زمانہ جاہلیت میں بھی عرب تیراندازی، شمشیرزنی اور شہسواری میں غیرمعمولی مہارت حاصل کرنا اپنی زندگی کا اہم ترین فریضہ سمجھتے تھے۔سرداری، عزت، شہرت اور ناموری کا سب سے بڑا معیار یہی تھا۔صحرا نشینوں کی محفل میں سب سے بڑا شاعر اسے تسلیم کیا جاتا تھا جو تیروں کی سنسناہٹ اور تلواروں کی جھنکار کا بہترین تصور پیش کرسکتا ہو۔جسے اپنے صبارفتار گھوڑوں کے سموں کی آواز کسی صحرائی دوشیزہ کے قہقہوں سے زیادہ متاثر کرتی ہو، جس کے لیے دور سے محبوبہ کے محمل اور گردوغبار میں اٹے ہوئے شاہسوار کی جھلک یکساں طور پر جاذبِ نگاہ ہو۔
اسلام نے عربوں کی انفرادی شجاعت کو صالحین کی ناقابلِ تسخیر قوت میں تبدیل کردیا۔روم و ایران کی جنگوں کے ساتھ ساتھ عربوں کی فنونِ عرب میں اضافہ ہوتا گیا۔خالد(رضی اللہ عنہ)اعظم کے زمانے میں صف بندی اور نقل و حرکت کے پرانے طریقوں میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔عربوں میں زرہ پہننے کا رواج پہلے بھی تھا لیکن روم کی جنگوں کے دوران زرہیں اور خود سپاہیانہ لباس کے اہم ترین جزبن گئے۔
قلعہ بند شہروں کے طویل محاصروں کےدوران کسی ایسے آلے کی ضرورت محسوس کی گئی جو پتھر کی دیواروں کو توڑ سکتا ہو اور اس ضرورت کا احساس منجینیق کی ایجاد کا باعث ہوا۔ یہ ایک لکڑی کا آلہ تھا جس سے بھاری پتھر کافی دور پھینکے جاسکتے تھے۔اس کی بدولت حملہ آور افواج قلعہ بند تیر اندازوں کی زد سے محفوظ ہوکر شہرِ پناہ پر پتھر برساسکتی تھی۔اس کا تخیل کمان سے اخذ کیا گیا تھا۔لیکن چند سالوں میں آلات حرب کے ماہرین کی کوششوں نے اسے ایک نہایت اہم آلہ بنادیا تھا۔
قلعہ بند شہروں کی تسخیر کے لیے دوسری چیز جسے عربوں نے بہت زیادہ رواج دیا، دبابہ تھی۔ یہ لکڑی کا ایک چھوٹا سا قلعہ تھا۔ جس کے نیچے پہیے لگائے جاتے تھے۔چند سپاہی لکڑی کے تختوں کی آڑ میں بیٹھ جاتے اور چند اسے دھکیل کر شہر کی فصیل کے ساتھ لگادیتے۔پیادہ سپاہی ان کی پناہ میں آگے بڑھتے اور اس سے سیڑھی کا کام لےکر فصیل پڑ جاچڑھتے۔
کھلے میدان میں پیادہ فوج کی طرح عرب سوار بھی ابتدا میں تلوار کو نیزے پر ترجیح دینے کے عادی تھے۔لیکن آہن پوش سپاہیوں کے مقابلے میں انھوں نے نیزے کی اہمیت کو زیادہ محسوس کیا اور چند سالوں میں عرب کے طول و عرض میں تیراندازی اور تیغ زنی کی طرح نیزہ بازی کا رواج بھی عام ہوگیا۔شام کے مسلمان روم کی قربت کی وجہ سے زیادہ متاثر تھا اور یہاں نیزہ بازی کو آہستہ آہستہ تیغ زنی پر ترجیح دی جانے لگی۔
عرب گھوڑے اور سوار دنیا بھر میں مشہور تھے۔اس لیے دوسرے فنون کی طرح نیزہ بازی میں بھی وہ ہمسایہ ممالک پر سبقت لے گئے۔
مشق کے باہر ایک کھلے میدان میں قریباً ہر روز نیزہ بازی کی مشق کی جاتی تھی۔نیزہ بازی میں یونان کا قدیم رواج مقبولیت حاصل کررہا تھا۔
ہمت آزمائی کرنے والے زرہ پوش شاہسوار کچھ فاصلے پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجاتے خطرے سے بچنے کے لیے زرہ، خود اور چار آئینہ کے استعمال کے باوجود اصلی نیزوں کے علاوہ ایسے نیزے استعمال کیے جاتے جن کے پھل لوہے کے ناہوں اور اگلا سرا تیز ہونے کی بجائے کند ہو۔ثالث درمیان میں جھنڈی لےکر کھڑا ہوجاتا اور اس کے اشارے پر یہ سوار گھوڑوں کو پوری رفتار سے دوڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے۔جو سوار اپنے مدمقابل کی زد سے بچ کر اسے ضرب لگانے میں کامیاب ہوتا وہ بازی جیت جاتا۔مات کھانے والا سوار کند نیزے کے دباو کی وجہ سے اپنا توازن کھو کر گھوڑے سے گرپڑتا اور تماشائیوں کے لیے سامانِ تضحیک بن جاتا۔
اس سال حسبِ معمول فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لینے کے لیے بہت سے لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ایک وسیع میدان کے چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ولید بن عبدالملک ایک کرسی پر رونق افروز تھے۔اس کے دائیں بائیں دربارِ خلافت کےبڑے بڑے عہدے دار بیٹھے تھے۔دوسری طرف تماشائیوں کی قطار کے آگے سلیمان بن عبدالملک اپنے چند عقیدت مندوں کے درمیان بیٹھا تھا۔
نمائش شروع ہوئی۔اسلحہ جات کے ماہرین نےمنجنیق اور دبابوں کے جدید نمونے پیش کرکے انعامات حاصل کیے۔تیراندازوں اور شمشیرزنی کے ماہرین نے اپنے اپنے کمالات دکھائے اور تماشائیوں سے دادتحسین حاصل کی۔
