ضروری نہیں کہ سب خواب پورے بھی ہو جائیں، ضروری نہیں کہ سب کچھ ہمارے پلان کے مطابق ہو۔۔۔ اللہ کے پلان ہم انسانوں کے پلان سے بہتر ہوتے ہیں۔۔۔۔
جب کوئی راہ سجھائی نہ دے تو خود کو وقت کے دھارے میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن ساری زندگی بہتر وقت کے انتظار میں نہیں بیتائی جا سکتی۔۔۔۔ کچھ کام کرنے پڑتے ہیں کہ اگر دیر ہو جائے تو کبھی کبھی بہت زیادہ دیر ہو جایا کرتی ہے اور پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔۔
میں نے بھی آج بہن بینا کو اک بہت بڑی ذمہ داری سے آزاد ہونے کے لیے بلایا تھا۔۔
میں نے رابی کے لیے جو سوچا تھا، شاید ٹھیک نہیں سوچا تھا۔۔۔۔
خالہ جو اب تک سر جھکائے بول رہی تھیں، نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا، میں بت بنا انہیں ہی تک رہا تھا۔۔۔۔ وہ کیا کہنے جا رہی ہیں میں سمجھ رہا تھا، پر انکا بولنا بھی ضروری تھا۔۔۔۔ میری پتھرائی آنکھوں نے انہیں نظریں جھکانے پہ مجبور کر دیا تھا۔
رابی کے لیے دو رشتے آئے ہیں، ایک ساتھ والے محلے کا ہے، کریانے کی دکان چلاتا ہے، بی اے پاس ہے، گھر بار اپنا ہے۔۔۔۔
دوسرا سمندر پار کا ہے۔۔۔۔ وہاں اپنا بزنس ہے۔۔۔ شاید کوئی ریسٹورنٹ چلاتا ہے، ساری فیملی وہیں ہے، بہو پاکستان کی چاہتے ہیں پر پڑھی لکھی ہو۔۔۔۔
دو تصویریں میری طرف بڑھا دی گئیں۔۔۔۔ میں نے تھامنا چاہی پر ہاتھوں نے ساتھ نہ دیا۔
خالہ نے میرے سامنے رکھ دیں، امید ہے تم اچھا مشورہ دو گے۔
ویسے میری خواہش ہے کہ وہ سمندر پار چلی جائے، ساری زندگی میری بچی نے جن محرومیوں کو جھیلا ہے میں چاہتی ہوں ان کا ازالہ ہو جائے۔۔۔جو خوشیاں اور آسائشیں میں اسے نہیں دے سکی وہ اسے اب ضرور ملنی چاہیے، وہاں چلی جائے گی تو ایک تو پر آسائش زندگی میسر آ جائے گی، سب محرومیاں دور ہو جائیں گی، روپے پیسے کی تنگی کی وجہ سے جو شوق پورے نہ کر پائی، اب جی بھر کر ارمان نکال سکے گی۔۔۔۔ دوسرا یہ کہ۔۔۔۔ کہتے کہتے خالہ خاموش ہو گئیں، پر میں انکی بات بن کہے ہی سمجھ گیا۔۔۔
دوسرا یہی کہ خالہ کا خیال تھا کہ وہ دور چلی جائے گی تو ہم نارمل زندگی جی پائیں گے، ایک دوسرے کی نظروں کے سامنے رہے تو کبھی بھی اپنے گھر نہیں بسا پائیں گے۔۔۔۔
خالہ کی بات میں کتنا دم تھا، یہ کوئی بھی نہیں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔
چلو صبح تم سے ملتی ہوں، تم بھی سوچ بچار کرو، آخر رابی تمہاری بھی کچھ لگتی ہے،۔۔۔۔۔ خالہ اٹھ کر چلی گئیں۔
رابی میری کیا لگتی ہے، وہ میرے لیے کیا ہے، یہ آپ کو اندازہ ہوتا تو آپ کبھی بھی مجھ سے یہ بات نہ کرتیں خالہ جان، میں صرف بڑبڑا کر رہ گیا۔
کپکپاتے ہاتھوں سے دونوں تصویریں اٹھائیں، ایک میں اک عام سا لڑکا کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔ جبکہ دوسری میں اک ہینڈسم سا مرد صوفے پہ براجمان تھا، بہت پر کشش شخصیت کا مالک، اسے دیکھ ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہی ہے وہ دولت مند شخص جس کے ہاتھوں خالہ مجھے زندہ درگور کرنے کا سوچ رہی ہیں۔
مجھے یونہی بیٹھے بیٹھے رات ہو گئی، میں باہر نہیں نکلا، بس بیٹھا اپنی ناکام محبت کا سوگ مناتا رہا۔
