دھیرے دھیرے رمضان کا عشرہ بھی گزر گیا۔ وہ تقریباً اب ہر دوسرے دن بھابی بھیا سے ملنے گھر چلی جاتی تھی۔ ادھر سے وہ دونوں اور تینوں بچے بھی آ جاتے تھے۔ محبوب رحمانی والا معاملہ اچھا خاصا حل ہو گیا تھا۔ کیس عدالت میں چل رہا تھا۔ بھیا اور واصق پوری طرح کیس اپنے حق میں ہو جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے جس کے ۸۰ فیصد چانسز بھی تھے۔ واصق کے اکٹھے کئے گئے ثبوت و شواہد اس قدر ٹھوس قابل قبول اور جامد تھے کہ وہ کسی بھی صورت نہیں بچ سکتا تھا۔
آخری عشرے کا چوبیسواں روزہ بھی گزر گیا۔ واصق کو کچھ بخار تھا۔ اس کے باوجود اس نے سارا دن روزے کی حالت میں گزارا۔ دو دن پہلے ہونے والی تیز بارش کا اثر تھا یا پھر آدھی آدھی رات تک باہر رہنے کی وجہ تھی جو اسے ہلکا سا ٹمپریچر ہو گیا تھا۔ نماز تراویح کے بعد وہ باہر رہنے کے بجائے وہ جلد ہی گھر لوٹ آیا تھا۔ لائونج میں سب ہی نماز کے بعد پھلوں اور خشک میوہ جات سے ہاتھ صاف کرتے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یہی تو رات کا وقت ہوتا تھا۔ جب سے مرد حضرات اپنے کام دھندوں سے فراغت پاتے ہی ایک جگہ اکٹھے بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے کو سارے دن کی روداد سنائی جاتی تھی۔ کچھ اس کی سنتے کچھ اپنی کہتے ، وہ ہر قسم کی ذہنی ٹینشن و پریشانی سے آزاد ہو جاتے تھے۔ اور شاید یہی اپنائیت اس گھر کی پر امن فضا کو قائم رکھنے کا اصل راز تھی ۔ جب سے اس نے یہ جاب اسٹارٹ کی تھی ہر طرف سے غافل ہو گیا تھا۔ سب کے درمیان بیٹھنا چھوڑ دیا تھا۔
’’ارے واصق ، آئو یار ، شکر ہے آج تم جلدی گھر لوٹ آئے۔‘‘ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر شہروز نے کہا تو ونیزے بھی اسے دیکھنے لگی۔ وہ دادی اماں کے پاس آ بیٹھا۔ دادی اماں کے دوسری طرف امی تھیں اور امی کے ساتھ وہ دشمن جان بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ واصق نے ایک سر سری نگاہ ڈالی اور پھر سب کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’شادی کروا کر جگری یار کیسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں واصق کو دیکھ کر پتا چل گیا ہے۔‘‘ شہروز نے اس پر بھر پور چوٹ کی تو وہ ہنس دیا۔
’’تم کیوں پیچھے ہو، تم بھی کروا لو۔ تمہیں بھی دیکھ لیں گے کیسے آنکھیں پھیرتے ہو۔‘‘ اس نے بھی بر جستگی سے کہا تو سب کے بے اختیار قہقہے ابل پڑے تھے۔ وہ بھی مسکرادی۔
’’میں تو راضی ہوں تم دادی اماں سے سفارش کر دو۔‘‘ شہروز نے کافی آہستگی سے کہا تھا کہ صرف وہی سن سکا۔
’’دادی اماں! میرا خیال ہے اب اسے بھی کھوٹنا نصیب کر دیں۔ خوا مخواہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ‘‘ شہروز کی بات پر اس نے دادی اماں کو کہا تو وہ اسے گھورنے لگیں۔
’’چپ کر کے سب بیٹھے رہو۔ بڑوں کے معاملات میں مت بولا کرو۔‘‘ انہوں نے یوں اس کے اور شہروز کے سب کے درمیان اس طرح کی باتیں کرنے پر ٹوکا۔ شہروز نے منہ بنا لیا۔
’’اب تو اس کی ترقی ہو گئی ہے دادی اماں ۔ بیوی والا ہے۔‘‘ شہروز نے خاصے چڑ چڑے لہجے میں کہا تو سب پھر ہنس پڑے تھے۔ وہ بھی مسکرا تے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ ان سب کو یونہی مسکراتے ہنستے چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’جائو ونیزے ، واصق کمرے میں گیا ہے۔ شاید سارا سارا دن ادھر اُدھر بھاگتے دوڑتے تھک گیا ہے۔ تم دیکھو تو۔‘‘ بڑی امی نے واصق کا یوں اٹھ کر چلے جانا بہت محسوس کیا تھا۔ وہ ماں تھیں ، نظروں میں ہی تاڑ لیا کہ صاحبزادے کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ اپنے قریب بیٹھی ونیزے کے کان میں آہستگی سے کہا تو وہ اٹھنے لگی ۔ انہوں نے مزید ہدایت کی۔
’’میں نے کیتلی میں چائے بنا کر رکھ دی ہے۔ گرم کر کے لے جانا اور ساتھ میں سر درد کی کوئی ٹیبلٹ بھی۔‘‘ وہ سر ہلاکر کچن میں چلی آئی۔ گرم چائے اور ٹیبلٹ لے کر وہ جب کمرے میں پہنچی تو وہ ہیٹر آن کئے گرم لحاف میں لیٹا ہوا تھا۔ لائٹس آف تھیں اور بیڈ سائیڈ کے دونوں لیمپ روشن تھے۔
اس نے جیسے ہی لائٹ جلائی واصق کی خاصی ناگوار سی آواز ابھری۔
’’پلیز لائٹ آف رہنے دیں۔ آنکھوں میں چبھ رہی ہے۔‘‘
اس نے ایک سیکنڈبھی ضائع کئے بغیر حکم کی تعمیل کی تھی۔ چائے لئے اس کی سائیڈ پر آگئی۔
’’یہ چائے لے لیں۔‘‘ وہ کپ بڑھائے کھڑی تھی۔ ’’مگر میں نے تو آپ کو کہا ہی نہیں۔‘‘ نائٹ لیمپ کی مدھم سی روشنی میں ونیزے اس کے چہرے کی حیرت یا شاید نا پسندیدگی اچھی طرح محسوس کر سکتی تھی۔
’’آنٹی نے بھیجی ہے۔‘‘ وہ جتائے بغیر نہ رہ سکی۔
’’اوہ......اچھا ، لائیے۔‘‘ وہ اٹھ بیٹھا۔ اس کے ہاتھ سے کپ لے کر وہ پینے لگا تو اس نے ہتھیلی پر رکھی ٹیبلٹ بھی آگے کی۔ اب وہ واقعی چونکا تھا۔ ونیزے سے تو اس عنایت کی تو اسے امید نہیں تھی۔
