفید ہیں جو بادشاہ نے دیے ہیں اور چار مشکی ہیں جو عراق کے حاکم نے بھیجے ہیں۔انھیں شاہی اصطبل میں بھیجا گیا ہے۔“
راجہ نے اٹھ کر ڈبیا اٹھائی اور کھول کر کچھ دیر چمک دار ہیرا دیکھنے کے بعد خنجر اٹھا کر اس کے دستے کی تعریف کرتا رہا۔اس کے بعد اس نے دونوں تحفے راج کمار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہاں۔”دیکھو راجکمار!یہ تحفہ اس بادشاہ کا ہے جس کا لوہا ہر لوہے کو کاٹتا ہے۔جس کی سلطنت میں کئی دریا کئی ہہاڑ اور کئی سمندر ہیں۔جس کے سپاہی پتھر قلعوں کو مٹی کے گروندے سمجھتے ہیں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر دریاوں کو عبور کرتے ہیں اور یہ خنجرمجھے عراق کے حکم نے بھیجا ہےجس کے نام سے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے ہیں۔“
راجکمار کسی اور خیال میں تھا۔اس نے یہ دونوں چیزیں بےپرائی سے دیکھیں اور وزیر کے ہاتھ میں تھما دیں۔یہ تحائف جنھیں سراندیپ کا سادہ دل راجہ روئے زمین کے تمام خزانوں سے زیادہ قیمتی سمجھتا تھا۔یکے بعد دیگرے تمام درباریوں کے ہاتھوں میں گردش کرنے کے بعد پھر سے راجہ کے پاس پہنچ گئے۔وہ کبھی خجر کا دستہ ٹٹولتا اور کبھی ڈبیا کھول کر دیکھتا۔بالآخر اس نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”میرا جی چاہتاہے کہ میں اپنی آنکھوں سے تمہارا بادشاہ دیکھوں۔“
زبیر نے کہا۔”ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔“
راجہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ابوالحسن بھی یہی کہا کرتا تھا کہ مسلمان کسی کو بادشاہ نہیں بناتے۔آہ! بیچارہ کتنا اچھا تھا۔تلوار کا دھنی، بات کا پکا۔اس کی لڑکی کو کتنا صدمہ ہوگا اور وہ عبدالرحمن اور یوسف کس قدر شریف تھے۔بھگوان جانے یہ خبر سن کر ان کے بال بچوں کی کیا حالت ہوگی، آپ ان سے ملے ہیں؟“
”جی نہیں۔میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔“
زبیر نے اپنی جیب سے ایک خط نکال کر راجہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”یہ خط مجھے بصرہ کے حاکم نے دیا ہے۔“
راجہ نے دلیپ سنگھ کو اشارہ کیا۔دلیپ سنگھ نے زبیر سے خط لے لیا اور اسے کھول کر ترجمہ سنانے لگا۔
”مہاراج کو والی بصرہ سلام کہتے ہیں۔وہ عرب کی بیواوں اور یتیم بچوں کے ساتھ نیک سلوک کےممنون ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ مہاراج ان بیواوں اور یتیم بچوں کو بصرہ پہنچا دینے کا بندوبست کریں، وہ آپ کے ایلچی کے ساتھ اپنی فوج کے ایک سالار زبیر کو ایک جہازدے کر بھیج رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ بہت جلد ان کی روانگی کا بندوبست کردیں گے۔والی بصرہ کا خیال ہے کہ ابوالحسن اور اس کے ساتھی ہندوستان کے مغربی ساحل پر کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔اگر پتہ چلا کہ ان کا جہاز کسی علاقے کے بحری لٹیروں نے غرق کیا ہے تو انھیں سزا دینے میں کسی قسم کی تاخیر نا ہوگی۔“
