ہندوستان کے مغربی ساحل کی اہم بندرگاہوں اور جزیرا سراندیپ(موجودہ سریلنکا یا سیلون) کے ساتھ ایک مدت سے عربوں کے تجارتی تعلقات چلے آرہے تھے۔زمانہ جاہلیت میں چند عرب تاجر سر اندیپ میں آباد ہوگئے تھے اور جب عرب میں ایک نئے دین کا چرچا ہونے لگا تو یہ دین ان عربوں کو اپنے آباواجداد کے مذہب کو ترک کرنے پر آمادہ نا کرسکا۔لیکن ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلے میں عربوں کی شاندار فتوحات کی خبریں سن کر ان کی قومی عصبیت جاگ آٹھی تھی۔ ایران، عرب کے مقابلے میں ایک متمدن ملک سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے بازاروں میں عرب کے مقابلے میں ایران کی مصنوعات کی زیادہ قدر تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے حکمران حیران کو ایک طاقتور ہمسایہ خیال کرتے تھے اور عربوں کے مقابلے میں ایرانی تاجروں کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اگر شام سے کوئی قافلہ آجاتا تو روما کی قدیم سطوت سے مرعوب ہندوستانی انھیں بھی عربوں سے زیادہ مرعات دیتے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شاندار فتوحات نے عربوں کے مطلق ہمسایہ ممالک کے زاویہ نگاہ کو تبدیل کردیا۔
سراندیپ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں آباد ہونے والے وہ ےاجر جو ابھی تک عرب کے اندرونی انقلاب سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ کفر کے مقابلے میں اسلام کی فتوحات کو ایرانیون اور رومیوں کے مقابلے میں عرب کی فتوحات سمجھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ عربوں کے نئے دین سے ان کی نفرت اب محبت میں تبدیل ہورہی تھی۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو عرب جانے کا اتفاق ہوا وہ اسلام کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر وآپس آئے۔
عبدالشمس عرب عرب تاجروں کا سرکردہ تھا۔ اس کا خاندان ایک مدت سے سر آندیپ میں آباد تھا۔ وہ اسی جزیرے میں پیدا ہوا اور اسی جگہ آباد ہونے والے ایک عرب خاندان کی لڑکی سے شادی کی۔ جوانی سے بڑھاپے تک اس کے بحری سفر بھی سراندیپ سے کاٹھیاوار تک محدود رہے۔اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کے عرب میں اس کے خاندان کے دوسرے افراد کون ہیں اور کس جگہ رہتے ہیں۔
دوسرے عربوں کی طرح وہ بھی مادرِ وطن کے ساتھ اس وقت دلچسپی لینے لگا جب یرموک اور قادسیہ میں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کی خبریں دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکی تھیں۔
موجودہ راجہ کے باپ کو انھی خبروں نے عرب کے ایک بےنام تاجر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر آمادہ کیا تھا۔ اس نے عبدالشمس اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں بلایا اور بیش قیمت تحائف دے کر رخصت کیا۔
سن ٤٥ہجری میں اپنے باپ کی وفات کے بعد نئے راجہ نے تخت نشین ہوتے ہی عبدالشمس کو اپنے پاس بلایا اور کہا ”مدت سے ہمارے ملک میں تمہارے ملک کا کوئی تاجر نہیں آیا۔ میں عرب کے تازہ حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے تمہارے نئے دین کے ساتھ دلچسپی ہے اگر تم وہاں جانا پسند کرو تو میں تمہارے لیے ہر سہولت مہیا کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
عبدالشمس نے کہا ”آپ کے منہ سے میرے دل کی دبی ہوئی آواز نکلی ہے۔ میں جانے کے لیے تیار ہوں۔“
پانچ عرب تاجروں کے سوا باقی سب عبدالشمس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔
دس دن بعد بندرگاہ پر ایک جہاز کھڑا تھا اور عرب اپنے اپنے بال بچوں سے رخصت ہورہے تھے۔عبدالشمس کی بیوی فوت ہوچکی تھی اس نے سینے پر پتھر رکھ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو الوداع کہا۔ اس لڑکی کا نام سلمی تھا۔ شہر میں کوئی شخص ایسا نا تھا جو اسے نسوانی حسن کا بلند ترین معیار تصور نا کرتا۔ شہ سوار اسے سرکش گھوڑوں کو دوڑاتے اوربہترین تیراک اسے خوفناک آبشاروں میں کودتے اورسمندر میں مچھلی کی طرح تیرتے دیکھ کر دم بخود رہ جاتے۔
عبدالشمس کی روانگی کے بیس دن بعد کاٹھیاوار کے تاجروں کا ایک جہاز بندرگاہ پر رکا اور عبدالشمس اور اس کے دوساتھیوں نے اتر کر یہ خبر سنائی کہ ان کا جہاز اور دوسرے ساتھی سمندر کی لہروں کا شکار ہوچکے ہیں اور اگر کاٹھیاوار کے تاجروں کا جہاز وقت پر نا پہنچتا تو وہ بھی چند ساعت اور پانی میں ہاتھ پاوں مارنے کے بعد ڈوب جاتے۔
راجہ نے اس حادثے کی خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی۔ سندھی تاجروں کے سردار کا نام دلیپ سنگھ تھا۔ راجہ نے اسے دربار میں بلایا اور تین عربوں کی جان بچانے کے عوض اسے تین ہاتھی انعام دے۔ راجہ کو مہربان دیکھ کر دلیپ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے وہاں آباد ہونے کا خیال ظاہر کیا۔ راجہ نے خوشی کے ساتھ ان کی یہ درخواست منظور کی اور شاہی خزانے سے ان کے لیے مکانات تعمیر کروا دیے۔
چند سال کی وفادارانہ خدمات کے بعد دلیپ سنگھ کو راجہ کے بحری بیڑے کا افسرِ اعلی بنا دیا گیا۔
اس واقع کے تین سال بعد ابوالحسن پہلا مسلمان تھا جسے تجارت کا ارادہ اور تبلیغ کا شوق اس دور افتادہ جزیرے تک لے آیا۔
کئی ہفتوں کے سفر کے بعد ایک صبح ابوالحسن اور اس کے ساتھ جہاز پر کھڑے سراندیپ کے سرسبز ساحل کی طرف دیکھ رہے تھے۔
بندرگاہ کے قریب مرد،عورتیں اور بچے کشتیوں پر سوار ہوکر اور چند تیرتے ہوئے لوگ جہاز کے استقبال کے لیے نکلے۔ ایک کشتی پر ابوالحسن کو جزیرے کی سیہ فارم اور نیم عریاں عورتوں کے درمیان ایک احنبی صورت دیکھائی دی۔ اس کا رنگ سرخ و سفید اور شکل جزیرے کے باشندوں سے مختلف تھی۔دوسری کشتیوں سے پہلے جہاز کے قریب پہنچنے کے لیے وہ اپنی کشتی پر کھڑی دو تنو مند ملاحوں کو جو کشتی کے چپو چلا رہے تھے، ڈانٹ ڈپٹ کر رہی تھی۔
یہ کشتی تمام کشتیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جہاز کے قریب آلگی۔ لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھا اور اس نے بےباک نگاہوں کا جواب دینے کی بجائے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ابوالحسن کے ساتھیوں کو بھی عورتوں کا نیم عریاں لباس پسند نا آیا۔حسین لڑکی نے جہاز والوں کی بےاعتنائی کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے سراندیپی زبان میں کچھ کہا لیکن جہاز پر سے کوئی جواب نا آیا۔