’’کیا یہ بھی امی نے بھیجی ہے؟‘‘ چبھتا ہوا سوالیہ انداز تھا وہ کلس کر رہ گئی۔
’’جی۔‘‘ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔ واصق نے ٹیبلٹ اٹھا لی۔ وہ خاموشی سے بیڈ کی طرف آ کر بیٹھ گئی۔ اسے واصق کی اس حرکت اور بات نے دکھ پہنچایا تھا۔ وہ ہونٹوں کو کچلتی اپنے بالوں سے ہیئر پن اتار کر انگلیاں پھیر تے لیٹ گئی۔
’’میری امی اب آپ کی ساس بھی لگتی ہیں۔ انہیں آنٹی مت کہا کریں۔ وہ آپ کو اپنی بیٹی کہتی ہیں تو پھر آپ بھی انہیں ماں کا درجہ دینا چاہئے۔‘‘ کیا تحکم بھرا اسٹائل تھا۔ ونیزے کی تو جان ہی جل گئی۔ واصق پر ایک نظر ڈال کر رہ گئی۔
پرسوں کی بارش کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی مگر وہ ابھی تک کمبل ہی استعمال کر رہی تھی جبکہ کمرے میں صرف ایک ہی لحاف تھا جو دو دن سے واصق کے استعمال میں تھا۔ اس نے خاموشی سے کمبل اوڑھا ، لحاف میں سر دینے سے پہلے اس نے اپنی سائیڈ کا لیمپ بھی آف کر دیا۔ جس کی وجہ سے کمرے میںموجود نیلگوں روشنی اور مدھم پڑ گئی تھی۔
سحری کے وقت وہ واصق اس سے پہلے اٹھ گئی تھی۔ واصق سو رہا تھا جب اس نے منہ ہاتھ دھونے کے بعد باہر کی راہ لی۔
باہر اچھی خاصی چہل پہل ہو رہی تھی۔ تقریباً سبھی اٹھ چکے تھے لیکن دسترخوان پر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے اماں کے تخت پر بیٹھ گئی۔ وہ وظیفہ کر رہی تھیں وہ انہیں دیکھتی رہی۔
’’واصق اٹھ گیا؟‘‘ ہال کمرے کی طرف برتن لے جاتے بڑی امی نے پوچھا تو اس نے یونہی گردن ہلا دی جس سے ہاں یا ناں کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد دستر خوان بھی سج گیا تھا۔ سب بیٹھ گئے تھے تو وہ بھی بیٹھ گئی۔ ابھی اس نے لقمہ ہی لیا تھا جب دادی اماں کی پکار سنی۔
’’ونیزے بیٹی ! واصق نہیں آیا۔ کیا اٹھا نہیں ابھی تک۔‘‘
’’پتا نہیں....میرا مطلب ہے جب میں باہر آئی تھی تو وہ سو رہے تھے۔‘‘
’’عجیب نیند ہے اس کی۔ بے وقتی، جائو شاباش اسے اٹھا کر لائو۔ سحری کا وقت کم پڑتا جا رہا ہے اور وہ سو رہا ہے۔‘‘ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی ۔ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ اسی طرح سو رہا تھا۔ وہ جھنجلا کر اس کی طرف بڑھی ۔ اسے اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا پھر کھینچ لیا۔ فیصلہ نہ کر پائی کہ کیسے اٹھائے۔ کبھی خود سے مخاطب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی ایک دو دفعہ نام لینے کی زحمت کرنا پڑی تھی تو ’’سنئے‘‘کہہ کر کام چلا لیا تھا۔
’’سنئے۔‘‘ اب بھی وہی کہتے اس کے قریب کھڑے ہو کر پکارا مگر بے سود تھا۔ اب ہاتھ سے ہلائے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے اس کا کندھا ہلا دیا۔ اس کے باوجود وہ نہیں اٹھا تھا۔
’’سنیے پلیز.....اٹھ جائیں.....روزہ رکھ لیں۔‘‘ اسے پھر ہلاتے اس نے کافی نحیف آواز میں پکارا۔ جس انداز میں وہ پکار رہی تھی شاید ہی وہ اٹھتا پھر بھی واصق نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر بند کر لیں۔
’’سنیئے پلیز ! باہر سب سحری کر رہے ہیں روزہ رکھ لیں۔ بہت کم وقت رہ گیا ہے۔‘ ‘واصق کے آنکھیں کھول کر بند کر لینے سے وہ اچھی خاصی جھنجلا گئی تھی۔ اب کچھ اونچی آواز میں کہا۔ آواز میں جھنجلا گئی تھی۔ اب کچھ اونچی آواز میں کہا۔ آواز میں جھنجلاہٹ بہت نمایاں بھی پہلے والی نرمی مفقود تھی۔
واصق پر کچھ اثر نہ دیکھ کر وہ اسے ارادے سے پلٹ کہ امی کو بھیجتی ہے وہ خود ہی اپنے لاڈلے کو اٹھا لیں گی۔ ابھی وہ قدم بھی نہ اٹھا پائی تھی جب بے اختیار پلٹنا پڑا۔ اس کا ہاتھ واصق کے ہاتھ میں تھا۔ آنکھیں بد ستور بند تھیں۔ وہ اس جسارت پر کچھ نہ سمجھ سکی۔ البتہ پریشان ضرور ہوئی۔ واصق کا ہاتھ بہت گرم تھا ۔ انگلیاں جل رہی تھیں ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی آگ کے دہکتے انگارے نے اس کے ہاتھ کو چھو لیا ہو ۔ یکدم اس کے ذہن میں سر سراہٹ ہوئی۔ فوراً بیڈ کے کنارے ٹک گئی۔ لاشعوری طور پر اس پر جھکی۔
’’واصق ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘ ‘ وہ جو ہاتھ لگانے پر جھنجلارہی تھی۔ انتہائی پریشانی سے اس کا نام پکارتی اس کی دہکتی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھے پوچھ رہی تھی۔ دوسرا ہاتھ اس کے سینے پر دھرا ہوا تھا۔ واصق نے پوری کی پوری آنکھیں کھول لیں۔ آنکھوں کی رنگت بہت سرخ ہو رہی تھی۔
’’ہوں.....‘‘ اپنی پوری آنکھیں ونیزے کے چہرے پر جمائے اس نے ہنکارا بھرا۔ وہ بے چین ہوا ٹھی۔
’’آپ کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ اس کا بازو ہلاتے اس نے دوبارہ پوچھا۔
’’نہیں .....ٹھیک ہوں میں۔‘‘ اس کا ہاتھ ہٹاتے لحاف ایک طرف کر کے اس نے کہا تو وہ فکر مندی سے اسے دیکھے گئی۔
