گفتگو: احمد جاوید صاحب
(ترتیب: محمد سعد چودھری)
14 اکتوبر, 2021
https://jaeza.pk/yad-nigari/maulanamuhammadayubdehlvi-ahmadjavaid/
نوٹ: استاد گرامی جناب احمد جاوید صاحب نے مولانا حافظ محمد ایوب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ایک گفتگو ریکارڈ کروائی تھی جس کو اس لنک https://youtu.be/5Rk8mZnzd3Y سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق، جناب احمد جاوید صاحب نے تین اقساط میں گفتگو کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن تا حال صرف ایک ہی قسط شائع ہو پائی۔ ہمارے نوجوان دوست محمد سعد چودھری نے اسی پہلی قسط کی ریکارڈنگ کو تحریری متن کے قالب میں ڈھالا ہے۔
مولانا احمد علی صاحب لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فقرہ میں نے پڑھا تھا، اوائل جوانی میں، ان کے رسالے میں۔ شعور کی سب سے گہرائی میں ایک لوح ہوتی ہے جس لوح پر کوئی چیز اگر لکھ دی جائے تو وہ کبھی مٹتی نہیں ہے، پہلی مرتبہ پڑھنے کے بعد ہی یہ فقرہ اس لوح پر لکھا گیا۔ وہ وقت ہے اور آج کا وقت ہے کہ اس فقرے کی حرارت، اس فقرے میں چھپی ہوئی شانِ ہدایت، اس فقرے میں زندگی بن جانے کی قوت اور اس فقرے میں پوشیدہ جوہرِ شعور ہو سکنے کی صلاحیت، روزانہ ایک نئے رنگ میں میرے تجربے میں آتی ہے۔ وہ فقرہ یہ تھا: ۔
’دین داری نام ہے فکرِ آخرت اور اعتماد علی السلف کا‘
مسلمان ہونے کے لیے جن نفسیاتی محرکات اور مسلمان کو نفس کی جن حالتوں کی مستقلاً تسلسل کے ساتھ ضرورت رہتی ہے ان میں ایک کنڈیشن یہ ہے کہ آدمی اپنے مسلمان ہونے کو طبعی، نفسیاتی، ذہنی، کرداری، اخلاقی غرض کسی بھی سطح پر برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس کے شعور میں فکر کی یعنی (concerned) کی یعنی فکر مندی کی جتنی بھی طاقت پائی جاتی ہے وہ ساری طاقت آخرت پر صرف ہو۔ یعنی شعور میں فکر مندی کا مادہ، آخرت کے تصور سے پیدا ہو اور فکر مندی کے اس مادے کی جتنی بھی (manifestations) مظاہر ہوں ان سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق آخرت سے ہی ہو۔ یعنی سادہ لفظوں میں کہیں، تو مسلمان میں پریشانی کے تمام احوال، آخرت کو حاضر کر دیتے ہوں چاہے اس کے اسباب دنیاوی اور نفسیاتی ہی کیوں نہ ہوں۔ اور دوسری جو شرط، شعور اور نفسیاتِ اسلامی کی جو کنڈیشن اس فقرے میں ہے، وہ ہے ’اعتماد علی السلف‘ اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا۔ اعتماد سے یہاں مراد یہ ہے کہ دین کو اس کی فارم میں بھی اسلاف سے اخذ کرنا اور دین کو اس کے مقاصد حقائق اور معانی میں بھی اسلاف ہی سے اخذ کرنا اور دین داری کے تمام اوضاع اور احوال کو بھی اسلاف ہی کی سند پر قبول کرنا۔ یعنی اپنے فہم میں، اپنے حال میں، اپنے عمل میں، کسی دیندار آدمی کو ایک صحیح رخ پر دوام حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ سلف کی مخلصانہ، صادقانہ پیروی نہ کرے۔
دین جس تواتر اور تسلسل سے ہم تک پہنچا ہے جس میں اس کی صورت اور معنی دونوں ہم تک پہنچی ہیں، ان دونوں کے واحد ذریعے کی حیثیت ہمارے اسلاف ہی تو رکھتے ہیں۔ میں نے اس سے جہاں اور بہت ساری باتیں سیکھیں وہاں ایک ضمنی طور پر یہ ایک معرفت بھی حاصل کی کہ اگر کسی شخص کو دیکھو کہ وہ اپنے بڑوں کا تذکرہ والہانہ پن، انہماک اور عاشقانہ عاجزی کے ساتھ نہیں کرتا۔ یہ سمجھ لو کہ اس کے قلب میں ابھی دین اترا نہیں ہے۔ اور اس میں شدت اور تاکید کا رنگ پیدا کر کے کہا جائے تو اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے بلکہ کہنا چاہے کہ اللہ سے محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت، اس وقت تک معلق، بے تاثیر، بلکہ بڑی حد تک بے معنی رہتی ہے جب تک وہ اسلاف کو ہمارا محبوب نہیں بناتی۔ جو مسلمان اسلاف کو محبوب نہیں رکھتا وہ گویا اللہ سے محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کو گنوانے پر تیار ہے یا انہیں حاصل کرنے کا شوق اور طبیعت نہیں رکھتا۔
اسی الہامی فقرے کے سائے سائے میں چلتے ہوئے، آج میں اپنے سلف میں سے ایک انتہائی ممتاز، محترم اور مکرم ہستی کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ ان کا اسم مبارک ہے مولانا محمد ایوب صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ زیادہ معروف یہ اپنی زندگی میں تھے حافظ محمد ایوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے۔ ان کی علمی شان تو بعد میں حتی المقدور عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن سر دست میں یہ چاہتا ہوں کہ ان سے تعلق میں جو چیزیں پہلے اور اولین محرکات کی حیثیت رکھتی ہیں ان کا بیان ابتدا میں کر دیا جائے۔ پھر اُس تعلق کی تکمیل میں ان کے جو اوصاف رہنمائی فرمایا کرتے ہیں، ان اوصاف کا جن کی بیشتر بناوٹ علمی اوصاف کی ہے، وہ بعد میں رکھیں۔
میں میٹرک کا طالب علم تھا، 1969ء کا سن تھا۔ شعر و ادب میں میرے محبوب استاد جو میرے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے والد کی حیثیت رکھتے تھے یعنی سلیم احمد صاحب، جن کے بارے میں یہ جملہ ایک سو ایک فیصد سچ ہے کہ اللہ نے انہیں ذہانت اور دوستی کے مجسمے کے طور پر خلق کیا تھا۔ ان کی شخصیت کے دو سب سے قیمتی عناصر یہ دو تھے کہ وہ انتہائی ذہین تھے، وہ کسی بھی نئے سے نئے علم کی گہرائی میں اترنے کے لیے ایک آدھ دن سے زیادہ وقت نہیں لگاتے تھے۔ مطلب، جو علم ان کے لیے سر دست بالکل بھی نا معلوم ہوا کرتا تھا اگر انہیں اس علم کی تحصیل کی ضرورت پڑ جاتی تھی تو وہ ایک رات لگا کر اس علم سے ایسی شناسائی پیدا کر لیتے تھے جو ممکن ہے کہ اس کے بہت سے ماہرین میں نہ پائی جاتی ہو۔ ایک بار سن کر لمبی لمبی چیزوں کو یاد کر لیتے تھے۔ کوئی لمبی نظم سن لی وہ یاد ہو جاتی تھی تو اس کا تعلق بھی، حافظے کی خوبی کا تعلق بھی، ذہانت سے تھا، ان کے یہاں۔ دوسرا پہلو جو ان کی شخصیت کا محبوب ترین پہلو تھا، ان کے دوستوں کے لیے، ان کے شاگردوں کے لیے، ان کے عزیزوں کے لیے۔ وہ یہ تھا کہ وہ تعلق کے مادے سے بنا ہوا چلتا پھرتا وجود تھے۔ یعنی ان کی سب سے بڑی قوت، ان کی صلاحیتِ تعلق تھی۔
اللہ نے انسان کو جن جبری اور فطری نظامِ تعلقات کی پاسداری کرنے بھیجا ہے انہوں نے ان تمام تعلقات کو بہترین سطحِ ذمہ داری کے ساتھ اور ان کے لیے درکار بہترین جذبات کے اظہار اور کارفرمائی کے ساتھ ادا کر کے دکھایا۔ یعنی تعلق کہتے ہیں ذمہ داری کو بھی اور جذبے کو بھی۔ تعلق میں ذمے داری نہ رہے، تو خلل پڑ جاتا ہے اور تعلق میں اگر جذبہ شاملِ حال نہ ہو تو بھی تعلق ناقص ہے یعنی تعلق محض ذمہ داری نہیں ہے، تعلق محض جذبہ نہیں ہے۔ تو ان دونوں کے مل جانے سے تعلق کی تکمیل اور تصدیق ہوتی ہے۔ ہمارے سلیم بھائی جو ہیں وہ اپنے تعلقات میں، ہر قسم کے تعلقات میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داری رکھتے تھے اور ہر قسم کے تعلق کی تکمیل، تشکیل، تصدیق اور اس کی مسلسل نمو کے لیے جس طرح کا جذبہ درکار ہوا کرتا ہے اُس جذبے میں بھی وہ انتہائی قوی تھے۔ وہ جذبہ تعلق، ان کی شخصیت سے چھلک چھلک کر ان کے اہلِ تعلق میں منتقل ہوتا تھا۔ ان کے بارے میں ان کے دشمن اور مخالف کو بھی جن دو باتوں پر شک نہیں ہے وہ یہ تھیں کہ ان جیسا ذہین آدمی دیکھنے میں کم آتا ہے اور ان جیسا دوست آدمی، ان جیسا قوی التعلق بھی دیکھنے میں کم آتا ہے۔
