سردی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور میں سکڑے جا رہی تھی۔۔۔۔ اس سردی کی وجہ سے نیند بھی نہیں آ رہی تھی،میں نے بیگ سے اپنی ایک چھوٹی سی شال نکال کر اوپر لے لی، اک لمحے کو گرمائش کا احساس ہوا اور اگلے لمحے پھر وہی جان لیوا سردی۔۔۔۔ تب ماں کے نرم گرم لحاف بہت یاد آئے۔۔۔۔ میں اور تم جن سے چڑا کرتے تھے اور ماں سے نرم فر والے کمبل کی فرمائش کیا کرتے تھے اور وہ ہنس کر ٹال دیا کرتی تھیں، دل نے کہا کاش اس وقت وہ بڑے بڑے پھولوں والے نیلے پیلے لحاف پہ میسر آ جائے۔۔۔۔ اماں لحاف میں بیٹھا کر دودھ جلیبیاں پلایا کرتی تھیں، یہاں آنسو پینے پڑ رہے تھے۔
رات آدھ سوئے آدھ جاگے کیفیت میں نکل گئی۔۔۔۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا اندھیرا ابھی پوری طرح چھٹا نہیں خیال آیا کہ نماز پڑھ لی جائے، کتنے ہی دن گزر چکے تھے رب کے حضور سر جھکائے ہوئے۔
ایک ریسٹورنٹ کے واش روم سے وضو کیا اور اپنی شال بچھا کر ہی نماز ادا کر لی، رو رو کر رب سے مدد مانگی، صحیح راستے کی نشاندہی کی اپیل کی۔
وہی شال کندھوں پہ اوڑھ لی کہ ابھی بھی کافی سردی تھی، ہاں سورج نکلتے ہی موسم سہانا ہو جایا کرتا تھا۔
بھوک سی محسوس ہوئی تو پھر سے رونا آنے لگا۔۔۔۔
ایسا کب تک چلے گا، مجھے کوئی کام کرنا چاہیے۔۔۔۔ پر ان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھ کر ہی سر چکرانے لگتا ہے، ان کے سامنے سے گزرتے ہی خوف آتا تھا کجا ان کے اندر جا کر کام کے لیے کہنا کہاں آسان تھا۔۔۔
کچھ تو کرنا ہی تھا، بھوکے تو نہیں مرنا تھا ناں۔۔۔
میں نے ایک طرف کو چلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ درود شریف پڑھنے لگی کہ یا اللہ خود ہی کوئی کام میرے سامنے آ جائے، ڈھونڈنا نہ پڑے۔۔۔
چلتے چلتے ہمت جواب دینے لگی پر مجھے ہمت نہیں ہارنی تھی۔
ایک جگہ سے گزری تو ایک موٹی تونڈ والا بندہ سامان سےبھری لوڈر کے پاس گھڑا فون پہ کسی سے بات کرتے ہوئے گالیاں دے رہا تھا، اس کی باتیں سنی کو اندازہ ہوا کہ اس نے یہ سامان سٹور میں رکھنے کے لیے جس بندے کو بلایا تھا وہ شاید بیمار ہو گیا تھا۔۔۔۔ اب وہ اسے کہہ رہا تھا تم مر ہی جاؤ تو اچھا ہے۔۔۔۔ فون آف کر کے وہ سر پکڑ کر کھڑا تھا کہ میں اسکے قریب چلی گئی، سر یہ کام میں بھی کر سکتی ہوں۔۔۔ پلیز مجھے چانس دیں۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ اس نے مجھے سر تا پا دیکھا۔۔۔۔آر یو شیور۔۔۔؟؟؟ بے یقینی سے اسکے منہ سے نکلا۔
میں نے مسکرا کر سر ہلایا۔
میں نے جلدی سے اپنا بیگ ایک طرف رکھا اور سامان اٹھا اٹھا کر اسکے سٹور میں رکھنے لگی۔
وہ ایک طرف کھڑا میری پھرتی دیکھ رہا تھا، وہ میری مدد کرنا چاہتا تھا پر وہ اتنا موٹا تھا کہ اس کے لیے اپنا آپ سنبھالنا ہی بہت بڑا کام تھا۔۔۔۔۔
