خالہ کو اسکے رزلٹ کا پتہ چلا تو کچھ پیسے اسکی ہتھیلی پہ رکھ دئیے کہ اپنی مرضی سے کچھ لے لینا، انہیں شاید خیال ہو گا کہ میں پہلے والی حرکت پھر نہ کر گزروں سو اس بار خود ہی اسے دے دلا دیا۔
وہ بہت خوش تھی۔۔۔۔ اور اسکی یہ خوشی مجھے زمانے بھر سے زیادہ عزیز تھی۔
اب ہم پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگے۔۔۔۔
میرا اگلا سمسٹر پہلے سے زیادہ مشکل تھا۔۔۔۔
وقت گزرتا رہا، امتحان ہوتے رہے، ہم پاس بھی ہوتے رہے، پیار بھری نوک جھونک اور شرارتیں ہوتی رہیں۔۔۔
خالہ جان اب بہت تھک چکی تھیں۔۔۔۔ بیمار سی رہنے لگی تھیں
اب میں انجنیئرنگ کے آخری سال میں تھا اور وہ بھی بی ایس سی کے امتحان دینے والی تھی۔۔۔
خالہ کو اچانک بخار نے آ ن لیا۔۔۔ ہم بہت پریشان ہو گئے، بخار تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔ ہمیں خالہ کی فکر تھی اور انہیں سکول کی۔۔۔۔ سکول میں بچوں کے سالانہ امتحانات ہونے والے تھے، ایسے نازک وقت میں خالہ کی غیر حاضری۔۔۔۔ سکول والوں کے دباؤ کی وجہ سے رابی سکول جانے لگی کہ خالہ ٹھیک سے ریسٹ کر سکیں۔۔۔۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ٹیسٹ کرواؤ، پتہ چلا کہ انہیں ٹائیفائڈ ہو گیا ہے۔۔۔ اب رابی سکول جاتی، میں خالہ کی دیکھ بھال کرتا۔۔۔علاج شروع ہو گیا تھا، یہ ایسی سخت بیماری تو نہیں تھی پر خالہ میں اب وہ پہلے والی ہمت طاقت نہ رہی تھی، پریشانیوں اور سخت محنت نے اُنہیں وقت سے پہلے ہی بوڑھا اور کمزور کر دیا تھا۔
وہ سارا دن بستر پہ پڑی رہتیں تھیں۔۔۔
رابی سکول سے آ کر گھر بھی دیکھتی اور رات اپنی کتابوں کو وقت دیتی۔۔۔۔
مجھے اس پہ ترس آنے لگا، اور غیرت بھی کہ جوان مرد آرام سے گھر بیٹھے اور گھر کی عورت باہر دھکے کھائے۔
خالہ میں سوچ رہا ہوں، جب تک ڈگری پوری نہیں ہو جاتی تب تک چھوٹی موٹی نوکری کر لیتا ہوں، اب آپ یا رابی کو کام کرتا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ شرم سے میرا سر جھکا ہوا تھا۔
پاگل مت بنو، رابی نے کونسا ساری زندگی نوکری کرنی ہے۔ بس چند دن کی بات ہے، پھر میں خود سکول چلی جاؤں گی، تم سکون سے اپنی ڈگری پوری کرو، آخری سال تو بہت محنت کی ضرورت ہوتی، مجھے صرف مکمل ڈگری نہیں، شاندار ڈگری چاہیے۔۔۔۔
پھر بیٹا تم نے ہی کمانا ہے ساری زندگی اور ہم نے بیٹھ کر کھانا ہے۔۔۔۔ نا میرا بیٹا، پریشان مت ہو، بس اپنی پڑھائی پر دھیان دے۔۔۔۔ پہلے ہی میری اس کمبخت بیماری کی وجہ سےتمہارا اتنا وقت ضائع ہو چکا ہے۔۔۔ خالہ نے پیار سے میرے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
سکول میں امتحان ختم ہو گئے۔۔۔ خالہ کی طبیعت ابھی تک نہیں سنبھلی تھی۔۔۔۔ رابی کے امتحان شروع ہونے والے تھے اسے سکول سے چھٹیاں لینی پڑیں۔۔۔ سکول والوں نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور تنخواہ کی کٹوتی کے بغیر ہی ایک ماہ کی چھٹیاں دے ڈالیں۔
