برہمن آباد پہنچ کر جےسنگھ نے چاروں طرف ہرکارے دوڑائے۔ راجہ داہر کی شکست سے پہلے ملتان سے لےکر راجپوتانہ تک کئی راجہ اور سردار اپنی اپنی افواج کے ساتھ اس کی مدد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔لیکن نیرون کی فتح کے بعد جب محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کرنے کی بجائے سیون اور سوستان کی طرف پیش قدمی کی تو انھیں یہ اطمینان ہوگیا کہ برہمن آباد کے قریب فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے ابھی کافی وقت ہے۔ جون میں دریا بھی زوروں پر تھا اور کسی کو یہ امید نا تھی کہ محمد بن قاسم اسے عبور کرنے کے لیے پانی اتر جانے کا انتظار نہیں کرے گا۔ اس لیے انھوں نے راستے کی منازل نہایت سکون و اطمینان سے طے کیں۔ راجہ داہر کو بذاتِ خود اپنے اندازے سے بہت پہلے محمد بن قاسم کے مقابلے میں صف آرا ہونا پڑا اور دور دراز سے آنے والے بہت کم مدد گار وقت پر پہنچ سکے۔
سندھ کی افواج کی شکست اور اس سے زیادہ راجہ داہر کی موت کی غیر متوقع خبر نے ان میں سے اکثر کو بددل کردیا اور جےسنگھ کی مدد کے لیے برہمن آباد پہنچنے کی بجائے وآپس ہونے لگے۔جے سنگھ ان لوگوں کی مدد کے بھروسے پر ایک اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا ارادہ کررہا تھا۔ چنانچہ اس نے یہ مشہور کردیا کہ راجہ داہر مرا نہیں، وہ شکست کھانے کے بعد جنوبی ہند کے راجاوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے جاچکا ہے اور چنددنوں میں اپنے ساتھ لشکرِ جرار لےکر برہمن آباد پہنچ جائے گا۔ جےسنگھ کے ہرکاروں نے مایوس ہوکر لوٹنے والے راجہ اور سرداروں کو یہ خبر سنائی تو وہ آخری فتح میں حصہ دار بننے کی امید پر یکے بعد دیگرے اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔
محمد بن قاسم کے پاس یہ خبریں پہنچیں تو اس نے فوراً پیشقدمی کی۔ جےسنگھ کے جھنڈے تلے قریباً پچاس ہزار سپاہی جمع ہوچکے تھے۔اس لیے اس نے شہر سے باہر نکل کر محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا۔محمد بن قاسم کی فوج میں بھی سندھ کی عوام کے علاوہ کئی سردار شامل ہوچکے تھے۔ ان سرداروں کی قیادت بھیم سنگھ کے سپرد تھی۔برہمن آباد کی دیواروں کے باہر گھمسان کا رن پڑا۔ جےسنگھ کے راجپوت ساتھی نہایت ہی بہادری کے ساتھ لڑے اور سندھی سپاہی عربوں کے جھنڈے تلے اپنے ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر بددل ہوگئے۔ بھیم سنگھ کے بعض پرانے ساتھیوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی مسلمانوں کی فوج کے ساتھ آملے۔پھر بھی جےسنگھ کو نئے مددگاروں کی فوج کی تعداد پر بھروسہ تھا اور اس نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ تیسرے پہر سندھی افواج کے پاوں اکھڑ گئے اور جے سنگھ بیس ہزار لاشیں میدان میں چھوڑ کر جنوب کی طرف بھاگ نکلا۔
برہمن آباد کے شاہی محل کے ایک کمرے میں راجہ داہر کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ محبوب رانی سنہری مسند پر رونق آفروز تھی۔ رانی کا نام لاڈھی تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے پر حزن و ملال کے آثار تھے۔ چند خادمائیں اور امرا اردگرد ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔
