زندگی میں انسانی رشتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور یہ ہمارے لیے انمول اور قیمتی ہوتے ہیں۔رشتوں کومضبوطی ،شفقت ،احساس اور پرخلوص محبت سے عطا ہوتی ہے ۔اور ان ہی جذبوں سے یہ تا عمر توانا اور پائیدار رہتے ہیں۔
انسان ایک بچے کی شکل اس دنیا میں آتا ہے ماں باپ کی اولا د ہوتا ہے خونی رشتے ،دوست احباب ،رشتہ دار اور دیگر رشتوں سے منسلک ہوجاتا ہے اور ان ہی رشتوں میں سب سے اہم رشتہ ایک ازدواجی رشتہ ہے جہاں دو انجان لوگ ایک بندھن میں اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ ایک کا نا م دوسرے کی پہچان بن جاتا ہے ۔ایک ایسی ہی مثالی ازدواجی رشتے کی ڈور میں بندھی کہانی اردو کے مشہور شاعر وادیب حیدر قریشی کی ہے ۔جنھوں نے اردو ماہیا کو ایک صنف کا درجہ عطا کر کے خو د اس کے موجد کہلائے ۔تنقید ،تحقیق افسانہ،خاکہ ،نظم ،غزل او ر ماہیاوغیرہ میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں کئی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں ۔دنیائے ادب میں اپنی ایک شناخت بنائی ہے مبارکہ حیدرکو آ ج کوئی نہیں جا نتا اگر وہ حیدر قریشی سے وابستہ نہ ہوتیں ۔اگر ہم ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کی کئی تحریروں میں ان کا عکس دکھائی دے گا۔اور یہ رشتہ بہت ہی پاکیزہ اور پیارا ہوتا ہے۔زندگی کو محبتوں اور چاہتوں سے یہ رشتہ ہی سجاتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔شاعری اور نثر میں محبوباؤں اور معشوقاؤں ،عشق وعاشقی کا بیان کھلے طور پر ملتا ہے مگر حیدر قریشی کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے ہر رشتے کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی اور بالخصوص اپنی بیوی پر افسانے ،غزلیں اور خاکے بھی لکھے اور یہ سلسلہ ان کے انتقال کے بعد اور بھی دلچسپ ہوگیا جب انھوں نے مبارکہ حیدر کے انتقال کچھ ہی دن بعد’ حیات مبارکہ حیدر ‘شائع کر دی جو ایک طرح کا خراج عقیدت ہے۔
حیات مبارکہ حیدر صرف مبارکہ حیدر کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ حیدر قریشی کی محبت کی داستان بھی ہے کتاب کا سر ورق دیدہ زیب ہے جہاں مبارکہ حیدر کی چار تصویریں ان کی زندگی کے چار ادوار بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور بڑھاپے کو درشاتے ہیں ۔ وہیںکتاب کے پشت ( بیک سائیڈ کور )پر حیدر قریشی اور مبارکہ حیدر کی بہت ہی خوبصورت تصویر ان کی محبت کا اظہاری ہے تصویر کے نیچے ہی پروفیسر عبدالرب استاد کی تعزیتی نظم ہے جو حیدر قریشی کے دلی جذبات کو سمجھنے اور ان کے دکھ میں شریک ہونے پر مجبور کرتی ہے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
حیدر کے گھر میں ایک مبارک وجود تھا
ہر سمت جس سے نورِ ولا کا ورود تھا
اپنے ہوں یا کہ غیر ،سبھی کے قریب تھا
وہ اک وجود سب کے لیے باسعود تھا
حیدر تو اپنی ذات میں بے مثل ہے مگر
بچھڑے ہوئے وجود میں گویا قیود تھا