’’مگر آپ کو تو تیز بخار ہے۔‘‘ اسے اٹھ کر بستر سے نیچے ٹانگیں لٹکاتے دیکھ کر اس نے کہا۔ کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے گھنے بالوں کو پیچھے کرتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ونیزے بھی کھڑ ی ہو گئی۔
’’آپ پلیز لیٹ جائیں ۔ آرام کریں، آپ کو تو بہت تیز بخارہے۔‘‘ اسے باتھ روم کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ کہے بغیر نہ رہی۔ وہ سنی ان سنی کرتا اندر گھس گیا۔ وہ وہیں ٹہلنے لگی۔
واصق تولئے سے منہ ہاتھ صاف کرتا باہر نکلا تو اسے وہیں دیکھ کر رک گیا۔
’’آپ روزہ مت رکھیں اس طرح تو طبیعت اور خراب ہو جائے گی۔ ‘‘ وہ بہت ڈرپوک اور چڑیا جتنے دل کی مالک تھی۔ وہ تو دشمن کو بھی بیمار نہیں دیکھ سکتی تھی یہ تو پھر اس کا اپنا شوہر تھا۔ کیسے برداشت کر لیتی۔
’’آپ بھول رہی ہیں یہ فرض روزے ہیں، کسی صورت معافی نہیں۔‘‘ ٹاول صوفے پر پھینکتے واصق نے کہا تو وہ چڑ گئی۔
’’مگر بیماری کی حالت میں کچھ رعایت تو ہے نا۔‘‘ وہ خوا مخواہ اس سے الجھ پڑی۔
’’میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی باہر کسی سے میری طبیعت کے متعلق ذکر کرنے کی۔‘‘ بہت ہی زیادہ کھردرے الفاظ میں کہتا وہ باہر نکل گیا تھا۔ پیچھے وہ کھڑی دیکھتی رہ گئی۔
صبح سحری کے وقت واصق نے کوئی میڈیسن نہیں لی تھی۔ سارا دن روزے کی حالت میں ہوتے ہوئے طبیعت مزید خراب ہو گئی تھی۔ سارا دن کمرے میں بے سدھ لیٹا رہا۔ ونیزے جو سارا دن اندر باہر آتی جاتی اسے دیکھ کر ہولتی رہی تھی۔ افطاری کے بعد برداشت نہ ہوا تو امی سے خراب طبیعت کا ذکر کر دیا۔ وہ اس کے ساتھ ہی کمرے میں آ گئی۔
’’تم نے صبح ہی ذکر کیوںنہیں کیا تھا۔‘‘ واصق کے سرہانے بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھتے انہوں نے اس سے پوچھا ۔ وہ اپنی جگہ چور سی بن گئی۔
’’انہوں نے منع کر دیا تھا۔‘‘ واصق کی طرف دیکھتے بتایا۔
’’حد ہوتی ہے واصق بے پروائی کی بھی۔ ‘‘ انہوں نے اب واصق کو جھڑکا۔
’’امی ٹھیک ہوں میں۔ لڑکی تھوڑی ہوں میں جو آپ اس پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘ اب بھی وہ سخت جھنجلا گیا تھا ۔ انہوں نے ڈانٹا۔
’’عجیب عادت ہے تمہاری ، بے پروائی والی۔ کبھی اپنا خیال نہیں کیا تم نے ۔ روزہ بھی افطار کیا تھا یا یونہی بے سدھ لیٹے ہو۔‘‘ افطار کو تو کافی وقت گزر گیا تھا۔ ان کے پوچھنے پر اس نے سر ہلا دیا۔
’’کس سے ؟‘‘ ان کی جرح جاری تھی۔
’’آپ کی بہو نے دودھ لا دیا تھا۔‘‘ بہت جھنجلا کر اس نے کہا تھا۔ امی نے پروا نہ کی۔
’’میں بلواتی ہوں کسی کو۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جائو۔‘‘
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئیں تو وہ اس پر الٹ پڑا۔
’’کیا ضرورت تھی امی کو پریشان کرنے کی۔‘‘
’’آپ کو اتنا ہائی ٹمپریچر ہے۔ مجھ سے نہیں دیکھی جا رہی تھی آپ کی یہ حالت۔‘‘
واصق نے ہونٹ بھینچ لئے۔ امی شہروز کو بلوا لائی تھیں ۔ ان دونوں کو زبردستی ڈاکٹر کی طرف بھیجا۔
’’میں بہت اچھی طرح دیکھ بھی رہی ہوں اور محسوس بھی کر رہی ہوں۔ تمہاری دادی اماں نے بھی مجھے کتنی دفعہ ٹوکا ہے کہ تم دونوں کی جب سے شادی ہوئی ہے تب سے تم دونوں کو چپ سی لگ گئی ہے۔ شادی شدہ جوڑوں والی کوئی بات نہیں تم میں۔ چلو واصق تو اس شادی پر تیار ہی نہیں تھا اس کا روّیہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر تم کیوں ایسا کر رہی ہو۔ وہ سارا دن گھر سے باہر گزار دیتا ہے۔ رات گئے لوٹتا ہے تو تم جو سارا دن اچھی بھلی ہوتی ہو ۔ کبھی مل بیٹھ کر بات کرتے تم دونوں کو دیکھا نہیں۔ دیکھو، اگر کوئی مسئلہ ہے ، کوئی بات ہے تم دونوں میں تو بلا جھجک مجھے کہو۔ واصق نے اگر کچھ کہہ دیا ہے تو بھی کہو اگر اس کا قصور ہوا تو ضرور ٹوکوں گی۔ ایسی زندگی گزارنے کی اجازت بالکل نہیں دوں گی۔ میں تو تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں میری جان! مسکراتے ہوئے ایک ساتھ۔‘‘
رات کو سب ہی ہال کمرے میں نماز ادا کر رہی تھیں۔ نماز پڑھ کر ایک ایک کر کے سب اٹھ گئیں تو آخر میں وہ اور امی تنہا رہ گئی تھیں۔ تبھی دعا مانگ کر انہوں ے یہ ذکر چھیڑ دیا تھا۔ ان کی اس محبت بھری پھوار پر ونیزے کا دل چاہا اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دے۔ سب کچھ کہہ دے۔ چھ سال بعد اس کو ان کے روپ میں ماں ملی تھی۔ بلکہ ماں سے بھی بڑھ کر محبت کرنے والی شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ وہ کیسے ان سے کچھ چھپا سکتی تھی۔ جبکہ اب وہ خود اس مسئلے کا حل چاہتی تھی۔ واصق کی اچانک خراب ہو جانے والی طبیعت پر وہ الگ پریشان تھی اور یہ رنجش جس کا کوئی اختتام نہیں ہو رہا تھا وہ اب مزید نہیں برداشت کر سکتی تھی ۔ اب امی نے یہ قصہ خود چھیڑا تو وہ انہیں سب بتاتی گئی۔ اپنے دل کی ساری باتیں واصق کے متعلق دل میں پیدا شدہ سارے گلے شکوے ، سارے شکوک و شبہات ، واصق کی کہی گئی تمام باتیں ، سب کچھ امی خاموشی سے سب سنتی رہیں۔