ہمارے سلیم بھائی " مولانا ایوب صاحب" کی خدمت میں جایا کرتے تھے، ان کے دروس میں۔ مولانا کا تقریباً روز یا ہفتے میں چار دن، کہیں نا کہیں کوئی درس ہوا کرتا تھا۔ اس کی تفصیل میں عرض کرتا ہوں وہ کس طرح ہوتا تھا، وہ تھوڑی دیر بعد عرض کروں گا۔
سلیم بھائی مجھے پہلی مرتبہ مولانا کی ایک مجلس میں لے گئے جو مولانا کے گھر ہی میں تھی۔ اس میں بیس تیس آدمی تھے اور مولانا فعلِ الٰہی اور قولِ الٰہی کے درمیان کیا ربط ہے اور ان میں ترجیح کس کو ہے؟ اس موضوع پہ کلام فرما رہے تھے۔ تو وہاں میں نے یہ ایک عجیب منظر دیکھا کہ انتہائی مشکل لفظوں میں، ایک ایسی اتھارٹی کے ساتھ، جس سے پتہ چل رہا تھا کہ متکلم کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ سامنے کوئی بیٹھا ہوا ہے یا نہیں۔ اتھارٹی اسی کو کہتے ہیں نا کہ جسے دوسرے کی ضرورت نہ ہو۔ تو صاف (convey) ہو رہا تھا کہ انہیں اپنی باتیں کہنے کی تو خواہش ہے لیکن اس چیز سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ بات سنی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ ایک عجیب طرح کی بے نیازی ان سے چھلک رہی تھی۔ سلیم احمد تقریباً اس مجلس میں اور اس کے بعد کوئی چار گھنٹے بیٹھے رہے وہاں مولانا کے سامنے، بالکل مؤدب مریدوں کی طرح اور انہوں نے سگریٹ نہیں پی۔ سلیم احمد چین سموکر تھے۔ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ صبح اُٹھ کر بس ایک ماچس کی تیلی جلاتے ہیں، اس کے بعد سگریٹ سے سگریٹ سُلگاتے ہیں۔ تو یہ تقریباً نا ممکن تھا۔ ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ آدھا گھنٹہ بھی بیداری کی حالت میں سگریٹ کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہاں بیچ میں اُٹھ کے بھی نہیں گئے اور باہر نکل کے میں نے پوچھا بھی کہ سلیم بھائی، آپ نے سگریٹ بھی نہیں پی؟ کہنے لگے، بھئی مولانا کے سامنے کیسے ہمت کر سکتا ہوں۔ اور مولانا کی خدمت میں جب بیٹھتا ہوں، تو سگریٹ وغیرہ پینا یاد بھی نہیں رہتا۔
اب میں ظاہر ہے کہ نویں دسویں کا طالب علم، میں مولانا کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکا۔ اور خیر نویں دسویں پہ کیا موقوف ہے اب بھی سن لوں تو شاید نہ سمجھ سکوں۔ لیکن وہ جو سچے علم میں ایک تاثیر جو ہوتی ہے۔ علم صرف قوتِ تفہیم کا نام نہیں ہے کہ جو آپ جانتے ہیں وہ دوسرے کو سکھا دیں۔ علم مکمل ہو کر تفہیم کے درجے سے تجاوز کر کے تاثیر کی سطح اختیار کرتا ہے۔ یعنی وہ علم گویا منتقلی کے لیے مخاطَب کے ذہن پر انحصار کرنے کے بجائے، اس کے قلب اور اس کے وجود کو ری کنڈیشن کرتا چلا جاتا ہے اور ری کنڈیشننگ کے اس عمل میں اگر ذہن شامل ہو تو بہت خوب۔ لیکن اگر ذہن عاجز رہ جائے اس کلام کے فہم سے، تو بھی اس کلام کی تاثیر جو ہے وہ کسی نا کسی گہری سطح وجود اور کسی نا کسی زاویۂ شخصیت پر مرتب ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے مولانا بلاشبہ علم کی اس انتہائی سطح پر جو پیغمبرانہ روایت کی اصل وارث ہے، اس پر انتہائی درجے کے ساتھ فائز تھے۔ ان کی بات جن کی سمجھ میں نہیں آ سکتی تھی انہیں بھی بدل ضرور دیتی تھی۔ اس کا تجربہ مجھے ہمیشہ ہوا ہے ان کی گفتگو سنتے وقت۔
جب سلیم بھائی کے ساتھ، میں بھی نکلنے لگا اس وقت کمرے میں دو چار آدمی رہ گئے ہوں گے۔ نکلتے وقت، اجازت لیتے وقت مولانا نے سلیم بھائی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس لڑکے سے کہہ دو کہ میرے پاس آیا جایا کرے۔ اس میں یہ اشارہ بھی تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ جب تم آؤ، تو یہ آئے۔ مطلب، اس طرح فرمایا کہ اسے کہو یہ آیا جایا کرے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے مجھے پہلے ہی ان کی محبت بہت غلبے کے ساتھ محسوس ہو رہی تھی۔ یہ سن کر جیسے میرے اندر ایک گریے کی طغیانی سی پیدا ہوئی جس کو میں نے بہت مشکل سے روکا۔ مطلب، بہت رونے کو دل چاہنے لگا۔ اس کے دوسرے ہی دن میں مولانا کی خدمت میں پہنچا۔ مولانا کے لیے جیسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ تو مجھے کرنا ہی تھا، یہ تو ہونا ہی تھا۔ انہوں نے مجھے بالکل جیسے ایک آدمی برسوں سے ملتا چلا آ رہا ہے اس طرح سے مجھ سے کہا، بیٹھ جاؤ۔ اور تھوڑی دیر بیٹھا تو مجھ سے کہا، تمہیں پان کی پہچان ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت، مجھے تو نہیں ہے پان کی پہچان، تو ایک نقشہ ایک کاغذ پہ بنایا اور کہا۔ یہاں سے وہاں جاؤ، اس گلی میں جانا، اس گلی میں جو پان کی تین دکانیں ہیں ان میں جو بیچ کی دکان ہے، اس کا نام یہ ہے، اس سے جا کے یہ پان لے کر آؤ۔ یہ پہلی ڈائریکٹ ملاقات تھی تو مولانا نے مجھے پان لینے بھیجا۔ پان لینے کے لیے خاصی دور جانا پڑتا تھا۔ کھارادر ایک جگہ تھی وہاں پہ۔ اس کے بعد جب میں پان لایا، تو ایک جملہ فرمایا۔ تم کچھ سُست لگتے ہو۔ کہنے لگے، اچھا، اچھا، یہ ہے، وہ ہے، تم کہاں کے ہو، کیا کرتے ہو، کہاں رہتے ہو، سلیم احمد سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ اس طرح کی کچھ عام سی باتیں تاکہ میں ان کے ذہن میں اپنی ٹوٹی پھوٹی شناخت کے ساتھ رہ جاؤں۔ اس طرح کے سوالات مجھ سے پوچھے۔ اور اب یہ لگتا ہے کہ جیسے دعا کرنے کے لیے میرا وہ تعارف طلب فرمایا کہ میں دعا کروں۔ اس حد تک کا تعارف، زیادہ گہرائی میں نہیں۔
اس کے بعد سے پھر یہ ہو گیا کہ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ مولانا کی خدمت میں میں حاضر نہ ہوتا ہوں۔ کچھ مہینے بعد، شاید دو مہینے گزرے ہوں گے، اس دوران مولانا کے سارے دروس میں جہاں بھی درس ہوتا تھا میں خادم کے طور پر ساتھ رہتا تھا۔ مطلب، شاید ہی کوئی درس ہوا ہو جس میں شریک نہ ہوا ہوں۔ شرکت کیا ہوتی تھی سننے والے جو شاگرد تھے وہ تو سامنے بیٹھتے تھے، میں مولانا کے پیچھے، جیسے وہ پنکھا جھلنا یا اس طرح کی کوئی خدمت کرنا، یا مولانا کا اگال دان ٹھیک کر دینا، اس طرح کی پیچھے پیچھے رہ کے جو خدمت ہوتی ہے وہ کرتا تھا۔ اور ظاہر ہے سمجھ سے باہر تھے وہ تمام موضوعات جس پہ مولانا کلام فرماتے تھے۔ لیکن بس دیکھ دیکھ کے یہ خوشی ہوتی تھی کہ ہمارے مولانا کی شان دیکھو سب لوگ سر جھُکائے سُن رہے ہیں۔ مطلب مجھے یہ بس خوشی ہوتی تھی کہ مولانا کے آگے ہر آدمی جھُکا ہوا ہے۔
اور ہمارے مولانا درس میں ادب، آداب سلیقے اور ڈسپلن کے بہت قائل تھے اور جو ڈسپلن انہوں نے بنا رکھا تھا اس کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیتے تھے۔ مطلب ضروری ہے کہ نظریں ایک جگہ پہ ہوں، کوئی گھڑی نہ دیکھے، کوئی اِدھر اُدھر نہ دیکھے، کوئی پہلو نہ بدلے، اس طرح کی ان کی طرف سے پابندیاں تھیں اور ان پابندیوں کی خلاف ورزی پر وہ خاصی توہین بھی کر دیتے تھے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ان پابندیوں کی خلاف ورزیوں کے مظاہر بہت شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آیا کرتے تھے۔