خط کا مضمون سننے کے بعد راجہ گردن جھکائے دیر تک سوچتا رہا۔ زبیر نے راجکمار کی طرف دیکھا۔ وہ آبدیدہ ہوکر چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔زبیر نے کہا۔”آپ بہت پریشان ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو عربوں کے ساتھ بہت انس تھا۔“
راجکمار کے بھنچے ہوئے ہونٹوں پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔اس نے آنسووں کو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کی، پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور کوئی بات کیے بغیر عقب کے کمرے میں چلا گیا۔
راجہ کو بذاتِ خود ابوالحسن کے ساتھ دلی لگاو تھا۔اس کی موت کی خبر اس کے لیے کم المناک نا تھی لیکن مسلمانوں کے خلیفہ کے ایلچی کی موجودگی کا احساس اسے انتہائی ضبط سے کام لینے پر مجبور کررہا تھا۔راجکمات کے اٹھ جانے کے بعد اس نے زبیر اور دلیپ سنگھ کے سوا تمام درباریوں کو رخصت کا حکم دیا اور زبیرسے کہا۔”راجکمار کو ابوالحسن کے ساتھ بےحد انس تھا۔میں بھی اسے اپنا بھائی سمجھتا تھا۔مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہے لیکن یہ کیسے کہا وہ اور اس کے ساتھی مرچکے ہیں،ممکن ہے انھیں راستے میں بحری ڈاکووں نے گرفتار کرلیا ہو۔مجھے سب سے زیادہ بےچاری ناہید کا دکھ ہے ابھی وہ اپنی ماں کا غم نہیں بھولی ۔اب یہ صدمہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔“
زبیر نے سوال کیا۔”ناہید کون ہے؟“
راجہ نے جواب دیا۔”وہ ابوالحسن کی اکلوتی بیٹی ہے۔میں بھی اسے اپنی ہی بیٹی سمجھتا ہوں۔بہت اچھی لڑکی ہے۔“اس کے بعد راجہ دلیپ سنگھ کی طرف متوجہ ہوا۔”دلیپ! انھیں مہمان خانے میں لے چلو! اس بات کا خیال رکھنا کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نا ہو، میں راجکماری کو ان بچوں کو تسلی دینے کے لیے بھیجتا ہوں۔“
زبیر نے کہا۔”میں سیدھا آپ کے پاس چلا آیا تھا۔ان بچوں کو ابھی تک نہیں دیکھا۔“
”بہت اچھا۔دلیپ سنگھ! انھیں ان کے پاس لے جاو!“
محل کے دروازے پر دلیپ سنگھ اور زبیر کو انیس برس کا ایک نوجوان ملا۔اس نے دلیپ سنگھ کو دیکھتے ہی سوال کیا۔”کیا یہ سچ ہے کہ اباجان کا جہاز جدہ نہیں پہنچا؟“
دلیپ سنگھ نے ہاتھ بڑھا کر اسے گلے لگا لیا اور کہا۔”خالد میں ہر شہر اور ہر بندرگاہ میں انھیں تلاش کرچکا ہوں لیکن ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔“
خالد نے کہا۔”میں ابھی بندرگاہ سے ہوکرآیا ہوں۔عرب کے چند جہازران بتاتے تھے کہ ان کا جہاز سندھ کے ساحل کے قریب غرق ہوچکا ہے۔آپ دیبل کے حاکم سے ملتے شاید کوئی سراغ مل جاتا۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا”سندھ کا راجہ اور اس کے اہلکار بہت مغرور ہیں، مجھے ڈر تھا کہ دیبل کا سردار مجھے کوئی تسلی بخش جواب نا دے گا۔اس لیے میں نے خود وہاں جانے کی بجائے مکران کے مسلمان گورنر کو کہا تھا کہ وہ اپنا ایلچی بھیج کر معلوم کریں۔دمشق میں آپ کے خلیفہ اور بصرہ میں ججاج بن یوسف کو ملنے کے بعد میں واپسی پر پھر مکران کے حاکم سے ملا تھا۔ سندھ سے ان کا ایلچی وآپس آچکا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ دیبل کے حاکم نے اس جہاز کے متعلق لاعلمی ظاہر کی ہے۔“
