حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے باہر نکل رہے تھے۔ اچانک ایک سوار دروازے پر آکر رکا۔ سوار کا چہرہ گرد میں اٹا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کی وجہ سے مرجھایا ہوا تھا۔ اس نے عمربن عبدالعزیز کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن خشک گلے سے آواز نہ نکل سکی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر خط نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈال کر عمربن عبدالعزیز کی طرف بڑھا لیکن دو تین قدم اٹھانے کے بعد لڑکھڑا کر زمین پر گرپڑا اور اس کے ساتھ ہی تھکے ہوئے گھوڑے نے اپنے بوجھ سے آزاد ہوتے ہی زمین پر گرنے کے بعد ایک جھرجھری لی اور دم توڑ دیا۔ یہ سوار زبیر تھا۔ لوگ اسے اٹھا کر مسجد کے حجرے میں لےگیے۔ تھوڑی دیر بعد جب سوار نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں۔ اس وقت عمربن عبدالعزیز اسکے منہ پر پانی کے چھینٹے دےرہے تھے۔ اس نے پانی کا پیالہ چھین کر پینے کی کوشش کی لیکن عمر بن عبدالعزیز نے کہا۔”تھوڑی دیر صبر کرو۔ تم پہلے ہی بہت زیادہ پانی پی چکے ہو۔ اب کچھ کھالو۔ معلوم ہوتا ہے تم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔“
عمربن عبدالعزیز کے اشارے پر ایک شخص نے زبیر کے سامنے کھانا رکھ دیا۔ لیکن اس نے کہا۔”نہیں! مجھے پانی کی ضرورت ہے۔“ اور پھر چونک کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔”میں پہلے ہی بہت وقت ضائع کرچکا ہوں۔ یہ خط لیکن۔۔۔۔۔۔۔؟“ جیب خالی پاکر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رھ گئیں۔
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”تمہارا خط میں پڑھ چکا ہوں۔تمہارے گھوڑے کے دم توڑنے اور تمہارے بےہوش ہوجانے سے مجھے یقین ہوگیا تھا کہ تم کوئی ضروری لائے ہو۔“
زبیر نے کہا۔”تو آپ محمد بن قاسم کے لیے کچھ کریں گے؟“
”میں دمشق جارہا ہوں_______“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھا اور سوال کیا۔”میرا گھوڑا تیار ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”جی ہاں!“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کے ساتھ چلوں گا!“
انھوں نے جواب دیا۔”نہیں! تم آرام کرو۔ تم گزشتہ سفر میں بہت نڈھال ہوچکے ہو!“
”نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔میرے نڈھال ہونے کی وجہ سفر کی کلفت سے زیادہ میرے دل کی بےچینی تھی۔ اب یہاں رہ کر انتظار کرنے میں مجھے سفر سے زیادہ تکلیف ہوگی!“
عمر بن عبدالعزیز نے کہا۔”بہت اچھا۔ تم کھانا کھا لو!“
زبیر نے جلدی جلدی کھانے کے چند نوالے منہ میں رکھنے کے بعد پیٹ بھر کر پانی پیا اور اٹھ کر بولا۔”میں تیار ہوں۔“
عمربن عبدالعزیز نے ایک عرب کو دوسرا گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیا اور زبیر سے کہا۔”آپ تھوڑی دیر بیٹھ جایے!“
زبیر نے کہا۔”اگر آپ کا حکم نہ ہوتو میں کھڑا رہنے کوترجیح دوں گا۔بیٹھنے سے انسان پر نیند اور تھکاوٹ کا حملہ نسبتاً زیادہ شدید ہوتا ہے!“
ایک عرب نے پوچھا۔”آپ نے راستے میں بالکل آرام نہیں کیا؟“
زبیر نے جواب دیا۔”دن کے وقت بالکل بھی نہیں اور رات کو بھی اس وقت جب میں بےہوش ہوجایا کرتا تھا۔“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”تم نے راستے میں کتنے گھوڑے تبدیل کیے؟“
”ارور سے بصرہ تک ہر پانچ کوس پر سپاہیوں کی چوکیوں سے میں تازہ دم گھوڑے تبدیل کرتا رہا لیکن بصرہ سے آگے وقت بچانے کے لیے میں نے سیدھا راستہ اختیار کرنا مناسب خیال کیا اور صحرائے عرب عبور کرتے ہوئے مجھے بعض اوقات ایک ہی گھوڑے پر کئی منزلیں طے کرنا پڑیں۔اس سے پہلے میری سواری میں پانچ گھوڑے دم توڑ چکے تھے۔“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”لوگ محمد بن قاسم کی فتوحات کی داستانیں تعجب کے ساتھ سنا کرتے تھے لیکن جس سپہ سالار کے پاس تمہارے جیسے سپاہی ہوں، اس کے لیے کوئی قلعہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہوسکتا!“
خادم نےآکر اطلاع دی کہ گھوڑے تیار ہیں۔زبیر اور عمربن عبدالعزیز حجرے سے باہر نکل کر گھوڑے پر سوار ہوگئے۔
سلیمان کو سندھ سے محمد بن قاسم کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ارور کی طرح مکران اور ایران کے ہر شہر کے باشندے راستے میں اس کا پرتپاک خیرمقدم کررہے تھے اور یزید نے بغاوت کے خوف سے اسے بیڑیاں پہنانے کی جرات نہیں کی۔ ان خبروں نے اس کے آتش انتقام میں تیل کا کام کیا۔ اس نے تمام تیر دیکھے اور ان میں سے جو سب سے زیادہ تیز اور جگردوز تھا، اسے محمد بن قاسم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر بصرہ روانہ کردیا، یہ صالح تھا۔غازی محمد بن قاسم کا بدترین دشمن!