اچانک ابوالحسن نے کسی کی چیخ پکار سن کر نیچے دیکھا۔کشتی سے آٹھ دس گز کے فاصلے پر وہی خوبصورت لڑکی پانی میں غوطے کھا رہی تھی اور کشتی والے اس کی چیخ و پکار کے باواجود سخت بے اعتنائی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ابوالحسن نے پہلے رسی کی سیڑھی پھینکی لیکن جب اس بات کا یقین ہوگیا کہ لڑکی کے ہاتھ پاوں جواب دے رہے ہیں اور وہ سیڑھی تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ کپڑوں سمیت سمندر میں کود پڑا لیکن لڑکی اچانک پانی میں غائب ہوگئی اور وہ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اتنی دیر میں بہت سی کشتیاں جہاز کے گرد جمع ہوچکی تھیں اور جزیرے کے باشندے قہقہے لگا رہے تھے۔۔۔
ابوالحسن نے تین مرتبہ غوطہ لگانے کے بعد دل برداشتہ ہوکر سیڑھی کی رسی پکڑ لی اور وہ جہاز پر چڑھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ اوپر سے اس کا ساتھی چلانے لگا۔ ”وہ ادھر ہے جہاز کی دوسری طرف۔وہ ڈوب رہی ہے شاید کسی مچھلی نے پکڑ رکھا ہے“
مقامی مردوں اور عورتوں نے پھر قہقہہ لگایا۔ابوالحسن لڑکی کے جہاز کی دوسری طرف پہنچنے کی وجہ نا سمجھ سکا۔ تشویش اور حیرانی کے ملے جلے جزبات کے ساتھ اس نے جلد ہی پھر غوطہ لگایا اور جہاز کے نیچے سے گزرتا ہوا دوسری طرف پہنچ گیا۔وہاں کوئی نا تھا۔اوپر سے اس کا وہی ساتھی شور مچا رہا تھا: ”وہ ڈوب گئی۔اسے مچھلی نگل گئی۔“
ابوالحسن مایوس ہوکر پھر دوسری طرف پہنچا۔اس دفعہ لوگوں کے قہقہوں میں اس کے ساتھی بھی شریک تھے اور ایک عرب نے کہا ”آپ آجایے وہ آپ سے بہتر تیر سکتی ہے۔“
ابوالحسن نے کھسیانا ہوکر سیڑھی پکڑ لی لیکن ابھی ایک ہی پاوں اوپر رکھا تھا کہ کسی نے اس کی ٹانگ پکڑ کرپانی میں گرا دیا۔اس نے سنبھل کر ادھر ادھر دیکھا تو لڑکی تیزی سے سیڑھی پر چڑھ رہی تھی۔
ابوالحسن جہاز پر پہنچا تو اس کے ساتھی پریشان ہوکر لڑکی کے قہقہے سن رہے تھے۔
لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھ کر عربی میں کہا ”مجھے آپ کے بھیگ جانے کا بہت افسوس ہے۔“
لڑکی کے منہ سے عربی کے الفاظ سن کر سب کی نگاہیں اس ہر جم کر رھ گئیں۔
ابوالحسن نے پوچھا ”کیا تم عرب ہو؟“
لڑکی نے ایک طرف سر جھکا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بالوں کا پانی نچوڑتے ہوئے جواب دیا”ہاں! میں عرب ہوں۔ ایک مدت سے ہم عربوں کے جہازوں کی راہ دیکھا کرتے تھے۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ آپ کیا مال لائے ہیں؟“
ایک عرب لڑکی کو اسے لباس میں دیکھنا ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔وہ پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
لڑکی نے اپنے سوال کا جواب نا پاکر پھر پوچھا ”میں پوچھتی ہوں آپ کیا مال لائے ہیں؟ آپ حیران کیوں ہیں۔ کیا عرب عورتیں تیرنا نہیں جانتیں۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ اچھا میں خود دیکھ لیتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا ”ٹھہرو! ہم گھوڑے لائے ہیں۔ میں تمہیں خود دیکھاتا ہوں لیکن میں حیران ہوں کہ اس جزیرے کے عرب ابھی تک زمانہ جاہلیت کے عربوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا انھیں انسانوں کا سا لباس پہننا اور مردوں سے حیا کرنا کسی نے نہیں سیکھایا؟“
لڑکی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے جواب دیا”کیا یہ انسانوں کا لباس نہیں؟“
”نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے گھر تک اسلام کی روشنی ابھی تک نہیں آئی۔“ یہ کہہ کر ابوالحسن نے ایک جبہ اٹھایا اور لڑکی کے کندھوں پر ڈال کر کہا ”اب تم ہمارا جہاز دیکھ سکتی ہو۔“
لڑکی نے ابوالحسن کے الفاظ سے زیادہ اس کی شخصیت سے مرعوب ہوکر اپنے عریاں بازوں اور پنڈلیوں کو جبے میں چھپا لیا۔
ابوالحسن کی پونجی پچاس عرب گھوڑے تھے۔لڑکی نے یکے بعد دیگرے تمام گھوڑوں کا معائنہ کیا اور ایک گھوڑے کی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی ”میں یہ خریدوں گی۔ اس کی قیمت کیا ہے؟“
ابوالحسن نے کہا ”تم میں ابھی تک عربوں کی ایک خصوصیت باقی ہے۔یہی گھوڑا ان سب میں بہترین ہے لیکن تم نا اس کی قیمت ادا کرسکو گی اور نہ یہ عورتوں کی سواری کے قابل ہے۔یہ جس قدر خوبصورت اور تیز رفتار ہے اسی قدر منہ زور بھی ہے۔“
لڑکی اس کے جواب پر مسکرائی اور بولی ”خیر دیکھا جائے گا۔ آپ نے جہاز اتنی دور کیوں ٹہرا لیا؟“
ابوالحسن نے کہا”میں اس ملک کی حکومت سے اجازت لینا ضروری خیال کرتا ہوں“
لڑکی نے کہا”سراندیپ کا راجہ ایک مدت سے عربوں کے جہاز کا انتظار کررہا ہے۔جہاز کنارے تک لے چلیے؛ لیجیے راجہ کہ امیر البحر خود ہی آپہنچے۔“
دلیپ سنگھ عبدالشمس سے گہرے تعلقات کی بدولت عربی میں اچھی خاصی استعداد پیدا کرچکا تھا۔ اس نے جہاز پر چڑھتے ہی عربی زبان میں کہا ”آپ نے جہاز اتنی دور کیوں ٹھرا لیا؟“
ابوالحسن کی بجائے لڑکی نے جواب دیا۔ ”ان کا خیال تھا کہ شاید جہاز کو بندرگاہ پر لگانے سے پہلے راجہ سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔ ”مہاراج آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے“
لڑکی نے کہا۔”میں جاتی ہوں لیکن اس بات کا خیال رہے کہ وہ سفید گھوڑا میرا ہے اور میں اس کے منہ مانگے دام دوں گی۔“ یہ کہہ کر لڑکی نے جبہ اتار کر ایک عرب کے کندھے پر پھینک دیا اور بھاگ کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
عبدالشمس کو عربوں کے جہاز کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔اس نے شہر کے چند معززین کے ساتھ ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں کا استقبال کیا، انھیں اپنے گھر اور ان کے گھوڑوں کو اپنے اصطبل میں جگہ دی۔آن کی آن میں پچاس گھوڑوں کے کوئی دوسو خریدار جمع ہوگئے اور تمام ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی دینے لگے۔
دلیپ سنگھ نے مشورہ دیا کہ راجہ کو دیکھائے بغیر کوئی گھوڑا فروخت نا کیا جائے، ممکن ہے وہ تمام گھوڑے خرید لیں۔عبدالشمس نے دلیپ سنگھ کی تائید کی۔ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ راجہ کا ایلچی آیا اور اس نے کہا ”مہاراج عرب تاجروں سے ملنا اور ان کے گھوڑے دیکھنا چاہتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے ایلچی سے کہا ”تم جاو اور مہاراج سے کہو ہم آتے ہیں۔“ یہ کہہ کر ابوالحسن سے مخاطب ہوا۔ ”ایک گھوڑا شیخ عبدالشمس کی بیٹی نے اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے یہیں رہنے دیا جائے۔“
ابوالحسن نے کہا” اگر شیخ اپنے لیے لینا چاہتے ہیں تو مجھے عزر نہیں لیکن وہ لڑکیوں کی سواری کے قابل نہیں۔وہ بہت سرکش ہے!“
ایک طرف سے آواز آئی ”نہیں ابا جی! اس کا خیال ہے کہ ہم اس کی قیمت ادا نہیں کرسکیں گے۔“
ابوالحسن نے دیکھا۔وہی لڑکی جسے اس نے جہاز پر دیکھا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے ہاتھ میں چابک لیے کھڑی تھی لیکن اس دفعہ اس کا لباس عرب عورتوں کاساتھا۔
ابوالحسن نے قدرے خفیف ہوکر کہا ”اگر مجھ پر اعتبار نہیں آتا تو تم خود دیکھ لو، اگر تم اسے لگام بھی دیکھ سکو تو یہی گھوڑا تمہارا انعام ہوگا!“