کام کرتے کرتے میری سانس پھول رہی تھی، میں تھک کے بیٹھی کہ سانس برابر ہو جائے تو باقی کا کام نمٹا لیا جائے، اس وقت بھوک اور پیاس دونوں ستا رہی تھیں۔۔۔ مجھے یاد آنے لگا کہ جب اماں سردیوں سے پہلے گھر کے سب بستروں کو دھوپ لگوایا کرتی تھیں تو یہ کام مجھ سے ہی لیا کرتی تھیں، بستروں کے ڈھیر کو چھت پہ لے جانا، اور پھر شام میں واپس لانا میری ہی ڈیوٹی تھی اور میں رویا کرتی تھی کہ اماں کو اپنی نازک سی بیٹی پہ ترس نہیں آتا۔۔۔۔
اماں نے وہ عادت نہ ڈالی ہوتی تو آج یہ بھی نہ کر پاتی۔۔۔۔ شکریہ اماں۔۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں کہا۔
گرمی کا احساس ہوا تو شال اتار کر سائڈ پہ رکھ دی۔
پانی کی ایک چھوٹی بوتل میرے سامنے لہرا دی گئی، وہی بندہ مجھے پانی پیش کر رہا تھا۔۔۔ تشکر سے میری آنکھوں میں پانی اتر آیا۔
میں نے دو گھونٹ پانی پیا اور باقی اگلے وقت کے لیے بچا لیا، ان دو گھونٹ نے بھی انرجی ڈرنک کا کام کیا، میں پھر سے شروع ہو گئی، پھر سارا کام نمٹا کر دم لیا۔
وہ شخص حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا، شاید اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اک نازک سی لڑکی نے اتنا بھاری کام کر دیا ہے، اس نے میرے ہاتھ پہ رقم رکھ دی، ساتھ ہی ساتھ میں اک بکس گفٹ دیا اور چلا گیا۔
میں سڑک کنارے ہی بیٹھ گئی، بکس کھولا تو اندر کچھ سینڈوچ تھے۔۔۔۔ میری آنکھیں برسنے لگیں، میں روتی جاتی تھی اور سینڈوچ کھاتی جاتی تھی۔۔۔۔ رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔ یہ بندہ بھی کسی فرشتے سے کم ثابت نہ ہوا تھا۔
جو رقم اس نے دی وہ اگلے دو دن کے لئے کافی تھی، میں نے سامان سمیٹا اور آگے کو چل دی۔۔۔۔ سارا دن گھومتی پھرتی رہی، یہ دنیا بہت خوبصورت تھی میں سارا دن اسکے طلسم میں کھوئی رہی۔۔۔
دن ڈھلنے لگا تو پھر سے سردی کا احساس بڑھنے لگا، میں ایک بنچ پہ بیٹھ گئی اور بیگ سے شال نکالنے لگی تو میرے ہاتھ وہ پرس آ گیا جو میں نے جمیل خان کے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اٹیچی سے بیگ میں ڈالا تھا۔۔۔ میرے ہاتھ ساکت ہو گئے۔۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز سی ہو گئی، یہ کس کا ہے، میرے پاس کیسے آیا۔۔۔ بہت سے سوال سامنے کھڑے تھے۔۔۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے کھولا تو اندر کچھ کینیڈین ڈالر پڑے تھے، یہ کہاں سے آئے۔۔۔ اک نیا سوال۔۔۔
اب میں نے اسے اپنی گود میں الٹا دیا، اس میں سے ایک انگوٹھی، دو کنگن نکلے۔۔۔۔
راز سے پردہ اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔۔
انگوٹھی ہاتھ میں لئے میں بہت دیر تک روتی رہی۔۔۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو تم نے مجھے دی تھی، نکاح سے پہلے میں نے تمہیں لوٹا دی تھی۔ کنگن بھی میں پہچان چکی تھی، خالہ کی نشانی۔۔۔ اتنی بڑی چیز تم نے مجھے یوں دے دی، جبکہ اب ہمارے بیچ کوئی رشتہ بھی نہیں رہ گیا تھا۔
ڈالر بھی یقیناً تم نے ہی رکھے تھے, بس پھر رات تمہاری یاد میں روتے ہی گزری۔۔۔ میں نے انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن لی اور پھر وہ میری طاقت بن گئی۔۔۔ جب میں خود کو تھکتا محسوس کرتی، کبھی جو ہمت ہارنے لگتی تو اسے سینے سے لگا کر تم سے باتیں کر لیا کرتی۔۔۔ اور پھر سے جی اٹھتی۔
