شاہنواز فاروقی
January 16, 2022
https://www.jasarat.com/sunday/2022/01/16/285282/
کراچی میں نظریاتی، تخلیقی اور ذہنی اعتبار سے 100 ڈائنا ساروں سے زیادہ توانائی تھی۔ لیکن کراچی کی نظریاتی، تخلیقی اور ذہنی توانائی کو تشدد اور قتل و غارت گری کی اندھی قوت میں تبدیل کر دیا گیا۔ کراچی ہر اعتبار سے ایک نوآباد شہر تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں برپا کیں۔ اس نے جنرل ایوب کی آمریت کو چیلنج کیا، بھٹو کی آمریت کے خلاف شاندار مزاحمت کی، جنرل ضیاء الحق کی پائیدار آمریت کو خوف میں مبتلا کیا۔ کراچی کبھی مولانا ایوب دہلوی کا شہر تھا۔ مولانا ایوب دہلوی عصرِ حاضر کے رازی تھے۔ وہ فلسفے اور علم کلام کے موضوعات پر فی البدیہہ تقریر کرتے تو ان کی تقریر تین تین چار چار گھنٹے جاری رہتی اور مولانا فکر کی پوری تاریخ پر چھائے نظر آتے۔ مولانا قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتے تو ایسا لگتا کہ انہیں تفسیر کی پوری روایت ازبر ہے۔
کراچی محمد حسن عسکری کا شہر تھا جو اردو کے سب سے بڑے نقاد تھے۔ ان کی سطح کا علم نایاب تھا۔ انہوں نے مغربی ادب پر بعض ایسے مضامین لکھے ہیں کہ خود مغرب کی تنقید میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا تخلیقی جوہر اقبال کی سطح کا تھا۔ عسکری صاحب جب تک زندہ رہے اردو ادب کا مرکزی حوالہ تھے، لیکن انتقال کے بعد اُن کی اہمیت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔
کراچی کبھی سلیم احمد کا شہر تھا۔ عسکری اور سلیم احمد کی تنقید کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو اس کی اہمیت یہ ہے کہ عسکری اور سلیم احمد کی تنقید پڑھے بغیر آپ اردو ادب کے بارے میں کم از کم 90 فیصد بنیادی باتیں نہیں جان سکتے۔ لیکن سلیم احمد صرف نقاد نہیں تھے، وہ شاعر بھی تھے اور جدید اردو ادب میں ان کی شاعری جیسا تنوع نایاب ہے۔ سلیم احمد کی ایک اہمیت یہ تھی کہ وہ کراچی میں ادیبوں اور شاعروں کا محور تھے۔ کراچی میں جتنی ادبی اور علمی بحثیں چلتی تھیں سلیم احمد سے چلتی تھیں۔ انہوں نے ریڈیو کے لیے پونے دو سو ڈرامے لکھے، مگر ان کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ وہ ان ڈراموں کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں ’’کمرشل سرگرمی‘‘ سمجھتے تھے۔
کراچی عزیز حامد مدنی کا شہر تھا جن کی غزل اور جن کی نظم فیض احمد فیض کی غزل اور نظم سے کم از کم سوگنا بڑی ہے۔ اس کے باوجود وہ گوشہ نشین آدمی تھے۔ وہ شہرت سے اس طرح بھاگتے جیسے شہرت کوئی سزا ہو۔ ان کے باطن کی نفاست ان کے چہرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کی انسانیت اتنی بڑی تھی کہ انہوں نے اپنے بھائی کے بچوں کو پالنے کے لیے تمام عمر شادی نہیں کی۔
کراچی قمر جمیل کا شہر تھا۔ ان کے لیے ادب ایک طرزِ حیات تھا۔ قمر جمیل جدیدیت کے علَم بردار تھے۔ ان کا ہر لمحہ مغربی دانشوروں کے ساتھ بسر ہوتا۔ وہ مغرب کے مفکرین اور دانشوروں کو اس طرح کوٹ کرتے تھے جیسے وہ انہیں بچپن سے جانتے ہیں۔ وہ جدید اردو ادب میں نثری نظم کے امام تھے اور پوری اردو دنیا انہیں اسی حیثیت میں جانتی تھی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی نظریات کا شہر تھا۔ تخلیقی روایات کا شہر تھا۔ علمی رجحانات کا شہر تھا۔ امکانات کا شہر تھا۔ لیکن ان تمام چیزوں کی توانائی کو تخریب کی توانائی میں بدل دیا گیا اور اس کے آغاز کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر ہے، جنہوں نے ایم کیو ایم تخلیق کی۔ کراچی کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ کراچی کی تخریب بیشتر صورتوں میں ’’کنٹرولڈ تخریب‘‘ ہے۔ کراچی کی قتل و غارت گری منضبط منصوبہ بند قتل و غارت گری ہے۔ جب بھی کراچی میں قتل و غارت گری ہوتی اس عرصے میں نہ کہیں صوبائی حکومت نظر آتی، نہ وفاقی حکومت۔ نہ کہیں پولیس کا نام و نشان ہوتا، نہ کہیں رینجرز نظر آتے۔ لیکن پھر اچانک متاثرہ علاقوں میں رینجرز نمودار ہوتے اور صرف ایک دن میں شہر کے حالات 90 فیصد معمول پر آ جاتے۔ اس طرح کے واقعات کئی مرتبہ ہوئے۔ کراچی میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے آج تک یہی ہو رہا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں قصبہ کالونی میں ہوئی۔ اس واردات میں دہشت گرد 6 گھنٹے تک گھروں میں گھس کر لوگوں کو مارتے رہے اور انہوں نے دو ڈھائی سو لوگوں کو مار ڈالا۔ لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ سید غوث علی شاہ نے 6 گھنٹے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قصبہ کالونی میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ جب چھ گھنٹے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے قصبہ کالونی میں داخل ہوئے تو وہاں نامعلوم دہشت گردوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ لیکن اس بنیاد پر شہر میں مہاجر پٹھان فساد شروع ہو گیا جس کا کوئی منطقی جواز ہی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں پٹھان ڈرائیور تھے، کنڈیکٹر تھے، مزدور تھے، موچی تھے۔ ان کے مقابلے پر مہاجر بلو کالر اور وہائٹ کالر جاب کرنے والے لوگ تھے۔ وہ نجی اداروں میں بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے۔ مطلب یہ ہے کہ شہر میں مہاجروں اور پٹھانوں کے مفادات کا کوئی تصادم ہی نہیں تھا۔
