خالہ نے مجھے اپنے پاس بلایا، جی خالہ جان۔۔۔۔ میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
انہوں نے ایک ڈبہ میری طرف بڑھا دیا۔
یہ کیا ہے۔۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
ڈبہ کھولا تو اس میں میری ماں کا زیور تھا۔۔۔
مجھے کیوں دے رہی ہیں۔۔۔۔ میں نے پھر پوچھا۔
تمہیں نہیں دے رہی۔۔۔ اب تم نے کالج میں ایڈمیشن لینا ہے،میری تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ کتابیں اور کالج کی بھاری فیس ادا کی جا سکے، سو تم اس میں سے کچھ نکال لو، پھر میرے ساتھ چلو، بازار میں بیچ کر ضروری کام نمٹا لیتے ہیں۔۔۔ میں خود اسے نہیں ہاتھ لگا سکتی یہ تمہاری امانت ہے۔۔۔
خالہ نے متانت سے کہا۔
ایسی باتیں مت کیا کریں پلیز۔۔۔۔ میرے لئے آپ ماں ہی ہو، آپ میرےحق میں کچھ بھی غلط نہیں کر سکتیں، مجھے اس بات کا پورا یقین ہے۔۔۔ میں نے انکا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
پھر بھی میرے بچے۔۔۔۔۔ تمہیں میرا حکم ماننا پڑے گا، چلو اب جلدی کرو۔۔۔۔ کام جتنی جلدی نمٹ جائیں اچھا ہے۔۔۔۔ انہوں نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
میں سمجھ گیا کہ وہ کرنا ہی پڑے گا جو انہوں نے کہہ دیا۔ سو ڈبے میں سے ماں کے بھاری بھر کم بندے نکال لئے۔
اچھے کالج میں میرا ایڈمیشن ہو گیا۔
میں پڑھائی میں مصروف ہو گیا، مجھے اب پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت تھی۔۔۔
رابی کو پڑھانے کا زیادہ وقت نہ ملتا، پھر بھی وہ جہاں مشکل پاتی، میرے پاس چلی آتی۔۔۔ تب میں اپنے سب کام چھوڑ کر اسے وقت دیتا۔۔۔
پر وہ بھی کوشش کرتی کہ مجھے زیادہ ڈسٹرب نہ کرے۔
اسکے امتحان ہو گئے، کافی تسلی بخش ہوئے۔۔۔۔ رزلٹ آیا تو نمبر تو اچھے تھے پر وہ میری طرح ٹاپ نہ کر سکی تھی۔۔۔۔
بڑی ہمت ہے تمہاری رابی۔۔۔۔ گھر بھی سنبھالا، تیاری بھی خود کی، کسی سے ٹیوشن بھی نہیں لی۔۔۔۔ پھر بھی اتنے اچھے نمبر، بھئ کمال کر دیا تم نے۔۔۔۔ گفٹ تو ان دینا پڑے گا، چلو پھر تمہارا گفٹ ڈیو رہا، خالہ کے کچھ بھی کہنے سے پہلے میں اسے دل کھول کر داد دینے لگا۔۔۔۔ اور پھر اسے اسی خوشی میں اچھی سی چائے بنانے بھیج دیا کہ کہیں خالہ پھر اسے میری مثالیں دے کر ڈانٹ نہ پلا ڈالیں۔۔۔۔
خالہ بھی شاید میرا مدعا سمجھ چکی تھیں سو خاموش ہی رہیں۔۔۔۔
اگلے روز میں کالج سے واپسی پہ اسکے لئے ایک سوٹ لیتا آیا۔ گھر پہنچا، میرے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر اسکی آنکھیں چمک اٹھیں، میرے لئے گفٹ لائے ہو ناں۔۔۔۔وہ چہکی۔
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اس نے میرے ہاتھ سے لفافہ اچک لیا۔
کھولا تو خوشی سے چیخ اٹھی، میں اسکی پسند کا رنگ لایا تھا۔۔۔ کتنی دیر اپنے ساتھ لگا کر دیکھتی رہی، اچھا لگے گا ناں۔۔۔اس نے بچوں سی معصومیت سے پوچھا۔
میں ہنس پڑا۔۔۔۔ ہاں بہت اچھا۔۔۔۔