خالد نے کہا۔”میں بدرگاہ سے سیدھا اسی طرف آیا ہوں۔کیا آپ ہمارے گھروں میں یہ خبر پہنچا چکے ہیں؟“
”نہیں! ہم ابھی وہاں نہیں گئے۔میں انھیں مہمان خانے میں ٹھرا کر تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“
خالد زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔”آپ کی مہمان نوازی ہمارا حق ہے۔آپ میرے ساتھ چلیں۔کم از کم عورتوں اور بچوں کو تسلی دینے کے لیے تو۔۔۔۔۔۔!!!“
زبیر نے کہا۔”چلو دلیپ سنگھ!“
اس نے جواب دیا۔”اگر مناسب خیال کریں تو آپ زبیر کے ساتھ ہو آئیں میں اتنی دیر میں آپ کے ساتھیوں کو ٹھرانے کا انتظام کرآوں۔“
زبیر خالد کے ساتھ چل دیا۔راستے میں اس نے پوچھا۔ ”تم ابوالحسن کے بیٹے ہو؟“
”ہاں! لیں آپ کو کس نے بتایا؟“
”میں تمام راستے دلیپ سنگھ سے تم لوگوں کے متعلق پوچھتا آیا ہوں۔اس کی باتوں سے تمہاری جو تصویر میرے ذہن میں تھی تم اس سے مختلف نہیں ہو۔جس صبر و سکون کے ساتھ تم نے یہ خبر سنی ہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔تم سچ مچ خالد ہو؟“خالد نے اپنے ہونٹوں پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔” جب ابا جان حج کے لیے رخصت ہورہے تھے تو میں نے بھی ساتھ جانے کے لیے اصرار کیا تھا۔امی کی علالت کی وجہ سے انھوں نے مجھے ساتھ لے جانے سے انکار کردیا۔میں اس وقت پہلی بار رویا تھا۔میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انھیں بہت دکھ ہوا تھا۔ انھوں نے کہا بیٹا خالد رویا نہیں کرتے۔میں نے تمہیں اس مجاہدِ اعظم کا نام دیا ہے جو زخموں سے چور ہونے کے باوجود اف تک نا کرتا تھا۔“
شہر کے ایک کونے پر ایک ندی کے پاس عرب تاجروں کے مکانات تھے۔ندی کے دونوں کناروں پر ناریل کے سرسبز درخت کھڑے تھے۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد خالد نے پتھر کی ایک چار دیواری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”یہ ہے ہمارا مکان۔“
چاردیواری کے اندر کیلے اور ناریل کے درختوں کا ایک گنجان باغیچہ تھا۔پتھر کے چھوٹے سے مکان کے سامنے ایک چبوترے پر بانس کا چھپر تھا،جسے ایک سرسبز بیل نے ڈھانپ رکھا تھا۔ہوا بند ہونے سے فضا میں حرارت بڑھ رہی تھی۔زبیر کو پسینے میں شرابور دیکھ کر خالد نے اسے مکان کے اندر لے جانے کی بجائے اس چبوترے پر بٹھانا مناسب خیال کیا۔
زبیر بید کے منڈھے پر بیٹھ گیا۔خالد کے اشارے سے ایک سیاہ فام لڑکا پنکھے سے اسے ہوا دینے لگا۔سیاہ فام لڑکا پنکھا ہلانے میں ایک طرح کی مسرت محسوس کررہا تھا لیکن زبیر نے خالد سے کہا۔”ہمیں اس گرمی میں اسے تکلیف نہیں دینی چاہیے! اسے کہو آرام کرے۔“