میں نے سب سے پہلے تمہارے رکھے ہوئے ڈالر سے جیکٹ خریدی۔۔۔ جب جب اسے پہنا تمہیں اپنے بہت قریب پایا۔۔۔
بس پھر محنت کا اک سفر شروع ہو گیا، میری زندگی کا مقصد صرف پیسہ بن گیا، مجھے اب ڈھیر سارا پیسہ اکٹھا کرنا تھا کہ اسی پیسے کی چاہ نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا تھا۔۔۔ہر دن اک نیا دن ہوتا تھا اور نیا سبق دے کر جاتا تھا، راتیں کانٹوں پہ بسر کیں۔۔۔ ہر وقت عزت کے لالے پڑے رہتے تھے۔ پردیس میں تنہا رہنا۔۔۔، بکری کا بھیڑیوں کے بیچ رہنے کے مترادف تھا۔
سوچا کوئی عزت کی نوکری کروں۔۔۔ بہت ہاتھ پیر مارے پر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، سکولوں کے چکر کاٹے پر وہاں پاکستانی کو ٹرخانے کی کوشش کی جاتی ہے، ایک سکول والے سوئمنگ ٹیچر رکھنے کو تیار تھے پر مجھے تو سوئمنگ آتی ہی نہیں تھی۔
ریسٹورنٹ والے اپنا یونیفارم دیتے تھے، اور وہ ایسا تھا کہ ہم مشرقی لڑکیاں وہ پہننے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔۔۔
گھروں میں نوکر رکھنے کا رواج نہ تھا، جس جس سے پوچھا انکار ہی سنا، ہر طرف سے مایوس ہو کر مجھے چھوٹے چھوٹے کام ہی کرنے پڑے۔۔۔۔ایسے حالات بھی ہوئے کہ مجھے نیچ سے نیچ کام بھی کرنے پڑے۔۔۔۔ میں نے ان ہاتھوں سے جنہیں تم اپنی آنکھوں سے لگایا کرتے تھے۔۔ انگریزوں کے جانور نہلائے، گلیوں کا کچرا اٹھایا۔۔۔۔ بھیک بھی مانگی۔۔۔
تم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک سال میں نے کیسے سڑکوں پہ دھکے کھائے ہیں، کیسی کیسی مزدویاں کیں ہیں، راتیں کہاں اور کیسے گزاریں۔۔۔ خوف ہر وقت میرے ساتھ رہا،
کئ بار لوٹ آنے کا سوچا پر قدموں نے ساتھ نہیں دیا۔ اک انجانی طاقت مجھے روک لیتی رہی۔
رابی اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسک پڑی۔ میری آنکھیں بھی سیلاب بہا رہی تھیں۔۔۔
تمہیں لوٹ آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ میں نے بمشکل کہا۔
نہیں فیضی۔۔۔۔ مجھ میں ماں کا منہ چھپا کر رونا اور گھٹ گھٹ کر مرنا دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا، میرے لئے وہ صعوبتیں جھیلنا زیادہ آسان تھا۔۔۔۔ ماں کی تکلیف نہیں دیکھی جانی تھی۔
اور پھر تمہیں بھی کسی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی، یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اب میری تمہارے نظر میں کیا حیثیت رہ چکی تھی، تمہیں نا چاہتے ہوئے بھی میرا ہاتھ تھامنا پڑتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کر پاتی۔۔۔۔
اگر تم کسی اور کا ہاتھ تھام چکے ہوتے تو بھی تم میری موجودگی میں اسکے ساتھ خوش نہ رہ پاتے۔۔۔۔ اور میں تمہیں ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ اس لئیے خود کو تم سے دور رکھا۔۔۔۔