نظم کا آخری شعر ان دونوں کی لمبی داستان محسوس ہوتا ہے ۔۲۷ مئی ۲۰۱۹ء کو یہ ہر دل عزیز شخصیت اس جہان دارفانی سے کوچ کر گئیں۔اس کے چند روز بعد ہی ۱۶ ،اگست ۲۰۱۹ ء کو یہ داستان محبت کتابی شکل میںایم ایم پبلی کیشن دہلی انڈیا سے شائع ہوئی۔کتاب کا پیش لفظ حیدر قریشی نے لکھا ہے اس کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ صرف ایک شوہر کی اپنی بیوی سے محبت کی داستان ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں نے حیدر قریشی کی تمام تخلیقات میں سے مبارکہ حیدر کو تلاشا اور ان کو ایک جگہ جمع کر کے ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی ۔جسے بعد میں ’’حیات مبارکہ حیدر‘‘ میں من وعن شامل کیا گیا ہے ۔
کتاب کے پیش لفظ میں حیدر قریشی اپنی کم عمری کی شادی کے باجود ایک مکمل خوش حال ازدواجی زندگی کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
’’ہماری شادی کم عمری میں ہوئی ۔کم عمری کی شادی کے مسائل سے ہمارا بھی واسطہ رہا لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر اپنی ازدواجی زندگی کے گزرے ہوئے ۴۸ برسوں کو دیکھتا ہوں ۔ہم نے کچی عمر کے بعض مسائل کے باوجود بھر پور زندگی گزاری ہے ۔یہ بھر پور زندگی اپنے ثمرات کے لحاظ سے ایسے بہت سارے اعتراضات کو رد کرتی ہے جو کہ کم عمری کی شادی پر عام طور پر کیے جاتے ہیں ۔‘‘ (ّحیات مبارکہ حیدر :از:حیدر قریشی ص ix)
اس کتاب میں پیش لفظ کے بعد تبصرے تاثرات اور مضامین شامل ہیں جس کی ابتداء ڈاکٹر انور سدید کے تاثرات سے ہوئی ہے ان دونوں کے رشتے کے متعلق لکھتے ہیں ۔
’’ایک مشرقی عورت ہونے کے ناطے مبارکہ بیگم کی بے لوث محبت کے عمل نے حیدر قریشی کو سرشار رکھا اور انھوں نے جب بھی قلم اٹھایا تو موقع اور محل کے مطابق اپنی بیگم کا ذکر سلیقے سے کیا کہ مبارکہ بیگم کا کردار ،مثبت خطوط پر ابھرتا چلا گیا اور حیدر قریشی بھی اس الزام کی زد میں نہ آسکے کہ وہ جورو کے غلام ہیں ۔‘‘ (حیات مبارکہ حیدر :از:حیدر قریشی ص ۱۱۵)
چند اہم شخصیات کے تاثرات اور تبصروں میں انوکھی محبت (سید نصرت بخاری)،شعیب حیدر کی کتاب (عظیم انصاری) ،ہماری امی مبارکہ حیدر ۔۔ایک جائزہ(پروفیسر عبدالرب استاد)،ایک اہم کتاب (نسیم انجم)،ہماری امی مبارکہ حیدر (ڈاکٹر رضینہ خان ) ، ہماری امی مبارکہ حیدر ایک جائزہ(ڈاکٹر رمیشا قمر)،ہماری امی مبارکہ حیدر (خالد یزدانی)،ہماری امی مبارکہ حیدر (حمیرا حیات ) ،ایک تاثر ایک احساس (زارا حیدر) کچھ تاثرات (فیصل عظیم ) وغیرہ شامل کتاب ہیں۔
اس کتاب میں ان پیغامات کو بھی وفات کی خبر اور تعزیتی پیغامات کے عنوانات سے شامل کیا گیا ہے جن میں تعزیتی کلام ،ای میلز،وہاٹس ایپ او ر دوسرے سوشل میڈیا سے جو تعزیتی اظہار کیا گیا اور جن سے حیدر قریشی کے غم میں شریک ہونے کا موقع ملا ان تمام پیغامات کو بھی کتاب میں جگہ دی گئی ۔ جذبات و احساسات کے تحت مبارکہ حیدر کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو پیش کیا گیا ہے جن میں صادق باجوہ ،عبداللہ جاوید ،شہناز خانم عابدی ،داکٹر ریاض اکبر ،نازیہ خلیل عباسی ،خالد یزدانی ،راحت نوید ،عظمی احمد،کنول تبسم اور نذیر بزمی وغیرہ کے جذبات کا والہانہ انداز ملتا ہے ۔
