رابی۔۔۔۔
کار ریسٹورنٹ کے سامنے روک کر میں نے اسے آواز دی۔
اس نے آنکھیں کھول دیں۔ باہر گھر نہ دیکھ کر اسکی سوالیہ نگاہیں میری طرف اٹھیں۔
سوچا لنچ کرتے چلیں۔۔۔۔ میں منمنایا۔
وہ خاموشی سے اتر گئی۔
اسکے پردے کا خیال کرتے ہوئے میں نے ایک طرف ٹیبل لیا، یہاں ہر آتے جاتے کی نظر نہیں پڑتی تھی۔
رابی سر جھکائے بیٹھی تھی، کیا لو گی۔۔۔۔ میں نے مینو اسکی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
جو مرضی منگوا لو۔۔۔۔ اب تو اپنی مرضی کا کھانے کی عادت ہی نہیں رہی۔۔۔ اس نے ٹیبل کی سطح پہ غائبانہ کچھ لکھتے ہوئے کہا۔
میں نے خود ہی آڈر دے دیا، اسے چائنیز پسند تھا سو آج اسے اسکی پسند کا چائنیز کھلانے کا سوچا، حالانکہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہ تھا پر اسکی خوشی میرے لیے ہمیشہ ہی مقدم رہی تھی۔۔۔۔ بس ایک بار اسکی خوشی کو پس پشت ڈالنا پڑا کہ مجھے اپنے اوپر کئے گئے احسانوں کا بدلہ چکانا تھا۔اور اج تک پچھتا رہا تھا۔
تم سناؤ، کیسی گزر رہی۔۔۔۔ شادی کر لی، کتنے بچے ہیں۔۔۔۔ وہ اپنے موڈ کو سنبھال چکی تھی اور اب مسکرا کر پوچھ رہی تھی۔
میں جو اب تک اسے گھور رہا تھا، نقاب تھوڑا سرکا لینے کے باعث اب اسکی آنکھیں دکھائی دینے لگی تھیں، میں ان میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔،اسکے سوال پہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔
کسی کا دل توڑا تھا بس اسکی بد دعا ہے، تنہائی کی سزا کاٹ رہا ہوں۔۔۔۔ میں نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
قسم لے لو میں نے کبھی تمہیں بدعا نہیں دی، وہ بے ساختہ کہہ گئی۔
میں مسکرا دیا۔
میری چھوڑو۔۔۔۔۔ تم سناؤ۔۔۔۔ کیسی رہی پردیس۔۔۔۔ میں اسکے آنسوؤں کی وجہ جاننے کے لیے بے قرار تھا۔
کھانا آ چکا، وہ خاموشی سے اپنے لئے ڈالنے لگی، میرے سوال کا جواب نہیں دیا، دینا نہیں چاہتی تھی یا شاید الفاظ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔
میں ہنوز بیٹھا اسے تک رہا تھا۔
اماں کیسی ہیں۔۔ ۔۔ اس نے ٹالنے کو پوچھا۔
پتہ نہیں ٹھیک ہی ہوں گی۔۔۔۔ بیس دن ہو گئے، ملنے نہیں گیا،
میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔ تم اماں کے ساتھ نہیں رہتے۔۔۔۔ ؟؟؟ اس نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔ وہ گھر تمہارے جانے کے اگلے روز ہی چھوڑ دیا تھا، ایک رات نے ہی مجھے یہ سمجھا دیا تھا کہ تمہارے بغیر وہاں رہنا ممکن نہیں۔۔۔۔ ہر سو تم ہی تم نظر آتی تھی، تمہاری آوازیں سارے گھر میں گونجنے لگی تھیں۔۔۔۔ رات بھر ایسا لگتا رہا کہ تم مجھے پکار رہی ہو۔۔۔۔ تمہاری خوشبو نے مجھے گھیر رکھا تھا۔۔۔۔ بس پھر میری ہمت جواب دے گئی۔ اگر چند روز بھی وہاں رہ جاتا تو پاگل ہو جاتا۔
میں نے گھر چھوڑ دینے میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔
اور پھر وہاں رہتا تو خالہ کے مزید احسانوں تلے دب جاتا، پہلے ہی ان کے احسانوں کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی تھی، اب مذید کا متحمل نہ تھا۔۔۔۔ جانے پھر کس موڑ پہ وہ صلہ مانگ لیتیں، اور اب تو قربان کرنے کو میرے پاس کچھ بچا ہی کہاں تھا۔۔۔۔ میں نے گہری سانس خارج کی اور پھر سے اسے گھورنے لگا۔
، آنسو اسکے رخساروں پہ بہہ رہے تھے اور وہ ان سے بے نیاز کھانا شروع کر چکی تھی اور میں ویسے ہی ہاتھ پہ ٹھوڑی ٹکائے اپنے سوال کے جواب کے انتظار میں بیٹھا تھا، اس نے میری طرف دیکھا، سمجھ گئی کہ میں ایسے نہیں ٹلنے والا۔
ماں نے ایک ولن کا کردار نبھایا، دو محبت کرنے والوں کو بلیک میل کیا اور مستقبل میں فاقوں سے ڈرانے کی کوشش کی۔ خدا گواہ ہے کہ فاقوں کے ڈر سے نہیں، محبت کے تقاضے پورے کرنے کو ہاں کی۔۔۔۔ تمہارے کہنے پہ ہاں کر دی،
ماں کا بھرم رکھنا بھی ضروری تھا۔۔۔ جو بھی کر رہی تھیں۔۔۔ آخر ماں تو تھی ناں۔۔۔۔
رابی نے آنکھ کے کنارے سے آنسو گرنے سے پہلے ہی چن لیا۔
سارا سفر روتی رہی، تمہیں پتہ ہے ناں مجھے انگریزوں کے دیس دیکھنے کا کتنا شوق تھا، جہاز میں بیٹھ کر باہر کے نظارے کرنا میرا خواب تھا۔۔۔۔ پر سارا سفر روتی رہی، تمہیں پکارتی رہی، اک بار بھی شیشے کے پار نہ دیکھ پائی کہ مناظر دھندلا چکے تھے۔
ائیر پورٹ پہ میرے استقبال کے لئے ڈرائیور کو بھیجا گیا تھا، تب مجھے پاکستان میں لڑکی کی رخصتی اور استقبال کے مناظر بہت شدت سے یاد آئے۔۔۔۔۔
یہ وقت لڑکی کو ساری زندگی یاد رہتا ہے۔۔۔ اور میری بد نصیبی کہ نہ پیار ملا نہ عزت۔۔۔۔۔۔ لال جوڑے میں رخصت ہونا چاہتی تھی، نہ ملا، جس کے ساتھ رخصت ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔ نہ ملا۔۔۔۔۔۔
نصیب اپنا اپنا۔۔۔
ڈرائیور کے ساتھ گھر آئی، اس نے باہر سے ہی اندر جانے کا راستہ دکھا دیا، مجھے لینے باہر کوئی نہیں آیا۔
جیسے جیسے میرے قدم دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے دل کی دھڑکن تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔
پسینے سے تر ہاتھوں سے میں نے ہینڈل گھمایا۔۔۔ اندر قدم رکھا تو کوئی دکھائی نہیں دیا۔
میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آگےبڑھنے لگی۔
اک عورت کمرے سے باہر نکلی تو میری طرف چلی آئی۔۔۔۔۔ یو۔۔۔۔۔ رابی۔۔۔ اس نے ذہن پہ زور دیتے ہوئے پوچھا۔
میں صرف سر ہلا پائی۔
اوووو کونگریجولیشن۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم جمی مام۔۔۔۔ اس نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔
لیٹس کم۔۔۔۔ وہ مجھے ایک طرف لے گئی، دروازہ پہ دستک دی۔
یس کم ان۔۔۔۔ اندر سے آواز آئی۔
اندر داخل ہوئے تو اک شخص صوفے پہ براجمان کوئی انگلش فلم دیکھ رہا تھا۔۔۔۔نائٹ بلب نے کمرے کا ماحول خوابناک بنا رکھا تھا۔۔۔۔ یہ کمرہ اچھا خاصا بڑا تھا،کمرے کے دو حصے تھے ایک طرف بیڈ، ڈریسنگ،الماری اور دوسرے حصے میں صوفے، میز اور دیوار پہ آویزاں بڑی سی LCD۔۔۔۔ فرنیچر، ڈیکوریشن۔۔۔۔۔۔ ہر چیز سے امارت جھلک رہی تھی۔
میری ساس نے سوئچ آن کیا تو کمرہ روشنی میں نہا گیا، جمی۔۔۔۔۔ لیٹس سی۔۔۔۔ رابی از ہیر۔۔۔۔۔