پرتاپ رائے سرجھکائے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا کمرے میں داخل ہوا اور رانی کے قریب پہنچ کر آہستہ سے بولا۔”مہارانی! جےسنگھ کو شکست ہوچکی ہے اور دشمن تھوڑی دیر میں شہر پر قبضہ کرنے والا ہے۔اب ہمارے لیے بھاگ نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ہم سرنگ کے راستے نکل سکتے ہیں۔“
رانی نے ترش روئی سے جواب دیا۔”شکست کے متعلق میرے پاس اطلاع لانے کے لیے محل کی عورتیں کافی تھیں۔تم میدان چھوڑ کر کیوں آئے؟“
”مہارانی کی حفاظت میرا فرض تھا۔اب باتوں کا وقت نہیں۔چلیے میں نے سرنگ کے دوسرے سرے پر گھوڑوں کا انتظام کردیا ہے۔ آپ کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر ارور پہنچ سکتی ہیں!“
رانی نے تنگ آکر کہا۔”میں تمہارے جیسے بزدل کی حفاظت میں جان بچانے پر ایک بہادر دشمن کے ہاتھوں موت کو ترجیح دوں گی!“
پرتاپ رائے نے کھسیانا ہوکر کہا۔”یہ میرے ساتھ انصاف نہیں۔ میں آپ کا ایک وفادار خادم ہوں۔“
”تمہارے لیے انصاف کا وقت آچکا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے رانی مسند سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
پرتاپ رائے نے پریشان ہوکر کہا۔”مہارانی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔میں آپ کی بھلائی کی بات کہتا ہوں!“
رانی نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔”تم اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہو۔سندھ پر یہ مصیبت تمہاری وجہ سے آئی ہے۔ مہاراج کو عربوں کے ساتھ جنگ مول لینے کے لیے تم نے ورغلایا۔جےرام کو تم نے ہمارا دشمن بنایا۔بھیم سنگھ، اودھے سنگھ جیسے بہادر سپاہی تمہاری وجہ سے دشمن کے ساتھ جاملے۔پچھلی جنگ کے میدان سے سب سے پہلے بھاگنے والے تم تھے اور اب تم میری جان بچانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی جان کے خوف سے مجھے اپنے ساتھ لےجانا چاہتے ہو۔عرب عورتوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔اس لیے ہماری وجہ سے شاید وہ تمہیں بھی چھوڑ دیں۔“
پرتاپ رائے نے کہا۔”مہارانی! آپ کیا کہہ رہی ہیں۔سنیے! دشمن قلعے میں داخل ہورہا ہے۔اب وہ کوئی دم میں ادھر آرہا ہے۔اگر آپ کو اس کی قید کی ذلت کا خوف نہیں، تو میں جاتا ہوں۔“
پرتاپ رائے نے یہ کہہ کر وآپس مڑنا چاہا لیکن رانی نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور ایک چمکتا ہوا خنجر دیکھاتے ہوئے کہا۔”ٹھہرو! ابھی تمہارا فیصلہ نہیں ہوا۔“
پرتاپ رائے نے لوگوں کو ننگی تلواروں کے ساتھ اپنے گرد جمع ہوتے دیکھا تو ایک طرف جست لگا کر تلوار سونت لی۔رانی ایک درباری کے ہاتھ سے تلوار لے کر آگے بڑھی اور بولی۔”بزدل! تمہارے ہاتھ تلوار اٹھانے کے لیے نہیں چوڑیاں پہننے کے لیے بنائے گئے ہیں!“
پرتاپ رائے نے ایک زخمی درندے کی طرح رانی پر حملہ کیا لیکن وہ اچانک کترا کر ایک طرف ہوگئی۔بیشتر اس کے کہ وہ دوسری بار تلوار اٹھاتا۔چار سپاہیوں کی تلوار اس کا سینہ چھلنی کرچکی تھیں۔
قلعے میں چاروں طرف اللہ اکبر کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔رانی نے محل کے بالاخانے کے ایک دریچے سے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔قلعے کے دروازے پر سندھ کے پرچم کی بجائے اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔نیچے کشادہ صحن میں مسلمانوں کی فوج جمع ہورہی تھی۔سب سے آگے ایک نوجوان سفید گھوڑے پر سوار تھا اور سندھ کے بےشمار سپاہی ”محمد بن قاسم کی جے“ کے نعرے لگارہے تھے۔ایک درباری نے سفید گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”محمد بن قاسم وہ ہے!“