بصرہ کے لوگ جس بےچینی اور بےقراری سے محمد بن قاسم کا انتظار کررہے تھے۔ اس سے صالح نے یہ اندازہ لگایا کہ بصرہ میں محمد بن قاسم کے ساتھ بدسلوکی کی گئی تو لوگ بغاوت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ محمد بن قاسم کو پابہ زنجیر بصرہ سے واسط لےجانا چاہتا تھا لیکن بصرہ کی عوام کا جوش و خروش دیکھ کر اسے اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔
ایک شام محمد بن قاسم کا قافلہ بصرہ سے تیس میل کے فاصلے پر ایک بستی کے قریب پہنچا۔ بستی کے لوگوں کو یہ اطلاع مل چکی تھی کہ سندھ کا فاتح اور سلیمان کا قیدی ایک رات یہاں قیام کرے گا۔ بستی کے مرد، عورتیں اور بچے فوج کی چوکی کے سامنے کھڑے تھے۔ عورتیں محمد بن قاسم کے علاوہ اس لڑکی کو دیکھنے کے لیے بیقرار تھیں، جس کی آواز نے سندھ کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ محمد بن قاسم کو دیکھتے ہی کئی نوجوان بھاگ کر اس کے گرد جمع ہوگئے۔ کئی ہاتھ بیک وقت اس کے گھوڑے کی باگ تھامنے کے لیے بڑھے۔ عورتوں نے چوکی سے کچھ فاصلے پر ہی محمل بردار اونٹ ٹھہرا لیا۔ زہرا اور ناہید کو ایک مکان میں لے گئیں۔
چوکی کے محافظ سپاہیوں نے مالک بن یوسف کو بتایا کہ صالح راستے کی ہر بستی میں محمد بن قاسم کی آو بھگت کی خبریں سن کر سخت مضطرب ہے اور اسے یہ خطرہ ہے کہ شاید بصرہ کے لوگ زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس کا خیر مقدم کریں گے۔اسے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ وہاں ناہید کی آواز اس کے حق میں بہت مضر ثابت ہوگی۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ محمد بن قاسم کو سیدھا واسط پہنچایا جائے۔ وہ ان لڑکیوں کو بھی بصرہ پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ شاید وہ صبح تک خود یہاں پہنچ جائے۔“
چوکی کے سالار نے مالک کو صالح کا وہ خط دکھایا جس میں یہ ہدایت تھی کہ محمد بن قاسم کو اس کی آمد تک روکا جائے۔
گزشتہ سفر میں محمد بن قاسم کو قریب سے دیکھنے کے بعد مالک بن یوسف کو اس کے ساتھ غایت درجہ کی عقیدت ہوچکی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ بصرہ کے لوگوں کا جوش و خروش سلیمان کو محمد بن قاسم کے خلاف اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردے گا۔ واسط ولید کی موت کے بعد پھر ایک بار خارجی عناصر کا مرکز بن چکا تھا، اسے امید نا تھی کہ وہاں سے محمد بن قاسم کے حق میں آواز اٹھے گی۔
وہ عشاء کی نماز کے بعد کچھ دیر اپنے خیمے سے باہر پریشانی کی حالت میں ٹہلتا رہا۔بالآخر وہ ایک مضبوط ارادہ لےکر محمد بن قاسم کے خیمے میں داخل ہوا۔ محمد بن قاسم شمع کی روشنی میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔
مالک نے کسی کے نام کوئی خط بھیجنا چاہتے ہیں تو میں انتظام کردوں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں یہ خط نہیں۔میں ایک نئی قسم کی منجنیق کا نقشہ تیار کررہا ہوں۔میرے خیال میں اس سے پتھر زیادہ دور اور زیادہ صحیح نشانے پر پھینکا جاسکے گا۔“
مالک نے جواب دیا۔”اس وقت آپ کو کچھ اپنے متعلق سوچنا چاہیے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں ایک فرد ہوں اور منجنیق ایک قوم کی ضرورت ہے۔ اگر مجھے قید کرلیا گیا تو آپ خود یہ نقشہ امیرالمومنین کے پاس پہنچا دیں!“
مالک نے جواب دیا۔”آپ کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔آپ بصرہ کی بجائے سیدھے واسط جارہے ہیں!“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”مجھے پہلے ہی یہ خیال تھا کہ وہ مجھے بصرہ لےجانے کی غلطی نہیں کریں گے۔“