خیر، دو تین مہینے بعد مجھے ایک یقین سا ہو گیا اور اس یقین کے پیدا ہو جانے نے مولانا کے ساتھ میرے تعلق کے اغراض اور مقاصد کو بدل کر رکھ دیا۔ یا یوں کہہ لیں کہ " مولانا رحمۃ اللہ علیہ "کے ساتھ تعلق کو معنی دے دیے۔ اس وقت تک وہ جو ایک بچگانہ قسم کی محبت تھی نا کہ بس مولانا سے محبت ہے مولانا کو دیکھے بغیر دل نہیں لگتا۔ اس طرح کے جذبات کے ساتھ۔ لیکن دو تین مہینے بعد جا کے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ تمہارے ہادی ہیں، یہ تمہارے مُرَبّی ہیں، ان سے محبت تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہے۔ ان سے محبت، اللہ سے محبت ہے۔ ان کی محبت سے محرومی، ان دونوں محبتوں سے محرومی کا یقینی سبب ہے۔ تو یہ جیسے مجھے شدت سے ساتھ تسلسل سے محسوس ہونا شروع ہوا، تو پھر میں نے مولانا سے ایک مرتبہ تنہائی میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں یہ عرض کہ مجھے ایسا محسوس ہوا ہے۔ تو مولانا نے ذرا دیر کے لیے ایک آدھ سیکنڈ کے لیے مجھ پہ نظریں گاڑیں اور پھر ایک دم آنکھوں کا تاثر بدل کے کہنے لگے۔ ارے، یہ ہوتا رہتا ہے، بس تم یہ یاد رکھو کہ اللہ واسطے کا تعلق رکھنا چاہیے۔ ورنہ جو ایک سیکنڈ کے لیے نظر گاڑی تھی، وہ مجھے یقین ہے کہ وہ مرشدانہ نگاہ تھی۔ گویا انہوں نے اندر سے مجھے جھانکا کہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ ٹھیک ہے۔ ان شاء اللہ، امید ہے کہ انہیں تصدیق ہوئی ہو گی کہ میں جذبے کی سطح پر بہرحال ٹھیک ہوں۔ تو انہوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا مجھے اپنے دائرۂ فیض میں لینے کا۔ لیکن جیسا کہ ان کا مزاج تھا کہ کبھی اظہار نہیں ہونے دیتے تھے۔ ویسے ایک سیکنڈ میں، میرے خیال سے یہ انھوں فیصلہ کر لیا اور اس کے بعد بالکل ایسے گرا کے کہنے لگے۔ ارے، یہ سب ہوتا رہتا ہے، تم بس یہ کرو کہ اللہ واسطے کی محبت ہونی چاہیے۔ یعنی ہماری محبت اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کے بعد کوئی اور باتیں شروع کر دِیں۔ بس اس نگاہ کے بعد سے اور پھر چونکہ مجھے اللہ کے فضل سے، اللہ کی مہربانی سے مولانا کی خلوت میں مولانا کے اکثر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ رسائی حاصل تھی۔ جیسے مولانا کا پان لینے گئے ہیں اب آئے ہیں تو اکیلے ہیں مولانا کو پان دے دیا۔ اس وقت مولانا نے بٹھا کے کوئی بات بتائی، کوئی چیز بتائی، یا کوئی ڈانٹ سنائی، یا کوئی اور کام بتایا، تو اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے الحمد للہ مولانا کی خلوت میں رسائی کے مواقع بہت ملے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ مولانا ایسی خلوت میں جہاں وہ کسی کے آنے کی توقع نہیں کر رہے ہوتے تھے اس مکمل خلوت میں مولانا کی مصروفیت کیا ہوتی تھی۔ میں نے یہ بھی الحمد للہ دیکھا۔ جب اس طرح کے دو چار مشاہدات مجھے ہوئے مولانا کے ساتھ، کہہ سکتے ہیں کہ تقریباً ہر حال میں ان کو دیکھا ہو گا۔
اس کے بعد مجھے ایک چیز جیسے یقین کے ساتھ سوجھ گئی اور جس میں آج بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ مولانا اکثر اخلاقی اور علمی فضائل میں میرے علم میں موجود تمام بزرگوں اور عالموں سے آگے تھے۔ ہمارا دین ہم سے جو اوصاف طلب کرتا ہے دین داری کے لیے بھی اور ایک معاشرتی وجود کی حیثیت سے بھی، یعنی ہمارا دین ہمیں دو پوزیشنز پر مستقلاً رکھنا چاہتا ہے۔ ایک بندۂ خدا کی پوزیشن ہے اور ایک معاشرتی وجود کی حیثیت ہے۔ تو بندۂ خدا کی حیثیت سے بھی، میں نے عبادت گزاری کے ایسے مُحَیر العقول مظاہر نہیں دیکھے جو مولانا کے ہاں معمول تھے۔ اور معاشرتی وجود کی حیثیت سے بھی، میں نے مولانا جیسا حُسنِ معاشرت کے قیام میں مسلسل طور پر فکرمند اور کوشش کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا۔ مطلب، وہ تنہائی میں جیسے جذب ہو جاتے تھے اپنی عبادات میں اور ان کی جلوت کا بیشتر حصہ ان چیزوں میں گزرتا تھا کہ فلاں کی شادی ہے، فلاں کے ہاں کھانا نہیں ہے، فلاں کو گھر دلوانا ہے، فلاں کو کاروبار کروانا ہے، فلاں کو پیسے بھجوانے ہیں۔ مطلب، ان کی جلوت زیادہ تر ان چیزوں میں گزرتی تھی۔ اور وہ بالکل غریبوں کے محلے میں رہتے تھے۔ اسی گز کا ان کا کوارٹر تھا جس میں وہ پینتالیس پچاس برس رہ کر فوت ہوئے۔ اور کراچی کے دولت مند ترین لوگ ان کے نوکر اور معتقد تھے لیکن اس کے باوجود زندگی انہوں نے اَسی گَز کے کوارٹر میں گزاری ہے جس میں ڈیڑھ کمرے تھے۔
خیر، یہ جب مجھے یقین ہو گیا اللہ کے فضل سے اور یہ یقین ایسا نہیں تھا کہ کسی جذباتی لمحے میں پیدا ہوا ہو۔ یہ یقین الحمد للہ ایسا تھا کہ آج بھی اتنا وقت گزر گیا ہے مولانا کے انتقال کو، کوئی چوالیس بَرَس ہو چکے ہیں، چوالیس برس کا ہر دن مولانا کے سلسلے میں اس یقین کو بڑھانے ہی کا ذریعہ ثابت ہوا ہے کہ مولانا جیسا بندۂ خدا نہ میں نے دیکھا ہے، نہ دیکھنے کی امید ہے۔ مولانا جیسا عظیم انسان، غریب نواز آدمی، نہ میں نے پہلے دیکھا ہے، نہ دیکھنے کی امید ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ آدمی بہترین ذہنی صلاحیت کے ساتھ بندگی کے جو اوصاف تلاش کرنے پر قادر ہے مولانا ان اوصاف کو زیادہ مکمل حالت میں اپنے اندر (contain) کیے ہوئے تھے۔ اور آدمی اپنے ذہن کی بہترین صلاحیت کے ساتھ ایک اچھے اور کامل معاشرتی وجود کی جن (definitions) تعریفات تک جن (concepts) تصورات تک پہنچ سکتا ہے مولانا اپنی ذات میں اپنے عمل سے ان تمام (concepts) تصورات سے زیادہ مکمل تھے۔ تو یہ جو شان میں نے دیکھی، مطلب آج بھی اگر میری کسی بات سے تسکین اور رہنمائی ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ یعنی آدمی کے اندر رہنمائی پانے کا سب سے موثر چینل یہ ہے کہ اس کا رہنمائی حاصل کرنا حالتِ تسکین اور حالِ یقین کے ساتھ ہو۔ وہ الحمد للہ اپنے دیکھے ہوئے بزرگوں میں صرف مولانا کو یاد کر لینے سے میسر آ جاتی ہے۔ میں نے الحمد للہ، بہت بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی مولانا کے ایسی شان نہیں رکھتا کہ آج بھی مولانا یاد آتے ہیں، تو رہنمائی کا ایک نظام چل پڑتا ہے۔ اور اس رہنمائی سے جڑی ہوئی تسکین اور یقین میں بھی جیسے اس کے مناسبِ حال، اس رہنمائی سے ہم قدمی پیدا کر لینے والی تسکین بھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
کوئی وجہ ہو گی ناں کہ مولانا سے تعلق رکھنے والے والا تقریباً ہر آدمی مولانا سے تعلقِ محبت رکھنے والا تقریباً ہر آدمی، اپنے تمام تعلقات اپنے تمام رشتوں کے مقابلے میں مولانا کو آج بھی زیادہ محبوب رکھتا ہے۔ آج بھی مولانا کی مجلسوں میں حاضری دینے والے کچھ لوگ موجود ہیں اور میں اپنے تجربے سے، ان کی باتیں سن کر یہ جانتا ہوں کہ وہ کسی بھی رشتے اور کسی بھی دوستی کو مولانا کے ساتھ تعلق کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں دیتے۔ میں اپنا حال بتا سکتا ہوں کہ جس شخص کو کھوئے ہوئے چوالیس برس ہو گئے ہوں، جس شخص کو پایا بھی تھا تو بے شعوری کی حالت میں پایا تھا۔ لیکن یہ کہ میں یہ بات قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا اس وقت بھی مجھے اپنے ماں باپ، اپنی اولاد، اپنے تمام رشتوں، اپنی دوستی کی تمام قسموں سے زیادہ محبوب ہیں۔ اور اس محبت کی اُٹھان میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس محبت کی خدا واسطے کی جو افادیت ہے، افادیت رسانی کی اس رفتار میں بھی کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ جہاں جہاں ان کا خیال آتا ہے وہیں کوئی ذہنی یا اخلاقی خرابی دور ہو جاتی ہے، کوئی بنیادی نقص تمام ہو جاتا ہے، کسی طرح کا باطنی خلا ہوتا ہے جو ان کی یاد آنے سے بھر جاتا ہے۔ ان کی یاد میں یہ تاثیر ہے تو آپ سمجھ لیں کہ جب وہ سامنے ہوں گے تو ان کی اثر اندازی کا کیا عالم ہو گا۔