لڑکی تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اصطبل کی طرف بڑھی، گھوڑے نے اسے دیکھتے ہی چارہ چھوڑ کر کان کھڑے کر لیے۔لڑکی نے گھوڑے کو تھپکی دی اور وہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔اسے دیکھ کر دوسرے گھوڑے رسے تڑانے لگے۔
ابوالحسن نے کہا ٹھرو! اور اگے بڑھ کر گھوڑے کا رسہ کھول کر باہر لے آیا اور اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ کر کہنے لگا ”اب آپ ہمت آزمائی کرسکتی ہیں“
لڑکی نے اچانک آگے بڑھ کر گھوڑے کا نچلا جبڑا پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے زخمی درندے کی طرح تڑپتے اچھلتے اور کودتے ہوئے جانور کے منہ میں لگام ٹھونس دی۔تماشائیوں نے حیرانی پر قابو نا پایا تھا کہ اس نے رسہ کھولا اور گھوڑے کی پیٹ پر سوار ہوگئی۔ گھوڑا چند بار سیخ پا ہونے کہ بعد چھلانگیں لگاتا ہوا مکان سے باہر نکل گیا۔
شیخ عبدالشمس نے فخریہ انداز میں کہا ”عرب کی گھوڑیوں نے ایسا گھوڑا پیدا نہیں کیا جس پر سلمی سواری نا کرسکتی ہو، مجھے افسوس ہے کہ آپ شرط ہار گئے لیکن اطمنان رکھیے! کہ آپ کو اس کی پوری قیمت ادا کی جائے گی۔“
ابوالحسن نے کہا ”یہ شرط نہ تھی، انعام تھا اور انعام کی قیمت نہیں لی جاتی۔ خوش قسمت ہے وہ گھوڑا جسے ایسا سوار مل جائے۔“
راجہ دیکھنے سے پہلے ہی تمام گھوڑے خریدنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔شاہی خزانے سے جو قیمت ادا کی گئی وہ عربوں کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ راجہ نے ابوالحسن سے ان کے نئے دین اور ان کی فتوحات کے متعلق کئی سوال کیے۔ دلیپ سنگھ نے ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے۔ ابوالحسن نے تمام سوالات کے جواب دینے کے بعد دینِ اسلام کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی۔راجہ نے اسلام کی بہت سی خوبیوں کا اعتراف کرنے کے بعد ابوالحسن سے دوبارا ملاقات کا وعدہ لے کر اسے رخصت کیا۔
جب ابوالحسن اپنے میزبان کے گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ سلمی ابھی تک گھر وآپس نہیں آئی اور عبدالشمس چند آدمیوں کے ہمراہ اس کی تلاش میں جا چکا ہے۔ابوالحسن نمازِ ظہر کے بعد پریشانی کی حالت میں مکان کے صحن میں ٹہل رہا تھا کہ سفید گھوڑا بے تجاشا بھاگتا ہوا اندر آیا۔گھوڑے کی لگام بھی غائب تھی۔
ابوالحسن نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا ”خدا معلوم اسے کیا ہوا۔ یہ گھوڑا سرکش ضرور ہے لیکن گرے ہوئے سوار کو چھوڑ کر آنے والا نہیں اور لگام پاوں کے نیچے آکر ٹوٹ سکتی تھی، لیکن اس کا گرپڑنا ممکن نا تھا۔ میں جاتا ہوں۔“
ابوالحسن نے شیخ عبدالشمس کے خادم سے دوسری لگام منگوا کر گھوڑے کو دی اور ننگی پیٹ پر سوار ہوکر مکان سے باہر نکلا اور گھوڑے کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ گھوڑےکی رفتار ظاہر کرتی تھی کہ اس سے بہت زیادہ کام لیا جاچکا ہے۔ گھوڑا چند کوس گھنے جنگل میں سے گزرنے کے بعد ایک ٹیلے پر چڑھا اور ایک آبشار کے قریب جا کر رک گیا۔ اس سے اوپر جانے کا کوئی راستہ نا تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد ابوالحسن گھوڑے سے نیچے اترا اور اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ کر سلمی کو آواز دینے لگا۔دیر تک تلاش کرنے کے بعد وہ تھک کر آبشار کے قریب ایک پتھر کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ شام ہونے کو تھی۔ ابوالحسن نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر دشوار گزار راستے سے اس مقام پر پہنچا، جہاں سے پہاڑی ندی کا پانی ایک آبشار کی شکل میں نیچے گرتا تھا۔ سلمی چند قدم کے فاصلے پر ندی کے کنارے ایک درخت کے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ابوالحسن کی نظر اس پر اس وقت پڑی جب ایک تین چار گز لمبا اور آدمی کی ران کے برابر موٹا اژدھا گھاس میں سے سرکتا ہوا اس کے قریب پہنچ رہا تھا۔ ابوالحسن سلمی! سلمی! کہتا ہوا بھاگا اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹتا ہوا چند قدم دور لے گیا۔ سلمی نے ہلکی سی چیخ کے ساتھ آنکھیں کھولیں۔ اژدھا شکار کو جاتا ہوا دیکھ کر پھنکارتا ہوا نکلا۔ اتنی دیر میں ابوالحسن نیام سے تلوار تلوار نکال چکا تھا۔اژدھے نے اس کے بلکل قریب پہنچ کر گردن بلند کی۔ابوالحسن نے ایک طرف کود کر وار کیا، اژدھے کا سر کٹ کر علحیدہ ہوگیا۔ ابوالحسن نے ندی کے پانی سے تلوار صاف کرتے ہوئے کہا ”تم بہت بےوقف ہو۔۔۔یہ سونے کی کون سی جگہ تھی؟؟“
سلمی ابھی تک دہشت زدہ ہوکر کانپ رہی تھی۔ وہ بولی ”میں تھک کر یہاں بیٹھ گئی تھی اور اونگھتے اونگھتے نا جانے کس وقت لیٹ کر سو گئی۔میں یہاں کئی بار آچکی ہوں۔لیکن ایسا اژدھا کہیں نہیں دیکھا۔ آپ پہنچ گئے ورنہ یہ اژدھا اسی طرح تڑپنے کی بجائے مجھے نگل چکا ہوتا۔ آپ یہاں کیسے؟؟؟“
”تم جانتی ہو میں یہاں کیسے پہنچا ہوں۔تم یہ بتاو کہ تم نے یہاں پہنچ کر گھوڑا کیوں چھوڑ دیا تھا؟“
سلمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”میں نے کب چھوڑا۔وہ مجھے گرا کر بھاگ گیا تھا۔“ ابوالحسن نے زرا سخت لہجے میں کہا ”معلوم ہوتا ہے تمہاری تربیت بہت ناقص ماحول میں ہوئی ہے۔اس لیے تمہارے اخلاق کا معیار وہی ہونا چاہیے جو زمانہ جاہلیت کے عربوں کا تھا لیکن وہ بھی ہزار برائیوں کے باوجود مہمان سے جھوڑ بولنا ایک گھناونا فعل خیال کرتے تھے اور اس گھوڑے کو خالی واپس آتادیکھ کر مجھے یہ یقین نا آتا تھا کہ یہ تمہیں گرا کر بھاگ آیا ہے۔ اس کی تربیت میرے اصطبل میں ہوئی ہے۔ یہ سرکش اور مغرور ضرور ہے لیکن دھوکا دینا نہیں جانتا۔ سچ بتاو تم نے اپنے ہاتھوں سے اس کی لگام نہیں اتاری اور اسے ڈرا دھمکا کر وآپس نہیں بھیجا؟“
سلمی نے آنکھیں جھکاتے ہوئے جواب دیا۔ ”اگر آپ برا مانتے ہیں تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ کبھی جھوٹ نا بولوں گی۔“
”تم میں ایسی بہت سے باتیں ہیں جنھیں میں برا سمجھتا ہوں۔جنھیں ہر مسلمان برا جانے گا۔“
”آپ چاہیں تو میں ہر عادت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔آپ کی خوشنودی میرا فرض ہے اور آپ نے تو آج میری جان بھی بچائی ہے۔“
”تمہیں مجھے خوش کرنے کی ضرورت نہیں۔میں چاہتا ہوں تمہارا خدا تم سے خوش ہو۔تمہیں صرف وہ چیز پسند کرنی چاہیے جو اسے پسند ہو اور ہر اس چیز کو ناپسند کرنا چاہیے جو اسے ناپسند ہو۔خدا کو عورتوں کا نیم عریاں لباس مردوں کے سامنے جانا پسند نہیں۔“
سلمی نے کہا۔”لباس تو میں نے آپ کے کہنے سے تبدیل کرلیا تھا۔؟
ابوالحسن نے کہا۔”لباس سے زیادہ دل کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔خیر اب باتوں کا وقت نہیں۔شام ہورہی ہے۔تمہارے والد پریشان ہوں گے۔وہ گھوڑے کے پہنچنے سے پہلے ہی تمہاری تلاش میں نکل گئے تھے۔“