مجھے باہر سے رابی کے اونچا اونچا بولنے کی آوازیں سنائی دیں، پھر خالہ کو بھی غصہ کرتے سنا ۔۔۔۔ میں باہر نکل آیا،
میں تمہاری ماں ہوں، تمہارے لیے تم سے بہتر سوچ سکتی ہوں، سمجھی تم۔۔۔
میں مجبور تھی تمہیں ساری زندگی وہ آسائشیں نہیں دے سکی، جن کی تم حقدار تھی ، پر اب تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے تمہیں باقی کی زندگی بھی ترسنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔ وہ تمہیں خوشحال زندگی نہیں دے سکتا، تم اس سے بھی بدتر زندگی جیو گی جیسی کہ گزار چکی ہو۔۔۔
سال بھر ہو چلا اسے نوکری نہیں ملی اور جانے کب تک نہ ملے۔۔۔
خالہ نشتر پہ نشتر چلا رہی تھیں۔۔۔
میں پیار کرتی ہوں اس سے۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔ اک زور دار تھپڑ رابی کے گالوں پہ پڑا تھا، اور چھناکے سے میرے سینے میں کچھ ٹوٹا اور گرم گرم سیال جو کہ پہلے ہی میرے گالوں پہ بہہ رہا تھا، مذید تیزی سے بہنے لگا تھا۔۔۔۔
زندگی صرف پیار کے سہارے نہیں گزاری جا سکتی، خالی پیٹ تو محبت بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت پڑتی ہے، محبت کے ڈائلاگ سے بھی کبھی پیٹ بھرا ہے۔۔۔ نادان لڑکی
خالہ نے اسکی عقل پہ ماتم کیا۔
وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھے، شکائتی نظروں سے ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
دیکھتی ہوں کیسے کرتی ہیں آپ کسی اور سے میری شادی۔۔۔۔ وہ دھمکی دے کر پیر پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں گھس گئی۔ جاتے جاتے اک خفا سی نگاہ مجھ پہ بھی ڈال گئی۔۔۔۔
اسکا خفا ہونا بنتا تھا، میں جو اس سے سچی محبت کا دعوےدار تھا، خالہ سے اک بار بھی منت نہیں کی، کبھی ڈھکے چھپے لفظوں میں بھی اسکا ہاتھ مانگنے کی جرآت نہ کی۔
اور تو اور وہ میرے ہاتھ میں تصویر تھما آئیں اور میں نے احتجاج تک نہ کیا۔
ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی اور مجھے یقین ہے کہ اس رات کوئی بھی نہ سویا ہو گا۔
صبح دس بجے تک کمرے سے نہ نکلا، کہ کسی کا سامنا کرنے کا حوصلہ تھا نہ من۔۔۔
بلال کا فون آ گیا، یار انکل خالد کی کمپنی میں ویکینسی آئی ہے، تم آج ہی آ جاؤ، میں نے ان سے تمہاری بات کی ہے۔۔۔
اوکے کہہ کر میں تیار ہونے کے لیے اٹھ گیا۔
بلال سے بھی نوکری کے لئے کہہ رکھا تھا، اسکے اپنے بابا کی کمپنی میں کوئی ویکینسی نہ نکل سکی تھی اور جو لوگ کام کر رہے تھے وہ کم و بیش پندرہ بیس سال پرانے تھے اُنہیں ہٹا کر بھی کوئی جگہ نہیں بنائی جا سکتی تھی۔۔۔ بلال نے بہت معذرت کی تھی۔۔۔۔ پر وعدہ کیا تھا کہ کہیں نہ کہیں بندوبست ضرور کر دے گا۔۔۔۔
مجھے امید بندھی کہ اگر نوکری لگ گئی تو میں خالہ سے بات کرنے کے قابل ہو جاؤں گا، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا تھا، ابھی اس کی بات پکی نہیں ہوئی تھی۔
تیار ہو کر باہر نکلا، کوشش تھی کہ کسی سے سامنا نہ ہو، بائک پہ بیٹھا ہی تھا کہ خالہ نے آواز دے ڈالی، فیضی بات سنو میری، کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔؟
انٹرویو دینے۔۔۔ میں نے مختصراً کہا۔
