صبح کی نماز کے بعد دمشق کے لوگ بازاروں اور مکانوں کے چھتوں پر کھڑے محمد بن قاسم کی فوج کا جلوس دیکھ رہے تھے۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقع تھا کہ ایک دور افتادہ ملک پر حملہ کرنے والی فوج کی قیادت ایک سترہ سالہ نوجوان کے سپرد تھی۔دمشق سے لےکر بصرہ تر راستے کے ہر شہر اور بستی سے کئی کم سن لڑکے، نوجوان اور بوڑھے اس فوج میں شامل ہوئے۔کوفہ اور بصرہ میں محمد بن قاسم کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی اور نوجوان عورتیں اپنے شوہروں، مائیں اپنے بیٹوں اور لڑکیاں اپنے بھائیوں کو نوجوان سالار کا ساتھ دینے کے لیے تیار رہنے پر آمادہ کررہی تھیں۔غیور قوم کی ایک بےکس بیٹی کی فریاد کوفہ اور بصرہ کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔بصرہ کی عورتوں میں زبیدہ کی تبلیغ کے باعث یہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ ناہید کا مسئلہ قوم کی ہر بہو بیٹی کا مسئلہ ہے۔نوجوان لڑکیاں مختلف محلوں اور کوچوں سے زبیدہ کے گھر آتیں اور اس کی تقاریر سے ایک نیاجذبہ لےکر وآپس جاتیں۔خرابی صحت کے باوجود محمد بن قاسم کی والدہ بصرہ کی معمر عورتوں کی ایک ٹولی کے ساتھ جہاد کی تبلیغ کےلیے ہر محلہ کی عورتوں کے پاس پہنچتی۔زبیدہ نے چند نئے سپاہیوں کو گھوڑے اور اسلحہ جات بہم پہنچانے کے لیے اپنے تمام زیورات بیچ ڈالے۔بصرہ کی تمام امیرو غیریب گھرانوں کی لڑکیوں نے اس کی تقلید کی اور مجاہدین کی اعانت کے لیے بصرہ کے بیت المال کو چند دنوں میں سونے اور چاندی سے بھر دیا۔عراق کے دوسرے شہروں کی خواتین نے اس کارِ خیر میں بصرہ کی عورتوں سے پیچھے رہنا گوارا نا کیا اور وہاں بھی لاکھوں روپے جمع ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے بصرہ میں تین دن قیام کیا۔اس کی آمد سے پہلے بصرہ میں حجاج بن یوسف کے پاس مکران کے گورنر محمد بن ہارون کا یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ عبیداللہ کی قیادت میں بیس آدمیوں کا جو وفد دیبل بھیجا گیا تھا، اس میں سے صرف دو نوجوان جان بچا کر مکران پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔باقی تمام دیبل کے گورنر نے قتل کردیے ہیں۔ اس خبر نے بصرہ کی عوام میں انتقام کی سلگتی ہوئی آگ پر تیل کا کام دیا۔
دمشق سے روانگی کے وقت محمد بن قاسم کی فوج کی تعداد کل پانچ ہزار تھی لیکن جب وہ بصرہ سے روانہ ہوا تو اس کے لشکر کی مجموعی تعداد بارہ ہزار تھی۔ جن میں سے چھ ہزار سپاہی گھڑ سوار تھے۔تین ہزار پیدل اور تین ہزار سامانِ رسد کے اونٹوں کے ساتھ تھے۔
محمد بن قاسم شیراز سے ہوتا ہوا مکران پہنچا۔مکران کی سرحد عبور کرنے کے بعد لسبیلا کے پہاڑی علاقے میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بھیم سنگھ بیس ہزار فوج کے ساتھ لسبیلا کے سندھی گورنر کی اعانت کے لیے پہنچ چکا تھا۔اس نے ایک مضبوط پہاڑی قلعے کو اپنا مرکز بنا کر تمام راستوں پر اپنے تیر انداز بیٹھا دیے۔اپنے باپ کی مخالفت کے باوجود وہ راجہ کو اس بات کا یقین دلا چکا تھا کہ اس کے بیس ہزار سپاہی بارہ ہزار مسلمانوں کو لسبیلا سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
مسلمانوں کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوتے ہی بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے اکادکا حملے شروع کردیے۔تیس چالیس سپاہیوں کا گروہ اچانک کسی ٹیلے یا پہاڑی کی چوٹی پر نمودار ہوتا اور آن کی آن میں محمد بن قاسم کی فوج کے کسی حصے پر تیر اور پتھر برسا کر غائب ہوجاتا۔گھوڑوں کے سوار ادھر ادھر ہٹ کر اپنا بچاو کرلیتے۔لیکن شترسوار دستوں کے لیے یہ حملے بڑی حد تک پریشان کن ثابت ہوتے۔بعض اوقات بدک کر ادھر ادھر بھاگنے والے اونٹوں کو منظم کرنا حملہ کرنے والوں کے تعاقب سے زیادہ مشکل ہوجاتا۔
محمد بن قاسم نے یہ دیکھ کر ہراول کے پیادہ دستوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔لیکن حملہ آوروں کی ایک جماعت آگے سے کترا کر بھاگتی اور دوسری جماعت پیچھے سے حملہ کردیتی، ایک گروہ کسی ٹیلے پر چڑھ کر لشکر کے دائیں بازو کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور دوسرا بائیں بازو پر حملہ کردیتا۔جوں جوں محمد بن قاسم کی فوج آگے بڑھتی گئی، ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔رات کے وقت پڑاو ڈالنے کے بعد شب خون کے ڈر سے کم از کم ایک چوتھائی فوج کو آس پاس کے ٹیلوں پر قابض ہوکر پہرہ دینا پڑتا۔
ایک شام محمد بن قاسم کو ایک جاسوس نے اطلاع دی، کہ شمال کی طرف بیس کوس کے فاصلے پر ایک مضبوط قلعہ اس لشکر کا مستقر ہے۔محمد بن قاسم نے اپنے تجربہ کار سالاروں کی مجلسِ شوری بلائی۔بعض سالاروں کی رائے تھی کہ یہ راستہ چھوڑ کر سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ نسبتاً ہموار راستہ اختیار کیا جائے۔ہم اس قلعے سے جس قدر دور ہوں گے اسی قدر ان حملوں سے محفوظ رہیں گے، لیکن محمد بن قاسم ان سے متفق نا ہوا۔اس نے کہا۔” جب تک یہ علاقہ دشمن سے پاک نہیں ہوتا۔ہمارا آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ہمارا مقصد دیبل تک پہنچنا نہیں۔سندھ کو فتح کرنا ہے اور یہ قلعہ ان کے دفاع کی اہم چوکی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس قلعے کے فتح ہوجانے کے بعد دشمن یہ تمام علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور دشمن کے جو سپاہی یہاں سے فرار ہوں گے۔وہ دیبل پہنچ کر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کریں گے، لیکن اگر ہم یہاں سے کترا کر نکل گئے تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور ہمارا عقب ہمیشہ غیرمحفوظ رہے گا۔ہمارا پہلا مقصد اس قلعے کو فتح کرنا ہے۔ اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد اگر پہاڑیوں میں پھیلے ہوئے لشکر کی تعداد کافی ہوئی تو وہ اس علاقے میں ہمارے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کی کوشش کریں گا اور اس میں بھی ہماری بہتری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پیشقدمی روکنے کے لیے اس قلعے کے محافظوں کی زیادہ تعداد آس پاس کی پہاڑیوں پر منقسم ہے۔میں آج سورج نکلنے سے پہلے اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے میں اپنے ساتھ صرف پانچ سو پیادہ سپاہی لےجانا چاہتا ہوں۔آپ باقی فوج کے ساتھ رات بھر پیشقدمی جاری رکھیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ چاروں اطراف کا خیال چھوڑ کر آپ کا راستہ روکنے کی فکر کریں گے۔چاندنی رات میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ زیادہ خطرناک ہوگا۔اگر صبح تک آپ کوقلعہ فتح ہوجانے کی اطلاع پہنچ جائے تو آپ پیشقدمی روک کر میرے احکام کا انتظار کریں۔اگر قلع فتح ہوجانے کے بعددشمن نے کسی جگہ منظم ہوکر مقابلے کی ہمت کی تو میں قلعے کی حفاظت کے لیے چند آدمی چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملوں گا اور اگر انھوں نے قلعہ دوبارا فتح کرنا چاہا تو آپ وہاں پہنچ جائیں۔“
ایک بوڑھے سالار نے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ سندھ کی فتح کے لیے خدا نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ان شاء اللہ آپ کی کوئی تدبیر غلط نا ہوگی۔لیکن سپہ سالار کا فوج کے ساتھ رہنا ہی مناسب ہے۔سپہ سالار کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔وہ فوج کا آخری سہارا ہوتا ہے۔اگر اس خطرناک مہم میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کو اپنے زبردست لشکر کے باوجود اس لیے شکست ہوئی کہ انھوں نے اپنی طاقت سے زیادہ رستم کی شخصیت سے امدیں وابستہ کیں۔رستم مارا گیا تو وہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت سے بھاگ نکلے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کے سپہ سالار سعد(رضی اللہ عنہ) بن وقاص گھوڑے پر چڑھنے کے قابل نا تھے اور انھیں میدان سے الگ ایک طرف بیٹھنا پڑا۔ لیکن مسلمانوں کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ انھیں اپنے سپہ سالار کی عدم موجودگی کا احساس تک بھی نہ تھا۔ہماری تاریخ میں آپ کو کوئی ایسا واقع نا ملے گا، جب سالار کی شہادت سے بدل ہوکر مجاہدوں نے ہتھار ڈال دیے ہوں۔ہم بادشاہوں اور سالاروں کے لیے نہیں لڑتے۔ہم خدا کے لیے لڑتے ہیں۔بادشاہوں اور سالاروں پر بھروسہ کرنے والے ان کی موت کے بعد مایوس ہوسکتے ہیں، لیکن ہمارا خدا ہر وقت موجود ہے۔قرآن میں ہمارے لیے اس کے احکام موجود ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ خدا مجھے قوم کے لیے رستم نا بنائے بلکہ مجھے مثنی(رضی اللہ عنہ) بننے کی توفیق دے۔جن کی شہادت نے ہر مسلمان کو جذبہ شہادت سے سرشار کردیا تھا۔میرے لیے اس سپہ سالار کی جان کی کوئی قیمت نہیں جو اسے اپنے سپاہیوں کی تلواروں کے پہروں میں رکھتا ہے اور اپنے بہادروں کو جان کی بازی لگانے کی بجائے جان بچانے کی ترغیب بتاتا ہے۔اگر اس قلعے کو فتح کرنا اس قدر اہم نا ہوتا تو میں یہ مہم شاید کسی اور کےسپرد کردیتا لیکن اس مہم کا خطرہ اور اس کی اہمیت دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ میں خود اس کی رہنمائی کروں۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں! میں ایک قلعے کو فتح کرنے کے لیے دو دماغوں کی ضرورت نہیں سمجھتا۔میری غیرحاضری میں تمہارا فوج کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔میں اپنی جگہ محمد بن ہارون کو مقرر کرتا ہوں اور تم اس کے نائب ہو۔“