چاندنی رات میں ابوالحسن اور سلمی جنگل عبور کررہے تھے۔سلمی گھوڑے پر سوار تھی۔ابوالحسن بھاگ تھامے اگے اگے چل رہا تھا۔راستے میں سلمی نے ابوالحسن کے بحری سفر، اس کی خاندان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق سوالات کیے لیکن اس کی توقع کے خلاف ابوالحسن کی بےاعتنائی بڑھتی گئی۔سلمی پریشان بھی تھی اور نادم بھی، بالآخر اس نے کہا ”آپ کو میری وجہ سے بہت تکلیف ہوئی، میں معافی چاہتی ہوں۔آپ مجھے سزا دے لیں خفا نا ہوں، یہ میرا قصور تھا اور مجھے پیدل چلنا چاہیے تھا۔میں اتر آتی ہوں۔آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔“
اس دفعہ بھی اس کی توقع کے خلاف ابوالحسن نے سردمہری سے جواب دیا۔”اگر مجھے اس بات کا خدشہ نا ہوتا کہ تم عورت ہواور کوئی درندہ تمہیں کھا جائے گا تو میں یقیناً اس وقت تمہارے ساتھ چلنا گوارا نا کرتا۔“
سلمی شکست خوردہ سی ہوکر تھوڑی دیر خاموش رہی۔پھر بولی۔”اگر وہ اژدھا مجھے نگل جاتا تو آپ کو اس بات کا افسوس ہوتا؟“
”یہ صرف تمہارے لیے ہی نہیں۔ میرے سامنے اگر وہ کسی کو بھی ہلاک کرتا تو مجھے اسی قدر افسوس ہوتا۔“
”آپ نے میرے لیے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالی؟“
”ایک انسان کی جان بچانا مسلمان کا فرض ہے۔“
سلمی دیر تک خاموش رہی۔دور سے چند گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی اور ابوالحسن نے کہا ”دیکھو! وہ ابھی تک تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد عبدالشمس اور اس کے ساتھی وہاں پہنچ گئے۔بیٹی کو سلامت دیکھ کر عبدالشمس نے واقعات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نا کی۔ سلمی کی زبانی اژدھے کا سن کر اس نے ابوالحسن کا شکریہ ادا کیا۔
اگلے روز علی الصباح عبدالشمس اپنے مکان کی چھت پر نیم خوابی کی حالت میں لیٹے لیٹے اذان کی دلکش آواز سن رہا تھا۔کچھ دیر انگڑائیاں لینے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔سلمی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھی۔عبدالشمس جگا کر صبح کی ہوا خوری کے ارادے سے نیچے اتر آیا۔
ابوالحسن کے ساتھی شبنم آلود گھاس پر چادریں بچھا کر اس کے پیچھے صف بستہ کھڑے تھے۔ابوالحسن نے نہایت دلکش آواز میں سورہ فاتحہ کے بعد چند آیات تلاوت کیں۔ قرآن مجید کے الفاظ نے عبدالشمس کے دل میں تلاطم بپا کردیا۔ اس کے پڑوسی عرب بھی اس کے قریب آکھڑے ہوئے اور اپنی قوم کے نوجوانوں کے نئے طریق عبادت کو دلچسپی سے دیکھنے لگے۔رکوع و سجود کے بعد دوسری رکعت تک عبدالشمس پر ایک بے خودی سی طاری ہوچکی تھی۔اس نے آہستہ آہستہ نمازیوں کی طرف چند قدم اٹھائے قریب پہنچ کر جھجکا، رکا، اور جزبات کے ہیجان کی کسی رو کے ماتحت بھاگتا ہوا صف میں کھڑا ہوگیا۔اس کے ساتھیوں نے اس کی تقلید کی۔نماز کے اختتام پر ابوالحسن نے آٹھ کر عبد الشمس کو گلے لگا لیا۔عبدالشمس کی آنکھوں سے مسرت کے آنسو جھلک رہے تھے۔ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں نے اسے مبارک باد دی۔
عبدالشمس نے کہا۔”آپ کی زبان میں ایک جادو تھا۔مجھے کچھ اور سنائیے!“
ابوالحسن نے کہا۔”یہ میری آواز نا تھی۔یہ خدا کا کلام تھا۔“
عبدالشمس نے کہا۔”بے شک یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔سنائیے مجھے!“
ابوالحسن نے اپنےایک ساتھی طلحہ کی طرف اشارہ کیا۔ طلحہ قرآن کا حافظ تھا۔عرب اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔طلحہ نے سورہ یسین کی تلاوت کی۔قرآن مجید کے مقدس الفاظ اور طلحہ کی دل گداز آواز سے عبدالشمس اور اس کے ساتھیوں پر رقت طاری ہوگئی۔تلاوت کے بعد ابوالحسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ عبدالشمس اور اس کے ساتھی جو ایک مدت سے عربوں کی عظمت کی داستانیں سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کر چکے تھے۔ابو الحسن کی تبلیغ کے بعد دین اسلام کی صداقت پر ایمان لے آئے۔کلمہ توحید پڑھنے کے بعد عبدالشمس نے اپنے لیے عبداللہ کا نام پسند کیا۔
سلمی ناریل کے ایک درخت کا سہارہ لیے کھڑی یہ تمام واقعات دیکھ رہی تھی۔وہ جھجکتی ہوئی آگے بڑھی اور اپنے باپ سے کہنے لگی۔
”ابا جان! کیا عورتیں بھی مسلمان ہوسکتی ہیں؟“
عبداللہ نے مسکراتے ہوئے ابوالحسن کی طرف دیکھا اور وہ بولا۔”خدا کی رحمت عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں ہے۔“
سلمی نے کہا۔”تو میرا نام بھی تبدیل کردیجیے! میں بھی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”تمہارا یہی نام ٹھیک ہے۔تم فقط کلمہ پڑھ لو۔“
سلمی نے کلمہ پڑھا اور سب نے ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے دعا کی۔
آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔ اچانک موسلادھار بارش ہونے لگی اور یہ لوگ ایک کمرے میں چلے آئے۔
تھوڑی دیر بعد بارش تھیم گئی اور دلیپ سنگھ نے آکر خبر دی کہ مہاراج آپ کا انتظار کررہے ہیں۔
ابوالحسن اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر دلیپ سنگھ کے ساتھ ہولیا۔
دوپہر کے وقت ابوالحسن واپس آیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ راجہ اور بعض سرداروں نے اور بھی عربی گھوڑے خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس لیے ہمارا جہاز چوتھے روز واپس روانہ ہوجائے گا۔
عنداللہ(عبدالشمس) نے انھیں کچھ دن اور ٹھہرنے کے لیے کہا لیکن ابوالحسن نے جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے اجازت حاصل کرلی۔
عبداللہ نے کہا ”ابھی ہمیں اسلام کے متعلق بہت کچھ جاننا ہے۔اگر آپ طلحہ کو یہاں چھوڑ جائیں تو بہت اچھا ہوگا۔“
ابوالحسن نے طلحہ کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ”اگر یہ پسند کریں تو میں انھیں بخوشی یہاں چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔“
طلحہ نے یہ دعوت خوشی سے قبول کر لی۔
اگلے دن ابوالحسن کے ساتھی جہاز کے بادبانوں کی مرمت اور خوردونوش کا ضروری سامان خریدنے کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ دلیپ سنگھ اور عبداللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ابوالحسن نے اپنے تمام سرمائے سے آٹھ ہاتھی اور باقی ناریل سے جہاز بھر لیا۔
شام کے وقت ابوالحسن عبداللہ کے باغیچے میں چہل قدم کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مڑکر دیکھا تو سلمی کھڑی تھی۔وہ چہرہ جو دودن پہلے مسرتوں کا گہوارہ تھا۔اب حزن و ملال کی تصویر بنا ہوا تھا۔وہ آنکھیں جو اندھیری رات کے ستاروں سے زیادہ دلفریب اور چمکیلی تھیں،اب پرنم تھیں۔
اس نے قدرے بےاعتنائی سے پوچھا ”سلمی تم یہاں کیا کررہی ہو۔؟“
ابوالحسن کا روکھا پن دیکھ کر ضبط کی کوشش کے باوجود اس کے آنسو چھلک پرے۔کانپتے ہوئے ہونٹوں سے درد کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی ”آپ پرسوں جارہے ہیں۔“