مالک نے کہا۔”اب آپ اپنے متعلق فیصلہ کرسکتے ہیں۔ واسط کے بہت کم لوگ آپ کے حق میں آوازیں اٹھائیں گے لیکن آپ کے بصرہ پہنچ جانے پر ہزاروں مجاہد آپ پر جان دینے کے لیے تیار ہوں گے۔صالج آج رات یا صبح کسی وقت یہاں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد ہماری تدبیر بےسود ہوگی۔اس وقت ایک ہی صورت ہے کہ آپ فوراً لڑکیوں کو لےکر روانہ ہوجائیں۔وہاں آپ کر گھر کو اپنے لیے ایک قلعہ پائیں گے۔ اب اٹھیے، یہ وقت بہت نازک ہے!“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میری جان بچانے کے لیے آپ کتنے مسلمانوں کی جانیں قربان کرنا جائز سمجھتے ہیں؟ کیا اس سے پہلے بصرہ کے لوگوں کی بغاوتوں نے عالمِ اسلام کو کافی نقصان نہیں پہنچایا؟ کیا میری تنہا جان اس قدر قیمتی ہے کہ اس کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکڑا جائیں۔ ہزاروں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں؟ اگر میں عالمِ اسلام کو اس تباہی سے بچانے کے لیے قربان بھی ہوجاوں تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میری قربانی رائیگاں جائے گی۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ خلافت اب ملوکیت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تاہم مسلمانوں کا سوادِ اعظم اسے خلیفہ تسلیم کرنے کی غلطی کرچکا ہے اور اس وقت میری بغاوت فقط خلیفہ سلیمان کے خلاف ناہوگی بلکہ قوم کے سوادِ اعظم کے خلاف ہوگی لیکن ممکن ہے کہ میری قربانی کے بعد لوگ اپنی اس کمزوری کو محسوس کریں اور ان میں ایک ایسا اجتماعی ضمیر پیدا ہوجائے جو سلیمان کو راہِ راست پر لےآئے یا کم از کم سلیمان کے بعد وہ انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت ہوجائیں کہ سلیمان جیسوں کے لیے آگے بڑھنے کا موقع نہ ہو۔ اگر میرے انجام سے متاثر ہوکر عوام نے یہ محسوس کیا کہ وہ امارت کو کسی کی خاندانی میراث تسلیم کرنے میں غلطی پر تھے اور انھوں نے سلیمان کے بعد اس کے کسی خاندانی وارث کی بجائے کسی صالح مسلمان کو خلیفہ منتخب کیا، تو یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے لیے قربان ہونا میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہوں۔“
مالک بن یوسف نے لاجواب ہوکر کہا۔”آپ کا فیصلہ اٹل ہے۔ میں ہار مانتا ہوں لیکن ان لڑکیوں کے متعلق آپ نے کیا سوچا ہے؟ مجھے چوکی کے سپاہیوں سے معلوم ہوا کہ صالح بصرہ کے لوگوں کے اشتعال کے خوف سے انھیں بھی واسط لےجانا چاہتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کے بصرہ نا پہنچنے سے لوگ زیادہ مشتعل ہوں گے۔ بصرہ کے ہر گھر میں ناہید کا انتظار ہورہا ہے۔کیا یہ بہتر نہیں کہ صالح کے یہاں پہنچنے سے پہلے انھیں بصرہ روانہ کردیا جائے۔“
محمد بن قاسم نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔”مجھے صرف اس بات کا خیال ہے کہ ناہید، زبیر کی بیوی ہے اور صالح میری طرح زبیر کو بھی اپنا بدترین دشمن خیال کرتا ہے۔ تاہم مجھے یہ امید نہیں کہ وہ ناہید کے ساتھ کسی بدسلوکی کی جرات کرے گا!“
مالک نے جواب دیا۔”میں کئی برس صالح کے ساتھ گزار چکا ہوں، وہ انسان نہیں بلکہ سانپ ہے۔اگر ان لڑکیوں کے متعلق اس کے منہ سے گستاخی کا ایک لفظ بھی نکل گیا تو میں یقین دلاتا ہوں کہ میرے تمام ساتھی کٹ مرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس لیے میرا مشورہ قبول کیجیے اور ان لڑکیوں کو خالد کے ساتھ بصرہ بھیج دیجیے، میں چند سپاہی بھی ساتھ کیے دیتا ہوں اور اگر آپ کو اسلام کا مستقبل بہت عزیز ہے تو آپ انھیں ہدایت کرسکتے ہیں کہ وہ بصرہ میں کسی بغاوت کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔“
محمد بن قاسم کو اچانک ایک خیال آیا اور اس کے دل میں بعض دبے ہوئے احساسات جاگ اٹھے، وہ اٹھا اور بیقراری کی حالت میں خیمے کے اندر ٹہلنے لگا۔ مالک اس کی حرکات کا بغور مطالعہ کررہا تھا۔ محمد بن قاسم باربار مٹھیاں بھینچ کر کسی زبردست ارادے کے خلاف جنگ کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔کمرے میں چند چکر لگانے کے بعد وہ مالک سے کوئی بات کیے بغیر باہر نکل آیا اور ساتھ والے خیمے میں خالد کو آواز دی۔خالد بھاگتا ہوا باہر نکلا. تو اس نے کہا۔”خالد! ناہید اور زہرا کو بستی سے بلالو۔ جلدی کر۔“
خالد اسی رفتار سے بھاگتا ہوا بستی کی طرف چلا گیا اور محمد بن قاسم مالک کی طرف متوجہ ہوا۔”آپ فوراً چار گھوڑے تیار کروائیں۔نہیں پانچ، علی بھی ہمارے ساتھ جائے گا!“
مالک نے پرامید ہوکر پوچھا۔”تو آپ جارہے ہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”اگر تمہاری اجازت ہوتو میں انھیں بصرہ چھوڑ آوں۔میں ان شاء اللہ صبح تک واپس آجاوں گا۔“