مذاق اڑا رہے ہو میرا، وہ میری ہنسی کا برا منا گئی۔
ارے نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ میں اسکی ناراضگی سے گھبرا گیا۔
یہ خالہ کی طرف سے ہے، میں بھی تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔۔۔
کیا یہ اماں نے دیا ہے۔۔۔۔ سچ بتاؤ، وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
ہاں۔۔۔۔ میں نے اسکا اپنی ماں کے لئے دل صاف کرنے کے لیے جھوٹ بولا۔
انہوں نے تو مجھے جھوٹے منہ مبارک نہیں دی تو کیسے مان لوں کہ یہ گفٹ تم انکے کہنے پہ لائے ہو۔۔۔ اس نے سوٹ ایک طرف ڈال کر منہ پھولا لیا۔۔۔۔
وہ ایک ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر بھی ہیں۔۔۔ اور یہ تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ استانیاں کتنی کھڑوس ہوتی ہیں۔۔۔اس لئے خالہ کی باتوں کو دل پہ نہ لیا کرو ۔
میں نے اسے ہنسانے کو ایسے الفاظ استعمال کیے اور میرا مقصد پورا بھی ہو گیا۔
اک خوبصورت قہقہہ فضا میں گونجا۔
اب میرا گفٹ نہیں دیکھو گی کیا۔۔۔؟؟؟
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتی، میں نے اسکا دھیان بدلا۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔ دکھاؤ کدھر ہے۔۔۔۔ اس نے بڑے اشتیاق سے میری جانب دیکھنے لگی۔
اسکے لئے پہلے تمہیں آنکھیں بند کرنا پڑیں گی۔۔۔ میں نے شرارتا کہا۔
لو یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔ اب ایسا بھی کیا ہے کہ مجھے آنکھیں بند کرنا پڑیں گی۔۔۔۔ میں نہیں کر رہی آنکھیں بند۔۔۔۔۔
تم ضرور کوئی کاکروچ رکھ دو گے میرے ہاتھ پہ، یا کوئی چوہا مجھ پہ اچھال دو گے۔۔۔ اس نے پرانے واقعات یاد کر کے جھرجھری لی۔۔۔۔
مجھے نہیں چاہیے تمہارا گفٹ۔۔۔ نا بابا ناں۔۔۔ مجھے تو تم معاف ہی رکھو۔۔۔۔ وہ ڈر کر میرے پاس سے اٹھنے لگی تو میں نے اسے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔۔۔۔
قسم سے اب ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ بیٹھ گئی، اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ پر خوف کے سائے اسکے چہرے پہ لہراتے صاف دکھائی دے رہے تھے، اور اسکی سانس بھی شاید پھولنے لگی تھی، وہ میری محبت میں پاس بیٹھ تو گئی تھی پر اسے مجھ سے اب بھی وہی پرانی بد تمیزی کی ہی امید تھی۔۔۔۔
اسکی اس حالت نے مجھے مسکرانے پہ مجبور کر دیا۔
میں نے جیب سے انگوٹھی نکالی، یہ اک نگینے والی نازک سی انگوٹھی میری ماں کی تھی جو کہ خالہ سے نظر بچا کر میں نےزیورات والے ڈبے میں سے نکال لی تھی۔۔۔۔ اور اسی قسم کے کسی موقع کے لیے سنبھال رکھی تھی۔
مجھے لگا تھا کہ اب اور دیر نہیں کرنی چاہیے، مجھے اب اس سے دل کی بات کہہ دینی چاہیے۔۔۔۔
