حیدر قریشی کی مرتب کردہ کتاب ’’حیات ِمبارکہ حیدر‘‘ موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی پہلی اور اَچھوتی کتاب ہے۔ حیدر قریشی کا نام ادبی دنیا میں بہت جانا پہچانا ہے۔ آپ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ ادب کی ہر صنف ِ سخن میں خامہ فرسائی کر کے خود کو منوا چکے ہیں۔ نظم و نثر میں اب تک ان کی ستائیس کتابیں شائع ہو کر قبول ِ عام کی سند پا چکی ہیں۔ اور یہ ستائیسویں کتاب ’’حیات ِمبارکہ حیدر‘‘ ہے جو اُن کی اپنی مرحومہ بیوی مبارکہ حیدر کی یادوں سے مرصع ہے۔ اِس بارے میں اُنہی کا شعر ہے:
ہم نے ترے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے
اِس ایک کتاب میں دراصل دو کتابیں شامل ہیں۔ پہلی کتاب حیدر قریشی اور اُن کی اہلیہ مبارکہ حیدر کے بچوں کی مرتب کردہ ہے جو ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ کے نام سے اُن کے بڑے بیٹے شعیب حیدر نے 2015 میں مرتب کر کے شائع کی۔ یہاں مَیں نے لفظ ’’مرتب‘‘ یوں استعمال کیا ہے کہ اِس میں حیدر قریشی کی تحریروں اور کچھ دیگر ادیبوں کے مضامین و خطوط سے وہ اقتباسات شامل کئے گئے ہیں جن میں مبارکہ حیدر کا تذکرہ ہے۔ اِس کتاب کی وجۂ اشاعت بتاتے ہوئے شعیب حیدر نے پیش لفظ میں لکھا ہے:
’’کیا ضروری ہے کہ پہلے ماں کے مرنے کا انتظار کیا جائے اور پھر ماں کو یاد کرتے ہوئے کوئی کتاب ترتیب دی جائے؟‘‘
اِن کے نزدیک زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ ایسا کام ماں کی زندگی ہی میں کر لیا جائے اور ’’ماں کی روح کو خوش کرنے کی بجائے کیوں نہ جیتی جاگتی ماں کو اُس کی روح سمیت خوش کیا جائے۔‘‘
یقیناً یہ بہت اچھی اور مثبت سوچ ہے۔ مناسب ہوگا کہ شعیب حیدر ایسی ہی ایک کتاب اپنے ابو حیدر قریشی کے بارے میں بھی شائع کریں۔ خیر۔۔۔۔ یہ تو جملۂ معترضہ تھا، واپس کتاب کی طرف آتے ہیں۔ بقول شعیب حیدر، جب بھائی بہنوں میں اِس بات پر اتفاق ہو گیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ کتاب کون لکھے؟ کیوںکہ اِن میں سے کسی نے بھی وراثت میں باپ کا قلم نہیں لیا۔ یہاں ان کے دانش ور ابو نے مشکل آسان کی اور صلاح دی کہ ’’بجائے اِس کے کہ خود بھی لکھو اور دوسرے عزیز و اقارب سے بھی لکھوانے کا جتن کرو، بہتر ہے میری مختلف تحریروں میں آپ لوگوں کی امی کا جو ذکر موجود ہے، اُسی کو یک جا کر لو۔ میری تحریروں میں اِن کا اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ لوگ اسی کو مرتب کر کے اپنی ماں کو مزید خوش کر سکتے ہیں۔‘‘
چناںچہ ایسا ہی کیا گیا۔ یکم مارچ 2015 کو یہ ساری باتیں ہوئیں اور 4 اپریل 2015 کو اپنے ابو اور امی کی شادی کے چوالیس سال مکمل ہونے کے موقعے پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ یوں یہ اُ کی شادی کی چوالیسویں سال گرہ کا تحفہ بن گئی۔
ہمارے پورے اردو ادب (نظم و نثر) کا جائزہ لیا جائے تو بیویوں کا ذکر سرسری انداز میں یا پھر اُن کا مذاق اُڑاتے بلکہ تضحیک کرتے ہوئے ملے گا۔ بجائے اِس کے کہ مَیں اِس کی تفصیل بیان کروں، شعیب حیدر اور حیدر قریشی کی رائے لکھنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہاں ’’مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ والا معاملہ ہے۔