سلیمان کے تین ساتھی تیراندازی کے مقابلے میں شریک ہوئے اور ان میں سے ایک دوسرے درجے کا بہترین تیرانداز مانا گیا۔اس کا دوسرا ساتھی صالح تلوار کے مقابلے میں یکے بعد دیگرے دمشق کے پانچ مشہور پہلوانوں کو نیچا دیکھا کر اس بات کا منتظر تھا کہ امیرالمومنین اسے بلاکر اپنے قریب کرسی دیں گے لیکن ایک نوجوان نے اچانک میدان میں آکر اسے مقابلے کی دعوت دی۔ اور ایک طویل اور سخت مقابلے کے بعد اس کی تلوار چھین لی۔
یہ نوجوان زبیر تھا۔ تماشائی آگے بڑھ بڑھ کر صالح کو مغلوب کرنے والے نوجوان کی شکل دیکھنے اور اس سے مصافحہ کرنے میں گرمجوشی دیکھا رہے تھے اور صالح غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
ولید اٹھ کر آگے بڑھا اور زبیر سے مصافحہ کرتے ہوئے اسے مبارکباد دی اور پھر صالح کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”صالح! تم اگر غصے میں نا آجاتے تو شاید مغلوب نا ہوتے۔بہرصورت میں اس نوجوان کی طرح تمہیں بھی انعام کا حقدار سمجھتا ہوں۔“
سب سے آخر میں نیزہ بازی شروع ہوئی۔کئی مقابلوں کے بعد آٹھ بہترین نیزہ باز منتخب کئے گئے اور آخر میں مقابلہ شروع ہوا۔جوں جوں مقابلہ کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی تھی۔ دادوتحسین میں گلا پھاڑنے والے تماشائیوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔بالآخر ایک طرف ایک اور دوسری طرف دو نیزہ باز رھ گئے۔تنہارھ جانے والے سوار نے یکے بعد دیگرے اپنے دونوں مخالفین کو گرا کر اپنا خود اتارا اور عوام اسے پہچان کر زیادہ جوش و خروش سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگے۔یہ نوجوان ایک یونانی نومسلم تھا اور اس کا نام ایوب تھا۔ایوب نے فاتحانہ انداز میں اپنا نیزہ بلند کرتے ہوئے اکھاڑے میں چاروں طرف ایک چکر لگایا اور اس کے بعد پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
نقیب نے آواز دی۔”کوئی ایسا ہے، جو اس نوجوان کے مقابلے میں آنا چاہتا ہے۔“
عوام کی نگاہیں سلیمان بن عبدالملک پر مرکوز تھیں۔سلیمان نے سر پر خود رکھتے ہوئے اٹھ کر ایک حبشی غلام کو اشارہ کیا جو پاس ہی ایک خوبصورت مشکی گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا۔غلام نے گھوڑا آگے کیا اور سلیمان اس پر سوار ہوگیا۔سورج کی روشنی میں سلیمان کی زرہ چمک رہی تھی اور ہلکی ہلکی ہوا میں اس کے خود کے اوپر سبز ریشم کے تاروں کا پھندا لہرا رہا تھا۔
سلیمان اور ایوب ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور عوام دم بخود ہوکر ثالث کی جھنڈی کا انتظار کرنے لگے۔ثالث نے جھنڈی ہلائی اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔صبارفتار گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔سواروں نے ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر خود بچنے اور دوسرے کو ضرب لگانے کی کوشش کی۔سلیمان مقابلے میں آنے سے پہلے اپنے مدِمقابل کے تمام داوں دیکھ کر ان سے بچنے کے طریقے سوچ چکا تھا۔چنانچہ ایوب کا وار خالی گیا اور سلیمان کا نیزہ اس کے خود پر ایک کاری ضرب کا نشان چھوڑ گیا۔
ثالث نے سلیمان کی فتح کا اعلان کیا۔ولید نے اٹھ کر اپنے بھائی کو مبارکباد دی اور ایوب کی حوصلہ افزائی کی۔
سلیمان نے خود اتار کر فاتحانہ انداز میں تماشائیوں کی طرف نگاہ دوڑائی اور حسبِ معمول اکھاڑے کا چکر لگا کر پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
نقیب نے تین بار آواز دی۔”کوئی ہے جس میں سلیمان بن عبدالملک کے مقابلے کی ہمت ہے؟“ لیکن لوگوں کو اس سے پہلے ہی یقین ہوچکا تھا کہ اب کھیل ختم ہوچکا ہے اور وہ امیرالمومنین کے اٹھنے کا انتظار کررہے تھے لیکن ان کی حیرت کی انتہا نا رہی، جب سوار گھوڑے پر ایک سوار نیزہ ہاتھ میں لیے میدان میں آکھڑا ہوا۔تماشائیوں کی حیرانی اس بات پر ناتھی کہ ایک نیزہ باز سلیمان بن عبدالملک کو مقابلے کی دعوت دے رہا تھا بلکہ وہ اس بات پر ششدر تھے کہ اجنبی سوار کے جسم پر زرہ نا تھی اور نا چار آئینہ۔وہ سیاہ رنگ کا چست لباس پہنے ہوئے تھا۔سر پر خود کی بجائے سفید عمامہ تھا اور آنکھوں کے سوا باقی چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔
زرہ کے بغیر صرف وہ لوگ مقابلے میں حصہ لیتے ہیں جنھیں اپنے حریف کی کمتری کا پورا پورا احساس ہو لیکن سلیمان اس دن کا ہیرو تھا اور لوگ سلیمان کے مقابلے کے لیے زرہ اور خود کے بغیر میدان میں آنے والے سوار کی بہادری سے متاثر ہونے کی بجائے اس کی دماغی حالت کے صحیح ہونے میں شک کررہے تھے۔
ولید اور زبیر کے سوا کسی کو یہ معلوم نا تھا کہ یہ کون ہے۔لیکن اس کی اس جرت پر ولید بھی پریشان تھا۔اس نے آہستہ سے زبیر کے کان میں کہا۔”یہ محمد بن قاسم ہے یا کوئی اور ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”امیرالمومنین!یہ وہی ہے۔“
”لیکن وہ سلیمان کو کیا سمجھتا ہے۔اگر اس کی پسلیاں لوہے کی نہیں تو مجھے ڈر ہے کہ لکڑی کا کندسرا بھی اس کے لیے نیزے کی نوک سے کم خطرناک ثابت نا ہوگا۔تم جاو اور اسے بلاکر سمجھاو۔“
زبیر نے جواب دیا۔”امیر المومنین! میں اسے بہت سمجھا چکا ہوں۔وہ خود بھی اس خطرے کو محسوس کرتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اس صورت میں اگر اس کی جیت ہوئی تو نوجوانوں پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا اور اسے سندھ کے حالات سناکر انھیں جہاد کے لیے آمادہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس کا یہ بھی خیال ہے کہ زرہ کے بغیر سوار زیادہ چست رھ سکتا ہے۔“
زبیر کا جواب ولید کو مطمین نا کرسکا۔وہ خود اٹھ کر محمد بن قاسم کی طرف بڑھا اور تماشائی پریشانی کا اظہار کرنے لگے۔
محمدبن قاسم سلیمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ولید نے قریب پہنچتے ہی آواز دے کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔”برخودار! مجھے تمہاری شجاعت کا اعتراف ہے لیکن یہ شجاعت نہیں نادانی ہے۔تم زرہ اور خود کے بغیر عرب کے بہترین نیزہ باز کے مقابلے میں جارہے ہو اور اگر اس نے اس کو اپنی تضحیک سمجھا تو مجھے ڈر ہے کہ تم دوبارا گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل نہیں رہو گے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! خدا جانتا ہے مجھے اپنی نمائش مقصود نہیں۔میں یہ خطرہ ایک نیک مقصد کے لیے قبول کررہا ہوں اور یہ کوئی بہت بڑا خطرہ بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ زرہ پہن کر سوار چست نہیں رہتا۔“
”لیکن اگر تمہاری چستی تمہاری پسلیاں نہ بچا سکی تو؟“
”تو بھی مجھے افسوس نا ہوگا۔مجھے اپنی پسلیوں سے زیادہ اس لڑکی کا خیال ہے۔جس کے سینے میں ہمارے بےرحم دشمن کے تیز کا زخم ناسور بن چکا ہے۔ اگر خدا کو اس کی مدد منظور ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ آج مجھے دمشق کے لوگوں کے سامنے سامانِ تضحیک نا بننے دے گا اور ممکن ہے کہ میں بازی جیتنے کے بعد اس ہجوم میں اس کا پیغام پڑھ کر سنا سکوں، انفرادی تبلیغ سے جو کام ہم مہینوں میں کرسکتے ہیں وہ ایک آن میں ہوجائے گا۔آپ مجھے اجازت دیجیے اور دعا کیجیے کہ اللہ تعالی میرے مدد کرے۔“
ولید نےکہا۔”لیکن تم کم از کم سر پر خود تو رکھ لیتے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ برا نا مانیں۔جو سپاہی نیزے کا وار سرپر روکتا ہے۔اس کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں دی جاسکتی۔ میرے لیے یہ عمامہ کافی ہے۔“
ولید نے کہا۔”بیٹا!اگر آج تم ولید پر سبقت لےگئے تو ان شاء اللہ سندھ پر حملہ کرنے والی فوج کا جھنڈا تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔“
ولید وآپس مڑا اور راستے میں نقیب کو کچھ سمجھانے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
دوسری طرف سلیمان کے گرد چند تماشائی کھڑے تھے۔صالح نے آگے بڑھ کر سلیمان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین آپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔آپ ہوشیاری سے کام لیں۔“
سلیمان نے پوچھا۔”لیکن وہ سرپھرا ہے کون؟“
”مجھے معلوم نہیں لیکن وہ کوئی بھی ہو مجھے یقین ہے کہ وہ پھر گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔“
نقیب نے آواز دی۔”حاضرین! اب سلیمان بن عبدالملک اور محمد بن قاسم کا مقابلہ ہوگا۔سیاہ پوش نوجوان کی عمر سترہ سال سے کم ہے۔“
تماشائی اور زیادہ حیران ہوکر سیاہ پوش نوجوان کی طرف دیکھنے لگے۔
ثالث نے جھنڈی ہلائی اور نیزہ باز پوری رفتار سے ایک دوسرے کی زد سے بچ کر نکل گئے اور عوام نے ایک پرجوش نعرہ بلند کیا۔