وہ دل و جان سے پڑھائی میں مگن ہو گئی۔۔۔۔ امتحان شروع ہوئے، وہ تو گھن چکر ہی بن گئی، امتحان کی تیاری، گھر کے کام، خالہ کی دیکھ بھال۔۔۔۔ اسے تو مجھ سے بات کرنے کی بھی فرصت نہ تھی، دل تھا کہ اداس ہونے لگا تھا، میں پرانی باتیں یاد کر کے دل بہلا لیتا۔ ۔۔۔۔
اور پھر پیپرز ختم ہو گئے۔۔۔
خالہ کو کھانا کھلا کر اور دوا دے کر وہ باہر صحن میں آ بیٹھی،
میں یونیورسٹی سے لوٹا، سامنے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔، بہت اجلی اجلی لگ رہی تھی ۔ بال شانوں پہ بکھرے ہوئے تھے شاید نہا کر آئی تھی۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ اس نے نخریلے انداز میں پوچھا۔
لو اب اتنے دنوں بعد نظر آئی ہو تو دیکھوں بھی ناں۔۔۔ میں نے بائک ایک طرف کھڑی کرتے ہوئے روٹھے لہجے میں کہا۔
میری بات پہ وہ قہقہہ لگا بیٹھی۔
میں نے گھبرا کر اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا، خالہ کہاں ہیں، میں نے چور نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔
سو رہی ہیں۔۔۔ اس نے میرا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
میں نے گہری سانس لی۔
اتنا ڈرتے ہو تو اماں سے بات کیسے کرو گے، کیسے مانگو گے میرا ہاتھ۔۔۔۔ رابی نے سنجیدگی سے کہا اور سر اپنے گھٹنوں میں دے دیا۔۔۔۔ شاید آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
پگلی مجھے مانگنا ہی نہیں پڑے گا۔۔۔ خالہ خود دیں گی اپنی پگلی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں۔۔۔۔ کوئی اور تو آنے سے رہا اس بونگی چڑیل کے لیے۔۔۔۔ میں نے سیٹی بجا کر اسے چھیڑنے کی کوشش کی۔
دفع ہو جاؤ۔۔۔۔۔ اس نے لات مار کر مجھے دیوان سے نیچے گرانے کی کوشش کی۔
کہاں میرے آقا ۔۔۔۔ میں نے ہاتھ سینے پہ رکھ کر سر کو جھکاتے ہوئے ایکٹنگ کی۔۔۔
جہنم میں اور تمہاری جہنم اس طرف ہے۔۔۔۔ اس نے میرے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے تابعداری دکھائی اور بیگ اٹھا کر کمرے کی طرف چل دیا۔۔۔
اگر موڈ ہو تو فریش ہو کے آ جاؤ، کھانا لگانے لگی ہوں۔۔۔۔ اس نے پیچھے سے آواز لگائی۔ اور میں مسکرا دیا کہ وہ غصے اور ناراضگی میں بھی میرا خیال رکھنا نہیں بھولتی تھی۔۔۔۔
کھانے کی چٹائی پہ بیٹھے ہم نے بہت باتیں کیں۔۔۔۔ ایک مہینہ کا سٹاک اکٹھا ہوا پڑا تھا، دل جتنا اداس تھا آج سیر ہو گیا تھا، دل کی ساری بے چینی اور دوری کا احساس مٹ گیا تھا۔
خالہ کی طبیعت کچھ سنبھل چکی تھی پر وہ اس قابل نہیں تھیں کہ سکول کی ڈیوٹی دے پاتیں سو رابی نے ایک بار پھر سکول جانا شروع کر دیا۔
اسے جاتے ہوئے مہینہ بھر ہی ہوا تھا کہ ایک دن سکول کی پرنسپل رابی کے ساتھ گھر چلی آئیں۔۔۔
خالہ سے ملی، خالہ بھی ان سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔
انہوں نے خالہ سے کہا کہ اب وہ ریزائن کر دیں، اور رابی کو مستقل نوکری کرنے کی اجازت دے دیں، رابی کو آپ سے ڈبل تنخواہ دی جائے گی، وہ ماشا اللہ بہت قابل ہے، اور ہمیں اب سائنس کی ٹیچر کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔