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم نے پانچ سو نوجوان اس مہم کے لیے منتخب کیے اور ان کے گھوڑے باقی لشکر کے حوالے کرکے محمد بن ہارون کو پیش قدمی کا حکم دیا اور خود اپنے جانثاروں کے ساتھ ایک پہاڑی کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
آدھی رات کے وقت چاند روپوش ہوگیا اور محمد بن قاسم نے قلعے کا رخ کیا۔راستے کی تمام پہاڑیوں کے محافظ محمد بن ہارون کی پیش قدمی کو تمام لشکر کی پیشقدمی سمجھ کر اپنی چوکیاں خالی کرکے مشرق کی طرف جاچکے تھے۔سندھی سواروں نے قلعہ میں بھیم سنگھ کو مشرق کی طرف مسلمانوں کی غیرمتوقع پیش قدمی سے باخبر کردیا تھا اور وہ تین سو سپاہی قلعے کے اندر چھوڑ کر مسلمانوں کے لشکر کی راہ روکنے کے لیے روانہ ہوگیا۔تیسرے پہر محمد بن قاسم قلعے سے ایک میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا۔دو چٹانوں میں بھیم سنگھ کے سواروں کے گھوڑوں کی آواز گونجی اور محمد بن قاسم نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”وہ قلعہ خالی کرکے جارہے ہیں۔ہمیں جلدی کرنی چاہیے، لیکن قلعے کے اندر حفاظت کے لیے تھوڑی بہت فوج ضرور موجود ہوگی۔اس لیے تمہاری طرف سے کوئی شور نا ہو۔تمہاری طرف سے زرا سے آہٹ قلعہ کے محافظوں کو باخبر کردے گی اور اگر ان کی تعداد چالیس بھی ہوئی تو بھی وہ ہمیں کافی دیر تک قلعے سے باہر روک سکیں گے۔“
یہ ہدایات دینے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے جانبازوں کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کیا اور قلعے کی طرف پیشقدمی کی۔
قلعے کے قریب پہنچ کریہ فوج آس پاس کے ٹیلوں میں چھپ کر بیٹھ گئی۔فصیل پر پہرہ داروں کی آوازوں میں تھکاوٹ اور نیند کی جھلک تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بولنے کی بجائے بڑبڑا رہے ہیں۔محمد بن قاسم اپنے ساتھ دس نوجوان لےکر فصیل کے ایک نسبتاً پرسکون حصے کی طرف بڑھا اور کمند ڈال کر اوپر چڑھنے کے بعد رسیوں کی سیڑھی پھینک دی۔اس جگہ دوپہرےدار گہری نیند سورہے تھے۔آن کی آن میں محمد بن قاسم کے چھ ساتھی فصیل پر چڑھ گئے لیکن ساتواں ابھی اوپر نا پہنچا تھا کہ چند قدم کے فاصلے سے ایک سپاہی نے چونک کر مشعل بلند کرتے ہوئے کہا۔”کون ہے؟“
دوسرے سپاہی نے چلا کرکہا۔”دشمن آگیا۔ہوشیار!“
محمد بن قاسم نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور ساتھ ہی ایک زور دار حملے سے فصیل کا بہت سا حصہ خالی کرالیا۔یہ نعرہ سن کر قلعے کے باہر چھپے ہوئے سپاہی آگے بڑھے اور کمندیں ڈال کر فصیل پر چڑھنے لگے۔قلعے کے اندر آرام سے سونے والے سپاہی ابھی اپنی تلواریں سنبھال رہے تھے کہ محمد بن قاسم کے پچاس سپاہی فصیل پر پہنچ گئے۔پہرے داروں نے زیادہ دیر فصیل پر مزاحمت کرنے کی بجائے اندر جاکر گہری نیند سونے والے ساتھیوں کو جگانا زیادہ مناسب خیال کیا اور انھوں نے زیادہ دیر ڈٹ کر لڑنے پر ایک سرنگ کے راستے فرار ہونے کو ترجیح دی۔سرنگ بہت تنگ تھی اور تمام سپاہی بیک وقت اس میں گھسنا چاہتے تھے۔بعض نے مایوس ہوکر قلعے کا دروازہ کھول دیا اور کوئی پیدل اور کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے سے باہر نکل آیا۔قلعے کا دروازہ کھلتا دیکھ کر مسلمان بھی فصیل پر چڑھنے کا خیال ترک کرکے اس طرف بڑھے اور زیادہ آدمیوں کو فرار کا موقع نا مل سکا۔دشمن نے چاروں طرف سے مایوس ہوکر تلواریں سونت لیں، لیکن تھوڑی دیر مقابلہ کرنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔
قلعے کے اندر سرنگ میں جمع ہونے والے سپاہی بری طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں ہورہے تھے۔ ان کا شور سن کر محمد بن قاسم ایک پہرے دار کی نیچے گری ہوئی مشعل اٹھا کر چند سپاہیوں کے ساتھ مختلف کمروں سے گزرتا ہوا ایک تہہ خانے کے ایک دروازے تک پہنچا اور فارسی زبان میں بولا:
”تم میں سے جو فرار ہونا چاہے اس کے لیے قلعے کا دروازہ کھلا ہے ۔ تم اپنے ہتھیار پھینک کر جاسکتے ہو۔“
یہ کہہ کر محمد بن قاسم ایک طرف ہٹ گیا۔راجہ کے سپاہیوں میں سے جو فارسی جانتے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو محمد بن قاسم کا مطلب سمجھایا اور محمد بن قاسم کو مخصوص نگاہوں سے دیکھتے ہوئے تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔بعض نے سرنگ کو ترجیح دی لیکن محمد بن قاسم کے اشارے سے چند سپاہی تہہ خانے میں داخل ہوئے اور تلواریں سونت کر سرنگ کے منہ پر کھڑے ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”جب تمہارے لیے ایک کھلا راستہ موجود ہے تو تم تنگ اور تاریک راستہ کیوں اختیار کرتے ہو۔ہم پر اعتبار کرو۔اگر تمہیں قتل کرنا مقصود ہوتا تو تمہاری گردنیں ہماری تلواروں سے دور نہیں۔“
محمد بن قاسم کے یہ الفاظ سن کر باقی سپاہی بھی ہتھیار پھینک کر تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔ محمد بن قاسم نے واپس قلعے کے دروازے پر پہنچ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ قلعے سے باہر نکلنے والوں کے راستے میں مزاحم نا ہوں۔
یہ لوگ جھجک جھجک کر قدم اٹھاتے اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔مفتوح دشمن کے ساتھ یہ سلوک سندھ کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا۔ایک معمر سپاہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا دروازے تک پہنچا اور کچھ سوچ کر وآپس آگیا۔
محمد بن قاسم نے اس سے کہا۔”اگر قلعے میں تمہاری کوئی چیز کھو گئی ہے تو تلاش کرسکتے ہو۔اس نے غور سے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور سوال کیا۔”کیا عرب فوج کے سپہ سالار آپ ہیں؟“
”ہاں میں ہوں۔“محمد بن قاسم نے جواب دیا۔
”دشمن کسی حالت میں بھی نیک سلوک کا مستحق نہیں ہوتا۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟“
”ہمارا مقصد دشمن کو تباہ کرنا نہیں بلکہ اس کو سلامتی کا راستہ دکھانا ہے۔“
”تو یقین رکھیے کہ آپ پر کوئی فتح نہیں پاسکتا۔یہ لوگ جنھیں آپ اپنے رحم کا مستحق سمجھے ہیں، کل آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ان مغرور بادشاہوں کے خلاف جنگ کریں گے، جوگرے ہوئے دشمن پر رحم کرنا نہیں جانتے۔“ یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے قلعے کا چکر لگایا۔چند تہہ خانے کھانے پینے کی اشیا سے بھرے پڑے تھے اور اصطبل میں ساٹھ گھوڑے موجود تھے۔
محمد بن قاسم کو یقین تھا کہ محمد بن ہارون کے تعاقب میں جانے والی فوج یہ قلعہ فتح ہوجانے کی خبر سنتے ہی وآپس آجائے گی۔اس نے محمد بن ہارون کے پاس چار سوار یہ پیغام دے کر روانہ کیے کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پڑاو ڈال کر اس کے احکام کر انتظار کرے۔اس کے بعد اس قلعے کا دروازہ بند کرکے فصیل پر چاروں طرف تیر انداز بیٹھا دیے اور قلعے پر جابجا اسلامی پرچم نصب کردیے۔
محمد بن قاسم فصیل پر کھڑا طلوحِ آفتاب کا منظر دیکھ رہا تھا۔اسے مشرق سے تیس چالیس سواروں کا ایک دستہ قلعے کی طرف آتا دیکھائی دیا۔محمد بن قاسم اور اس کے ساتھی اسے سندھ کی فوج کا دستہ سمجھتے ہوئے کمانوں پر تیر چڑھا کر بیٹھ گئے۔یہ سوار قلعے سے کوئی تین سو قدم کے فاصلے پرآکر رک گئے اور ایک سوار اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوکر گھوڑے کو سرپت دوڑاتا ہوا فصیل کی طرف بڑھا۔تیر انداز محمد بن قاسم کے اشارے کے منتظر تھے۔محمد بن قاسم نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔سوار نے فصیل کے نیچے پہنچ کر گھوڑا روکا اور عربی میں کہا۔”ہم زبیر کے ساتھی ہیں۔ہمیں اندر آنے دو۔“
محمد بن قاسم نے آگے جھک کر پوچھا۔”تمہارا نام خالد ہے؟“
”جی ہاں۔“ اس نے جواب دیا۔
”اپنے ساتھیوں کو بلالو۔“