رانی غضب آلود نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ایک بوڑے سردار نے آگے بڑھ کرکہا۔”مہارانی! اب بھی بھاگ نکلنے کا وقت ہے!“
رانی نے ایک سپاہی کے ساتھ سے تیرکمان چھین کر محمد بن قاسم کی طرف نشانہ باندھتے ہوئے کہا۔”بھاگنے والے راجوں اور رانیوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں!“
لیکن اچانک کسی کے پاوں کی آہٹ سنائی دی اور رانی کی توجہ تھوڑی دیر کے لیے دائیں ہاتھ ایک دروازے کی طرف مبذول ہوگئی۔بھیم سنگھ چند سردارں کے ہمراہ نمودار ہوا۔رانی نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا اور دوبارا محمد بن قاسم کی طرف نشانہ باندھنے لگی۔نیچے سے چند سپاہیوں نے شور مچایا اور محمد بن قاسم اچانک ایک طرف جھک گیا۔بیشتر اس کے کہ بھیم سنگھ بھاگ کر رانی کا ہاتھ روکتا، تیر کمان سے نکل چکا تھا۔رانی نے اپنا وار خالی دیکھ کر دوسرا تیر چڑھانے کی کوشش کی لیکن بھیم سنگھ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے کمان چھینتے ہوئے کہا۔”مہارانی! آپ کیا کررہی ہیں۔ بھگوان کا شکر ہے کہ تیر چلاتے وقت آپ کے ہاتھ کانپ رہے تھے، ورنہ آپ ایک فاتح لشکر کے انتقام کا تصور نہیں کرسکتیں۔ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے سپہ سالار کی موت اس فوج کا حوصلہ پست کرسکتی ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔یہ فوج وہ نہیں جو سپہ سالار کی موت کے بعد میدان چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ ان کا ہر سپاہی سالار ہے۔“
رانی نے جذبات کی شدت سے آبدیدہ ہوکر بھیم سنگھ کی طرف دیکھا اور کہا۔”اب تم کیا چاہتے ہو؟ کیا اب تک تم اپنا بدلہ نہیں لےچکے؟“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ عرب قیدی کہاں ہیں۔قید خانے سے صرف سراندیپ کے ملاح ملے ہیں۔مجھے وہاں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عرب قیدی راجہ کی موت کے بعد یہاں لائے گئے تھے۔مجھے یقین ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا ہوگا لیکن مجھے پہریدار نے بتایا ہے کہ پرتاپ رائے بھی آپ کے پاس ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ نے اس کے کہنے میں آکر ان کے ساتھ کوئی بدسلوکی نا کی ہو؟“
”مسلمان عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے لیکن پرتاپ رائے کو وہ شاید قابلِ معافی نا سمجھیں!“
رانی نے کہا۔”اگر میں نے اپنے حکم سے انھیں قتل کروا دیا ہوتو؟“
بھیم سنگھ نے چونک کر جواب دیا۔”تو میں یہ سمجھوں گا کہ سندھ کو ابھی اور برے دن دیکھنے ہیں لیکن مجھے آپ سے یہ امید نہیں۔میں محمد بن قاسم کو بتا چکا ہوں کہ آپ نے ہمیشہ قیدیوں کے متعلق مہاراج اور پرتاپ رائے کے خطرناک ارادوں کی مخالفت کی ہے اور وہ اس کے لیے آپ کے احسان مند ہیں۔“
رانی نے کچھ سوچ کر کہا۔”اگر میں قیدیوں کو دشمن کے حوالے کردوں تو وہ یہاں سے وآپس چکا جائے گا!“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”فاتحِ لشکر کو کوئی شرط ماننےکے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ہمیں اس کے ساتھ مصالحت کے جو مواقع ملے تھے وہ ہم نے طاقت کے نشے میں ضائع کردیے اور اب وہ اپنی فتوحات کے سیلاب کو ہندوستان کی آخری سرحد تک لےجانا چاہتے ہیں۔“
”تمہیں یقین ہے کہ وہ ارور پر حملہ کریں گے!“