میں نے انگوٹھی اسکی انگلی میں ڈال دی۔۔۔ اور ہاتھ چوم ڈالا اسکی آنکھیں اک جھٹکے سے کھل گئی اور پھر کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ اسے مجھ سے ایسی بے باکی کی امید نہ تھی۔ وہ ہاتھ چھڑا کر بھاگنے لگی تو میں نے راستہ روک لیا۔
رابی مجھے غلط مت سمجھنا۔۔۔ میں پیار کرتا ہوں تم سے، یہ اپنی ماں کی انگوٹھی تمہاری انگلی میں ڈال کر تمہیں اپنے نام کر رہا ہوں۔۔۔۔
جیسے ہی میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا، خالہ سے تمہیں مانگ لوں گا۔ اور میرا خیال ہے کہ انہیں تمہارے لیے مجھ سے بہتر کوئی نہ ملے گا۔۔۔۔
اور ویسے بھی خالہ مجھ سے پہلے ہی دبے لفظوں میں کہہ چکی ہیں کہ رابی تمہاری ہے، اسکا خیال تمہیں ہی رکھنا ہے۔۔۔۔
تم بھی تو کچھ بولو۔۔۔۔ کیا تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو، کیا ساری زندگی میرے ساتھ بیتانا چاہو گی۔۔۔۔ میں نے اسکی خاموشی سے گھبرا کر پوچھا۔
وہ کچھ کہے بنا ہی شرما کر ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی۔
اس کا یہ انداز اسکا کھلا اظہار ہی تھا۔۔۔ دل جھوم جھوم اٹھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز آئی، میں جو کھڑا مسکرا رہا تھا، جلدی سے سنبھل گیا۔
السلام علیکم خالہ جان، میں نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ سےپرس پکڑ لیا۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔ انہوں نے تھکے لہجے میں جواب دیا۔
رابی انکے لئے پانی لے آئی۔
وہ شرمائی لجائی سی ابھی بھی مجھ سے نظریں چرا رہی تھی۔
یہ سوٹ کس کا ہے۔۔۔۔ خالہ نے کرسی پہ دھرا سوٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔
میرا سوٹ ہے۔۔۔۔ جو آپ نے مجھے گفٹ دیا ہے، کمال ہے اپنا دیا ہوا سوٹ ہی نہیں پہچانا آپ نے۔۔۔۔ رابی نے خفگی دکھاتے ہوئے کہا۔
خالہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں، اس سے پہلے کہ وہ بھانڈا پھوڑ دیتیں، خالہ آپ نے جو رات کو پیسے دئیے تھے ناں، ان سے میں یہ سوٹ لایا ہوں۔۔۔۔ کیسا ہے؟ میں نے پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ دھیرے سے دبایا۔
اوووو اچھا۔۔۔۔۔۔ بہت پیارا ہے اور سوٹ سے زیادہ اسکا کلر پیارا ہے۔۔۔۔ خالہ میرا اشارہ سمجھ چکی تھیں۔
تعریف پہ رابی نہال ہی ہو گئی۔ اور کھانا لگانے چلی گئی۔
اسکے جاتے ہی خالہ نے میرے کان کھینچ لئے۔۔۔۔ کہاں سے آئے تمہارے پاس اتنے پیسے۔۔۔۔ اور جھوٹ کیوں بولا اسکے ساتھ۔
وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ آپ کان چھوڑیں گی تو بتاؤں گا ناں۔۔۔ میں نے درد سے بلبلا نے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے ایک مہینہ بلال کے بھائی کو ٹیوشن پڑھائی ہے، اسکے امتحان ہونے والے تھے اور اسکے ٹیوٹر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔اس نے مجھ سے ریکویسٹ کی تو مجبوراً مجھے راضی ہونا پڑا۔۔۔ میں نے فیس لینے سے انکار کیا تو اس نے زبردستی میری جیب میں ڈال دی کہ تمہاری محنت کی کمائی ہے، انکار مت کرو۔۔۔۔۔