خالد نے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور محمد بن قاسم نے سپاہیوں کو قلعے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔قلعے سے باہر نکل کر خالد سے سوال کیا۔”تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے جواب دیا۔”وہ میرے ساتھ ہے لیکن زبیر نہیں آیا؟“
”وہ باقی فوج کے ساتھ ہے۔تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہم اس قلعے میں ہیں؟“
”ہمیں یہ خبر مل چکی تھی کہ آپ مکران کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔ہم سندھی سپاہیوں کا بھیس بدل کر یہاں پہنچے اور آپ حیران ہوں گے کہ راجہ کی فوج کا سالار ہمیں یہاں سے چار میل دور ایک پہاڑی پر پہرہ دینے کے لیے متعین کرچکا تھا۔ہم سخت بےچینی سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔آج قلعے سے فرار ہونے والے سپاہی وہاں پہنچے اور انہوں نے بتایا کہ یہ قلعہ فتح ہوچکا ہے۔ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔سپہ سالار کہاں ہے؟“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے اپنے ایک سپاہی کی طرف دیکھا اور اس نے جواب دیا۔”تم سپہ سالار سے باتیں کررہے ہو۔“
تھوڑی دیر میں خالد کے باقی ساتھی ان کے قریب پہنچ کر گھوڑوں سے نیچے اتر رہے تھے۔محمد بن قاسم نے ان سب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد کہا۔”لیکن تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے مسکرا کر مردانہ لباس میں ایک نقاب پوش کی طرف اشارہ کردیا۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا کا شکر ہے کہ آپ کی صحت اب ٹھیک ہے۔ ہاں زبیر باقی فوج کے ساتھ ہے۔“
زبیر کا نام سن کر ناہید نے اچانک اپنے کانوں اور گالوں پر حرارت محسوس کی اور پیچھے مڑکر مایا کی طرف دیکھا۔مایا بھی اس کی طرح مردانہ لباس پہنے ہوئے تھی۔اس نے آنکھ بچا کر ناہید کے بازو پر چٹکی لی اور آہستہ سے کہا۔”ناہید مبارک ہو۔“
محمد بن قاسم نے پھر ایک بار خالد کے تمام ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ایک سفیدریش قوی ہیکل آدمی کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔شاید تم گنگو ہو۔میں تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا شکر گزار ہوں۔“
گنگو نے محمد بن قاسم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خالد کی طرف دیکھا۔اور خالد نے کہا۔”گنگو اور اس کے ساتھی مسلمان ہوچکے ہیں اور گنگو نے اپنے لیے سعد کا نام پسند کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے الحمدللہ کہہ کر یکے بعد دیگرے سب سے مصافحہ کیا اور ناصر الدین(جےرام) سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔”آپ غالباً ناصرالدین ہیں۔آپ نے ہمارے لیے بہت تکلیف اٹھائی۔خدا آپ کو جزا دے اور یہ شاید آپ کی ہمشیرہ ہے؟“
خالد نے کہا۔”یہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اور اس کا نام زہرا ہے۔“
زہرا نے ناصرالدین کے قریب آکر دبی آواز میں پوچھا۔”یہ کون ہیں؟“ اور ناصرالدین نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرکے یہ سوال خالد کے کانوں تک پہنچا دیا۔
خالد نے بلند آواز میں کہا۔”یہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔“
سعد(گنگو) اور اس کے ساتھی حیران ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگے۔ دور سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی اور فصیل سے ایک پہرہ دار نے آواز دی۔ ”دشمن کی فوج آرہی ہے۔“
یہ لوگ جلدی سے قلعے میں داخل ہوئے۔محمد بن قاسم نے فصیل پر چڑھ کر دور تک نظر دوڑائی۔جنوب اور مشرق کی طرف سے سندھ کے ہزاروں پیادہ اور سوار سپاہی قلعے کا رخ کررہے تھے۔محمد بن قاسم نے اپنے دس سپاہی گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے نائب تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا کہ وہ شام سے پہلے اس جگہ پہنچ جائے۔
سپاہی گھوڑوں پر سوار ہوگئے تو محمد بن قاسم نے انھیں ہدایت کی کہ وہ مغرب سے چکر کاٹ کر حملہ آور لشکر کی زد سے نکل جائے اور پھر اپنی منزل کا رخ کریں۔سپاہی گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے قلعے سے باہر نکل گئے۔حملہ آور قریب آچکے تھے۔محمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ بند کرنے کا حکم دے کر دوبارا فصیل پر چڑھ کر چکر لگایا اور تیر اندازوں کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔فصیل کے ایک کونے پر خالد اور اس کے ساتھی نہایت ہی بےتابی سے حملہ آوروں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ان کے درمیان ناہید اور زہرہ کو دیکھ کر محمد بن قاسم نے کہا۔”خالد انھیں نیچے لےجاو۔یہاں ان کی ضرورت نہیں۔“
ناہید نے جواب دیا۔”آپ ہماری فکر نا کریں۔ہم تیر چلانا جانتی ہیں۔“
”تمہاری مرضی، لیکن زرا سر نیچے رکھو۔“ محمد بن قاسم یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے گھوڑوں کو ٹیلوں کے عقب میں چھوڑ کر چاروں طرف سے قلعے کا محاصرہ کرلیا اور چٹانوں اور پتھروں کے مورچے بنا کر قلعے پر تیروں کی بارش کرنے لگے۔قلعے کی فصیل کے مورچوں میں بیٹھنے والوں کے لیے حملہ آوروں کے تیر بےاثر ثابت ہوئے۔محمد بن قاسم نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ فقط قلعے پر دشمن کی یلغار روکنے کے لیے تیروں کو استعمال کریں۔
بھیم سنگھ نے اپنی فوج کے تیروں کا قلعے سے کوئی جواب ناپاکر ”راجہ دہر کی جے“ کا نعرہ بلند کیا اور چٹانوں اور پتھروں کی آڑ میں چھپ کر تیر چلانے والے لشکر نے چاروں طرف سے قلعے پر دھاوا بول دیا۔
جب یہ لشکر قلعہ کے محافظوں کے تیر کی زد میں آگیا تو محمد بن قاسم نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔یہ نعرہ ابھی فضا میں تحلیل نہ ہوا تھا کہ قلعے سے تیروں کی بارش ہونے لگی اور بھیم سنگھ کے سپاہی زخمی ہوہوکر گرنے لگے، لیکن بیس ہزار فوج چند سو سپاہیوں کے نقصان کی پروا نا کرتے ہوئے قلعے کی فصیل تک پہنچ گئی اور کمندیں ڈال کر قلعے پر چڑھنے کی کوشش کرنی لگی لیکن تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔چند ساعتوں کے بعد بھیم سنگھ کے قریباً دوہزار آدمی قلعے کی دیواروں کے آس پاس ڈھیر ہوکر رھ گئے اور اسے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینا پڑا۔
دوسرے پہر تک بھیم سنگھ نے قلعے پر تین بار یلغار کی لیکن تینوں بار اسے مایوس ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا۔
سہ پہر کے وقت بھیم سنگھ ایک فیصلہ کن حملے کی تیاری کررہا تھا کہ اسے پیچھے سے محمد بن قاسم کی باقی فوج کی آمد کی اطلاع ملی۔اس نے سواروں کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر اپنے گھوڑے سنبھالیں اور پیادہ فوج کے تیر اندازوں کو آس پاس کے پہاڑوں پر متعین کردیا۔دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھ کر محمد بن قاسم کو اندازہ ہوگیا کہ کہ دشمن کو محمد بن ہارون کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔اسے خطرہ پیدا ہوا کہ قلعے کے قریب پہنچ کر وہ چاروں طرف کے ٹیلوں اور پہاڑوں سے تیروں کی زد میں ہوگا۔اس نے جلدی سے کاغذ پر ایک نقشہ بنایا اور محمد بن ہارون کے نام چند ہدایات لکھ کر اپنے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”محمد بن ہارون کے یہاں پہنچنے سے پہلے اسے یہ رقعہ پہنچانا ضروری ہے لیکن یہ کام جس قدر اہم ہے اس قدر خطرناک ہے۔اس وقت دشمن کی توجہ دوسری طرف مبذول ہوچکی ہے۔شمال کی طرف سے دشمن کے مورچے تقریباً خالی ہوچکے ہیں اور ہم فصیل سے آدمی اتار سکتے ہیں لیکن پھر بھی محمد بن ہارون تک پہنچنے کے لیے اسے کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس مہم کے لیے رضاکار۔۔۔۔۔۔۔!“
خالد نے محمد بن قاسم کا فقرہ پورا نا ہونے دیا اور بولا۔”مجھے اجازت دیجیے۔“
بہت سے سپاہیوں نے خالد کی مخالفت کی اور اپنے نام پیش کیے۔سعد نے کہا۔”میں نے سنا ہےکہ مسلمان اپنے نومسلم بھائی کی خواہش رد نہیں کرتے۔آپ مجھے اجازت دیں۔میرے لباس سے کسی کو مجھ پر شک بھی نہیں ہوگا اور میں اس زمین کے چپے چپے سے واقف ہوں۔“
محمد بن قاسم کو اپنی فوج دشمن کے لشکر کے عقب میں دوتین میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے سے اترتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے سعد کے ہاتھ میں رقعہ دیتے ہوئے کہا۔”جاو خدا تمہاری مدد کرے۔“
سعد بھاگتا ہوا شمال کی دیوار کی طرف پہنچا اور ایک رسے کے ذریعے نیچے اتر گیا۔