کم سن اور نوجوان دیر تک محمد بن قاسم کے لیے تحسین کے نعرے بلند کرتے رہے اور عمر رسیدہ لوگ یہ کہہ رہے تھے۔یہ لڑکا بلا کا چست ہے لیکن سلیمان کے ساتھ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔پہلی مرتبہ سلیمان نے جان بوجھ کر اس کی رعایت کی ہے لیکن دوسری دفعہ اگر وہ بچ گیا تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔کہاں سترا سال کا چھوکرا اور کہاں سلیمان جیسا جہاندیدہ شہسوار!“
لیکن نوجوانوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔سلیمان کی بجائے اب سترہ سالہ اجنبی ان کا ہیرو بن چکا تھا۔وہ کسی کی زبان سے ایک حرف بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نا تھے بعض تماشائی تکرار سے ہاتھا پائی تک اتر آئی۔
رواج کے مطابق نیزہ بازوں کو دوسرا موقع دیا گیا اور دونوں پھر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔بچ اور نوجوان بھاگ بھاگ کراس طرف جارہے تھے جس طرف ان کا کم سن ہیرو کھڑا تھا۔سب کی نگاہیں نقاب میں چھپے ہوئے دیکھنے کے لیے بےقرار تھیں۔ثالث نے بھاگ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور پھر آپنی جگہ پر آکھڑا ہوا۔جھنڈی کے اشارے کے بعد تماشائیوں کو پھر ایک بار میدان میں گرد اڑتی نظر آئی۔ تھوڑی دیر کے لیے پھر ایک بار سکوت چھا گیا۔
محمد بن قاسم پھر اچانک ایک طرف جھک کر سلیمان کے نیزے کی ضرب سے بچ گیا۔ سلیمان نے بھی بائیں طرف جھک کر اپنے مدِ مقابل کے وار سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس سے کہیں زیادہ پھرتی کے ساتھ محمد بن قاسم نے اپنے نیزے کا رخ بدل دیا اور اس کی دائیں پسلی میں ضرب لگا کر اسے اور زیادہ بائیں طرف دھکیل دیا۔سلیمان لڑکھڑا کر نیچے گرنے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پسلی پر ہاتھ رکھ کر انتہائی بےچارگی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
چاروں طرف سے فلک شگاف نعروں کی صدا آرہی تھی۔محمد بن قاسم نے تھوڑی دور جاکر اپنے گھوڑے کی باگ موڑ لی اور سلیمان کے قریب آکر نیچے اترتے ہوئے مصافحہ کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن سلیمان مصافحہ کرنے کی بجائے منہ پھیر کر تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔
آن کی آن میں تماشائی ہزاروں کی تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہوگئے۔یونانی شاہسوار ایوب نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے گھوڑے سے باگ پکڑ لی اور کہا۔”میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔اب کوئی مجبوری نا ہو تو آپ چہرے سے نقاب اتار دیجیے! ہم سب کی آنکھیں آپ کی آنکھیں دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔“
محمد بن قاسم نے نقاب اتار ڈالا۔کم سن شہسوار کا چہرہ لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ متین اور سنجیدہ تھا۔اس کی خوبصورت سیاہ آنکھوں سے شوخی کی بجائے معصومیت ٹپکتی تھی۔لوگوں کے نعروں اور پراشتیاق نگاہوں کے جواب میں اس کا سکون یہ ظاہر کررہا تھا کہ اسے بڑی سے بڑی فتح بھی متاثر نہیں کرسکتی۔جو نوجوان اسے کندھوں پر اٹھا کردمشق کی گلیوں میں اس کا شاندار جلوس نکالنے کی غرض سے بڑھے تھے، دم بخود ہوکر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایوب نے اپنے ایک عرب دوست سے کہا۔”میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے یونان کے مجسموں میں بھی کوئی صورت بیک وقت اس قدر خوبصورت، معصوم، سادہ اور بارعب نہیں دیکھی۔“
ایک عرب نے پوچھا۔”آپ کہاں سے ہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”بصرہ سے۔“
اس پر کئی لوگ اصرار کرنے لگے کہ آپ ہمارے ہاں ٹھہریے۔
محمد بن قاسم نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔”میں دمشق کے لوگوں کے پاس ایک ضروری پیغام لےکر آیا ہوں اور مجھے جلد وآپس جانا ہے۔اگر آپ خاموشی سے میری بات سن لیں تو یہ مجھ پر بری عنایت ہوگی۔“