سیاہ فارم لڑکے نے عربی میں جواب دیا۔”آپ ہمارے مہمان ہیں۔مجھے خدمت کے حق سے محروم نا کیجیے۔“
زبیر نے کہا۔”اوہو! تم عربی جانتے ہو۔“
لڑکے کی بجائے خالد نے جواب دیا۔”یہ بچپن سے ہمارے ساتھ رہتا ہے۔اسے ہمارے ابا نے پالا تھا۔“
لڑکے نے مزید تعارف کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا۔”اور میں مسلمان ہوں۔میرا نام علی ہے۔“
خالد نے سراندیپ زبان میں کچھ کہا اور علی پنکھا رکھ کربھاگتا ہوا پاس ہی ایک ناریل کے درخت پر چڑھ کر چند ناریل توڑ لایا۔
ناریل کا پانی پینے کے بعد زبیر خالد سے کچھ دیر باتیں کرتا رہا۔اپنے باپ کے المناک انجام کے باوجودخالد عربوں کی روائتی مہمان نوازی کا ثبوت دینے کے لیے ہر بات میں دلچسپی لینے کی کوشش کررہا تھا۔تاہم زبیر نے کئی بار محسوس کیا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک غمگین مسکراہٹ آہوں اور آنسووں سے کہیں زیادہ جگردوز تھی۔
باتیں کرتے کرتے خالد نے کئی بار باہر کے پھاٹک کی طرف اٹھ اٹھ دیکھنے کے بعد علی سے پوچھا۔”علی! ناہید ابھی نہیں آئی۔جاو اسے بلا لاو!“
علی اٹھ کر باہر نکل گیا۔خالد نے زبیر سے کہا۔”مہارانی اور راجہ کی بیٹی کو میری بہن سے بہت محبت ہے۔آج صبح وہ خود یہاں آکر اسے اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔اسے یہ خبر سن کر بہت صدمہ ہوگا۔وہ ابھی تک امی کی قبر پر ہر روز جایا کرتی ہے اور اب!“
یہاں تک کہہ کر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا۔زبیر نے مغموم لیجے میں پوچھا۔”آپ کی والدہ کب فوت ہوئیں؟“
انھیں فوت ہوئے دو مہینے ہو چکے ہیں۔ابا کے حج پر جانے کے بعد وہ چھ مہینے موسمی بخار میں مبتلا رہیں لیکن ان کی موت کا باعث اباجان کا لاپتہ ہونا تھا۔ وہ صبح و شام مکان کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھا کرتی تھیں۔جب دور سے کوئی جہاز نظر آتا تو ان کے چہرے پر رونق آجاتی۔وہ مجھے خبر لانے کے لیے بندرگاہ کی طرف بھیجتیں اور جب میں مایوس لوٹتا تو دور سے میری شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھیں پتھرا جاتیں۔زندگی کی آخری شام ان میں زینے پر پاوں رکھنے کی ہمت نا تھی۔ان کے اصرار پر ہم ان کی چارپائی چھت پر لے گئے۔وہ تکیے کا سہارا لے کر دیر تک سمندر کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہیں۔بدقسمتی سے ہمیں اس دن کوئی جہاز بھی دکھائی نا دیا۔میں مغرب کی اذان سن کر نیچے اترا اور یہاں سے نزدیک ہی ایک مسجد میں چلا گیا۔جب وآپس آیا تو وہ آخری سانس لے چکی تھیں۔ان کی آنکھیں کھلیں تھیں اور ایسا لگ رہا تھا دور افق پر کسی جہاز کو دیکھ رہی ہیں۔ناہید نے مجھے بتایا کہ ان کے آخری الفاظ یہ تھے۔”ناہید تمہارے ابا آئیں گے۔اور ضرور آئیں گے۔۔۔۔وہ بےوفا نہیں ہیں۔میں بےوفا ہوں جو ان کا انتظار نا کرسکی۔“