وہ تو ایک سال سے دے رہے ہو، آج کونسا تیر مار لینا ہے تم نے، یہاں آ کر میری بات سنو، میری بات زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔ خالہ زیادہ ہی تلخ ہو گئیں۔
واقعی ٹھیک کہہ رہی تھیں، میں نے ایک سال میں کیا کر لیا تھا جو آج کر لینا تھا، میں انکے پاس جا کر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔ بنا کسی قصور کے میں مجرم بنا بیٹھا تھا۔
بچپن سے اب تک میں نے کیسے تجھے سنبھالا، پالا، پڑھایا لکھایا۔۔۔۔ ہر طرح سے خیال رکھا، تجھے اندازہ ہے ناں۔۔۔۔ اپنی جوانی تم دونوں پہ وار دی، محنت کر کر کے خود کو مستقل بیمار کر لیا۔۔۔۔ تم سن رہے ہو ناں۔۔۔ میری مسلسل خاموشی شاید خالہ کو چبھ رہی تھی۔
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ تو پاگل ہے نادان ہے۔۔۔ امید ہے کہ تم میری بات سمجھ گئے ہو گے، ہر ماں کو اولاد کے بہتر مستقبل کی فکر ہوتی ہے، اور اسکے لئے فیصلہ کرنے کا حق بھی۔۔۔
میں نے جو فیصلہ کیا ہے، آج اسے برا لگ رہا ہے پر ایک دن وہ خود اعتراف کرے گی کہ واقعی اسکی ماں اسکے لئے بہتر فیصلہ کر گئی، مجھے اسکی جدائی بھی سہنی پڑے گی، پر میں اسکی بہتری کے لئے یہ عذاب بھی جھیل لوں گی۔۔۔۔
بس تم میرا ایک کام کر دو۔۔۔ پھر سمجھو تم میرے احسانوں سے آزاد ہو گئے۔۔۔ آج تک تم پہ لوٹایا ہی لوٹایا ہے، آج کچھ مانگنے لگی ہوں۔۔۔
خالہ اصل موقف کی طرف آ گئیں۔
وہ کل رات سے کمرے میں بند ہے، رات بھی کچھ نہیں کھایا، ابھی بھی بھوکی بیٹھی ہے، تم جاؤ، ایک تو اسے ناشتہ کروا دو، دوسرا اسے نکاح کے لئے راضی کرو۔۔۔۔
دوسری بات کے تو جیسے میری جان ہی نکال دی۔۔۔۔
کاش خالہ نے مجھے خودکشی کا حکم دے دیا ہوتا، پر یہ کام نہ کہا ہوتا۔
جب مجھے شش و پنج میں دیکھا تو اک بار پھر سے اپنے احسانات جتا ڈالے اور انکا بدلہ مانگ لیا۔۔۔
میں چارو نا چار اٹھا، ناشتہ کہاں ہے۔۔۔ میں نے خشک ہوتے گلے سے بمشکل پوچھا۔
وہ سامنے ٹرے رکھا ہے، تم بھی کر لینا۔۔۔۔ گویا مجھ پہ اک اور احسان کیا گیا۔
میں خاموشی سے ٹرے اٹھا کر رابی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
ہاتھوں کی کپکپی میں شدت آنے لگی۔
خالہ میری حالت سمجھ رہی تھیں شاید اسی لیے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
رابی دروازہ کھولو۔۔۔ رابی۔۔۔۔ رابی۔۔۔۔ میں نے دو تین بار اسے پکارا پر جواب ندارد۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے تم سن رہی ہو۔۔۔۔ رابی دیکھو تمہارے لیے ناشتہ لایا ہوں، دونوں ساتھ میں کریں گے، کافی عرصہ ہو گیا ساتھ میں ناشتہ نہیں کیا ہم دونوں نے۔۔۔۔۔
رابی دروازہ کھولو، آج تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔۔۔ میں اسے بہلانے کی کوشش کر رہا تھا پر اب لگتا تھا کہ وہ بہلاوؤں نہیں آنے والی۔۔۔۔ میں زچ سا ہونے لگا۔
رابی دروازہ کھولو، میں نے اس بار دروازہ زور سے بجا ڈالا، ورنہ میں توڑ ڈالوں گا۔۔۔۔
کچھ لمحے انتظار کیا پر ہنوز خاموشی تھی۔۔۔۔۔ رابی دروازہ کھول دو تمہیں میری قسم۔۔۔۔۔ ہماری پاکیزہ سچی محبت کی قسم۔۔۔۔ میں نے آہستہ سے کہہ کر رو دینے کو ہی تھا کہ دروازہ کھل گیا۔۔۔۔ وہ یقیناً دروازے کے اس پار کھڑی مجھے سن رہی تھی۔