ایک دن میں سڑک کنارے بیٹھی تھی بخار نے مجھے لال بھبھوکا کر رکھا تھا جسم ٹوٹا پڑا تھا، کوئی کام کرنے لائق نہ تھی، لوگوں کا سیلاب اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔۔۔۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ کسی کی خبر لے سکے۔۔۔۔ اتنے میں ایک بڑی سی کار میرے پاس سے گزری اور تھوڑی دور جا کر رک گئی۔
میں اس میں بیٹھی خاتون کو دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ وہ جمیل کی ممی تھی۔۔ میں جو سمجھی تھی کہ انکی دسترس سے نکل آئی ہوں، انہیں یہاں دیکھ کر مجھے اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی تھی۔۔۔۔
جانے اس وقت مجھ میں کہاں سے ہمت آ گئی
میں نے ایک طرف گلیوں میں بھاگنا شروع کر دیا، میں اندھا دھند بھاگے چلی جارہی تھی، مجھے کہاں جانا چاہیے کچھ اندازہ نہیں ہو ریا تھا۔۔۔۔ بھاگتے بھاگتے میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور میں اچھل کر دور جا گری۔۔۔۔ اٹھنے کی ہمت نہ تھی پر مجھے اٹھنا تھا، خود کو کریمینل لوگوں کے حوالے نہیں کر سکتی تھی۔سر بری طرح چکرا رہا تھا اور گرنے کی وجہ سے سر پہ چوٹ لگ گئی تھی اور خون بہنے لگا تھا، قریب ہی مجھے ایک لکڑی کا کیبن دکھائی دیا میں خود جو گھسیٹتے ہوئے اس کے اندر لے گئی اور دروازے سے پشت ٹکا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہی میں ہوش و حواس کھو بیٹھی۔۔۔۔۔ جانے کب تک میں بے ہوش رہی، پر جب ہوش آیا تو میں اک نرم و گداز بستر میں تھی، ایسا بستر میں نے عمر بھر نہیں دیکھا تھا اور اب تو ایک سال سے بستر ہی میسر نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔ میں بہت آرام محسوس کر رہی تھی، وہ بخار وہ ٹوٹتا جسم۔۔۔ اب کچھ بھی نہ تھا۔۔۔۔
میں کہاں ہوں، یہاں کیسے آئی، کون لایا۔۔۔۔۔
یہ خیال آتے ہی، اس سخت سردی میں بھی میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔
_______
میں اٹھ بیٹھی اور سوچنے لگی کہ یہاں سے کیسے بھاگا جائے ،پہلے تو سب کھڑکیوں کا جائزہ لیا، یہ فلیٹ دوسری منزل پہ تھا سو کھڑکیوں کا استعمال خطرناک ہو سکتا تھا، مجھے پائپ یا رسے سے اترنے کا کوئی تجربہ نہ تھا، اگر ایسی کوئی کوشش کرتی تو ضرور ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھتی۔۔۔۔ پھر واش روم میں جھانکا، یہاں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی۔۔۔ ا ب دروازے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا، موقع دیکھ کر فرار ہوا جا سکتا تھا۔ دل نے کہا اگر میں جمیل کے ہتھے چڑھ گئی ہوں تو اب وہ مجھے ایسا کوئی موقع نہیں دینے والا۔۔۔ میں نے مایوسی سے سوچا۔
پھر خیال آیا کہ باہر جھانکا جائے، اگر کوئی نہیں ہے تو دروازے کے راستے ہی فرار ہو جاؤں۔
باہر لاؤنچ میں کوئی نہیں تھا۔۔۔ میں دبے پاؤں نکل رہی تھی کہ اک طرف سے ایک ینگ سی لڑکی دو سال کا بچہ گود میں اٹھائے نکل آئی، میں بھاگنے ہی والی تھی تو اس نے مجھے دیکھ لیا۔