خالہ نے ٹال مٹول سے کام لینا چاہا پر پرنسپل بھی شاید یہ کام ہر صورت کرنے کی تھان کر آئیں تھیں، خالہ کو منا کر ہی دم لیا۔
جب پتہ چلا کہ رابی کی نوکری پکی ہو گئی، مجھے کافی غصہ آیا، پر ابھی غصہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا، سو منہ بنا لیا۔ رابی سے بھی بول چال بند کر دی۔
میں زیادہ وقت اپنی کتابوں کو دینے لگا، وہ بات کرنے کی کوشش کرتی تو ٹیسٹ کا بہانہ کر کے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا۔
رات خالہ سو گئیں، میں بیٹھا پڑھ رہا تھا اور ساتھ میں کڑھ بھی رہا تھا، وہ چائے کے دو کپ بنا کر لے آئی، میں نے دھیان نہ دیا اور خود کو بہت مصروف ظاہر کیا، وہ بھی پاس بیٹھ گئی۔ کافی دیر تک میرا چہرہ تکتی رہی، میں نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
اگلے لمحے اس نے میرا ہاتھ اپنے گرم گرم ہاتھوں میں لے لیا، ناراض ہو۔۔۔؟
میں پگھلنے لگا پر خود کو مضبوط ظاہر کیا۔
میرا خیال ہے، تم جانتی ہو، میں نے روٹھے لہجے میں کہا۔
میری نوکری کی وجہ سے۔۔؟ اس نے پھر پوچھا۔
میں نے اسے گھورا، ظاہر ہے۔
میں نے کونسا کنٹریکٹ سائن کر دیا ہے کہ ساری زندگی نوکری کروں گی، جس دن تم نے اماں سے میرا ہاتھ مانگ لیا، میں سب چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤں گی۔۔۔ اس نے پیار سے کہا۔
پکا۔۔۔۔؟ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
ہاں پکا پرامس۔۔۔۔ اس نے میرا ہاتھ نرمی سے دبا کر کہا۔
چلو پھر صبح ہی بات کرتا ہوں خالہ سے۔۔۔۔ میں نے شوخی دکھائی۔
اوووو ہیلو۔۔۔۔۔ جناب اپکا کیا خیال ہے، وہ ایسے ہی میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیں گی، اس سے پہلے تمہیں اک اچھی پوسٹ پہ کام کرنا ہے۔۔۔ جس دن تم اچھی نوکری پہ کھڑے ہو گئے، اس دن تمہارے کہے بنا ہی وہ مجھے تمہارے نام کر دیں گی۔۔۔۔ بھولے میاں۔۔۔۔ پہلے پڑھائی، پھر نوکری۔۔۔۔ پھر کچھ اور سوچنا۔۔۔ اس نے میرے سر پہ ہلکی سی دھپ لگائی۔
میری ساری شوخی ہوا ہو گئی۔۔۔ ہمممم اسکا مطلب۔۔۔ انتظار۔۔۔ انتظار۔۔۔۔ اور انتظار۔۔۔۔ میں نے منہ بنایا۔
چلو جلدی سے چائے پیو، اور زیادہ زیادہ پڑھو۔۔۔ اس نے مجھے کپ تھما دیا۔
میں چھوٹے چھوٹے سپ لینے لگا، وہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔
انجینیرنگ کی پڑھائی بہت مشکل ہوتی ہے کیا۔۔۔۔ اس نے میری ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے پوچھا۔
ہاں ہوتی تو ہے۔۔۔۔ پر اتنی بھی نہیں، میں نے اپنی کتاب سے نظریں ہٹائے بنا ہی کہا۔
ساتھ ہی رجسٹر پہ اہم پوائنٹ نوٹ کرنے لگا۔۔۔
فیضی۔۔۔۔۔ اسکی دبی دبی چیخ سنائی دی۔
ہمممم میں نے اگلا پوائنٹ لکھ کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔
موٹی موٹی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو۔۔۔۔ کیا ہوا ہے رابی۔۔۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
اس نے کتاب میرے سامنے کر دی جس کے ایک کونے پہ آمنہ کا نمبر لکھا تھا،
میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔ حلق اتنا خشک ہو گیا کہ کانٹے چبھنے لگے۔۔۔۔
کون ہے یہ۔۔۔۔؟ اس بار اسکی آواز قدرے بلند ہو گئی۔
میں نے لب کھولے پر کچھ کہہ نہ سکا۔۔۔۔
وہ کتاب میرے منہ پہ مار کر روتی ہوئی چلی گئی، اور اسکے پیچھے میں نے پیشانی پہ آیا پسینہ اپنی آستین سے صاف کیا۔۔۔
______
کوئی کام کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، لیکچر بھی غائب دماغی سے اٹینڈ کیا، کلاس کے بعد سب کینٹین میں آ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے، میں ان سب کے درمیان ہوتا ہوا بھی وہاں نہ تھا۔۔۔۔ بلال بہانے سے مجھے دور لے گیا۔۔۔۔
کیا بات ہے فیضان، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دو دن سے بہت چپ چپ سے ہو، گھر میں سب خیریت ہے ناں، تمہاری خالہ جان۔۔۔۔ اس نے تشویش سے پوچھا۔
ہاں وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ پر۔۔۔۔ میں کہتے کہتے جھجھک گیا۔
کیا بات ہے۔۔۔۔ کیا اپنے دوست سے شئئر نہیں کرو گے۔۔۔ اس نے اپنائیت سے میرا کندھا تھپتھپا کر کہا۔
اس کی اپنائیت نے مجھے ہمت دی اور میں نے وہ کتاب، آمنہ کا نمبر اسکے سامنے کھول کر رکھ دیا۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں سوال ابھرا۔۔۔ یہ کیا ہے۔۔؟
یار پتہ نہیں کس کا نمبر ہے، اور کس نے میری کتاب پہ لکھ دیا، گھر والے مجھ سے خفا ہیں۔۔۔میں نے دانستہ رابی کا ذکر نہیں کیا۔۔ قسم سے میں تو آمنہ کو جانتا بھی نہیں۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھائے اک آفت میرے گلے پڑ گئی۔
بلال نے اک جاندار قہقہہ لگایا۔۔۔ یار یہ آفت تیرے نہیں میرے گلے پڑی ہے۔۔۔۔۔ یہ ایم بی اے۔۔ والی آمنہ کا نمبر ہے،دکھائی تو تھی تجھے، یاد نہیں۔۔۔
بڑی مشکل سے نمبر دینے پہ راضی ہوئی، میرے پاس کوئی چیز نہ تھی، تو تیری کتاب پہ ہی لکھ دیا۔۔۔ سوری تجھے بتانا بھول گیا۔ اس نے معذرت کی۔
یار تو بھی ناں۔۔۔۔ دل چاہا کہ اسی وقت اسکا گلا گھونٹ دوں۔۔۔ چلو جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔ اک معمہ تو حل ہوا۔۔۔۔
میں نے وہیں سے بائک پکڑی اور مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ بلال آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔
رابی کے لیے کارڈ اور پھول لیا۔۔۔ ساتھ میں اسکی پسندیدہ چاکلیٹ۔۔۔۔
سکول سے چھٹی کا وقت ہونے والا تھا۔ سکول پہنچا اور اسے وقت سے پہلے چھٹی لینے کو کہا، وہ مجھ سے خفا تھی پر میری بات نہ مان کر کسی کو تماشا نہیں دکھانا چاہتی تھی سو آدھا گھنٹہ پہلے ہی چھٹی لے کر باہر نکل آئی۔
میں اسے کافی شاپ پہ لے گیا۔۔۔ کافی کا آڈر کیا اور اسکے سامنے بیٹھ کر اسے اپنی آنکھوں میں قید کرنے لگا۔ پھول کارڈ سامنے میز پہ رکھا ہوا تھا۔
کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔۔۔ اس نے نروٹھے پن سے کہا
میں نے کارڈ اور پھول اسکی طرف بڑھا دئیے۔۔۔۔ جسے اس نے لاپرواہی سے سائیڈ پہ کر دیا۔۔۔ اس سب کا مطلب۔۔۔؟
سوری۔۔۔ میں نے مختصراً کہا۔