”ہاں، وہ شاید دو چار دن کے اندر اندر ہی ارور کی طرف پیشقدمی کردیں اور میں اس لیے بھی آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں کہ ارور کی حفاظت راجکمار ففی کررہا ہے اور آپ شاید یہ پسند نا کریں کہ وہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے کچلا جائے۔ قیدیوں کو محمد بن قاسم کے حوالے کرکے آپ اس کی جان بخشی کروا سکتی ہیں۔اس کے پاس جس قدر سپاہی ہوں گے۔اس سے زیادہ سپاہی اب محمد بن قاسم کی فوج میں سندھ سے شامل ہوچکے ہیں، راجکمار جس قدر بہادر ہے اس قدر ناتجربہ کار ہے۔ وہ عربوں کو مقابلہ نہیں کرسکتا۔اس کی جان اسی صورت میں بچ سکتی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔“
رانی نے پھر تھوڑی دیر بعد تذبذب کے بعد کہا۔”میں نے سنا ہے کہ عربوں کو دولت کا بہت لالچ ہے۔اگر وہ وآپس جانے پر رضامند ہوں تو میں انھیں برہمن آباد کے علاوہ ارور کا خزانہ بھی سکتی ہوں!“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”وہ ایک اصول کے لیے لڑتے ہیں یہاں تجارت کے لیے نہیں آئے!“
”تمہارے دل میں عربوں کے لیے بہت عزت ہے۔ انھوں نے تم پر کیا جادو کیا ہے؟“
بھیم سنگھ نے چند قدم آگے بڑھ کر نیچے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”جادو، ادھر دیکھیے! ان کے جادو نے کس پر اثر نہیں کیا؟“
رانی نے نیچے نگاہ دوڑائی۔شہر کے سرکردہ سردار اور پروہت محمد بن قاسم کے گرد گھیرا ڈال کراس کے پاوں چھونے کی کوشش کررہے تھے اور وہ گھوڑے سے نیچے کھڑا انھیں ہاتھوں کے اشاروں سے منع کررہا تھا۔
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہارانی دیکھا آپ نے! یہ وہ لوگ ہیں جو تھوڑی دیر پہلے اسے اپنا بدترین دشمن سمجھتے تھے۔جب اس نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا اس کے پاس کل دس ہزار سپاہی تھے اور اب ہمارے اپنے ملک سے تیس چالیس ہزار کے لگ بھگ سپاہی اس کی فوج میں شامل ہوچکے ہیں۔ہمارے پاس جسم کے بچاو کے لیے ڈھالیں ہیں لیکن محبت اور اخلاق سے دلوں کے قلعے فتح کرنے والے حملہ آور کا کوئی علاج نہیں۔سندھ کی آئندہ نسلیں محمد بن قاسم کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے اپنے بہترین دوست کے نام سے یاد کریں گی۔آپ جانتی ہیں کہ میں بزدل نہیں۔میں شکست کھا کر زندہ وآپس آنے کی نیت سے لسبیلا نہیں گیا تھا لیکن کاش! وہ مجھے اس وقت اٹھا کر اپنے سینے سے نالگاتا، جب میں زخموں میں چور تھا۔ اس نے مجھے موت کے منہ سے چھینا۔میرے زخموں پر مرہم رکھا۔میری تیمارداری کی اور میں نے محسوس کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت ایسے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
میں مہاراج کے پاس اس لیے آیا کہ انھیں آگ میں کودنے سے بچا سکوں لیکن میرے اور پتاجی کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو مسلمان اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔ اب بھی میرے دل میں اپنی قوم کا درد ہے اور میں آپ کے پاس اسی لیے آیا ہوں کہ آپ کے بیٹے کوتباہی سے بچا سکوں۔ اگر قیدی آپ کے قبضے میں ہیں تو انھیں میرے حوالے کردیجیے۔ وہ آپ کے محل کے دروازے کے پاس پہنچ چکے ہیں۔جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہاں آپ ہیں تو انھوں نے حکم دیا کہ کوئی سپاہی محل کے اندر پاوں نارکھے۔“
رانی نے ایک کمزے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔”آو میرے ساتھ!“