مالک نے جواب دیا۔”آپ وآپس آنے حا نام نا لیں۔بہتر یہی ہے کہ آپ سندھ کا رخ کریں۔میں چنددنوں میں آپ کی بیوی کو وہاں پہنچا دینے کا انتظام کردوں گا۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میرے دوست! میرے متعلق باربار غلط اندازہ نہ لگاو۔میری شخصیت ایسی نہیں جو کہیں چھپ سکے۔ میں فقط چند لمحات کے لیے گھر جانا چاہتا ہوں اور وہ بھی اس صورت میں کہ تم میرے وعدے کا اعتبار کرو اگر صالح آج رات بصرہ سے روانہ نہیں ہوگیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے وآپس آجاوں گا۔“
”صالح جیسے آدمی ایسے حالات میں رات کے وقت سفر نہیں کیا کرتے۔وہ دن کے وقت عراق کی زمین پر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔میں گھوڑے تیار کرتا ہوں۔اگر آپ بصرہ پہنچ کر وآپس آنے کا ارادہ تبدیل کرلیں تو میری فکر نہ کریں، میں آپ کے ساتھ ایک سپاہی بھیج دیتا ہوں۔ آپ اس کے ہاتھ پیغام بھیج دیں۔ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سندھ چلا جاوں گا!“
محمد بن قاسم نے زرا تلخ ہوکر کہا۔”مالک تم مجھے باربار نادم نہ کرو۔اگر تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تو میں نہیں جاتا!“
مالک نے کھسیانا ہوکر کہا۔”نہیں! نہیں! میں گھوڑوں کا انتظام کرتا ہوں۔آپ تیار ہوجائیں۔“
تھوڑی دیر بعد محمد بن قاسم، خالد، ناہید، زہرا اور علی صبارفتار گھوڑوں پر بصرہ کا رخ کررہے تھے۔محمد بن قاسم نے راستے میں صالح سے ٹکر کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے بصرہ کی عام شاہراہ سے کترا کر ایک دوسرا اور نسبتاً لمباراستہ اختیار کیا۔
آدھی رات کے قریب خادمہ بھاگتی ہوئی زبیدہ کے کمرے میں داخل ہوئی اور اسے جھنجھوڑ کر جگاتے ہوئے کہنے لگی۔”زبیدہ! زبیدہ!! وہ آگئے وہ آگئے!“
زبیدہ پرایک سکتے کا عالم طاری تھا۔ خادمہ نے زرا بلند آواز میں کہا۔”زبیدہ! محمد آگیا!“
زبیدہ کی حالت اس بھٹکے ہوئے مسافر کی سی تھی، جسے کسی نے بےہوشی کی حالت میں تپتے ہوئے صحرا سے اٹھا کر نخلستان میں پہنچا دیا ہو جو ایک گھونٹ پانی کو ترسنے کے بعد دریا میں غوطے لگارہا ہو۔ جذبات کی شدت سے زبیدہ ایک ثانیہ کے لیے بےحس و حرکت بیٹھی رہی۔خادمہ نے مشعل جلاکر رکھ دی اور کہا۔” زبیدہ! اٹھو! ان کے ساتھ چند مہمان ہیں۔“
اتنی دیر میں زبیدہ اپنے حواس پر قابو پاچکی تھی۔” وہ کہاں ہیں؟“ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں سوال کیا۔
”وہ اصطبل میں گھوڑے باندھ رہے ہیں۔دو لڑکیاں صحن میں کھڑی ہیں۔“
زبیدہ نے باہر نکل کر چاند کی روشنی میں زہرا اور ناہید کو دیکھا اور کہا۔”آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں۔اندر آئیے۔ میں ابھی خواب دیکھ رہی تھی۔ آپ زہرا اور ناہید ہیں نا؟“
ناہید جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر زبیدہ سے لپٹ گئی اور زہرا کی آنکھوں میں ضبط کی کوشش کے باوجود آنسو امڈ آئے۔ ناہید سے علیحدہ ہوکر زبیدہ، زہرا کی طرف متوجہ ہوئی اور اس سے آنسووں کی وجہ پوچھنا چاہتی تھی لیکن اتنی دیر میں محمد بن قاسم، علی اور زبیر قریب آتے دکھائی دیے۔
محمد بن قاسم کے ساتھ دو اجنبی دیکھ کر زبیدہ نے ناہید اور زہرا کو اندر لےجانا چاہا لیکن ناہید نے کہا۔”ہمیں دوسرے کمرے میں آرام کرنے دیجیے۔ ہم بہت تھکی ہوئی ہیں۔“
زبیدہ نے کہا۔”بہت اچھا! آپ آرام کریں۔“
خادمہ زبیدہ کے اشارے پر ناہید اور زہرا کو دوسرے کمرے میں لےگئی اور محمد بن قاسم علی اور خالد کو اس کمرے میں پہنچانے کے بعد زبیدہ کے کمرے میں داخل ہوا۔
رات کے پچھلے پہر محمد بن قاسم اپنے کمرے میں بیٹھا زبیدہ سے باتیں کررہا تھا۔کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔زبیدہ کبھی کبھی اپنے شوہر کے چہرے سے نگاہ ہٹا کر باہر جھانکتی اور آنکھوں میں آنسو بھر کے رھ جاتی۔ سپیدہ صبح اسے شامِ جدائی کا پیغام دےرہا تھا۔ مرغِ سحر کی اذان سے کچھ دیر پہلے ہی محمد بن قاسم سفر کے لیے تیار ہوگیا۔