میں آنسو چھپا کر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا، آؤ ناشتہ کرتے ہیں۔ وہ مجھے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی کہ اتنا کچھ ہو گیا اور یہ شخص مسکرا رہا ہے۔۔۔ اسے کیسے بتاتا کہ مسکرانا میری مجبوری ہے، کسی کے احسانوں کا بدلہ بھی تو چکانا ہے۔
ہم دونوں نے ناشتہ کیا۔۔۔۔ میں مسکراتا رہا اور وہ میری عقل پہ افسردہ۔۔۔۔
ناشتہ کر چکے تو میں نے ٹرے اک طرف سرکا دی۔
اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ کتنی ہی دیر اسکی لکیروں میں اپنا آپ ڈھونڈتا رہا، جب کچھ نہ ملا تو اصل مدعا کی طرف آیا۔
رابی خالہ جو سوچ رہی ہیں، جو وہ چاہتی ہیں وہ تمہارے حق میں ہر طرح سے بہتر ہے، میں نے بہت سوچا، ساری رات جاگ کر سوچا مجھے تمہاری خوشی اور خوشحالی مقصود ہے اور میرے ساتھ تمہیں سسک سسک کر جینا پڑے گا، ہم ایسی زندگی نہ جی پائے جیسا ہم نے سوچ رکھا ہے تو بہت مسئلے ہوں گے، ہمارے درمیان دوریاں جنم لے لیں گی اور یہ محبت نفرت کا روپ دھار لے گی۔۔۔۔ بتاؤ کیا پھر وہ نفرت جھیلی جائے گی ہم سے۔۔۔۔ میں نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔
اسکی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں۔۔۔۔ اسے مجھ سے ایسی باتوں کی امید نہ تھی۔
بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں شرافت سے اپنی اپنی محبت سے دستبردار ہو جائیں، اور اپنے اپنے حصے کی خوشیاں تلاشتے ہوئے آگے بڑھ جائیں۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ شادی کر کے جب تم چلی جاؤ گی، اپنا گھر بسا لو گی، شوہر اور بچوں کے ساتھ مصروف ہو جاؤ گی، جب زمانے بھر کی خوشیاں اور نعمتیں تمہارے پاس ہوں گی، تب تم اپنی اس محبت پہ ہنسا کرو گی، اور رب کا لاکھ لاکھ شکر بجا لایا کرو گی، اپنی ماں کو دعائیں دیا کرو گی، جس نے تمہیں کوئی حماقت نہیں کرنے دی۔
اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں سے چھڑا لیا اور سسکیاں بھرنے لگی۔
دعا کرنا کہ مجھے بھی جلد یہ احساس ہو جائے کہ مجھے تم سے محبت نہیں تھی، یہ صرف جذباتیت تھی۔۔۔۔ ایک ساتھ رہتے ہوئے بس تھوڑا سا لگاؤ ہو گیا تھا۔۔۔۔
جہاں رہو خوش رہو رابی۔۔۔۔
میں کہہ کر اٹھ آیا تھا۔
اسکی سسکیوں نے میرا پیچھا کیا تھا۔
میں بھی کمرے میں آ کر دل کھول کر رویا تھا،
%%%%%%%%%%
مجھے اپنے چہرے پہ نمی کا احساس ہوا تو اٹھ بیٹھا، تکیہ پوری طرح بھیگ چکا تھا اور چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا، سوچا چائے بنا کر پی لی جائے۔۔۔۔
میں کچن کی طرف چل دیا۔
چائے کے سپ لیتا ہوا بالکونی میں آ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ دور کہیں فجر کی اذان ہو رہی تھی۔
میں رابی کے متعلق سوچنے لگا، جانے اب کیسی ہو گئی ہو گی، شاید تھوڑی موٹی، پتہ نہیں کتنے بچے ہو چکے ہوں گے۔۔۔۔ اس نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ اکیلی آ رہی ہے کہ فیملی ساتھ ہو گی۔۔۔۔
جینز پہنے، کالا چشمہ لگائے،
اک ماڈرن سی رابی میرے تصور میں چلی آئی، میں ہنس دیا۔۔۔