بھیم سنگھ اپنے ساتھیوں کو وہاں ٹھہرنے کا حکم دےکر رانی کے ساتھ ہولیا۔ رانی اسے پہلے اس کمرے میں لے گئی جہاں پرتاپ رائے کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ جب رانی نے یہ بتایا کہ پرتاپ رائے اس کی خواہش سے قتل ہوا ہے تو بھیم سنگھ نے کہا۔”بھگوان کا شکر ہے کہ آپ کو دوست اور دشمن کی تمیز ہوگئی ہے۔“
رانی نے جواب دیا۔”میں اسے شروع سے اپنا دشمن سمجھتی تھی لیکن کاش! مہاراج میری بات مانتے۔ اب اگر تم عرب قیدیوں کو دیکھنا چاہتے ہو تو وہ کونے کے کمرے میں موجود ہیں۔ مہاراج نے اپنی زندگی میں میرا کہا نہ مانا۔ ان کی موت کے بعد میں نے قیدیوں کو اپنے پاس مہمان رکھا ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی نیت سے نہیں تھا بلکہ میں شروع سے یہ محسوس کررہی تھی کہ ان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ پرتاپ رائے نے انھیں قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اگر اس کا بس چلتا تو وہ دریغ نا کرتا!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”بزدل ہمیشہ ظالم ہوتے ہیں۔ قیدی اب کیا محسوس کرتے ہیں؟“
رانی نےجواب دیا۔”جہاں تک میرا بس چلا ہے میں نے انھیں کوئی تکلیف نہیں دی۔چلو تم دیکھ لو!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”کیا یہ بہتر نا ہوگا محمد بن قاسم خود یہاں آکر دیکھ لے۔ اسے تشویش ہے!“
رانی نے جواب دیا۔جاو اسے لے آو!“
رانی کی راہنمائی میں محمد بن قاسم، زبیر، خالد، ناہید اور زہرا کے علاوہ چند سالار محل کے کونے کے کشادہ کمرے میں داخل ہوئے۔علی خالد کو دیکھتے ہی بھاگ کر اس کے ساتھ لپٹ گیا، رانی اس سے پہلے خود اپنی شکست اور مسلمانوں کی فتح کا حال سنا چکی تھی۔خالد اور زبیر یکے بعد دیگرے مردوں سے بغلگیر ہوئے۔عورتوں نے ناہید کے ساتھ گلے مل کر تشکر کے آنسو بہائے۔محمد بن قاسم نے بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔مردوں سے یکے بعد دیگرے مصافحہ کیا اور عورتوں کو تسلی دی اور سب سے آخر میں رانی سے مخاطب ہوا۔”نیک دل خاتون! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں!“
رانی نے محمد بن قاسم کی طرف غور سے دیکھا۔اس کی آنکھیں یہ گواہی دے رہی تھیں کہ یہ الفاظ رسمی کہ یہ الفاظ رسمی نہیں۔
محمد بن قاسم نے خالد اور زبیر سے کہا۔”میرے لیے ابھی بہت سا کام باقی ہے تم انھیں اپنے ساتھ لیے قیام گاہ پہنچ جاو!“
رانی نے قدرے جھجھکتے ہوئے کہا۔”یہ لوگ اس محل میں رہ سکتے ہیں!“
رانی نے مزید کہا۔”اگر میں آپ کی قید میں نہیں تو کل ارور چلی جاوں گی اور یہ سارا محل آپ کے لیے خالی ہوگا!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”آپ کو یہ شک کیسے ہوا کہ مسلمان مہمان نوازی کا بدلہ یوں دیا کرتے ہیں۔آپ اگر ارور جانا چاہتی ہیں تو میں برہمن آباد کے چند سردار آپ کے ساتھ بھیج سکتا ہوں۔“
رانی نے سر سے پاوں تک محمد بن قاسم کو دیکھا اور کہا۔”اگرمیں ارور چلی جاوں تو وہاں کیا آپ کی افواج میرا تعاقب نا کریں گی؟“
محمد بن قاسم نےکہا۔”ارور ظلم کی بادشاہت کا آخری قلعہ ہے اور میں اسے فتح کرنے کا ارادہ تک نہیں کرسکتا۔میں وہاں ایسے قید خانے کا حال سنا سکتا ہوں جہاں ابوالحسن جیسے کئی اور قیدی دم توڑ رہے ہیں!“