لوگ اب بہت زیادہ تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہورہے تھے۔ولید بن عبدالملک عہدیداروں کی جماعت کے ہمراہ آگے بڑھا۔لوگ امیرالمومنین کو دیکھ کر ادھر ادھر ہٹ گئے۔ولید نے محمد بن قاسم کے قریب پہنچ کر کہا۔”میرے خیال میں یہ تمہارے لیے بہترین موقع ہے۔تم گھوڑے پر سوار ہوجاو، تاکہ سب لوگ تمہاری صورت دیکھ سکیں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ہوگیا۔مجمع میں کانوں کان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ یہ سیاہ پوش نوجوان کوئی اہم خبر سنانا چاہتا ہے اور وہ لوگ جو اگلی قطاروں میں تھے، یکے بعد دیگرے زمین پر بیٹھ گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے مختصر الفاظ میں سراندیپ کے مسلمان بیواوں اور یتیم بچوں کی المناک داستان بیان کی۔اس کے بعد زبیر سے رومال لےکر ناہید کا مکتوب پڑھ کر سنایا، بیواوں اور یتیم بچوں کی سرگشت سننے کے بعد عوام کے دلوں پر ناہید کے مکتوب کے الفاظ تیرونشتر کا کام کررہے تھے۔مکتوب سنانے کے بعد محمد بن قاسم نے رومال زبیر کو وآپس کہتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
”فدایانِ اسلام! میں تم میں سے اکثر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یاد رکھو! ستم رسیدہ انسانیت کے دامن پر ظلم کی سیاہی کے دھبے آنسووں سے نہیں خون سے دھوئے جاتے ہیں۔جبرواستبداد کی جو آگ سندھ کے وسیع ملک میں سلگ رہی ہے۔ہم نے دور سے اس کی ہلکی سے آنچ محسوس کی ہے اور وہ اس لیے کہ ہمارے چند بھائی، چند مائیں اور چند بہنیں اس آتش کدہ میں جل رہی ہیں۔لیکن ہمیں ان لاکھوں بےکسوں کا حال معلوم نہیں، جو مدت سے سندھ کے استبدادی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔یہ تیر جو ایک مسلمان لڑکی کے دل میں پیوست ہوا، ان لاکھوں تیروں میں سے ایک تھا جن کی مشق سندھ کا مغرور و جابر حکمران اپنی بےکس رعایا کے سینوں پر کرتا ہے۔آج سندھ میں اگر ہماری بہنیں اور بھائی قید خانے کی تاریخ کوٹھڑی میں مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپ سننے کے منتظر ہیں۔آج اگر وہ اللہ اکبر کے ان نعروں کوسننے کا انتظار کررہے ہیں۔جن میں اب بھی دیبل کے قلعے کی مضبوط دیواروں پر زلزلہ طاری کردینے کی قوت موجود ہے، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی عوام جو برسوں کے ظلم و استبداد کی آگ میں جل رہے ہیں، افقِ مغرب سے رحمت کی ان گھٹاوں کے منتظر ہیں جو آج سے کئی برس پہلے آتش کدہ ایران کو ٹھنڈا کرچکی ہیں۔ان کے مجروح سینوں سے یہ آواز نکل رہی ہے کہ اے کاش! وہ مجاہدین جنھوں نے اپنے خون سے باغِ آدم میں مساوات، عدل، انصاف اور امن کے پودے کی آبیاری کی ہے۔سندھ کے حکمران کے ہاتھوں سے ظلم کی تلوار چھین لیں اور ان کے گھوڑے ان خار دار جھاڑیوں کو مسل ڈالیں جن کے ساتھ انسانیت اور آزادی کا دامن الجھا ہوا ہے۔
مسلمانو! یہ خبر ہمارے لیے بری بھی ہے اور اچھی بھی۔بری اس لیے کہ ہمیں اپنی بہنوں اور بھائیوں کا حال سن کر دکھ ہوا اور اچھی اس لیے کہ حق و صداقت کی تلوار کے آگے قیصری و کسری کی طرح ایک اور مغرور سر اٹھا ہے۔آو اسے بتادیں کے ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔
گذشتہ چند برسوں میں ہمارے اندرونی خلفشار نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔وہ سلطنتیں جو ہمارے آباواحداد کے نام سے تھراتی تھیں، آج ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہی ہیں۔ایک مظلوم لڑکی کا یہ خط اگر ہماری رگوں میں حرارت پیدا نا کرسکا تو یادرکھو! روئے زمین پر ہماری عظمت اور عروج کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن میں مایوس نہیں ہوں، میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھتا۔میں صرف یہ کہوں گا کہ ایک شجاع قوم غفلت کی نیند سورہی ہے اور اس قوم کی ایک غیور بیٹی بلند آواز میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسلام کے غیور بیٹو! تم روئے زمین کی ہر بہو بیٹی کی عظمت کی حفاظت کے لیے پیدا ہوئے تھے اور آج حالت یہ ہے کہ تمہاری اپنی بہو بیٹیوں کو پابہ زنجیر برہمن آباد کے بازاروں میں کھینچا جارہا ہے۔“
عوام جذبات سے مغلوب ہوکر ولید بن عبدالملک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایک معمر شخص نے آگے بڑھ کر کہا۔”اگر ہم سے پہلے یہ خبر امیرالمومنین تک پہنچ چکی ہے تو ہم حیران ہیں کہ انھوں نے ابھی تک سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کیوں نہیں کیا۔“ ہجوم آتش فشاں پہاڑ کی طرح بھرا بیٹھا تھا۔چاروں طرف ”جہاد جہاد“ کے فلک شگاف نعرے گونجنے لگے۔محمد بن قاسم نے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے لوگوں کو خاموش کیا اور پھر اپنی تقریر شروع کی:-