”ہاں! لیکن تمہیں کیا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟“
”کچھ نہیں! کچھ بھی تو نہیں۔“
آنسووں سے بھیگی ہوئی مسکڑاہٹ ابوالحسن کے دل پر اثر کیے بغیر نا رہی۔اس نے کہا ”سلمی! تم ابھی تک وہی ہو۔اسلام قبول کرنے کے باوجود میں تم میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھتا۔تمہیں اب نامحرموں کے سامنے آنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ایک مسلمان لڑکی کا سب سے بڑا زیور حیا ہے۔“
”آپ اب تک مجھ سے خفا ہیں؟ آپ کے کہنے پر میں لباس تبدیل کرچکی ہوں، نماز پڑھ چکی ہوں۔پرسوں سے میں نے گھر کے باہر پاوں نہیں رکھا۔کیا یہ بھی ضروری ہے کہ میں ایک مسلمان کے سامنے بھی نا آوں؟“
”ہاں! یہ بھی ضروری ہے۔میں طلحہ کو یہاں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔وہ تمہیں ایک مسلمان عورت کے فرائض سے آگاہ کرے گا۔تمہیں اسلام کی صحیح تعلیم دے گا۔“
سلمی نے جواب دیا۔”مجھے کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔آپ جو حکم دیں گے میں مانوں گی۔آپ کے اشارے پر میں پہاڑ پر سے کودنے اور ہاتھ پاوں باندھ کر سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوں۔“
ابو الحسن نے کہا۔”سلمی! اگر تمہیں میری خوشی اتنی عزیز ہے تو سنو! میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا کہ تم سر سے پاوں تک اسلام کے سانچے میں ڈھل جاو۔سچے مسلمان کی ہر نیت اور ہر فعل کو کسی انسان کی خوشی نہیں بلکہ خدا کی خوشی کا طلبگار ہونا چاہیے۔ کلمہ پڑھنے کے بعد تم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ چکی ہو جو ایک لامتناہی جدوجہد کا گھر ہے اس میدان میں کودنے والے کو دل میں انسووں اور آہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔مسلمان کے لیے زندگی ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ اس کی پہلو میں وہ دل ہونا چائیے جو خدا کی راہ میں زندگی کی بلند ترین خوآہشات کو بھی قربان کرنے سے نا گھبرائے۔اس کا سینہ تیروں سے چھلنی ہو لیکن زبان سے آہ تک نا نکلے۔تم عرب جاو تو شاید یہ دیکھ کر حیران ہوگی کہ مسلمان عورتیں اپنے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو جہاد پر رخصت کرتی ہیں لیکن ان کی آنکھ میں آنسو تو درکنار پیشانی پر شکن تک نہیں آتی اور یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ خدا کی خوشی کو دنیا کی ہر خوشی پر ترجیح دیتی ہیں۔اگر تم نے مجھے خوش کرنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے تو مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ تم اسلام کو سمجھی نہیں۔اگر خدا کو خوش کرنا چاہتی ہو تو گھر جاومیں طلحہ کو بھیجتا ہوں، وہ آج ہی تمہیں قرآن پڑھانا شروع کردے گا۔میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میں وآپس آوں تو تم میری پیراکی کا امتحان لینے کے لیے ساحل سے ایک میل کے فاصلے پر سمندر میں میرا استقبال نا کرو اور مجھے جنگلوں اور پہاڑوں میں تمہیں تلاش نا کرنا پڑے۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوگی کہ عبدالشمس کا نام تبدیل ہونے کے بعد اس کے گھر کا نقشہ بھی بدل چکا ہے اور اس چار دیوار میں ایک مسلمان لڑکی پرورش پا رہی ہے۔“
سلمی نے پرامید ہوکر پوچھا۔ ”آپ کب آئیں گے؟“
”میں دن معین نہیں کرسکتا لیکن ارادہ یہی ہے کہ گھوڑے خریدتے ہی وہاں سے وآپس آجاوں لیکن اگر مجھے جہاد کے لیے کہیں جانا پڑا تو ممکن ہے کہ دوبارا نا آسکوں۔“
سلمی کے چہرے پر پھر ایک بار اداسی چھا گئی۔
ےتیسرے دن آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔سلمی کوٹھے پر چڑھ کر حسرت بھری نگاہوں سے سمندر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ساحل سے دور ابوالحسن کا جہاز موجوں پر رقص کرتا نظر آرہا تھا۔ہوا کے چند تیز جھونکے آئے اور بارش ہونے لگی۔بارش کی تیزی کے ساتھ اس کی نگاہوں کا دائرہ محدود ہوتا گیا۔ یہاں تک کے جہاز آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ضبط کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے اور رقصاروں پر بہتے ہوئے بارش کے قطروں کے ساتھ مل گئے۔ سلمی دیر تک ہاتھ اٹھا کر یہ دعا دہراتی رہی۔ ”میرے مولی! اسے سمندر کی سرکش لہروں سے محفوظ رکھیو!“
باغیچے میں ابوالحسن سے آخری ملاقات کے بعد سلمی کے خیالات اور عادات میں بہت بڑی تبدیلی آچکی تھی۔اسے ابوالحسن کی بےاعتنائی کا بےحدملال تھا۔تاہم اسے انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرتے ہوئے وہ اس بات پر ایمان لاچکی تھی کہ اس کی جو عادات ابولحسن کو ناپسند ہیں۔یقیناً برٌی ہیں۔چنانچہ اس نے دوبارا کسی کے سامنے بے حجاب ہونے کی جرات نا کی۔
جب ابوالحسن اور اس کے ساتھی بندرگاہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس نے اپنے دل سے یہ سوال کیا۔”کیا اس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ ہوسکتی ہے؟“ ابوالحسن کی باتیں یاد آتیں تو اس کے دل میں کبھی یاس کی تاریکیاں مسلط ہوجاتیں اور کبھی امید کے چراغ چمک اٹھتے۔
عبداللہ کی آواز سن کر وہ نیچے اتری۔بوڑھے باپ نے سوال کیا۔”سلمی! تم بارش میں اوپر کیا کررہی تھی؟“
”کچھ نہیں اباجی!میں۔۔۔۔۔۔۔۔“ سلمی کوئی بہانہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ابولحسن کی نصیحت یاد آگئی اور وہ بولی۔”میں ان کا جہاز دیکھ رہی تھی۔“
عبداللہ نے کہا۔”وہ تو دیر ہوئی جاچکے۔جاو تم کپڑے بدل آو! طلحہ ابھی آجائے گا۔ ہم اس سے قرآن مجید پڑھیں گے۔“
سلمی نے پوچھا۔”آپ انھیں کہاں چھوڑ آئے ہیں؟“
”وہ راستے میں زید کے گھر ٹھر گیا تھا۔ابھی آجائے گا۔“
چند دنوں میں طلحہ کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ سلمی اب اپنی ہر بات میں ابوالحسن کی خوشی کو مقدم سمجھنے کی بجائے خدا کی رضا کو مقدم سمجھنے لگی۔تاہم ہر نماز کے بعد پہلی دعا ابوالحسن کے لیے ہوتی تھی۔
چھ مہینے گزر گئے ابوالحسن کی کوئی خبر نا آئی۔سلمی کی اداسی بے چینی میں تبدیل ہونے لگی۔وہ صبح و شام مکان کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھتی۔ بندرگاہ کی طرف آنے والا ہر جہاز اسے ابوالحسن کی آمد کی اطلاع دیتا۔وہ اپنے خادم کو دن میں کئی کئی بار بدرگاہ کی طرف بھیجتی۔جب وہ مایوس نگاہوں کے ساتھ وآپس آتا تو وہ بےقرار سی ہوکر پوچھتی۔”تم نے اچھی طرح دیکھا۔ممکن ہے ان میں کوئی عرب بھی ہو؟“
خادم جواب دیتا۔”وہ فلاں جگہ سے آیا ہے۔ میں پوری چھان بین کرکے آیا ہوں۔ ان میں ایک بھی عرب نہ تھا۔“
وہ امید و بیم کے سمندر میں غوطے کھانے والے انسان کی طرح تنکے کا سہارا لیتی اور کہتی۔”تم نے ملاحوں سے پوچھا ہوتا۔ممکن ہے انھوں نے راستے میں کسی بندرگاہ پر عربوں کا جہاز دیکھا ہو یا ان کے منعلق سنا ہو؟“