رانی نے کہا۔”لیکن ابوالحسن تو فرار ہوچکا ہے اور ارور کے قید خانے میں باقی قیدی ہماری رعایا ہیں۔ ان کے متعلق سوچنا ہمارا کام ہے۔اگر آپ کا قانون ہمارے قانون سے اچھا ہے تواسے اپنے ملک میں چلائیے ہمیں اپنے حال پر چھوڑدیجیے۔ عربوں کے ساتھ بدسلوکی کی ہمیں کافی سے زیادہ سزا مل چکی ہے۔“
”لیکن ہم یہ مقصد لےکر اٹھے ہیں کہ ملک خدا کے ہیں اور قانون بھی خدا کا ہونا چاہیے۔ ہم راجہ اور رعیت کی تفریق مٹا کر تمام انسانوں کو ایک سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ ہم جبرواستبداد کی بجائے عدل و انصاف کی حکومت چاہتے ہیں!“
رانی نے کہا۔”لیکن راجہ اور رعیت کا جھگڑا ہندوستان کی ہر سلطنت میں ہے۔کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ جس طرح باقی ہندوستان میں دوسرے انسانوں کا قانون نظرانداز کرتے ہیں اسی طرح ارور کو بھی اپنی حالت پر چھوڑ دیں!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”آپ کو ہمارے متعلق غلط فہمی ہے۔ارور ہماری آخری منزل نہیں۔میں ہندوستان کی آخری حدود تک اس انقلاب کا پیغام لےجانا چاہتا ہوں۔سندھ سب سے پہلے ہمارے توجہات کا مرکز اس کیے بنا کہ یہاں ستم رسیدہ انسانیت کی دبی ہوئی آواز ہمارے کانوں تک سب سے پہلے پہنچی!“
رانی نے پھر غور سے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”تو آپ تمام ہندوستان کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔“
”ہاں! میں تمام ہندوستان پر اسلام کی فتح چاہتاہوں اور یہ خواب نہیں۔“
رانی نے کہا۔”یونان سے سکندر بھی یہی ارادہ لےکر آیا تھا اور آپ اس سے عمر میں بھی بہت چھوٹے ہیں!“
”لیکن سکندر بادشاہوں کے مقابلے میں شہنشاہ بن کر آیا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو بادشاہوں کی غلامی سے آزادی دلوانا نا تھا بلکہ انھیں اپنا غلام بنانا تھا۔ میں خدا کی زمین پر انسان کی بادشاہت کا منکر ہوں۔اسے اپنی طاقت پر بھروسہ تھا مجھے خدا کی رحمت پر بھروسہ ہے۔اسے انسانوں کی مدد کا بھروسہ تھا لیکن مجھے اللہ کی مدد کا بھروسہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی شکست یہ تھی کہ اس کے اپنے سپاہی اس سے بگڑ گئے اور میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ جو کل تک میرے دشمن تھے، آج میرے ساتھی ہیں اور یہ میری فتح نہیں، السلام کی صداقت کی فتح ہے۔“
رانی نے مایوس ہوکر کہا۔”تواس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ارور پرضرور حملہ کریں گے؟“
”یہ میرا فرض ہے!“
رانی نے ملتجی ہوکر کہا۔”مجھے معلوم ہے کہ برہمن آباد اور ارور کے درمیان کوئی ایسی خندق نہیں جسے آپ پاٹ ناسکیں لیکن اگر مجھے کسی نیک سلوک کی مستحق سمجھتے ہیں تو میرے بیٹے پر رحم کریں۔ وہ آپ کا آخری دم تک ساتھ دے گا۔ آپ مجھے ارور جاکر اسے سمجھانے کا موقع دیں۔ اسے جےسنگھ نے یقین دلایا ہے کہ مہاراج مرے نہیں زندہ ہیں۔ میں اسے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اب مقابلے سے کوئی فائدہ نہیں لیکن آپ کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ ہتھیاڑ ڈالنے کے بعد آپ اس سے کوئی بدسلوکی نہیں کریں گے۔ وہ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ اگر آپ کو اس کا سندھ میں رہنا ناگوار ہو تو میں اسے کہیں دور لے جاوں گی۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہوگی بلکہ حق کے مقابلے میں باطل کی علمبرداری سے ست کش ہوجانے کے بعد ہم اسے قابلِ احترام سمجھیں گے۔ آپ کب جانا چاہتی ہیں؟“
”میں علی الصباح روانہ ہوجاوں گی۔“
