’’میری امی مبارکہ حیدر 27 مئی 2019ء کو جرمنی میں وفات پا گئی تھیں۔ امی کی وفات کے بعد ابو (حیدر قریشی) نے ان کا خاکہ لکھا اور ہم پانچوں بہن بھائیوں کو پڑھنے کیلئے دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ اس میں کسی اہم کمی بیشی کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔ امی کا خاکہ تو ابو نے بہت اچھا لکھا ہوا تھا‘ لیکن مجھے ایک دو باتیں یاد آئیں تو میں نے ابو کو بتایا کہ ان باتوں کو بھی خاکے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ابو نے کچھ دیر غور کرنے کے بعدکہا کہ یہ باتیں اور ایسے ہی چند اور واقعات کو ملا کر آپ خود ایک مختصر سا مضمون بنا لیں ۔‘‘ درشمین انور کی مندرجہ بالا سطور ان کی والدہ مبارکہ مرحومہ پر لکھے مضمون ’’امی کی چند یادیں‘‘ کی ہیں۔ جو حیدر قریشی نے اپنی اہلیہ مبارکہ مرحومہ پر لکھی کتاب ’’حیات مبارکہ حیدر‘‘ میں شامل کیا ہے۔ کتاب بارے حیدرقریشی پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔
’’مبارکہ کے بارے میں یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہماری شادی کی عمروں کا ذکر کرتے ہوئے میری طرف سے کہیں اٹھارہ برس اور چودہ برس لکھا گیا ہے اور کہیں انیس اور پندرہ برس۔ اس سلسلہ میں شروع میں ہی وضاحت کر دوں کہ مبارکہ عمر میں مجھ سے چار سال چھوٹی تھیں۔ سرکاری دستاویزات میں میری پیدائش کا سال 1952ء کی بجائے 1953ء لکھا ہوا ہے۔ چانچہ اپنی عمر لکھتے ہوئے جب میں نے سرکاری ریکارڈ کو ملحوظ رکھا تو خود کو اٹھارہ برس کا لکھا اور چار سال کے فرق کے مطابق مبارکہ کو چودہ برس کا لکھا۔ ہماری شادی کم عمری میں ہوئی۔ کم عمری کی شادی کے مسائل سے ہمارا بھی واسطہ رہا‘ لیکن اس کے باوجود میں مجموعی طورپر اپنی ازدواجی زندگی کے گزرتے ہوئے 48 برسوں کو دیکھتا ہوں تو ہم نے کچی عمر کے بعض مسائل کے باوجود بھرپور زندگی گزاری ہے۔ یہ بھرپور زندگی اپنے ثمرات کے لحاظ سے ایسے بہت سارے اعتراضات کو رد کرتی ہے جو کم عمری کی شادی پر عام طورپر کئے جاتے ہیں۔ کمر عمری کی شادی کی مخالفت مغربی دنیا میں زیادہ ہے۔ ہمارے ملکوں میں کم عمری کی شادی کی جو مخالفت ہے وہ عام طورپر ’’پیرویٔ مغربی‘‘ کا نتیجہ ہے‘ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہاں بچیوں کی شادی کے بغیر تیرہ سال کی مائیں بن جاتی ہیں اور اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ ‘‘
زیرنظر کتاب ’’حیات مبارکہ حیدر‘‘ بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں۔ ’’ حیات مبارکہ حیدر کو ترتیب دیتے وقت میں نے پانچوں بچوں کی مشترکہ کاوش اور شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب ہماری امی مبارکہ حیدر کو جوں کا توں اس میں شامل کر لیا۔ کتاب حیات مبارکہ حیدر کے آخر تک پہنچتے پہنچتے ’’یادیں ہی یادیں‘‘ کے تحت ہمارے پانچوں بچوں کے یادوں بھرے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بچے مصنف بالکل نہیں ہیں۔ شعیب اور عثمان نے تو اپنے مضامین لکھ کر دیدیئے جبکہ باقی بچوں نے یادوں کے نوٹس بنا لئے۔ ان پانچوں مضامین کی اشاعت پر جو تاثرات ملتے رہے‘ ان کا بھی ایک انتخاب ہر مضمون کے بعد شامل کر دیا۔‘‘
کتاب حیات مبارکہ حیدر کے مصنف حیدر قریشی کی ادبی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ راقم الحروف کا تعاون ان کی ایک کتاب سے ہوا جو بعدازاں آدھی ملاقات (فون) تک جا پہنچا۔ جہاں تک حیدر قریشی کے ادبی سفر کا تعلق ہے تو ان کے حوالے سے ملکی اور مرتب کی گئی کتابوں کی تعداد نو کے قریب ہے جبکہ حیدر قریشی کے شعری مجموعے سلگتے خواب‘ عمرِ گریزاں‘ محبت کے پھول‘ دعائے دل‘ درد سمند اور زندگی اسی طرح نثری کتابوں میں روشنی کی بشارت‘ کھٹی میٹھی یادیں‘ قربتیں فاصلے (انشایئے) سوئے حجاز (سفرنامہ) ‘ تحقیق و تنقید میں بھی وزیر آغا کی عہد ساز شخصیت سمیت ماہیا کے حوالے سے بھی اہم کتابیں ان کی تحقیق کی مظہر ہیں۔ دیار غیر میں بیٹھ کر بھی وہ اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ کتاب حیات مبارکہ کے فلیپ پر انور سدید کی رائے بھی شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
’’ ایک مشرقی عورت ہونے کے ناتے مبارکہ بیگم کے بے لوث محبت کے عمل نے حیدر قریشی کو سرشار رکھااور انہوں نے جب بھی قلم اُٹھایا تو موقع اور محل کے مطابق اپنی بیگم کا ذکر اس سلیقے سے کیا کہ مبارکہ بیگم کا کردار مثبت خطوط پر ابھرتا چلا گیااور حیدر قریشی بھی اس الزام کی زد میں نہ آسکے کہ وہ جورو کے غلام ہیں۔اس کی مثال خاکہ ’’پسلی کی پیڑھ‘‘ ہے جو ڈاکٹر وزیر آغا کے رسالہ ’’اوراق‘‘ میںشائع ہوا تھا تو حیدر قریشی نے اسے اپنی اہلیہ کی یادوں ہی سے سجایا اور انہیں بیوی کی بجائے ایسے مخلص ترین دوست کا درجہ دیا‘جو بدخواہوں سے ورغلایا نہیں جا سکتا۔ اب یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب حیدر قریشی کی تحریروں سے مرصع کی گئی ہیاور وہی‘ اس کے بنیادی اور اولین مصنف ہیں۔ اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر عبدالرب استاد (گلبرگ) کے چند اشعار درج ہیں۔
حیدر کے گھر میں ایک مبارک وجود تھا
ہر سمت جس سے نورِ وِلا کا ورود تھا
اپنے ہوں یا کہ غیر سبھی کے قریب تھا
وہ اک وجود سب کیلئے باسعود تھا
رشتوں کے سارے تار یہاں جھنجھناتے تھے
ان سب کو باندھ رکھے وہ ایسا سرود تھا
حیدر تو اپنی ذات میں بے مثل ہے مگر
بچھڑے ہوئے وجود میں گویا قیود تھا
ماہ صیام‘ عشرۂ آخر کی پہلی رات
جنت کے در پہ جا کے بھی گویا شہود تھا
زیرنظر کتاب ’’حیات مبارکہ حیدر‘‘ ان کی یادوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے جو تادیر تروتازہ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفت روزہ ندائے ملت لاہور۔19 دسمبر2019 ء