شعیب حیدر ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
ایسے ماحول میں جہاں اردو کے شاعر اور ادیب کبھی اپنے سماج کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں یا سماج کی اصلاح کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی کائنات بلکہ کون و مکاں کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں، نہیں کرتے تو صرف اپنے بیوی بچوں اور خاندان کا ذکر نہیں کرتے۔ افسوس یہ ہے کہ اردو کے بعض نام ور ادیبوں نے اپنی یادوں اور سوانح میں بھی بیوی کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اگر ذکر کیا ہے تو بہت ہی سرسری سا۔‘‘
اُنہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ ’’ممکن ہے اِس کتاب کی اشاعت کے بعد شاعروں اور ادیبوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ اُن کے لفظوں کی دنیا پر اُن کی بیوی اور بچوں کا بھی تھوڑا بہت حق ہے۔‘‘
اِسی طرح حیدر قریشی اپنی کتاب ’’حیات ِمبارکہ حیدر‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے معاشرے میں زندگی کے معتبر اور اہم رشتوں کو بہت کم اہمیت دی جانے لگی ہے۔ پنجابی اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی کے بیش تر کامیڈی شوز میں بھی معتبر رشتوں کا مذاق مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ خود ہماری ادبی دنیا سے لے کر سوشل میڈیا تک مزاح اور لطیفوں کے نام پر معتبر رشتوں کی تضحیک کرنا شعار بنا لیا گیا ہے۔ یہ سب آٹے میں نمک جتنا ہوتا تو گوارا تھا۔ ہنسی مذاق کے نام پر اِس سارے طرز عمل سے معتبر اور اہم رشتے بے توقیر ہو رہے ہیں۔ اِس سے کم زور ہوتا ہوا خاندانی نظام مزید شکستہ ہوتا جائے گا۔ اگر ہمارے ادب سے تعلق رکھنے والے قلم کار اپنے اردگرد کے لوگوں کو موضوع بنانے کے ساتھ اپنے گھر کے اہم اور معتبر افراد کو بھی موضوع بنانے لگیں تو امیدہے، اِس سے ایک اچھی روایت مستحکم ہوگی۔‘‘
شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ 96 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حیدر قریشی کی اپنی اہلیہ کے بارے میں لکھی گئی تحریروں کے اقتباسات کے علاوہ ان کے خاکے ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ (جو لگ بھگ 29 سال پہلے لکھا گیا اور اُس کے آخر میں یہ نوٹ بھی شامل تھا کہ ’اِس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں گا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی۔‘)، دو افسانے اور سفر ِ عمرہ کی روداد ’سوئے حجاز‘ سے بھی اقتباسات شامل ہیں۔