زبیر نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں تیروں اور نیزوں کے سوا کچھ نا دیکھا تھا۔وہ ایک نڈر ملاح اور فقط طوفانوں سے کھیلنا جانتا تھا۔اس کی زبان میٹھے اور شیریں الفاظ سے نا آشنا تھی۔خالد کی باتوں سے بےحد متاثر ہونے کے باوجود وہ تسلی اور تشفی کے موزوں الفاظ تلاش نا کرسکا۔وہ صرف اتنا کہہ کرخاموش ہوگیا۔”خالد! مجھے ان کی حسرت ناک انجام کا بہت دکھ ہے۔کاش! میں تمہارے حصے کا بوجھ اٹھا سکتا۔“
علی بھاگتا ہوا وآپس آیا اور کہنے لگا۔”وہ آرہی ہیں۔“
زبیر کی نگاہیں نادانستہ باہر کے دروازے پر مرکوز ہو کررھ گئیں۔ناہید آئی اور دور سے اپنے بھائی کے ساتھ ایک اجنبی کو دیکھ کر جھجکی، رکی اور چہرے پر نقاب ڈال لیا۔ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی آگے بڑھی۔
زبیر کو دلگداز آواز سنائی دی۔”کیا یہ سچ ہے کہ ابا جان۔۔۔۔۔“
فقرے کا آخری حصہ ہچکیوں میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔
زبیر نسوانی حسن و وقار کی ایک غیرفانی جھلک دیکھ چکا تھا۔اس کی نگاہیں اس کے لیے تیار نا تھیں اور بیشتر اس کے کہ ناہید کا چہرہ نقاب میں چھپتا، اس کی نگاہوں کا رخ بدل چکا تھا۔وہ سامنے دیکھنے کی بجائے نیچے دیکھ رہا تھا۔
زبیر میں غایت درجہ کی حیا، والدین اور ماحول کی تربیت کا نتیجہ تھی اور اس کے علاوہ اس کے قرادار کی سب سے بڑی خوبی حددرجہ خوداعتمادی تھی۔وہ لڑکپن میں اپنے باپ کے ساتھ دوردراز کے ممالک میں چکر لگایا کرتا تھا۔اوائل شباب میں اسے ایک تجربہ کار جہازران مانا جاتا تھا۔وہ دور دراز کے ممالک میں غیر اقوام کی ان شوخ وطرار لڑکیوں کو دیکھ چکا تھا جو متاثر ہونے والی نگاہوں کی تلاش میں پھرتی ہیں۔شام وفلسطین میں بےشمار بےباک نگاہیں اس کے مردانہ حسن کا اعتراف کرچکی تھیں۔لیکن اس کے دور کے عام نوجوانوں کی طرح وہ نگاہیں نیچی رکھنے کا عادی تھا۔
زبیر جہاز پر سفر کے دوران دلیپ سنگھ سے ہرعرب بچے کے متعلق سوالات پوچھ کر اپنے ذہن میں ان کی خیالی تصور بنا چکا تھا۔دلیپ سنگھ سے ابوالحسن اور اس کے بچوں کے متعلق جو کچھ وہ سن چکا تھا اس سے اس کا اندازا یہ تھا کہ ابوالحسن کے بچے شکل و شباہت اور عادات و اطوار میں باقی تمام بچوں سے مختلف ہوں گے۔یہ اس کی دلچسپی کی پہلی وجہ تھی۔پھر خالد کی زبانی جو کچھ اس نے سنا، اس کی دلچسپی میں اضافہ بھی ہوگیا اور اس کے بعد جب علی ناہید کو بلانے کے لیے گیا تو سابقہ دلچسپی کے ساتھ ایک ہلکی سی خلعش کا بھی اضافہ ہوگیا لیکن اس کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس قوم کی ایک ستم رسیدہ لڑکی ہے۔
ناہید نے پھر کہا۔”مجھے جواب دیجیے کیا یہ سچ ہے؟آپ مجھ سے کیا چھپانا چاہتے ہیں۔میں سن چکی ہوں۔“
خالد نے اٹھ کر آگے بڑھتے ہوئے جواب دیا۔”ناہید! تقدیر کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔“
زبیر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے پاس کوئی خوشی کی خبر نہیں لاسکا۔“
