’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ مرتب کرنے اور چھپوانے کا پہلے سے کوئی طے شدہ ارادہ نہیں تھا۔اسی طرح آج کی’’ مبارکہ حیدر یادگاری تقریب‘‘ کے لیے بھی پہلے سے کوئی پروگرام سوچا نہیں تھا۔یہ دونوں کام جو ہوئے ہیں قدرت کی طرف سے خود بخود ہوتے چلے گئے ہیں ۔اب جب یہ دونوں کام خیر و خوبی سے ہوگئے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ ہم سب پر مبارکہ کی محبت کا قرض تھا جو ہم سب نے مل کر اپنے اپنے حصے کے مطابق کچھ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنے والد بزرگوار قریشی غلام سرور صاحب کے نام پر ’’سروَر ادبی اکادمی جرمنی‘‘میں نے 1998میں قائم کی تھی۔اس کے زیرِ اہتمام میری تین کتابیں شائع ہوئیں۔ 1998 میں’’غزلیں،نظمیں،ماہیے‘‘،2004ء میں ’’سوئے حجاز‘‘ اور 2009 ء میں ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘۔
ان کے علاوہ ادبی جریدہ’’جدیدادب‘‘جرمنی بھی ’’سروَر ادبی اکادمی جرمنی‘‘ کے زیر اہتمام شائع کیا جاتا رہا۔اس جریدہ کا پہلا شمارہ جولائی 2003 ء میں شائع ہوا تھا۔اور اب تک کا آخری شمارہ جولائی 2012 ء میں شائع ہوا تھا۔یہ سارے کام کسی شور یا بینڈ باجے کے بغیر خاموشی کے ساتھ ہوتے رہے۔
سرور ادبی اکادمی جرمنی کے زیرِ اہتمام کبھی کوئی مجلسی پروگرام نہیں کیا گیا۔’’مبارکہ حیدر یادگاری تقریب‘‘پہلا پروگرام ہے جو آج منعقد کیا گیا۔اس میں بھی قدرت کی طرف سے ایک خاص وجہ موجود ہے۔اباجی کے دو خواب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘کے آخر میں درج کرکے میں نے ان کی تعبیر کا ایک تعلق مبارکہ سے بھی واضح کیا ہے ۔یہ اسی تعلق کا نتیجہ ہے کہ آج ابا جی کے نام سے قائم اس ادبی تنظیم کا واحد اجلاس مبارکہ کے حوالے سے ہوا ہے۔یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا چلا گیا ہے۔
بہر حال میں آپ سارے بچوں کا،بچوں کے بچوں کا،سارے عزیز و اقارب کا ،اور سارے احباب کا شکر گزار ہوں کہ آپ سب اس تقریب میں شریک ہوئے اور ہم سب نے مل کر مبارکہ کے ساتھ اپنے مشترکہ غم کو اور مبارکہ کے ساتھ اپنی مشترکہ محبت کو دل سے یاد کیا۔آپ سب کا شکریہ۔
اب ہم مبارکہ کی مغفرت کے لیے ایک بار پھر مل کر دعا کرتے ہیں اور دعا کے بعد کھانا ہو گا۔
حیدر قریشی
13 اکتوبر 2019 ء