”زبیدہ کی والدہ محمد بن قاسم کے متعلق سلیمان کے ارادوں سے واقف ہوتے ہی زبیدہ کے ماموں اور بصرہ کے چند بااثر مسلمانوں کے وفد کے ساتھ دمشق روانہ ہوچکی تھی۔ محمد بن قاسم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ”افسوس میں ان سے نہ مل سکا۔زبیدہ! مجھے امید ہے کہ ناہید اور زہرا تمہیں اداس نہ ہونے دیں گی۔ابھی چند دن یہی کوشش کرنا کہ ان کی آمد کا کسی کو پتہ نہ چلے۔“
زبیدہ ہونٹ بھینچ بھینچ کر ہچکیوں کو ضبط کررہی تھی لیکن اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔”آپ سچ مچ جارہے ہیں؟“
محمد بن قاسم نے کہا۔”زبیدہ! خداحافظ!“
زبیدہ نے ملتجی ہوکر کہا۔”اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو اصطبل تک چھوڑ آوں؟“
اس نے جواب دیا۔”نہیں تم یہیں ٹھہرو_____اور میری طرف اس طرح نہ دیکھو!“
زبیدہ کی نگاہوں کے سامنے آنسووں کے پردے حائل ہورہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔”جائیے!“
محمد بن قاسم ایک لحظہ کے لیے پانی کے ان دو قطروں کی طرف دیکھتا رہا جن میں محبت اور اطاعت کےہزاروں دریا بند تھے۔ اس نے رومال نکال کر زبیدہ کے آنسووں کو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن اس نے پھر کہا۔”جائیے!“
محمد بن قاسم نے دو قدم آگے کی طرف اٹھائے اور ایک بار مڑ کر دیکھا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا باہر نکل گیا۔
اصطبل کے سامنے اسے خالد اور علی دکھائی دیے اور اس نے پوچھا۔”خالد! تم ابھی تک سوئے نہیں؟“
اس نے جواب دیا۔”ہم میں سے کوئی بھی نہیں سویا۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”جاو آرام کرو!“
”لیکن میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں!“
محمد بن قاسم نے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”میں تمہارے جذبات سے واقف ہوں لیکن مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ تم یہیں ٹھہرو یہ میری زندگی کا ایسا جہاد ہے جس میں مجھے ساتھیوں کی ضرورت نہیں!“
”میں اپنے سالار کے حکم کی تعمیل نے انکار نہیں کرسکتا لیکن میرے لیے یہاں ٹھہر کر آپ کے انتظار کی ہر گھڑی قیامت ہوگی!“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”یہ تمہارے سالار کا حکم نہیں۔تمہارے دوست کی خواہش ہے۔ ان حالات میں تمہارے لیے میرا ساتھ دینا ٹھیک نہیں۔ تم بعد میں آسکتے ہو۔“
خالد نے مایوس ہوکر علی کی طرف دیکھا اور وہ اصطبل سے گھوڑا نکال کر لایا۔
محمد بن قاسم نے گھوڑے پر سوار ہوکر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ خالد نے جذبات سے مغلوب ہوکر اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔”میرے دوست! میرے بھائی! میرے آقا! خدا حافظ!“
خالد کے آنسو محمد بن قاسم کے ہاتھ پر گرپڑے۔ وہ ہاتھ چھڑا کر علی کی طرف متوجہ ہوا۔ علی اس کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کانپتی ہوئی آواز میں خدا حافظ کہہ کر سسکیاں لینے لگا۔
دروازے سے باہر نکلتے ہوئے محمد بن قاسم نے پیچھے مڑ کر دیکھا صحن میں چندقدم کے فاصلے پر تین عورتیں کھڑی تھیں۔
جس وقت بصرہ کی مساجد میں آذانیں گونج رہی تھیں۔ محمد بن قاسم اس بازار میں سے گزررہا تھا جس میں کچھ عرصہ قبل بصرہ کے لوگوں نے سندھ پر حملہ کرنے والی افواج کے سترہ سالہ سپہ سالار کا شاندار جلوس دیکھا تھا۔
شہر سے کچھ دور جاکر اس نے ایک ندی کے کنارے صبح کی نماز ادا کی اور گھوڑے پر سوار ہوکر اسے سرپٹ چھوڑ دیا۔
خلیفہ سلیمان مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد قصرِ خلافت میں داخل ہورہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی۔”سلیمان!“
اس آواز میں غصہ بھی تھا اور جلال بھی۔ سلیمان نے چونک کر پیچھے دیکھا اور کہا۔”کون؟“ عمربن عبدالعزیز نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے سلیمان کا بازو پکڑلیا اور کہا۔”سلیمان! خدا کو کیا جواب دو گے؟“
سلیمان انتہا درجے کا خودپسند تھا لیکن عمربن عبدالعزیز کی شخصیت کے سامنے وہ مرعوب سا ہوکر رھ گیا۔ زبیر چندقدم کے فاصلے پر تھا لیکن شام کے دھندلکے میں وہ اسے پہچان نہ سکا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کرکہا۔” مجھے آپ کی گفتگو کو موضوع نازک معلوم ہوتا ہے۔ کیا اس کے لیے تخلیہ بہتر نہ ہوگا؟ آئیے! اندرچلیں۔“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”میں تو مسجد میں لوگوں کے سامنے تمہارا دامن پکڑنے کے لیے آیا تھا لیکن اب چلو جلدی کرو۔ آو زبیر تم بھی!“