اور دوسری بات یہ کہ رابی آپ کی طرف سے بدگمان ہو رہی تھی سوچا گفٹ ملے گا تو دل صاف ہو جائے گا اسکا۔۔۔ ابھی چھوٹی ہے ناں سو آپ کی محبت کو سمجھتی نہیں ہے ڈانٹ ڈپٹ کو آپکی نفرت سمجھنے لگتی ہے۔۔۔۔
میری بات سن کر خالہ نے کچھ کہا نہیں بس پیار سے میرے سر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
______
رابی کا گرلز کالج میں ایڈمیشن ہو گیا ،اب میں کالج سے واپسی پہ اسے لیتا ہوا گھر آتا تھا،میرے دل کی بات کہہ دینے کے بعد اب وہ تھوڑی شرمیلی سی ہو گئی تھی اب مجھ سے بد تمیزی بھی نہیں کرتی تھی، بات بات پہ لڑنا بھول ہی گئی تھی۔۔۔۔۔
رابی مجھے پچھتاوا ہو رہا ہے کہ میں نے اظہار کرنے میں اتنی دیر کیوں کی۔۔۔۔ ایک دن کالج سے واپسی پہ میں نے اسے شرارتا کہا۔
اسنے آبرو اچکائے جیسے میری بات کی سمجھ نہ آئی ہو۔۔۔۔ بھئی مجھے بہت پہلے دل کی بات کہہ دینی چاہیے تھی، اتنا عرصہ فضول میں تم سے مار کھاتا رہا، تمہاری جلی کٹی سنتا رہا۔۔۔۔ اب دیکھو ناں۔۔۔ اس دن کے بعد تم نے ایک بار بھی مجھ سے لڑائی نہیں کی۔۔۔ اور مکا مارنے کا تو تم نے سوچا بھی نہیں۔۔۔۔ ایم آئی رائٹ۔۔۔۔؟؟؟ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے، میں تو ویسے ہی پڑھائی میں مصروف ہو گئی ہوں۔۔۔ موقع اور وقت نہیں ملا۔۔۔ وہ مصنوعی خفگی دکھاتے ہوئے بولی۔
ویسے تمہیں ابھی اندازہ نہیں کہ یہ شرماتی لجاتی محبوبائیں، یہ منگیتریں شادی کے بعد کتنی ظالم بیویاں بن جاتی ہیں۔۔۔ اس نے بھی مجھے چڑانے کے لیے کہا۔
اوووو تو کیا تم شادی بھی مجھ سے ہی کرو گی۔۔۔ میں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔۔ اس نے میری پشت پہ اک مکا جڑتے ہوئے پوچھا۔
میری ہنسی نکل گئی۔
پیار تم سے کرتی ہوں تو ظاہر ہے شادی بھی تم ہی سے کروں گی۔۔۔۔ سمجھے۔۔۔ اس نے غصہ دکھایا۔
رئلی تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو۔۔۔۔؟؟؟ میں نے اسے پھر چھیڑا۔
اسکے رخساروں پہ لالی بکھر گئی کہ انجانے میں وہ کھلا اقرار کر بیٹھی تھی۔۔۔
اب تو میں قہقہہ ہی لگا بیٹھا۔۔۔
اکثر ایسی محبت بھری نوک جھونک ہو جایا کرتی تھی۔
پھر میرے امتحان شروع ہو گئے۔۔۔ میں راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتا کہ خالہ کے خواب جو پورے کرنے تھے۔۔۔۔ وہ بھی میرے ساتھ جاگتی، کبھی پانی لا کر دیتی، کبھی دودھ اور چائے سے میری خاطر مدارت کرتی، میں کہتا رہ جاتا کہ سو جاؤ، صبح تمہیں کالج بھی جانا، پر وہ ٹس سے مس نہ ہوتی۔۔۔۔
میں پیپر دے کر آتا تو پھر لمبی تان کر سو جاتا۔۔۔ پر وہ جانے کب نیند پوری کیا کرتی تھی۔
میرے پیپرز ختم ہوئے تو اسکے شروع ہو گئے۔۔۔ اب میں اسکے ساتھ رات جاگتا، اسے پڑھاتا۔۔۔۔
ہم دونوں پیپرز سے فارغ ہو گئے۔۔۔۔ وہ گھر سنبھالنے لگی ، میں نے ایک دو ٹیوشن پکڑ لیں۔۔۔۔