اس بات کو سمیٹتے ہوئے بس یہ عرض کر رہا ہوں کہ جس نے مولانا کو نہیں دیکھا، وہ مولانا جیسا دیکھنے کی امید رکھنے کا بھی حق نہیں رکھتا۔ جس نے مولانا کو نہیں دیکھا، اب کوئی مولانا کو دیکھنے کی امید رکھے گا، تو گویا ایک جھوٹی خواہش پالنے کا ارتکاب کرے گا۔ یہ میرا اپنے بس بھر یقین ہے۔ درویشی ہو، ایک خاص معنی میں اخلاقی سلطانی ہو، اللہ کے آگے فنا ہو جانے کا حال ہو، مخلوق کے لیے خود کو مٹا لینے کا جذبہ ہو، کسی بھی پہلو سے دیکھیں، کسی کرداری اور اخلاقی پہلو سے دیکھیں، تو مولانا سے برابری کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ مطلب، مجھے ان لوگوں میں نظر نہیں آتا جن لوگوں کو ہم نے اپنی چشمِ سر سے دیکھا ہے۔ اور ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ ہم اپنے بہت پرانے اسلاف کے طبقے کی کسی شخصیت سے ملنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا تھا۔ کبھی لگتا تھا، امام غزالی سے مل رہا ہوں۔ کبھی لگتا تھا، امام رازی سے مل رہا ہوں۔ کبھی لگتا ہے فلاں سے، بڑے بڑے نام آتے تھے ذہن میں کہ ان سے مل رہا ہوں مولانا کے روپ میں۔ آج بھی اس بات کا یقین ہے کہ مولانا سے ملنے والے کو اگر غزالی سے ملاقات کا شرف نہیں ملا، تو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ مولانا کی خدمت میں حاضر رہنے والے کو اگر امام رازی سے مصاحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا، تو کوئی نقصان نہیں ہوا، یہ تھے ہمارے مولانا ۔
(جہاں تک) ان کی غریبوں سے محبت (کا تعلق ہے)، یہ بات بالکل ایک دینی اصول کے طور پر اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ جس کو غریبوں سے محبت نہیں ہے، جسے مسکینوں سے اُلفت نہیں ہے، وہ اس دین کے جوہرِ محبت سے محروم ہے۔ دین میں ایک جوہرِ محبت ہے، ایک جوہرِ معرفت ہے، ایک جوہرِ خشیت ہے۔ یہ تین جوہر حاصل ہو جائیں، تو دین میں اپنی تکمیل کا موقع توفیقِ الٰہیہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ تو جس شخص کو مسکینوں سے محبت نہیں ہے، جو شخص اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتا، جو شخص اپنے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، اُس کے اندر اِس دین کے خزانے کے قلب میں رکھا ہوا جوہرِ محبت منتقل نہیں ہوتا۔ وہ اس دین کے معیارِ محبت پر پورا نہیں اتر سکتا، یعنی وہ اللہ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی محبت کا امید وار بھی نہیں بن سکتا اگر اسے غریبوں سے سچی، بے تاب اور بے قرار رکھنے والی محبت نہیں ہے، فکرمند رکھنے والی محبت نہیں ہے، آمادۂ عمل رکھنے والی محبت نہیں ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں اس ہستی کو دیکھا اور مسلسل دیکھا۔ اور انہیں دیکھ کر گویا یہ مشاہدے میں آیا، یہ سمجھ میں آیا کہ مسکینوں سے محبت کسے کہتے ہیں۔ غریبوں سے الفت کس چیز کا نام ہے۔ مطلب، یہ قصے میں سنانا شروع کر دوں کہ وہ مسکینوں سے، غریبوں سے، ضرورت مندوں سے کیسی محبت کرتے تھے، تو صرف دو سال بلکہ ایک مہینہ کَم دو سال کے تعلق کے مشاہدات کا بیان کئی گھنٹوں میں ہو گا۔ یعنی میرا حضرت سے تعلق صرف تئیس(23) مہینے کا ہے۔ اس انتہائی قلیل مدت میں ایک انتہائی بے شعور آدمی کے مشاہدات میں بھی مولانا کے حُبُ المساکین ہونے کے ایسے ایسے مظاہر میرے سامنے آئے ہیں، اتنی کثرت سے اس کے مظاہر کا مشاہدہ کیا ہے کہ اگر انہیں صرف رپورٹ کرنے لگوں تو گھنٹے لگ جائیں گے۔ یہ ان کا حال تھا۔ مطلب، ان کی گلی میں رہنے والوں نے شاید کراچی کے بہترین کھانے روز کھائے ہوں گے، یا اکثر کھائے ہوں گے ان کی بدولت۔ اور کتنے بے گھروں کو انہوں نے مکان دیا۔ کتنے بے سہاروں کا وہ مستقل سہارا بنے۔ کتنے ہاتھ پھیلانے والوں کو انہوں نے دوسروں کی مدد کے قابل بنایا۔ یہ میرے مشاہدے میں ہے۔ کس کس طرح وہ امیر لوگوں کو، اپنے حلقے کے امیر معتقدین کو مسلسل مصروف رکھتے تھے دوسروں کی مدد میں۔
ان کا ایک عجیب رویہ تھا جو میں عرض کر دوں۔ کسی ضرورت مند کے لیے اگر وہ کسی امیر آدمی سے کہہ دیں کہ اس کو دس ہزار دے دو۔ اب سَن ستر اُنہتر (69/70ء) میں دس ہزار کی رقم بہت زیادہ تھی۔ وہ ایسے ہی کہتے تھے جیسے دس کنکر دے دو۔ یا ان کے لہجے میں ایسے ہی ہوتا تھا، اس کو دس ہزار روپے دے دو۔ اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے چونک گیا، دس ہزار کی رقم ہی ایسی تھی کہ آدمی چونک جاتا، چونک کر اس نے پوچھا۔ مولانا ، کیا ارشاد فرمایا؟ کتنے دے دوں؟ تو کہتے تھے، پندرہ ہزار دے دو۔ یہ سب کہتے ہوئے لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ دس ہزار اتنی بڑی رقم ہے، پندرہ ہزار اتنی بڑی رقم ہے، بالکل نہیں۔ وہ میرا خیال ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے گراوٹ کا ایک عنصر رکھا ہوا ہے۔ مولانا اس عنصر کو گویا اپنی گرفت میں پوری طرح لے چکے تھے۔ ان کے یہاں دنیا کا ہونا، نہ ہونا، چیزوں کا ہونا، یا نہ ہونا، بالکل برابر تھا۔ وہ دیکھتے ہوئے بھی دنیا کو نہیں دیکھتے تھے۔ اس طرح کی ان کی مسکین نوازی تھی۔
ایک اور واقعہ عرض کر دوں کہ اس سے بھی جیسے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ایسا ہے کہ جو میری آپ کی زندگی کا رُخ بدل سکتا ہے۔ ایک یتیم بچی کی شادی مولانا نے کروائی، پورا ذمہ لے کر۔ شادی میں یہ ہوتا تھا کہ چیزیں بھی ساری گھر گرہستی کی، ایک کوارٹر بھی، اسی گز کا ایک گھر بھی، یہ سب چیزیں ہوتی تھی۔ اور چونکہ ان کے خدام بہت امیر تھے، بہت کثرت سے امراء تھے، تو وہ کسی ایک ہی کو اس طرح کی شادی کی ذمہ داری دے دیتے تھے۔ اس بچی کی شادی کی ذمہ داری مولانا نے ایک انتہائی قدیم حاضر باش فضل صاحب کو دی جو ٹیکسٹائل مل اونر تھے، صنعت کار تھے۔ چنیوٹ کے تھے۔ جب وہ شادی ہو رہی تھی، اس زمانے میں ان کا رواج تھا، گلیوں میں ٹینٹ وغیرہ لگواتے تھے۔ اچھی دھوم دھام سے شادی کروائی۔ اس کے بعد انہوں نے فضل صاحب سے میری موجودگی میں یہ کہا کہ یہ سامنے قرآن شریف رکھا ہے اسے اٹھاؤ اور اس پہ ہاتھ رکھ کے کہو کہ اپنی بیٹی کی بھی شادی اسی طرح کرو گے۔ اگر تمہاری اپنی بیٹی ہوتی، تو بھی تم یہی کرتے۔ اب آپ مولانا کی شانِ تربیت دیکھیں، مولانا کا اپنے خادموں پر تصرف دیکھیں۔ انہوں نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کے کہہ دیا۔ جی، مولانا ، میری بیٹی بھی بے شک ہوتی، تو ایسے ہی کرتا شادی۔ پھر مولانا نے کہا، ٹھیک ہے۔ یہ تھا ان کی انسان دوستی کا پہلو، غریبوں سے محبت کا پہلو۔