چندقدم چلنے کے بعد تینوں محل کے کشادہ کمرے میں داخل ہوئے۔ سلیمان نے مشعل کی روشنی میں زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”میں نے تمہیں کہیں پہلے بھی دیکھا ہے۔“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”اب باتوں کا وقت نہیں۔ میں محمد قاسم کے متعلق کچھ کہنے کے کیے آیا ہوں۔“
محمد بن قاسم کا نام سن کر سلیمان غصے اور اضطراب کی حالت میں عمر کو دیکھا اور کہا۔”تو اس کی ساذش مدینے تک بھی پہنچ چکی ہے اور یہ اس کا دوست ہے؟“
زبیر نے کہا۔”میں اس کی دوستی سے انکار نہیں کرتا لیکن یہ غلط ہے کہ محمد بن قاسم آپ کے خلاف کوئی سازش کررہا ہے۔ میں یزید بن ابوکبشہ کا ایلچی بن کر مدینے پہنچا تھا۔“
سلیمان کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن عمربن عبدالعزیز نے یزید بن ابوکبشہ کا خط اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”پہلے یہ پڑھ لو یزید تمہارے خاص احباب میں سے ہے۔ اگر اسے محمد بن قاسم کی معصومیت ایسا خط لکھنےپر آمادہ کرسکتی ہے تو مجھ سے یہ توقع نہ رکھنا کہ میں تمہیں مسلمانوں کی گردن پر چھری رکھتے دیکھ کر خاموش رہوں گا۔ تم شاید اس بات پر خوش ہوگے کہ قدرت نے آج تمہیں انتقام کا موقع دیا ہے لیکن تم اس نوجوان کی عظمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ جس کے جانثار تمہارے جانثاروں سے کہیں زیادہ ہیں۔ جس کی تلوار تمہاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جس کے تیر تمہارے تیروں سے کہیں زیادہ جگردوز ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک عاقبت نااندیش امیر کے سامنے سرتسلیم خم کررہا ہے۔ تم نے پچاس آدمیوں کو اسے قید کر کے لانے کا حکم دے کر سندھ بھیجا تھا لیکن تم ہی بتاو تم خود اس کی جگہ ہوتے اور تمہارے پاس ایک لاکھ سے زیادہ جانثاروں کی فوج ہوتی اور یزید تمہیں جاکر خلیفہ کا یہ حکم سناتا کہ میں تمہیں زنجیریں پہنا کر لےجانا چاہتا ہوں۔ تو تم ان پچاس آدمیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ تمہارا اپنا بھائی تمہارا امیر تھا لیکن تم تمام عمر اس کے خلاف طرح طرح کی ساذشیں کرتے رہے لیکن محمد بن قاسم تمہیں اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے تم سے کسی بھلائی کی امید نا تھی۔ وہ اگر چاہتا تو سندھ کے ہر گھر کو اپنا قلعہ بنا سکتا تھا۔ وہ اگر تمہارے ایلچی کو قتل بھی کردیتا تو بھی شاید تم اس کا کچھ نا بگاڑ سکتے لیکن اس کے باوجود وہ تمہاری اطاعت سے منحرف نہیں ہوا۔ تم اپنے انتقام سے زیادہ نہیں سوچ سکے۔اس کے سامنے عالمِ اسلام کا مستقبل ہے۔ کیا تم اس سے اس بات کا انتقام لینا چاہتے ہو کہ وہ حجاج بن یوسف کا داماد ہے؟ اور فنونِ حرب کی نمائش میں اس نے تمہیں نیچا دکھایا تھا؟ کاش! جس طرح وہ ایک سپاہی کے فرائض سمجھتا ہے۔ اسی طرح تم بھی ایک امیر کے فرائض سمجھو۔ اس کی افواج ہندوستان کے آخری کونے تک اسلام کا پرچم لہرانے کا تہیہ کرچکی تھیں، اگر اسے واپس نا بلایا جاتا تو شاید وہ اس وقت تک راجپوتانہ فتح کرچکا ہوتا۔ آج مجھے دمشق پہنچتے ہی پتہ چلا کہ تم نے اسے صالح کی نگرانی میں واسط بھیج دیا ہے اور تم اس کے لیے کوئی بدترین سزا تجویز کرچکے ہو لیکن یاد رکھو تم اس کی عظمت اس سے نہیں چھین سکتے۔ لوگ جلاد کی تلوار بھول سکتے ہیں لیکن شہیدوں کا خون نہیں بھول سکتے۔ سلیمان! میں تمہیں بہت کچھ سمجھاتا لیکن اب باتوں کا وقت نہیں۔ اگر فاتح سندھ کے سینے میں پیوست ہونے والا تیر ابھی تک تمہارے ہاتھ میں ہے تو اسے روک لو۔ورنہ یاد رکھو آنے والے مورخ جہاں محمد بن قاسم کو اس زمانے کا سب سے بڑا مجاہد کہیں گے۔ اگر تم نے میری بات نا مانی تو شاید کل تک میں دمشق کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردوں کہ مسلمانوں کی جماعت میں تمہارے جیسے امیر کی کوئی جگہ نہیں!“