سندھ کا دارالحکومت اگرچہ ارور تھا لیکن برہمن آباد کی سیاسی اور فوجی اہمیت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ آبادی کے لحاظ سے بھی یہ شہر سندھ کا سب سے بڑا شہر تھا۔ فتح کے بعد محمد بن قاسم نے جو خطوط حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید کو بھیجے، ان میں اس نے لکھا کہ سندھ میں قوت مدافعت عملی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ ارور کے متعلق مجھے یقین ہے کہ وہاں کی افواج لڑے بغیر ہتھیار ڈال دے گی اور اگر انھوں نے مزاحمت بھی کی تو یہ معرکہ سندھ کے باقی معرکوں کے مقابلے میں نہایت غیراہم ہوگا۔ سندھ کا آخری اور غالباً مضبوط ترین شہر ملتان ہے اور اس کی مذہبی تقدیس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شاید پنجاب کے بعض راجہ بھی ملتان کے سندھی حاکم کا ساتھ دیں لیکن مجھے خدا کی مدد پر بھروسہ ہے۔ برہمن آباد کی فتح سے پہلے محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کی ہدایات موصول ہوچکی تھیں کہ وہ دشمن کی بےجا نازبرداری نا کرے لیکن محمد بن قاسم نے ان خطوط کے جواب میں اس بات کی وضاحت کی کہ سندھ کے باشندے ترکستان اور سپین کے باشندوں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور نیک سلوک کے بعد ان سے بغاوت کی توقع نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کل تک جو سپاہی ہمارے خلاف شمشیر بکف تھے آج ہمارے دوش بدوش لڑرہے ہیں۔
رانی لاڈھی برہمن آباد کے چند سرداروں کی معیت میں ارور پہنچی۔ اس نے اپنے بیٹے کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی کہ اس کا باپ زندہ ہے لیکن ففی کی سوتیلی ماں نے ہتھیار ڈال دینے کی مخالفت کی اور اسے طعنہ دیا کہ تمہاری ماں ملیچھ دشمن کی آلہ کار بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہر کے پروہت نے یہ مشہور کردیا کہ رانی لاڈھی مسلمان سپہ سالار سے ہمکلام ہوکر اپنا دھرم بھرشٹ کرچکی ہے۔
((( اس واقعے کی آڑ لےکر بعض تاریخ دان یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لاڈھی دیوی قبول اسلام کے بعد محمد بن قاسم سے شادی کرچکی تھی۔ اور اس کا اسلامی نام عائشہ تھا لیکن یہ داستان زیادہ تر ان تاریخ دانوں کی جدتِ طبع کا نتیجہ ہے جو ہر بڑے آدمی کے ساتھ عشق کی داستان منسوب کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی ایک اور داستان محمد بن قاسم کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ محمد بن قاسم نے ارور کی فتح کے بعد راحہ داہر کی دو لڑکیاں خلیفہ ولید کے پاس بھیج دیں تھیں اور ایک لڑکی نے اپنے باپ کی موت کا انتقام لینے کی نیت سے ولید کو محمد بن قاسم کے خلاف یہ کہہ کر مشتعل کردیا تھا کہ نعوذ باللہ محمد بن قاسم اسے دربارِ خلافت میں بھیجنے سے پہلے اس کے دامنِ عصمت پر دھبہ لگا چکا ہے اور ولید نے غضب ناک ہوکر محمد بن قاسم کو قتل کروا دیا اور اس کے بعد جب اس لڑکی نے بتایا کہ اس نے محض انتقام لینے کے لیے یہ قصہ تراشا تھا تو ولید نے اسے بھی قتل کروا دیا۔