اسی طرح، اس رَو میں بہتے ہوئے، میں ایک اور وصف کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو نادر اور نایاب وصف ہے اہلِ علم میں آج کل۔ لیکن ہمارے اسلاف کی اکثریت گویا اس وصف سے بھری ہوئی تھی۔ وہ وصف تھا معصومیت۔ مولانا ہمارے بہت معصومیت (والے تھے)۔ فراست کی یہ انتہا تھی کہ انھیں کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اور معصومیت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے آدم جی گروپ کے چیئرمین سے کہہ دیا کہ لالو کھیت میں کوئی مچھلی کی دکان کھلوا دو۔ مطلب، اتنے بھولے آدمی تھے۔ اور دنیاوی معاملات میں اُن کے رہنے کا انداز بھولے آدمیوں جیسا تھا یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنتیوں کے لیے جو انداز مقرر فرما رکھا ہے، مولانا جنت میں رہنے والوں کے اُس حال کے ساتھ دنیا میں رہتے تھے یعنی بھول پن کے ساتھ۔
اپنے چھوٹوں کی تربیت میں ذمہ داری کو غالب رکھتے تھے، جذبات پر۔ اِس وجہ سے سخت تھے۔ اُن کو کہا جاتا تھا، مطلب، ہم لوگ آپس میں جب باہر بات کرتے تھے، تو کہتے تھے کہ مولانا اور چیزوں کے امام تو ہیں ہی، توہین کرنے کی امامت بھی انھیں حاصل ہے۔ بہت مفصل اور مدلل ڈانٹ ہوتی تھی ان کی۔ وہ تنہائی میں نہیں ہوتی تھی، لوگوں کے سامنے ہوتی تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ جس چیز پہ وہ ڈانٹ پڑتی تھی، وہ چیز جیسے خود بخود نفس میں سے خارج ہو جایا کرتی تھی۔ چند اوصاف ایسے ہیں جو مولانا سے اس طرح کا تعلق رکھنے والے تمام لوگوں میں مشترک ہیں۔ اور اس کا واحد سبب، مولانا سے ڈانٹ کھانا ہی ہے۔ جیسے اُن کا کوئی بھی متعلق، ریا سے پاک ملے گا، حُبِ دنیا سے پاک ملے گا، بے غرض ملے گا، غریبوں سے محبت کرنے والا ملے گا۔ اگر کچھ عبادات اور ذکر اذکار کرتا ہے، تو اس کو چھپانے کی کوشش کرنے والا ملے گا۔ اور مولانا کا انتہائے عشق کے ساتھ تذکرہ کرنے والا ملے گا۔ یہ مشترک اوصاف ہیں مولانا کے متعلقین میں۔
مولانا کو دیکھنے کا ایک اینگل /زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ہم یہ (realize) کر لیں (سمجھ جائیں) کہ ہمارے دین کے دو بڑے بڑے مقاصد ہیں اور ان مقاصد کو حاصل کیے بغیر، حاصل رکھے بغیر، اس دین کے ساتھ وابستگی کے ابتدائی تقاضے بھی پورے نہیں ہو سکتے۔ وہ دو چیزیں ہیں، ذوق عبادت اور حسنِ معاشرت۔ گویا ہم کسی شخص کے دینی درجے، دینی اہمیت اور دینی وقعت کا اندازہ ان دو معیارات کو اُس پر اپلائی (اطلاق) کر کے بھی کر سکتے ہیں کہ اِس شخص میں ذوقِ عبادت کس درجہ کا ہے اور اِس شخص میں حسنِ معاشرت میں ایک فعال کارکن کی طرح رہنے کی قوت، صلاحیت اور عمل کس درجہ کا ہے۔ آپ سمجھیں کہ یہ انبیائے علیھم السلام کا مزاجِ مشترک ہے کہ تنہائی میں اللہ کی طرف سجدے کی حالت میں یکسو، جلوت میں مخلوق کے فائدے کی جد و جہد۔ وہ فائدہ دنیاوی بھی ہے، اخروی بھی ہے۔ یعنی نبی مزاجاً معاشرے بنانے والا اور تنہائی کا ادب سکھانے والا ہوتا ہے۔ اِس پہلو سے بھی دیکھیں مولانا کو، تو مولانا دنگ کر دینے والے کمالات رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، میں نے آخری جو ان کی زندگی کے، حیاتِ اقدس کے دو مہینے تھے جس میں وہ شدید بیمار تھے اور مجموعۂ امراض ہو کر رہ گئے تھے، اُس حالت میں، میں نے آخری دو مہینے خادم کے طور پہ وہاں گزارے اُن کے گھر میں تاکہ کوئی ضرورت ہو۔ وضو خود سے نہیں کر سکتے تھے، وضو میں کرواتا تھا۔ اُن دو مہینوں میں، میں نے ان کی ایک تہجد چھوٹتے نہیں دیکھی۔ ہمیشہ فجر کی اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے، سوا گھنٹہ پہلے، وہ کوشش کرتے تھے کہ وہ مصلے پر ہوں۔ اور تہجد ایسی پڑھتے تھے جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شمائل مبارکہ میں روایت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ اقدس سے گویا ہنڈیا کھولنے کی آواز آتی تھی۔ میں نے ہنڈیا کھولنے کی یہ آواز تقریباً روز، مولانا کے سینے سے نکلتے، تہجد کے وقت، سنی ہے۔ میں نے مولانا کی تہجد دیکھی ہے اور اُس دیکھنے کا یہ فیض ہے کہ مجھ پر یہ روشن ہو گیا کہ تہجد کی مسنون ہیئت اور صورت اور حالت کیا ہوتی ہے۔ یعنی مولانا کی نماز سے، نماز کی مسنون صورت جو (convey) ہو گئی، وہ اور لوگوں کی نماز سے بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن مولانا کی نماز سے، نماز کی مسنون حالت، مجھ پر منکشف ہو جائے، یہ میں نے صرف مولانا کو، یا اس طرح کے دو ایک اور حضرات کو دیکھا ہے کہ جنھیں دیکھنے سے آدمی نماز کی روح یعنی حالتِ احسان کو نماز کے باہر رہتے ہوئے صرف ان کی نماز دیکھ کر محسوس کر لے۔ میں نے ہمیشہ مولانا کو نماز پڑھتے دیکھ کر، ہمیشہ کیفیتِ احسان کو ایک ٹھوس حالت کے طور پر اپنے اندر کارفرما دیکھ لیا۔ یہ ذوقِ عبادت کی حد اور انتہا ہے۔
مولانا جس مصلے پر نماز پڑھتے تھے، وہ مصلہ کیا تھا؟ ٹاٹ کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس پہ مولانا کے استاد کی جائے نماز جو وقت گزرنے کی وجہ سے پھٹ گئی تھی، گل گئی تھی، اُس کے ٹکڑے جو ہیں وہ ٹاٹ کے اُس ٹکڑے پر سِلے ہوئے تھے۔ یہ مولانا کا مصلۂ تہجد تھا یعنی مصلۂ نوافل تھا۔ میں روز مولانا کے جائے نماز کو سُکھاتا تھا۔ دسمبر اور جنوری کے مہینے تھے۔ کبھی اُن کی نماز ایسی نہیں ہوئی کہ اس کے بعد ان کے مصلے میں سجدہ گاہ کی جگہ کو سُکھانے کی نوبت نہ آئی ہو۔ اِتنا گریہ کرتے تھے وہ نماز میں۔ اور پھر آپ دیکھیں کہ ایک شخص اپنے مرض الموت میں ہے، نیم معذوری میں ہے۔ وہ روز گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اذان سے، مصلے پر ہوتا ہے۔ اور اشراق کا سلام پھیر کر آواز دیتا ہے کہ اب مجھے اٹھاؤ۔ یہ روز کا معمول ہے ان کے آخری دو مہینے کا۔
اُن کے ذوقِ عبادت کا تو یہ حال تھا۔ اور اُس میں اخفاء اتنا تھا کہ ایک آدھ مرتبہ وہ سلام پھیر کے مجھے دیکھ لیا کہ میں کھڑکی سے انھیں دیکھ رہا ہوں، تو بہت سختی سے ڈانٹا۔ کہا کہ لوگوں میں قصہ کہانیاں نہ کہتے پھرنا۔ مطلب، اس طرح کا اُن کا وہ (اخفاء) تھا۔ تراویح جو ہیں وہ گھر پہ پڑھتے تھے۔ مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ اپنے لیے افضل سمجھتے تھے کہ میں گھر پہ پڑھوں۔ اور حفظ اُن کا اتنا پختہ تھا کہ شاید عالمِ اسلام میں دو آدمیوں کا بھی اتنا پختہ حفظ نکل آئے، تو اچنبھے کی بات ہو گی۔ حفظ اس طرح کا تھا کہ ابھی وہ تیرھویں سپارے پہ ہیں، پھر وہاں سے ایک آیت سے اٹھ کر ایک دم سے اٹھائیسویں سپارے پر چلے گئے۔ پھر اُس کے ہم مضمون آیت کے لیے پانچویں سپارے میں آ گئے۔ اس طرح تین چار سپاروں میں اُس مضمون کی وحدت بنائی اور پھر جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے پھر ترتیب سے پڑھنا شروع کر دیا۔ اور اُن کو لقمہ دیتے ہوئے، ان کے جو ایک قدیم ترین دوست اور استاد بھائی مولانا عبد الجبار صاحب تھے، وہ کہتے ہیں کہ مولانا کو لقمہ پڑھتے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مطلب، غلطی نہیں کرتے تھے پڑھنے میں۔ تو وہ تراویح ہوتی تھی سحری تک۔ مطلب، وہ تراویح کوئی تین گھنٹے چار گھنٹے کی تراویح ہوتی تھی۔ اُس میں یہ تھا کہ مولانا منع نہیں فرماتے تھے اگر کوئی شخص آ کے پیچھے کھڑا ہو جائے۔ لیکن جو اشخاص پیچھے آ کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے شوق میں، اُن میں سے دوبارہ آنے والے کم ہی ہوا کرتے تھے۔ اتنی لمبی تراویح۔ اور میں نے مولانا کو تنہا پڑھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ میں تو پڑھتا نہیں تھا۔ میں پڑھ کے ہی پہنچتا تھا وہاں پہ لیکن اس شوق میں کہ مولانا کو دیکھ لوں، تو میں یہ دیکھتا تھا کہ اکثر مولانا تنہا تراویح پڑھتے تھے آواز کے ساتھ۔ اور اِس کو اپنے لیے افضل سمجھتے تھے۔