’’ یہ جو تمہارے دل میں خلش ہے کسی دوسری لڑکی کے متعلق اسے باہر نکال دو۔ واصق کی گواہی میں تمہیں دیتی ہوں ۔ وہ اس قسم کا لڑکا نہیں ہے۔ جہاں تک اس لڑکی کی بات کا تعلق ہے تو میں واصق سے پوچھوں گی۔ شاید دوستوں میں مذاق میں کوئی الٹی سیدھی بات کہہ دی ہو ۔ واللہ علم ۔ میں اسے پوچھوں گی ، تم دل چھوٹا مت کرو۔‘‘ انہوں نے شفقت سے اس کا کندھا تھپکا۔
’’ونیزے یہ رمضان کا اتنا برکت والا مہینہ ہے ، رحمتوں و نوازشوں والا۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی خوشیوں کی بقا مانگو نہ کہ دل کو توہمات کا گھر بنا کے اپنی نیکیوںکو ضائع کرو۔ کل چھبیسواں روزہ ہے۔ عید آنے میں بھی صرف ماشا اللہ چار دن باقی ہیں۔ اگر اسی طرح ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے، کھنچے ہوئے ، بے بنیاد غلط سلط خدشات میں گھرے ہوئے یہ دن بھی گزار دیئے تو کیا فائدہ ہوا ایسی عبادت کا ، خلوص و تقویٰ سے رکھے روزوں کا ، عقیدت سے کی جانے والی تلاوت کا ، جب تم دونوں میاں بیوی ہونے کے باوجود اس بندھن کو نبھانے سے پہلو بچا رہے ہو۔ صرف اور صرف اپنی اپنی ذات میں قلعہ بند ہو کر کتنا بڑا گناہ کر رہے ہو تم دونوں۔ اپنے دل کے اندر چھپی ہوئی رنجشوں ، غلط فہمیوں کو سینچتے ہوئے شکوک و شبہات کو پروان چڑھا رہے ہو۔ مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ تم نے اپنے دل کی بات پہلے ہی دن مجھ سے کیوں نہ کہی۔ اگر کہہ دیا ہوتا تو آج صورت حال کچھ مختلف ہوتی ۔ بہر حال تمہیں اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ واصق کی طرف سے بھی دل صاف کر لو وہ اب تمہارا شوہر ہے۔ تمہاری پہلی ترجیح ، اس کی ضمانت تمہیں میں دیتی ہوں۔‘‘ اس کے ہاتھ کو تھپکتے انہوں نے کہا تو وہ ان کی آغوش میں منہ چھپا کر رو دی۔
’’ایم سوری امی! مجھے احساس ہے یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں میرا بھی قصور ہے۔ مگر میں کیا کرتی ، میں جن حالات سے گزر کر آئی ہوں اور جو درپیش تھے انہوں نے مجھے کم حوصلہ ، کم فہم ، اور خوفزدہ کر دیا تھا۔ ہر شخص مجھے محبوب رحمانی ہی لگتا تھا۔ ایسے میں واصق کو دیکھ کر انہیں بھی ہرٹ کر گئی ۔ اس میں میری کسی شعوری کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ حالات ہی ایسے تھے پھر میرے دل میں روشاسنے کے متعلق بھی بے اعتباری تھی اور اس حد تک تھی کہ میں محبت و یقین اعتماد و اعتبار کے درمیان معلق ہو کر رہ گئی تھی۔ دل میں بے اعتباری ہی بے اعتباری تھی۔ ‘‘ اس نے اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے اس کا چہرہ اٹھا کر اشک صاف کئے۔
’’اب نہیں رونا......سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ جائو اپنے کمرے میں اور آرام کرو۔ واصق کا بھی خیال رکھنا۔ اب تک تو وہ ڈاکٹر کے پاس سے آ گیا ہو گا۔‘‘ وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں آ گئی ۔ واصق صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
آنسو بہانے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔’’سوں ، سوں‘‘ کرتی وہ بستر میں دبکی تو واصق نے بغور دیکھا۔ وہ دھیان دئیے بغیر کمبل سر تک تان گئی۔
X X X
عید کی تیاریاں کرتے ، افراتفری میں سب کام نبٹاتے ، آخری روزہ بھی آ پہنچا۔ امی نے واصق سے بات کی تھی یا نہیں وہ نہیں جانتی تھی نہ انہوں نے خود ذکر کیا تھا۔ واصق کا روّیہ جوں کا توں برقرار تھا۔ اور خود سے کوئی پیش رفت کرنا اسے بہت برا لگا۔ وہ انتظار ہی کرتی رہی کہ واصق شاید اپنے اور اس کے لئے منتخب کی گئی سزا کو ختم کر دے مگر انتظار انتظار ہی رہا اور سارا رمضان گزر گیا۔
وہ سارا دن خود ہی جھنجلاتی رہی۔ اس نے تو نہ ہی عید کی تیاری کی تھی، نہ کپڑے ، نہ جیولری کچھ بھی نہیں لیا تھا۔ اوپر سے حیرانگی یہ تھی کہ گھر کے کسی فرد کو بھی اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ واصق سے تو اس نے یہ توقع رکھی ہی نہیں تھی۔ ستائیسویں روزے والے دن ہی بھیا بھابی اس کے لئے عیدی لے آئے تھے۔ آج بھی سارا دن خود سے لڑتے الجھتے وہ یہی سوچتی رہی کہ ان کے لائے گئے دو جوڑوں میں سے کوئی ایک پہن لے گی۔ چونکہ آج آخری روزہ تھا اسی لئے افطاری پر بھیا بھابی اور بچے بھی ان کے ہاں انوائیٹڈ تھے ۔ افطاری کے بعد دو تین گھنٹے بیٹھ کر وہ چلے گئے تو وہ پھر خود سے الجھنے لگی۔
چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ وہ اگنور کئے اوپر ٹیرس پر آ گئی۔ باہر مسجد میں سے تکبیر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سڑک پر گاڑیوں کا کافی رش تھا۔ ہر طرف چاند رات کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور ایک وہ خود تھی جو ویران دل لئے رونے کو بے تاب تھی ۔ اس کا دل بھر بھر آنے لگا۔
’’ونیزے ..... حیرت ہے ، کہاں ہوتی ہیں آپ ، ذرا بھی گردوپیش کا خیال نہیں ہوتا۔ میں نے کتنی دفعہ آپ کو پکارا ہے مگر مجال ہے جواب ملا ہو۔‘‘ وہ ابھی بھی خود میں غرق تھی، جب واصق کی بھنائی ہوئی آواز سنی۔ اس نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو اس نے اچھی خاصی جھاڑ پلا دی۔
’’آ......آ......پ‘‘ وہ اس کی موجودگی سے بے خبر تھی اپنی جگہ کنفیوز سی ہو گئی۔
’’مجھے ایک کپ چائے چاہئے ۔ نیچے سب بزی ہیں ورنہ.....‘‘ اس نے اسے دیکھتے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’بنانا آتی ہے نا چائے آپ کو ؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا جبکہ ونیزے کے اندر اسے واصق کا بار بار آپ، آپ کہنے پر تلملا ہٹ سی ہونے لگی۔ خاموشی سے سر ہلا کر نیچے اتر کر کچن میں چلی گئی ۔
’’بنانا آتی ہے نا چائے آپ کو ؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا جبکہ ونیزے کے اندر اسے واصق کا بار بار آپ، آپ کہنے پر تلملا ہٹ سی ہونے لگی۔ خاموشی سے سر ہلا کر نیچے اتر کر کچن میں چلی آئی۔
کیتلی چولہے پر چڑھا کر وہ دودھ نکالنے فریج کی طرف بڑھی ، جب دودھ کا پیکٹ نکال کر پلٹی تو واصق بھی کچن میں داخل ہو رہا تھا ۔پہلے تو چونکی پھر سر جھٹکتے چائے بنانے لگی۔
’’ایک بات تو بتائیں۔ آپ اپنے گردوپیش سے اتنی بے خبر کیوں رہتی ہیں یہ اچھی بات تو نہیں۔‘‘ انتہائی بے تکلف انداز میں کہتے وہ کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب بیٹھا تو وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔
واصق کا چہرہ کیسا کھلا کھلا سا تھا ۔ آنکھوں کی معنی خیز سی چمک کچھ اور افسانے سنا رہی تھی۔ اس نے پزل ہو کر رخ موڑا ۔ خوا مخواہ چولہے کی آگ کم اور زیادہ کرنے لگی۔
’’کیا بات ہے، کوئی مسئلہ ہے جو اتنے غور سے سوچا جا رہا ہے۔‘‘ وہ جو اتنی پوری توجہ اور دھیان چائے پر رکھے ہوئے تھی۔اس گل افشانی پر چڑ گئی۔
’’آپ کو کون سا وہ مسئلہ حل کر دینا ہے۔‘‘ صاف بڑ بڑاہٹ تھی۔ واصق محظوظ ہوا۔ ونیزے رخ موڑ کر کھڑی ہو نے کے باوجود واصق کی نظروں کی تپش اپنی پشت پر اچھی طرح محسوس کر رہی تھی۔ وہ اندر ہی اندر جھنجلانے لگی کہ یا تو وہ یاں سے اٹھ کر چلا جائے یا پھر اس کی الجھن دور کر دے۔ یہ شاید جھنجلاہٹ ہی تھی یا پھر ہاتھ چھلکا تھا۔ کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کیتلی سے چائے اچھل کر اس کے دوسرے ہاتھ پر گرتے گرتے بچی ۔ پھر بھی گھبراہٹ میں ہاتھ کیتلی سے چھو گیا تھا۔ بے پناہ تکلیف کا احساس جا گا ۔ ہلکی سی سسکی ہونٹوں سے آزاد ہوئی۔ اس نے جلدی سے کیتلی رکھ کر اپنا بایاں ہاتھ تھاما۔ واصق جو سب دیکھ رہا تھا وہ بھی یکدم قریب آیا تھا، فوراً اس کا ہاتھ پکڑا۔
’’دھیان کہاں تھا آپ کا......ابھی جل جاتا تو۔‘‘ روئی کے گالوں جیسے نرم و نازک شفاف ہاتھ کی تھوڑی سی انگلی جل گئی تھی۔
’’بہت بے خبر رہتی ہیں آپ اگر چائے بنانا نہیں آتی تھی تو انکار کر دیا ہوتا۔‘‘
وہ غصے ہو رہا تھا ۔ وہ کچھ بے یقینی سے دیکھنے لگی ۔ وہ تو اس بے قراری سے ہاتھ پکڑنے پر ہی حیران تھی۔ ان الفاظ پر بھونچکا رہ گئی مگر اگلے ہی لمحے اتنے دنوں کی بے قراری دل کی الجھن چڑ چڑا پن بن کے باہر آ گئی۔
’’چھوڑیں میرا ہاتھ۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہتے سختی سے کھینچا مگر گرفت بہت مضبوط تھی۔ اس نے کچھ غصے سے کچھ گھبرا کر دیکھنا چاہا مگر نظریں اگلے ہی لمحے جھک گئیں۔ کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں۔ اسے اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔ دل کی دھڑکن تو حد سے بڑھ گئی تھی۔
’’کیا ہے......چھوڑتے کیوں نہیں۔ چائے ڈالنی ہے مجھے۔‘‘ وہ اب روہانسی ہو گئی تھی۔ واصق نے کچھ نہیں کہا تھا۔ اسی طرح بدستور ہاتھ پکڑے ، کمر میں دوسرا بازو ڈالے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
’’کیا کرتے ہیں......وہ چائے۔‘‘ وہ تو پہلے ہی گھبرا گئی تھی۔ اب حواس باختہ بھی ہو گئی۔
’’وہ بھی آ جائے گی تم چلو۔‘‘
’’اوہ میرے اللہ۔‘‘ ونیزے کو تو اپنے رہے سہے حواس بھی جاتے محسوس ہوئے۔ واصق کی نظریں ، لہجہ ، روّیہ کیا طرز تخاطب بھی چینج تھا۔ ’’تم‘‘ دماغ اسی پر الجھ گیا اور واصق اسے لئے اپنے کمرے میں آ گیا اور اسی طرح پکڑے بیڈ پر بٹھا دیا۔
’’ایک منٹ ، میں ابھی آیا۔‘‘