خادم پھر بھاگتا ہوا بندرگاہ جاتا۔سلمی کی امنگیں پرانی امیدیں کے کھنڈروں پر نئی امیدوں کا محل کھڑا کرلیتیں۔بوڑھے نوکر کاافسردہ اور ملول چہرہ پھروہی حوصلہ شکن خبر دیتا اور سلمی کی امیدوں کا محل دھڑم سے نیچے آرہتا۔ہر صبح وہ اپنی دل میں امید کے چراغ روشن کرتی۔جب سورج سمندر کی لہروں میں چھپ جاتا تو یہ چراغ بھی بجھ جاتا۔اس کے دل کی دھڑکنیں آھوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوجاتیں۔
مدت تک طلحہ یا انے باپ میں سے کسی پر اس نے اپنا دل کا حال نہ بیان کیا۔لیکن ایک شام سلمی کے طرزِ عمل نے انھیں شبہ میں ڈال دیا۔باہ موسلادھار بارش ہورہی تھی۔طلحہ اور عبداللہ برآمدے مین بیٹھے باتیں کررہے تھے۔سلمی ایک کمرے کے دریچے کے سامنے بارش کا منظر دیکھ رہی تھی۔باتوں باتوں میں ابوالحسن کا ذکر آگیا۔ عبداللہ نے کہا۔”خدا جانے وہ اب تک کیوں نہیں آئے۔آٹھ مہینے ہوگئے ہیں۔“
طلحہ نے کہا۔”اگر خدا نے اسے سمندر کے حوادث سے محفوظ رکھا ہو تو اتنی دیر تک اس کے وآپس نا آنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ کہیں جہاد پر چلا گیا ہے۔“
عبداللہ نے کہا آج مجھے دلیپ سنگھ نے بتایا ہے کہ یہاں سے کوئی تیس میل کے فاصلے پر مالا بار کا کوئی ایک جہاز غرق ہوچکا ہے۔صرف ایک کشتی پانچ آدمیوں کو لے کر یہاں پہنچی ہے۔“
طلحہ نے ہوچھا۔”اس پر کتنے آدمی تھے۔“
”شاید بیس تھے۔جہاز بہت بڑا تھا اور اس پر تجارت کا بہت سامال تھا۔“
”جہاز کیسے غرق ہوا؟“
”ملاح منزل کو قریب دیکھ کر بےہرواہ ہوگئے اور جہاز ایک چٹان سے ٹکڑا کا پاش پاش ہوکیا۔“
سلمی پاس کے کمرے میں بیٹھی اپنے خیالات میں محو تھی۔اس نے فقط آخری جملہ سنا اور ایک سانیہ کے لیے اس کی رگوں کا ہر قطرہ منجمد ہوکررھ گیا۔
برآمدے سے پھر عبداللہ کی آواز آئی۔” یہ چٹانیں بہت خطرناک ہیں۔ہر سال ان کی وجہ سے کوئی نا کوئی جہاز غرق ہوجاتا ہے۔یہاں کے باشندوں کا خیال ہے کہ یہ چٹانیں سمندر کے دیوتا کے مندر ہیں۔“
یہ سنتے ہیں سلمی کی رگوں میں غیر معمولی ارتعاش پیدا ہوا۔وہ اٹھی اور اپنے کمرے سے نکل کر باپ کے سامنے آکھڑی ہوئی۔اس کا دہشت زدہ چہرہ اور پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھ کر باپ نے پوچھا۔”بیٹی!تمہیں کیا ہوا؟“
کچھ دیر جذبات کی شدت کی وجہ سے سلمی کے منہ سے کوئی آواز نا نکلی۔رنج و کرب کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی نگاہیں یہ کہہ رہیں تھیں۔”جو کچھ تم مجھ سے چھپانا چاہتے ہو میں سن چکی ہوں۔“
طلحہ نے حیران ہوکر پوچھا۔”کیوں بیٹی کیا بات ہے۔“
سلمی کے بھنچے ہوئے ہونٹ کپکپائے۔پتھرائی ہوئی آنکھوں پر آنسووں کے باریک پردے چھا گئے۔اس نے کہا۔”بتائیے کب ڈوبا ان کا جہاز۔۔۔؟ آپ کو کس نے بتایا؟ اور وہ۔۔۔۔۔! آپ خاموش کیوں ہیں؟ خدا کے لیے کچھ کہیے! میں بری سے بری خبری سننے کے لیے تیار ہوں۔“ ہچکیوں اور آہوں کا تسلسل اس کی آواز کے تسلسل کو توڑ رہی تھی۔
عبداللہ نے پریشان سا ہوکر جواب دیا۔”بیٹی ہم مالا بار کے جہاز کا ذکر کررہے تھے۔آج دلیپ نے مجھے بتایا تھا۔“
لیکن سلمی نے باپ کا فقرہ پورا نا ہونے دیا۔”نہیں!نہیں!! آپ مجھ سے چھپانا چاہتے ہیں۔مجھے جھوٹی تسلیاں نا دیں!“ یہ کہہ کر سلمی ہچکیاں لیتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
بوڑھا باپ کچھ سمجھا کچھ نا سمجھا۔ وہ طلحہ کی طرف معذرت طلب نگاہوں سے دیکھتا ہوا اٹھا اور سلمی کے کمرے میں چلا گیا۔سلمی منہ کے بل بستر پر لیٹی ہچکیاں کے رہی تھی۔بوڑھے باپ کا دل بھر آیا۔اس نے قریب بیٹھ کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بیٹی کیا ہوگیا ہے تمہیں۔“
سلمی اٹھ کر بیٹھ گئی۔آنسو پونچھے اور ہچکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔”کچھ نہیں اباجان! مجھے معاف کیجیے!! آئندہ آپ مجھے کبھی روتا نہیں دیکھیں گے۔“
”لیکن رونے کی کوئی وجہ بھی تو ہو؟ ایسی خبریں تو ہم روز سنا کرتے ہیں۔آخر مالابار کا ایک جہاز غرق ہوجانے میں کیا خصوصیت تھی؟“
سلمی نے غور سے اپنے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا اور قدرے مطمین ہوکربولی۔ ”آپ سچ کہتے ہیں؟“
عبداللہ نے برہم ہوکرکہا۔”آخر مجھے جھوٹ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ آج تک تم نے میری کسی بات پر شک نہیں کیا۔اگر مجھ پر یقین نہیں آتا تو طلحہ سے پوچھ لو!“
سلمی نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کہا۔”اباجان! میں معزرت چاہتی ہوں۔میں سمجھی تھی۔۔۔۔۔کہ شاید آپ عربوں کے جہاز کا ذکر کررہے ہیں۔“
”بیٹی! تم یہ سمجھتی ہو کہ خدانخواستہ اگر میں ان کے جہاز کے متعلق ایسی خبر سنتا تو مجھے تم سے کم صدمہ ہوتا؟“
شام کے کھانے کے بعد طلحہ اور عبداللہ کا خادم عشاء کی نماز ادا کررہے تھے۔ خادمہ برتن صاف کررہی تھی۔اتنے میں کسی نے باہر کے پھاٹک پر دستک دی، سلمی نے خادمہ سے کہا۔”شاید زید اور قیس آئے ہیں۔تم نے باہر کا دروازہ بند تو نہیں کردیا تھا؟“
خادمہ نے جواب دیا۔”ایسی بارش میں کون آسکتا ہے۔ میں ابھی کواڑ بند کرکے آئی ہوں۔اگر انھیں آنا ہوتا تو مغرب کی نماز کے لیے نا اتے؟ اور ہاں زید تو بیمار ہے، قیس بیچارہ بوڑھا۔اس نے گھر ہی پر نماز پڑھ لی ہوگی۔“
”لیکن پھر بھی کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔“
”یہ آپ کا وہم ہے۔دروازہ ہوا سے ہل رہا ہے۔“
”نہیں کسی کی آواز بھی سن رہی ہوں۔شاید۔۔۔۔! میں جاتی ہوں۔“
سلمی کا دل دھڑک رہا تھا۔تاریکی میں ایک قدم آگے دیکھنا محال تھا۔وہ بجلی کی چمک میں درختوں سے بچتی ہوئی پھاٹک تک پہنچی۔
پھاٹک کے باہر کوئی آہٹ نا پاکر اس کا دل بیٹھ گیا۔وہ مایوس ہوکر وآپس ہونے کو تھی کہ کسی نے دروازے کو زور سے دھکا دے کر آواز دی ”کوئی ہے؟“
ایک آن کے لیے سلمی کے پاوں زمین سے پیوست ہوکررھ گئے۔پھر وہ لپک کر آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔سلمی کے سامنے ایک بلند اقامت انسان کھڑا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی اس نے سوال کیا۔”کیا یہ عبداللہ کا گھر ہے؟“
بیشتر اس کہ کے سلمی کوئی جواب دیتی۔بجلی چمکی اور ابوالحسن سلمی کو پہچان کراندر داخل ہوا۔
ابوالحسن نے کہا۔”اوہوتم! مجھے افسوس ہے کہ اس وقت میری وجہ سے تمہیں بارش میں بھیگنا پڑا۔“
سلمی نے اپنے دل میں کہا۔”کاش تم یہ جان سکتے کہ اس بارش کی بوندیں کس قدر خوشگوار ہیں۔“ اور پھر ابوالحسن سے مخاطب ہوکر بولی۔”چلیے!“
برآمدے میں طلحہ اور عبداللہ ابوالحسن کی آواز سن کر اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔عبداللہ نے آواز دی:- ”کون! ابوالحسن!!“
ابوالحسن نے برآمدے کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے کہا۔”جی ہاں! میں ہی ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ میں نے خوامخواہ اس وقت آپ کو تکلیف دی۔“