روشنی میں اسکا چہرہ دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ جمیل نواز تھا۔۔۔۔ بہت روشن چہرہ، پر وقار شخصیت۔۔۔۔ بالکل اک شہزادے سا ۔۔۔۔۔
تم سے محبت نہ ہوئی ہوتی تو اسے پہلی ہی نظر میں دل دے بیٹھتی۔۔۔۔ رابی نے مسکرا کر کہا۔
اس لمحے اسکی مسکراہٹ زہر لگی اور میں بے چینی سے کروٹ بدل گیا۔
ساسو ماں مجھے وہاں چھوڑ کر چل دیں، میں گھبراہٹ کے مارے وہیں دروازے کے پاس کھڑی رہی، سب بہت عجیب لگ رہا تھا۔ آ جاؤ، وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔۔ جمیل نے بہت شائستگی سے کہا۔ میں بھی صوفے پہ بیٹھ گئی،حلق یکدم خشک ہو گیا، پیاس سے کانٹے چھبنے لگے، عجیب لوگ ہیں، پانی بھی نہیں پوچھا، اتنا لمبا سفر کر کے آئی ہوں۔۔۔۔۔ میں سر جھکائے کڑھنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میرا سامان بھی کمرے میں آ گیا اور کھانے کی ٹرے بھی۔۔۔۔ میں چینج کرنے چلی گئی۔۔۔ واپس آئی تو ملازم ایک برتن میں جمیل کے ہاتھ دھلا رہا تھا، مجھے امیری کا یہ انداز بھی بہت عجیب لگا۔
دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔۔۔ کھانے کے بعد، میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا، کیسا رہا سفر۔۔۔۔ اس نے اسی طرح سر جھکائے پوچھا۔
ٹھیک۔۔۔۔۔۔ میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
گڈ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اب ہمیں ایک دوسرے سے کچھ ضروری باتیں کر لینی چاہیے۔۔۔۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
میرے بارے میں تو آپ کو سب بتا دیا گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔ اس کی اس بات پہ میں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا، مجھے اس کے بارے میں سوائے نام کے کچھ نہیں معلوم۔۔۔۔۔ میری آنکھوں میں صاف لکھا تھا اور وہ پڑھ بھی چکا تھا پھر میں نے اسے کسی کشمکش میں مبتلا دیکھا۔۔۔
_______
میرے سوال کا جواب الفاظ میں نہیں دے سکا تو صوفے کے پیچھے سے بیساکھی نکال کر دکھاتے ہوئے کہنے لگا، یہ ہے میری حقیقت۔۔۔۔۔
میری حالت ایسی ہو گئی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔ میری نظریں اسکی ٹانگوں پہ گڑھ سی گئیں۔۔۔۔بظاہر اتنے مکمل انسان میں اتنی بڑی کمی۔۔۔۔ دیکھنے میں پرنس اور بات چیت میں بھی شگفتہ لہجہ۔۔۔۔ کسی کا بھی دل جیت سکتا تھا۔۔۔
زندگی کے ابھی اور جانے کتنے امتحان باقی ہیں، میرے اعصاب تن سے گئے۔۔۔ دل چاہا کہ ہر شے کو ٹھوکر مار کر چلی جاؤں۔۔۔ زندگی کی اس آزمائش کو جھیلنے سے انکار کر دوں۔۔۔۔
ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں میری ٹانگیں ضائع ہو گئی تھیں۔۔۔۔ جمیل کی آواز کی نمی نے میرے سب ارادے ملیا میٹ کر دئیے میرا غصہ ہوا ہو گیا۔۔۔
میں نے ممی کو بہت کہا تھا کہ مجھے شادی نہیں کرنی پر وہ نہیں مانیں، وہ ماں ہے ناں۔۔۔ مجھے ہنستا بستا دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔۔ انہوں نے پاکستان اپنے رشتے داروں کو لڑکی دیکھنے کا کہہ دیا، وہ جانتی تھیں کہ پاکستانی لڑکیاں رشتے نبھانا جانتی ہیں۔۔۔ بہت حوصلہ ہمت والی ہوتی ہیں اور قربانی دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