وہ فوراً باہر نکل گیا تھا۔ جب لوٹا تو ہاتھ میں چھوٹی ٹرے تھی۔ جس میں چائے کے دو کپ تھے ایک کپ اسے تھمایا تو اس نے لرزتے ہاتھوں سے تھام لیا۔ دوسرا کپ لے کر وہ بھی اس کے برابر ہی ٹک گیا۔ کیوں کہ اپنا بایاں بازو اس کے کندھے پر رکھ دیا تھا ۔ وہ اس قرب پر مزید سٹپٹائی۔
’’یار روٹھی ہوئی محبوبہ یا بیوی کو کیسے مناتے ہیں ، مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں کیونکہ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ ہے ۔‘‘ چائے کا سپ لیتے اس نے ابتدا کی۔
’’میں کوئی روٹھی ہوئی نہیں ہوں ۔‘‘ بڑی آہستہ آواز میں وہ منمنائی ۔ چائے کا کپ تو یوں بھی ہاتھ میں لرز رہا تھا ۔ واصق نے ہاتھ نہ جلا لینے کے ڈر سے کپ تھام کر ٹرے میں رکھ دیا۔ اس کی منمناہٹ بھی سنی تھی۔
’’ہاں تو پھر میں کیا کہہ رہا تھا۔‘‘ واصق نے تھوڑا سا جھک کر اس کا چہرہ دیکھا جو سرخ ہو رہا تھا ۔ ونیزے نے سر اس قدر جھکایا ہوا تھا کہ بس سجدہ کرنے کی کسر رہ گئی تھی۔ ایک بے اختیار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر سرائیت کرتی گئی پھر اس نے اپنے ہاتھ میں اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے جو انتہائی یخ ہو رہے تھے۔
’’کوئی اور بات کرنے سے پہلے میں اپنی جاب کے متعلق اچھی طرح بتا دوں تا کہ تمہارے دل و دماغ میں موجود روشانے نامی آخری خلش بھی مٹ جائے جو سارے قصے کی اصل وجہ تھی۔ مجھے ہر گز ہر گز علم نہیں تھا کہ تم میری جاب کے متعلق اتنی بے خبر ہو۔ میں انٹیلی جنس میں خاص گروپ میں کام کرتا ہوں ۔ میرے کام میں احتیاط، راز داری بہت ضروری ہوتی ہے ۔ ہر کام بہت خاموشی سے خفیہ پیمانوں پر کیا جاتا ہے۔ ‘‘ ونیزے ان باتوں پر حیران ہوئی۔ بھلا ان سب باتوں کا روشانے سے کیا تعلق ہے۔
’’تم یقینا حیران ہو رہی ہو کہ روشانے اور میری جاب کا کیا تعلق مگر جب تم میری ساری بات سنو گی تو خود بخود جان جائو گی۔ بس اتنا بتا دوں کہ میر ی جاب کے متعلق بہت کم لوگ باخبر ہیں صرف خاص دوست احباب ، رشتہ دار اور گھر والے ہی جانتے ہیں۔ ورنہ عام لوگوں کو میں ہمیشہ یہی بتاتا ہوں کہ صرف پولیس میں ہوں۔ صرف اس لئے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس میں راز داری سب سے اہم شرط ہے۔‘‘ وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا اس کے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑا تھا۔ الجھن زدہ انداز میں سر اٹھا کر اسے دیکھے گئی۔ پہلے والی گھبراہٹ مفقود تھی۔ واصق نے چائے کا کپ اٹھا کر اسے دوبارہ تھمایا۔
’’لو اب یہ پیو۔‘‘ وہ خاموشی سے تھام کر گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔
’’پچھلے دنوں پورے پانچ ماہ میں جس پراجیکٹ پر کام کرتارہا تھا وہ دہشت گرد وں کی ایک تنظیم تھی جب اپنا کام نمٹا کر واپس لوٹا تو تصور میں بھی نہیں تھا کہ میری زندگی میں بھی کوئی انہونی ہو جائے گی۔ پہلے ہی مرحلے پر تم سے سامنا ہونا کسی انہونی سے کم نہ تھا۔ میں تو صرف یہ سمجھاتھا کہ کوئی انجان لڑکی ہمارے گھر میں گھس گئی ہے اور اب نجانے اس کے کیا ارادے ہیں اسی لئے میں سختی سے پیش آیا تھا۔ نتیجہ برعکس نکلا اور تم بے ہوش ہو گئی ۔ بعد میں تمہیں دیکھا تو الجھتا رہا کہ یہ چہرہ کہیں دیکھا بھالا ہے مگر کہاں؟ بہت سوچنے کے باوجود یاد نہ آیا۔ میں ایک سال قبل نمٹائے گئے کیس کے متعلق بالکل بھول چکا تھا۔ پھر انہی لمحوں میںجب تم امی کے بلانے پر تخت پر آ کر بیٹھی تھیں تو میں چاہنے کے باوجود اپنی نظریں اور سوچیں تمہارے وجود پر سے نہ ہٹا سکا اور لمحوں میں تمہارے سحر میں کھویا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہوں مگر تمہارے مقابل تو میرا دل مجھے ہی دھوکہ دے گیا اور میں کچھ بھی نہ کر سکا ۔‘‘ اب کے واصق کے لہجے میں خاصی بے چارگی اور محبت کی پھوار تھی۔ وہ جو مسلسل اسے دیکھ رہی تھی اس کے بے چارگی اور معنی خیز انداز میں مسکرانے پر فوراًنظریں جھکا گئی۔ واصق تھوڑا سا شریر ہوا۔
’’یار اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ تمہاری یہ ناگن سی زلفیں میرے سینے پر لوٹ پوٹ ہوئیں مجھے حقیقت میں ڈس ہی گئی تھیں۔‘‘ ونیزے کے بالوں سے ہیئرکیچر اتار کر سارے بال بکھرا دیئے تھے۔ سارا وجود لمبے گھنے سیاہ بادلوں میں چھپ گیا تھا۔ واصق نے اتنا غیر متوقع کیا تھا کہ وہ مزاحمت بھی نہ کر سکی۔
’’پلیز.....‘‘ وہ معنی خیز الفاظ سے زیادہ نظروں کی بے باکی پر روہانسی ہو کر اس کے ہاتھوں کو دھکیلتے پیچھے ہٹی تو واصق کا بلند قہقہہ فضا میں گونجتا اسے مزید معطر ہو گیا پھر اس کے ہاتھ سے خالی کپ لے کر دوسرے کپ کے ساتھ ٹرے میں رکھا۔ اسے کندھوں سے تھام کر خود سے قریب کر لیا۔