او ڈئیر۔۔۔ ٹھینکس گوڈ، یو آر فائن ناؤ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بولی۔
یا اللہ مدد۔۔۔ اب اور آزمائش نہیں جھیل سکتی، میں نے خود سے کہا پر وہ میرے قریب آ چکی تھی اور شاید میری بات بھی سن چکی تھی۔۔۔۔
تم انڈیا سے ہو۔۔۔۔ اس نے اردو سن کر کہا۔
پاکستان۔۔۔ میں نے مختصر جواب دیا، مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا کہ یہ جمیل کی ساتھی ہوتی تو یوں سوال نہ کرتی۔
پر میں ابھی بھی خوفزدہ سی تھی،
دیکھو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، تم بالکل محفوظ ہو۔۔۔۔ اور میری بہنوں جیسی ہو۔ تمہیں انچ بھی آئے یہ مجھے گوارا نہیں۔۔۔ اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا تو میں بے اختیار اسکے گلے لگ کر سسک پڑی، اس نے بھی میرے گرد بازو ڈال دیا، ایسا اپنائیت بھرا لہجہ سننے کو کان ترس گئے تھے۔۔۔۔
مدت بعد کسی نے سینے سے لگایا تھا۔۔۔۔ میں روئی تو روتی چلی گئی۔۔۔۔ اس نے روکا نہیں، رونے دیا۔
میں چپ ہوئی جب خود تھک گئی۔ اسکی گود میں بچہ میری طرف دیکھے جا رہا تھا، اور مجھےیوں روتے دیکھ کر پریشان سا ہو گیا تھا۔
مجھے کمرے میں بیٹھا کر وہ کافی لینے چلی گئی۔
تھوڑی دیر میں گرم گرم کافی کا مگ میرے ہاتھ میں تھا۔
یور نیم پلیز ، اس نے مسکرا کر پوچھا
رابی۔۔۔۔ میں نے بھی مسکرانے کی کوشش کی۔
اک بات پوچھوں۔۔۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
میں نے سر ہلا دیا۔
یہ جمیل نواز کون ہے۔۔۔۔
جمیل کا نام اسکے منہ سے سن کر میں سکتے میں آ گئی۔۔۔۔ مطلب کہ یہ جمیل ہی کی ایجنٹ ہے۔۔۔۔ میں پھنس چکی ہوں۔۔۔
اپنی بے بسی کے احساس سے میری آنکھیں بھیگ گئیں۔۔۔
میری حالت اس سے چھپی نہ رہی، وہ اٹھ کر میرے قریب آ گئی، میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ہولے ہولے دبانے لگی۔
اچھا نہیں بتانا چاہتی تو مت بتاؤ، لیکن اتنا مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ تم اس سے خوفزدہ ہو، اس سے چھپتی پھر رہی ہو۔۔۔۔ وہ جو کوئی بھی ہے، تم تک نہیں پہنچ پائے گا، تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا پائے گا۔۔۔۔
تم میرے گھر میں بالکل محفوظ ہو۔
تم بے ہوشی کے عالم میں بار بار اسکا نام لے رہی تھی بلکہ تم تو بہت سی باتیں کرتی رہی ہو جس سے مجھے یہی اندازہ ہوا۔
خیر اب تم ریلیکس ہو جاؤ۔
اسے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی تو باہر نکل گئی۔ دوسرا بچہ میرے پاس ہی بیٹھا، مجھے گھورے جا رہا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا اور کھیلنے لگی پچھکارنے لگی۔
وہ واپس آئی تو ایک چھ سات ماہ کا بچہ اسکی گود میں تھا، زین کو میری گود میں بیٹھے دیکھا تو اسکی چیخ ہی نکل گئی میں نے گھبرا کر بچے کو سائڈ پہ بیٹھا دیا ،نو۔۔۔ نو۔۔۔ نو۔۔۔ وہ خوشی سے باؤلی ہو رہی تھی۔۔۔
یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں رابی۔۔۔۔ زین تمہاری گود میں رویا نہیں، تم سے کھیل رہا تھا۔۔۔اسے ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا اور میں اسے پاگل سمجھنے لگی تھی۔
وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور زین کو پھر سے میری گود میں بیٹھا دیا اور وہ میرے اپر کی زپ کے ساتھ کھیلنے لگا۔ جو کہ ٹیڈی بئیر کی شکل کی تھی۔
تمہیں پتہ ہے رابی۔۔۔ اب تک کتنی ہی میڈ بدل چکی ہوں پر یہ بچہ کسی کے ساتھ سیٹ نہیں ہو پایا، میرے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتا حتیٰ کہ اپنے بابا کے ساتھ بھی نہیں کھیلتا۔۔۔ میں تو عاجز آ چکی، اسے دیکھنا اور پھر یہ عمر میاں۔۔۔ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر میں بھوک لگ جاتی ہے، کبھی کبھی دونوں بچوں کا باجا ایک ساتھ بجنے لگتا ہے تب مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی۔۔۔
اب تم کہیں نہیں جا سکتی، زین کو اسکی موسی (خالہ ) سنبھالے گی اور میں عمر کو۔۔۔۔ اوکے۔۔۔ ؟اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔
میرے دل میں اسکے لئے عقیدت کا جذبہ عود آیا، وہ کیا تھی کون تھی، اتنی جلدی اک انجان لڑکی پہ اعتبار کر لیا اسے اپنے گھر میں پناہ دی اور اب اپنا بچہ بھی سونپ رہی تھی۔۔۔۔ وہ جو بھی تھی میرے لیے اک فرشتہ ہی تھی۔
پھر میں نے بھی اسے اپنی کہانی سنا ڈالی۔۔۔ میرے دکھ کو اس نے بہت شدت سے سمجھا تھا یہ اسکے چہرے سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
میں اسی عالی دی کہنے لگی، میں نے اسکا گھر بہت اچھے سے سنبھال لیا، زین میرے ساتھ بہت خوش رہتا تھا، ماں کے پاس کم ہی جایا کرتا، شام میں میں اسے پارک بھی لے جایا کرتی تھی، عالی دی نے پہلے دن ہی مجھے عبایا لے دیا، اب میں گھر سے بے خوف و خطر نکل سکتی تھی مجھے جمیل سے کوئی خطرہ نہ رہا تھا۔۔۔ بلکہ کسی سے بھی نہیں رہا تھا میرے عبایا کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں خودبخود جھک جایا کرتی تھیں، مجھے عبایا میں بہت سکون محسوس ہونے لگا، میں نے اسے خود پہ لازم کر لیا۔
عالیہ مجھ سے بہت خوش تھی، میرا ہر طرح سے خیال رکھتی، اور گاہے بگاہے میرے ہاتھ پہ کچھ نہ کچھ رکھ دیا کرتی، تنخواہ کے نام پہ الگ ڈالر دیتی تھی۔۔۔ میں منع کرتی رہ جاتی، شرمندہ ہوتی رہتی پر وہ کسی طور باز نہ آتی تھی۔ میرا اسکے گھر میں دل لگ گیا تھا۔
وہ مجھے اپنے بارے میں بھی بتاتی رہتی تھی۔
اسکا نام عالیہ تھا اسکے والد انڈیا سے تھے، ننھیال سارا کینیڈا کا تھا، دونوں فیملیز ہی مسلمان تھیں۔ بابا یہاں آئے تو یہیں کے ہو گئے۔
ننھیال بہت امیر کبیر تھا، اسکے بابا نانا کے پاس جاب کرتے تھے اسکے ماما بابا ملے تو لو سٹوری شروع ہو گئی، ماما اپنے باپ کی بہت لاڈلی تھیں سو انکی بات ٹالی نہیں جا سکتی تھی، دونوں کی شادی ہو گئی اور پھر بابا نانا کے آدھے بزنس کے مالک بنا دئے گئے، دونوں نے خوشیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ماما کمپلیٹ ہاؤس وائف بن کر رہیں، شادی کے پانچ سال بعد عالیہ پیدا ہوئی۔ دونوں نے اپنی بچی کی اچھے سے پرورش کی۔۔۔ اسکے بعد مزید اولاد کی خواہش تھی پر شاید خدا کو منظور نہ تھا۔