کراچی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اس شہر کو پاکستان کے کسی حکمران نے اپنا نہیں سمجھا۔ اسے کبھی OWN نہیں کیا۔ پاکستان قائم ہوا تھا تو کراچی ملک کا دارالحکومت تھا۔ لیکن کراچی کے مزاحمتی کردار نے جنرل ایوب کو اتنا زچ کیا کہ انہوں نے کراچی کو اس کی مرکزیت ہی سے محروم کر دیا۔ حالانکہ کراچی میں ملک کی واحد بندرگاہ تھی۔ کراچی میں ملک کا سب سے معروف بین الاقوامی ہوائی اڈہ تھا۔ کراچی محصولات کا بڑا حصہ مرکز کو کما کر دیتا تھا۔ کراچی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر تھا۔ کراچی ملک کی آبادی کی نمائندگی کے اعتبار سے سب سے زیادہ نمائندہ شہر تھا۔ بھٹو صاحب قائدِ عوام تھے، قائدِ ایشیا تھے، مگر وہ کبھی بھی قائدِ کراچی نہ بن سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں اہلیت اور میرٹ کا سب سے بڑا قتلِ عام انہی کے دور میں ہوا۔ انہوں نے کوٹہ سسٹم ایجاد کیا اور اسے ایک تلوار کی طرح کراچی کے سینے میں گھونپ دیا۔ انہوں نے صوبے میں اردو سندھی تنازع برپا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو کے خلاف سب سے شدید مزاحمت کراچی میں ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو کسی جانب سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ لیکن جماعت اسلامی کراچی میں ان کے سب سے زیادہ ناقد موجود تھے۔ چناں چہ انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی قوت کو توڑنے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی۔ جماعت اسلامی کے درویش صفت میئر عبد الستار افغانی کی بلدیہ کو زیر و زبر کیا۔ انہوں نے شہر میں لسانی منافرت کا جو بیج بویا تھا وہ ایک ایک کر کے تمام برگ و بار لایا۔ لسانی فسادات کی ابتدا مہاجر پٹھان فساد سے ہوئی تھی لیکن پھر شہر میں سندھی مہاجر فساد ہوا۔ پھر مہاجر پنجابی فساد نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا، یہاں تک کہ نوبت مہاجر فساد تک پہنچی۔ ایم کیو ایم برپا ہوئی تو الطاف حسین کہا کرتے تھے کہ ہم کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور وہ جلسہ بن جاتا ہے، اور ہمارے سیاسی حریف جلسہ کرتے ہیں تو وہ کارنر میٹنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ الطاف حسین غلط نہیں کہتے تھے۔ یہ ایک امر واقعہ تھا، اور اس امر واقعہ سے یہ منظر طلوع ہوا کہ ایم کیو ایم کو بلدیہ، صوبے اور وفاق کی سطح پر کراچی کی 100 فیصد نمائندگی حاصل ہوئی۔ اس نمائندگی کا تقاضا یہ تھا کہ ایم کیو ایم پورے کراچی کو OWN کرتی۔ مگر ایم کیو ایم کراچی کی تمام برادریوں کو کیا خود تمام مہاجروں کو بھی OWN نہ کر سکی۔ چنانچہ وہ جماعت اسلامی کے مہاجروں سے لڑی۔ پیپلز پارٹی کے مہاجروں سے متصادم ہوئی۔ اس نے جمعیت علمائے پاکستان کے مہاجروں سے پنجہ آزمائی کی۔ بالآخر اپنی پارٹی کے مہاجروں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے یہ تمام جنگیں بیشتر صورتوں میں اُس وقت لڑیں جب اسے اپنے حریفوں سے کسی سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔
کراچی کا المیہ یہ ہے کہ کراچی ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فیصد اور صوبے کو اس کی آمدنی کا 85 فیصد فراہم کرتا ہے لیکن نہ مرکز کراچی کو کچھ دیتا ہے نہ صوبہ کراچی کو کچھ دینے کے لیے تیار ہے۔ کراچی میں کون سا مسئلہ ہے جو موجود نہیں۔ کراچی قلت آب کا شکار ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت کا فقدان ہے۔ کراچی میں نکاسی آب کی صورت حال ابتر ہے۔ کراچی بارشوں میں ڈوب جاتا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ کراچی میں کچرا تک اٹھانے کا بندوبست نہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے نہ فوجی آمروں نے کچھ کیا نہ ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کچھ کہا۔ نہ تحریک انصاف کچھ کرتی نظر آ رہی ہے۔ بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو کالے بلدیاتی قانون کے ذریعے کراچی کے بلدیاتی اداروں کے تمام اختیارات سلب کر لیے ہیں۔ یہ کراچی دشمنی کی انتہا ہے۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی میدان عمل میں نکلی ہے۔ اس نے کالے بلدیاتی قانون کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور جماعت اسلامی سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنا دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ دھرنا کراچی کے لوگوں کی آواز ہے اور دھرنے سے ثابت ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے المیے کو زبان دے رہی ہے۔
٭٭