جب ممی نے بتایا کہ رشتہ طے کر دیا گیا ہے، تمہاری تصویر دیکھی تو بس پھر منع نہیں کر پایا۔ لیکن ممی کو زور دیا کہ اسے میرے بارے میں سب کچھ بتا دیں، میں اپنی خوشی کی خاطر کسی معصوم پہ ظلم نہیں کر سکتا۔۔۔ اگر وہ خوشی سے راضی ہو جائے تو ٹھیک نہیں تو۔۔۔۔۔ جمیل نے رک کر اپنے آنسو صاف کئے، بات ادھوری چھوڑ دی۔
اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے دباتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیا سوچ رہی ہیں۔۔۔۔ لیکن التجا ہے کہ میرے بارے میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے گا ضرور۔۔۔۔ جب تک آپ اچھی طرح سے راضی نہیں ہو جاتی، تب تک میں دوسرے کمرے میں شفٹ ہو جاتا ہوں، میں زبردستی کا قائل نہیں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا میرا شیوہ نہیں۔۔۔۔۔ اس نے سر جھکائے ہوئے کہا اور میز پہ پڑی بیل بجا دی۔ چند لمحوں میں ملازم اسکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا، مجھے دوسرے کمرے میں لے چلو۔۔۔۔
وہ جا رہا تھا۔۔۔۔ میری آنکھیں برس رہی تھیں، دل چاہا کہ اسے روک لوں۔۔۔ میرا دل فیصلہ کر چکا تھا کہ اب اپنی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تو کسی کی دل کی خوشی ہی پوری کر دی جائے شاید رب یونہی مجھ سے راضی ہو جائے، دل چاہا کہ اسے روک لوں۔۔۔۔
پھر خیال آیا کہ اتنی جلد بازی بھی اچھی نہیں۔۔۔ خود کو روک لیا، اسے جانے دیا۔
میں کمرے میں ٹہلنے لگی، اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرنے لگی،واپسی کا راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا، وہ رکنا بھی اتنا آسان نہ تھا، ایک اپاہج کے ساتھ ساری زندگی بیتانے کا فیصلہ بعد میں میرے لیے پچھتاوا بھی بن سکتا تھا، میں جذباتی ہو کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ ٹہل ٹہل کر میرے پاؤں شل ہونے لگے، پہلے ہی اتنا سفر کر کے آئی تھی اور آتے ہی اتنی بڑی مصیبت۔۔۔۔۔ سوچتے سوچتے، دماغ کام کرنا چھوڑ گیا، حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔۔۔ میں نے پانی کے لئے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو اتنے بڑے کمرے میں پانی تھا ہی نہیں۔۔۔ کتنے عجیب لوگ ہیں، میں نے ذرا تلخی سے سوچا۔ پیاس اس قدر تھی کہ مجھے باہر نکلنا پڑا جو کہ میں نہیں چاہتی تھی، خیر میں باہر آئی، دھیرے دھیرے چلتی کچن تلاش کرنے لگی۔۔۔۔ سب دروازے بند تھے، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کچن کونسا ہے۔۔۔۔ ایک کمرے کا دروازہ کھولا کھلا ہوا تھا، میں سمجھی کہ یہی کچن ہے، میں اندر داخل ہونے لگی تو میرے قدم رک گئے کہ اندر سے جمیل کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔ ممی آپ بالکل پریشان نہ ہوں، وہ کہیں نہیں جائے گی، میں نے اتنی زبردست ایکٹنگ کی ہے اور اتنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ صبح خود چل کر میرے پاس آئے گی، یہ چڑیا ہاتھ سے نہیں جائے گی، یہ ڈن ہے۔۔۔۔۔ بس آپ اگلے پلان کی تیاری کریں، ہمارا کام ہو جائے، پھر بھلے یہ جہاں مرضی جائے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔۔۔۔ پولیس کے ہاتھ لگتی ہے تو لگتی رہے۔۔۔۔ اس کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہو گا جس سے یہ مجھے اپنا شوہر ثابت کر سکے۔۔۔
اس کی باتیں میری جان نکال چکی تھیں۔۔۔۔ میں بہت مشکل خود کو کمرے تک لے کر گئی، اب مجھے بہت محتاط رہنے کی ضرورت تھی، میں نے دروازہ لاک کر لیا۔۔۔۔ اور بچاؤ کی کوئی صورت سوچنے لگی،یہ تو سمجھ آ چکی تھی کہ یہ لوگ کریمینل تھے اور یہاں رہ کر میرا بچنا ممکن نہ تھا یہ لوگ جانے کس پلان میں مجھے یوز کرنے والے تھے۔۔پر اب مجھے کیا کرنا چاہیے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی،
گیٹ پہ چوکیدار ہر وقت موجود رہتا تھا، کسی کا چھپ کر اندر باہر ہونا ممکن نہ تھا۔۔۔ یا اللہ میری مدد فرما۔۔۔ میں غیبی مدد کی امید لگا کر بیٹھ گئی۔
وقت تیزی سے بیت رہا تھا۔۔۔ اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، جب ہمت جواب دے گئی، پیاس سے مرنے کی سی کیفیت ہو گئی تو میں واش روم کی طرف بڑھ گئی، وہاں بیسن کی ٹونٹی سے پانی پی کر اپنے حواس درست کئے۔ پلٹی تو میری نگاہ غیر معمولی روشن دان کی طرف گئی، یہ خاصا کشادہ تھا ۔میں قریب گئی تو دیکھا اس میں کسی قسم کی جالی نہ تھی لکڑی کا صرف ایک چوکٹا سا تھا جسے ہنڈل سے آرام سے کھولا جا سکتا تھا اور آج آدمی آرام سے اس میں سے گزر سکتا تھا۔۔۔ میں نے بہت احتیاط سے کموڈ پہ کھڑے ہو کر باہر جھانکا تو میری باچھیں کھل گئیں، مجھے اس لمحے رب پہ بہت پیار آیا۔۔۔۔۔ یقیناً یہ جمیل میاں نے اپنے لئے چور دروازہ بنا رکھا تھا، جب کوئی ایمرجنسی ہوتی ہو گی وہ یہاں سے ہی فرار ہوتا ہو گا۔۔۔۔ یہ چور دروازہ گھر کے پچھلی طرف تھا اور سیدھا سڑک پہ اتارتا تھا۔۔۔۔
میرا سامان کافی تھا، سارا لے کر نہیں جایا جا سکتا تھا، اس وقت سامان سے زیادہ اپنی جان اور عزت کی فکر تھی سو میں نے پھرتی سے ایک چھوٹے بیگ میں ضروری پیپرز اور ضرورت کی چیزیں ڈالیں، اٹیچی میں اک چھوٹا پرس نظر آیا، جو کہ میرا نہیں تھا۔۔۔۔۔ یہ میرے پاس کیسے آیا، کس کا ہے، اس میں کیا ہے، یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا سو اسے ویسے ہی اپنے بیگ میں رکھ لیا، روشن دان سے باہر سڑک پہ اتر گئی ، اور پھر اک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا، مجھے اس اندھیرے کا فائدہ اٹھانا تھا، روشنی پھیلنے سے پہلے پہلے اس علاقے سے دور جانا تھا، میں اندھا دھند بھاگے جا رہی تھی، سانس بری طرح پھول رہی تھی، سینے میں رہ رہ کر اک ٹیس سی اٹھنے لگی تھی۔۔، میری ناک یخ ہو چکی تھی، گھر کے اندر سردی کا احساس نہیں ہو رہا تھا پر باہر اچھی خاصی سردی تھی اور میں کچھ خاص انتظام بھی نہیں کر کے نکلی تھی۔ ۔۔۔ دور مجھے اک اسٹیشن دکھائی دیا۔۔۔وہاں کچھ لوگ بھی دکھائی دے رہے تھے اندھیرا چھٹنا شروع ہو چکا تھا کچھ ہی دیر میں روشن صبح نمودار ہونے والی تھی، میں منہ چھپا کر فارم کے ایک بنچ پہ بیٹھ گئی اور ٹرین کی روانگی کا انتظار کرنے لگی، کچھ ہی دیر میں میں نے لوگوں کو ٹرین میں سوار ہوتے دیکھا تو میں بھی اندر گھس گئی اور یونہی منہ چھپائے بیٹھی رہی، میرا دل بری طرح ڈرا ہوا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین فل ہو گئی۔۔۔۔ بس چلنے ہی والی تھی کہ کسی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا، میرا کلیجہ منہ کو آ گیا۔۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا، لگا کہ مڑ کر دیکھا تو پتھر کی ہو جاؤں گی پر حقیقت سے منہ بھی تو نہیں موڑا جا سکتا ناں۔۔۔۔ مڑ کر دیکھا تو ایک خوش شکل لڑکی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔ میم ٹکٹ پلیز۔۔۔۔
میری جان میں جان آئی، یہ اتنی بڑی مصیبت نہیں تھی جتنی میں سمجھی تھی۔۔۔۔ پر تھی تو اک مصیبت ہی، مجھے لگا کہ اب مجھے ٹکٹ نہ ہونے پہ وہ اتار دے گی اور ایسا میں کسی طور افورڈ نہیں کر سکتی تھی میں نے اپنے بیگ میں جھانکنا شروع کر دیا، چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔۔۔ اسے لگا کہ میں ٹکٹ دھونڈ رہی ہوں، وہ آگے بڑھ گئی، میں نے گہری سانس خارج کی، میرا خیال تھا کہ اب وہ واپس نہیں آئے گی پر تھوڑی دیر بعد وہ پھر سے میرے سر پہ کھڑی تھی۔۔۔ اب میرے پاس سچ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔
نو منی نو ٹکٹ۔۔۔۔۔ میں بمشکل اتنا ہی کہہ پائی کہ آواز روند گئی، آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔۔
اٹس اوکے، اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا اور دوسری طرف چلی گئی۔
لڑکی تھی ناں، شاید اس لیے میری مجبوری سمجھ گئی۔۔۔۔ اور میں نے اسے دل ہی دل میں بہت دعائیں دیں۔۔
ٹرین کہاں جا رہی تھی مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔۔۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ میں نے اپنا سفر شروع کہاں سے کیا تھا۔
رات بھر کی جاگی ہوئی تھی پتہ نہیں کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔۔۔۔ اور جانے کب تک سوتی رہی۔۔۔ آنکھ کھلی تو ٹرین رکی ہوئی تھی اور لوگ اتر رہے تھے۔۔۔۔
میں بھی جلدی سے اتر گئی۔۔۔ میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوں، کچھ معلوم نہ تھا۔۔۔۔ ہر طرف لوگوں کا اک سیلاب دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے ایک طرف کو چلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ مجھے کہاں جانا ہے، کچھ معلوم نہ تھا۔۔۔۔ نہ رستہ دکھائی دے رہا تھا ناں منزل کا پتہ۔۔۔۔
بھوک کا احساس ہوا تو سر گرا کر سڑک کنارے بیٹھ گئی۔۔۔ کیا کروں۔۔۔۔ یا اللہ اس بھوک کا کیا کروں۔۔۔۔ بھوک تو مجھ سے کبھی بھی برداشت نہیں ہوا کرتی تھی۔۔۔۔ جسم بےجان سا ہونے لگتا تھا۔۔۔ اب بھی یہی حالت ہو رہی تھی۔ میں نے بھوک کے احساس کو کم کرنے کے لیے پیٹ دبا رکھا تھا۔۔۔