محمد بن ہارون نے دور سے بھیم سنگھ کے سوار دستوں کو حملے کے لیے تیار دیکھ کر اپنے دستے کو رکنے کا حکم دیا اور مقابلے کے لیے صفیں درست کرنے کے بعد پیش قدمی کا حکم دینے والا تھا کہ لشکر کا دائیں باوزو کا سالار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور اس نے ایک رقعہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”یہ تحریر تو سپہ سالار کی معلوم ہوتی ہے۔لیکن لانے والا ایک سندھی ہے۔ہم نے اسے گرفتار کرلیا ہے، وہ بھی عربی جانتا ہے اور کہتا ہے کہ زبیر مجھے جانتا ہے۔ اپنا نام کبھی سعد بتاتا ہے اور کبھی گنگو۔“
زبیر نے چونک کر کہا۔”میں اسے جانتا ہوں۔“
محمد بن ہارون نے رقعہ پرھنے کے بعد کہا۔”سپہ سالار کا رقعہ پڑھنے کے بعد تمہیں اس کے متعلق تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہے تو جاکر معافی مانگو اور اپنے سواروں سے کہو کے وہ میرے ساتھ آملیں۔زبیر! ہمارے دائیں اور بائیں طرف تمام پہاڑیوں پر دشمن کے تیراندازوں کا قبضہ ہے۔تم میسرہ کے شتر سواروں کو اونٹوں سے اتر کر دونوں بازووں سے پہاڑوں پر حملہ کرنے اور بائیں بازو کے سواروں کو مقدمہ الجیش کے ساتھ شامل ہونے کا حکم دو۔جب تک دشمن کے تیر انداز ان پہاڑوں پر موجود ہیں، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔“
بھیم سنگھ کی چال نہایت کامیاب تھی۔اگر محمد بن ہارون سامنے سے فوراً حملہ کردیتا تو اس کے لشکر کے دونوں بازووں پر پہاڑوں میں چھپے ہوئے تیرانداز مسلمانوں کی فوج کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتے۔لیکن بھیم سنگھ کی توقع کے خلاف جب دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کی پیادہ فوج پہاڑوں پر چڑھنے لگی، تو اس نے فوراً اگے بڑھ کر حملے کا حکم دے دیا۔۔۔
قلعے کے اندر محمد بن قاسم اس موقع کا منتظر تھا۔اس نے پچاس سپاہیوں کو قلعے کی حفاظت پر متعین کیا اور باقی فوج کو قلعے سے باہر نکال کردشمن پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا۔سوار اور پیدل سپاہی قلعے کے دروازے پر جمع ہوگئے اور محمد بن قاسم دروازے کے سوراخ میں سے دونوں افواج کی نقل وحرکت دیکھنے لگا۔
خالد، ناصرالدین اور اس کے ساتھی بھی قلعے میں ٹھہرنے والے سپاہیوں سے خود، زرہیں اور عربی لباس حاصل کرکے گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔اچانک ناہید اور زہرا کیل کانٹوں سے لیس ہوکر ایک کمرے سے باہر نکلیں اور دروازے کے پاس پہنچ کر کھڑی ہوگئیں۔
خالد نے کہا۔”ناہید! زہرا!! جاو! قلعے کے باہر تمہارا کوئی کام نہیں۔“
ناصرالدین نے اس کی تائید کی۔محمد بن قاسم نے مڑکر ان کی طرف دیکھا اور کہا۔”میں تمہارے جزبہ جہاد کی داد دیتا ہوں۔لیکن تم قلعے کی حفاظت کے لیے سپاہیوں کا ساتھ دےکر ہماری مدد کرسکتی ہو۔
قوم کے لیے بہادر ماوں کا دودھ خون سے زیادہ قیمتی ہے۔نازک وقت آنے پر وہ گھروں کی چار دیواری کو گرتی ہوئی قوم کے لیے آخری قلعہ بناسکتی ہو۔تم یہاں ہوگی تو قلعے کی حفاظت میں یہ چند سپاہی اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن میدان میں سپاہیوں کو دشمن کا مقابلہ کرنے سے زیادہ تمہاری حفاظت کا خیال ہوگا۔تم میں سے ایک کا زخمی ہوکر گرنا سینکڑوں سپاہیوں کو بددل کردے گا اور یہ معرکہ ایسا نہیں جس کے لیے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہو۔ تم تھوڑی دیر آرام کرلو۔ شاید رات بھر تمہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے جاگنا پڑے۔خالد! انھیں اندر لےجاو۔“
یہ کہہ کر وہ پھر دروازے کے سوراخ میں سے جھانکنے لگا۔جب دونوں افواج گتھم گتھا ہوگئیں، تو محمد بن قاسم نے گھوڑے پر سوار ہوکر دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
خالد، ناہید اور زہرہ کو کمرے میں چھوڑ کر باہر لوٹا اور ابھی دروازے تک نا پہنچا تھاکہ زہرا نے بھاگ کر اس کا دامن پکڑ لیا۔”خدا کےلیے! مجھے ساتھ لےچلیے! میں زندگی اور موت میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔“
خالد نے برہم ہوکر جواب دیا۔”زہرا نادان نابنو! تم سپہ سالار کا حکم سن چکی ہو، مجھے جانے دو۔ فوج قلعے سے باہر نکل رہی ہے۔“
زہرا نے آبدیدہ ہوکر کہا۔”خدا کے لیے مجھے بزدل خیال نا کرو__میں تمہارے ساتھ جان دینا چاہتی ہوں۔“
”زہرا!! زہرا!! مجھے چھوڑ دو۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے زہرا کے ہاتھ جھٹک دیے۔لیکن وہ پھر راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
اس نے آگے بڑھ کرکہا۔”اگر آپ سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تو مجھے کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں۔“
”زہرا یہ امیرِ عساکر کا حکم ہے اور جہاد میں امیر عساکر کی حکم عدولی سب سے بڑا جرم ہے۔“
زہرا نے بددل ہوکر خالد کا دامن چھوڑ دیا اور سسکیاں لیتی ہوئی ناہید سے لپٹ گئی۔
خالد بھاگتا ہوا دروازے تک پہنچا، سپاہی جاچکے تھے اور دروازہ بند تھا۔خالد نے پہرے دار سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا لیکن اس نے جواب دیا۔”جب تک باہر سے سپہ سالار کا حکم نا آئے، میں دروازہ نہیں کھول سکتا۔“
خالد کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔اسے خیال آیا کہ وہ اسے بزدل سمجھ کر پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔اس نے بھاگ کر دروازے کے سوارخ سے باھر جھانکا۔قلعے کی پیادہ فوج عقب سے بھیم سنگھ کے دونوں بازووں پر حملہ کرچکی تھی اور محمد بن قاسم ساٹھ سواروں کے ہمراہ براہِ راست قلب لشکر پر حملہ کرچکا تھا۔خالد دشمن کے لشکر کے عین وسط میں ہلالی پرچم دیکھ کر اپنی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ کاٹتا ہوا پہرےداروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔”انھوں نے میرا انتظار کیاہوگا اور یہ سمجھ لیا ہوگا کہ میں موت کے ڈر سے قلعے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہوں۔ خدا کے لیے دروازہ کھول دو، مجھے جانے دو!“
پہرےدار نے جواب دیا۔”آپ اطمینان رکھیے! سپہ سالار کو یہ شک نہیں کہ آپ بزدل ہیں۔ورنہ شاید آپ کے قتل کا حکم دے جاتے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کے پاس آپ کا ٹھہرنا ٹھیک ہوگا۔ہمیں دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں۔“
”تو میں فصیل سے کود جاوں گا۔“ یہ کہہ کر خالد فصیل کی سیڑھی کی طرچ لپکا۔راستے میں زہرا کھڑی تھی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن خالد کے تیور دیکھ کر سہم گئی۔
خالد نے اس پرایک قہر آلود نگاہ ڈالی اور کہا۔”اب تم خوش ہونا!“
زہرا نے کہا۔”مجھے معاف کردو! میں ایک عورت ہوں۔“
”خدا ایک زندہ قوم کو تمہارے جیسی عورتوں سے بچائے۔“ خالد یہ کہہ کر بھاگتا ہوا زینے چڑھا اور رسا پھینک کر آن کی آن کی آن میں فصیل سے نیچے اتر گیا۔
زہرا نے بھاگ کر کمرے سے تلوار اٹھائی۔ ناہید نے اٹھائی۔”زہرا! کہاں جارہی ہو؟“
زہرا نے جواب دیا۔”ناہید! تمہارے بھائی نے ہمیشہ مجھے غلط سمجھا، اگر میں واپس نا آسکوں تو اسے کہہ دینا، میں بزدل نا تھی۔کاش! ہمارا سماج عورت کو اپنے پتی کی چتا جلنے کی بجائے کسی مقصد پر قربان ہونا سکھاتا۔“
ناہید نے کہا۔” زہرا! ٹھہرو! زہرا! زہرا!“
لیکن زہرا آندھی کی طرح کمرے میں داخل ہوئی اور بگولے کی طرح باہر نکل گئی ناہید اس کے پیچھے بھاگی لیکن جب تک وہ زینے کے قریب پہنچی وہ فصیل پر چڑھ کر رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینک چکی تھی۔سپاہیوں نے اسے روکنا چاہا لیکن اس نے کہا۔”اگر میرا راستہ روکا گیا تو میں فصیل سے کود جاوں گی۔“
سپاہی پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور زہرا نیچے اتر گئی۔ناہید نے فصیل پر پہنچ کر آوازیں دیں۔”زہرا! زہرا! پگلی نا بنو۔وآپس آجاو۔“ لیکن ناہید کی ہر آواز کےساتھ اس کی رفتارتیز ہوگئی۔ ناہید نے مایوس ہوکر خود نیچے اترنے کا ارادہ کیا لیکن ایک عمررسیدہ سپاہی نے کہا۔” عورت کا جوش آندھا ہوتا ہے۔اگر آپ نے اس کا تعاقب کیا تو وہ بےتحاشا دشمنوں کی صفوں میں جاپہنچے گی۔“
ناہید نے مایوس ہرکر ایک سپاہی سے تیروکمان مگوایا اور فصیل کے ایک مورچے میں بیٹھ گئی۔ایک گھوڑا اپنے سوار کو میدان میں گرا کر ادھر ادھر بھاگ گیا تھا۔زہرا نے بھاگ کر اس کی لگام پکڑ لی اور اس پر سوار ہوگئی۔اسے گھوڑے پر دیکھ کر ناہید کو قدرے اطمینان ہوا اور وہ اس کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔
مسلمانوں کی فوج پر بھیم سنگھ کی فوج کا پہلا حملہ بہت زور دار تھا اور انھیں ایک تنگ وادی میں چند قدم پیچھے ہٹنا پڑا لیکن پیادہ فوج آس پاس کی پہاڑیوں پر قبضہ جما کر تیر برسانے لگی تو سندھ کے لشکر کی توجہ دوحصوں میں بٹ گئی۔عین اس موقع پرمحمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ کھول کر عقب سے حملہ کردیا اور چند سواروں کے ہمراہ دشمن کی صفیں درہم برہم کرتا ہوا لشکر کے قلب تک جاپہنچا۔
