سید مطیع الرحمٰن مشہدی
الشریعہ اکادمی
http://alsharia.org/2020/aug/javed-ahmad-mulaqaat
جنوری 2020 کے آخری دنوں کی بات ہے، ایک دن کلاسز سے فارغ ہونے کے بعد محترم رفیق کار میاں انعام الرحمٰن حسب معمول میرے پاس اسلامک ڈیپارٹمنٹ میں تشریف لائے اور معمول کی گپ شپ شروع ہوئی۔ باتوں باتوں میں بات ملک کے معروف دانش ور، صوفی، فلسفی اور ادیب محترم جناب احمد جاوید صاحب کے بارے میں چل پڑی۔ اسی گفتگو کے اختتام پر یہ طے پایا کہ ان سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ میاں انعام صاحب کا غائبانہ تعارف ان سے الشریعہ میں وقتاً فوقتاً چھپنے والے مضامین کے توسط سے ہو چکا تھا۔ چنانچہ میاں انعام صاحب کے نہایت نفیس دوست عمران مرزا صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ احمد جاوید صاحب سے کسی دن کا کوئی مناسب وقت لے کر مطلع فرمائیں۔ 8 فروری 2020 بروز اتوار بعد از ظہر کا وقت عنایت ہوا۔ ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ور ک، میاں انعام الرحمٰن، ڈاکٹر سلطان شمس الحق فاروقی اور راقم الحروف مقر رہ وقت پر ان سے ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔ یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی، اس لئے کسی متعین موضوع کی بجائے مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ بنیادی مقصد ان کی زیارت کرنا اور ان کی صحبت میں چند لمحے گزارنا تھا۔ ڈاکٹر شمس الحق فاروقی کا نہایت شکر گزار ہوں کہ ان کی ریکارڈنگ کی بدولت یہ ملاقات صفحہ قرطاس پر منتقل کی جا سکی۔ رودادِ ملاقات ملاحظہ کیجیے۔
مطیع مشہدی: مولانا ایوب دہلوی صاحب سے آپ کی باقاعدہ ملاقات رہی ہے؟
احمد جاوید صاحب: تقریباً دو سال کے لگ بھگ میں ان کی صحبت میں رہا۔ میری عمر اس وقت کم تھی۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ شاگرد تھا۔ خادم تھا، پان لا کے دے دیا، وغیرہ۔
میاں انعام الرحمان: ہمارا ان سے تعارف ان کی چھوٹی سی کتاب ’فتنہ انکار حدیث‘ سے ہوا۔ بہت اچھا لکھا ہے، بہت مختصر اور جامع۔ جب اس کا عنوان دیکھا تو میں نہیں لے رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا، لیکن جب اس کے صفحے اُلٹے تو دلچسپ لگی، لے آیا۔ اس سے ان کا تعارف ہوا، پھر ان کی مزید کتابیں ڈھونڈیں تو سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس ’مقالات دہلوی‘ کی فوٹو کاپی ہے، وہ اتنے ہزار کی ہے۔ خاصی مہنگی تھی۔ پھر میں نے اس کی پی ڈی ایف ڈھونڈ لی۔
احمد جاوید صاحب: اصل کام ان کا وہی ہے مقالات دہلوی، جو ان کی تقریریں ہیں۔ یہ جو انکار حدیث ہے، یہ انہوں نے اپنے قلم سے لکھا ہے۔ حالانکہ لکھنے کی مشق بالکل نہیں تھی۔ تین رسالے انہوں نے اپنے قلم سے لکھے ہیں، مسئلہ جبر و قدر، ختم نبوت اور فتنہ انکار حدیث، جس میں انہوں نے سوال جواب قائم کر کے مدرسانہ انداز میں لکھا ہے۔ ان کو لکھنے سے بالکل مناسبت نہیں تھی۔ بولنے پر تھی۔ وہ عجیب عالم تھے، ان کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص عالم نہیں معلوم ہوتا۔ سب سطحی باتیں، ناقل ہیں، عالم نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ یہ ہے، یہ فلاں کتاب میں لکھا ہے۔ عالم جو ہوتا ہے علم والا، مطلب تاثر ہے، ہوں گے ظاہر ہے بڑے بڑے عالم، لیکن ان کو جس نے بھی دیکھ لیا نا، وہ بیچارہ بعد میں پریشان ہی رہا۔ وہ ہر ایک میں انہیں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ کر دار اور علم دونوں اپنی منتہی ٰ پر تھے۔ اور علم متوسط نہیں، منتہی۔ کر دار میں بھی اور علم میں بھی۔ ان کی سپیشیلٹی معقولات میں تھی۔ ان کی للہیت کا کیا عالَم ہو گا کہ فلسفہ پڑھا رہے ہیں اور لوگ رو رہے ہیں۔
٭٭