بہرحال، یہ ان کا ذوقِ عبادت تھا۔ کبھی ممکن نہیں ہے کہ چار پانچ دن سے زیادہ لگ جائے ختمِ قرآن میں۔ کبھی ممکن نہیں ہے کہ اتنا زبردست حافظ ہوتے ہوئے، وہ ناظرہ تلاوت نہ کریں دو تین سپاروں کی۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اور ان کا جو قرآن شریف تھا وہ بھی ان کے استاد کا ہدیہ تھا۔ آنسوؤں سے اس میں بلبلے پڑے ہوئے تھے۔ بلبلے سے بن گئے تھے کاغذ پر۔ اِتنا وہ گریہ کرتے تھے تنہائی میں۔ لیکن جلوت میں آتے تھے تو تسبیح رکھ دی۔ تسبیح بالکل نہیں رکھتے تھے۔ سنت (نماز) مسجد میں نہیں پڑھتے تھے، جو محلے کی مسجد ہے۔ اور امام سلام پھیرتا تھا تو فوراً جمپ لگا کے باہر آتے تھے۔ اس کے پیچھے دعا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح نہ تسبیح، نہ کوئی اظہار، نہ کوئی دکھاوا، کچھ بھی نہیں۔ مطلب، انھیں اگر کوئی دن میں دیکھ لیتا تھا، تو عجیب سا احساس ہوتا تھا جیسے یہ کوئی تاجر آدمی ہے، کوئی دکان والے ہیں، اور تبلیغی جماعت وغیرہ کے زیرِ اثر داڑھی رکھ لی ہے۔ مطلب، کوئی اظہار، کوئی مظاہرہ نہیں۔ ایک ایسی بات میں بتانے جا رہا ہوں کہ اگر یہ ہمارے مذہبی طبقے، ہمارے دین دار لوگوں یا دین داری چاہنے والوں میں پیدا ہو جائے، تو سمجھو کہ ان کی بندگی کا جوہر انھیں نصیب ہو جائے گا۔ بندگی کا جوہر ہے بے نفسی اور عاجزی۔
ہمارے مولانا بہت بلند آواز تھے۔ ایسی آواز کہ لگتا تھا دس آدمیوں کی آواز مل کے ان کی آواز بنی ہے۔ بہت بھاری آواز تھی۔ وہ سرگوشی بھی کرتے تھے تو بہت دور تک آواز جاتی تھی۔ اِس آواز کے ساتھ وہ اپنے چوک پہ پان والے لڑکے سے لڑ رہے تھے، باقاعدہ برابری سے۔ اور لڑتے ہوئے اُس سے کہا کہ تیرے باپ کو بھی پان بنانا نہیں آتا، تجھے کیا آتا ہو گا۔ اب اس کا باپ فوت ہو چکا ہے۔ اُس کو غصہ آ گیا۔ اس نے کہا کہ آپ کے باپ کو کیا آتا تھا۔ جب وہ یہ کہہ رہا تھا، تو مولانا کی آنکھوں میں ایک خوشی کی کیفیت تھی کہ الحمد للہ، وہ سُن لیا جو سننا چاہتا تھا۔ توہین کرتے وہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ تھے، توہین کرواتے وہ احساسِ بندگی کے ساتھ۔ مطلب، یہ ملامتی ہونا اپنے درست ترین مفہوم میں۔ یہ ہے جو ہمارے مولانا تھے۔
اسی طرح ایک صاحب تھے وہ دیواروں کی رنگائی کا کام کرتے تھے۔ وہ مولانا کو اچھے بہت لگتے تھے۔ مولانا ، ان کی غیر موجودگی میں، ان کی تعریف کرتے تھے۔ اور بالکل پڑھے لکھے نہیں تھے۔ مولانا نے اُن کو کوئی وقت دیا ہو گا۔ مولانا وقت کے بہت پابند تھے۔ اگر آپ کو پانچ بج کے پانچ منٹ کا وقت دیا ہے، تو خود انھیں آنا ہو گا تو پانچ بج کے چھ منٹ نہیں ہوں گے۔ عین پانچ بج کے پانچ منٹ پہ آپ کی گھنٹی بجائیں گے۔ اور وہ گلی میں ٹہلتے رہتے تھے کہ وقت پورا ہو تو میں گھنٹی بجاؤں۔ اسی طرح آپ کو آنا ہے، تو آپ کو بھی پانچ بج کے سات منٹ پہ آنا (allow) نہیں کریں گے۔ کہہ دیں گے کہ چلے جاؤ، وقت ہو گیا۔ مطلب، وقت کے انتہائی پابند تھے۔ انھیں (مذکورہ شخص) کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی، تو مولانا نے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ کیا ہو گیا تھا، اتنی دیر کہاں لگا دی۔ وہ کہنے لگے کہ جناب، یہ ہو گیا، بس خراب ہو گئی یا پتہ نہیں رکشا، مجھے یاد نہیں۔ لیکن ایسا عذر بتایا۔ مولانا نے کہا کہ تمہاری عمر کتنی ہے۔ کہنے لگے کہ میری عمر اڑتیس (38) سال ہے۔ ( مولانا) کہنے لگے کہ میری عمر ستر (70) سال کی ہے، مجھے تو ایسے عذر پیش نہیں آئے۔ تمہیں ہر روز اس طرح کا کوئی عذر پیش آ جاتا ہے۔ تو اس پہ اس آدمی نے گھبرا کے کہا۔ مولانا ، یہ تو آپ کی کرامت ہے، ہم تو گناہ گار لوگ ہیں۔ مولانا ڈانٹنے کے لیے اسے منھ کھول رہے تھے کہ مولانا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مولانا بالکل لاجواب ہو گئے۔ پھر اسے کہا کہ اچھا اچھا، چل یوں کر، جاؤ۔ باہر نکل کے، جو لوگ مولانا سے ڈانٹ کھاتے رہتے تھے، انھوں نے اس کو بہت شاباش دی کہ آج تو نے مولانا کو لاجواب کر دیا ہے۔ یہ مولانا کا بھول پن تھا۔
میں عرض کر رہا تھا ذوقِ عبادت اور حسن معاشرت کے عنوان سے۔ ذوقِ عبادت کا پتہ، تنہائی میں چلتا ہے۔ وہ الحمد للہ، ہم نے تھوڑا بہت جھانک کے دیکھا ہے۔ اگر یہ لفظ استعمال کرنے کی اجازت ہو، مسنون تنہائی، اور کوئی پوچھے کہ تم نے مسنون تنہائی دیکھی ہے، تو میں قسم کھا کے کہوں گا کہ ہاں، دیکھی ہے۔ میں نے مولانا کی تنہائی دیکھی ہے اور میں نے یقیناً مسنون تنہائی دیکھی ہے۔ اسی طرح کوئی پوچھے کہ تم نے مسنون جلوت دیکھی ہے، تو میں کہوں گا کہ یقیناً دیکھی ہے۔ میں نے مولانا کی جلوت دیکھ رکھی ہے۔
جیسے کوئی سوسائٹی، انسانی اجتماعیت کی تشکیل اخلاقی جوہر پہ ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں امیری کو موجبِ فضیلت اور غریبی کو سببِ ذلت جاننے کا رویہ ختم نہیں ہو گا۔ جو سوسائٹی اپنے نظامِ مراتب میں امیری کو باعثِ عزت اور غریبی کو سببِ ذلت نہ بنائے، وہ سوسائٹی اعلیٰ درجے کا حسنِ معاشرت حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن جس سوسائٹی میں طبقاتی تقسیم مالداری اور عُسرت کے تضاد اور تقابل میں ہو، وہ سوسائٹی انسانوں کی سوسائٹی نہیں ہے، مسلمانوں یا دین داروں کا معاشرہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے مولانا اس انتہائی نکتے کو اپنے عمل سے دوسروں کو سمجھا دیتے تھے۔ یعنی مولانا کے لیے ناپسندیدہ شخصیت قرار پانے کا آسان ترین طریقہ یہ تھا کہ آپ امیر بن جائیں۔ امیر ہوتے ہی آپ مولانا کے لیے ناپسندیدہ شخصیت بن گئے۔ اور اِسی طرح مولانا کے دل کے دروازے پر دستک دینے کا آسان ترین راستہ یہ تھا کہ آپ غریب ہو جائیں۔ غریبوں کے لیے ان کے دل کا دروازہ کھُلا، امیروں کے لیے ان کے گھر کا دروازہ بند۔ اور کہتے بھی تھے کہ جو امیر ہے وہ مسلمان کہاں کا ہے۔ اتنی غربت پھیلی ہوئی ہے، اس کی موجودگی میں کوئی امیر ہو سکتا ہے۔ بہت زیادہ، اس معاملے میں بہت شدت تھی ان کے مزاج میں۔ بس امیر کوئی آدمی مل گیا، تو اس سے انھوں نے کوئی نہ کوئی قصہ شروع کر دیا۔ اس کی توہین کرنا۔ اس کو کہنا، او، پیچھے بیٹھو۔ یہ کیا جانوروں کی طرح بیٹھے ہو۔ مطلب، وہ بہانے ڈھونڈتے تھے۔ اور اسی طرح ان لوگوں کی حقارت کر کر کے یعنی امیری کو نشانۂ حقارت بنا بنا کر، انھوں نے امیر طبقے کے دل میں حب مساکین پیدا کر کے دکھایا۔ اور ایسے ایسے بڑے بڑے ایثار مولانا کے خادموں نے کیے کہ جو آج شاید سوچے بھی نہ جا سکیں۔ ان معنوں میں بھی، میں کہہ سکتا ہوں کہ دین کے ان دو (basic ideas) بنیادی تصورات یعنی ذوقِ عبادت اور حسنِ معاشرت کو میں نے بہترین اور کامل ترین صورتوں میں مولانا کی شخصیت میں (actualize) عملی جامہ پہنتے ہوئے دیکھا ہے۔