لشکر کے عین درمیان سبز پرچم دیکھ کر محمد بن ہارون نے اپنے لشکر کو تین اطراف سے عام حملے کا حکم دے دیا۔زبیر! محمد بن قاسم کی اعانت کے لیے پانچ سو سواروں کو لے کر آگے بڑھا اور آن کی آن میں اس کے ساتھ آملا۔بھیم سنگھ کی فوج بدحواس ہوکر قلعے کی طرف ہٹنے لگی۔وادی میں اٹھتی ہوئی گرد نے شام کے دھندلکے کے ساتھ مل کر آمدِ شب کے آثار پیدا کردیے تھے۔بھیم سنگھ نے آخری بار اپنی فوج کی ٹوٹی ہوئی صفیں منظم کرنے کی کوشش کی۔لیکن زبیر کی تقلید میں محمد بن ہارون کے باقی سپاہی بھی میدان کو صاف کرتے ہوئے محمد بن قاسم کے ساتھ آملے۔
بھیم سنگھ کی فوج غیرمنظم ہوکر مختلف ٹولیوں میں لڑنے لگی۔مسلمانوں کے دباو سے کئی ٹولیاں پسپا ہوکر قلعے کے قریب پہنچ چکی تھیں اور جب قلعے کے محافظ ان پر تیر برسانے لگے تو وہ ندحواس ہوکر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔
خالد تیر اندازوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک ٹیلے سے اترا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کی ایک ٹولی پر ٹوٹ پڑا۔بدحواس سپاہی ایک طرف ہٹ گئے اور خالد ان کے تعاقب میں اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوگیا۔دشمن کے سپاہیوں نے موقع پاکر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔اچانک ایک سوار گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے اللہ اکبر کہہ کر اس ٹولی پر حملہ کردیا۔خالد اس کی آواز پہچان کر چونکا۔یہ زہرا تھی۔زہرا کی تلوار یکے بعد دیگرے دوسپاہیوں کے سروں پر چمکی اور دونوں گرکر خاک میں لوٹنے لگے۔ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر زہرا پروار کیا۔زہرا کا گھوڑا اچانک بدکا اور تلوار اس کی اگلی ٹانگ پر لگی۔گھوڑے نے چند چھلانگیں لگائیں اور ڈگمگا کر گر پڑا۔مسلمانوں کے دستوں کو قریب آتا دیکھ کر بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے میدان کا یہ حصہ بھی خالی کردیا۔۔۔۔۔۔خالد بھاگتا ہوا زہرا کے پاس پہنچا۔وہ گھوڑے کے قریب منہ کے بل پڑی ہوئی تھی۔قریب آکر خالد کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔اس کے منہ سے بیک وقت سسکیاں، آہیں اور دعائیں نکلیں۔وہ رکا، جھجکا، کپکپایا اور پھر بھاگ کر زہرا کو اٹھانے لگا۔معاً اسے زہرا کی پیٹھ پر خون کے نشان اور زرہ میں دو تیرآٹکے ہوئے نظر آئے اور زندگی کی تمام حسیات سمٹ کر اس کی آنکھوں میں آگئیں۔اس نے یکے بعد دیگرے دونوں تیر نکال کر پھینک دیے۔۔زہرا نے ایک جھرجھری لینے کے بعد آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے چاند کی ہلکی اور پھیکی روشنی میں اس کا زرد چہرہ دیکھا اور کہا۔”تمہیں تکلیف تو نہیں؟“
اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔اس نے کہا۔”نہیں! میں نے ان تیروں کو محسوس بھی نہیں کیا۔گھوڑے سے گرنے کے بعد میرا سر چکرا گیا تھا۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔میدان کا کیا حال ہے؟“
”میدان خالی ہوچکا تھے۔ خدا نے ہمیں فتح دی ہے لیکن ناہید کہاں ہے؟“
”وہ قلعے میں ہے۔میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ مجھ سے خفا تو نہیں؟“
”اف! زہرا! مجھے نادم نا کرو۔مجھے اپنی سخت کلامی کا بہت افسوس ہے۔“
وہ بولی۔”نہیں! میں غلطی پر تھا۔مجھے ڈر تھا کہ آپ شاید وآپس نا آئیں لیکن آج میں دیکھ چکی ہوں کہ انسان اپنے معین وقت سے پہلے نہیں مرتا۔میں تیروں کی بارش میں سے گزر کر میدان تک پہنچی لیکن میں نے محسوس کیا کہ قدرت کا زبردست ہاتھ میری حفاظت کررہا ہے۔“
مسلمانوں کی فوج فتح کے نعرے لگاتی ہوئی قلعے کے دروازے کے سامنے جمع ہورہی تھی۔خالد نے کہا۔”چلو زہرا! ناہید بہت پریشان ہوگی۔“
زہرا نے اٹھ کر خالد کے ساتھ چند قدم اٹھائے لیکن اسے چکر آیا اور وہ ڈگمگاتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی۔
اس نے خالد سے پانی مانگا اور خالد نے ایک گرے ہوئے سپاہی کی چھاگل اتار کر اس کے منہ سے لگادی۔زہرا پانی کے چند گھونٹ پی کر اٹھ بیٹھی۔خالد نے کہا۔”زہرا! میں اٹھالوں، خون بہہ جانے سے تم بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہو۔“
زہرا نے کہا۔”نہیں! مجھے پیاس کی وجہ سے چکر آگیا تھا۔مجھے فقط آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔“
خالد نے اسے اپنے بازو کا سہارا دیا اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔چندقدم چلنے کے بعد اسے ناصرالدین کی آواز سناہی دی۔”زہرا! زہرا!“ اور اس نے خالد سے کہا۔”بھائی مجھے تلاش کررہا ہے۔اسے آواز دو!“
خالد نے بلند آواز سے کہا۔”زہرا میرے پاس ہے اس طرف۔“
ناصرالدین،زبیر اور ناہید تیزی سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچے۔ناہید نے بھاگ کر زہرا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔”زہرا! زہرا! میری بہن تم کیسی ہو؟“
اس نے جواب دیا۔”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
لیکن ناہید نے اپنی انگلیوں پر نمی محسوس کرتے ہوئے اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور چونک کر کہا۔”زہرا تم زخمی ہو؟ بھائی ناصرالدین ! اسے قلعے کے اندر لےچلو۔“
ناصرالدین نے آگے بھر کر زہرا کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”بھیا! میں بالکل ٹھیک ہوں، میں چل سکتی ہوں اور یہ کون ہے؟___بھیا زبیر! مجھے معاف کرنا میں پہچان ناسکی۔“
زبیر نے کہا۔”ننھی بہن! تم اپنے بھائیوں کو بہت پریشان کرتی ہو۔اب چلو ہمیں تمہاری مرہم پٹی کرنی چاہیے۔“
چند قدم چلنے کے بعد انھیں سعد نظرآیا۔وہ جھک جھک کر میدان میں پڑی لاشیں دیکھ رہا تھا۔خالد نے اسے آواز دی۔”چچا! کسے ڈھونڈ رہے ہو۔ہم اس طرف ہیں۔“
وہ بھاگتا ہوا ان کے قریب آیا اور بےقرار ہوکر بولا۔”میرے بیٹے! میری بیٹی! تم کہاں تھے؟“
خالد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔”ہم آپ کو تلاش کررہے تھے۔“
”تم مجھے تلاش کررہے تھے؟ چور کہیں کے، ناہید سے پوچھو میں کس قدر پریشان تھا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ تمہارے لیے بہت پریشان تھے۔ہم نے میدان کا صرف ایک چکر لگایا ہے اور یہ شاید تین چار چکر لگا چکے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”صرف اسی میدان میں نہیں، میں تو آس پاس کی تمام پہاڑیوں پر بھی خوار ہوآیا ہوں۔تم نے آواز تو دی ہوتی۔میرا تو گلا بھی بیٹھ گیا۔“
خالد نے کہا۔”میں نے آپ کی آواز نہیں سنی۔ورنہ میں جواب ضرور دیتا۔“
سعد نے کہا۔”ان زخمیوں کی چیخ پکار میں کسی کی آواز سنائی بھی کب دیتی۔“
یہ لوگ باتیں کرتے ہوئے قلعے کے دروازے کے قریب پہنچے تو ناہید نے آہستہ سے سعد کے کان میں کچھ کہا اور وہ چند بار سر ہلانے کے بعد ناصرالدین سے مخاطب ہوا۔میں علیحدگی میں آپ کے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ناصرالدین نے اس کے ساتھ چند قدم چلنے کے بعد رک کرکہا۔”کہیے، کیا ارشاد ہے؟“
سعد نے آس پاس جمع ہونے والے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔”یہاں نہیں۔یہاں بہت سے لوگ ہیں۔“
ناصرالدین نے کہا۔”بہت اچھا۔جہاں چاہو، چلے چلو۔“
قلعے کے دروازے سے کوئی پانچ سو قدم دور جاکے سعد نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔”آپ بھی بیٹھ جائیں۔“
ناصرالدین اس کے ساتھ دوسرے پتھر پر بیٹھ گیا۔
سعد نے کہا۔”پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ میری بات سن کر میرا سر پھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوجائیں گے؟“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”اگر کوئی سر پھوڑنے والی بات ہوئی توضرور پھوڑ دوں گا۔“
سعد نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”بات تو ایسی کوئی نہیں لیکن پرائے ہاتھ کا کیا اعتبار۔اچھا میں کہہ ہی دیتا ہوں۔بات یہ ہے کہ مایا نہیں! نہیں!! زہرا آپ کی بہن ہے اور میرے لیے بھی وہ بیٹی سے کم نہیں۔خالد بھی مجھے بہت عزیز ہے بالکل اپنے بیٹے کی طرح اور اس سے آگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کہوں؟ مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے!“
ناصرالدین نے کہا۔”میں سمجھ گیا۔تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد اور زہرا کی شادی کردی جائے!“
ہاں! ہاں!! خدا تمہارا بھلا کرے۔میں یہی کہنا چاہتا تھا۔“
”بس اسی بات کے لیے مجھے یہاں تک گھسیٹ لائے ہو؟“