رزلٹ میرا اس بار بھی شاندار آیا۔۔۔ اب مجھے خالہ کے خواب پورے ہوتے نظر آنے لگے۔۔۔۔
انجینئرنگ میں داخلہ لینا تھا، پھر سے بھاری فیس بھرنی تھی سو ایک بار پھر اماں کے زیورات میرے سامنے پڑے تھے۔۔۔۔ میں نے چوڑیاں نکال لیں ۔۔۔۔ رابی کے لیے بھی کچھ نکالنا چاہتا تھا پر خالہ نے موقع نہیں دیا۔
میرا خیال ہے اب تم کوئی سیکنڈ ہینڈ سستی سی بائک بھی لے لو، یونیورسٹی سائیکل پہ جاؤ گے تو اچھا نہیں لگے گا اور روز روز بسوں میں دھکے کھانا بھی آسان نہیں۔۔۔
خالہ نے میرے دل کی بات کہہ ڈالی، اور میں نے فوراً مان لی۔
بلال کچھ دنوں سے اپنی بایک بیچنے کی بات کر رہا تھا، اسکے بابا نے پاس ہونے پہ اسے نئی دلانے کا وعدہ کیا تھا۔
میں نے اسی سے لے لی۔
میں پہلے دن تیار ہو کر شان بے نیازی سے بائک پہ بیٹھا اور خالہ کو آوازیں دینے لگا کہ آ جائیں آپ کو بھی راستے میں چھوڑتا جاؤں گا،
پیچھے سے کسی نے آ کر میرا کان مروڑا تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ یہ رابی تھی۔۔۔۔ دیکھ رہی ہوں، آج تم ہواؤں میں اڑ رہے ہو تمہیں میں نظر ہی نہیں آ رہی، چار دن ہو گئے ہیں بائک لئے ہوئے، قسم لے لو جو مجھے اک بار بھی آفر کروائی ہو۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ تو اس بات پہ منہ پھولا ہوا تھا محترمہ کا، چل ٹھیک ہے موقع ملتے ہی آئسکریم کھلانے لے چلوں گا۔۔۔ ڈن
میں نے آنکھ مار کر کہا۔
رابی دروازہ بند کر لینا، کوئی بھی آئے کھولنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ خالہ کی آواز سن کر وہ میرا کان چھوڑ کر قدرے پرے ہٹ گئی۔۔۔
جی اماں۔۔۔۔ جو آپ کا حکم۔۔۔۔ اس نے معمول سے زیادہ تابعداری دکھاتے ہوئے کہا۔
کالج پہنچا تو پتہ چلا کہ آج کوئی کلاس نہیں ہونی، سٹوڈنٹ بس انجوائے کریں گے، سینیئر نئے آنے والوں کے ساتھ شغل فرمائیں گے۔۔۔۔ میں کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتا تھا، سو گھر کی راہ لی۔
دو گھنٹے بعد ہی میں گھر کے باہر تھا، اتنی جلدی مجھے آتا دیکھ کر رابی پریشان سی ہو گئی۔۔۔۔ کیا بات ہے، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے، اتنی جلدی آ بھی گئے۔۔۔۔ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
ہاں ہاں۔۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ جلدی سے چادر لے کر آ جاؤ، آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ میں نے آہستہ سے کہا، مبادا کہ ہمسائے نہ سن لیں۔۔۔
وہ آ گئی، دروازہ باہر سے بند کیا اور بائک پہ آ بیٹھی، اس نے مجھے زور سے پکڑ رکھا تھا، پہلی بار بائک پہ بیٹھی تھی تو خوفزدہ ہو رہی تھی۔۔۔ میں ذرا سی سپیڈ تیز کرتا تو مکے سے میری تواضع کی جاتی۔۔۔ وہ خوف کے مارے مجھ سے چپکی ہوئی تھی اور میری ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی۔۔۔۔