اب آپ سوچ لیں کہ اس شخصیت کو کسی مزید مدح کی، کسی مزید پہلو سے تعریف کیے جانے کی حاجت ہو سکتی ہے جو اپنے دین کے دو بنیادی آئیڈیاز (تصورات) کو عمل میں لانے میں کامیاب ہو چکا ہو۔ اس کے لیے صرف اتنی ہی مدح پوری طرح کافی نہیں ہے کہ یہ وہ شخص ہے کہ اس کے دین نے اِس سے جو چاہا، اُس نے پورا کر دکھایا۔ مولانا کا آخری تعارف یہ ہے کہ ہمارے دین نے علم، اخلاق، کردار، عمل، ذہن، نفس، طبیعت، قلب، غرض کسی بھی پہلو سے جو بھی مطالبۂ کمال اپنے صادق وابستگان سے رکھا، مولانا نے ان تمام مطالباتِ کمال کو اپنی ذات سے پورا کر کے دکھایا۔ اور ان کمالات کے اظہار سے ہمیشہ کراہت رکھی۔ ہمیشہ ان کمالات کو دوسروں پر منکشف ہونے سے روکنے کا نہایت شدت پسندی کے ساتھ اہتمام کیے رکھا۔ یہ تھے ہمارے مولانا ۔ یہ تو ایک حصہ بھی شاید نہیں ہے لیکن بہرحال ایک اصولی سا خاکہ اگر بنا لیں، تو ہمارے مولانا اپنی شخصیت میں یہ تھے۔
اُن کا پورا نظام العمل، ان کے تمام اعمال چاہے وہ عبادات کے ذیل سے ہوں، چاہے معاملات کے پہلو سے ہوں، چاہے اللہ کی طرف عابدانہ یکسوئی کے ساتھ ہوں، چاہے وہ معاشرے کے لیے مفید شخصیت کے طور پر ہوں، ان کے تمام اعمال بہترین اخلاق اور عالی ترین علم کے تال میل سے پیدا ہوتے تھے۔ ان کا ہر عمل اخلاق اور عمل کی منتہائی یکجائی سے جنم لیتا تھا۔ ان کے ہر عمل سے عالم تعلیم حاصل کر سکتا تھا، جاہل تربیت حاصل کر سکتا تھا۔ یہ مولانا کی ایک شان تھی۔
وہ جو مولانا کے بھول پن کا ذکر کر رہے تھے، وہ عام آدمی کا بھول پن نہیں تھا۔ وہ اچھے آدمی کی نادانی سے پیدا ہونے والا بھول پن نہیں تھا۔ بلکہ فطرت کی (purity) کھرے پن کو اپنے اندر جذب کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بھول پن تھا مولانا کا۔ اُس بھول پن کے بے شمار نہ سہی، تو دس بیس مظاہرے تو میں نے بھی دیکھے ہیں۔ اور مولانا کے بھول پن کا ہر اظہار، دیکھنے والے کے نفس میں پاکیزگی کی ایک حالت ضرور پیدا کرتا تھا۔ اور وہ دوسرے کو ہنسنے کی اجازت نہیں دیتا تھا، بلکہ اس کو دیکھ کر مولانا کی عظمت، عقیدت اور محبت میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اور صاف لگتا تھا کہ فطرت اپنی اصلیت کے ساتھ اگر کارفرما ہو، اور علم اگر اپنی حقیقت کے ساتھ شعور کا مرکز بن چکا ہو، اور ان دونوں کی موجودگی میں اخلاق اپنی اصلیتِ عاجزی کے ساتھ طبیعت کے معمار بن چکے ہوں، تو پھر اس طرح کے بھول پن اور معصومیت کے رویے کی پیدائش عمل میں آتی ہے۔ تو مولانا کا بھول پن، عارف کا بھول پن تھا۔ عاشق کا بھول پن تھا۔ عالم کا بھول پن تھا۔ وہ کسی نادانی یا لا علمی سے پیدا ہونے والا بھول پن نہیں تھا۔ وہ اپنی جگہ اچھا ہوتا ہے۔ لیکن مولانا کی اچھائیاں صرف اچھائیاں نہیں تھیں، بلکہ اپنے دین کی اقدار کی ترجمانی کر دینے والے اعمال کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مولانا گویا چلتا پھرتا دین تھے، تو ان کا بھول پن بھی دین کے ساتھ تعلق میں، اور دین کے ساتھ ہماری معرفت میں اضافے کا سبب بنتا تھا۔
مثال کے طور پہ، مولانا کے خطبات میں جا بجا دیکھیں گے کہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ بات ہزار سال میں کسی عالم نے نہیں کہی، میں بتا رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے مجھے سجھائی ہے۔ اب تک کے علماء کو یہ بات نہیں سوجھی تھی۔ آج کل کا کوئی پیشہ ور ریڈر (قاری) جس کو ریڈر شپ (قرأت متن) کے قواعد کا اور الفاظ کی حقیقی دلالتوں کا بالکل علم نہ ہو، جو کلام کو متکلم کے اعتبار پر سمجھنے کی قابلیت سے محروم ہو، وہی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ جیسے کسی خود پسند آدمی کا کلام ہے۔ کیونکہ آج کل کا آدمی جو ہے وہ بات کو بات کہنے والے سے جوڑ کر دیکھنے کی بصیرت سے محروم ہے، لہذا اس کے نزدیک بس بات، پوری کی پوری، جن لفظوں میں بیان ہوئی ہے ان لفظوں کے بارے میں اس کا جو ناقص علم ہے، اس ناقص علم کو حَکم اور حُجت بنا کر وہ متکلم پر الفاظ کی سطحی دلالتوں کو تھوپ دیتا ہے۔ یہ وہ بدترین کرپشن ہے جو جدیدیت نے، جدید تعلیم نے ہمارے ذہنوں پر مسلط کی ہے۔ جس نے کلام کو متکلم پر غالب کیا ہے۔ اور کلام تو ایک بہانہ ہے۔ جس نے اپنے فہم کو حُجت بنا کر متکلم پر اور شخصیتوں پر اور تمام اقدارِ معانی پر اور تمام اسالیبِ حقائق پر غالب کرنے کی ضد باندھ رکھی ہے۔ تو یہ جیسے مینڈکوں کے دماغ سے انبیاء علیھم السلام کے وارثوں کا کلام سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اِن کا کوئی ذکر نہیں اور نہ مجھے ان لوگوں کے سامنے کسی وضاحت کی ضرورت ہے۔ لیکن ویسے ہی میں کہہ رہا ہوں کہ یہ فقرہ بظاہر عجیب سا لگتا ہے ناں کہ ہزار برس سے کسی عالم کو یہ بات نہیں سوجھی، یہ مجھ پر منکشف ہوئی ہے۔ یہ مولانا کا بھول پن تھا۔ ورنہ تو سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کیا دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ، مجھے ایسی سلطنت دے جو نہ مجھ سے پہلے کسی کو ملی ہو اور نہ میرے بعد کسی کو ملی ہو۔ اب کوئی آدمی، یا کوئی اناڑی دین دار آدمی، کوئی اناڑی پن کی صوفیت رکھنے والا بے وقوف جاہل شخص، اس دعا میں کیا کیا مضمرات تلاش کر سکتا ہے اپنے نفس کی گندگی کو، اپنے دماغ کی جہالت کو اپنا رہنما بنا کر۔ تو یہ نہیں ہے، یہ اللہ سے تعلق کی کچھ سطحیں ہوتی ہیں، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے کچھ احوال ہوتے ہیں، جو تحدیثِ نعمت کے طور پر جذبۂ تشکر میں وفورِ شکر گزاری کے ساتھ زبان سے ادا ہو جاتے ہیں۔ تو مولانا کے ہاں بھی یہ جیسے ایک نہایت سادہ اور بھولے عارف اور عالم کا وہ بیان ہے جس کی تردید آپ نہیں کر سکتے۔ بات یہ صحیح ہے۔ مولانا نے جہاں کہا ہے کہ ہزار برس میں کسی کو یہ بات نہیں سوجھی، وہاں یہ بات بالکل درست ہے۔ ہم دکھا سکتے ہیں کہ ہزار برس میں وہ بات کسی بھی ذہن میں نہیں آئی جس کے لیے مولانا اپنی انفرادیت کا ایک معصومانہ سا دعوی کر رہے ہیں۔ معصومانہ، میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس کے جواب میں، میں ایک واقعہ (quote) نقل کرنے جا رہا ہوں جو خطبات میں ہے۔ یہ ایسا نہیں کہ میں کہوں کہ صرف میں نے سنا ہے۔ یا سنی سنائی بات ہے۔ یہ مولانا کے خطبات میں ایک خطبہ ہے ’کچھ اپنے بارے میں‘ کے عنوان سے۔ چھوٹا سا ڈیڑھ دو صفحے کا وہ خطبہ ہے۔ تقریر ہے مولانا کی کہ مولانا سے کسی نا سمجھ آدمی نے یہ کہا کہ مولانا ، آپ کبھی کبھی جو ہے متکبر ہو جاتے ہیں۔ تو مولانا ایک دم چونکے اور جیسے سچا آدمی ہوتا ہے ناں کہ اس کو اپنے عاجزانہ کلام اور اپنی عاجزی کی نمائش سے پرجھانے اور قائل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جھوٹے آدمی کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اگر اس سے کوئی یہ کہہ دے کہ تم نیک نہیں ہو، تو وہ فوراً نیک ہونا (perform) کرنے لگے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جھوٹا آدمی ہے۔ وہ غصے میں آ جائے اور اضطراری طور پر ناگواری کا اظہار کرے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ یہ سچا آدمی ہے۔ یہ معترض جو ہے، جاہل ہے۔ مولانا نے اس معترض کے جواب میں یہ فرمایا کہ لاحول ولا قوۃ، یہ کیا بکواس ہے۔ جو آدمی اپنے استاد سے پڑنے والی مار پر فخر کرتا ہو، جو اپنے استاد کی قمچیوں کی ضرب سے کمر پر بن جانے والے نشانات کے مٹ جانے کا افسوس کرتا ہو، وہ بھلا متکبر ہو سکتا ہے۔