اسکے بابا چار پانچ سال بعد انڈیا جایا کرتے تھے اپنی فیملی سے ملنے۔۔۔ ماما تو کبھی نہ گئیں پر اسے جانے کا کہتی تھیں۔ دو چکر اس نے بھی لگائے۔
عالیہ کا یونیورسٹی میں ارسل سے سامنا ہوا، ارسل اسے پہلی نظر میں ہی اچھا لگا۔ اور جب اسے معلوم ہوا کہ ارسل انڈیا سے ہے اور مسلمان ہے تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی ارسل سے ہی کرے گی، اسکا یقین تھا کہ وفا انڈیا والوں کے خون میں شامل ہوتی ہے۔۔۔۔ اسکے بابا کی مثال اسکے سامنےتھی وہ بھی اپنی ماں کی طرح خوبصورت، پیار بھری زندگی گزارنا چاہتی تھی۔۔۔ اس نے ارسل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔۔۔ وہ اچھے دوست بن گئے اور بہت جلد یہ دوستی محبت میں بدل گئی۔ اس نے اپنی ماں کو ارسل کے بارے میں بتا دیا تھا، پر ماں کی شرط تھی کہ پہلے وہ اپنی تعلیم مکمل کرے پھر اسکی شادی کے بارے میں سوچا جائے گا۔
اسکا یونیورسٹی کا آخری سال جا رہا تھا، ایک دن ماں اک کار ایکسیڈنٹ میں چل بسی۔۔۔ بابا ہر وقت روتے رہتے تھے، انہیں کسی طور چین نہ تھا۔
وہ عالیہ کی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہے تھے، جیسے ہی اسکی ڈگری مکمل ہوئی، بابا نے اسے بتایا کہ وہ اسکی شادی کر کے انڈیا لوٹ جانا چاہتے ہیں، یہاں اب ان کا جینا مشکل ہے۔۔۔۔
وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ اسکے بابا اپنی فیملی کے ساتھ کچھ وقت گزاریں کہ شاید انکی حالت بہتر ہو جائے، تب اس نے بابا کو ارسل کے متعلق بتا دیا۔
ارسل اسکے والد کو بھی پسند آیا اور یہ بات انکے لئے زیادہ تسلی بخش تھی کہ ارسل بھی انڈیا سے تھا۔ سو جلد ہی اسکی شادی ہو گئی اور اسکے بابا انڈیا چلے گئے۔
میں نے ارسل کو دیکھا، وہ واقعی بہت اچھا شوہر تھا۔ اس نے بیوی کے کاروبار کو بہت اچھے سے سنبھال رکھا تھا، اسکے رشتے داروں سے بہت اخلاق سے پیش آتا۔ بیوی کی ہر ممکن ہلپ کرتا، حتی کہ میں نے اسے عالیہ کے پیر دباتے بھی دیکھا عالیہ بھی اسکا ہر طرح سے خیال رکھتی، اسکے سب کام خود کرتی۔ دونوں اک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے تھے، اسے دیکھ کر مجھے تم یاد آتے، خیال آتا ہم دونوں بھی گر ایک ہو جاتے تو ایسی زندگی ہی جی رہے ہوتے۔
رابی نے رک کر پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا۔
اتنے سال بعد تمہیں واپسی کا خیال کیسے آیا۔۔۔ میں بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
آنا پڑا۔۔۔۔ جہاں رہتی تھی وہ گھر اجڑ گیا تو آنا پڑا۔۔۔۔ کہ اب اس جیسی چھت مجھے پھر کہیں میسر نہیں آ سکتی تھی تو سوچا۔۔۔ پاکستان ہی چلی آؤں۔
سوچا گھٹ گھٹ کر مروں گی تو کم از کم جان اپنوں کی بانہوں میں تو نکلے گی ناں۔۔۔ یہاں مری تو کسی کو خبر تک نہ ہو گی۔
رابی نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