سلیمان کا غصہ ندامت میں تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ اضطراب کی حالت میں مٹھیاں بھینچ کے کمرے میں ٹہلنے کے بعد مشعل کے سامنے رکا۔ پھر اس نے عمربن عبدالعزیز اور زبیر کی طرف دیکھا اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔”کاش! آپ دودن پہلے آجاتے، میراتیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اب میں کچھ نہیں کرسکتا!“
عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا۔”تو تم اس کے قتل کا حکم بھیج چکے ہو؟“
سلیمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
زبیر نے کہا۔”اگر آپ دوسراحکم لکھ دیں تو شاید میں وقت پر پہنچ سکوں۔“
سلیمان نے تالی بجائی۔ایک غلام تعمیل کے لیے آموجود ہوا۔
سلیمان نے کہا۔”میرے اصطبل کا بہترین گھوڑا تیار کردو۔“
غلام چلاگیا اور سلیمان خط لکھنے میں مصروف ہوگیا۔
خط ختم کرنے کے بعد سلیمان نے عمربن عبدالعزیز کو دیتے ہوئے کہا۔”آپ پڑھ لیجیے۔“
عمربن عبدالعزیز نے خط پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد خط زبیر کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا۔
”اب خدا کرے، یہ وقت پر پہنچ جائے۔ تم بہت تھکے ہوئے ہو۔ کیا یہ بہتر ناہوگا کہ کسی اور کو بھیج دیا جائے؟“
زبیرنے جواب دیا۔”یہ خط حاصل کرنے کے بعد میری تھکاوٹ دور ہوچکی ہے۔میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ راستے میں آرام کیے بغیر واسط پہنچ سکتا ہوں۔ اگر مجھے راستے کی چوکیوں سے تازہ دم گھوڑے ملتے جائیں تو میرا ارادہ ہے کہ میں طویل راستہ اختیار کرنے کی بجائے سدھا صحرا عبور کرلوں۔“
سلیمان نے ایک اور حکم نامہ راستے کی چوکیوں کے نام لکھ کر زبیر کے حوالے کیا۔ غلام نے آکر اطلاع دی کہ گھوڑا تیار ہے۔زبیرنے سلیمان کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد عمربن عبدالعزیز کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔”آپ میرے لیے دعاکریں!“
عمربن عبدالعزیز(رحمتہ اللہ علیہ) نے خدا حافظ کہتے ہوئے زبیر کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جو چند لمحے پہلے ایک طویل سفر کی کلفتوں سے مرجھایا ہوا تھا، امید کی روشنی جھلک رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد زبیر ایک تیزرفتار گھوڑے پر واسط کا رخ کررہا تھا۔
صحرا عبور کرنے کے بعد زبیرایک رات تیسرے پہر کے قریب ایک سرسبز اور شادات علاقے میں سے گزررہا تھا۔مسلسل بے آرامی سےاس کے عضاء شل ہوچکے تھے، سردرد سے پھٹ رہا تھا۔گھوڑی کی تیز رفتاری کے باوجود پچھلے پہر کی ہوا کے خوشگوار جھونکے اسے ہتھے پر سر ٹیک کر دنیا ومافہیا سے بےخبر ہوجانے پر مجبور کررہے تھے۔ ایک ناقابلِ تسخیر عزم کے باوجود کبھی کبھی اس کی آنکھیں خودبخود بند ہوجاتیں، لگام پر ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی اور گھوڑے کی رفتار تھوڑی دیر کے لیے سست ہوجاتی لیکن ایک خیال اچانک کسی تیز نشتر کی طرح اس کے دل میں اترجاتا۔ وہ چونک کے ستاروں کی طرف دیکھتا اور گھوڑے کی رفتار تیز کردیتا۔
اس کی منزل قریب آچکی تھی۔ وہ تصور میں سلیمان کا خط صالح کے ہاتھ میں دے رہا تھا______قید خانے کے دروازے پر محمد بن قاسم سے بغل گیر ہورہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔”محمد! میں اب سوجانا چاہتا ہوں۔ کسی ندی کے کنارے۔ کسی درخت کی گھنی اور ٹھنڈی چاوں میں_____اور دیکھو، جب تک میں خود تازہ دم ہوکر نا اٹھوں، مجھے جگانا مت______نیند کتنی عجیب چیز ہے۔ہر دکھ کا مداوا_____ہر درد کا علاج_____میں کم از کم ایک دفعہ جی بھر کر سونا چاہتا ہوں_____لیکن نہیں____میرے دوست! تمہیں سلامت دیکھ کر میری نیند اور تھکاوٹ دور ہوجائے گی!“
افقِ مشرق پر صبح کا ستارہ نمودار ہورہا تھا۔ زبیر کا تصور اسے کہیں دور لےجارہا تھا۔ وہ پھر ایک بار دیبل کے راستے میں ایک ٹیلے پر کھڑا تھا اور کمسن اور نوجوان سپہ سالار کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے:-
”زبیر! مجھے اس ستارے کی زندگی پر رشک آتا ہے۔اس کی زندگی اس قدر مختصر ہے۔ اسی قدر اس کا مقصد بلند ہے۔ دیکھو! یہ دنیا کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا کہ میری عارضی زندگی پر تاسف ناکرو۔قدرت نے مجھے سورج کا ایلچی بنا کر بھیجا تھا اور میں اپنا فرض پورا کرکے جارہا ہوں۔کاش! میں بھی اس ملک میں آفتابِ اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے صبح کے ستارے کا فرض ادا کرسکوں۔“