یہ فقرہ بھی، آپ کو میں اس کا ایک مختلف (context) سیاق و سباق سناتا ہوں جس میں رکھ کر اس فقرے کے معنی ثابت ہوں گے کہ ہزار برس سے یہ بات چھپی ہوئی تھی۔ مولانا نے کہا کہ میں جن لوگوں پر، بڑے بڑے لوگوں پر تنقید کرتا ہوں، تو میں اسی طرح کا عمل کر رہا ہوتا ہوں کہ ایک آدمی باہر سے سمندر کو دیکھ رہا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے، ایک (stick) ہے، تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ سمندر یہاں سے اتنا گہرا ہے اور یہاں دو فٹ کا رہ گیا ہے۔ جہاں سمندر اس چھڑی کی رینج میں آ جاتا ہے، یعنی اس کی پیمائش میں آ جاتا ہے کہ یہاں سمندر دو فٹ تین فٹ کا رہ گیا ہے، تو وہاں میں بتا دیتا ہوں کہ یہ سمندر دو تین فٹ کا رہ گیا ہے، سمندر کے اس حصے کو سمندر نہ سمجھو۔ سمندر وہ ہے جس کو میری چھڑی ناپ نہیں سکتی۔ تو میں ہر آدمی پہ تنقید، یہ مان کر، یہ جان کر، یہ جتا کر، کرتا ہوں کہ یہ صاحب، سمندر ہیں لیکن ہر سمندر کی طرح ان کے کچھ ساحلی حصے ایسے ہیں جو دو فٹ گہرے ہیں، جو اتنے گہرے نہیں ہیں جتنا سمندر بیچ میں ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ وہم نہ پالنا کہ میں شاہ عبد العزیز ایسے لوگوں پہ تنقید کروں تو نعوذ باللہ، میں خود کو ان کے برابر کا سمجھ رہا ہوں۔ میرے اور ان کے علم میں وہ نسبت بھی نہیں ہے جو انگلی ڈبونے کے بعد، انگلی پہ لگے ہوئے پانی اور سمندر میں ہوتی ہے۔ یہ مولانا نے خاص اہتمام کر کے یہ وضاحت کی ہے اور یہ ان کے مقالات میں موجود ملے گی۔ انشاء اللہ، جب آپ دیکھیں گے۔ ’کچھ اپنے بارے میں‘۔
اسی طرح مولانا کے بھول پن کے بہت واقعات ہیں لیکن یہ بھول پن اپنے متوازی ایک فراست بھی رکھتا ہے۔ ایک ناقابل یقین فراست اور مولانا اپنی طبیعت کے بھول پن اور اپنے ذہن کی فراست کو زیادہ فاصلے پر نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کو جوڑ کر چلاتے تھے۔ میں اس کا ایک واقعہ سناتا ہوں جو خود میرے ساتھ گزرا۔ میں ہوائی چپل پہنا کرتا تھا۔ وہ ہوائی چپل، ربڑ کی معمولی چپل جو ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ وہ کہیں سے ٹوٹ گئی، اس کا پٹا ٹوٹ گیا۔ میں نے اسے سلوایا ہوا تھا۔ مولانا نے وہ دیکھ لیا۔ پہلے دیکھ لیا ہو گا، اپنے اندر محفوظ رکھا۔ ایک مرتبہ میں بازار میں، انھیں کے گھر کی طرف بازار سے جا رہا تھا، تو مولانا وہیں بازار میں کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کے بلایا اور کہا کہ بھئی، کوئی مصروفیت تو نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ جناب، کیا مصروفیت ہے۔ اگر میں اس وقت یہ کہہ دیتا کہ میں تو خود ہی آپ کے گھر حاضر ہونے جا رہا تھا، تو اس پہ وہ ڈانٹتے کہ جتا رہے ہو مجھے۔ بہت نزاکت تھی۔ میں نے کہا کہ جی جی، بالکل حاضر۔ کہنے لگے کہ مجھے ایک جوتا لینا ہے۔ تم لوگ چونکہ دکان وغیرہ کے بارے میں معلومات رکھتے ہو، تو یہاں کی جو سب سے بڑی اور اچھی دکان ہے جوتوں کی، وہاں لے جاؤ۔ اب مجھے کیا اتنی معلومات۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کے جو سب سے بڑی دکان نظر آئی، وہاں لے گیا انھیں۔ وہاں جا کر انھوں نے کچھ جوتے دیکھے، نیگیٹو ریمارکس (منفی تبصرے) کیے۔ یہ اچھا نہیں، یہ اچھا نہیں۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ یار، میری تو کچھ سمجھ میں آ نہیں رہا۔ تم بتاؤ، کوئی اچھا جوتا۔ دو تین جوڑے دیکھ کر بتاؤ۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ اچھا لگ رہا ہے، یہ اچھا لگ رہا ہے۔ کہنے لگے کہ نہیں، اپنے خیال سے دیکھو۔ جوان آدمی کیسا پہنتا ہے۔ عجیب طرح سے کہا، تو میں نے کہا کہ یہ اچھا لگ رہا ہے، یہ اچھا لگ رہا ہے۔ کہنے لگے، پہن کے دیکھو۔ ذرا بتاؤ، آرام دہ ہے یا نہیں۔ اب میں اسی وہم میں ہوں کہ یہ مولانا اپنے لیے خریدنے کے لیے کہ مولانا کو چلنا اٹھنا بیٹھنا زیادہ پسند نہیں ہے، اس وجہ سے کہ جوتا پہن کے چلنا پڑتا ہے، مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ میں نے اپنے ناپ کا ایک جو بہترین جوتا ہو سکتا تھا، وہ پہن کے چلنے لگا۔ کہنے لگے کہ آرام دہ ہے۔ میں نے کہا کہ جی، بہت آرام دہ ہے۔ کہنے لگے، آج تمہارے ذوق کا پتہ چل گیا۔ یہاں سارے جوتے انسانوں کے پہننے کے لیے نہیں ہیں، جانوروں کے پہننے کے لیے ہیں۔ یہ کھر ہیں، جوتے نہیں ہیں۔ لیکن چلو، تمہارے لیے تو ٹھیک ہے ناں۔ یہ کہہ کے مجھے انھوں نے وہ جوتا دلوا دیا۔ اب کیا کہ انھیں جوتا دلوانا تھا اور اپنا ممنون نہیں بنانا تھا۔ انھیں احسان کرنا تھا اور اپنا ممنون نہیں بنانا تھا، تو اس طرح بے عزت کر کے، جانور بنا کر وہ جوتا مجھے دے دیا۔ وہ جوتا میں کبھی نہ خرید سکتا، اس کو پہننے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا۔
یا ایک مرتبہ مجھے سو روپے کا نوٹ دیا۔ فرمایا کہ اس وقت میرے پاس پان نہیں ہے۔ جلدی سے ایک دو پان یہیں سے لے آؤ، محلے سے اور جلدی آؤ۔ اب سو روپے کا نوٹ اس زمانے میں، ایک پان لے کر جو ایک آنے کا پان آتا تھا، وہ لے کر سو روپے کا نوٹ بھُنانا (یعنی ریز گاری لینا)، یہ نا ممکن کام تھا۔ اور مولانا کا حکم بھی تھا، تو میں بس سٹاپ پہ گیا۔ وہاں کنڈکٹر جو ہوتے ہیں ان سے بڑی مشکل سے سو روپے کا کھُلا کروایا (ریزگاری لی)۔ پھر آ کے پان لیا اور پان لے کے مولانا کی خدمت میں پہنچا۔ اب ظاہر ہے کہ ایک کلومیٹر آنے جانے میں کچھ وقت لگا۔ کہنے لگے کہ اتنی دیر؟ اور تم لوگوں کو بالکل کسی کی ضرورت کا احساس نہیں ہے، کچھ تمہیں فکر نہیں کہ میرا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ یہ کہہ کے پان لیا اور پیسے میں نے پکڑائے، سنتا بھی جا رہا تھا۔ پیسے اٹھا کے یوں پھینک دیے میری طرف۔ کہا، یہ اپنے پاس رکھو، دفع ہو جاؤ، مجھے ضرورت نہیں ہے۔ نہ اس پان کی ضرورت ہے، نہ پیسوں کی۔ پان بھی پھینکا، پیسے بھی میرے منھ پہ مارے اور کہا کہ یہ لے کر دفع ہو جاؤ۔ اب اس لہجے میں ایسی بات تھی کہ نہ میں پیسے لینے سے انکار کر سکتا تھا، نہ دفع ہونے سے رک سکتا تھا۔ اب انھیں کیا تھا۔ انھیں مجھے سو روپیہ دینا تھا۔ لیکن سو روپیے دینے کے لیے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ میری آنکھوں میں کوئی تشکر یا ممنونیت دیکھیں۔ یا میرے اندر کسی ایسے جذبے کو پیدا ہونے کا موقع دیں جو احسان مندی کا جذبہ ہوتا ہے، جو جیسے اپنی محتاجی کے احساس کو بڑھاتا ہے، تو انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس طرح بے عزت کیا اور اپنے منصوبے پہ عمل کر لیا۔
یہ فراست ہے جو میں کہا سکتا ہے کہ میں نے مولانا کے علاوہ کہیں نہیں دیکھی۔ ایسی شخصیت آپ لا کے تو دکھائیے، جو احسان کو ناگوار بنا دے ممنونِ احسان کے لیے۔ ایسا احسان کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل ہونے والی خاص ترین فراست کے بغیر ممکن ہے کہ جس پہ احسان کریں وہ اس پر تشکر کے جذبے کا احساس بھی غیر فطری سمجھے۔ یہ تھے ہمارے مولانا ۔
٭٭