”میرے مخاطب وہ لوگ نہیں جو ایک ہنگامی جوش کے باعث چند نعرے لگا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔زندہ قومیں نعرے بلند کرنے سے پہلے اپنی تلواریں بےنیام کرکے میدان میں کودتی ہیں۔تم دمشق میں چند نعرے لگا کر ان کی نگاہوں کی تشفی نہیں کرسکتے جو یہاں سے ہزاروں میل دور تمہاری تلواروں کی چمک دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔امیرالمومنین کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے لیکن انھوں نے ابھی تک تمہارے نعرے سنے نہیں ہیں۔کاش! ان نعروں کے ساتھ وہ تلواریں بھی نیام سے باہر نکلنے کے لیے بیقرار ہوتیں، جن کی نوک کے ساتھ تمہارے اباواجداد سطوتِ اسلام کی داستان لکھ گئے ہیں۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ قادسیہ اور اجنادین کے مجاہدوں کی اولاد میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے کہ نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ ہماری تمام افواج ترکستان اور افریقہ کے میدان میں مصروفِ جہاد ہیں۔لیکن تم میں سے کون ایسا ہے جو تلوار کا استعمال نہیں جانتا؟ اگر ہمت کریں تو ہم سندھ کے میدانوں میں یرموک اور دمشق کی یاد پھر زندہ کرسکتے ہیں۔آج تم کو اپنے اباواجداد کی طرح یہ ثابت کرنا ہے، کہ ضرورت کے وقت ہر مسلمان سپاہی بن سکتا ہے۔اب تمہاری تلواریں دیکھ کر میں امیرالمومنین سے اعلانِ جہاد کی درخواست کرتا ہوں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر پڑا۔اس کی تقریر کے اختتام پر کئی بوڑھے اور نوجوان تلواریں بلند کرچکے تھے۔ایک دس سال کا لڑکا سخت جدوجہد کے بعد لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور ولید کے قریب جاکر بولا۔”امیرالمومنین! کیا مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت ہوگی؟ مجھے معلوم نا تھا ورنہ میں تلوار لےکر آتا۔لیکن میں ابھی لے آتا ہوں۔آپ انھیں تھوڑی دیر روکیں۔“
ولید نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”تمہیں ابھی چند سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔“
لڑکا دلبرداشتہ ہوکر محمد بن قاسم کے قریب آکھڑا ہوا۔ولید کے اشارے پر ایک شخص ایک کرسی اٹھا لایا اور اس نے کرسی پر کھڑا ہوکر کہا۔”اس نوجوان کی تقریر کے بعد مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔خدا کا شکر ہے کہ تمہاری غیرت زندہ ہے۔میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔“
ہجوم نے پھر ایک بار نعرے بلند کیے۔ولید نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔”میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر دمشق کی فوج بصرہ روانہ ہوجائے۔وہاں اگر محمد بن قاسم جیسے چند جوان اور موجود ہیں تو مجھے یقین ہے کہ کوفہ اور بصرہ سے بھی سپاہیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہوجائے گی۔ آپ میں سے جن لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں ان کے لیے گھوڑے اور جن کے پاس اسلحہ نہیں ان کے لیے اسلحہ جات کا انتظام کیا جائے گا۔میں جو اہم ترین خبر آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد بن قاسم کو سندھ پرحملہ کرنے والی افواج کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔میں نے اس ہونہار مجاہد کے لیے عمادالدین کا لقب تجویز کیا ہے۔آپ دعا کریں کے یہ صحیح معنوں میں عمادالدین ثابت ہو۔“
رات کے تیسرے پہر محمد بن قاسم جامع مسجد میں نمازِ تہجد ادا کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کرانتہائی سوزو گداز کے ساتھ یہ دعا کررہا تھا۔”یارب العالمین! میرے نحیف کندھوں پر ایک بھاری بوجھ آپڑا ہے، مجھے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق دے! اور میرا ساتھ دینے والوں کو ان کے اباواجداد کا عزم و استقلال عطا فرما! حشر کے دن فدایانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت کے سامنے میری نگاہیں شرمسار نا ہوں۔مجھے خالد(رضی اللہ عنہ) کا عزم اور مثنی(رضی اللہ عنہ) کا ایثار عطا کر! میری زندگی کا ہر لمحہ تیرے دین کی سربلندی کے لیے وقف ہو۔“