زبیر کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور اس نے ایک بار پھر تھکے ہوئے گھوڑے کو پوری رفتار سے چھوڑ دیا۔ افقِ مشرق سے شب کی ردائے سیاہ سمٹ رہی تھی۔ *صبح کا ستارہ نور کے آنچل میں چھپ گیا* اور آفتاب خونی قبا پہن کا نمودار ہوا۔
زبیر نے آخری چوکی سے اپنا گھوڑا تبدیل کیا۔ دوکوس اور چلنے کے بعد زبیر کو حدِ نظر واسط کی مساجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ وہ ہر قدم پر بیم و رجا کے اٹھتے ہوئے طوفانوں میں امید کی مشعل جلارہا تھا۔
شہر کے مغربی دروازے پر آدمیوں کا ہجوم دیکھ کر زبیر نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور چندنوجوانوں کے کندھوں پر کسی کا جنازہ دیکھ کر اتر پڑا، ٹانگوں میں اس کا بوجھ سہارنے کی طاقت نا تھی۔ پھر بھی اس نے ہمت کرکے ایک عرب سے پوچھا۔”صالح کہاں رہتا ہے؟“
عرب نے اس کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔”تم کون ہو؟ اس سفاک سے تمہارا کیا کام ہے؟“
زبیر نے چندنوجوانوں کی پرنم آنکھیں دیکھیں پھر عرب کی طرف دیکھا اور دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر بولا۔”میں دمشق سے خلیفہ کا ضروری پیغام لے کر آیا ہوں۔“
عرب نے سوال کیا۔”خلیفہ نے اب کس کے قتل کا حکم بھیجا ہے؟“
زبیر نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے عرب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”یہ جنازہ کس کا ہے؟“
عرب نے جواب دیا۔”تم نے فاتح سندھ کا نام سنا ہے؟“
زبیر کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ چھوٹ گئی اور لڑکھڑا کر زمین پر گرپڑا۔ بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ایک نوجوان۔”زبیر!! زبیر!!“ کہتا ہوا آگے بڑھا اور اس کے قریب بیٹھ کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ درد بھری آواز میں کہہ رہا تھا۔”زبیر! اٹھو جلدی کرو۔عمادالدین محمد بن قاسم کا جنازہ جارہا ہے۔“
زبیر بےہوشی کی حالت میں بڑبڑا رہا تھا۔”محمد! میں اب سو جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔کسی ندی کے کنارے۔۔۔۔۔ کسی درخت کی ٹھنڈی اور گھنی چھاوں میں۔۔۔۔۔۔اور جب تک میں خود نہ اٹھو، مجھے جگانا مت۔“
نوجوانوں نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”زبیر میں خالد ہوں، میری طرف دیکھو۔ محمد چل بسا۔ سندھ کا آفتاب واسط کی خاک میں روپوش ہورہا ہے، اٹھو! لوگ تمہارے دوست کا جنازہ لےجارہے ہیں!“
زبیر نے آنکھیں کھولیں اور پریشان سا ہوکر بولا۔”خالد تم؟ میں کہاں ہوں؟ اف میں شاید بےہوش ہوگیا تھا۔ وہ جنازہ؟ مجھ سے شاید کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔نہیں!! نہیں!!۔۔۔۔۔وہ محمد بن قاسم نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔دیکھو میں اس کی رہائی کا حکم لایا ہوں۔“
زبیر نے خط نکال کر خالد کو دےدیا اور کہا۔” خالد! اسے جلدی سے صالح کے پاس پہنچا دو!“
خالد نے بےتوجہی سے کاغذ کے پرزے کی طرف دیکھا اور اسے زمین پر پھینک دیا۔ زبیر مبہوت ساہوکر خالد کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ایک معمر عرب نے جھک کر خط اٹھا لیا اور اسے کھول کر پڑھتے ہی چلا اٹھا۔” امیرالمومنین کا حکم تھا کہ اسے عزت کے ساتھ دمشق پہنچایا جائے۔ صالح نے اسے اپنے ارادے سے قتل کیا۔امیرالمومنین ایسا حکم نہیں دےسکتے تھے۔ واسط کے مسلمانو! محمد بن قاسم کی روح انتقام کے لیے پکاررہی ہے۔تم کیا دیکھتے ہو؟ آو میرے ساتھ آو!“
ہجوم کے کھسک جانے کے بعد خالد نے زبیر کو اٹھانے کے لیے سہارا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”میں اب ٹھیک ہوں، چلو!“
دونوں اٹھ کر قبرستان کی طرچ چلے۔
جس وقت لوگ محمد بن قاسم کی لحد پر مٹی ڈال رہے تھے، کوئی پچاس نوجوان صالح کے مکان کا دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئے اور تلواریں سونت کر اس پر ٹوٹ پڑے۔
ختم شد