’یادیں ہی یادیں ‘ کے عنوان سے حیدر قریشی کے بچوں کے اپنی والدہ کے لیے محبت آمیز تحریریں شامل کتاب ہیں ۔اور دیگر دوست احباب کی بھی۔۔۔۔مگر ان کے ہر بچے کے اپنی ماں کو لے کر تاثرات ،احساسات او ر جذبات کا اظہاریہ مختلف اور محبت سے پر ہے۔جن میں درثمین انور،طارق محمود حیدر،رضوانہ کوثر ،احمد عبدریہ عباس عبدالمنعم ،عثمان حیدر ،شعیب حیدر و غیرہ کے مضامین ہیں ۔
اس کتاب کی جان دراصل حیدر قریشی کا خاکہ ’پسلی کا ٹیڑھ‘ کا وہ دوسرا حصہ ہے جو ۲۹ سال کے بعد لکھا گیا ہے جس کا اظہار انھوں نے مبارکہ حیدر سے ۲۹ سال پہلے ہی کیا تھا کہ اس کا دوسرا حصہ یا تو وہ خود لکھیں گی حیدر قریشی کے انتقال کے بعد یا مبارکہ حیدر کی وفات کے بعد خود حیدر قریشی ۔۔۔اس خاکے کے ہر تحریر ،ہر لفظ ،ہر جملے اور ہر سطر سے عزت احترام او ر محبت چھلکتی ہے جس میں وفات سے پہلے کے ہرہر لمحے کو اس خاکہ میں قید کیا گیا ہے خاکہ میں الفاظ نہیں گویا حیدر قریشی نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔اس خاکے، کے ایک اقتباس سے یہ مضمون کو سمیٹتی ہوں
’’دوسرے دن قبر پر دعا کرنے گیا۔دعا کے بعد کچھ دیر وہیں رکا رہا پھر واپسی کے لیے مڑا تو سلطنت کے رکھے ہوئے پھول اپنی جگہ سے سرک کر گرنے کی آواز مجھے بالکل ویسی ہی لگی۔جیسی مبارکہ نے مجھ سے ۲۴ ستمبر ۲۰۰۹ ء کو گہری بے ہوشی کی حالت میں کہا تھا ’’ کتھے چلے اوا‘‘
میں آواز سن کر فوراً مڑا اور بے ساختگی سے مبارکہ کو مخاطب کر کے کہا۔
ابھی نہ جاؤں ؟اچھا نہیں جاتا ،اور پھر قبر کے قریب بیٹھ گیا۔
ایسے سانحہ کے قریب ترین دنوں کی کیفیت کے ساتھ ان سے باتیں کرتا رہا۔اسی دن شام کو پھر قبرستان گیا۔اپنی چھتری ساتھ رکھے ۔بنچ کے ساتھ ٹکائی ۔مبارکہ کی قبر پر ان کی مغفرت کی دعا کی ۔حالیہ دنوں میں جرمنی میں بہت زیادہ گرمی پڑرہی ہے قبر کو دیکھا تو شدید گرمی کے اثرات محسوس ہوئے۔قریب ہی پانی کی فراہمی کا باقاعدہ انتظام موجود تھا سوچا پانی بھر کر لاتا ہوں اور قبر پر مناسب چھڑ کا ؤ کرتا ہوں ۔جیسے ہی پانی لینے کے لیے جانے لگا ۔بینچ سے ٹکی ہوئی میری چھتری نیچے گرگئی ۔میں نے نمناک مسکراہٹ کے ساتھ مڑ کر دیکھا اور جیسے ہم معمول کے مطابق ایک دوسرے سے بات کیا کرتے تھے ویسے ہی کہا۔ابھی ادھر ہی ہوں ۔کہیں نہیں جارہا ۔پانی لاتا ہوں تاکہ قبر پر چھڑکاؤکردوں ۔۔۔۔۔۔۔
پھولوں کا اپنی جگہ سے سرک کر گرنا ،چھتری کا بینچ سے گرجانا اگر یہ اتفاق تھے تو تب بھی غم کی خاص کیفیت میں عین ایسی صورت حال میں ایسے اتفاق ہوجا نا اچھے لگتے ہیں ۔لیکن اگر سچ مچ مبارکہ کی روح تھی تو مجھے مزید کچھ دیر کے لئے روک رہی تھی (اور مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہی تھا) تو یہ احساس بھی ایک رو حانی طمانیت کا موجب بنتا ہے۔‘‘ (حیات مبارکہ حیدر ص۲۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