ناہید کوئی بات کیے بغیر مکان کی طرف چل دی اور چند قدم آہستہ آہستہ اٹھانے کے بعد بھاگ کر ایک کمرے میں داخل ہوگئی۔
خالد ایک لمحہ کے لیے تزبزب کی حالت میں کھڑا رہا۔بالآخر زبیر کی طرف دیکھ کربولا۔”میں ابھی آتا ہوں۔“
خالد بھاگ کرناہید کے کمرے میں داخل ہوا۔ناہید بستر پر منہ کے بل پڑی ہچکیاں لے رہی تھی۔خالد نے پیار سے اس کا بازو پکڑ کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”ناہید! صبر سے کام لو۔“
علی زبیر کے پاس تھوڑی دیر بےحس و حرکت کھڑا رہا۔پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچا۔ناہید کی آہیں سن کر اسے زمین کی ہر شے اداس اور غمگین نظر آرہی تھی۔وہ سہمتا اور ججھکتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور ڈرتے ڈرتے خالد کے بازو کو چھو کربولا۔”آپا ناہید کیوں رورہی ہیں؟“
خالد نے اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں دیکھ کر پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”علی! اباجان وآپس نہیں آئیں گے۔“
کم سن بچے کے منہ سے ایک جگر دوز چیخ نکلی ۔”نہیں نہیں! یہ نا کہیے۔ وہ ضرور آئیں گے۔“
خالد نے کہا۔”یہ دلیپ سنگھ کے ساتھ آئے ہیں۔ان کا جہاز شاید غرق ہوچکا ہے۔“
علی کی آنکھوں سے آنسووں کے چشمے پھوٹ نکلے اور وہ ہونٹ بھینچ بھینچ کر چیخوں کو ضبط کرتا ہوا باہر نکل گیا۔وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں اس کی آواز سننے والا کوئی نا ہو لیکن باہرنکلتے ہی اس نے پڑوس کے بہت سے لوگ اپنے گرد جمع کرلیے۔تھوڑی دیر میں عربوں کے تمام بچے، عورتیں اور مرد خالد کے مکان کے صحن میں جمع ہوگئے۔لوگوں کا شوروغوغا سن کر خالد باہر نکلا اور بیک وقت کئی زبانیں اس سے مختلف سوالات پوچھنے لگیں۔
طلحہ نے آگے بھر کر سب کو خاموش کیا اور پوچھا۔”کیا جہاز غرق ہونے کی خبر درست ہے؟“
خالد نے اثبات میں سرہلایا۔
اس نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیا یہ خبر آپ لائے ہیں؟“
زبیر نے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں کسی اچھی خبر کا ایلچی نا بن سکا۔“
طلحہ نے پوچھا۔”جہاز کیسے غرق ہوا؟“
زبیر نے کہا۔”ہم یہ معلوم نا کرسکے۔“
زبیر نے بیواوں اور یتیموں کو فرداً فرداً تسلی دینے کے بعد عرب وآپس جانے کے متعلق ان کے ارادے دریافت کیے۔
یتیم بچوں اور بیواوں نے یک زبان ہوکر وآپس جانے کی خواہش ظاہر کی۔زبیر دیر تک ان سے باتیں کرتا رہا۔بالآخر نمازِ عصر کی اذان سن کر اس نے لوگوں کے ہمراہ مسجد کا رخ کیا۔
طلحہ کے اصرار پر زبیر نے امام کے فرائض سرانجام دیے۔جب وہ مسجد سے نکلا تو دروازے پر راجکمار اور دلیپ سنگھ کھڑے تھے۔خالد کو دیکھ کر راجکمار کی سیاہ اور چمک دار آنکھیں پرنم ہوگئیں اور اس نے آگے بڑھ کر خالد کو گلے لگالیا۔
دلیپ سنگھ نے زبیر سے کہا۔”مہاراج نے آپ کو یاد کیا ہے۔خالد تم بھی چلو!“