طلحہ نے کہا۔”کہیے خیریت تو ہے نا! آپ کے ساتھی کہاں ہیں۔؟“
”ہاں! خیریت ہے۔میں ان سب کو جہاز پر چھوڑ آیا ہوں۔مجھے معلوم نا تھا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے اتنے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔راستے میں ایک دفعہ پھسلا، دومرتبہ ندی میں گرا، پانچ مکانات کو آپ کا مکان سمجھ کر آوازیں دیں۔ایک گھر کے چند فرض شناس کتوں نے میرا استقبال کیا۔“
عبداللہ نے سلمی کو آواذ دی۔سلمی ابھی بےخودی کے عالم میں برآمدے سے باہر کھڑی تھی۔
آج بھی بارش کے قطرے اس کے رخساروں کے آنسو دھو رہے تھے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔باپ کی آواز سن کر وہ چونکی اور بھاگتی ہوئی برآمدے میں داخل ہوئی۔
”کیا ہے اباجان؟“
”بیٹی! جاو ان کے لیے کھانا اور کپڑوں کا جوڑا لے آو اور باقی مہمانوں کے لیے بھی کھانا تیار کرواو! میں انہیں بلانے کے لیے جاتا ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”کھانا ہم سب کھا چکے ہیں۔آپ تکلیف نا کریں۔“
کپڑے بدلنے کے بعد ابوالحسن، عبداللہ اور طلحہ سے کافی دیر باتیں کرتا رہا۔اس نے دیر سے آنے کی یہ وجہ بیان کی کہ بصرہ سے اسے افریقہ ایک مہم میں شریک ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔
ساتویں دن عبداللہ کی رضا مندی نے سلمی اور ابوالحسن کو رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا۔
تین سال بعد ابوالحسن شہر میں اپنے لیے ایک خوبصورت مکان اور اس کے قریب ایک مسجد تعمیر کروا چکا تھا۔اس کے دیکھا دیکھی اس کے چند ساتھی بھی اس شہر میں آباد ہوگئے۔پانچ سال کے عرصہ میں ابوالحسن اور طلحہ کی تبلیغ سے مقامی باشندوں کے چند گھرانے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئےاور ابوالحسن نے مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک مدرسہ تعمیر کرکے درس وتدریس کے فرائض طلحہ کے سپرد کردیے۔
عبداللہ کی بدولت اس کی تجارت کو بہت فروغ ہوا۔شادی کے دوسرے سال اس کے ہاں ایک لڑکا اور چوتھے سال ایک لڑکی پیدا ہوئی۔لڑکے کا نام اس نے خالد اور لڑکی کا نام ناہید رکھا۔دسویں سال ایک اور لڑکا پیدا ہوا لیکن تین ماہ کی عمر میں والدین کو داغِ مفارقت دے گیا۔
جب خالد کی عمر سات اور ناہید کی عمر پانچ برس تھی۔ سلمی کے باپ نے چند دن موسمی بخار میں مبتلا رہ کر داعی اجک کو لبیک کہا۔
ابوالحسن کو دنیا کی ہر نعمت میسر تھی۔اس کے پاس مال و دولت کی کمی نا تھی۔اسے اپنے بیوی بچوں سے بےانتہا محبت تھی لیکن یہ محبت اس گھر کی چاردیواری میں سلاسل نا رکھ سکی۔ وہ قریباً ہرسال فریضہ حج ادا کرنے کے لیے طویل سفر کی کٹھن منازل طےکرتا۔پانچ دفعہ اس نے ایشیائے کوچک اور شمالی افریقہ میں جہاد کرنے والی افواج کا ساتھ دیا۔۔۔
ہر بار جہاد اور حج سے وآپس آنے کے بعد وہ فنونِ حرب اور مذہبی تعلیم میں اپنے بچوں کا امتحان لیتا۔خالد تیر اندازی، شاہسواری ، تیغ زنی اور جہاز رانی کی تعلیم میں اپنے باپ کی بہترین توقعات کو پورا کررہا تھا۔
ناہید بارہ سال کی عمر تک تیر اندازی کے علاوہ سرکش گھوڑوں پر سوار ہوناسیکھ چکی تھی۔ پڑھنے لکھنے میں بھی طلحہ کو اس کی غیرمعمولی ذہانت کا اعتراف تھا۔
راجہ کے ساتھ ابوالحسن کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔مہارانی ایک مدت سے سلمی کی سہیلی بن چکی تھی۔وہ ہفتے میں ایک دومرتبہ پالکی بھیج کر ماں کو بیٹی کو محل بلاتی۔ راجکماری ناہید سے اس قدر مانوس ہوچکی تھی کہ خود بھی کبھی کبھی ابوالحسن کے گھر چلی آتی۔
راجکمار عمر میں خالد سے چار سال بڑا تھا لیکن پھر بھی وہ خالد کو ہر بات میں قابلِ تقلید سمجھتا تھا۔
ایک دن دلیپ نے راجہ کے سامنے فنونِ حرب میں خالد کی غیر معمولی استعداد کی تعریف کی۔راجہ نے پوچھا۔”کیا وہ ہمارے راجکمار کا مقابلہ کرسکے گا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! ہمارے راجکمار نازوں کے پلے ہوئے ہیں اور وہ ایک سپاہی کا بیٹا ہے۔“
”لیکن وہ بہت چھوٹا ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر عرب مائیں بچپن میں اپنے بچوں کی اس طرح تربیت نا کرتیں تو آج وہ آدھی دنیا پر قابض نا ہوتے۔ میں نے سنا ہے کہ عرب مائیں چودہ سال کے بچے کو میدانِ جنگ میں بھیج دیتی ہیں۔“
راجہ نے پوچھا۔”خالد کی عمر کیا ہے؟“
”مہاراج!یہی کوئی بارہ سال ہوگی۔“
”آخر ان بچوں میں کیا خوبی ہے جو ہمارے بچوں میں نہیں؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر برا نا مانیں تو میں عرض کروں۔“
راجہ نے کہا۔”کہو!“
”مہاراج! ہم میں اور ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ہم بے شمار دیوتاوں کو مانتے ہیں۔ان دیوتاوں کے علاوہ دنیا کی ہر وہ طاقت جو ہمیں خوفزدہ کرتی ہے ہمارے نزدیک دیوتا کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔مثلاً ہماری راہ میں اگر کوئی دشوار گزار پہاڑ آجائےتو ہم اپنی قوتِ تسخیر کے امتحان کی بجائے اسے دیوتا سمجھ کر اس کی پوجہ شروع کردیتے ہیں۔لیکن وہ صرف ایک خدا کومانتے ہیں اور اس کے سوا روئے زمین کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے سرجھکانا گناہ سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا ایمان ہے کہ انسان مر کر فنا نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد اس کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ابو الحسن نے ایک دن مجھے بتایا تھا جب خالد(رضی اللہ عنہ) ان کا بہت بڑا سپہ سالار شام کی طرف پیش قدمی کررہا تھا تو شام کے گورنر نے اسے لکھا تھا کہ تم پہاڑ سے ٹکڑا رہے ہو۔تمہارے چالیس ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں میرے پاس اڑھائی لاکھ ایسی فوج ہے جو بہترین ہتھیاڑوں سے مسلح ہے۔اس کے جواب میں مسلمانوں کے سپہ سالار نے لکھا کہ مجھے تمہاری طاقت کا اندازہ ہے لیکن تم شاید شاید یہ نہیں جانتے کہ تمہارے سپاہیوں کے دلوں میں جس قدر زندہ رہنے کی آرزو ہے میرے سپاہیوں میں موت کی تمنا اس سے کہیں زیادہ ہے۔“
راجہ نے کہا۔”دلیپ سنگھ!میں یہ چاہتا ہوں کہ راجکمار کی سپاہیانہ تربیت ابوالحسن کو سونپ دی جائے۔تم اس سے ملو۔ اگر وہ یہ خدمت قبول کرے تو ہم اسے ایک معقول معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔“
دلیپ سنگھ کے کہنے پر ابوالحسن نے راجہ کی دعوت خوشی سے قبول کرلی لیکن معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔
دوسال کی تربیت کے بعد ابوالحسن نے راجہ سے کہا۔”اب آپ کا بیٹا فنونِ سپہ گری میں اس ملک کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔“
راجہ نے پوچھا۔”میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ تیر اندازی اور شاہسواری میں خالد کا مقابلہ کرسکتا ہے یا نہیں؟“