’’تمہارے بارے میں دادی اماں سے علم ہوا پھر امجد بھائی سے ملا اور ساری صورتحال کو خود اپنے طور پر ہینڈل کرنے کی اجازت لی۔ وہ فوراً رضامند ہو گئے۔ اس دوران تمہاری ناپسندیدگی و بے اعتباری مجھ پر بہت اچھی طرح واضح ہو چکی تھی مگر وجہ کیا تھی میں بے خبر تھا یہ مسئلہ صرف تم سے بات کرنے سے ہی حل ہو سکتا تھا مگر تم نے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس رات جب تم نے مجھے اچھی خاصی سنا ڈالی تھیں تو میں وہاں ٹیرس پر پہلے سے ہی موجود تھا۔ تمہیں دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ جب تم رونے لگی تو مجھے خود پر اختیار نہ رہا اور سب باتیں بھلائے تمہاری طرف لپکا تھا جواباً تم نے جس طرح کی عزت افزائی کی تھی اپنی بے یقینی و بے اعتباری کو جو نام دیا تھا میرا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں ۔ ونیزے سچ سچ بتائو کیا میں تمہیں شکل سے چور، فراڈ اور لوز کریکٹر کا شخص لگتا ہوں۔‘‘ اس کی بات پر وہ شرمندہ ہوتی سر جھکا گئی۔
’’ اس میں میرا کیا قصور تھا۔ آپ بھی تو میرے ساتھ ایسی مشکوک حرکتیںکر رہے تھے۔ پھر اچانک رات کو آپ کو اپنے سامنے دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ جو منہ میں آتا گیا ، میں کہتی گئی، جواباً آپ نے بھی رعائیت نہیں کی تھی۔ بری طرح ذلیل کر دیا ۔ عام سی ذہنیت والی سطحی سوچ کی حامل عام سی لڑکی کہہ کر ۔ ‘‘ شکوہ اس کے لبوں سے بھی پھسل گیا تھا۔ واصق ایک دم ہنس پڑا تھا۔
’’ اس میں میرا کیا قصور تھا۔ آپ بھی تو میرے ساتھ ایسی مشکوک حرکتیںکر رہے تھے۔ پھر اچانک رات کو آپ کو اپنے سامنے دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ جو منہ میں آتا گیا ، میں کہتی گئی، جواباً آپ نے بھی رعائیت نہیں کی تھی۔ بری طرح ذلیل کر دیا ۔ عام سی ذہنیت والی سطحی سوچ کی حامل عام سی لڑکی کہہ کر ۔ ‘‘ شکوہ اس کے لبوں سے بھی پھسل گیا تھا۔ واصق ایک دم ہنس پڑا تھا۔
’’اگر عام سی لڑکی ہوتیں تو امی کے بے پناہ اصرار اور دھمکیوں کے باوجود کبھی شادی کے لئے ہامی نہ بھرتا۔ کچھ دل کی خواہش تھی اور کچھ امی کی محبت کہ میں خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر اس رشتے پر آمادہ ہو گیا۔‘‘
’’ڈاکٹر کے پاس سے گھر لوٹا تو وجیہ کے بتانے پر کہ تم اور امی ہال کمرے میں ہو۔ میں یونہی ادھر آ گیا اور پھر تمہاری امی کی ساری باتین سن لیں۔ حیرت بھی ہوئی اور ساتھ یہ انکشاف بھی کہ روشانے بی بی کون ہیں اور میں نے تمہیں پہلی بار کہاں دیکھا۔ تم دونوں پر ظاہر کئے بغیر میں واپس کمرے میںآگیا تھا۔ ارادہ تم سے فوراً بات کرنے کا تھا اسی لئے صوفے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ بعد میں جب تم آئیں تو یہ سوچ کر بات کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کہ کیا پتا یہ بے قراری ، یہ الجھن ، صرف اور صرف بیوی ہونے کے ناتے ہو۔ جبکہ شادی کی رات میں نے کہا تھا کہ اعتماد اور یقین کے ساتھ ساتھ مجھے محبت بھی چاہئے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ روشانے کے متعلق میری ذات کی بے اعتباری و بے یقینی تمہارے دل میں موجود چھپی محبت ہے یا پھر صرف ایک بیوی کی رقیبانہ سوچ۔‘‘
واصق کی ان باتوں پر اس کے دل نے پھر غیر معمولی دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔ نظریں جھک کر رہ گئیں۔
’’روشانے نامی لڑکی میری جاب کا ایک حصہ تھی ، وہ اس طرح کہ وہ ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے۔ اس کا اصل نام رومینا ہے۔ ہم دونوں کو بطور خاص اس کام پر مامور کیا گیا تھا کہ مختلف کالجز اور اسکولز میں سے ہونے والی بھولی بھالی خوبصورت لڑکیوں کے اغوا کرنے والے گروہ اور اس گھنائونے مافیا کے اصل مہروں کو بے نقاب کریں۔ تم لوگوں کے کالج میں بھی ایک ایسی ٹیچر تھی۔ روشانے وہاں طالبہ کے طور پر گئی تھی۔ میں اسے روز چھوڑنے اور لے جانے جاتا تھا۔ اس طرح ہم نے بہت احتیاط اور رازداری سے یہ سارا کیس حل کیا تھا۔ روشانے کے توسط سے ہی میں تم سے ملا تھا ۔ کیونکہ اس ٹیچر نے جن جن لڑکیوں کو حدف بنایا تھا ان میں ایک تم بھی تھیں۔ ہمارا پلان کامیاب ہوا تھا ۔ وہ ٹیچر گرفتار کر لی گئی تھی ساتھ میں اس کا پورا گروپ بھی پکڑا گیا تھا۔ چونکہ یہ تعلیمی اداروں کی بہتر ساکھ کا سوال تھا والدین یہ جاننے کے بعد کہ اب ان تعلیمی اداروں میں کیسے کیسے لوگ داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں کبھی بھی اپنے بچوں کو نہ بھیجتے اسی لئے ہمیں اسکولز اور کالجز کے نام شو کئے بغیر روشانے اور اس کے گروپ کو مجرم کے طور پر اخبار میں پیش کرنا پڑا تھا ۔ یہی وہ لڑکی تھی جس کی وجہ سے تم میرے متعلق انتہائی مشکوک رہی ہو۔ روشانے کی شادی ہو چکی ہے اب اتو اس کے دو بیٹے بھی ہیں ۔ ‘ ‘ وہ انکشاف پر انکشاف کرتا جا رہا تھا آخر میں انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا وہ شرمندہ ہوتی فوراً کہہ گئی۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘
’’اٹس اوکے یار! ہم جیسے لوگوں کو ہر کوئی مشکوک نظروں سے ہی دیکھتا ہے ۔ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے، اب خیال کرنا۔ جہاں محبت ہو وہاں شکوک و شبہات بھی ہوتے ہیں۔ کوشش کرنا بے یقینی و بے اعتمادی ہمارے درمیان نہ آنے پائے۔‘‘ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے اس نے کہا تو وہ فوراً سر ہلا گئی۔ اگلے ہی لمحے اپنی بے اختیاری پر جھینپ بھی گئی۔
’’تمہیں اصل بات تو بتائی ہی نہیں۔ تمہارے وجہ سے مجھے امی کی اچھی خاصی جھاڑ سننے کو ملی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے جب بھیا بھابی کے جانے کے بعد افسردہ ہو گئی تھیں تو مجھے فوراً تمہارے پیچھے دوڑایا اور یہ بھی سن لو میرے کار ایکسیڈنٹ اور گھر آنے والی گمنام کال کے پیچھے محبوب رحمانی کا ہاتھ تھا۔‘‘ واصق نے ہلکے پھلکے انداز میں بتایا ۔ وہ دیکھتی رہی۔
’’ اور ہاں یاد آیا، چاند رات مبارک تو میں نے کہا ہی نہیں۔‘‘ اس کا جھکا چہرہ اوپر اٹھاتے اس نے کہا تو وہ بے اختیار بلش ہو گئی۔ اس کے دونوں ہاتھوں کو جھٹک کر کھڑی ہوگئی۔
’’بہت جلد یاد آگیا......وہ بھی اگر امی نہ کہتیں۔‘‘ ساری گرہیں کھلیں تو یہ احساس بھی جاگا کہ وہ چار دن سے کس قدر الجھن میں تھی اور ابھی تھوڑی دیر پہلے کیوں جھنجلا رہی تھی۔ دل بار بار کیوں بھر آ رہا تھا۔
واصق نے اس خفگی بھرے وجود کو فوراً کندھوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف کر لیا تھا۔
’’بھولا ہی کب تھا۔ اگر امی نہ کہتیں تو تب بھی مجھے تمہارے پاس ہی آنا تھا۔ آئو تمہیں تمہاری عید کی شاپنگ دکھائوں ۔‘‘ وہ اسے لئے بیڈ کے دوسری طرف رکھی بے تحاشاچیزوں کی طرف بڑھا جن کی طرف ابھی تک اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔
’’جب تمہارے دل میں موجود ہ جذبہ رقابت اور محبت کے درمیان میں سے میں نے محبت کو اخذ کر لیا تو یہ سب سامان بھی لے لیا۔ ارادہ تمہیں صبح سر پرائز دینے کا تھا مگر تمہاری صورت ایسی جھنجلائی اور روہانسی ہو رہی تھی کہ مجھے تم پر ترس آ گیا ۔‘‘ ایک ایک چیز اس کے سامنے رکھتے وہ کہہ رہا تھا۔ وہ سب کچھ دیکھے گئی۔ چہرے پر بے پناہ جھملاہٹ و اشتیاق در آیا تھا۔ واصق مسکرادیا۔
پرپل رنگ کا خوبصورت کا مدانی ، جوڑا، مہندی ، چوڑیاں ، جیولری پھولوں کی لڑیاں ، گجرے ، پازیبیں ، پرفیوم اور بھی نجانے کیا کیا تھا وہ مسحور دیکھتی رہ گئی۔
’’مجھے خاص زنانہ شاپنگ کرنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ پہلی دفعہ کی ہے اگر کوئی چیز مس ہو گئی ہے تو آئی ایم سوری۔ اگلی عید پر ہم دونوں خود جائیں گے شاپنگ کرنے۔‘‘ آخر میں آنکھ دبا کر اس نے کہا تو وہ شرم سے سرخ ہوتی پوری جان سے کانپی۔ خوا مخواہ چیزیں ادھر ادھر کرنے لگی۔ تبھی واصق نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے مقابل کھڑا کر لیا۔ جھکی پلکیں جھکی ہی رہ گئیں۔
’’میری طرف دیکھو ونیزے۔‘‘ وہ سر گوشیانہ انداز میں کان میں بولا۔ اس نے اٹھتی گرتی پلکیں اٹھا کر ایک لحظہ کو مقابل کو دیکھا ۔ نگاہوں میں والہانہ پن اور بے خودی تھی۔ وہ تاب نظارہ لاسکی۔ بے اختیار سر جھکایا تو اس کے سینے سے ٹکرایا۔ گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہا تو گرفت سخت ہو گئی۔ وہ صرف کسمسا ہی سکی۔
’’پلیز.....‘‘ وہ اس کے قرب کی تپش سے گھبرا کر مسکائی۔
’’اوں.....ہوں۔ آج پہلی دفعہ تو تم خود میرے قریب آئی ہو۔ مکمل خود سپردگی کے ساتھ۔ کیسے چھوڑ دوں۔ پہلی دفعہ تو کوئی اپنا حق استعمال کر رہا ہوں۔‘‘
محبت کے نشے میں ڈولتی آنکھیں اور مخمور لہجہ تھا۔ ونیزے کو آج اپنا آپ بچ نکلنا بہت نا ممکن لگا۔ مقابل تو بن پئے ہی بہک رہا تھا۔
’’آج رات روئے زمین پر میری بیوی سے زیادہ اور کوئی حسین نہیں ہو گا۔‘‘
’’بہت ، بہت برے ہیں آپ ۔‘‘ اس کی فولادی گرفت سے جب نکلنے میں ناکام رہی تو ہارے ہوئے لہجے میں بے اختیار کہہ کر اس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔ جواباً واصق کا بے اختیار برجستہ قہقہہ ونیزے کے ساتھ ساتھ پوری فضا کو بھی گلنار کر گیا تھا۔
’’جیسا بھی ہوں یار! اب خوش قسمتی سے تمہارا ہی ہوں۔‘‘ بلور کی طرح نازک ، نگینے کی طرح خوبصورت اور چاندنی کی طرح چمکتے دمکتے ونیزے کے معطر وجود کو اپنے آپ میں سمیٹتے اس نے خوش کلامی کی تھی۔
’’نئی زندگی اور نئی زندگی کی خوبصورت شروعات مبارک ہوں میری جان ! ‘‘ پیار بھری سرگوشی بھی ہوئی تھی۔ اس کے دل کی طرح ونیزے کا دل بھی خوش آئند تصورات بھی کھویا تھا ۔ وہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائی کہ جس نے سب حالات سنوار دیئے تھے۔ یوں کہ اب صرف!
محبت ہی محبت تھی!
ختم شد