حیدر قریشی نے ادبی دنیا میں اپنے منفرد موضوعات اور اسالیب کی بدولت جو شہرت حاصل کی وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔وہ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کا سوچتے ہیں جس کی وجہ سے ادبی حلقوں کی نظریں ان پر لگی رہتی ہیں۔جناب قریشی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے خاندان اور قریبی اہل خانہ کو بھی ادبی تحریروں کا موضوع بنایا اور بڑے اہتمام سے ان شخصیات پر لکھا۔ایسی تحریروں کی وجہ سے ادب میں ایک نئے رجحان کا اضافہ بھی ہوا جس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔خاندان میں لگائے گئے اس ادبی پودے نے قریشی صاحب کے بچوں کو بھی اپنے حصار میں رکھا جس کا عملی ثبوت وہ کتاب ہے جو بچوں(شعیب حیدر،عثمان حیدر،طارق محمود حیدر،رضوانہ کوثر،در ثمین انور)نے اپنی والدہ کے حوالے سے سامنے لائی۔حیدر قریشی کو اپنی زوجہ سے جو قلبی تعلق اورمحبت ہے اس کا سلسلہ اتنا دراز اور متنوع یے کہ وہ اپنی ساری ادبی زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے مبارکہ بھابی کا ذکر کرتے رہے ہیں۔یہ ذکر اپنی مکمل صورت میں تو اس خاکے میں محفوظ ہے جس کا نام'' پسلی کی ٹیڑھ'' ہے لیکن کچھ افسانوں میں ضمنی ذکر کے علاوہ انٹرویوز اور سفر نامے(سوئے حجاز) میں بھی تفصلی تذکرہ موجود ہے۔
اس کتاب کا نام''حیات مبارکہ حیدر'' ہے۔اس کتاب میں نہ صرف مبارکہ بھابی کے حوالے سے لکھی گئی سابقہ تمام تحریروں کو یکجا کیا گیا بلکہ بچوں نے اپنی والدہ کو جن پہلووں سے دیکھا اورمحسوس کیا اس کا حال احوال بھی درج ہے یوں یہ کتاب مبارکہ حیدر پر ایک مکمل دستاویز بن گئی ہے۔میں بڑے وثوق سے یہ بات لکھ سکتا ہوں کہ ایسی کتاب اردو ادب میں پہلے کہیں نظر نہیں آئی اور اس کئی ایک وجوہات بھی ہیں۔اول تو اکثر ادیبوں کے اپنی نصف بہتر کے ساتھ تعلقات ہی ٹھیک نہیں ہوتے اور ساری ساری زندگی ایک دوسرے کو کوسنے میں گزر جاتی ہے اور اگر تعلقات نارمل بھی ہوں تو کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ دو چار الفاظ میں اپنی منکوحہ کا ذکر ہی کر دیں۔حیدر قریشی کا معاملہ ایسے ادیبوں سے یکسر مختلف رہا ہے وہ اپنے معاصرین کے برعکس اپنی زوجہ اور دیگر اہل خانہ کو بھی اسی اہتمام سے اپنی تخلیقات میں شامل کرتے رہے جس طرح وہ دوسری ادبی تحریروں کو اہمیت دیتے ہیں۔یہ ایک بالکل نیا اور اچھوتا رجحان ہے جو حیدر قریشی کے توسط سے اردو ادب میں شامل ہوا اور بڑے بڑے ادیبوں نے اس کو سراہا اور قابل تقلید قرار دیا۔
میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ آخر حیدر قریشی ہماری بھابی کے اس قدر دلدادہ اور عقیدت مند کیوں ہیں کہ وہ بہانے بہانے سے ہمیشہ ان کا ذکر کرتے ہیں۔کافی سوچ بچار کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ حیدر قریشی بنیادی طور پر ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں اور ان کے ساتھ معاملہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔حیدر قریشی جیسی آتش فشانی شخصیت کو قابو میں رکھنا کوئی عام بات نہیں ہو سکتی بلکہ جو خاتون قریشی صاحب کو اپنا بنا کر رکھے گی وہ بذات خود کتنی معاملہ فہم اور متحمل مزاج اور بردبار ہو گی۔ اگرچہ بھابی سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن چوں کہ قریشی صاحب سے ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں اور ان کے ادبی معرکوں سے بھی بخوبی واقف ہوں اس لیے میرے کم لکھے کو بھی بہت سمجھا جائے۔مجھے قریشی صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو بہت اچھا لگا کہ انھوں نے ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنے والی بات کو عملاً سچ کر دکھایا۔قریشی صاحب وفا داری بشرط استواری کے قائل ہیں۔ایک ادیب ہونے کے ناطے ان کا یہ طرز عمل بہت لاجواب اور لائق صد تحسین ہے۔اس کتاب کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ اگر محبت سچی اور پرخلوص ہو تو سنگ مر مر کے بجائے لفظوں کا تاج محل بھی بنایا جا سکتا ہے۔میں اس کتاب کو ادبی تاج محل سے تعبیر کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