حیات مبارکہ حیدر دراصل ایک فرض شناس خاوند کا اپنی وفا شعار شریک حیات کے لیے جہاں ایک سوغات دل پذیر ہے وہیں فرماں بردار اولاد کی جانب سے مادر مہربان ،شفیق والدہ کی خدمت میں ایک تحفہ نایاب ہے ۔
کتاب کے عنوان کو دیکھتے ہی ذہن معاً حیات جاوید ،حیات سعدی ،یادگار غالب اور یادگار حالیؔ کی جانب چلا جاتا ہے کہ شاید اس میں بھی مبارکہ حیدر کو اسی رنگ میں بیان کیا گیا ہویعنی سوانح کا ایک نادر نمونہ ہو۔ مگر حیات مبارکہ حیدر اس نوع کی کتاب نہیں ہے ۔اس کتاب میں فرماں بردار اولاد نے ایک فرض شناس شوہر کی وہ تحریریں شامل کی ہیں جن میں ان کی والدہ کا تذکرہ در آیا ہو ۔خواہ وہ خاکے کی صورت میں ہو یا انشائیہ کی ،افسانے کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ۔۔ان تمام تحریروں کو جمع کرکے ان کی حیات ہی میں ’’ ہماری امی ۔مبارکہ حیدر‘‘ کے نام سے شائع کروا کے انھیں تحفتاً دی تھیں ۔بعد وفات کے اس کتاب کو اور اس پر آنے والے تاثرات اور مضامین کو اکٹھے کرکے محترم حیدر قریشی صاحب نے باقاعدہ ایک کتاب ترتیب دے ڈالی اور عنوان لکھا’’ حیات مبارکہ حیدر ‘‘ ،جو کافی ضخیم ہے ۔ ادب صرف یہ نہیں کہ وہ معاشرے سے کیا حاصل کرتا ہے یا وہ معاشرے کو کیا دیتا ہے بلکہ فن کار یا لکھاری کی زندگی کے مختلف پہلوؤں جیسے ذاتی تجربے کیا ہوتے ہیں ،وہ کس سے کس حد تک متاثر ہوتا ہے اور ان سے کیااور کس طور محظوظ ہوتا ہے۔ چنانچہ اولاد اپنے والدین اور اساتذہ سے کیا حاصل کرتے ہیں اسی طرح ایک شوہر اپنی بیوی سے کس طور متاثر رہا، یا وہ اس کو کس درجہ چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔چنانچہ حیدر قریشی نے اپنی تحریروں میں ان تمام کو سمیٹا ہے جن جن سے وہ وابستہ رہے ۔اس طرح اردو ادب میں انھوں نے ایک نئی طرح ڈال دی اور آگے آنے والوں کے لیے راہ ہموار کردی۔
اد ب میں جہاں انھوں نے ماہیا نگاری کو صنف شاعری کادرجہ دلایا وہیں بڑی شد ومد سے اس لوک گیت کو باقاعدہ بحثیں کروا کے نہ صرف اس کی غنائیت کو برقرار رکھا بلکہ ادب کے بہت سے لکھاریوں ،نقادوں اور شعراء سے منوانے میں کامیابی حاصل کی اور ایک بڑے طبقے کو اس راہ پر ڈال دیاکہ وہ بھی اس صنف کی جانب توجہ دیں ۔خود بھی تین صد سے زائد ماہئے تحریر کئے ۔نتیجتاً کئی شعراء نے نہ صرف ماہیئے لکھے بلکہ کئیوں نے ماہئیوں کے مجموعے تک شائع کروائے ۔اسی طرح کوئی بعید نہیں کہ یہ روش بھی راہ پاجائے کہ اب اپنی شریک حیات یا ماؤں پر اس قسم کا کام کیا جائے ۔ویسے عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا’’ماں ‘‘ کے لیے شہرت رکھتے ہیں مگر اہلیہ کے لئے اتنی قدر و منزلت اور ان کو ادب کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش شاید ہی کسی نے کی ہو ۔حیدر قریشی نے نہ صرف لکھا بلکہ حیات مبارکہ حیدر کے ذریعے یہ ثابت بھی کردیا کہ اظہار محبت کا یہ طریق بھی مناسب ہوتا ہے ۔
اس کتاب کو تحریر کرنے یا ترتیب دینے کا اصل مقصد دراصل یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک ان کی اہلیہ بقید حیات رہیں اس وقت تک تو گاہے ماہے اپنی تحریروں میں ان کا ذکر کرتے رہے اور جب وفات پاگئیں تو بہت زیادہ احساس ہوا۔اور یہ احساس دراصل اس لئے بھی ہورہا تھا کہ وہ پچھلے چند سالوں سے بیمار چل رہیں تھیں ۔ساری زندگی انھوں نے انکی خدمت کی ،ہر طرح سے ان کا ساتھ دیا ،مگر اب وہ اس حالت میں نہیں رہیں کہ اپنے شوہر کی خدمت کرسکتیں۔ مگر حیدر قریشی ان کی ہر صورت تیمار داری کرتے رہے ،ان کا خیال کرتے رہے ۔