سعد نے جواب دیا۔”مجھے یہ خیال تھا کہ اگر آپ بگڑ کر میری داڑھی نوچنے پر آمادہ ہوجائیں تو دوسرے ہمارا تماشا نا دیکھیں۔“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”میں حیران ہوں کہ مجھے آپ نے اس قدر برا خیال کیا۔مجھے گنگو سے نفرت تھی لیکن سعد کی میرے دل میں وہی عزت ہے جو ایک راجپوت کے دل میں اپنے باپ کے لیے ہونی چاہیے۔آپ جس وقت چاہیں، ان سے شادی کرسکتے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”میں تو کہتا ہوں کہ ابھی ہوجائے۔“
”لیکن زہرا زخمی ہے!“
سعد نے چونک کرسوال کیا۔”زہرا زخمی ہے؟ مجھے کسی نے کیوں نہیں بتایا! چلو چلیں۔“
ناصرالدین نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔اس کے زخم بلکل معمولی ہیں۔“
آدھی رات تک محمد بن قاسم کےتھکے ہارے سپاہی زخمیوں کی مرہم پٹی اور شہیدوں کی تجہیزوتکفین میں مصروف رہے۔میدان کے چاروں طرف سے دشمن کے زخمی سپاہیوں کی چیخ و پکار سنائی دی رہی تھی۔شہیدوں کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد مسلمانوں کی فوج کا سترہ سالہ سپہ سالار جس کا جسم بےآرامی کی کئی راتیں کاٹنے کے بعد تھکاوٹ سے چور ہوچکا تھا، جس کے بازو دن بھر تلواروں اور نیزوں سے کھیلنے کے بعدشل ہوچکے تھے، اپنی پیٹھ پر پانی کا مشکیزہ اٹھائے زخموں سے کراہتے ہوئے دشمنوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔وہ آنکھیں جن میں اس کے ساتھیوں نے لڑائی کے وقت قہروغضب کی آگ کے شعلے دیکھے تھے، اب گر کر تڑپنے والے دشمنوں کے لیے عفودرگزر کے آنسووں سے لبریز تھیں۔ وہ ہاتھ جس کی تلوار دشمن کے سر پر بجلی بن کر کوندی تھی، اب ان کی زخموں پر مرہم رکھ رہا تھا۔
محمد بن قاسم کے سپاہی بھی تھکاوٹ سے چور تھے۔لیکن وہ اپنی نوجوان سپہ سالار کی تقلید میں ایک روحانی لذت محسوس کررہے تھے۔انھون نے دشمن کے زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر قلعے کے سامنے قطار در قطار لٹا دیا۔
محمد بن قاسم کو ایک پہاڑی کے دامن سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی اور وہ مشعل اٹھائے اس طرف بڑھا۔سعد، زبیر، ناصرالدین اور چند اور سالار اس کے ساتھ تھے۔مشعل کی روشنی میں چند لاشوں کے درمیان اسے ایک زرہ پوش نوجوان دکھائی دیا۔ اس کی زرہ میں کئی جگہوں پر خون کے نشان تھے اور پسلی میں ایک تیر پیوست تھا۔اس کے دائیں ہاتھ سے تلوار کا دستہ چھوٹ چکا تھا لیکن بائیں ہاتھ میں وہ ابھی تک مضبوطی کے ساتھ سندھ کا جھنڈا تھامے ہوئے تھا۔محمد بن قاسم نے مشعل اپنے ایک ساتھی کے ہاتھ میں تھما دی اور زمین پر گھٹنا ٹیکتے ہوئے اسے اٹھنے کا سہارا دےکر پانی پلایا۔چند گھونٹ پینے کے بعد نوجوان نے آنکھیں کھولیں اور محمد بن قاسم اور اس کے ساتھیوں کو غور سے دیکھنے کے بعد جھنڈے کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔
ناصرالدین نے زبیر سے کہا۔”زبیر! تم اسے پہچانتے ہو؟“ زبیر نے آگے بڑھ کر زخمی نوجوان کی طرف دیکھا اور کہا۔”اف! یہ بھیم سنگھ ہے؟“
بھیم سنگھ نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں فتح مبارک ہو!“
محمد بن قاسم کے استفسار پر زبیر نے بھیم سنگھ کے الفاظ کا عربی میں ترجمہ کیا اور اس نے کہا۔”میں حیران ہوں کہ ایسے بہادر سپہ سالار کی موجودگی میں سندھ کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔زبیر! تم اسے سہارا دو میں اس کا تیر نکالتا ہوں۔“
زبیر نے آگے بڑھ کر بھیم سنگھ کو سہارا دیا۔محمد بن قاسم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بھیم سنگھ نے جھنڈا چھوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
محمد بن قاسم نے ناصرالدین کو اشارہ کیا اور اس نے بھیم سنگھ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔محمد بن قاسم نے تیر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور ناصرالدین کو فوراً زرہ کھول ڈالنے کا کہا۔
بھیم سنگھ کے زخم زیادہ گہرے نا تھے لیکن خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ نڈھال ہوچکا تھا۔محمد بن قاسم نے اس نے اس کی مرہم پٹی سے فارغ ہوکر سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے قلعے کے اندر لےجائیں اور خود دوسرے زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگیا۔
زہرا نے اپنے زخموں کو زیادہ اہمیت نہ دی۔وہ حسبِ معمول علی الصباح اٹھ کر ناہید کے ساتھ صبح کی نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔نماز ختم ہونے کے بعد زہرا نے اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے کہا۔”ناہید! کاش میں زیادہ زخمی ہوتی اور تمہاری تیماداری کا لطف اٹھاتی!“
ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا۔”تم میری تیماداری کا تصور کررہی ہو یا خالد کی؟“
زہرا کے گالوں پر تھوڑی دیر کے لیے حیا کی سرخی چھا گئی۔دروازے پر ناصرالدین نے دستک دیتے ہوئے کہا۔”میں اندر آسکتا ہوں؟“
ناہید نے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے کہا۔”لو اب اٹھ جاو۔ورنہ____!“
”ورنہ کیا ہوگا؟“
ناہید نے کہا۔”ورنہ تمہاری شادی شاید دیبل کی فتح تک ملتوی ہوجائے۔“
زہرا کا دل دھڑکنے لگا۔اس نے اٹھ کر ناہید کا دامن پکڑ لیا اور کہا۔”ناہید! آپاناہید! سچ کہو یہ کیا معاملہ ہے؟“
ناہید نے دامن چھڑاتے ہوئے کہا۔”پگلی! تمہارا بھائی باہر کھڑا ہے۔مجھے چھوڑ دو!“
”نہیں! جب تک تم مجھ سے صاف صاف نہ کہو گی، میں نہیں چھوڑوں گی۔بھیا زرا ٹھہرنا! میں آپا ناہید سے ایک بات کررہی ہوں۔ہاں! بتاو؟“
ناہید نے کہا۔”اچھا بتاتی ہوں۔سنو! رات کے وقت سعد نےمیدان سے آتے ہی تمہارے متعلق پوچھا اور میں نے تمام واقعات بتادیے اور تمہارے دل کی حالت پہلے بھی اس سے پوشیدہ ناتھی۔تمہیں یاد ہے۔جب ہم قلعے میں داخل ہورہے تھے۔وہ تمہارے بھائی کو پکڑ کر ایک طرف لےگیا تھا؟“
”تو اس نے بھائی سے کیا کہا ہوگا؟“
”یہی کہ خالد کے ساتھ تمہاری شادی کردی جائے!“
”آپا! سچ کہو! تم مذاق کررہی ہو!“
پگلی میں مذاق نہیں کرتی۔تمہارا بھائی ابھی میری باتوں کی تصدیق کردے گا۔“
زہرا کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلک رہے تھے۔ناہید نے کہا۔”ہائیں! تم رورہی ہو۔کیا تمہیں میرا بھائی پسند نہیں!“
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”نہیں!“
”تو میں خود تمہارے بھائی سے کہہ دیتی ہوں کہ تمہیں شادی کے لیے مجبور نا کرے۔کہوں اس سے؟“ یہ کہتے ہوئے ناہید ایک شرارت آمیز تبسم کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی لیکن زہرا آگے بڑھ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی۔
”میری بہن! میری آپا!!“ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
ناہید نے کہا۔”تو تم خالد کے ساتھ شادی کرنے پر رضا مند ہو!“
زہرا نے اس کی طرف دیکھا۔مسکرائی اور اسے دوسرے کمرے کی طرف دھکیلتے ہوئے بولی۔”جاو! تم بہت شریر ہو!“
ناصرالدین نے باہر سے آواز دی۔”زہرا تمہاری باتیں کب ختم ہوں گی؟“
اس نے بستر پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔”آجاو بھیا! بہن ناہید دوسرے کمرے میں چلی گئی ہے۔“
ناصرالدین نے اندر پاوں رکھتے ہی پوچھا۔”تمہاریے زخموں کا اب کیا حال ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”بھیا! وہ معمولی خراشیں تھیں۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
ناصرالدین اس کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا۔زہرا کا دل دھڑک رہا تھا۔تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ناصرالدین نے کہا۔”زہرا! خالد ایک بہادر نوجوان ہے۔میرا ارادہ ہے تمہاری شادی اس کے ساتھ کردی جائے۔تمہیں یہ رشتہ پسند ہے؟“
زہرا نے جواب دینے کی بجائے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرا چھپا لیا۔
ناصرالدین نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا۔”میرا ارادہ تھا کہ سندھ فتح ہونے کے بعد تمہاری شادی دھوم دھام سے ہو لیکن مسلمان ایسی رسومات کو برا سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ اہلِ سندھ کے ساتھ ابھی فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے۔سپاہی کو اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں سے خالد کو سونپ دوں۔ناہید تمہیں بہت چاہتی ہے۔ وہ تمہارا خیال رکھے گی اور میں زیارہ اطمینان کے ساتھ اسلام کی خدمت کرسکوں گا۔زہرا اس بےسروسامانی میں میرے پاس تمہارے لیے نیک دعاوں کے سوا کچھ نہیں۔اگر میرے پاس ساری دنیا کی دولت ہوتی تومیں تم پروہ بھی نچھاوڑکردیتا۔“
”بھیا! بھیا!!“ اس نے آگے جھک کر ناصرالدین کی گود میں سر رکھ دیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔”مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں!“
اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”زہرا! میرا ارادہ ہے کہ آج ہی تمہاری شادی کردوں۔فوج دوچار دن اور یہاں ٹھہرے گی۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اچانک دیبل سے راجہ کی فوج کی پیشقدمی کی اطلاع آجائے اور ہمیں فوراً کوچ کرنا پڑے۔سعد، محمد بن قاسم سے زکر کرچکا ہے اور وہ بہت خوش ہیں۔سعد خالد سے بھی پوچھ چکا ہے اور بہن ناہید کو بھی مبارک باد دو۔سالارِ اعظم خود اس کے بھائی کو بلا کراس کی رضا مندی حاصل کرچکے ہیں۔وہ خود تم دونوں کا نکاح پڑھانا چاہتے ہیں!“
باہر سے سعد نے ناصرالدین کو آواز دی اور وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
زہرا نے اٹھ کر برابر والے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔”ناہید! ناہید!! تم نے سنا، آج تمہاری شادی ہے!“
”میری شادی؟“ ناہید کے چہرے پر حیا اور مسرت کی سرخ و سفید لہریں دوڑنے لگیں۔
”ہاں ناہید! تمہاری شادی۔اب بتاو تمہیں زبیر بھیا پسند ہیں یا نہیں؟ اور میں ابھی انھیں بلا کر کہتی ہوں کہ وہ اپنے لیے کوئی اور لڑکی تلاش کریں!“
ناہید نے کہا۔”تم بہت شریر ہو زہرا!“
خالد نے برآمدے سے برابر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ناہید کو آواز دی اور زہرا نے ہنستے ہوئے کہا۔”ناہید جلدی جاو۔ورنہ تمہاری شادی سندھ کی فتح تک ملتوی ہوجائے گی۔میں مذاق نہیں کرتی۔تمہارا بھائی ابھی میری باتوں کی تصدیق کردے گا!“
ناہید، زہرا کو محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔اس کا دل خوشی کے سمندر میں غوطے کھارہا تھا۔اس کے پاوں ڈگمگا رہے تھے۔
*
شام کے وقت لشکر کے تمام سالار قلعے کے ایک وسیع کمرے میں جمع ہوکر زبیر اور خالد کو ان کی شادی پر مبارک باد دے رہے تھے۔ناہید اور زہرا اپنے کمرے میں بیٹھیں آپس میں باتیں کررہی تھیں۔ناہید نے کہا۔”زہرا! نکاح کے وقت تمہاری زبان گنگ کیوں ہوگئی تھی؟“
”ناہید مجھے معلوم نہیں۔تم جانتی ہو مجھے یہ امید نا تھی کہ یہ تمام باتیں اس قدر جلد ہوجائیں گی۔میرے کان سائیں سائیں کررہے تھے۔مجھے یہ امید نا تھی کہ یہ تمام باتیں اس قدر جلد ثابت ہوجائیں گی۔میرے کان سائیں سائیں کررہے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم نا تھا کہ میں کہاں ہوں۔مجھے یہ بھی معلوم نا تھا کہ میں کہاں ہوں اور اگر نکاح پڑھانے والا محمد بن قاسم کی بجائے کوئی اور ہوتا تو میں شاید اس قدر بدحواس نا ہوتی۔اس کے چہرے پر کتنا جلال تھا اور اس کی آواز کس قدر رعب دار تھی۔سچ کہتی ہوں، وہ انسان نہیں دیوتا ہے اور ہمیں دیوتاوں سے ڈرنا سیکھایا گیا ہے.ناہید اگر تم میرے پاس نا ہوتیں تو شاید میری زبان بالکل نا کھلتی۔انھوں نے پوچھا”تمہین خالد قبول ہے؟“ اور میں شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ناہید! مجھے اب تک یقین نہیں ہوتا کہ تمہارے بھائی کے ساتھ میری شادی ہوچکی ہے۔کبھی کبھی تو مجھے خیال آتا ہے کہ میں ایک خواب دیکھ رہی ہوں۔کیا تمہیں اپنی شادی ایک خواب معلوم نہیں ہوتی؟“
ناہید مسکرائی اور زہرا اس کے گلے میں باہیں ڈال کر اس سے لپٹ گئی۔ناہید اس کے سیاہ اور خوبصورت بالوں سے کھیلنے لگی۔اچانک اس کے دل میں ایک خیال آیا اور اس نے اپنے گلے سے موتیوں کا ہار اتار کر زہرا کے گلے میں ڈال دیا۔
زہرا نے کہا۔”نہیں! نہیں! یہ تمہیں اچھا لگتا ہے؟“
ناہید نے جواب دیا۔”میرے پاس دوسرا ہے۔مجھے خالد دے گیا ہے۔“
یہ کہتے ہوئے اپنی ہیرے کی انگوٹھی اتار دی اور زہرا کے احتجاج کے باوجود اس کی انگلی میں پہنا دی۔”دیکھو! اگر تمہیں میری خوشی منظور ہے تو اسے مت اتارو۔“ زہرا مغموم سی ہوکر ناہید کی طرف دیکھنے لگی۔ناہید نے کہا۔”زہرا! تم مغموم کیوں ہوگئیں؟ مجھے زیور اچھے نہیں لگتے اور تمہارے ملک میں زیور پہننے کا رواج ہے!“
زہرا نے کہا۔”لیکن ہمارے ملک میں بھابھی نند سے لیتی نہیں۔اسے دیتی ہے اور میں گھر سے اتنی دور۔۔۔۔!“
ناہید نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔”پگلی! بھابھی تم آج بنی ہو۔اس سے پہلے ایک عرصے سے تم میری ننھی بہن تھیں۔“
زہرا نے کہا۔”ناہید! سندھ کی فتح کے بعد بھائی جان کا ارادہ ہے کہ وہ کاٹھیار وار جاکر اسلام کی تبلیغ کریں۔میرا بھی ارادہ ہے کہ میں چند دن کے لیے وہاں جاوں۔کاش! تم بھی ہمارے ساتھ چل سکو۔ہمارا گھر سمندر کے کنارے ایک چھوٹے سے قلعے میں ہے۔اس کے تین طرف آموں کے وسیع باغات ہیں۔بیچ میں سے ایک ندی گزرتی ہے۔میں اس ندی کے کنارے آم کے ایک درخت پر جھولا جھولا کرتی تھی۔ برسات کے دنوں میں اس ندی کا پانی بہت تیز بہتا تھا اور میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس میں نہایا کرتی تھی۔بارش میں ہم آم توڑ کر کھایا کرتیں۔ شہد کی طرح میٹھے آم، باغ سے پرے ایک خوبصورت جھیل تھی۔ہم پانی میں کود کر آنکھ مچولی کھیلتیں اور کنول کے پھول توڑ کر ایک دوسرے پر پھینکتیں۔ناہید! میں تمہیں وہاں ضرور لے چلوں گی!“
ناہید نے جواب دیا۔”خدا ہمیں فتح دے! ممکن ہے کہ سندھ کے بعد ہماری افواج تمہارے شہر کا رخ کریں!“
زہرا نے کہا۔”خدا وہ دن جلد لائے اور میں اپنے ہاتھوں سے اس قلعہ پر اسلام کا پرچم لہراوں۔ناہید! میں حیران ہوں کہ میرے خیالات میں اتنا بڑا تغیر کیوں کر آگیا۔ مجھے اچھوتوں سے سخت نفرت تھی۔ایک دن میں اپنی سہیلیوں کہ ساتھ جھیل پر گئی۔وہاں ایک اچھوت لڑکا نہا رہا تھا۔ہم نے اسے پتھر مار مار کر بیہوش کردیا اور ایک دن ایک نیچ ذات مسافر ہمارے باغ کر قریب سے گزرا۔ اس نے نیچے گرے ہوئے چند آم اٹھائے اور ہمارے نوکروں نے اسے آٹھ پہر تک درخت کے ساتھ باندھ رکھا۔میں کئی دفعہ وہاں سے گزری اور تم حیران ہوگی کہ اسے بھوکا اور پیاسا دیکھ کر مجھے زرا بھی رحم نا آیا۔اب اگر میں وہاں گئی تو آس پاس کی بستیوں کے تمام اچھوتوں کو دعوت دوں گی کہ آو ہمارے باغ کے آم کھاو اور ہمارے کنوئیں کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیو! ان کی سب سے بڑی حسرت ہمارے مندروں میں آکر ہمارے دیوتاوں کی پوجا کرنی تھی اور میں انھیں یہ پیغام دوں گی کہ مسلمان اس ملک میں وہ عبادت گاہیں تعمیر کرنے کے لیے آئے ہیں جن میں ایک اچھوت برہمن کے ساتھ بلکہ اس سے بھی آگے کھڑا ہوسکتا ہے!“
ناہید نے کہا۔”خدا تمہاری خواہش پوری کرے!“
قلعے کو تمام فوج کی ضرورت کے لیے تنگ دیکھ کر محمد بن قاسم نے قلعے کے باہر خیمے نصب کروا دیے۔ اپنی فوج کے زخمیوں کی طرح اس نے بھیم سنگھ کی فوج کے زخمی سپاہیوں کو بھی خیموں میں جگہ دی اور اپنی فوج کے طبیبوں اور جراحوں کو حکم دیا کہ دشمن کی فوج کے زخمیوں کے علاج میں کوئی کوتاہی نا کریں۔محمد بن قاسم خود بھی علمِ جراحی اور طبابت میں خاصی دسترس رکھتا تھا وہ صبح شام زخمیوں کے خیموں میں چکر لگاتا اور فردا فردا سب کا حال پوچھتا اور انھیں تسلی دیتا۔دشمن کے زخمیوں سے تبادلہ خیالات کے لیے وہ سعد کو اپنا ترجمان بناکر ساتھ لیے پھرتا۔انھیں ملول و مغموم دیکھ کر وہ کہتا۔”تم بہت جلد اچھے ہوجاو گے۔یہ مت سمجھو کہ تم ہماری قید میں ہو۔تندرست ہونے کے بعد تم جہاں چاہو جاسکتے ہو!“
وہ اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سےدیکھتے ہوئے کہتے۔”بھگوان کے لیے آپ ہمیں شرمسار ناکریں۔ہمیں آپ کو اس قدر تکلیف دینے کا حق نہیں، آپ آرام کریں!“
وہ جواب دیتا۔”نہیں! یہ میرا فرض ہے۔“
بھیم سنگھ کے ساتھ محمد بن قاسم کو گہری دلچسپی تھی۔وہ دونوں وقت خود اس کے زخم دیکھتا اور اپنے ہاتھوں سے مرہم پٹی کرتا۔ناصرالدین اور زبیر ہر طریقے سے اس کی دلجوئی کرتے۔بھیم سنگھ نے ابتدا میں یہ سمجھا کہ یہ سلوک اس کے ساتھیوں کو ورغلانے کے لیے مسلمانوں کی ایک چال ہے لیکن تین چار دن کے بعد وہ محسوس کرنے لگا کہ یہ تصنع اور بناوٹ نہیں بلکہ محمد بن قاسم اور اس کے ساتھی فطرتاً عام انسانوں سے مختلف ہیں!“
اس کے زخم زیادہ خطرناک نہ تھے لیکن بہت سا خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کے جسم میں نقاہت آچکی تھی۔محمد بن قاسم کے علاج اور زبیر اور ناصرالدین کی تیماداری کی بدولت وہ چوتھے دن چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔
پانچویں دن حسبِ معمول نمازِ عشاء کے بعد محمد بن قاسم سعد کے ساتھ زخمیوں کے خیموں کا چکر لگاتے ہوئے بھیم سنگھ کے خیمے میں داخل ہوا۔وہ اپنے بستر میں لیٹا خواب کی حالت میں بڑبڑا رہا تھا۔”نہیں! نہیں!! مجھے دوبارا اس کے مقابلے پر نہ بھیجیے! وہ انسان نہیں دیوتا ہے۔آپ قیدیوں کو چھوڑ دیجیے۔وہ آپ کی خطا معاف کردے گا۔نہیں______نہیں_____ میں نہیں جاوں گا۔راجہ کے پاپ کی سزا پرجا کو کیوں ملے۔مجھے موت کا ڈر نہیں لیکن میری جان لےکر تم آنے والی مصیبت کو نہیں ٹال سکتے۔ظالم_____بزدل اف! بھگوان____!“