اس دعا کے اختتام پر زبیرکے علاوہ ایک اور شخص نے بھی، جو محمد بن قاسم کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا، آمین کہی اور یہ دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔اس کے سادہ لباس اور نورانی چہرے میں غیر معمولی جاذبیت تھی۔وہ کھسک کر محمد بن قاسم کے قریب ہوبیٹھا اور اس کی طرف محبت اور پیار سے دیکھتے ہوئے بولا۔
”تم محمد بن قاسم ہو؟“
”جی ہاں۔اور آپ؟“
”میں عمر بن عبدالعزیز(رضی اللہ عنہ) ہوں۔“
محمد بن قاسم عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی بزرگی اور پاکیزگی کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔اس نے عقیدت مند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”آپ میرے لیے دعا کریں!“
عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ نے فرمایا۔”خدا تمہارے نیک ارادے پورے کرے!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ایک مدت سے میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نیاز حاصل کروں۔آج آپ کی ملاقات کو تائیدِ غیبی سمجھتا ہوں۔مجھے کوئی نصیحت فرمائیں!“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے بہادر اور ہونہار سپہ سالار کی قیادت میں ان شاء اللہ دشمن کے خلاف تلوار کی مہم جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر تم سندھ میں جہاد کا صحیح جذبہ لےکر جارہے ہو تو تمہیں وہاں اپنے اخلاق اور کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ تم سندھ کے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے نہیں بلکہ انھیں نظامِ باطل کی زنجیروں سے آزاد کرکے سلامتی کا راستہ دکھانے کے لیے آئے ہو۔تم کو انھیں یہ بتانا ہے کہ دائرہ توحید میں قدم رکھنے والا ہر انسان دنیا کی غلامی سے آزاد ہوسکتا ہے۔تم ایک ایسے ملک میں جارہے ہو جس میں نیچ ذات کے لوگ اپنے اوپر اونچی ذات والوں کے جبرواختیار کا پیدائشی حق تسلیم کرتے ہیں۔سندھ کے استبدادی نظام کی جڑیں کٹ جانے کے بعد اگر تم لوگوں کے سامنے اسلامی مساوات کا صحیح نقشہ پیش کرسکے تو مجھے یقین ہے کہ تم ان کے قلوب پر بھی فتح پاسکو گے، جو آج تمہارے دشمن ہیں کل تمہارے دوست ہوجائیں گے۔
مسلمان بیواوں اور یتیموں پر سندھ کے حکمران کے مظالم کی داستان سن کر بعض نوجوان صرف جذبہ انتقام کے تحت تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو گرے ہوئے دشمن پر وار کرنے کی اجازت نہ دینا! خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ظالم کے ہاتھ سے اس کی تلوار چھین لو! لیکن اس پر ظلم نا کرو! بلکہ اگر وہ تائب ہوجائے تو اس کی خطا معاف کردو! اگر وہ دینِ الہی قبول کرنے پر امادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا لو! اگر وہ زخموں سے نڈھال ہوکر تم سے پناہ مانگے تو تم اس کے زخموں پر مرہم رکھو! ہمارے یتیموں اور بیواوں پرظلم ہوا ہے لیکن تم ان کے یتیموں اور بیواوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو! اور یہ یاد رکھو! کہ خدا ہمسایہ ممالک پر عرب قوم کا سیاسی تفوق نہیں چاہتا، بلکہ کفر کے مقابلے میں اپنے دین کی فتح چاہتا ہے اور یہ کام اگر عربوں کے ہاتھوں پورا ہوتو وہ دنیا میں بھی فلاح پاہیں گے اور ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔“
نمازِ صبح کی اذان سن کر عمر بن عبدالعزیز نے اپنی تقریر ختم کی۔نماز کے بعد محمد بن قاسم نے ان سے رخصت ہوتے وقت کہا۔”مجھے یہاں سے روانہ ہونے میں پانچ دن اور لگ جائیں گے۔اس عرصے میں آپ کے علم و فضل سے اور زیادہ مستفید ہونا اپنی خوش بختی خیال کروں گا۔ لیکن دن کا بیشتر حصہ مجھے نئے سپاہیوں کو تربیت دینے میں صرف کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کو تکلیف نا ہوتو رات کو کسی وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کروں؟“
عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا۔”تم جس وقت چاہو میرے پاس آسکتے ہو۔خاص طور پراس وقت تم ہر روز مجھے یہاں پاو گے۔آٹھ دس دن بعد میں بھی مدینہ چلاجاوں گا۔“
محمد بن قاسم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ سے رخصت ہوکر باہر نکلا تو نوجوانوں کی خاص جماعت اس کے آگے اور پیچھے تھی۔دروازے کی سیڑھیوں پر پہنچ کر اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔”آپ سب میدان میں پہنچ جائیں، میں بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جاوں گا۔“