________
فلائٹ کو آئے ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت ہو چلا تھا، پر وہ ابھی تک باہر نہیں نکلی تھی، میں وقت سے بھی گھنٹہ بھر پہلے آ پہنچا تھا، وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا اور اب جبکہ وقت تو گزر گیا پر وہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔ کتنے ہی لوگ میرے پاس سے گزر گزر کر جا رہے تھے۔۔۔
میری نظر بلیک جینز، ٹی شرٹ، ہائی ہیل اور کلاسز کو ڈھونڈ رہی تھیں، بلیک اسکا فیورٹ کلر تھا، یقیناً آج بلیک ڈریس میں ہی ہو گی۔۔۔۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔
ایک چار سالہ سٹائلش سا لڑکا، اسکا بیٹا اسکے ساتھ ہو گا،پر وقار شخصیت والا اسکا ہسبنڈ سامان کی ٹرالی لئے چلا آ رہا ہوگا، وہ خود پرام تھامے ہوئے ہو گی جس میں اسکی کرلی ہیرز والی دو سالہ گڑیا بیٹھی اونگھ رہی ہو گی۔۔۔۔ ۔
میں نے تصور کی آنکھ سے اسکی آمد کا نقشہ کھینچا، کیا میں اسے پہچان پاؤں گا۔۔۔۔؟؟؟ میں نے خود سے سوال کیا۔
وہ آ کیوں نہیں رہی۔۔۔۔ میں نے اکتا کر سر گوشی کی۔
کسی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا، میں جو اپنی ہی دنیا میں مگن تھا اچھل ہی پڑا گویا کوئی بجلی کی تار چھو گئی ہو۔
سامنے اک سیاہ عبایا میں چھپی مخلوق کھڑی تھی، اس نے اس حد تک خود کو چھپا رکھا تھا کہ اسکی آنکھیں بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
آپ کون۔۔۔۔ میری آنکھوں میں سوال ابھرا۔
رابی۔۔۔۔۔ اس نے آہستہ سے کہا۔
جی میں رابی کو ہی لینے آیا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں رہ گئی ہے، میں تین گھنٹے سے یہاں کھڑا ہوں۔۔۔ اور وہ ہے کہ غائب۔۔۔۔ حد کر دی ویسے ۔۔۔ میں نے گلہ کیا۔
میں رابی ہوں۔۔۔۔۔ فیضی۔۔۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں میرے کندھے پہ دھپہ مارا تو میں سکتے میں آ گیا۔۔۔۔
اسے اوپر سے نیچے تک گھورا، یہ۔۔۔ رابی۔۔۔ کیسے۔۔۔ ہو۔۔۔ سکتی۔۔۔ ہے۔۔۔ ؟؟؟ میں نے دل ہی دل میں اسکی بات کی نفی کرنی چاہی، پر آواز وہی تھی، میری رابی جیسی سریلی آواز۔۔۔ اور کندھے پہ مارنے کا انداز بھی وہی۔۔۔ میں اکثر اسکی اس عادت سے چڑ جایا کرتا۔۔۔۔۔
رابی۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ تم کینیڈا گئی تھی کہ سعودی عرب۔ میں نے اسے چھیڑنا چاہا۔
اب چلیں۔۔۔۔ اس نے روکھے سے کہا، شاید میرا مذاق اسے اچھا نہیں لگا۔
میں ادھر ادھر نگاہ دوڑانے لگا
کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔
تمہارا سامان، تمہاری فیملی۔۔۔۔۔
سامان یہ رہا، اس نے ایک چھوٹے بیگ کی طرف اشارہ کر کے کہا اور فیملی نہیں ہے۔۔۔۔ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل پڑی۔
مجھے اس کی بات کافی عجیب لگی۔
اسکے پیچھے بھاگا۔
ٹیکسی کہاں ہے۔۔۔ اس نے باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کونسی ٹیکسی۔۔۔؟؟ مجھے حیرت ہوئی۔
کیا تم کہیں اپنی پھٹیچر بائک پہ تو نہیں آ گئے مجھے لینے۔۔۔ دیکھو بائک پہ بیٹھے عرصہ بیت چکا، اب تو خود کو نہیں سنبھال پاؤں گی، اور یہ بیگ کون پکڑے گا۔۔۔۔ سوری فیضی میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی،اب تو اس بائک کی حالت مذید نازک ہو چکی ہو گی۔۔۔۔ مجھے ٹیکسی لے دو۔۔۔۔
وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔
اوووو ہیلو میڈم، گاڑی لایا ہوں آپ کے لئے۔۔۔ اسے چابی دکھا کر کہا۔
میری نئے ماڈل کی چمکتی ہوئی کار دیکھ کر اسکی بھنویں چڑھ گئیں۔۔۔۔
بلال سے مانگ کر لائے ہو۔۔۔ اس نے کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
میں نے کوئی جواب نہ دیا،بس ہولے سے مسکرا دیا۔
ابھی تک فارغ ہی ہو کہ کوئی کام دھندا بھی کرتے ہو۔۔۔۔ اس نے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے ہی پوچھا
جانے اس نے واقعی طنز کیا تھا یا مجھے محسوس ہوا تھا۔۔۔
نوکری کرتا ہوں، اک ملٹی نیشنل کمپنی میں، اس نے رخ موڑ کر میری طرف دیکھا، جیسے میرے کہے پہ یقین نہ آیا ہو۔
کال اسی دن آ گئی تھی جس دن تم پیا دیس سدھاری تھی۔۔۔
اور یہ کار بھی میری اپنی ہے، محنت کی کمائی کی۔۔۔ میں نے اسکی آنکھوں کے گوشے نم ہوتے ہوئے دیکھے۔
اب وہ سپاٹ چہرہ لیے ونڈو سکرین کے پار جانے کیا دیکھ رہی تھی۔
ویسے تم خاصی کنجوس ہو گئی ہو، خیر کنجوس تو تم پہلے بھی تھی پر آج تو حد ہی کر دی۔۔۔۔ پانچ سال بعد لوٹی ہو۔۔۔۔ اور لائی کیا ہو اک چھوٹا سا بیگ۔۔۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، بندہ کوئی چھوٹا موٹا گفٹ ہی لے آتا ہے اپنوں کے لیے۔۔۔۔۔ میں نے ماحول کی سنجیدگی کو مٹانے کی خاطر اسے چھیڑا۔
اک پھیکی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پہ ظاہر ہوئی۔
کسی اور کے لیے تو نہیں پر تمہارے لیے اک تحفہ لائی ہوں، جانے تمہیں پسند آئے گا بھی کہ نہیں۔
اس نے بجھے سے لہجے میں کہا۔
تم لاؤ اور مجھے پسند نہ آئے یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ میری زبان سے پھسلا، پھر احساس ہوا کہ اب مجھے اس سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے۔
بائے دا وے۔۔۔ یہ تو بتاؤ تم اکیلی کیوں آئی ہو، بچے کہاں ہیں، تمہارے وہ۔۔۔۔ کیوں نہیں آئے۔،میں نے لفظ وہ پہ خاصا زور دیا۔ ویسے حد ہے کتنی لاپرواہ ماں ہو تم، اتنے چھوٹے بچوں کو یوں چھوڑ آئی ہو، کیسے رہیں گے وہ تمہارے بغیر۔۔۔۔
ساتھ لے آتی تو تمہارا کیا جانا تھا، ضرور سنبھالنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے تم نے یہ اوچھی حرکت کی ہے۔۔۔ ساتھ لے آتی، میں خود دیکھ بھال کر لیتا انکی، آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے ان پہ۔۔۔۔۔
سٹاپ۔۔۔۔۔۔ میرے مسلسل بولنے پہ رابی نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔ اففففف کتنا بولنے لگے ہو تم فیضی۔۔۔۔ اسکی پیشانی پہ بل سے پڑنے لگے۔
کون سے بچے، کس کے بچے۔۔۔۔ کوئی بچے نہیں ہیں میرے۔۔۔۔ اکیلی ہوں میں تو اکیلے ہی آنا تھا ناں، کوئی فیملی نہیں ہے میری، کسی کو نہیں روتا چھوڑ کر آئی۔۔۔۔ بے فکر رہو۔۔۔۔۔
رابی نے اک گہری سانس خارج کی اور سیٹ سے پشت ٹکا کر آنکھیں موند لیں ،اس لمحے اسکے چہرے پہ مجھے برسوں کی تھکان دکھائی دی جیسے بڑی مسافت پیدل طے کر کے آئی ہو۔
میں کار روک چکا تھا۔
اب میرا رخ گھر کی طرف نہیں قریبی ریسٹورنٹ کی طرف تھا۔