پیسے میرے پاس تھے پر پاکستانی کرنسی۔۔۔ اس رقم کا کیا کرنا چاہیے، کیسے تبدیل ہو گی، مجھے معلوم نہ تھا۔
اک سکہ میری گود میں گرا تو میری سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔۔۔ میں اسے ہاتھ میں لئے گھورنے لگی کہ یہ کیا ہے کوئی مجھے بھیک دے گیا۔۔۔
جن فاقوں کے ڈر سے مجھے یہاں بھیجا تھا وہ یہاں میرے منتظر تھے، جو قسمت میں لکھ دیا جائے وہ ہو کے ہی رہتا ہے، چاہے آپ کینیڈا ہی کیوں نہ چلو آؤ۔۔۔ میں نے تصور میں ماں سے مخاطب ہو کے کہا۔
گھنٹے بھر میں ہی کافی سکے جمع ہو گئے۔
میں انہیں لے کر چل پڑی کہ کہیں سے کچھ لے کر کھا لوں، قریب ہی مجھے ایک سٹور نظر آ گیا۔
کچھ بسکٹ اور کچھ ٹافیاں لے لیں کہ ٹافیاں چوستے رہنے سے بھوک کا احساس کم ہو گا۔۔۔
باہر نکلی تو اک لڑکی گزرتے گزرتے اک کافی کا کپ پکڑا گئی، اسکے اس انداز پہ حیران اور رب کی اس عطا پہ شکر بجا لائی۔۔۔ میرے لیے اس وقت یہ کافی کا کپ اور چند بسکٹ کسی من و سلویٰ سے کم نہ تھے۔
جیسے جیسے دن ڈھل رہا تھا سردی کا احساس بڑھ رہا تھا اس سردی میں کافی کا کپ۔۔۔۔ زندگی کی نوید کا سا تھا۔ سامنے ایک پارک تھا، میں وہاں جا کے بیٹھ گئی۔۔۔ کندھے سے لٹکتا بیگ اتار کر سائڈ پہ رکھ دیا اور اپنا من و سلویٰ انجوائے کرنے لگی۔۔۔
طبیعت کچھ سنبھلی تو سوچنے لگی کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے، پہلا خیال یہی آیا کہ واپس پاکستان چلی جاؤں۔۔۔ پر اس خیال کے ساتھ ہی ماں کا جھکا ہوا سر آنکھوں کے سامنے آ ٹھہرا۔۔۔۔۔ بس مجھ سے ماں کی وہ شرمندگی دیکھی نہیں گئی۔۔۔۔ میں پاکستان آ جاتی تو ماں شاید پھر کبھی سر اٹھا کر نہ جی پاتی اور مجھ سے یہ کب دیکھا جانا تھا سو اس آپشن کو سرے سے ہی چھوڑ دیا۔
اب اگلا سوال کہ پھر کیا کیا جائے۔۔۔۔۔وہی جو اتنے بڑے شہر میں باقی کے لوگ کر رہے ہیں۔۔۔۔ میں اس وقت کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورونٹو میں تھی یہ مجھے اسی سٹور سے پتہ چلا تھا۔۔۔۔ جتنا بڑا شہر ہے، کام کے مواقع بھی اسی قدر ہوں گے میں نے خود کو تسلی دی۔
شام ہونے کو آ گئی۔۔۔ رات۔۔۔ سر پہ تھی۔۔۔ مطلب اک آزمائش اور۔۔۔۔ پاکستان میں یوں گھر سے باہر کھلے آسمان تلے تنہا رات گزارنے کا کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور اب دو دن بعد ہی میں یوں رات گزارنے پہ مجبور۔۔۔۔۔۔ ہائے میری ماں۔۔۔ تو انجانے میں مجھ پہ کتنا بڑا ظلم کر بیٹھی ہے۔۔۔ تو تو مجھے یہاں بھیج کہ پر سکون ہو گئی ہے کہ تیری بیٹی عیش کر رہی ہے اور میں یہاں روٹی کے چند لقموں اور اک ٹین کی چھت کو بھی ترس رہی ہوں۔۔۔۔
میری آنکھیں برس رہی تھیں اور مستقبل کے اندھیرے مجھے ڈرا رہے تھے۔۔۔
پارک خالی ہو گیا۔۔۔ ہوتے ہوتے رونق بھی کم ہونے لگی۔۔۔ بالکل خاموشی نہیں ہو رہی تھی اور یہی بات مجھے حوصلہ دے رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اسی بینچ پہ اپنے بیگ کو تکیہ بنایا اور لیٹ گئ۔