محمد بن قاسم کی قیام گاہ کے دروازے پر دو سپاہی گھوڑے لیے کھڑے تھے۔ محمد اور زبیر نے گھوڑوں پر سوار ہوکر سپاہیوں کے ہاتھوں سے نیزے لےلیے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔شہر کے مغربی دروازے سے باہر نکلنے کے بعد وہ سرسبز باغات سے گزرتے ہوئے ایک ندی کے کنارے آکررکے اور گھوڑوں سے اتر کر پانی میں کود پڑے۔ندی کے صاف اور شفاف پانی میں تھوڑی دیر تیرنے اور غوطے لگانے کے بعد کپڑے بدل کر کچھ دیر وہ اپنے سامنے سرسبز اور دل کش پہاڑوں کا منظر دیکھتے رہے۔محمد بن قاسم نے اپنے ساتھی کو محویت کی حالت میں دیکھ کر کہا۔”کل ہم بہت سویرے یہاں آئیں گے۔اب ہمیں چلنا چاہیے۔لوگ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔“
زبیر نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”کیا کہا آپ نے؟“
”ہمیں دیر ہورہی ہے۔“
”چلیے!“
دونوں پھر گھوڑے پر سوار ہوگئے۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔”تم ابھی کیا سوچ رہے تھے؟“
زبیر نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔”میں تصور میں سراندیپ کے سبزہ زار دیکھ رہا تھا۔“
لیکن ہماری منزلِ مقصود تو سندھ کے ریگستان ہیں؟“
انھیں میں ہر وقت دیکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی سراندیپ کے سبزہ بھی یاد آجاتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل تم خواب کی حالت میں ناہید کو آوازیں دے رہے تھے۔میں نے اس کا ذکر مناسب نا سمجھا۔اب اگر برا نا مانو تو میں پوچھتا ہوں کہ خواب میں تم نے کیا دیکھا تھا؟“
زبیر نے اپنے چہرے پر اداس مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”میں نے خواب دیکھا تھا کہ دیبل کے چند سپاہی میرے چاروں طرف ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں اور کچھ ناہید کو پکڑ کر قیدخانے کی طرف لے جارہے ہیں اور میں بھاگ کر اسے چھڑانا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میرا خیال ہے کہ ناہید کی یاد کا آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے۔“
”میں اس سے انکار نہیں کرتا۔جن حالات میں ہم ایک دوسرے سے ملے اور بچھڑے ہیں، ان حالات میں شاید کوئی بھی اس بہادر اور غیور لڑکی کو اپنے دل میں جگہ دینے سے انکار نا کرتا۔“
ایک ہرن بھاگتا ہوا قریب سے گزر گیا۔محمد بن قاسم نے نیزہ سنبھالتے ہوئے کہا۔”اس کی پچھلی ٹانگ زخمی ہے، کسی اوچھے تیر انداز نے اس پر وار کیا ہے۔آو اس کا تاقب کریں۔“
زبیر اور محمد نے ہرن کے پیچھے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔زخمی ہرن دور ناجاسکا اور محمد بن قاسم کے نیزے کی ایک ہی ضرب کے ساتھ نیچے گرپڑا۔زبیر نے گھوڑے سے اتر کر اسے ذبح کیا اور پچھلی ران سے تیر نکالتے ہوئے کہا۔”اگر ہم اسے نا دیکھتے تو یہ کسی جھاڑی میں بری طرح جان دےدیتا۔“
چند سوار درختوں کی آڑ سے نمودار ہوئے اور محمد بن قاسم نے ان میں سے سلیمان کو پہچانتے ہوئے کہا۔”ارے! یہ تو ہمارے پورانے دوست ہیں۔“
سلیمان نے قریب پہنچ کر اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کہا۔”یہ شکار ہمارا ہے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ لےسکتے ہیں۔ہم نے اسے صرف ایک تکلیف دہ موت سے بچایا ہے۔اس کی ٹانگ زخمی تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ جھاڑیوں میں چھپ جائے گا۔“
صالح نے کہا۔”تم غلط کہتے ہو۔تم نے گرتے ہوئے ہرن کو زبح کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”یہ صحیح ہے ہرن گرپڑا تھا لیکن میرے نیزے کی ضرب سے، اور اگر تیر آپ نے چلایا تھا تو آپ اس کی ٹانگ دیکھ سکتے ہیں۔“
صالح نے غضبناک ہوکر تلوار نکالی لیکن سلیمان نے سختی سے کہا۔”تم ان دونوں کے جوہر دیکھ چکے ہو۔تمہیں اپنی تیراندازی کے متعلق غلط فہمی تھی۔آج وہ بھی رفع ہوگئی۔“ یہ کہہ کر وہ محمد بن قاسم سے مخاطب ہوا۔”میرا یہ دوست جس قدر جوشیلہ ہے اس قدر کم عقل بھی ہے۔آپ کو ضرورت ہوتو آپ یہ شکار لےجاسکتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں، شکریہ! اگر مجھے ضرورت ہوتی تو میں خود شکار کرلیتا۔“
یہ کہہ کر اس نے زبیر کی طرف اشارہ کیا اور دونوں نے باگیں موڑ کر اپنے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