بے وفائی کے لیے معافی نہیں ہوتی مسٹر فیضان۔۔۔ اس نے لفظ چبا کر کہا۔ ہمیشہ سے فیضی کہنے والی نے آج اجنبیت سے مسٹر فیضان کہا تو دل پہ گہری چوٹ پڑی۔
کافی آ چکی۔۔۔ میں نے جیب سے سفوف کی پڑیا نکال کر اپنی کافی میں ملا لیا۔
یہ کیا تھا۔۔۔ اس نے تیز مگر آہستہ لہجے میں پوچھا۔
زہر۔۔۔۔ میرے کہنے پہ اسکی آنکھیں خوف سے پھیل سی گئیں۔
پاگل مت بنو اور تم کیا سمجھتے ہو، تمہاری اس حرکت سے خوفزدہ ہو کر میں تمہیں معاف کر دوں گی۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔ مجھے وارننگ دی گئی۔
نہیں۔۔۔ میں نے یہ اس لیے ڈالا ہے کہ تم میری بات توجہ سے سنو، بات سنے بنا چھوڑ کر جانے کی غلطی مت کرو، اس لئے ڈالا ہے۔۔۔۔ میں نے بھی دوبدو دھمکی دی۔
پھوٹو۔۔۔ کیا کہنا ہے۔۔۔۔ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
میں مسکرا دیا کہ تیر ٹھیک نشانے پہ بیٹھا تھا۔
تم ابھی آمنہ کا نمبر ملاؤ اور اس سے پوچھو کہ وہ فیضان کو جانتی ہے کہ نہیں۔۔۔ اور یہ بھی پوچھنا کہ بلال کون ہے۔۔۔۔
آمنہ میری نہیں بلال کی دوست ہے اور اس کمینے نے اسکا نمبر غلطی سے میری کتاب میں لکھ ڈالا۔
رابی اپنے دل سے پوچھو۔۔۔۔ بچپن سے آج تک اک صرف تمہیں چاہنے والا اور تمہاری خوشی کی خاطر اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈالنے والا فیضی بے وفا ہو سکتا ہے
دو دن میں نے کس اذیت میں گزارے یہ تم نہیں سمجھ سکتی۔۔۔۔ مرد اتنی جلدی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا جتنی جلدی عورت اور اگر مرد سچی محبت کر لے تو پھر ساری زندگی اسی عورت کا رہتا ہے۔ اگر مرد کسی عورت کے لئے رو دے تو سمجھ جاؤ کہ اسکے بعد کسی کا نہیں ہو سکتا۔۔۔ میری آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے۔
نمی اسکی آنکھوں میں بھی اتر آئی تھی۔
اگر کبھی تم نے بے وفائی کا سوچا بھی تو یہ کافی میں نے کب پی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔۔۔۔
میری کافی کو اپنے آگے رکھتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانک کر کہا۔
یہ فیضی جیتا بھی تمہارے لیے ہے اور مرتے وقت بھی تمہارا ہی ہو گا۔۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا۔
وہ بھی مسکرا دی اور میرے دئیے ہوئے گلاب کی خوشبو سے لطف اندوز ہونے لگی۔
کافی سائڈ پہ کر کے ہم دونوں چاکلیٹ شئر کرنے لگے۔
وہ صبح سکول جاتی اور شام میں ایم اے کی کلاس اٹینڈ کرتی، گھر اب کسی حد تک خالہ نے سنبھال لیا تھا، رات کا کھانا رابی ہی تیار کرتی تھی۔
میں بھی امتحان میں مصروف ہو گیا۔۔۔ اللہ اللہ کر کے پیپرز سے فارغ ہو گیا، اب کچھ اسائنمنٹ اور پروجیکٹ پہ کام کرنا باقی تھا۔۔۔۔ میں بلال اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ مصروف رہنے لگا۔۔۔
پھر وہ دن بھی آیا جب میں بالکل فری ہو گیا۔۔۔ بس اب رزلٹ کا انتظار رہنے لگا تھا کہ جلد از جلد رزلٹ آ جائے اور مجھے اچھی سی کمپنی میں نوکری مل جائے۔۔۔۔
دن رات اب مستقبل کے خوبصورت سپنے میری آنکھوں کے سامنے ناچتے پھرتے اور میں خوش ہوتا رہتا۔۔۔۔