آئس کریم کھانے کے بعد میں اسے مارکیٹ لے گیا۔۔۔۔ اسکی پسند کی چوڑیاں دلائیں۔۔۔۔ یہ کس لئے۔۔۔۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔
تمہارا رزلٹ آ گیا ہے میڈم۔۔۔۔ میں نے دھماکا کیا۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔ وہ سر سے پیر تک کانپ گئی۔۔۔۔ کیا بنا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
پگلی پاس ہوئی ہو تو گفٹ دلا رہا ہوں ناں۔۔۔۔ میں نے اسکی عقل پہ ماتم کیا۔
اسکی سانس میں سانس آئی۔
سوری اس بار کوئی خاص تحفہ نہیں دے سکا۔۔۔۔۔ پر یہ میرا پرامس ہے کہ اپنی کمائی سے تمہیں سونے کی چوڑیاں دلاؤں گا۔۔۔ میں نے اپنی شرمندگی مٹانے کی کوشش کی۔
پاگل مت بنو، یوں دل چھوٹا کیوں کرتے ہو، تمہاری دلائی ہوئی یہ چوڑیاں سونے سے زیادہ قیمتی ہیں۔۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔۔ اس نے مصنوعی رعب جھاڑتے ہوئے محبت سے کہا۔
اسے گھر کے باہر ہی اتار کر میں خالہ کو لینے چلا گیا۔۔۔۔ انہیں ایسا ہی لگا کہ میں یونیورسٹی سے سیدھا انہیں لینے پہنچ گیا ہوں، کہ میرا بیگ ابھی بھی میرے کندھوں پہ جھول رہا تھا۔
آج تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ اچھا کیا تم لینے آ گئے، چلو جلدی کرو، گھر پہنچ کر کھانا کھائیں، خالہ نے نڈھال لہجے میں کہا۔
خیال آیا کہ آج بھانڈا پھوٹ ہی جانا ہے، ہم اتنا وقت گھر سے باہر گزار آئے ہیں، کھانا تو تیار نہیں کیا گیا ہو گا ۔۔۔
آپ کو کچھ باہر سے کھلا دوں۔۔۔ میں نے جان بخشی کی صورت نکالنا چاہی۔۔۔
نا بیٹا۔۔۔۔ اب باہر کے کھانے کہاں ہضم ہونے مجھے، گھر کی دال کی بھلی۔۔۔ کہہ کر وہ بائک پہ بیٹھ گئیں۔۔۔
مجھے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہونے لگا۔
گھر داخل ہوا تو کچن سے آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔۔
رابی جلدی سے کھانا لگا دو۔۔۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے بیٹا، میری تو اب جان نکلی جا رہی ہے۔۔۔ خالہ نے دھائی دی۔
جی اماں۔۔۔ رابی کی پر سکون آواز آئی۔
مجھے اسکے لہجے کا سکون تشویش میں ڈال گیا۔
تھوڑی دیر میں کڑی پکوڑے اور گرما گرم روٹیاں سامنے پڑی تھیں۔۔۔۔
اماں۔۔۔ خالہ صفیہ نے کڑی بھیجی ہے خاص آپ کے لیے۔۔۔ اس نے خالہ کی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے بتایا۔۔۔
میں جو اب تک آنکھیں پھاڑے سالن کے باؤل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ نے گہری سانس خارج کی۔
دل چاہا ابھی جا کر خالہ صفیہ کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔۔
خالہ کھانا کھا کر تھوڑا سستانے چلی گئیں، رابی برتن سمیٹنے لگی۔۔۔۔
آج تو بال بال بچ گئے۔۔۔۔۔ میں نے سرگوشی کی۔۔۔ وہ مسکرا دی۔
سچی اور پاکیزہ محبت کرنے والوں کا اللہ بھی ساتھ دیا کرتا ہے۔۔۔۔ وہ کہہ کر چلی گئی۔۔۔
بے شک۔۔۔۔۔ میں بھی مسکرا دیا۔۔۔