پہلا قصہ یوں بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ لاڈھی دیوی قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں کی پناہ میں آچکی تھی اور امیرِ عساکر کی بیوی ہونے کی حیثیت میں اس کا منصب ہرگز ایسا نا تھا کہ وہ ارور میں سفیر بن کر جاتی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کے دل میں اپنے بیٹے کے لیے بہت بڑی تڑپ تھی تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا نوجوان جو سترہ سال کی عمر میں ہندوستان فتح کرنے کا عزم رکھتا تھا، ارور کی ادنی سے مہم سے کترا کر اپنی نومسلم بیوی کو ارور کے بھرے دربار بھیج دیتا۔ خصوصاً ان حالات میں جب کہ ارور کی رائے عامہ اس کے قبولِ اسلام پر سخت مشتعل ہوسکتی تھی۔
دوسرے قصے کے راوی وہ تاریخ دان ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ خلیفہ ولید محمد بن قاسم سے پہلے راہی ملکِ عدم ہوچکا تھا۔)))
مختلف زبانوں کی حاشیہ آرائی کے ساتھ یہ خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ارور کے چند عہدے دار پرتاپ رائے کے رشتہ دار تھے۔ ان میں سے ایک نے پرتاپ رائے کا انتقام لینے کے لیے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ رانی نے محمد بن قاسم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پرتاپ رائے کو قتل کیا ہے۔ ان تمام واقعات نے ففی کو اپنی ماں کے خلاف غضب ناک کردیا اور اس نے لاڈھی رانی سے کہا۔” کاش تم میری ماں نا ہوتیں۔“
رانی کو اپنے اکلوتے بیٹے سے یہ توقع نہ تھی۔ یہ الفاظ ایک نشتر کی طرح اس کے سینے میں اتر گئے۔ اس نے یکے بعد دیگرے اپنے بیٹے، اپنی سوکن اور حاضرین دربار کی طرف دیکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں چلائی:
”بیٹا شرم کرو۔ میں تمہاری ماں ہوں۔ اگر ان لوگوں کی مدد سے مجھے تمہاری کامیابی کی ذرا بھی امید ہوتی تو میں تمہیں بصرہ تک دشمن کا تعاقب کرنے کا مشورہ دیتی لیکن یہ لوگ کمینے بھی ہیں اور بزدل بھی۔جو تمہارے باپ کے ساتھ وفا نہ کرسکے وہ تمہارے ساتھ وفا نہیں کریں گے۔ جو دشمن لاکھوں سپاہیوں کو شکست دےچکا ہے۔ اس کے سامنے تمہارے دس بیس ہزار سپاہی نہیں ٹھہر سکتے۔ سندھ کی آدھی فوج اس کے ساتھ مل چکی ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے ان سے زیادہ غیور سرداروں کو مسلمان سپہ سالار کے پاوں پر ہاتھ رکھتے دیکھ چکی ہوں۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم ہار مان لو۔ ورنہ یاد رکھو یہ لوگ عین موقع پر تمہیں دھوکہ دیں گے۔ اس وقت زیادہ جوش وہ دکھا رہا ہے جسے ابھی تک دشمن کے سامنے آنے کا موقع نہیں ملا۔“
ففی نے جوش میں آکر کہا۔”ماتا! خاموش رہیے۔میرے ساتھی مرتے دم تک میرا ساتھ دیں گے۔“
”تو بیٹا یادرکھو! اس جنگ میں انھیں موت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا!“
ایک ماہ کے بعد محمد بن قاسم برہمن آباد کے انتظامات سے فارغ ہوکر ارور کی طرف پیشقدمی کررہا تھا۔ففی کو یہ معلوم ہوا کہ مرتے دم تک اس کا ساتھ دینے کا دعوی کرنے والے سرداروں کے متعلق رانی کا اندازہ صحیح تھا۔
محمد بن قاسم کی فوج نے ابھی نصف راستہ طے کیا تھا کہ ایک صبح ففی کو معلوم ہوا کہ اس کے چند سردار پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ راتوں رات شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔
جب محمد بن قاسم کی فوج ارور سے فقط ایک منزل کے فاصلے پر تھی۔ارور سے اور تین ہزار سپاہی رات کے وقت شہر کے دروازے بند پاکر سیڑھیوں کی مدد سے فصیل سے اتر گئے۔
ففی کا دل ٹوٹ گیا اور اس نے رہی سہی فوج کے ساتھ راہِ فرار اختیار کی۔ محمد بن قاسم نے ایک نو مسلم سندھی سردار کو شہر کا حاکم مقرر کیا اور چند دن کی تیاری کے بعد ملتان کی طرف پیشقدمی کی۔