زبیر نے کہا۔”میں ابھی ان سے مل کر آیا ہوں۔کوئی خاص بات تو نہیں؟“
”مہاراج کے دل پر ابوالحسن کی موت نے گہرا اثر کیا تھا۔اس وقت وہ آپ سے زیادہ دیر بات نا کرسکے۔“
زبیر نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے راجکمار کو بھی ان کے ساتھ گہری محبت تھی۔ان کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”ہاں! راجکمار کو بہت صدمہ ہوا ہے۔وہ انھیں بہت پیار کرتے تھے۔“
شاہی محل جاتے ہوئے زبیر کو لوگوں کا ایک ہجوم جلوس کی شکل میں دکھائی دیا۔دلیپ سنگھ نے کہا۔”مہاراج! آپ کے تحائف اور گھوڑوں کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔ان کے حکم سے گھوڑوں کا جلوس نکالا گیا۔گھوڑوں کی لگام تھام کر بازار میں چلنے کی عزت ان لوگوں کے حصے میں آئی ہے جو ہماری ریاست کے سب سے بڑے سردار ہیں۔اگر انہیں ابوالحسن کی موت کا غم نا ہوتا تو شاید خود بھی اس جلوس میں شرکت کرتے۔“
زبیر نے قریب سے دیکھا تو دربار میں سب سے اگلی کرسیوں پر براجمان ہونے والے آٹھ سردار گھوڑوں کی لگامیں تھامے ہجوم کے آگے چلے آرہے تھے۔ گھوڑوں پر جو دوشالے ڈالے گئے تھے وہ بیش قیمت موتیوں سے مرصع تھے۔
راجکمار نے مسکراتے ہوئے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیا آپ کے ملک میں بھی گھوڑوں کی یہ عزت ہوتی ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”نہیں! ہم زیادہ تران کے چارے اور پانی کی فکر کیا کرتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”یہ گھوڑوں کی عزت نہیں گھوڑے بھیجنے والوں کی عزت کی جارہی ہے۔“
آسمان پر بادل چھا رہے تھے اور ہوانسبتاً خوشگوار ہورہی تھی۔ راجہ محل کی دوسری منزل پر ایک دریچے کے سامنے بیٹھا سمندر کی طرف دیکھ رہا تھا۔زبیر اور اس کے ساتھیوں کے قدموں کی چاپ سن کر اس نے پیچھے مڑکردیکھا اور اٹھ کرزبیر کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد خالد کی طرف متوجہ ہوا۔”بیٹا! مجھے تمہارے باپ کی موت کا بہت دکھ ہے۔میرا خیال ہے کہ ان کا جہاز طوفان کے باعث غرق ہوچکا ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوگیا کہ راستے میں کسی نے حملہ کرکے ان کا جہاز غرق کردیا ہے تو میں اس کی سرکوبی کے لیے اپنے تمام ہاتھی اور سارے جہاز بصرہ کے حاکم کے سپردکردوں گا۔“
راجہ سامبے کرسیوں کی طرف اشارہ کرکے بیٹھ گیا۔زبیر اور خالد بھی بیٹھ گئے۔لیکن دلیپ سنگھ کھڑا رہا۔
راجہ نے دلیپ سنگھ کی طرف اشارہ کرکے کہا. ”بیٹھ جاو۔تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔کل سے تم ہمارے دربار میں تمام سرداروں سے اگے راجکمار کے پاس بیٹھا کرو۔“