بچوں نے اس وقت ہماری امی کا تحفہ انھیں سونپا ،اس میں ایک خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ دراصل محرک بنا۔ جب انھوں نے یہ خاکہ تیس برس قبل تحریر کیا تھا تو اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات نہیںتھی مگر لا شعوری طور پر کہیں یا روحانی پیش قیاسی کے طور پرکہیں یہ لکھ دیا تھا کہ اس خاکے کا اگلا حصہ(دوسرا حصہ) اس وقت لکھا جائے گا جب مبارکہ حیدر وفات پاجائیں گی۔یا پھر اگر میری وفات ان سے قبل ہوجائے تو ما باقی حصہ مبارکہ لکھیں گی۔گویا انھیں یہ محسوس ہورہا تھا یا ہوچکا تھا کہ مبارکہ ان سے پہلے رخت سفر باندھیں گی ۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ کھٹکا بھی لگا ہواتھا کہ ۔نہیں ۔۔۔شاید مبارکہ بیگم سے پہلے ان کی وفات ہوجائے گی۔مگر ہم نے یہ جانا کہ حیدر قریشی کاا حساس ان کے کھٹکے سے زیادہ قوی نکلا ۔
حیدر قریشی کی سوانح اور ان کی ادبی تحریروںکا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آغاز بندھن سے لے کر آزاد بندھن تک مبارکہ بیگم حیدر قریشی سے آگے رہیں ۔ان میں اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ اپنی آخری سانس تک ان کی اور ان بچوں کی خدمت کا جذبہ موجزن تھا لہذا وہ اپنے مالک حقیقی سے تنہائی میں ان کے لیے دعا ئیںبھی کرتی رہیں ۔اس جذبے کے تحت وہ بڑی ہمت اور کشادہ دلی سے کام کرتی رہیں ،شوہر اور بچوں کے لیے راہیں ہموار کرتی رہیں۔شادی کے کچھ عرصے بعد جب انکے خسر کا انتقال ہوا تو انھوں نے اپنی خوش دامن کی خدمت کے لیے نہ صرف اپنے آپ کو وقف کردیا بلکہ ا س کے انتظامات کے لیے اپنے شوہر سے کہہ بھی دیا ۔اسی طرح وطن عزیز سے جرمنی ہجرت کا معاملہ ہو،جدید ادب کی اشاعت کا مسئلہ ہو ،بچوں کے رشتوں کی بات ہو،خاندان میں کسی کی مدد ہو یا بیمار پرسی کرنی ہو تو مبارکہ بیگم ہمیشہ پیش پیش رہتیں۔ ۔غرض ہر ہر معاملے میں انھوں نے خود کو آگے رکھا تو بھلا سفر آخرت میں وہ پیچھے کیسے رہتیں ۔
اس کا اندازہ حیدر قریشی کے اس مضمون سے ہوتا ہے جس میں وہ یوں رقم طراز ہیں کہ۔
’’شادی کے شروع کے چند سال ہم لوڈو اور بارہ ٹہنی کھیلا کرتے تھے ۔لیکن میں ہر بار مبارکہ سے ہار جاتا تھا مسلسل ہارنے کے نتیجے میں ان گیمز سے بے زاری ہونے لگی اور میں مبارکہ کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے لگا تو مبارکہ میری بے زاری کی وجہ بھانپ گئیں۔ چنانچہ ایک بار مبارکہ جان بوجھ کر گیم ہارنے لگیں ۔تب میں نے کہا لوگ جیتنے کے لیے تو تھوڑی بہت ’’بئی مانی‘‘ کر جاتے ہیں ۔لیکن مبارکہ بیگم !آپ ہارنے کے لئے اتنی بڑی ’’بئی مانی‘‘ کرنے لگی ہیں ۔یہ نہیں چلے گا ۔بہر حال پھر میں نے ان گیمز کے معاملے میں مستقل طور پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ــ‘‘ (حیات مبارکہ حیدر ازحیدر قریشی ص ۲۴۶)
غرض مرحومہ کے دل میںاپنے شوہر کے لیے حد درجہ احترام اور عزت تھی اور وہ اس کی تکریم میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت ہونے نہیں دیتی تھیں۔ ایک چاہنے والی بیگم،ایک بے انتہا محبت کرنے والی ماں نے اپنے پیچھے یادوں کا بے پناہ اثاثہ چھوڑ دیا تا آنے والے انھیں یاد کرتے رہیں اور دعاؤں سے نوازتے رہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحومہ مبارکہ بیگم کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر وجمیل عطا کرے ۔۔۔۔آمین یارب العالمین۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