میرا رزلٹ آ گیا۔۔۔ بہت شاندار ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔ خالہ اور رابی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، میں تو جیسے ہواؤں میں اڑنے لگا تھا۔۔۔۔
خوب مٹھائی کھائی اور کھلائی گئی۔۔۔
اگلے دن سے ہی میں سی وی لے کر نکل پڑا۔۔۔۔ بہت سی کمپنیوں میں سی وی دے آیا۔
مہینہ بھر ہو چلا تھا کسی طرف سے کوئی کال نہیں آئی تھی۔۔۔ خالہ روز پوچھتی تھیں، اور میں دھیرے سے نفی میں سر ہلا دیتا، وہ امید دلا کر اپنے کاموں میں لگ جاتیں۔
بلال اپنے بابا کی کمپنی میں ہی انکا ہاتھ بٹانے لگا تھا، دو دوست بیرون ملک سدھار گئے۔ احمر بھی میری طرح انتظار کی سختی جھیل رہا تھا۔
رابی کے امتحانات شروع ہوئے تو سکول سے چھٹی لے لی۔ اب میرا کام اسے پک اینڈ ڈراپ اور گھر کے سودا سلف لانا ہی تھا۔
بہت جگہ انٹرویو بھی دئیے۔۔۔۔سب کال بیک کا کہہ کر بھول جاتے، اور میں انتظار کی سولی پہ ہی لٹکا رہ جاتا۔۔۔
چھ ماہ ہونے کو آ رہے تھے مجھے یوں فارغ پھرتے ہوئے۔۔۔ میرے سارے خواب آہستہ آہستہ دم چھوڑ رہے تھے۔۔۔
احمر نے تنگ آ کر دکان کھول لی تھی، جہاں وہ پرانے فریج، اے سی وغیرہ ٹھیک کیا کرتا۔۔۔ وہ اس سے زیادہ وقت ضائع نہ کر سکتا تھا۔۔۔۔ یہ تھے ہمارے ملک کے حالات کہ ایک الیکٹریکل انجنیئر، ایک چھوٹی سی ورکشاپ چلانے پہ مجبور تھا۔۔۔۔ جسے اتنے سال کتابوں کے ساتھ مغز ماری کرنے اور ڈھیر سارا پیسہ لوٹانے کے بعد ڈھنگ کی نوکری بھی نہ مل سکی تھی۔
مجھے ایک چھوٹی سی نوکری کی آفر ہوئی پر میری انا نے مجھے باز رکھا کہ یونیورسٹی کا ٹاپر دس ہزار کی نوکری کرے گا۔۔۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔
اپنے ضروری خرچے پورے کرنے کے لیے میں نے ایک دو ٹیوشن پکڑ لیں تھیں۔۔۔۔بہت صبر اور حوصلہ سے یہ وقت کاٹ رہا تھا۔
خالہ نے بھی اب تسلی دینا چھوڑ دیا تھا، انہیں چپ سی لگ گئی تھی،
رابی کو بھی سمجھ نہ آتا تھا کہ میرا حوصلہ بڑھائے تو کیسے بڑھائے۔۔۔ سو خاموش ہی رہتی۔
اب تو کوئی پیار بھری بات کرتے بھی ڈر لگتا کہ جانے ہمارے ساتھ قسمت اب کونسا کھیل کھیلنے والی ہے، نوکری ہو گی تو رشتہ ملے گا ناں۔۔۔
ایک دن ٹیوشن پڑھا کر واپس آیا تو خالہ بینا کو دروازے سے باہر نکلتے دیکھا، خالہ بینا رشتے کروایا کرتی تھیں۔۔۔۔ انہیں اپنے گھر میں دیکھ کر اک دھچکا لگا تھا۔
اندر آیا تو گھر میں موت کا سا سکوت تھا۔
کیا ہوا ہے، خالہ بینا کیوں آئی تھی، یہ پوچھنے کا مجھ میں حوصلہ نہ تھا، سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔
کچھ دیر بعد خالہ نے دروازے پہ دستک دی۔
جی آ جائیں۔۔۔۔ میں نے بستر پہ سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے میرے بستر کے قریب آ گئیں، اس لمحے وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔۔۔ جیسے میلوں کی مسافت پیدل طے کر کے آئی ہوں۔۔۔ میں نے انہیں اپنے پاس بیٹھا لیا۔۔۔ اور ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