دلیپ سنگھ اگے بڑھ کر راجہ کے پاوں چھونے کے بعد کرسی پر بیٹھ گیا اور راجہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”میں بصرہ کے حاکم کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا لیکن اگر آپ عرب بچوں کو لاوارث سمجھ کر یہاں سے لے جانا چاہتے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔میں انھیں اپنے بچے سمجھتا ہوں۔اگر وہ یہاں رہے تو ان کی ہرضرورت شاہی خزانے سے پوری ہوگی۔آپ ان سے پوچھ لیں، اگر انھیں یہاں کوئی تکلیف ہو تو بیشک انھیں اپنے ساتھ لے جائیے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”انھیں یہاں کوئی شکایت نہیں اور میں اپنی حکومت اورتمام عربوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری قوم کے یتیم بچے اپنے ملک سے اس قدر دور رہیں۔ان کی بہترین تعلیم و تربیت وہیں پرہوسکتی ہے۔اس کے بعد اگر وہ پسند کریں گے تو انھیں یہاں بھیج دیا جائے گا۔“
راجہ نے پوچھا۔”آپ سب کو لےجانا چاہتے ہیں؟“
”نہیں! طلحہ اور چند تاجر یہیں رہیں گے۔“
”لیکن خالد اور اس کی بہن تو یہیں رہیں گے نا؟“
”نہیں! یہ بھی ہمارے ساتھ جائیں گے۔“
راجکمار نے مغموم لہجے میں کہا۔”نہیں! انھیں ہم نہیں جانے دیں گے۔خالد کو میں اپنا بھائی بنا چکا ہوں۔“
”اور ناہید میری بہن ہے۔“ پچھلے کمرے کی آڑ سے ایک نسوانی آواز آئی اور چودہ پندرہ برس کی ایک لڑکی راجہ کے سامنے آکھڑی ہوئی۔اس کا رنگ راجکمار کی طرح سانوالہ تھا لیکن چہرے کے نقوش اس کی نسبت تیکھے، آنکھیں خوبصورت اور چمکدار تھیں۔اس نے خالد کی طرف دیکھا اور کہا۔”بھیا! تمہیں ماما جی بلاتی ہیں۔“
خالد آٹھ کردوسرے کمرے میں چلا گیا اور لڑکی نے چلتے چلتے راجہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”پتا جی! آپ ان کی باتیں ناسنیں۔“
راجہ نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”دیکھا آپ نے؟“
زبیر نے کہا۔”بہت اچھا۔میں ان کی مرضی پر چھوڑتا ہوں۔“
خالد تھوڑی دیر بعد سرجھکائے وآپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ راجہ نے کہا۔”بیٹا انھوں نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑ دیا ہے۔اب تم بتاو تم یہاں رہنا چاہتے ہو یا نہیں؟“
خالد نے جواب دیا۔”آپ کے ہم پر بہت سے احسانات ہیں۔اگر میرے پیشِ نظر دنیا کا کوئی آرام ہوتا تو میں آپ کا ساتھ کبھی نا چھوڑتا لیکن اس وقت ہماری قوم دور دراز کے ممالک میں جہاد کررہی ہے اور میری رگوں میں ایک مجاہد کا خون ہے۔میں نے سنا ہے کہ موجودہ وقت کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مجھ سے کم عمر لڑکے بھی جہاد کے لیے جارہے ہیں۔میں اس سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔“
راجہ کچھ دیر سرجھکا کر سوچنے کے بعد بولا۔”بیٹا! تم ابوالحسن کے بیٹے ہو۔ اگر تم ارادہ کرچکے ہو تو مجھے یقین ہے کہ تمہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ خوش نصیب ہے وہ قوم جس کی مائیں تم جیسے بچے جنتی ہیں۔“
خالد نے کہا۔”میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دیں۔“
راجہ نے جواب دیا۔”ابوالحسن کے بیٹے کی خوشی میری ناراضگی کا باعث نہیں ہوسکتی۔