ابوالحسن نے جواب دیا۔”خالد نے اس عمر میں تیر وکمان سنبھالا تھا جب آپ کا راجکمار کھلونوں سے دل بہلایا کرتا تھا اور اس عمر میں گھوڑوں کی پیٹ پر بیٹھنا سیکھا تھا جس عمر میں راجکمار کو نوکر کندھوں پر اٹھائے پھڑتے تھے۔خالد فطرتاً ایک سپاہی ہے اور راجکمار فطرتاً ایک شہزادہ ہے۔“
”اور راجکمار تیغ زنی میں کیسا ہے؟“
”وہ خالد سے عمر میں بڑا ہے اور اس کے بازو بھی اسی قدر مضبوط ہیں۔میں نے دونوں کا مقابلہ کراکے نہیں دیکھا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ خالد کی نسبت زیادہ آسانی سے تلوار گھما سکتا ہے۔“
راجہ نے بیٹے کو بلا کرپوچھا۔”کیوں راجکمار۔”تو اپنے استاد کے بیٹے سے تلوار کے دودو ہاتھ دیکھانے کے لیے تیار ہو؟“
راجکمار نے کہا۔” نہیں پتا جی! وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔اگر میں ہارگیا مجھے شرم آئے گی اور اگر وہ ہار گیا تو بھی مجھے ہی شرم آئے گی۔“
ابوالحسن کی شادی کو اٹھارہ برس گزر چکے تھے۔خالد کی عمر سولہ اور ناہید کی عمر چودہ برس تھی۔خلیفہ ولید کی مسند نشینی کے ساتھ مسلمانوں کی نئی فتوحات کا آغاز ہوچکا تھا۔
ایک دن سندھی تاجروں کا جہاز آیا۔ان کے ساتھ عمان کا ایک عیسائی بھی تھا۔سندھ کے تاجروں نے جزیرے کے عربوں سے ترکستان اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کا ذکر کیا۔عمان کے تاجر نے ان ساری باتوں کی تصدیق کی۔ابوالحسن اور اس کے چند ساتھی حج کے لیے تیار تھے۔اب حج کے ارادوں کے ساتھ شوقِ جہاد بھی شامل ہوگیا۔
راجہ باہر سے آنے والے تاجروں کی زبانی نئے ممالک کی خبریں نہایت دلچسپی سے سنا کرتا تھا۔مسلمانوں کی تازہ فتوحات کا سن کے اس نے ابوالحسن کو بلایا اور مسلمانوں کے خلیفہ اور عراق کے گورنر کو سونے اور جواہرات کے چند تحائف بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔
ابوالحسن نے کہا۔”میں خوشی سے آپ کے تحائف ان کے پاس لے جاوں گا۔“
سندھ کے تاجروں نے اپنا مال فروخت کیا اور نیا مال خرید کر لوٹ گئے۔ان کے جانے کے چند دن بعدابوالحسن اور اس کے ساتھی حج کے لیے تیار ہوگئے۔اس سال سراندیپ کے نومسلموں کے علاوہ حج پر جانے والے عربوں کی تعداد بھی خلافِ معمول زیادہ تھی۔
طلحہ اور اس کے علاوہ تین اور عرب تاجر حج پر جانے والوں کے گھروں کی دیگھ بھال کے لیے پیچھے رھ گئے۔بعض عرب اپنے کم سن بچوں کو طلحہ کی حفاظت میں چھوڑ کر بیویوں کو ساتھ لے گئے اور بعض اپنے اہل و عیال کو گھروں میں چھوڑ گئے۔
ابوالحسن اپنے بیوی اور بچوں کو ساتھ لے جانے کا ارادہ کرچکا تھا لیکن سفر سے تین دن قبل سلمی کی طبعیت خراب ہوگئی اور اسے یہ ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔
خالد عقاب کے اس بچے کی طرح جو پر نکلنے کے بعدگھونسلے میں پھرپھڑا رہا ہو، میدانِ عمل میں اپنے سپاہیانہ جوہر دیکھانے کے لیے بےقرار تھا لیکن ماں کی علالت نے اسے گھر ٹھرنے پر مجبور کردیا۔ابوالحسن نے وعدہ کیا کہ وآپس اتے ہی اسے عرب کی سیاحت کے لیے بھیج دے گا۔
رخصت کے دن سلمی کو سخت بخار تھا لیکن وہ انتہائی تکلیف کے باوجود بستر پر نا لیٹی۔شوہر کو رخصت کرنے سے پہلے اس نے سراپا التجا بن کر کہا۔”دیکھیے! میں بلکل تندرست ہوں۔مجھے ساتھ لے چلیے۔اپنے وعدے نا بھولیے۔“
ابوالحسن نے مغموم سا ہوکرجواب دیا۔”نہیں سلمی! جہاز پر موسمی بخار تمہیں بہت تکلیف دے گا۔تم تندرست ہوجاو گی تو میں دوسرے سفر میں تمہیں ساتھ لے چلوں گا۔دیکھو میں تمہاری تیماداری کے لیے خالد اور ناہید کو چھوڑ کرجارہا ہوں۔طلحہ بھی تمہارا خیال رکھے گا۔“
اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔”نہیں!!! نہیں!!! مجھے ضرور لے چلیے۔میں آپ کے ساتھ ہر تکلیف برداشت کرسکتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”سلمی ضد نا کرو۔دیکھو تمہاری نبض کس قدر تیز ہے۔بخار سے تمہارا چہرہ سرخ ہورہا ہے۔تم نے کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا۔میں جلد وآپس آجاوں گا۔“
”نہیں!!! اس دفعہ مجھے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کا سفر بہت لمبا ہے اور میں شاید دیر تک انتظار نا کرسکوں گی۔“
ابوالحسن نے مغموم صورت بنا کرجواب دیا۔”سلمی! تم رورہی ہو۔ کئی برس ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا کہ مسلمان عورتیں مجاہدوں کو رخصت کرتے ہوئے آنسو نہیں بہاتیں۔“
ان الفاظ نے سلمی پر جادو کا اثر کیا۔اس نے آنسو پونچھ ڈالے اور مسکرانے کرتے ہوئے بولی۔”میرے اس درجہ مغموم ہونے کی وجہ یہ نا تھی کہ آپ جارہے ہیں بلکہ یہ تھی کہ آپ مجھے چھوڑ کرجارہے ہیں۔آپ اگر ایک بار مجھے میدانِ جہاد میں لے جاتے تو پھر شاید مجھے کمزوری کا طعنہ نا دیتے۔میں آپ کے ساتھ تیروں کی بارش میں کھڑی ہوسکتی ہوں لیکن آپ کے انتظار میں صبح و شام کوٹھے کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھنا میرے لیے صبر آزما ہوگا۔“
ابوالحسن نے جواب دیا۔”یہی صبر عورتوں کا جہاد ہے۔جو کام مرد میدان میں نہیں کرسکتے وہ کام عورتیں گھر کی چار دیواری میں رھ کرسکتی ہیں۔عورتیں خالد(رضی اللہ عنہ) اور مثنی(رضی اللہ عنہ) نہیں بن سکتیں لیکن ان کی ماوں کا رتبہ حاصل کرسکتی ہیں۔آج ہمارے سپاہی اپنے گھروں سے کوسوں دور لڑ رہے ہیں اور ان کے عزائم وہ عورتیں بلند رکھتی ہیں جو صبر واستقلال سے گھروں میں ماوں، بہنوں اور بیویوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ان پر اعتماد کی بدولت ان کے دل میں یہ خیال بے چینی پیدا نہیں کرتا کے گھر پر ان کے ننھے بھائیوں اور بچوں کا کیا حال ہوگا۔سلمی! تم ہی بتاو۔کیا وہ سپاہی جسے یہ خیال ہو کہ اس کی بیوی رورو کر اندھی ہوگئی ہوگی اور بچے گلیوں میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے،ایک بہادر کی طرح مسکرا کر جان دے سکتا ہے؟ فرض کرو اگر میں نا آوں تو عرب کی دوسری عورتوں کی طرح خالد کو جہاد پر رخصت نا کرو گی؟“
سلمی نے جواب دیا۔”آپ یقین رکھیے! اگر آپ خالد کے لیے برا باپ بننا گوارا نہیں کرتے تو میں بھی بری ماں بننا پسند نہیں کروں گی۔“
شام کے وقت ابوالحسن کا جہاز روانہ ہوا۔سلمی ناہید کے ساتھ چھت پر کھڑی سمندر کی طرف دیکھ رہی۔ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ناہید نے کہا۔”امی جان! آپ نے اباجان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہمارے سامنے آنسو نا بہائیں گی۔“
سلمی نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔”بیٹی! کاش یہ میرے بس کی بات ہوتی، تمہارے باپ کے مقابلے میں میرا دل بہت کمزور ہے۔“
سلمی یہ کہہ کربیٹھ گئی۔ناہید نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”امی! آپ کو ابھی تک بخار ہے۔آپ بستر پر لیٹ جائیں۔“