زیر ِ تبصرہ کتاب ’’حیات ِمبارکہ حیدر‘‘ میں حیدر قریشی نے اپنی اہلیہ مبارکہ کی ایک اِک یاد کو چن چن موتی کے دانوں کی طرح پرو کر یادوں کی تسبیح بنا لی ہے۔ اُنہوں نے پہلے حصے میں ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ اور دوسرے حصے میں اُس پر شائع ہونے والے تمام تبصروں اور تاثرات کو بھی شائع کر کے محفوظ کر دیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ مبارکہ حیدر کی وفات کے بعد موصول ہونے والے تمام تعزیتی پیغامات، مضامین اور ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کا دوسرا حصہ بھی شامل ہے۔ سب سے اہم وہ مضامین ہیں جو اُن کے پانچوں بچوں (تین بیٹوں اور دو بیٹیوں) نے اپنی ماں کی وفات کے بعد لکھے۔ ان سب نے اپنی ماں کو اپنے اپنے انداز سے دیکھا اور برتا تھا۔ لہٰذا، اُن کی تحریروں سے بھی مبارکہ بیگم کے بارے میں مختلف النوع گوشے اجاگر ہوگئے ہیں۔
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کے دوسرے حصے میں حیدر قریشی لکھتے ہیں:
دس سال پہلے 2009 میں میرے ایک خواب میں مجھے بتایا گیا تھا کہ اِسی سال دسمبر میں، مَیں نے فوت ہو جانا ہے۔ اُنتیس سال پہلے لکھے گئے خاکے سے لے کر دس سال پہلے کے خواب تک، میرے اور مبارکہ کے درمیان یہ مقابلہ رہا کہ پہلے مَیں نے اگلی دنیا میں جانا ہے۔ بالآخر مبارکہ نے ایک بار روہانسی ہو کر کہا کہ آپ میرے بعد بھی ہمت کر کے جی لیں گے لیکن مَیں آپ کے بعد نہیں جی سکوں گی۔ سو ہمارا پہلے مرنے کی خواہش کا معاملہ معلق سا ہو گیا۔ لیکن یکم جنوری 1956 کو پیدا ہونے والی مبارکہ اب 27مئی 2019 کو میرے جیتے جی فوت ہو کر مجھ سے بازی لے گئیں۔‘‘
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
’’مبارکہ کو چڑیاں پالنے کا بہت شوق تھا لیکن عجیب بات ہے کہ ہمیشہ تین چڑیاں پنجرے میں رکھیں۔ گزشتہ دس برس (2009 سے 2019 تک) کے عرصے میں ایک دو برس چھوڑ کر تقریباً ہر سال ہی مبارکہ کو ایمرجنسی میں لے جانا پڑتا تھا۔ ہر بار چند دن کی افراتفری کے بعد ایسا ہوتا کہ گھر میں ایک چڑیا مر جاتی اور اُدھر مبارکہ بیگم ہسپتال میں ٹھیک ہو جاتیں۔ ٹھیک ہو کر گھر آتیں تو پھر ایک اور چڑیا لا کر دو کو تین کر دیتیں۔ اِس بار مبارکہ گھر پر ہی رہیں اور دس منٹ میں دوسری دنیا کی طرف سدھار گئیں۔ کسی چڑیا کو اپنی مالکن کے لئے قربانی دینے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ یہ سب اتفاق ہی ہوگا لیکن عجیب اتفاق ہے!‘‘
قریباً ڈھائی سو صفحات پر مبنی یہ کتاب حیدر قریشی کی اپنی بیگم کے بارے میں کھٹی میٹھی یادوں بلکہ یادوں در یادوں سے سجی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ 1996 میں جب مبارکہ بیگم سنگین بیماری میں مبتلا ہوئیں تو حیدر قریشی نے ایک شعر کہا:
دیکھو مجھے اِس حال میں مت چھوڑ کے جانا
دل پر ابھی مَیں نے کوئی پتھر نہیں رکھا
غرض یہ کتاب ایک محبت شعار شوہر کی طرف سے اپنی وفادار اور محبت شعار بیوی کی 48سالہ رفاقت پر ایسا خراج ِ عقیدت ہے جو شاید ہی آج تک کسی نے پیش کیا ہو۔
اِس کا سرورق مبارکہ بیگم کی زیست کے چار مختلف ادوار کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔
اِپنے تبصرے کے اختتام کے لئے حیدر قریشی کے مضمون ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کے دوسرے حصے کی یہ سطر مناسب ترین معلوم ہوتی ہے:
’’قرآن شریف میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ مبارکہ زندگی بھر میرے لئے لباس بھی تھیں اور فل اوور کوٹ بھی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