بھیم سنگھ نے کپکپا کر آنکھیں کھول دیں اور حیرت زدہ ہوکر سعد اور محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگا۔محمد بن قاسم نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ تم کوئی بھیانک خواب دیکھ رہے تھے!“
بھیم سنگھ سوچ میں پڑگیا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے یہ ظاہر کرتے تھے کہ خواب کی حالت میں وہ سخت ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا۔
محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر اس کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”تمہاری طبعیت بالکل ٹھیک ہے۔زخم میں تکلیف تو نہیں!“
اس نے اپنے ہونٹوں پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے جواب دیا۔”نہیں!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میری فوج کل صبح یہاں سے کوچ کرنے والی ہے۔مجھے افسوس ہے کہ بعض مصلحتیں مجھے زیادہ دیر یہاں قیام کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ورنہ میں چنددن اور تمہاری تیماداری کرتا۔بہرصورت میں پانچسو سپاہی اس قلعے میں چھوڑ کرجارہا ہوں، وہ تم لوگوں کا خیال رکھیں گے۔تمہاری فوج کے جو زخمی تندرست ہوچکے ہیں، انھیں کل اپنے گھروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔تم جب تک گھوڑے کی سواری کے قابل نہیں ہوتے یہیں ٹھہرو!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”آپ کا مطلب ہے آپ تمام قیدیوں کو رہا کردیں گے؟“
محمدبن قاسم نے جواب دیا۔”ہمارا مقصد لوگوں کو قیدی بنانا نہیں۔بلکہ ہم انھیں ایک ظالم حکومت سے نجات دلا کر ایک ایسے نظام سے آشنا کرنا چاہتے ہیں، جس کا بنیادی اصول مساوات ہے۔آپ کے سپاہی ہمیں غیر ملکی حملہ آور سمجھ کر ہمارے مقابلے میں آئے تھے لیکن انھیں یہ معلوم نا تھا کہ ہماری جنگ وطن کے نام پر نہیں۔ہم سندھ پر عرب کی برتری نہیں چاہتے۔ہم روئے زمین کے تمام انسانوں کی بہتری کے لیے ایک عالمگیر انقلاب چاہتے ہیں۔ ایک انقلاب جو مظلوم کا سر اونچا رکھان کے لیے ظالم کی لاٹھی چھین لینا چاہتا ہے۔ہماری جنگ راجوں مہاراجوں کی نہیں۔انسانوں اور بادشاہوں کی جنگ ہے۔ہمارا مقصد یہ نہیں کہا کہ ہم سندھ کے راجہ کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیں۔ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی شخص تاج و تخت کا مالک ہو کر دنیا پر اپنا قانون نافذ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔تاج و تخت خودغرض انسانوں کے تراشے ہوئے بت ہیں اور وہ قانون جو صرف ان بتوں کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا ہو، انسانوں کو ہمیشہ دو جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ایک ظالم، دوسری مظلوم۔تم ان جماعتوں کے لیے راجہ اور پرجا کے الفاظ استعمال کرتے ہو. سندھ کے راجہ نے ہمارے جہاز لوٹ کر عورتوں اور بچوں کو اس لیے قیدی بنایا کہ وہ تخت وتاج کا مالک ہوتے ہوئے ہر انسان پر ظلم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور اب وہ ہمارا مقابلہ اس لیے کرے گا کہ اب اسے ظلم کی تلوار چھن جانے کا خطرہ ہے اور یہ سپاہی ہمارے مقابلے میں اس لیے آئے ہیں کہ انھیں ظلم کی اعانت کا معاوضہ ملتا ہے۔ان بیچاروں سے وہی کام لیا گیا ہے جو انسان سواری کے جانوروں سے لیتے ہیں، یہ مجبور تھے۔ ایک استبدادی نظام کی وجہ سے ان کے لیے زندگی کی راہیں تنگ تھیں اور یہ معمولی معاوضہ لےکر ظلم کی اعانت کے لیے اپنی جانیں تک بیچ ڈالنے کے لیے تیار تھے۔انھیں یہ معلوم نا تھا کہ جس انقلاب کی راہ میں یہ رکاوٹ بننا چاہتے ہیں، وہ ان کی بہتری کے لیے ہے۔انھیں ہماری طرف سے خوفزادہ کیا گیاتھا۔اب فتح کے بعد میں نہ خود ظالم بننا چاہتا ہوں، نہ انھیں مظلوم بنانا چاہتا ہوں!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”تو آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ واپس جاکر راجہ کی فوجوں میں دوبارہ شامل نہیں ہوجائیں گے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ واپس جاکر ان کا طرزِ عمل کیا ہوگا لیکن مجھے ان لوگوں سے کوئی خدشہ نہیں۔مجھے خدا کی رحمت پر بھروسہ ہے۔ کسی بلند مقصد کے لیے لڑنے والوں کی قوت بڑھی ہے، کم نہیں ہوتی۔اس سے پہلے کئی اقوام اپنے بادشاہوں کی حمایت میں ہمارے ساتھ لڑچکی ہیں لیکن جب انھیں یہ احساس ہوا کہ ہمارے پاس ایک بہترین نظام ہے تو وہ ہمارے ساتھ مل گئیں۔آپ کے سپاہیوں میں سے وہ لوگ جنھیں خدا نے حق و باطل میں تمیز کی توفیق دی ہے وہ یقیناً وآپس جاکر ظلم کی ناو کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش نہیں کریں اور جو دوبارا ہمارے مقابلے پر آنے کی جرات کریں گے۔انھیں ایک دو اور معرکوں کے بعد اطمینان ہوجائے گا کہ ہماری تلواریں کند ہونے والی نہیں!“
بھیم سنگھ نے کہا۔”آپ تاج و تخت کے دشمن ہیں اور آپ انسان پر انسان کی حکومت کے قائل نہیں ہیں لیکن جب تک کوئی حکومت نا ہو ملک میں آمن کیسے رھ سکتا ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”اگر استبداد کا ڈنڈا مظلوم کی آواز اس کے گلے سے نا نکلنے دے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک میں امن قائم ہوگیا۔میں تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہم دنیا میں انسان کا قانون نہیں بلکہ خدا کا قانون چاہتے ہیں۔“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”قانون خواہ کوئی ہو، اسے نافذ کرنے والا بہرحال کوئی انسان ہوگا اور وہ راجہ اور بادشاہ نہ بھی کہلائے، تو بھی وہ حکمران ضرور ہوگا اور جب تک دنیا میں سرکش لوگ موجود ہیں۔ایسے قانون کی حفاظت طاقت کے ڈنڈے کے بغیر ممکن نہیں!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”یہ درست ہے۔لیکن اس قانون کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اسے نافذ کرنے والی جماعت صالحین کی جماعت ہو۔جب تک ہم صالحین کی جماعت سے تعلق رکھیں گے، خدا اپنے قانون کی حفاظت کا کام ہم سے لےگا۔ کل تمہارے ملک سے کوئی صالحین کی جماعت بن جائے تو اس قانون کے نفاذ کی ذمہ داری وہ سنبھال لےگی لیکن طاقت کا ڈنڈا اسے اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اس قانون کی حفاظت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔مسلمانوں کے امیر اور دوسری اقوام کے بادشاہوں میں یہ فرق ہے کہ وہ طاقت کا ڈنڈا ظالم کے خلاف مظلوم کی اعانت کے لیے کام میں لاتے ہیں اور بادشاہ اسے فقط اپنے دائمی تسلط کے لیے استعمال کرتے ہیں۔“
بھیم سنگھ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔”تو کیا مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ واپس جانے کی اجازت ہوگی؟“
”میں شاید پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تم تندرست ہونے کے بعد جب چاہو جاسکتے ہو۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”میں سفر کے قابل ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو کل ہی روانہ ہوجاوں۔“
”ابھی تمہارے زخم ٹھیک نہیں ہوئے لیکن اگر تم کل ہی جانا چاہو تو میں تمہیں نہیں روکوں گا!“
بھیم سنگھ پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا۔”لیکن آپ کو شاید معلوم نا ہو۔میں سندھ کے سینا پتی کا لڑکا ہوں اور میرا وآپس جاکر فوج کے ساتھ شامل ہوجانا آپ کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔اس لیے اگر آپ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھ سے یہ وعدہ لینا چاہتے ہیں کہ میں دوبارا آپ کے مقابلے میں نا آوں تو میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار نہیں!“
”میں نے تم کو ایسا وعدہ کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ہاں! میں تم سے فقط ایک بات کہوں گا۔ تم راجہ داہر کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اب ارور ہم سے دور نہیں۔اگر اس نے عرب قیدیوں کے ساتھ برا سلوک کیا تو اس کے لیے اچھا نا ہوگا۔“
بھیم سنگھ نے جواب دیا۔”میں یہ وعدہ کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ جب اسے میرے زخمی سپاہیوں کے ساتھ آپ کے سلوک کا پتہ چلے گا تو وہ یقیناً متاثر ہوگا!“
”میں نیکی کا بدلہ نہیں چاہتا۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کی آنکھوں سے غرور کی پٹی اتاردو اور اسے یہ بتادو کہ وہ آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر کھڑا ہے۔اس گفتگو کےدوران میں میں نے شاید کوئی تلخ بات کہہ دی ہو۔اگر تمہیں کسی بات سے رنج پہنچا ہو تو مجھے ایک انسان سمجھ کر درگزر کرنا!“
محمد بن قاسم یہ کہہ کر خیمے سے باہر نکل آیا۔ بھیم سنگھ بار بار اپنے دل میں یہ کہہ رہا تھا۔”تم انسان نہیں! دیوتا ہو۔“